سیاسی

باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کے لیے جہانگیر ترین کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں ۔ جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کے سابق اراکین اسمبلی سے رابطہ کیا ہے اور رابطے میں مستقبل کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔ جہانگیرترین گروپ کی جانب سے تحریک انصاف کے 20 منحرف اراکین سے بھی رابطہ کیا گیا۔اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو تمام منحرف اراکین سے جلد ملاقات کا ٹاسک بھی دے دیا ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے 100 سے زیادہ سابق ایم پی ایز بھی جہانگیر ترین سے رابطہ اور ملاقاتیں کر چکے ہیں ذرائع کے مطابق نئی سیاسی جماعت کے لیے مسلم لیگ جناح اور تحریک انصاف نظریاتی کے ناموں پر غور جاری ہے اور جہانگیر ترین آئندہ ہفتے شو آف پاور بھی کریں گے۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کی سفارش پر تحریک انصاف میں جانے والے اور ٹکٹ ہولڈز واپس ترین گروپ میں شامل ہوگئے ہیں۔
تحریک انصاف چھوڑنے والوں سے متعلق ن لیگ میں مشاورت ۔۔ن لیگ سے اپنی پالیسی وضع کردی۔۔ اے آروائی کے صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق تحریک انصاف چھوڑنے والوں سے متعلق ن لیگ نے اپنی پالیس واضح کردی۔صرف چند ارکان کونون میں شامل کیاجائےگا۔ سینئر ن لیگی رہنما کے مطابق پنجاب کے90فیصد حلقوں میں ہم اپنے پرانےلوگوں کو ٹکٹ دیں گے،جہاں ضروری سمجھاوہیں پر شامل کریں گے۔ایسے رہنماؤں کو شامل کیا جائے گا جن کا اپنا ذاتی ووٹ بنک ہو اور وہ 2018 میں بھی جیتے ہوں۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین گروپ کوبھی کہاگیاسب کو ٹکٹ نہیں دےسکتے۔ن لیگ ترین گروپ کو لفٹ نہیں کرارہی جسکے بعد جہانگیرترین نےنئی پارٹی بنانےیا کہیں شمولیت پرمشاورت شروع کی۔
تحریک انصاف سے مختلف رہنماؤں کی دھڑا دھڑ علیحدگی کے بعد جہانگیرترین متحرک ہوگئے ہیں اور نئی جماعت بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جہانگیرترین متحرک نہیں ہوئے بلکہ انہیں کیا گیا ہے ، انکی سربراہی میں ایک جماعت بنائ جائے گی جس میں مختلف رہنماؤں کو شامل کیا جائے گا۔ ایسا ہی ایک تجربہ 2016 میں بھی ہوچکا ہے جب پاک سرزمین پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی گئی جس کے سربراہ مصطفیٰ کمال بنے، مصطفیٰ کمال ان دنوں دوبئی میں ملازمت کررہے تھے، انہیں پاکستان بلوایا گیا اور یہ جماعت بنائی گئی۔ اس جماعت میں کراچی سے دھڑا دھڑ شمولیتیں ہوئیں، سابق ارکان اسمبلی انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر، آصف حسنین،رضا ہارون ،وسیم آفتاب جیسے کئی رہنما اسکا حصہ بنے۔ اس جماعت نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا لیکن مصطفیٰ کمال سمیت تمام لیڈران ضمانتیں ضبط کروابیٹھے۔خیال تھا کہ پاک سرزمین ایم کیوایم کاووٹ بنک اور سیٹیں لے جائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور کراچی کے ہر حلقے سے ضمانتیں ضبط کروابیٹھی۔ اسکے بعد بھی پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے کئی ضمنی الیکشن لڑے لیکن ہر بار ضمانتیں ضبط کرواتے رہے اور اس طرح مصطفیٰ کمال کی جماعت بے وقعت ہوکر رہ گئی۔ ایک بار پھر ایم کیوایم اور مصطفیٰ کمال والی کہانی تحریک انصاف کیساتھ دہرائی جارہی ہے۔اگرچہ جہانگیر ترین کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ اس کی جماعت میں ایسے لوگ شامل ہوں گے جن کا اپنے حلقوں میں ووٹ بنک ہے، مضبوط دھڑے بندیاں اور برادریاں ہیں اسکے باوجود جہانگیرترین ذاتی ووٹ بنک نہیں رکھتے۔ اگر جہانگیرترین پارٹی بنالیتے ہیں تو اس میں اسحاق خاکوانی، راجہ ریاض، نورعالم خان ، عون چوہدری اہم لیڈران ہونگے، باقی جنوبی پنجاب سے کچھ الیکٹیبلز لیکن کیا اس سے جہانگیرترین تحریک انصاف کو کاؤنٹر کرپائیں گے؟ دوسری جانب عمران خان ہیں جن کی جماعت سے بندے توڑے جارہے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ وہ پنجاب کے ہر قومی اسمبلی میں کم از کم 50 ہزار پارٹی کا ووٹ رکھتے ہیں جو عمران خان کی مرہون منت ہے حالانکہ تحریک انصاف کی تنظیم اتنی اچھی نہیں ہے۔ اگر ترین گروپ کا ایم این اے یا ایم پی اے کھڑا ہوگا تو اسے اپنا ہی ذاتی ووٹ ملے گا جبکہ تحریک انصاف کا کارکن جس کا ذاتی ووٹ بنک زیرو ہے وہ بھی پارٹی کی بدولت اتنا ہی ووٹ لینے کا اہل ہے۔جہانگیرترین کے الیکٹیبلز صرف اسی صورت میں جیت سکتے ہیں اگر وہ ن لیگ، پیپلزپارٹی سے اتحادکرلیں ۔ جس طرح تحریک انصاف کے لوگوں سے پارٹی چھڑوائی جارہی ہے تحریک انصاف کو اسکا شہری حلقوں میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن دیہی حلقوں میں دھڑے بندیوں، برادریوں کی وجہ سے فرق پڑسکتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی نئی صف بندیاں ہوں ۔ اس صورت میں امیدوار اسی جماعت کی طرف دیکھیں گے جس کا ووٹ بنک ہے۔ممکن ہے کہ اگر تحریک انصاف کا امیدوار کسی دوسری جماعت میں جائے تو دوسری جماعت چھوڑنے والا تحریک انصاف کی طرف آئے۔ یہ بات تو کنفرم ہے کہ 9 مئی کے واقعے کو بنیاد بناکر کوئی جماعت الیکشن نہیں لڑسکتی، اس وقت عوام یہ بھی دیکھے گی کہ جو جماعتیں برسراقتدار تھیں انہوں نے انکی زندگیوں میں کتنی تبدیلیاں کیں، کتنی مہنگائی کی، کیا ریلیف دیا، کیا معیشت ، زراعت کو سنبھالا دیا۔9 مئی کا بیانیہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو مہینے چل سکتا ہے لیکن یہ الیکشن میں فائدہ نہیں دے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ جہانگیرترین مصطفیٰ کمال بنے گا یا عمران خان، نوازشریف،آصف زرداری کے پائے کا لیڈر؟ اس کا فیصلہ چند ہی ماہ میں ہوجائے گا
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی خود ٹوٹ رہی ہے یا توڑی جا رہی ہے اس کا فی الحال جواب نہیں دوں گا۔پابندیوں سے پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں۔ نجی چینل اے آروائی کو انٹرویو دیتے ہوئے قمرزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ جماعتوں کا ٹوٹنا قابل تحسین نہیں،جمہوریت کےلیےاستحکام کاباعث نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی سےسیکھنا چاہیےتھا،عمران خان نئےتھے،انکےساتھی توپرانےتھے،جماعتیں خود بھی ٹوٹتی اورتوڑی بھی جاتی ہیں،تحریک انصاف خود ٹوٹ رہی یاتوڑی جارہی ہےاس کاجواب نہیں دوں گا، انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی پرموقف وہی ہے اسطرح پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں اور نہ ہی مسائل کا حل۔کیا اے این پی، ایم کیوایم ختم ہوگئیں؟ہم سےپابندی ڈسکس نہیں ہوئی.نون کے اپنے اندر کوئی بات ہوئی ہوگی۔ جولائی میں اسمبلیوں کی تحلیل طے ہوگئی تھی۔ہم تو تحریری معاہدے میں جولائی میں اسمبلیاں توڑنے کے لیے تیار تھے، نظر آ رہا تھا 15 جولائی سے آگے یا پیچھے کی تاریخ کا اعلان ہوگا، الیکشن کو اکتوبر سے آگے لے کر جانے کی کوئی بات نہیں لیکن عمران خان نے کہا 14 مئی سے پہلے اسمبلی نہ توڑی تو مذاکرات ختم۔ کائرہ نے دعویٰ کیا کہ میراتجزیہ ہے کہ بلاول اگلے وزیراعظم ہوں گے۔سادہ اکثریت نہ بھی ملی تو اتحادیوں کساتھ ملکر بلاول کو وزیراعظم بنائیں گے۔
جنگ کے صحافی انصار عباسی کے مطابق جناح ہاؤس لاہور میں دیوار ندامت تخلیق کرنے پر غور کررہے ہیں جس میں ان لوگوں کے فوٹوز لگائے جائیں گے جنہوں نے 9 مئی کو لاہور میں کورکمانڈر کی رہائشگاہ میں توڑ پھوڑ کی اور اس کی منصوبہ بندی کی۔ اںًصار عباسی کے باوثوق ذارائع کےمطابق کورکمانڈر لاہور کی جلی ہوئی رہائش گاہ میں ایک دیوارایسی ہوگی جسکی مرمت نہیں کی جائیگی اور اسکا ایک خاص مقصد ہوگا اور اس پر 9 مئی کے حملہ آوروں اور منصوبہ سازوں کی تصویریں لگائی جائینگی۔ مستقبل میں استعمال کے لئے جناح ہائوس کے دیگر حصوں کی تعمیر و مرمت کا امکان ہے۔ یہ دیوار ندامت اس تاریخی عمارت کا ایک مستقل حصہ ہوگا تاکہ ان حملہ آوروں اور آتشزنی میں حصہ لینے والوں کیلئے ایک مستقل ندامت کا سامان ہوسکے۔ واضح نہیں ہے کہ یہ ’دیوار ندامت‘ عام شہریوں کی رسائی میں ہوگی یا نہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ملک کے مختلف حصوں میں پرتشدد کارروائیاں کیں اور بہت سی سرکاری اور نجی املاک پر حملے کیے۔ انکے زیادہ تراہداف دفاعی عمارتیں، تنصیبات، علامتیں یا یادگاریں تھیں اور ان میں جی ایچ کیو راولپنڈی اور کورکمانڈر کا گھر بھی شامل تھا۔ ان حملوں کا پیٹرن اور آڈیوز اور ویڈیولیکس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ پہلے سے منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ بعد میں پاکستانی فوج ، وفاقی و صوبائی حکومتوں ، پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں ایک غیر مبہم دعوے کے ساتھ آئیں کہ حملوں کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی اور اہداف پاکستانی فوج اور دفاعی و سیکورٹی تنصیبات تھیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے الزامات کی تردید کردی۔ الزام لگایا عائد کیا ایجنسیوں کے بندے پی ٹی آئی کے احتجاج میں گھس آئے اور انہوں نے پرتشدد حملے کیے تاکہ پی ٹی آئی پر پابندی کی وجہ تخلیق کی جاسکے۔ تاہم حکام جو ان حملوں کی تحقیقات کررہے ہیں ان کا اصرار ہے کہ انہیں گرفتار شدگان سے موزوں شواہد اور بیانات مل گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حملے پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے اور فوجی عمارتوں اور علامتوں پر حملے کرنےکا ایک واضح پلان موجود تھا۔ ذرائع اس حوالے سے فیصل وواڈا کے بیان کی تائید کرتے ہیں کہ قانون نافذ کرنےوالی ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد ہیں جن میں آوازوں کے نوٹس، گفتگو اور ڈیجیٹل کمیونی کیشن کاریکارڈ موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے پی ٹی آئی کی قیادت نے فوجی تنصیبات بالخصوص جی ایچ کیو اور فوجی تنصیبات اور دیگرسرکاری عمارتوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی اور رابطہ کاری کی ۔ جی ایچ کیو کے علاوہ دیگر حساس فوجی تنصیبات جن پر حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی ان میں آئی ایس آئی کا ہیڈکوآرٹر شامل تھا۔ فیصل وواڈا چند دن قبل اس اخبار کو بتاچکا تھا کہ ایسی ہدایات پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت کی جانب سے کارکنوں کو آرہی تھیں جن میں ایک منصوبہ بند حکمت عملی اور منظم طریقے سے انہیں اکسایا جارہا تھا۔ پنجاب حکومت کے نگران وزیراطلاعات عامر میر نے بھی پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو بتایا گوجرانوالہ اور ملتان میں بھی کورکمانڈرز کے گھروں پر بھی حملوں کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ ابتدائی دنوں کی خاموشی کے بعد اب پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے 9 مئی کے حملوں کی مذمت کرنا شروع کردی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ان اقدامات اور اپنی اعلیٰ قیادت سے دور کررہے ہیں حتیٰ کہ خود پی ٹی آئی سے بھی فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدیا گیا جو مبینہ آڈیو لیکس کی صداقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقات کرے گا۔ بلوچستان کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بھی کمیشن میں شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک ہوئی جبکہ ان کی ایک وکیل کے ساتھ لیک ہونیوالی مبینہ آڈیو کے علاوہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی رہنما مسرت چیمہ کے ساتھ جو میبنہ آڈیو لیک ہوئی سمیت دیگر آڈیوز کی تحقیقات کی جائیں گی۔ آڈیولیکس کیلئے بنائے گئے حکومتی کمیشن پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے صحافی فہیم اختر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی منظوری کی بغیر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کو عدلیہ سے متعلق آڈیو لیکس انکوائری کمیشن میں ڈال دیا انہوں نے مزید کہا کہ روایت کے مطابق سپریم کورٹ سے جج لینے کی صورت میں چیف جسٹس سے اجازت لی جاتی ہے،حکومت کا فاول تینوں اپنے ججز پھر ایکسپوز کردئیے دلچسپ امر یہ ہے کہ آڈیو لیکس کی انکوائری میں چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔۔ ن لیگ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی کی مخالفت میں رہی ہے اور کہتی رہی ہے کہ چیف جسٹس کے داماد تحریک انصاف کے رہنما ہیں جس کی وجہ سے وہ جانبدار ہیں۔اسی طرح چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ مسرت ہلالی کی تعیناتی پر حکومت ناخوش ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ حکومت کے قریبی سمجھے جاتے ہیں جبکہ جسٹس عامرفاروق کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے ہے۔ اس تناظر میں تین بڑے صوبوں، سندھ، پنجاب اور خبرپختونخوا کے چیف جسٹسز کو شامل نہ کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ماضی میں روایت یہ رہی ہے کہ جب بھی حکومت نے کسی ایشو پر انکوائری کرنا ہوتی ہے تو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹس سے کمیشن کی سربراہی کیلئے جج کا مطالبہ کرتی ہے اور چیف جسٹس اپنی مرضی کے جج کو تعینات کرتا ہے۔ یہ صورتحال ماضی میں دھاندلی کے خلاف کمیشن میں دیکھی گئی تھی جہاں اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک نے خود جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کی تھی۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت کردی۔ تفصیلات کے مطابق ن لیگ میں تحریک انصاف پر پابندی اور دیگر معاملات میں رائے تقسیم ہوگئی ۔نوازشریف تحریک انصاف پر پابندی کے حق میں نہیں۔ اے آروائی کے صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق نوازشریف سمیت ن لیگ اکثریت تحریک انصاف پرپابندی کےحق میں نہیں۔ سئنیر رہنماؤں سے گفتگو میں نوازشریف نے تحریک انصاف پر پابندی کی باتیں کرنے سے گریز کرنے کا کہا۔ نعیم اشرف بٹ کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں اور سیاسی شخصیات میں فرق کیا جائے۔ نوازشیرف کا کہنا تھا کہ ملوث دہشت گردوں کا ضرور آرمی ایکٹ کےتحت ٹرائل ہوناچاہیے اور دیگر سیاسی شخصیات کا معاملہ سول کورٹ میں آنا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کےچند رہنما پی ٹی آئی پرپابندی اورسختی کے حق میں بھی ہیں،
پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر علی زیدی نے پارٹی سے علیحدگی کی خبروں کی تردید کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں علی زیدی نے کہا کہ جیسا کے میرے تمام دوست جانتے ہیں کہ میں جیل سے تو رہا ہوگیا ہوں مگر ایم پی اوکے کالے قانون کے تحت مجھے 30 روز کیلئے اپنے گھر میں نظر بند کردیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے میری والدہ کے گھر کو سب جیل قرار دیدیا گیا ہے، دوسری جانب میری پی ٹی آئی چھوڑنے کی خبریں بھی پھیلائی جارہی ہیں جو کہ بہت افسوسناک ہے، میرے خلاف غلط معلومات پھیلانے کیلئے ایک منظم پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے، پچھلے ایک ماہ میں میرا زیادہ تر وقت جیل میں گزرا ہے،میں تمام تر مشکلات کے باوجود عمران خان کے ساتھ وفادار رہوں گا۔ رہنما پی ٹی آئی علی زیدی نے پارٹی چھوڑنے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی مولوی محمود کا نام لیے بغیر کہا کہ افسوس ہے کچھ دوست جال میں پھنس کر جھوٹ کی سازشی تھیوریوں کا حصہ بن جاتے ہیں، میں کبھی ایسا نہیں چاہوں گا کہ اسیری کے دنوں پر جو کچھ ہم پر گزرا وہ کسی او ر پر گزرے۔ علی زیدی نے نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو زہریلے سانپوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ان کے خلاف جنگ جاری رکھے گی، اس وقت ملک میں آئین وقانون کے بجائے کرمنلز کی حکومت ہے، ہمیں ساری توجہ پاکستان کو کرپٹ ، جرائم پیشہ افراد سے بچانے پر لگانی چاہیے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے ایم این اے آفتاب صدیقی نے بھی تحریک انصاف چھوڑنے کی خبروں کی تردید کردی ہے۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی مولوی محمود نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی اور قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا اعلان کیا اور موقف اپنایا کہ اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے حق میں نہیں ہوں،فوجی املاک کو نقصان پہنچانے پر احتجاجا پارٹی رکنیت سے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
آج ترکیہ میں عام انتخابات ہورہے ہیں، بدترین زلزلے جس میں ہزاروں افراد کی اموات ہوئیں، ہزاروں عمارتیں اور املاک تباہ ہوگئیں، اسکے باوجود ترک صدر نے انتخابات کو ملتوی نہیں کیا اور جمہوری عمل کوجاری رہنے کا حکم دیا۔ ترکیہ کے علاوہ آج تھائی لینڈ میں بھی عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ تھائی لینڈ میں ایوان نمائندگان کی 500 نشستوں پر اپنے امیدواروں کے انتخابات کے لیے 5 کروڑ 20 لاکھ ووٹرز عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے کچھ روز قبل بھارتی ریاست کرناٹکا میں بھی عام انتخابات ہوئے جس میں کانگریس سادہ اکثریت سے جیت گئی، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے الیکشن ملتوی کرنے کیلئے یہ نہیں کہا کہ قومی اسمبلی اور ریاستی الیکشن اکٹھے ہونے چاہئیں۔ نریندر مودی کی وزارت اعظمیٰ کے دوران گزشتہ دو سالوں سے کئی ریاستوں میں انتخابات ہوچکے ہیں لیکن مودی نے ان الیکشن کو یہ کہہ کر نہیں روکا کہ قومی اسمبلی اور ریاستوں کے انتخابات اکٹھے ہونے چاہئیں ورنہ ملک ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ آج سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب اسمبلی میں الیکشن نہ ہوچکے، حکومت نے جواز یہ تراشا کہ الیکشن کیلئے فنڈز نہیں ہیں اور فوج ڈیوٹی کیلئے دستیاب نہیں ہے، مگر عمران خان کو گرفتار کرنے کے بعد حکومت کو پنجاب میں فوج بلانا پڑی اور حکومت کا یہ بہانہ بھی ختم ہوگیا۔ شہباز حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے الیکشن بار بار ملتوی کررہی ہے اور جواز یہ دے رہی ہے کہ اگر پنجاب میں الیکشن ہوئے اور جو بھی حکومت بناگیا وہی اگلی بار وفاقی حکومت بھی بنائے گا۔ پی ڈی ایم جماعتیں یہ جواز بھی دے رہی ہیں کہ اگر پنجاب میں الیکشن ہوا تو چھوٹے صوبوں کی حق تلفی ہوگی اور ملک ٹوٹ جائے گا۔ سپریم کورٹ کے حکم کو نہ ماننے پر حکومت پر توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی ہے جس پر پی ڈی ایم نے کل سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو چیلنج کردیا، شوکت عزیز صدیقی نے کہا ان کے پاس سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف ثبوت تھے لہٰذا عمران خان بھی ثبوت لائیں، جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ عمران خان بغیر ثبوت کے الزامات لگا رہے ہیں،عمران خان محض فوج کے اعلیٰ افسر کو بدنام نہیں کر رہے بلکہ وہ پورے ادارے کو بدنام کررہے ہیں۔ سابق جج کا کہنا تھا کہ سرخ دائرہ لگانے کی بات عمران خان نے خود کی تھی، جتنا بھی سنگین الزام ہو ثبوت نہ ہو تو عدالت میں بے معنی ہے،وہ محض فوج کے اعلیٰ افسروں کو نہیں بلکہ پورے ادارے کو بدنام کررہے ہیں ، اب تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا یہ جو کیس ہے اب کیس نہیں میرا امتحان ہے جو شاید اللہ کی طرف سے ہے اور میں صبر سے اللہ کی طرف سے ہی انصاف کا منتظر ہوں۔ پروگرام میں شریک وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے کہا ہے کہ عمران خان بڑے سنگین الزامات لگا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،بہت سنجیدہ اور اہم ایشو پر یہ بات کی ہے جو ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان ہے اس سے پہلے آجانا چاہئے تھا تاخیر سے آئی ہے عمران خان نے جو الزامات لگائے ہیں جس میں وہ بار بار حاضر سروس لوگوں کے نام لے کر بے بنیاد من گھڑت جو تحقیقات میں بھی ہم نے دیکھا جب پرویز الٰہی کی گورنمنٹ تھی تو ثبوتوں کو بھی فبریکیٹ کرنے کی کوشش کی لیکن جس طریقے سے عمرا ن یہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا میں ادارہ اپنے طو رپر گورنمنٹ اپنے طور پر اور وہ پرسنل جن کے خلاف یہ بات کر رہے ہیں اور بڑے سنگین الزامات لگا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ اسی طرح کی باتیں ہیں ۔ وہ ایک موقف لیتے ہیں تبدیل کرتے ہیں دوسرا لیتے ہیں تبدیل کرتے ہیں چلیں وہ ان کی سیاسی سوچ کے ساتھ تعلق ہے لیکن یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ کسی شخص پر تین سو دو جیسا سنگین الزام لگائیں کیسی غلط بات ہے عمران نے یہ الزام وزیراعظم وزیر داخلہ انٹیلی ایجنسی کے ذمہ دار ترین ڈی جی کے متعلق بھی لگا رہے ہیں کہ ان کو 302 کے الزام میں کھڑا کر رہے ہیں۔ ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جہاں خدشہ ہوتا ہے وہاں اس طرح کا ثبوت تو شاید دینا ممکن نہیں ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا خدشوں کا اظہار آپ کو مجھے کرنا چاہیے ہم کرتے ہیں اگر ہمیں کوئی خدشہ لاحق ہوجائے کہ مجھے اس شخص سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے وہ شخص کہے گا میں نے کوئی وار نہیں کیا لیکن وار ہونے سے پہلے خدشہ ہی ہوتا ہے یہ مشکل صورتحال ہے اس میں ہتک عزت کا عنصر آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا لیکن جہاں اتنا بڑا ایک ادارہ ہو اور ادارے کے ذمہ داران افسران ہوں ان کو آگے بڑے کر اشورنس دینی چاہیے کہ آپ کو ہماری جانب سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں ہے روز ہم دیکھتے ہیں وی لوگ کرتے ہیں جو کہتے ہیں عمران خان پر سرخ لکیر لگا دی گئی ابھی آپ جائیں سوشل میڈیا کھولیں بے شمار vlog مل جائیں گے اور اسٹبلشمنٹ کا بڑا فیصلہ یہ تھم میل مل جائیں گے ان کو بھی کوئی پوچھے کہ یہ کیوں اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے چہ میگوئیاں کر رہے ہو بلکہ اعلان کر رہے ہو یہ فیصلہ ہوگیا عمران خان پر سرخ لکیر نکل گئی یہ چیزیں قابل تشویش ہیں ۔
انصار عباسی کے باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مبینہ طور پر عمران خان حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنسز کے خیال کے پیچھے ان کے تین پیٹی بند بھائی ججز تھے۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق جو اس وقت ایک اہم کھلاڑی تھے، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا سپریم کورٹ کے تین ججز، جو اب ریٹائر ہوچکے ہیں، انہوں نے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اقدام کرنے کے لیے ثالثوں کو آمادہ کیا اور ان کے ذریعے منصوبہ بندی کی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت کے وزیراعظم عمران خان ابتدا میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے گریزاں تھے لیکن بعد میں وہ بھی اپنے کچھ اعلیٰ قانونی ذہنوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک قابل اعتماد آدمی کے قائل کرنے پر راضی ہو گئے۔ انصار عباسی کی رپورٹ میں بتایا کہ ذارئع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ الزام ہے کہ تینوں ججوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت کے کچھ قانونی ذہنوں کے ذریعے جسٹس عیسیٰ کے خلاف سازش کی، الزام ہے کہ انہوں نے وہ معلومات بھی شیئر کیں جن کی بنیاد پر ریفرنس تیار کیا جانا تھا۔ اس اقدام کی حمایت کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو بتایا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہٹانا ’’قومی مفاد‘‘ میں ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے 23 مئی 2019 کو جسٹس عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف ان کے خاندان کے غیر ملکی اثاثوں کو ان کے دولت کے گوشوارے میں ظاہر نہ کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی)، وہ فورم جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کر سکتا ہے، سے رجوع کیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے اس اقدام کو سیاسی، قانونی اور میڈیا حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جون 2020 میں سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کے ساتھ ساتھ اس ریفرنس کی بنیاد پر شروع ہونے والی ایس جے سی کی کارروائی کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ 10 ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے ریفرنس، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ نے اپنی دولت کے گوشوارے میں برطانیہ میں اپنے خاندان کے افراد کی جائیدادیں ظاہر نہ کر کے نامعقول حرکت کیا، کے خلاف دائر کئی درخواستوں کی 6 ماہ تک سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ اس وقت کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس دائر کیا۔ تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اپریل 2022 میں اس بات کا اعتراف کرلیا کہ جسٹس عیسیٰ کی برطرفی کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کرنا غلطی تھی۔ اسے ’’غلطی‘‘ قرار دیتے ہوئے عمران خان نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کا الزام پی ٹی آئی حکومت میں وزارت قانون پر عائد کیا تھا۔ تاہم فروغ نسیم نے اپنے ردعمل میں یہ کہتے ہوئے الزام کو مسترد کردیا کہ ریفرنس صرف سابق وزیراعظم خان کے اصرار پر پیش کیا گیا۔ فواد چوہدری نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ انہوں نے ریفرنس دائر کرنے پر اعتراض کیا تھا، بیرسٹر نسیم کو یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ یہ ان کا کام تھا۔ حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے کو مزید آگے نہ بڑھانے کے حکومتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس واپس لینے کا حکم دیا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ روز القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا، اسلام آباد نے گرفتاری کو قانونی قرار دیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سینیئر قانون دان سردار لطیف کھوسہ نے کہا سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا عمران خان کے خلاف کیسز میں کوئی وزن نہیں، یہ کچھ بھی نہیں،عسکری قیادت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو حکمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے،توہین عدالت اس لیے کیا گیا کیونکہ عمران خان بائیو میٹرک کیلئے گئے تھے، کورٹ کے دروازوں کو توڑا گیا اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ لطیف کھوسہ نے مزید کہا قومی احتساب بیورو نے سپریم کورٹ میں معافی مانگی تھی کہ عدالتی احاطے سے گرفتاری نہیں کریں گے،نیب کا سپریم کورٹ میں تحریری معافی نامہ موجود ہے،ٹرسٹ فلاحی کاموں کیلئے ہی ہوتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے ملک میں عوامی رد عمل آیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج جاری ہے، عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی پیش نظر لاہور، اسلام آباد ، راولپنڈی، کوئٹہ سمیت دیگر بڑے شہروں میں دفعہ 144 نافذ ہے، وزارت داخلہ کی جانب سے اجتماعات اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد دفعہ 144کی خلاف ورزی پر قانونی کاروائی ہوگی۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے ایک بار مخالفین پر کڑی تنقید کردی، انہوں نے کہا کچھ عناصر پارٹی قیادت اور ساتھ ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو غلط معلومات فراہم کر رہے ہیں، تاکہ دونوں کے درمیان خلیج پیدا کی جا سکے، ایک طرف عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کچھ لوگ انہیں مارنے کی سازش کر رہے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے اہم کھلاڑیوں کو یہ غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں کہ جیسے ہی عمران خان اقتدار میں آئے تو انہیں عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان نے مزید کہا دونوں کے درمیان رابطوں کے فقدان کی وجہ سے کچھ عناصر دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کیلئے ڈٹ گئے ہیں۔ چند روز قبل دی نیوز کو ایک اہم حکومتی ذریعے نے بتایا تھا پی ٹی آئی میں کچھ لوگ یہ غیر محتاط گفتگو کر رہے ہیں کہ جیسے ہی پارٹی اقتدار میں آئی تو کچھ عہدیداروں کو فارغ کر دیا جائے گا۔ نمائندے سے فواد چوہدری سے بات چیت کرتے یہ سوال کیا آیا پارٹی میں کسی بھی اعلیٰ سطح پر ایسی کوئی گفتگو ہو رہی ہے،جس پر فواد چوہدری نے بتایا یہ سوال ان سے پہلے بھی کچھ دیگر لوگوں کی طرف سے پوچھا جا چکا ہے، لیکن یہ بات بے بنیاد اور بالکل غلط ہے۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک مرتبہ عمران خان سے اس معاملے پر بات کی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ کوئی بے وقوف ہی ایسا سوچ سکتا ہے فواد چوہدری نے واضح کیا عمران خان اور سینئر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں۔ اس وجہ سے کچھ عناصر نے عمران خان کے کان میں یہ باتیں ڈالنا شروع کر دی ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر انہیں جان سے مارنے کی سازش کر رہے ہیں،دوسری طرف سینئر ملٹری قیادت کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو عمران خان انہیں چھوڑے گا نہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے بھی کہا تھا عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں چاہتے،دی نیوز سے گفگو میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ عمران خان کا ایجنڈا ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے اور اس کیلئے وہ کسی کیخلاف، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہی کیوں نہ ہوں، ذاتی رنجش دل میں نہیں پالتے۔ اسد قیصر نے کہا تھا عمران خان نے ایک بیان میں اُن لوگوں کو معاف کر دیا تھا جنہوں نے انہیں وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ اسد قیصر نے سختی کے ساتھ اس تاثر کی بھی نفی کی کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد کسی کیخلاف ذاتی طور پر کارروائی کریں گے۔
جنگ اور دی نیوز کے صحافی صالح ظافر کا کہنا ہے کہ نوازلیگ 28 مئی کو یوم تکبیر پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریگی، قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر انتخابات ایک ہی دن ہوں گے اور ان میں کوئی التوا نہیں ہوگا۔ کسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہیں کیاجائےگا۔ صالح ظافر کے مطابق شہبازشریف ساتھیوں کو نوازشریف سے ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر اعتماد میں لیں گے۔ اس دن نوازشریف ایک تاریخی پیغام دیں گے جو ملک بھر میں دکھایا اور سنایا جائےگا، یہ فیصلے وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ لندن کے دوران ان کی نوازشریف سے ملاقات کے دوران ہوئے۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ کی بالادستی برقراررکھنے کے حوالے سے حکمران اتحاد کے کردار کو سراہا۔انہوں نے نگران حکومتوں کے تحت ملک بھر میں انتخابات ایک ہی دن کرانے کےلیے کہا، نوازشریف نے کسی بھی صوبے میں عام انتخابات سے قبل انتخابات نہ کرانے کے موقف کو سراہا۔ انہون نے صوبوں اور مرکز کے الگ الگ انتخابات کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا جو کہ شفار اور آزادانہ انتخابات یقینی بنانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اعلیٰ سیاسی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں نے ملک کی اقتاصادی اور سیاسی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کی۔اس موقع پر بالخصوص مہنگائی اور عدالتی معاملات زیر گور آئے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ شہبازشریف مریم نوازسمیت اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے کل ملاقات کریں گے اور انہیں ان فیصلوں کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ نوازشریف نے شہبازشریف سے کہا ہے انہیں انتخابات کی تیاری کے فوری آغاز سےے متعلق فیصلوں کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں سے بھی آگاہ رکھاجائے۔ انہوں نے یہ بھی کیا کہ عوام کو پٹرولیم مصنوعات پر فوری ریلیف فراہم کیاجائے۔ ذرائع کے مطابق شہبازشریف نے اپنی پارٹی کے قائد کو پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کیا کہ وزرا اپنے ورکرزاور عوام سے اپنے رابطے بڑھائیں۔ دونوں کی ملاقات مین نوازشریف کی واپسی کا منصوبہ بھی زیر گور آیا۔ شہبازشریف اتوار کو لندن سے روانہ ہوں گے۔
الیکشن اکتوبر میں بھی نہیں ہوں گے، حکومتی وزیر نے واضح کردیا، کہا کہ پی پی کے طور پر میری ذاتی رائے ہے کہ الیکشن آگے ہوجائیں اور حکومت میں مزید توسیع ہو وفاقی وزیر اور پی پی سینئر رہنما احسان مزاری کا کہنا ہے کہ الیکشن اکتوبربھی نہیں ہونے۔مجھے نہیں لگتا کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، پی پی کے ورکر کے طور پر میری رائے میں انتخابات آگے جائیں گے۔ اس پر نعیم اشرف بٹ نے سوال کیا کہ جو آئین میں ہے اس کے مطابق ہی توسیع ہوگی، غیر آئینی کچھ نہیں ہوگا۔ احسان الرحمان مزاری نے کہا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں نجم سیٹھی پیپلز پارٹی کی مرضی سے نہیں لگائے گئے، جب کہ بورڈ میں ہمارہ بندہ ہونا چاہیے تھا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ طے ہوا تھا کہ جو وزارت جس جماعت کی ہوگی اس کی تعیناتیاں بھی اسی کا حق ہوگا، کھیلوں کی وزارت ہمارے پاس ہے تو پی سی بی میں ہمارا بندہ ہی ہونا چاہیے تھا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ میں پیپلز پارٹی کی مرضی سے نہیں لگائے گئے، شکایات آئی ہیں کہ 2 ریجنز میں بوگس کلبز بنا کر ووٹنگ رائٹس دے دیے گئے ہیں۔
معیشت بہتر نہیں ہوئی تو عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کا فائدہ کیا ہوا؟ ہمیں لکھ کر دے دیں کہ بجٹ کے بعد انتخابات ہو جائیں گے تو ہم اطمینان سے بیٹھ جاتے ہیں: ایاز امیر سینئر صحافی وتجزیہ کار ایاز امیر نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام تھنک ٹینک میں اداروں کے مابین جاری کشمکش بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک ادارے کی بے توقیری کا رونا رویا جا رہا ہے لیکن پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے وہ کوئی نہیں دیکھ رہا۔ موجودہ حکومت نے ضد پکڑی ہوئی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں کہ پنجاب میں انتخابات نہیں کروانے کیونکہ تحریک انصاف کی متوقع جیت انہیں ہضم نہیں ہونی تھی۔ ایاز امیر نے کہا کہ کیا حکومت کی اس کامیابی کے بعد برآمدات بڑھیں، معیشت سنبھلی، وزیر خزانہ کی معیشت پر گرفت مضبوط ہوئی، ملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ! اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا فائدہ؟ انہیں ایک سال میں صرف یہی کامیابی ملی ہے کہ انتخابات رکوا دیئے، زمان پارک پر حملہ کر دیا۔ عوام کو بتائیں کہ گزشتہ سال اپریل میں حکومت گرانے کے بعد سے اب تک آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا تو کشکول بھی بے توقیر ہو چکا، کوئی کچھ دینے کو تیار نہیں ہے۔ موجودہ حکومت عمران خان پر احسان کر رہی ہے، وہ اب تک اقتدار میں ہوتے تو اس ساری تباہی کی ذمہ داری ان پر ہوتی۔ ہمیں لکھ کر دے دیں کہ بجٹ کے بعد انتخابات ہو جائیں گے تو ہم اطمینان سے بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہہ رہے کہ انتخابات آئینی طور پر ایک سال آگے بھی جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دو حکومتیں کام کر رہی ہیں ایک تو یہ نمائشی حکومت ہے دوسری اصلی حکومت ہے جو پیچھے بیٹھ کر کام کر رہی ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ آپ نے حاصل کیا کیا ہے؟ تاج برطانیہ کی تاجپوشی ایک طرف ، ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر روز سونے کی قیمت بڑھ رہی ہے، مہنگائی کے ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے جا رہے ہیں اور ملک کے وزیر خزانہ پتہ نہیں کہاں غائب ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ جنرل قمر جاوید نے ہمیں الیکشن کروانے کا کہہ کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ پر ایک بار پھر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع سے قبل والاباجوہ اور تھا اور توسیع کے بعد والا باجوہ کوئی اور، مدت ملازمت میں توسیع کے بعد باجوہ کو ن لیگ سے عشق ہوگیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیل کے بعد ملک پر چوروں کو مسلط کردیا گیا، جب میں وزیراعظم تھا جو نیب پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا بلکہ نیب کو جنرل باجوہ کنٹرول کررہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے دونوں اسمبلیاں باجوہ کے کہنے پر توڑیں مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں، روس کا دورہ بھی آرمی چیف کے مشورے پر کیا، تاہم وہاں سے واپسی پر میرے خلاف عدم اعتماد لائی گئی، جنرل باجوہ نے میرے خلاف امریکیوں کو بڑھکایا۔ عمران خان نے کہا کہ اگر حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ماننا تو پھر کس نے ماننا ہے؟ ملک میں قانون کی حکمرانی نا ہو تو ملک چل نہیں سکتا، اگر ا س وقت ملک میں مارشل لاء لگایا گیا تو پھر ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دنیا میں کسی کے ساتھ نہیں ہوا، صرف مجھے اقتدا ر سے دور رکھنے کیلئے بڑی قیمت ادا کی جارہی ہے۔
پرویزالٰہی کے گھر پر چھاپہ کس نے مارا؟ کس کے حکم پر مارا گیا؟ معمہ بن گیا۔۔ وفاقی حکومت بھی لاعلم، نگران صوبائی حکومت بھی لاتعلق ، کیا پولیس اور محکمہ انٹی کرپشن نے اپنے طور پر کاروائی کی یا حکومت میں شامل عناصر نے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کو علم میں لئے بغیر کاروائی کردی؟ تفصیلات کے مطابق پرویزالٰہی کے گھر پر چھاپے کی گتھی سلجھ نہ سکی، وفاقی حکومت نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تو نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ اگر اس چھاپے کے پیچھے نہ شہبازشریف کی حکومت ہے، نہ وفاقی حکومت ہے تو پھر کون تھا جس نے پرویزالٰہی کے گھر پر دھاوابولنے کا حکم دیا؟ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی کے گھر چھاپے کا میڈیا سے علم ہوا، کسی کے گھر کا دروازہ توڑ کر داخل ہونے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔پرویز الٰہی کو گرفتارکرنا ہوتا تو آزاد نقل وحرکت کے دوران بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ پہلے عمران خان اور اب چوہدری پرویز الٰہی نہیں پکڑے گئے یہ انتظامیہ پر سوالیہ نشان ہے، کوئی بعید نہیں انتظامیہ میں ان کے حمایتی اس طرح کے ناٹک کررہے ہیں، یہ فرمائشی پروگرام ہے اس طرح ان کیلئے ہمدردیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ادارے اتنے غیرموثر ہیں کہ انہیں گرفتار نہ کرسکیں، یہ انتظامیہ میں پی ٹی آئی کے لوگوں کے ذریعہ ناٹک کررہے ہیں تاکہ ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں،پنجاب حکومت کو ایسے بھونڈے آپریشن پر تحقیقات کرنی چاہئے۔ نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی بھی چوہدری پرویز الہیٰ کے گھر پولیس ایکشن پر اظہار لاتعلقی کررہے ہیں۔ محسن نقوی نے ٹویٹ میں لکھا کسی کو غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا پولیس پرویز الہیٰ کوگرفتارکرنے گئی ، پولیس نے چوہدری شجاعت کے گھر دھاوا بولاپولیس ایکشن میں چوہدری سالک حسین زخمی ہو گئےایکشن پرقانون کواپنا راستہ اختیارکرناچاہئےمیں تمام تفصیلات حاصل کررہاہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ، وفاقی وزراء آپریشن سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں اور دوسری نگران وزیراعلیٰ پنجاب بھی آپریشن سے انکار ی ہیں توان سب کے پیچھے کون ہے؟ یہ آپریشن محکمہ انٹی کرپشن نے کنڈکٹ کیا تھا جو راناثناء اللہ کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں اور انہی کے ایماء پر انہیں اسلام آباد پولیس میں لایا گیا تھا اور بعدازاں نگران حکومت میں وہ محکمہ انٹی کرپشن کے سربراہ بنے۔ سہیل ظفر چٹھہ نے محکمہ انٹی کرپشن کے سربراہ بننے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں پر زمین تنگ کرنا شروع کردی۔۔ انہوں نے زرتاج گل، علی افضل ساہی، فرخ حبیب، شیخ وقاص اکرم، شوکت بھٹی ، عثمان بزدار، میاں محمودالرشید ،پرویزالٰہی سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں پر زمین تنگ کرنا شروع کردی اور انکے خلاف ایسے مقدمات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کرلانے لگے جن سے پی ٹی آئی رہنما بھی لاعلم تھے۔ یادرہے کہ سہیل ظفر چٹھہ جن پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کاروائی کررہے ہیں وہ اپنے حلقوں میں انتہائی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سہیل ظفر چٹھہ کی تمام کاروائی پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف ہے، انہوں نے کسی ن لیگی رہنما، منحرف ااراکین اور دیگر حکومتی اراکین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ گزشتہ روز ہارون رشید کے پروگرام میں حبیب اکرم کا انکشاف بھی بہت اہم ہے جس میں حبیب اکرم نے انکشاف کیا تھا کہ عطاء تارڑ پنجاب کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ ہیں،انہی کے کہنے پر پنجاب میں ٹرانسفر پوسٹنگ ہورہی ہیں۔ عمران خان کے گھر زمان پارک میں آپریشن بھی عطاء تارڑ کی فرمائش تھی۔حبیب اکرم کے مطابق زمان پارک آپریشن کے پیچھے بھی عطاء تارڑ کا ہاتھ تھا اور راناثناء اللہ آپریشن کے سخت مخالف تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عطاء تارڑ کیا اکیلے یہ کام کرسکتے ہیں؟ عطاء تارڑ مریم نواز کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، یہ دعویٰ بھی ہورہا ہے کہ پرویزالٰہی کے گھر آپریشن کے پیچھے نوازشریف اور مریم نواز ہیں ،ہارون رشید کے مطابق نوازشریف خود آپریشن کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔ ن لیگ میں نوازشریف اور مریم نواز گروپ نہیں چاہتا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں اور پرویزالٰہی کے گھر آپریشن کا مقصد ہی مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا لیکن تحریک انصاف نے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ کچھ لوگ اس آپریشن کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ بھی قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بات ثابت ہونے سے تو رہی۔ یآپریشن کس نے کیا یہ بات تبھی سامنے آسکتی ہے جب عدالت اس پر ایکشن لے، سہیل ظفر چٹھہ، محکمہ انٹی کرپشن حکام اور آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس حکام کو طلب کرے اور ان سے پوچھے کہ یہ آپریشن انہوں نے کس کے کہنے پر کیا ہے۔ اسی طرح آپریشن کے پیچھے اصل کردار سامنے آسکتے ہیں۔سہیل ظفر چٹھہ اپنے طور پر تواتنا بڑا قدم نہیں اٹھاسکتا لیکن سہیل ظفر چٹھہ کے ذریعے وہ کردار سامنے آسکتے ہیں جنہوں نے یہ آپریشن کروایا، ممکن ہے کہ وہی کردار زمان پارک آپریشن کے پیچھے بھی ہوں۔
سینئر صحافی واینکر پرسن کاشف عباسی نے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ایسا کوئی کام کرنا چاہتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت پوری نا کرسکیں، ایسی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ خبررساں ادارے جی این این کے پروگرام"خبر ہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ شائد حکومت ایسا کچھ کرنا چاہتی ہے یا جان بوجھ کر ایسی خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت پوری نا کرسکیں، توہین پارلیمنٹ اور استحقاق کمیٹی میں تین لوگوں کو طلب کرنے کی باتیں بھی ہوسکتا ہے صرف پیغام رسانی ہو اور حقیقت میں ایسا کچھ نا ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر آپ پیچھے نہیں ہٹے اگر یہ معاملات نہیں رکے تو ہم اس حد تک بھی جاسکتے ہیں، حکومت اس وقت عدالتوں پریشر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ کاشف عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو مذاکرات کے حوالے سے یقین دہانیاں کروائی گئیں تھیں، تاہم مذاکرات ہوئے نہیں، یقین دہانی کروانے والوں کا کہنا ہے کہ ہماری پارٹیاں پیچھے سے ہٹ گئیں، مذاکرات کرنے کی نا نیت ہے نا حکومت کرنا چاہتی ہے یہ بس ایک وقت گزارنے کی ایک کوشش تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دن تک ایک چیز واضح ہے کہ حکومت نے اپنی جگہ سے نہیں ہلنا، حکومت نے آج سپریم کورٹ یہ پیغام دیا کہ آپ پنچائت نہیں ہیں، ہم وہ کریں گے جو ہمیں پارلیمنٹ کہے گی، خبریں تو یہ بھی ہیں کہ توہین پارلیمنٹ پر تین شخصیات کو استحقاق کمیٹی میں طلب کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ایسی خبریں بھی اسلام آباد میں رات سے گردش کررہی ہیں کہ ججز کے خلاف حکومت کچھ کرسکتی ہے، میں اس پر مزید کچھ نہیں کہہ سکتا، ن لیگی حلقے ان خبروں کی تصدیق بھی کررہے ہیں
تجزیہ کار اور ماہر قانون سعد رسول نے کہا ہے کہ اس وقت صورتحال توہین عدالت سے آگے نکل چکی ہے، میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ براہ راست ایگزیکٹیو مشینری کے ذریعے الیکشن کرواسکتی ہے۔ دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سعد رسول نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطاۓ بندیال یہ سمجھ چکے ہیں کہ سیاسی معاملات کو جتنا طول دیا جائے گا اتنا ہی معاملات خراب ہوگا اور سپریم کورٹ بھی خراب ہوگی، سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت تمام ایگزیکٹیو مشینری کو ہدایات دینےکا اختیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کو وزیراعظم، وزیر خزانہ یا کسی اور وزیر سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سپریم کورٹ براہ راست گورنر اسٹیٹ بینک، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر اداروں کے سربراہان ، آئی جیز،ڈی پی اوزکو احکامات نا ماننے پر عہدوں سے ہٹاسکتی ہے، مجھے لگتاہے کہ عمر عطاء بندیال سیاستدانوں کو سائیڈ پر کرکے ایڈمنسٹریٹیو مشینری کے ذریعے الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سعد رسول نے مزید کہا کہ ایک گورنر اسٹیٹ بینک ایسا ہوگا جو اس حکومت پر قربانی دے سکتا ہے، سپریم کورٹ ہر آدھے گھنٹے بعد کسی نا کسی افسر کو برطرف کرسکتی ہے کہ اگر آرڈرز پر عمل درآمد نہیں ہورہا توآپ گھر جائیں نیا بندا آکر ان احکامات پر عمل درآمد کروائے گا۔

Back
Top