سیاسی

مریم نواز شریف کی جانب سے بی ایم ڈبلیو کی ملکیت سےانکار کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ میں درج اس گاڑی سے متعلق تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مریم نواز شریف ماضی میں متحدہ عرب امارات سے بیش قیمت بی ایم ڈبلیو رکھنے اور فروخت کرنے کا نا صرف اعتراف کرچکی ہیں بلکہ انہوں نے یہ ٹرانزیکشنز اپنے ٹیکس گوشواروں میں بھی ظاہر کی ہیں۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق مریم نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ انہیں یو اے ای کے شاہی خاندان نے بی ایم ڈبلیو کار تحفہ میں دی تھی، جسے انہوں نے بعد میں فروخت کردیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا۔ مریم نواز شریف کی جانب سے جے آئی ٹی کو بتائی گئی تفصیلات کے مطابق مریم نواز شریف نے تحفہ میں ملنے والی کار کیلئے 35 لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کی، اس وقت مریم نواز شریف کا ذریعہ آمدن کوئی نہیں تھا، بعد ازاں مریم نواز نے اپنے گوشواروں میں اس گاڑی کو2 کروڑ80 لاکھ روپے میں فروخت کی ٹرانزیکشن ظاہر کی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کےمطابق حیران کن بات یہ ہے کہ کئی سالوں بعد مریم نواز شریف کی جانب سے جمع کروائی گئی ایک ویلتھ سٹیٹمنٹ میں یہ گاڑی واپس ان کے اثاثہ جات میں موجود تھی۔ مریم نواز شریف کے شوہر کیپٹن صفدر نے جے آئی ٹی کو جمع کروائی گئی اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں بھی اس گاڑی کا ذکر کیا، تاہم کیپٹن صفدر نے اس گاڑی کی مالیت صرف 60 لاکھ روپے ظاہر کی، انہوں نے اس گاڑی کی ملکیت 2016تک ظاہر کی۔ خیال رہے کہ مریم نواز شریف کے حال ہی میں منصور علی خان کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران ہونے والی گفتگو کا ایک کلپ لیک ہوا ہے جس میں منصور مریم سے گوشواروں میں ظاہر کردہ ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی سے متعلق سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منصور علی خان سوال کرتے ہیں کہ آپ کو متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان نے آپ کو ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی تحفہ میں دی، مریم نواز نے واضح طور پر انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے؟ میرے پاس تو کبھی بی ایم ڈبلیو گاڑی نہیں رہی، یہ خاندان کی گاڑی ہوسکتی ہے مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے 90 دنوں میں انتخابات سے اختلاف نہیں کیا۔۔کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پورے نہیں ہیں فیصلہ کیوں مانیں ؟ تو کیا پارلیمان پوری ہے؟ : سینئر صحافی نجی ٹی وی چینل سما نیوز کے پروگرام میرے سوال میں جسٹس انتخابات ازخود نوٹس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کار اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ اطہر من اللہ کا شمار ان ججز میں ہوتا ہے جن کی ساکھ بہت اچھی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں رہے آزادی رائے، شخصی آزادی کے حوالے سے معاملات پر کردار مثالی تھا۔ اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ آئین کی روح کے حوالے سے نوٹ تو لکھ دیا گیا لیکن جو کچھ سندھ ہائوس میں ہوا کیا وہ آئین کی روح کے مطابق تھا؟ ایک بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ 63A میں آئین ری رائٹ کر دیا گیا۔ جن لوگوں کو نااہل کیا گیا جب دوبارہ ووٹ ہوئے تو عوام نے آئین کی روح کو ظاہر کر کے انہیں شکست دی حالانکہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں مل کر انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے بنیادی بات یہ کی ہے کہ آئین میں لکھا ہے 90 دنوں میں انتخابات ہونے ہیں آپ الیکشن کروائیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پورے نہیں ہیں فیصلہ کیوں مانیں ؟ تو کیا پارلیمان پوری ہے؟ 50 فیصد نمائندگی بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی قرارداد پیش کر دی جاتی ہے لیکن ایک بھی مرکزی قائد نے سائن نہیں کیے۔ اطہر کاظمی نے توہین عدالت کے سوال پر کہا کہ ابھی بھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ کون سا عدالتوں کی تکریم ہو رہی ہے؟ مریم نوازشریف کے پاسپورٹ کیلئے متعدد بار بینچ ٹوٹا، جب فیصلہ آیا تو کسی نے کہا کہ باقی ججز کی بھی رائے لی جائے؟ ملک کی تمام عدالتیں قابل احترام ہیں اگر ان کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا جائے گا ورنہ انارکی پھیل جائے گی۔ عدالتی فیصلے کے خلاف قرارداد پر ان پارلیمنٹیرینز سے دستخط کروائے گئے کی تصویریں دیکھ کر بھی قوم نہیں پہچانے گی۔
حکومت نے اپنے ماہرینِ قانون کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے تین دیگر ججوں کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے امکانات کا جائزہ لے گی،باخبر ذرائع کے مطابق اتحادی شراکت داروں کے ساتھ بحث و مباحثے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ماہرین قانون کی ٹیم کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ جسٹس بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر غور کریں۔ ان ذرائع کے مطابق ماہرین قانون کی کمیٹی سے کہا جاچکا ہے وہ اپنا کام چوبیس گھنٹوں میں مکمل کریں،کمیٹی اُن بنیادوں پر کام کر رہی ہے جن کے تحت یہ ریفرنس دائر کیا جائے گا،کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا اور وہ یہ رائے پیش کرے گی کہ آیا سپریم کورٹ کے ان چار ججوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کیلیئے مناسب وجوہات موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر قانون، اٹارنی جنرل، سابق وزیر زاہد حامد اور عرفان قادر وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کریں گے اور اس بات پر غور کریں گے ان ججوں کیخلاف ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ جیسے ہی کمیٹی اپنی سفارشات تیار کر لے گی،ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دیدی جائے گی لیکن باخبر وزاتی ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا ہے سیاسی سطح پر فیصلہ ہو چکا ہے،ماہرین قانون کی کمیٹی بتائے گی کہ یہ کام ہو سکتا ہے یا نہیں۔ چیف جسسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ر کنی بینچ کے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کے فیصلے کے تناظر میں حکومت نے تین ججوں کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے سخت آپشن پر غور کیا،ذرائع کے مطابق نہ صرف نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے ریفرنس دائر کرنے پر اصرار کیا ہے بلکہ وزیر داخلہ رانا ثنا بھی مبینہ طور پر کچھ دن قبل کہہ چکے ہیں کہ ججوں کیخلاف ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذرائع نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے خلاف حکومت کے جارحانہ رویے اور پارلیمنٹ کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرارداد کے تناظر میں معاملات بہتر ہونے کی طرف جا سکتے ہیں،ذرائع نے ایک پیغام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا پنجاب اور کے پی میں الیکشن کے معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے اگر چیف جسٹس فل کورٹ تشکیل دے دیں تو حکومت شاید ریفرنس دائر کرنے سے رُک جائے۔ آزاد ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کے بار کونسل کے اعلان کے حوالے سے بھی حکام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کر دیا اور اسے اقلیتی فیصلہ قرار دیا۔ آج پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالتی فیصلے کو مسترد کیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن خالد مگسی کی جانب سے پیش کردہ کو اکثریتی ارکان پارلیمنٹ نے منظور کیا، قرارداد میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ’’غیر آئینی‘‘ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو سکے قومی اسمبلی نے 28مارچ کی قرارداد میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت بند کرے،معاشرے کے کئی حلقوں نے متعدد مرتبہ سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ وہ فل کورٹ بینچ تشکیل دے لیکن یہ مطالبات نظر انداز کر دیے گئے اور کیس مین صرف ایک سیاسی جماعت کا موقف سنا گیا۔
حکومت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف منظور کرائی گئی قرارداد کا بھانڈا پھوٹ گیا۔۔قرارداد پر کسی اہم عہدیدار کے دستخط کیوں نہیں؟ ماریہ میمن نے سوال اتھادیا تفصیلات کے مطابق حکومت کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے خلاف منظور کرائی گئی قرارداد کی اصلیت سامنے آگئی۔ قرارداد پر 42 ایم این ایز کے دستخط ہیں لیکن کسی اہم حکومتی عہدیدار اور اپوزیشن لیڈر کے دستخط نہیں۔ دستخط زیادہ تر مخصوص نشستوں پر آئی خواتین نے کئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر وزیراعظم شہبازشریف، وزیرداخلہ راناثناء اللہ، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، وزیرخارجہ بلاول، وزیردفاع خواجہ آصف سمیت احسن اقبال، خرم دستگیر، مریم اورنگزیب، خواجہ سعدرفیق کے دستخط نہیں دستخط کرنیوالوں میں ایک بھی وزیرشامل نہیں اور نہ ہی سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی، مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے، ق لیگی ایم این ایز اور راجہ ریاض نے دستخط کئے۔ ماریہ میمن نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اس قرارداد میں کسی اہم عہدےدار نے دستخط کیوں نہیں کیے؟وزیراعظم ، لیڈر آف اپوزیشن ، وزیر قانون، وزیر داخلہ،وزیر خارجہ سمیت کسی مین اسٹریم لیڈر نے اپنے دستخط کا وزن اس قرارداد کے پلڑے میں نہیں ڈالا ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ دستخط کرنیوالی مرد،خواتین ایم این ایز زیادہ تر وہ ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں بولنے کا موقع نہیں ملتا۔ ماریہ میمن کے مطابق 60 فیصد دستخط ریزورڈ سیٹوں پر آئے ممبران کے ہیں
چیف جسٹس نے آئین وقانون کی خلاف ورزیاں جاری رکھیں تو گھر جانا پڑے گا۔وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی کابینہ اپنے فرائض منصبی کے معاملات میں کسی بھی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں: سینئر قانون دان عرفان قادر نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل وماہرِ قانون عرفان قادر نے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں 3 رکنی بینچ کے خلاف قرارداد ان ججز کے لیے جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں ایک پیغام ہے ۔ 3 رکنی بینچ نے آئین پاکستان کی توہین کے علاوہ اس قانون کی بھی توہین کی ہے جو انتخابات کے معاملات کے لیے پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو صریحاً آئین کی بھی سمجھ نہیں آئی نہ ہی قانون کی سمجھ آئی۔ آئین وقانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ججز نے ایسا فیصلہ دیا ہے جو میرے خیال میں غلط فیصلہ ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، عدالت کے ان احکامات کو نظر انداز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 3 دن تک جج صاحبان مدعے سے ہٹ کر سماعت کرتے رہے جبکہ بہت سے سینئر ترین وکلاء کو نہیں سنا۔ عدالت نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے میں کوئی بھکاری ہوں اور بھیک مانگ رہا ہوں کہ مجھے سنا جائے۔ آرٹیکل 248 میں واضح لکھا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی کابینہ اپنے فرائض منصبی کے معاملات میں کسی بھی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف فیصلے پر کہا کہ ان کے خلاف غلط فیصلہ آیا تھا لیکن اصل میں انہوں نے استعفیٰ دیا تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا، ہم نے سپریم کورٹ کی فیس سیونگ کی تھی۔ وزیراعظم شہبازشریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی نہ ہی وہ گھر جائیں گے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس جو کچھ کر چکے ہیں اس کے بعد بہتر تو یہی ہو کہ وہ استعفیٰ دے دیں ، اگر استعفیٰ نہ دیا تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے ہی آئین وقانون کی خلاف ورزیاں کرتے رہے تو انہیں گھر جانا پڑے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے پر چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج ریفرنس کی سماعت کریں گے۔
انتخابی مہم، سابق لیگی ایم پی ایز وٹکٹ ہولڈرز کا قیادت سے تحفظات کا اظہار۔۔۔ملک بھر میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری کے باعث انتخابات میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے: سابق لیگی اراکین پنجاب اسمبلی ذرائع کے مطابق 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کے عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے اراکین پنجاب اسمبلی نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کیا ہے۔ سابق لیگی اراکین پنجاب اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز نے اپنے تحفظات سے اعلیٰ قیادت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری کے باعث انتخابات میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لیگی اراکین پنجاب اسمبلی کے مطابق 14 مئی کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے ابھی تک انہیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ انتخابات کیلئے پارٹی ہدایات کے مطابق کاغذات الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروا دیئے ہیں لیکن انتخابات کیلئے مہم شروع کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی ہدایات نہیں ملیں۔ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پچھلے 10 مہینوں سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ ہماری سیاسی جماعت کی طرف سے پنجاب میں کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو رہیں۔ انتخابات سے پہلے عوام کو پٹرولیم مصنوعات میں ریلیف دینے کے علاوہ مہنگائی میں کمی کرنی ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق لیگی اراکین پنجاب اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز نے اپنی قیادت سے اجلاس بلا کر تحفظات دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلے کے خلاف آج قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔ قومی اسمبلی نے فل کورٹ بنانے سے متعلق قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ قرارداد میں کہاگیا کہ پارلیمنٹ عدالتی فیصلہ مسترد کر تی ہے، یہ ایوان وزیراعظم اور کابینہ کوپابند کرتا ہے کہ خلاف آئین وقانون فیصلہ پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔ ایوان کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے ازسر نو تحریر کئے جانے پر تشویش ہے۔ ایوان ایک ساتھ عام انتخابات کو مسائل کا حل سمجھتا ہے، عدالت عظمیٰ فل کورٹ معاملے پر نظر ثانی کرے ۔
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔۔ حکومتی کشتی سے چھلانگ لگاکر ایک بار پھر صحافی بن کر سامنے آنیوالے فہد حسین جب وزیراعظم شہبازشریف کے معاون خصوصی تھے تب کیا کہتے رہے ؟ سینئر صحافی فہد حسین نے وزیراعظم شہبازشریف کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دیکر نجی ٹی وی چینل پی این این کو جوائن کرلیا،وہ پی این این کے صدر ہوں گے اور ملکی سیاسی امور پر تجزیہ بھی دیں گے۔ فہد حسین جب وزیراعظم شہبازشریف کے معاون خصوصی تھے تو وہ کھل کر وزیراعظم شہبازشریف کا دفاع اور تحریک انصاف پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔فہد حسین اکثر مریم اونگزیب اور دیگر لیگی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنسز میں بھی نظر آتے تھے۔ اسی وجہ سے ان پر تنقید ہوتی تھی کہ انہوں نے حکومتی عہدہ لینے کیلئے صحافت کو بطور سیڑھی استعمال کیا ہے۔ شہباز دور حکومت میں صحافیوں پر زمین تنگ کی جاتی رہی، ارشد شریف کاقتل ہوا لیکن فہد حسین نے اس پر کوئی سٹنڈ نہیں لیا اور نہ ہی کسی صحافی پرمظالم کی مذمت کی۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں شرکت کی، ان سے عاصمہ شیرازی سے سوال کیا کہ آپ سے پہلے مشاہد حسین سید، شیری رحمان، شیری مزاری بھی صحافت کرتے تھے لیکن جب وہ سیاست میں آئے تو دوبارہ صحافت میں نہیں گئے، کیا آپ بھی ایسا ہی کریں گے؟ اس پر فہد حسین نے جواب دیا کہ میرا فیصلہ بالکل اٹل ہے کہ میں نے وہ کام نہیں کرنا جو پہلے کررہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے کہ اب میں ایک جماعت کے ساتھ ہوں، حکومت کے ساتھ ہوں، لہٰذا اب میں وہ کام نہیں کروں گا جو اس سے پہلے کررہا تھا، فہد حسین اپنے اس دعوے پر زیادہ دیر قائم نہ رہ پائے اور دوبارہ صحافی بن کر میدان میں آگئے۔فہد حسین نے چینل ملک اسدکھوکھر کا جوائن کیا جس نے تحریک انصاف کو دھوکہ دیکر ن لیگ کو جوائن کیا اور تحریک انصاف کا ایم این اے ہونے کے باوجود حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فہد حسین نے حکومتی کشتی ڈوبتی دیکھ کر کشتی سے چھلانگ لگائی ہے اور ایک چینل جوائن کرکے اپنا مستقبل محفوظ کرلیا ہے کیونکہ فہد حسین نہ تو کسی حلقےسے ایم این اے بن سکتے ہیں اور نہ ہی ن لیگ انہیں سینٹ کا ٹکٹ دے گی جس پر فہد حسین نے صحافت کو دوبارہ جوائن کرنا مناسب سمجھا۔
سپریم کورٹ سے دو وزرائے اعظم کے خلاف فیصلے، ایک کا رویہ کچھ اور دوسرےکا کچھ اور۔۔ آج سے ایک سال قبل سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا جو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔یہ فیصلہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ سے متعلق تھا، قاسم سوری نے رولنگ دیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کردی تھی جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ چلا گیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ عمران خان کے خلاف دیاجس پر ن لیگ اور پی ڈی ایم جماعتوں نے سپریم کورٹ کی تعریف کی اور اسے آئین اور قانون کی فتح قراردیدیا۔ اس پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ میں سپریم کورٹ کی عزت کرتا ہوں، سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرتے ہیں لیکن فیصلے سے مایوسی ہوئی ۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نےجو رولنگ دی تھی اس کی وجہ آرٹیکل 5 تھی، پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہوئی تھی، سپریم کورٹ کوکم از کم اس معاملے کودیکھنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ باہر سے کوئی مداخلت کرکے پاکستان کی حکومت کو گرارہا ہے، سپریم کورٹ کم ازکم اس مراسلے کو دیکھ تولیتا، سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے تھا کہ کیا ہم سچ بول رہے ہیں یا نہیں، عدالت میں مراسلے پر کوئی بات چیت ہی نہیں ہوئی۔ دوسری جانب گزشتہ روز فیصلے پر مسلم لیگ ن کا رویہ یکسر مختلف تھا۔۔ مریم نواز نے ججز کوبرابھلا کہا اور ججز پر سنگین الزامات لگائے،راناثناء اللہ ججز کے خلاف بینرز اور سائن بورڈز کیساتھ سپریم کورٹ پہنچے جبکہ لیگی رہنما اور وزراء بھی ججز پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیتے رہے۔ فیصلہ آنے کے فوری بعد وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ آج ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور آج ہی کے دن الیکشن پر متنازعہ فیصلہ آگیا، 4 اپریل کو ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل ہوا اور آج 4 اپریل کو پھر آئین اور انصاف کا قتل ہوا، اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیگی رہنمااس پر شیم شیم کے نعرے لگاتے رہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلے پر ججز پر سنگین الزامات لگاتے رہے اور ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا اعلان کرتے رہے جبکہ مریم نواز نے ججز پر ٹرکوں اور لاڈلے کو ریلیف دینے کاالزام لگایا
سینئر صحافی و اینکر پرسن کاشف عباسی نے کہا ہے کہ پہلے نوے روز مین الیکشن کروانے کی باتیں کرنے والی پی ڈی ایم اس وقت الیکشن نا کروانے کی دلیلیں دے رہی ہے۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ کے میزبان کاشف عباسی نے اپنے پروگرام میں پی ڈی ایم رہنماؤں کے انتخابات سے بھاگنے سے متعلق مختلف بیانات اور دلیلوں کا چھوٹا سا کلپ چلاتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اب الیکشن کی مخالفت کررہے ہیں شروع میں یہ 90 روز میں انتخابات کے حامی تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں اب اکتوبر میں انتخابات ہونے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار شروع ہوگیا ہے، کہا جارہا ہے کہ انتخابات ایک سال آگے لے جانے کی کوششیں ہورہی ہیں، کیونکہ اس ماحول میں الیکشن کروانا تمام اکھٹی ہونے والی قوتوں کو سوٹ نہیں کرتا۔ پروگرام کے شروع میں کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ انتخابات منعقد کروانے سے متعلق 2 عدالتوں نے فیصلہ دیا، لاہور ہائی کورٹ میں معاملہ ابھی اپیل میں تھا کہ سپریم کورٹ نےاز خود نوٹس لیا اورفیصلہ دیا کہ 90 روز میں انتخابات کروانا لازم ہے، اس کے بعد تاریخ کا اعلان بھی کردیا گیا، تاہم بعد میں الیکشن کمیشن نے خود انتخابات موخر کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اب الیکشن کی مخالفت کرنے والے ان لوگوں کے بیانات بھی چلائے جو شروع میں 90 روز میں انتخابات کروانے کے حامی تھے، ان لوگوں میں رہنما مسلم لیگ مشاہد حسین، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، رہنما جے یو آئی ف سینیٹر کامران مرتضیٰ، پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر، قمر زمان کائرہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری شامل تھے۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے 90 روز میں انتخابات منعقد کروانے کے حق میں اور انتخابات ملتوی کیے جانے کے خلاف دلائل دیئے اور کہا کہ 90 روز میں انتخابات ہونے چاہیے۔
سینئر تجزیہ کار چوہدری غلام حسین نے ہوشربا انکشافات کرتےہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو قتل کرنے کا نیا منصوبہ تشکیل دیدیا گیا ہے، اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے خصوصی اسلحہ بھی پاکستان منتقل کردیا گیا ہے۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام "دی رپورٹرز " میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چوہدری غلام حسین سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے سنگین انکشافات کردیئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن سے یہ خبر آئی ہے کہ پاکستان کے باہر سے بلٹ پروف گاڑی کے اندر بیٹھے ہدف کو نشانہ بنانے والی بندوق کی گولیاں پاکستان پہنچادی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلحہ ے علاوہ دو ایکسپرٹس کو بھی پاکستان بھیجا گیا ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور اہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پنڈی کےسربراہ نے ان اطلاعات پر ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کی ہدایات پربڑے پیمانے پر ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں ، یہ ٹیمیں زمان پارک، عمران خان کے قریبی ساتھیوں ، ملازمین اورآنے جانے والے افراد کا محاصرہ کررہی ہیں۔ غلام حسین نے کہا کہ ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹیموں کا ہدف ملزمان کی گرفتاری اور اسلحہ کی برآمدگی ہے، اس منصوبہ بندی کےسامنے آنے پر امریکی حکومت نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
کچھ صحافیوں کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کے معاون خصوصی فہد حسین نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ فہد حسین نجی ٹی وی چینل کے صدر بن گئے ہیں ۔فہد حسین نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو ارسال کردیا ہے اس کی منظوری کے بعد وہ نجی ٹی وی چینل کے صدر کے طور پر دوبارہ واپس آجائیں گے۔ فہد حسین انگریزی اخبار ات کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں ، فہد حسین معروف کالم نویس بھی ہیں ۔وہ ڈان نیوز سے طویل عرصہ تک وابستہ رہے، اس سے قبل وہ ایکسپریس، دنیا، اے آروائی سمیت متعدد چینلز پر قسمت آزمائی کرچکے تھے۔ شہبازشریف حکومت جب قائم ہوئی تھی تو وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی بن گئے تھے ۔ بحیثیت معاون خصوصی انہوں نےتحریک انصاف کے خلاف سخت سٹینڈ لیا اور صحافیوں پرمظالم، ارشد شریف قتل پر حکومت کا دفاع کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق فہد حسین پی این این ٹی وی چینل کے صدر بن گئے ہیں اس سلسلے میں ان کے پی این این ٹی مالکان سے معاملات طے پا گئے ہیں اور وہ اگلے ہفتے نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے ۔ یادرہے کہ پی این این ملک اسدکھوکھرکا چینل ہے جو تحریک انصاف سے منحرف ہوگئے تھے اورن لیگ سے جاملے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا جس کے بعد وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر ایم پی اے بنے تھے۔ صحافی طارق متین کے مطابق فہد حسین اور ملک اسدکھوکھر کے گٹھ جوڑ کا مطلب ہے کہ یہ چینل آنیوالے دنوں میں تحریک انصاف کے خلاف سخت سٹینڈ لے گا۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت میں صرف آرمی چیف ہی نہیں بلکہ آرمی چیف کے علاوہ نمبر ٹو بھی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ صرف آرمی چیف نہیں جنرل فیض حمید بھی حکومت پراثرانداز ہوتے تھے۔ آن لائن ڈیجیٹٹل ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آرمی چیف کی سیاست میں مداخلت ہو اور آئی ایس آئی سربراہ کی نہ ہو، ہمارے نظام میں آرمی چیف سے زیادہ ڈی جی آئی ایس آئی کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ انہوں نے فوج کا نام لئے بغیر کہا کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی کہیں نہ کہیں سے انکی سفارشات آجاتی تھیں، اگر آرمی چیف سے نہیں تو ڈی جی آئی ایس آئی یا کہیں اور سے آجاتی تھیں۔نہ صرف آرمی چیف بلکہ ٹاپ ٹو کی طرف سے بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ اور جب اثر و رسوخ زیادہ ہوجاتا ہے تو کئی لوگ اپنے مفاد کے لیے بھی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ زلفی بخاری نے مزید کا کہ کئی بار سوچتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومتی معاملات میں بہت زیادہ مداخلت ہورہی ہے ۔ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس سب کا ملبہ سیاسی جماعت کے اوپر ہی آتا ہے اور پھر بات وہیں آجاتی ہے جیسے عمران خان صاحب اب کہہ رہے ہیں کہ میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں بھی اس سے سیکھنا ہے کہ ایک بندے پر اتنا انحصار نہیں کرنا چاہیے۔جب کسی فرد پر آپ حد سے زیادہ انحصار کرلیتے ہیں تو وہاں ذاتی پسند ناپسند آجاتی ہے جس کا نقصان حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے
اپنے ویڈیو پیغام میں کامران خان کا کہنا تھا کہ بصد عزت و احترام یہ ناچیز اپنے 40 سالہ ملکی غیر ملکی صحافتی کیرئیر کے بنیاد پر قوم کی مقتدر ترین لیڈرشپ سے عرض کرنا چاہتا ہے کہ معیشت زمین بوس ہے، خوف ہے پاکستان تقسیم ہے۔پاکستان خطرناک تقسیم سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پریشان ہوں عام پاکستانیوں کی طرح پریشان ہوں، ایک پریشانی ہے جو اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے۔ کلیدی پاکستانی شخصیات سے بات ہوتی ہے وہ مجھ سے کہیں زیادہ پریشان ہیں۔حالات پریشان کن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاف کیجئے گا میری رائے میں آج پاکستان کے تباہ کن معاشی سیاسی سیکیورٹی اور اب عدالتی بحران کی وجہ صرف عمران خان نہیں ہر مقتدر ادارہ ہر سیاسی جماعت اس کی ذمہ دار ہے گویا عمران خان کی جسمانی انتظامی عدالتی موت انکی سیاست اور عوامی مقبولیت ختم نہیں کرسکتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شاید لیڈرشپ کو پسند نہ ہوں عوام کی پہلی ترجیح عمران خان ہے ۔ایک سال پہلے سے وہ کہیں زیادہ مقبول ہیں۔وہ بیرون ملک اور اندرون پاکستان لوگوں کے پسندیدہ رہنما ہیں۔بہتر ہےعمران خان کو قومی مسائل کے حل کی ایک ضرورت سمجھیں نہ کہ رکاوٹ۔ انہوں نے کہا کہ افسوس پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں وہ پیار ، وہ انسیت نہیں جوہونا چاہئے۔فوجی لیڈرشپ کی خان صاحب سے بے پناہ شکایات ہیں ان سے میں اتفاق بھی کرتا ہوں اور آگاہ بھی ہوں۔عمران خان کی بھی شکایات ہیں، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خان صاحب بھی پوری قوت اور صدق دل سے اس تاثر کو ختم کریں کہ وہ اقتدار میں آئے تو انتقام کا نیا دور شروع ہوگا اور مختلف شخصیات سے سکورسیٹل کریں گے ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ قومی اتحاد ہی پاکستان بچائے گا
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور محمد دلشاد کہتے ہیں الیکشن کمیشن 1976 کے عوامی نمائندگی کے ایکٹ کی شق 108جو اب الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 کی شق 58میں شامل ہے،اس کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان جو ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہے،الیکشن شیڈول کو تبدیل کرنے کا مجاز ہے۔ انہوں نے کہا ماضی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ناگزیر وجوہ کی بنا پر الیکشن شیڈول میں ساٹھ دن کی بجائے کئی کئی مہینے اگلی تاریخوں میں ضمنی الیکشن اور جنرل الیکشن کرا چکا ہے،اس کو کبھی بھی کسی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ کنور محمد دلشاد نے ایک انٹرویو میں کہا اسکی کئی مثالیں دی ہیں جن کے مطابق الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 کی دفعہ 58کے تحت الیکشن کمیشن ناگزیر حالات کی بنا پر الیکشن شیڈول میں ردوبدل کرنے کا مجاز ہے،حتیٰ کہ عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976ء کی دفعہ 108میں بھی یہ بات شامل رہی الیکشن کمیشن آف پاکستان ملکی صورتحال کی بناء پر الیکشن شیڈول میں ردوبدل کا اختیار رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا نہ صرف الیکشن شیڈول تبدیل کرنے کا مجاز ہے بلکہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بارہا عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء کی دفعہ 108کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل اور ضمنی انتخابات کی تاریخوں میں ردوبدل کیا۔ کنور دلشاد نے کہا یہ دفعہ 108آج بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58میں شامل ہیں،1993ء میں ایم کیو ایم کے جب 14اراکین قومی اسمبلی اور 25اراکین صوبائی اسمبلی نے استعفے دیئے تو کراچی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 60دن کی بجائے ضمنی انتخاب 4سے 6مہینے بعد منعقد کرائے۔ انہوں نے کہا اسی طرح نومبر 1994ء میں جب صوبہ سرحد اسمبلی کے دو ارکان کا قتل ہوا تو الیکشن کمیشن نے 60دنوں کی بجائے امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے پر عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء کی شق 108کے تحت 4مہینوں بعد ضمنی الیکشن کرائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کرم ایجنسی میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعے میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضمنی الیکشن تین چار ماہ بعد کرائے۔ اسی طرح 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جنرل الیکشن 8جنوری 2008ء کی بجائے 18فروری 2008ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے منعقد کئے۔ کنور دلشاد نے کہا 2009ء میں لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 117جس میں نواز شریف بھی امیدوار تھے وہاں ضمنی الیکشن 60دن کی بجائے اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمود کی طرف سے امن و امان کی خراب صورتحال اور دہشت گردی کے خطرے کی رپورٹ آنے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء کی دفعہ 108کے تحت ضمنی الیکشن 2ماہ کیلئے ملتوی کر دیئے۔ کنور محمد دلشاد نے بتایا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے امن و عامہ کی خراب صورتحال کی بناء پر جنرل الیکشن یا ضمنی الیکشن کا شیڈول آگے لے جانے کو کسی ہائیکورٹ یا عدالت عظمیٰ میں چیلنج نہیں کیا گیا کیونکہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء اور اسکی جگہ بننے والے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58جس میں عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء کی شق 108مدغم کی گئی ہے، میں دوٹوک الفاظ میں درج ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بناء پر الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن کی تاریخوں کو آگے لے جانے کا مجاز ہے۔
دی نیوز کے صحافی اعزازسید کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اہل خانہ سے متعلق ڈیٹا لیک کے پیچھے مجرموں کی شناخت کے لیے انکوائری کو حتمی شکل دینے کے لیے تیار ہے۔ مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی معلومات کو گزشتہ نومبر میں موجودہ آرمی چیف کی تقرری کو روکنے کی کوشش میں استعمال کیا گیا تھا۔ ڈیٹا لیک سے آگاہ متعدد ذرائع نے دی نیوز کے ساتھ تفصیلات شیئر کیں۔ اکتوبر 2022 میں پانچ سینئر لیفٹیننٹ جنرلز کا پاکستان کے نئے آرمی چیف کے عہدے کے لیے مقابلہ تھا، اس دوران نادرا کے ایک جونیئر ڈیٹا انٹری آپریٹر فاروق احمد نے مبینہ طور پر جنرل عاصم منیر شاہ کے خاندان کی خاتون رکن کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور خاندان کی تفصیلات اور شناختی کارڈ نمبر اکٹھے کیے۔ اعزازسید کے مطابق ڈیٹا کو بعد میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم میں خاندان کے بین الاقوامی سفری مقامات کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا، وزیراعظم نے جھوٹے دعوے کے ماخذ کی نشاندہی کے لیے تحقیقات کا آغاز کیا جو حکام کو نادرا میں غیر قانونی ڈیٹا رسائی تک لے گئی۔ نتیجے کے طور پر فاروق احمد رحمان بٹ ( رشید احمد (اسسٹنٹ ڈائریکٹر)، سیف اللہ (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر)، ساجد سرور (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ) اور ایم علی (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر) کو معطل کر دیا گیا اور چیئرمین نادرا طارق ملک نے انکوائری کا حکم دیا۔ ابتدائی طور پر انکوائری کی نگرانی ریٹائرڈ بریگیڈیئر خالد لطیف نے کی، جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے قریبی ساتھی پائے گئے، جو ملزم دعویداروں میں سے ایک تھے۔ بعد میں لطیف کو مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے سینئر افسر علی جاوید سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ انکوائری کے دوران نادرا کے دو افسران خالد عنایت اللہ اور امیر بخاری کو ڈیٹا تک رسائی کے اہم کردار کے طور پر شناخت کیا گیا۔ دونوں افسران نے مبینہ طور پر مقابلہ کرنے والوں کے قریبی رشتہ داروں کو ڈیٹا کی درخواست کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا۔ انکوائری سے جلد ہی اس کہانی میں ملوث نادرا کے اصل چہرے بے نقاب ہوں گے۔ تاہم افسران کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈز کو شاید عوامی سزا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نادرا انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے معاملے کی حساسیت اور تحقیقات کی جاری نوعیت کا حوالہ دیتے ہوئے بغیر کسی نام کا انکشاف کیے انکوائری کی تصدیق کی۔ ادارے کے چھ جونیئر اسٹاف کو تاحال ان کے عہدوں پر بحال نہیں کیا گیا ہے۔ مزید برآں، حال ہی میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد لطیف اور تین دیگر فوجی اہلکاروں کو مستعفی ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ جاری انکوائری کی روشنی میں نادرا انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا نام لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ انکوائری ابھی جاری ہے۔ ایک اہم سرکاری اہلکار کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے اور کچھ دیگر اہم واقعات سے اس ڈیٹا کے محافظ ادارے میں کچھ اعلیٰ عہدیداروں کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔
جسٹس اقبال حمید کون تھے جن کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال جذباتی ہوگئے؟ چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطاء بندیال جمعہ کے روز خیبرپختونخوا پنجاب الیکشن کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اقبال حمید کا تذکرہ کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے تھے۔ چیف جسٹس نے اپنی گفتگو کے دوران سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کے خلاف وکلاء نے درخواست دائر کی جس پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن نے ماضی میں جسٹس اقبال حمید پر اعتراض اٹھائے، جسٹس اقبال حمید نے اعتراض پر استعفی دیدیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ان کو روکا تھا مگر انہوں نے کہا کہ اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مجھے شو کاز نوٹس ہوا ہے؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میں 2 سال سے بہت چیزیں دیکھ رہا ہوں، اچھے دوست گنوائے ہیں۔ میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں۔جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر آئین اور قانون کے مطابق کیا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان 2016 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھےتاہم استعفے میں مستعفی ہونے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ۔انہوں نے 2021 میں ریٹائر ہونا تھا۔ جسٹس اقبال حمید الرحمٰن سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمود الرحمٰن کے بیٹے ہیں جو 1971 میں پاکستان بھارت کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا جائزہ لینے والے کمیشن کے سربراہ اور پاکستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ جسٹس اقبال حمید الرحمٰن 25 ستمبر 1956 کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں پیدا ہوئے بعدازاں وہ مغربی پاکستان کے شہر لاہور منتقل ہوگئے۔ 2006 میں جسٹس اقبال حمید لاہور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات ہوئے اور ایک سال بعد انہیں لاہور ہائی کورٹ کا مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔ ان کا شمار لاہور ہائی کورٹ کے ان 3 ججز میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے پی ایس او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں انہیں معزول کردیا گیا لیکن ججز بحالی تحریک کے نتیجے میں وہ بحال ہوگئے تھے۔ اقبال حمید الرحمان آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد قائم ہونے والی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس بھی مقرر ہوئے تھے تاہم فروری 2013 میں انھیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا تھا اور وہ لگ بھگ ساڑھے تین سال سپریم کورٹ کے جج رہے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان نے توہینِ رسالت کے مقدمے میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی اپیل سننے والے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی۔ اس وقت ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ غیر قانونی تقرریاں کی تھیں جنہیں سپریم کورٹ نے کالعدم قراردیدیاتھا۔ اسے بنیاد بناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس عدالتی بینچ کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے، انہیں دیوار پر لکھا ہوا فیصلہ واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام"رپورٹ کارڈ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا حکومت نے اور اتحادی جماعتوں نے اس پر غور کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بائیکاٹ کی صورت میں پیر کو ہونے والی سماعت میں کیا وزارتیں اور سیکرٹریز پیش نہیں ہوں گے؟ اور سپریم کورٹ کی طلب کردہ رپورٹس پیش نہیں کی جائیں گی؟ پھر بھی سپریم کورٹ الیکشن کی تاریخ مقرر کرکے انتخابات کا حکم دیتی ہے تو پھر حکومت کیا کرے گی؟ کیا وہ الیکشن کا بائیکاٹ کردیں گے؟ مظہر عباس نے کہا کہ ان تین ججز میں سے دو تو بہت ہی زیادہ متنازعہ ہوگئے ہیں، ان کے بارے میں پی ڈی ایم میں یہ رائے ہے کہ ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ فل کورٹ بنادیں ۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں یہ تنازعہ ہے کیا؟ عمران خان الیکشن چاہ رہے ہیں اور پی ڈی ایم یا حکومت بادی النظر میں کسی نا کسی وجہ سے الیکشن میں تاخیر چاہ رہی ہے ، اس تنازعے میں سپریم کورٹ کے اندرونی تقسیم واضح ہوگئی ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پی ڈی ایم کی جانب سے تین رکنی بینچ کے بائیکاٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہے، اس ساری صورتحال میں سپریم کورٹ وزیراعظم کو طلب کرسکتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کا حکم دے سکتی ہے۔
سینئر تجزیہ کار محمد مالک نے کہا ہے کہ الیکشن کی تاخیر سے ملک میں پھیلنے والی انارکی حکومت کے فائدے میں ہے۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار محمد مالک کا کہنا تھا کہ اصل جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن نہیں ہونے دینے، 90 روز کے معاملے پر آئین، قانون ، ججز یا میری آپ کی کوئی بحث نہیں ہے، سب اس بات پر متفق ہیں کہ 90 روز میں الیکشن ہونے چاہیے مگر ہونے نہیں دیئے جارہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو میرے خیالات 9 رکنی بینچ پر کچھ اور تھے، پھر 7رکنی ، 5 رکنی بینچ تک میرے خیالات کچھ اور تھے مگر جب بات 3 رکنی بینچ تک آگئی تو میرے خیالات بدلے کہ اب چیف جسٹس کو نظر ثانی کرنی چاہیے، اس سے پہلے میں کہتا تھا کہ جو بھی فیصلہ آئے اس کے اندر غیر جانبداری کا عنصر موجود تھا، اب یہ تاثر ہٹ گیا ہے ۔ محمد مالک نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو ججز ایسے ہیں جن پر بہت سنجیدہ قسم کے الزامات اور تحفظات ہیں، اب چیف جسٹس صاحب کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاملات کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے، اگر یہ تین رکنی بینچ فیصلہ کرتا ہے، حکومت اس پر عمل درآمد سے انکاری ہوتی ہے تو کیا ہوگا؟ یہ لوگوں کو ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے، ہوسکتا ہے یوسف رضا گیلانی کی مثال سامنے رکھ کر حکومت کو رگڑ بھی دیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں بہت عرصے سے کہہ رہا ہے کہ ایک بحران پیدا ہوگیا ہے جو حکومت کیلئے زیادہ فائدہ مند ہے، حکومت الیکشن نا کروانے کیلئے ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہے۔ محمد مالک نے کہا کہ عدلیہ میں تقسیم جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کے وقت سامنے آئی تھی، تقسیم اس سے بھی پہلے کی تھی ، ہمیں باقاعدہ نمبرز بتائے جاتے تھے کہ سپریم کورٹ میں 9-6 کی تقسیم ہے، 9 ججز چیف جسٹس کے کیمپ میں ہیں جبکہ باقی دوسری جانب ہیں، پھر ججز شفٹ ہونا شروع ہوا، اور اب فل کورٹ سے پرہیز سے یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ شائد اکثریت دوسری جانب منتقل ہوچکی ہے۔
ماضی میں ن لیگ نے کن ریٹائرڈ ججز پر نوازشات کیں ؟تفصیلات سامنے آگئیں جسٹس سعیدالزمان صدیقی نے چیف جسٹس سجادعلی شاہ کی برطرفی میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد ن لیگ نے 2008 میں انہیں اپنا صدارتی امیدوار بنایا اور 2018 میں گورنر سندھ بنایا۔ جسٹس رفیق تارڑ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے نوازشریف کے کہنے پر جسٹس سجاد علی شاہ کی برطرفی میں اپنا کردار ادا کیا۔ رفیق تارڑ کو ن لیگ نے پہلے سینیٹر بنایا اور بعدازاں صدرپاکستان بنایا۔ چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم جو نوازشریف کے دور میں 2015 میں چیف جج گلگت بلتستان کے طور پر تعینات ہوئے اور اسکے بعد وہ اچانک نمودار ہوئے اور نوازشریف کے حق میں ایک حلف نامہ سامنے لایا گیا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزام لگائے کہ وہ نوازشریف اور مریم نواز کی رہائی نہیں چاہتے تھے۔ رانا شمیم کے بیٹے نے شریف فیملی کی قربتوں کا بھی اعتراف کیا تھا۔ جج اعجازاعوان جنہوں نے شہبازشریف کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بری کیا تھا انہیں شہبازشریف نے ریٹائرمنٹ کے بعد انفارمیشن کمشنر تعینات کردیا تھا۔ اسی طرح سابق جج خلیل الرحمان رمدے پر بھی ن لیگ نے بہت نوازشات کیں اور انکے بھائی کو کئی بار ن لیگ کا ٹکٹ دیا ۔ عمران خان نے 2013 میں خلیل الرحمان رمدے پر سرکاری مشینری کیساتھ ملکر دھاندلی کے الزامات بھی لگائے تھے۔ اسی طرح سیشن کورٹ، جوڈیشل مجسٹریٹس کی عدالتوں کے ججوں اور مجسٹریٹس کی لمبی فہرست ہے جنہیں شریف خاندان نے نوازا۔
عمران خان کی مقبولیت کے باعث پی ڈی ایم الیکشن روکنا چاہتی ہے۔تمام وہ سیاسی جماعتیں جن کے اکابرین نے آئین پاکستان پر دستخط کر رکھے ہیںاور وہ موجودہ اتحادی حکومت میں شامل ہیں: مصطفی نواز کھوکھر نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان سینئر صحافی کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ اس وقت حالات دیکھ کر لگ رہا ہے کہ سب مل کر الیکشنز روکنے کی کوشش کررہے ہیں جس پر بلاول بھٹو زرداری کے سابق ترجمان وسینیٹر پی پی پی مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے خوف کی وجہ سے انتخابات کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ جب دیکھتا ہوں کہ تمام وہ سیاسی جماعتیں جن کے اکابرین نے اس آئین پاکستان پر اپنے دستخط کر رکھے ہیںاور وہ موجودہ اتحادی حکومت میں بھی شامل ہیں، ایسے لوگ پریس کانفرنسز کر کے کہیں کہ 90 دنوں میں انتخابات نہ ہونے سے کون سی قیامت آ جائے گی تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام اشخاص کے اکابرین نے آئین پاکستان پر دستخط کیے اور آپ نے ساری زندگی قوم کے سامنے آئین وجمہوریت بیچتے رہے اور آج آپ کہتے ہیں کہ ہاں آئین کی فلاں شق پر عملدرآمد نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، اس سے کیا مثال قائم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ملک کی تاریخ دیکھیں تو آئین پاکستان کو لوگ کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے رہے ہیں، ایسے میں سیاستدان ایسی مثال قائم کریں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے، انہی وجوہات کی بنا پر معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ایک سوال کہ جواب پر کہا کہ واضح طور پر بتا رہا ہوں میرا پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

Back
Top