سیاسی

کیا تحریک انصاف ٹکٹوں پر نظرثانی کرتے ہوئے بلنڈر کربیٹھی؟ مظفرگڑھ، ساہیوال سے پی ٹی آئی سپورٹرز نے ٹکٹوں پر سخت ردعمل ظاہر کردیا۔ تحریک انصاف نے 30 حلقوں پر نظرثانی کرنے کے بعد ٹکٹس جاری کردئیے ہیں۔ تحریک انصاف نے مظفرگڑھ، ساہیوال، پاکپتن، راولپنڈی، سرگودھا اور دیگر علاقوں میں ٹکٹس تبدیل کئے ہیں۔ ٹکٹس کی تبدیلی کے بعد سب سے زیادہ شور مظفرگڑھ اور ساہیوال میں ٹکٹ تبدیل ہونے پر پڑا ہے۔ مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے ایک ٹکٹ ٹھیک کرتے ہوئے باقی ٹکٹس غلط دیدئیے۔ اس کی مثال انہوں نے کچھ یوں دی کہ پی پی 269 میں پیر مزمل جعفر ایک اچھا امیدوار تھااسکی جگہ تحریک انصاف نے احسان الحق نامی شخص کو دیدیا جس کا ذاتی ووٹ بنک موجود نہیں۔ دوسرا پی پی 271 جہاں سے تحریک انصاف کا امیدوار نیاز گشکوری 2018 میں جیتا ہوا تھا، اسکا ٹکٹ تبدیل کردیا گیا اور ایک خاتون نادیہ کھر کو ٹکٹ دیدیا گیا جو انتہائی کمزور امیدوار سمجھی جارہی ہیں جبکہ نیازگشکوری ایک مضبوط امیدوار تھے اور باآسانی یہ سیٹ جیت سکتے تھے۔ پی پی 272 میں ٹکٹ اجمل چانڈیہ جیسے مضبوط امیدوار کو ملنے کا امکان تھا لیکن اسکی جگہ جام یونس کو ٹکٹ دیدیا گیا ، جام یونس جمشید دستی کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح پی پی 273 جہاں سے تحریک انصاف نے اقبال پتافی کو ٹکٹ دیا تھااس سے ٹکٹ لیکرعمران دھنتور نامی شخص کو دیدیا گیا۔ اقبال پتافی نے آزادامیدوار کے طور پر 30 ہزار سے زائد ووٹ لیا تھا لیکن صرف 4000 ووٹوں کے فرق سے ہار گیا تھا اسی طرح پی ٹی آئی کارکنوں کے مطابق تحریک انصاف نے ساہیوال میں بھی بلنڈرز کئے ہیں جہاں پی پی 197 میں رانا آفتاب کی بجائے شکیل نیازی کو ٹکٹ دیدیا گیا، پی پی 198 میں محمد دمرہ اور پی پی 201 میں میجر ریٹائرڈ غلام سرور کو ٹکٹ دیدیا ہے۔ جبکہ مزید کئی حلقوں پر بھی تحریک انصاف نے اعتراضات اٹھائے ہیں، تحریک انصاف کے سپورٹرز کے مطابق کچھ لوگوں نے مال بنانے کے چکر میں سفارشیوں کو ٹکٹس دلوادئیے ہیں۔ عمران خان نے جو ٹکٹس دئیے تھے وہ ٹھیک تھے لیکن بعض لوگوں نے مال بنانے اور اپنے سفارشیوں کو ٹکٹس دینے کیلئے یہ سیٹیں پلیٹ میں رکھ کر ن لیگ اور پی پی کو تھمادی ہیں۔ پی ٹی آئی سپورٹز کے مطابق پی پی 276 میں معظم جتوئی، پی پی 185 میں سلیم صادق کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ ٹھیک ہے
آڈیو لیکس کے معاملے پر سینئر تجزیہ کاروں نے اہم سوالات اٹھادیئے ہیں،کہا کہ یہ لیکس کس نے اور کیوں کی، ان لیکس سےسپریم کورٹ اوراداروں کی لڑائی ظاہر ہوتی ہے؟ تفصیلات کے مطابق 92 نیوز کے پروگرام" بریکنگ ویوز ود مالک" میں شامل سینئر تجزیہ کاروں سے یہ مبینہ طور پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی ساس اور پی ٹی آئی کے وکیل کی اہلیہ کی مبینہ آڈیو لیکس کا معاملہ زیر بحث آیا، اس موقع پر میزبان محمد مالک نے سینئر تجزیہ کاروں سے آڈیو لیکس کے محرکات پر بات کی۔ سینئر صحافی و اینکر کاشف عباسی نے اس معاملے پر تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلا بنیادی سوال یہی ہے کہ پتا چلایا جائے کہ فیلڈنگ کس نے لگائی، کس نے فیصلہ کیا کہ ساس کا فون ٹیپ کرنا ہے، کس نے فیصلہ کیا کہ ریکارڈ کی گئی کال کو استعمال کرنا ہے، کس نے ٹی وی چینلز کو فون کرکے کہا کہ یہ ریکارڈنگز چلاؤ۔ کاشف عباسی نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے ججزاس معاملے کو سیئریس لے رہے ہیں تو میں یاآپ کون ہوتے ہیں، پہلے بھی ایک لیک آئی تو انہوں نے سورس نہیں پوچھا اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی بات کی، میرے نزدیک وہ معلومات سامنے لانے والا ایک ہیرو ہے جو معلومات میرے پاس نہیں ہیں۔ کاشف عباسی نے کہا کہ آج جو اس آڈیو لیک کا سورس پوچھ رہے ہیں کل جب ایسی کوئی لیک آئی گی جو انہیں سیاسی طور پر سوٹ کرتی ہوگی تو وہ اس کا ذریعہ نہیں پوچھیں گے بلکہ کہیں گے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار سعید قاضی نے کہا کہ ہم اس پر بات کیوں نہیں کررہے کہ یہ غیر قانونی حرکت کس نے کی ؟ جج صاحب کو ہم نے کٹہرے میں کھڑا کردیا مگر دو خواتین کی نجی گفتگو کی آڈیو لیک کرنے والے کا کوئی پتا نہیں، عمران خان کی مخالف جماعتوں کی خواتین کے مابین جو مذہبی، سیاسی یا دیگر معاملات پرہونے والی گفتگو کی آڈیو بھی کوئی لیک کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ یہ آئین و قانون کی بات کرتے ہیں، یہ ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہے جس میں سے دو ستون مل کر ایک ٹانگ کو توڑ رہے ہیں، عقل کرو پوری عمارت ان تینوں ستونوں پر کھڑی ہے، عدالت کے اندر یہ تقسیم کس نے ڈالی ہے؟ ملک قیوم کو کس نے ان عدالتوں میں گھسایا ہے؟
کیا واقعی عمران خان نے کہا ہے کہ انہوں نے اسمبلیاں جنرل باجوہ کے مشورے پر توڑیں؟ جیو نیوز نے یہ خبرچلائی کہ عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے اپنی صوبائی حکومتیں جنرل باجوہ کے مشورے پر گرائیں حالانکہ عمران خان نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ اے آروائی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انکے سارے لیڈرزانکے بیانات ہیں کہ اگر آپ الیکشن چاہتے ہیں تواپنی حکومتیں گرادیں، مریم نواز ، خاقان عباسی، انکے تین چار مین لیڈرز یہ کہتے رہے کہ الیکشن چاہئے تو اپنی حکومتیں گرادیں۔ اسکے بعد عمران خان کہتے ہیں کہ جب جنرل باجوہ سےمیری ملاقات ہوئی تو اس نے بھی کہا کہ اگر الیکشن چاہتے ہیں تو اپنی حکومتیں گرادیں، ہم نے اپنی حکومتیں گرادیں۔ لیکن جیو نے صرف جنرل باجوہ کا نام لیا اور یہ نہیں بتایا کہ ن لیگ کے لیڈرز کیا کہتے رہے۔ اس پورے کلپ میں عمران خان نے کہیں نہیں کہا کہ اس نے جنرل باجوہ کے مشورے پر حکومتیں توڑیں۔ جنرل باجوہ اکتوبر میں ریٹائر ہوئے تھے اور عمران خان نے صوبائی حکومتیں جنوری میں گرائیں لیکن جنرل باجوہ کے ریٹائر ہونے کے تین ماہ بعد ۔۔ دوسرا عمران خان نے جنرل باجوہ سے جس ملاقات کا حوالہ دیا تھا وہ اگست 2022 میں ایوان صدر میں عارف علوی کی موجودگی میں ہوئی تھی اور تحریک انصاف نے حکومتیں جنوری یعنی 6 ماہ بعد گرائی تھیں۔ جیو کے صحافی 8 سیکنڈ کا کلپ شئیر کرکے گمراہ کرنیکی کوشش کررہے ہیں جبکہ تحریک انصاف نے مکمل کلپ شئیر کرکے جیو اور اسکے صحافیوں کا پروپیگنڈا بے نقاب کردیا۔
ڈان اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ طاقتور حلقوں یعنی اسٹیبلشمنٹ نے ن لیگ کو یقین دلایا تھا کہ پنجاب میں الیکشن نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے ن لیگ نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دئیے۔ اخبار کے مطابق ن لیگ کے امیدواروں کی جانب سے پارٹی ٹکٹ نہ جمع کرانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو پارٹی کے پاس دو راستے ہوں گے، یا تو اس عمل کا بائیکاٹ کرے یا امیدواروں کو اپنی حمایت کے ساتھ آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کے لیے کہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے خواہشمند امیدواروں کہا کہ چونکہ مئی میں پنجاب کے انتخابات مشکوک لگ رہے ہیں اس لیے انہیں پارٹی ٹکٹوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ نام نہ بتانے کی طرف سے ایک اندرونی فرد نے بتایا کہ شریف برادران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس بات کی ’مکمل ضمانت‘ ملنے کے بعد انتہائی پراعتماد ہیں کہ اگلے ماہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ن لیگ کو ذرا سا بھی یقین ہوتا کہ الیکشن ہوں گے تو وہ اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی وفاقی کابینہ نے ایک رکن نے بتایا کہ حکمران اتحاد صرف ایک صوبے میں ہونے والے انتخابات کو روکنے کے لیے کسی بھی قربانی کے لیے تیار ہے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ نے الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا، اگر ن لیگ بائیکاٹ کرتی تو اپنے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کا کہتی۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی بھی جنوبی پجاب سے اپنے امیدواروں کا اعلان کرچکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے پی پی186 اوکاڑہ سے ملٹری زمینوں کے تنازعہ کی وجہ سے طویل عرصہ جیل میں گزارنے والے مہر عبدالستار کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی 297 جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کر دیئے گئے ہیں۔ پنجاب کے چاروں ریجنز میں اپیل کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جہاں ٹکٹوں کے اجراء کے فیصلوں پر نظرثانی کیلئے اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کی جانب سے متعدد دیرینہ کارکنوں کو ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا تاہم بہت سے نئے چہرے بھی میدان میں اتارے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، 8 خواتین امیدوار بھی جنرل نشستوں پر انتخاب لڑیں گی، کسی امیدوار کی ٹکٹ کے خلاف اپیل پر حتمی فیصلہ عمران خان خود کریں گے۔ تحریک انصاف کی طرف سے پی پی 186 اوکاڑہ سے مہر عبدالستار کو تحریک جاری کیا گیا ہے، وہ ملٹری زمین کے تنازع میں کافی عرصہ جیل میں قید رہ چکے ہیں جبکہ ان کے وکلاء میں عابد بخاری، مرحوم زاہد بخاری اور مرحومہ عاصمہ جہانگیر جیسے سینئر ایڈووکیٹس ودیگر شامل رہے تھے۔ مہر عبدالستار 12 ستمبر 2020ء کو آخری مقدمے میں بری ہوئے تھے جس کے بعد انہیں رہائی ملی تھی۔ مہر عبدالستار کو اپریل 2016ء میں گرفتار کیا گیا اور دہشت کا مقدمہ چلنے کے بعد 10 سال قید کی سزا ملی تھی جس کے بعد ہائی سکیورٹی جیل میں قید رہے۔ ان پر الزام تھا کہ سڑک بلاک کر کے پولیس اہلکار پر فائرنگ کی جبکہ 2001ء سے 2016ء کے درمیان 36 مقدمات درج کیے گئے۔ بنیادی طور پر یہ 5000 ایکٹر کا تنازعہ ہے،مزارعین کا کہنا ہے کہ برٹش فوج نے اس پر قبضہ کیا اور پاکستان بننے کے بعد اس جگہ کا قبضہ پاک فوج کے پاس چلا گیا،اب تک اس تنازعہ پر ہزاروں لوگوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج ہوچکے ہیں،13 لوگ قتل ہوئے درجنوں زخمی ہوچکے۔ صحافی محمد عمیر کے مطابق 2014 میں حالات اتنے بگڑے کے فوج کو اس جگہ کے قبضہ کے لیے ٹینک نکالنے پڑے،متعدد حکمران ملکیت واپس دلوانے کا نعرہ لگاچکے مگر نعرے فقط نعرے رہے،مہر عبدالستار یہاں کی مزارعین کی انجمن کے جنرل سیکرٹری ہیں ان پر دہشت گردی کے متعدد مقدمات درج ہیں وہ ان کیسز میں کافی عرصہ جیل میں بھی رہے۔ انکے مطابق 75 سال یہ لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑرہے۔انجمن مزارعین کی آواز بننے والے متعدد صحافیوں پر بھی مقدمات درج ہوئے اور انہوں نے جیلیں بھی کاٹی نیشنل کمیشن آف ہیومن کی طرف سے اوکاڑہ ملٹری فارمز پر حتمی نتائج جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ مزارعین کو زمینوں کی ملکیت ملنے تک پاکستان کی فوج کو گندم کا حصہ دینا ہو گا۔ حکم نامے کے مطابق مزارعین کو ہراساں کرنے سے منع کرتے ہوئے فوجداری مقدمات واپس لینے کا کہا گیا تھا۔ مہرعبدالستار نے 2022 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، اسی حلقے سے عبداللہ طاہر نامی پی ٹی آئی رہنما بھی مضبوط امیدار ہے جو 2018 میں معمولی مارجن سے ہارگیا تھا لیکن تحریک اںصاف نے عبداللہ طاہر پر مہرعبدالستار کو ترجیح دی۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے جمشید دستی کو بھی تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹ جاری کیا گیا ہے جبکہ سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی پی پی 34سے اور عثمان بزدار پی پی 286سے صوبائی اسمبلی سے امیدوار ہوں گے۔ 11 نشستوں پر ابھی تک امیدوارں کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ مسلم لیگ ن واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ باقی نہیں ہے۔ جی این این کے پروگرام خبر ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ایک طرف میاں نواز شریف اور مریم نواز کا گروہ ہے جبکہ دوسری طرف شہباز شریف اور پارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں کا گروہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کو امیدواروں کی تلاش میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے ، سینئر پارٹی رہنماؤں نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر قیادت کا یہی رویہ رہا کہ عدلیہ اور ریاستی اداروں پر حملے برقرار رہے تو ہم اپنے حلقوں میں نہیں جاسکیں گے، ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران ملک کو جو معاشی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ہم انتخابات نہیں لڑسکیں گے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ یہ کڑوا سچ ہے کہ مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت ہے، حمزہ شہباز شریف جب سے واپس آیا ہے اس نے ایک بیان نہیں دیا، اگرن لیگ کو واقعی متحرک کرنا ہے تو حمزہ شہباز کو باہر لانا ہوگا، حمزہ کو کس بات کا غصہ ہے سب کو معلوم ہے، جب انہیں وزارت اعلی سے ہٹایا گیا تو سب سے زیادہ جشن کس نے منایا آپ کو نہیں معلوم؟ انہوں نے کہا کہ کس وجہ سے مریم نواز شریف کو پارٹی کا سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا، مریم نے اس عہدے پر آتے ہی حمزہ شہباز کے سارے بندے باہر پھینک دیئے، حمزہ شہباز شریف نے شروع سے ہی آن گراؤنڈ سیاست کی ہے جبکہ مریم نواز نے صرف سوشل میڈیا کی سیاست کی ہے۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے تو انتخابات ہی نہیں کروانے ، یہ نا سپریم کورٹ کو کچھ سمجھتے ہیں نا ہی آئین کو ، اگر مسلم لیگ ن کی قیادت مریم نواز نے ہی کرنی ہے تو انہیں پنجاب میں 30 فیصد نشستوں پر بھی امیدوار نہیں ملیں گے، پیپلزپارٹی بھی بہت بڑی جماعت تھی، ذولفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کی ٹکٹ بجلی کے کھمبے کو مل جاتی تھی تو وہ بھی جیت جاتا تھا، پھر اس پیپلزپارٹی کا لاہور سے کیا حشر ہوا؟
ایف 8 کچہری جہاں عمران خان کا توشہ خانہ کیس زیرسماعت ہے اور عمران خان نے متعدد بار توشہ خانہ کیس سننے والے جج ظفر اقبال اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے درخواستیں دی تھیں کہ انکا کیس ایف 8 کچہری میں نہ سنا جائےکیونکہ یہاں انکی جان کو خطرہ ہے لیکن ہر بار انکی درخواست مستردکی جاتی رہی۔ جان کے خطرہ کے پیش نظرعمران خان توشہ خانہ کیس میں پیش نہ ہوئے اور درخواست کرتے رہے کہ انکا کیس جوڈیشل کمپلیکس میں سناجائے تو جج ظفراقبال نے انکے وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے جس کے بعد زمان پارک کے بعد جو ہوا سب نے دیکھا کہ کیسے عمران خان کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس فورس کا استعمال کیا گیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ایف ایٹ کچہری میں زیر حراست ملزم فائرنگ سے ہلاک کردیا گیا جس کی وجہ سے کچہری میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔ اگرچہ پولیس نے فائرنگ کرنیوالے شخص کو تو پکڑلیا لیکن اس نے واردات انتہائی آسانی سے سرانجام دی۔ یادرہے کہ ایف 8 کچہری وہ مقام ہے جہاں دو خودکش حملے ہوچکے ہیں۔مارچ 2014 میں دہشتگردوں کے ایف 8 کچہری میں خود کش حملے میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان سمیت 11افراد جاں بحق اور 35 سے زائد زخمی ہو گئے۔ صدیق جان نے بھی ایف 8 کچہری پر شو کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کیسے دہشتگردوں کیلئے ہدف کو نشانہ بنایا یہاں آسان ہے، صدیق جان نے بتایا تھا کہ یہاں لوہے کی چادروں سے دیواریں بنائی گئی ہیں جنہیں عبور کرکے کسی کو بھی نشانہ بناناانہتائی آسان ہے۔ اسکے ساتھ ہی ایک پرائیویٹ پلازہ ہے جہاں سے کوئی بھی ہدف کو آسانی سے نشانہ بناسکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرنیوالے قادر پٹیل کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور معافی مانگ لی اپنے وضاحتی ویڈیو پیغام میں قادرپٹیل کا کہنا تھا کہ ائیرپورٹ پر مجھے یہ تاثر مل رہا تھا کہ کوئی زیادہ معتبر ہے یا چھوٹا ہے، میں نے اس پر بات کی تھی لیکن وہ بات تفصیل سے ہوگئی۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایسے لوگوں کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے ہے اور وہ حاضر سروس ہیں۔ انہون نے مزید کہا کہ ہمارا اصولی موقف رہا ہے کہ سیکیورٹی ادارے ہمارے کل کیلئے اپنا آج قربان کررہے ہیں۔وہ قومی دفاع میں فرنٹ لائنرز ہیں اورانکی شہادتیں بھی بہت ہوئی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ انہیں بھی بھرپورسیکیورٹی ملے۔ قادرپٹیل کا کہنا تھا کہ میں نے جس واقعے کی بات کی تھی اسکا غلط تاثر گیا اور اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔میرا کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا، روانی میں جو دو چارباتیں ہوئی ہیں جو کسی کی دل آزادی کا باعث بنی ہیں یا اسکا تاثر کچھ اور گیا ہے تو میرا ہرگز مطلب یہ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ کچھ روز قبل قادرپٹیل نے کہا تھا کہ جج 20 لاکھ تنخواہ لیکر آئین توڑرہے تھے، جرنیل 50، 50 لاکھ تنخواہ لیکر گالف کھیل رہے تھےمفتی روڈ پرلاوارث مرا پڑا تھا،پولیس والوں کو پتہ نہیں تھا کہ یہ کوئی وزیر ہے۔ قادرپٹیل کی معافی کی بنیاد ڈی جی اے ایس ایف سے متعلق بیان تھا جس میں انکا کہنا تھا کہ میں اور شازیہ مری ایئرپورٹ پر موجود تھے ، 25 تیس آدمی آئے، کوئی ادھر دروڑرہا ہے کوئی ادھر دوڑرہا ہے، ہم پریشان ہوگئے کہ خدا خیر کرے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پھر ہمیں پتہ چلا کہ کوئی آرہا ہے، ہم پریشان ہوگئے کہ یہ کون ہے، نہ یہ صدر ہے نہ وزیراعظم ہے بعدمیں پتہ چلا کہ وہ ڈی جی ایے ایس ایف تھے۔ ڈی جی اے ایس ایف کے آنے پر ہمیں دھکے مارے گئے ۔ اسکا پروٹوکول صدر اور وزیراعظم سے کم نہیں تھا۔ واضح رہے کہ موجودہ ڈی جی اے ایس ایف تھری سٹار جنرل نہیں بلکہ میجر جنرل ہیں جنہیں سویلین سمجھ کر قادرپٹیل ان پر گولہ باری کرتے رہے لیکن بعد میں احساس ہونے یا احساس دلانے پر معافی مانگ لی۔
نجی چینل اے آروائی کے صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق فضل الرحمان کی مذاکرات کی مخالفت کو نون کےمخصوص گروپ کی حمایت حاصل ہے۔ اے آروائی کے ذرائع کے مطابق نون کےچند سینئررہنماوں نے پس پردہ مولانا فضل الرحمان کو مذاکرات کی مخالفت کامشورہ دیا۔ مخالفت والوں کو نوازشریف کی سپورٹ حاصل ہےجبکہ نون کا دوسرا گروپ پیپلزپارٹی کےذریعےمذاکرات کا ھامی ہے۔ لیگی رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ مذاکرات سےقبل عمران خان سےچندگارنٹیاں چاہتےہیں نعیم اشرف بٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو ن لیگ کے کچھ بڑوں نے کہا ہے کہ آپ مذاکرات کی مخالفت میں اس وقت تک ڈٹے رہیں جب تک عمران خان سے کچھ گارنٹیاں نہ لے لیں۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کو خدشہ ہے کہ الیکشن کے بعد عمران خان کی حکومت آتی ہے تو ان پر سختیاں نہ آئیں۔جے یو آئی ف کے ایک رہنما نے بھی تصدیق کی ہے کہ پس پردہ مولانا فضل الرحمان کو ن لیگ کے ایک گروپ نے آنکھ ماری ہوئی ہے۔ ن لیگ کا ایک گروپ کہہ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے ذریعے عمران خان سے مذاکرات کئے جائیں، جب مذاکرات ہونگے تو پھر گارنٹیاں بھی آجائیں گی۔
تحریک انصاف سے مذاکرات پر پیپلزپارٹی اور حکومتی اتحادیوں میں اختلافات۔۔ اجلاس بے نتیجہ ختم تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز تحریک انصاف سے مذاکرات کے سلسلے میں حکومتی اتحادیوں کے اجلاس میں بلاول کے موقف سے اختلاف کیا گیا اور کسی قسم کا اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا جس کی وجہ سے اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق جے یو آئی (ف) اور شاہ زین بگٹی نے عمران خان سے مذاکرات کی شدید مخالفت کی جبکہ باقی جماعتوں نے حمایت کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں شریک شاہ زین بگٹی نے کہا ہم ڈائیلاگ کے عمل کے مخالف نہیں تاہم عمران خان ایک جھوٹا انسان ہے، جو بھروسے کے لائق نہیں ۔۔یادرہے کہ شاہزیب بگٹی کی جماعت صرف ایک سیٹ رکھتی ہے۔ اجلاس میں شریک جے یو آئی (ف) کے رہنما نے مذاکرات کے حوالے سے بلاول کے مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا عمران خان کوئی سیاسی قوت نہیں، ڈائیلاگ کی مخالفت کرتے ہیں۔ بلاول زرداری کے مؤقف کی ایم کیوایم، اخترمینگل کی بی این پی ،خالد مگسی کی بلوچستان عوامی پارٹی اور ق لیگ نے حمایت کی جبکہ اے این پی بھی کسی حدتک حامی نظرآئی، اجلاس میں شریک وفاقی وزیر اور ق لیگ کے رہنما چودھری سالک اور محسن داوڑ سمیت دیگر نے بھی مؤقف کی تائید کی۔ ہم نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اس موقع پر کہا بات چیت کے دروازے بند کرلینا غیرجمہوری اور غیرسیاسی ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ڈائیلاگ کا راستہ اختیارکر کے ملک کو بحران سے نکالا جائے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی اتحادیوں کا اجلاس اختلاف رائے کے بعد بے نتیجہ ختم ہو گیا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ اعلی عسکری قیادت کی چیف جسٹس آف پاکستان سے اہم ملاقات کے بعد بازی پلٹ گئی ہے ، حکومتی صفوں میں ماتم بچھ گئی ہے۔ جی این این کے پروگرام "خبرہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عار ف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ یاتو سپریم کورٹ و آئین دفن ہوگا یا موجودہ حکمرانوں کی ضد دفن ہوگی، گزشتہ روز عسکری قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک اعلی سطحی وفد سپریم کورٹ پہنچا، اس وفد میں بہت سے لوگ شامل تھے جن میں سے چند اہم لوگ اندر گئے۔ انہوں نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز نے اس ملاقات میں ایک ہی موقف اپنایا کہ 1965 کی جنگ کا ماحول ہو یا کچھ اور آج تک ملک میں انتخابات ملتوی نہیں ہوئے، الیکشن کروانا آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد حکومتی صفوں میں تھوڑا ساماتم بچھ گیا ہے، کیونکہ نہایت ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز ابھی تک آئین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں، اسٹیبلشمنٹ جن سے متعلق مبینہ طور پر کہا جارہا تھا کہ سردیوں میں سیکیورٹی دی جاسکتی ہے گرمیوں میں سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن اگر 14 مئی کو نہیں ہو تو اس کے بعد ہونا مشکل ہے، اس حوالے سے عمران خان کو بھی انگیج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کیونکہ عمران خان کی جیب میں بھی کچھ کھوٹے سکے ہیں جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ انتخابات ملتوی کروائے جائیں، پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کا طاقتور حلقوں سے مکمل رابطہ بھی ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمان تحریک انصاف سےمذاکرات میں رکاوٹ بن گئے اور وہ اپوزیشن سےمذاکرات کیلئے راضی نہیں ہورہے۔ پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمان کی رکاوٹ کو دور کرنےکےلیےپہلےدیگرجماعتوں سےرابطےشروع کیے۔اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کا رابطہ اخترمینگ اور محسن داوڑسےہوا۔ آج پیپلزپارٹی کے وفد کی ایم کیوایم، اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اور ق لیگ سے بھی ملاقاتیں ہونگی ، جب یہ جماعتیں راضی ہوجائیں گی تو پھر جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما کے مطابق حکومتی اتحادی جماعتوں سے مثبت سگنل ملے ہیں، جب یہ تمام جماعتیں راضی ہوجائیں گی تو پھر مولانا فضل الرحمان کیلئے رکاؤٹ ڈالنا آسان نہیں ہوگا اور وہ اکیلے رہ جائیں اور ممکن ہے کہ ن لیگ کا ایک دھڑا ہی مولانا فضل الرحمان کا ساتھ دے
پنجاب اسمبلی کے سابق رکن جلیل شرقپوری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان کو پاکستان میں کسی ادارے کی طرف سے سکیورٹی نہیں ملے گی وہ پاکستان سے چلے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ملک میں الیکشن دوسال تک بھی ہوں، ملک کو ہر طرح کے بحرانوں میں دھکیل دیا گیا ہے لوگوں کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہورہی، قومی خزانہ تباہ کردیا گیا ہے۔ سابق رکن اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ اداروں میں مزید تقسیم نہ کی جائے پاکستان کو عراق لیبیا کی طرح برباد کیا جارہا ہے، چیئرمین تحریک انصاف پر جعلی مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کا مذاق بنایا جارہا ہے جبکہ سپریم کورٹ توہین عدالت بھی نہیں لگا رہی۔۔ دوسری جانب سندھ کے سابق گورنر اور پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل نے دعویٰ کیا حکومت نے عید کی چھٹیوں کے دوران عمران خان کو گرفتار کرنے کا پلان بنایا ہے۔ اپنے ایک بیان میں عمران اسماعیل نے کہا پی ٹی آئی کیخلاف پروپیگنڈا کرنا حکومت کا وطیرہ ہے، پی ٹی آئی کے طوفان کو روکنے کے لیے لندن پلان پر عمل کیا جارہا ہے جبکہ عید کی چھٹیوں کے دوران عمران خان کی گرفتاری کا پلان بھی تیار کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی کارکن وقاص امجد کو لاپتہ ہے، مبینہ اغوا سے قبل وقاص امجد کو دھمکی آمیز کال موصول ہوئی تھی وقاص امجد نے 13 اپریل کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نمبر بھی شئیر کیا تھا اور کہا تھا کہ ابھی اس نمبر سے کال آئی ہے۔۔ دھمکیاں لگا رہا تھے جناب وقاص امجد کامزید کہنا تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آیا کے کال بھارت سے کیوں آئی ہے؟؟ اس پر ایک سوشل میڈیا صارف ریحان نے سوال کیا کہ بولنے والے کا لہجہ انڈین تھا یا پاکستانی؟ جس پر وقاص امجد نے کہا کہ دیسی ساتھا، بھارتی نہیں تھا۔ وقاص امجد کی رہائی کیلئے زمان پارک کے باہر بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔پی ٹی آئی کارکن شرم کرو حیا کرو وقاص امجد کو رہا کرو کے نعرے لگاتے رہے۔ واضح رہے کہ وقاص امجد نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ گراؤنڈ پر بھی تحریک انصاف کے متحرک کارکن ہیں۔ 2018 کےالیکشن کے دوران وقاص امجد شفقت محمود اور میاں محمودالرشید کیلئے ڈوٹوڈور کمپین کیلئے پیش پیش رہے۔ وقاص امجد تحریک انصاف کے ہر ایونٹس میں شریک ہوتے ہیں جبکہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
نئے وزیراعظم آزادکشمیر کے انتخاب سے قبل ہی تحریک انصاف مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بیرسٹر سلطان محمود سمیت 6 ارکان غیر حاضر تھے۔فارورڈ بلاک اور بیرسٹر سلطان گروپ نے اپوزیشن سے وزارت عظمیٰ کی صورت میں مشروط تعاون کی پیشکش کر دی۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سلطان محمود کا پیپلزپارٹی سے معاہدہ ہوگیا ہے کہ ان کا نامزد شخص وزیراعظم کا امیدوار ہوگا جبکہ بیرسٹرسلطان کی بلاول سے ملاقات کا بھی دعویٰ کیا جارہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق آج سہ پہر 2بجے قانون ساز اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، جس میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب کا امکان ہے۔ اپوزیشن نے 30 اراکین کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے جب کہ پی ٹی اراکین کی مدد کے بغیر حکومت سازی نہیں جا سکتی ۔ دوسری جانب بیرسٹر سلطان کے علیحدہ ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کے پاس ارکان کی تعداد 25 رہ جاتی ہے لیکن جے کے پی پی اور مسلم کانفرنس کا ایک ایک ووٹ تحریک انصاف کا وزیراعظم منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
تجزیہ کار سعد رسول نے کہا ہے کہ اس ایک سال کے عرصے میں حکومت تبدیلی سے متعلق کرداروں کے بہت سے پردے اترے ہیں، اللہ تعالی سے معافی مانگنی چاہیے۔ دنیا نیوز کے پروگرام اختلافی نوٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سعد رسول کا کہنا تھا کہ جس وقت عمران خان کی حکومت میں جب اپوزیشن مہنگائی کی بات کرتی تھی تو ان کے پاس کوئی سیاسی لائحہ عمل نہیں تھا، نا ہی مہنگائی ان کیلئے اصل مسئلہ تھا، تاہم اس وقت عمران خان صاحب کا سیاسی بیانیہ یہ تھا کہ یہ لوگ اپنی کرپشن بچانے کیلئے اکھٹے ہورہے ہیں۔ انہوں نےمزید کہا کہ عمران خان کے بیانیے کی تائید کرنے والے بھی یہ قیاس آرائیاں کرتے تھے تاہم انہیں اس حوالے سے سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا، اس وقت جو مہنگائی کی شرح 12،13 فیصد زیادہ لگتی تھی اس حکومت کے ایک سال کے آخر میں 50 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ تجزیہ کار نےکہا کہ اس عرصے میں حکومت نے این آر او کے ذریعے نیب سے اپنے کیسز ختم کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کا فیصلہ کیا، نواز شریف کو ایک اپیل کا حق دینے کی کوشش کی گئی، عمران خان کو نااہل کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم قیاس آرائیاں تو کرتے تھے کہ یہ لوگ عمران خان کے خلاف اکھٹے ہورہے ہیں مگر ضمیر کی ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی تھی کہ لیفٹ اور رائٹ ونگ کی جماعتیں ایک ساتھ نہیں چل سکیں گی، مگر ایسانہیں ہوا ۔
حکومت کے بڑے ڈرے ہوئے ہیں، پہلے انہیں منایا جائے کہ آپ دل سے ڈر، خوف نکال لیں کچھ نہیں ہوتا:ایازامیر نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام تھنک ٹینک میں پاکستان کو چائنہ سے 30 کروڑ ڈالرز موصول ہونے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی سیاسی بحران ختم کرنے کی کوششوں اور مولانا فضل الرحمن کے بیان کہ ہم عمران خان سے مذاکرات نہیں کر سکتے، وہ ملکی سیاست کے غیرضروری عنصر ہیں" پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار ایاز امیر کا کہنا تھا کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت 30 کروڑ ڈالرز ملنے پر خوشیاں منا رہی ہے، ہمارے ملک کا یہ حال ہو چکا ہے۔ سراج الحق کے سیاسی بحران کم کرنے کی کوشش کے کے حوالے سے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ کوئی تو کوششیں کر رہا ہے۔ صرف حکومت والوں کا مسئلہ ہو تو وکلاء یا کوئی بڑا جا سکتا ہےلیکن مسئلہ حکومت کے بڑوں کا ہے۔ صرف حکومت نہیں ڈری ہوئی بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے، مولانا فضل الرحمن کی میراث کا وہاں سے صفایا ہو چکا ہے۔ عمران خان نے پتہ نہیں کیا کیا ہے کہ خیبرپختونخوا 2 سے 4 لوگ رہ گئے ہیں جو پرچم لہرا رہے ہیں جن میں سے ایک مولانا فضل الرحمن، امیر مقام کے علاوہ کوئی پٹھان قوم میں نظر نہیں آتا۔ حکومت کے بڑے ڈرے ہوئے ہیں، پہلے انہیں منایا جائے کہ آپ دل سے ڈر، خوف نکال لیں کچھ نہیں ہوتا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا جو ماحول اس وقت بن چکا ہے پہلے کبھی بھی نہیں تھا، ججز کب مشکلات کھڑی کیا کرتے تھے؟ عدالتیں کب کسی کیلئے رکاوٹ بنتی تھیں ؟ عوام کب کسی کیلئے رکاوٹ بنیں لیکن ماحول بالکل بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنہوں نے کھڑے نہیں ہونا تھا وہ کھڑے ہیں، جن کی زبان بندی ہوتی تھی ان کی بھی زبانیں کھل چکی ہیں، جن کی آنکھوں پر پردے تھے وہ ہٹ چکے ہیں، جن پر جملہ کسنے کیلئے بڑے بڑے طرم خان بھی گھوم پھر کر آتے تھے، ڈائریکٹ بات ہوتی نہیں تھی۔ صرف پختون قوم نہیں بلکہ پوری پاکستانی عوام کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے؟ سارا ماحول ہی بدل گیا ہے۔ڈالے ہمارے، ڈالوں میں سارے نامعلوم بھی ہمارے پھر بھی کوئی بات نہیں ہو رہی۔ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ ایسا پہلے زمانوں میں کہاں ہوتا تھا؟ اور یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں، ہمیں یاد ہے مرد مومن، مرد حق جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کون کون کھڑا تھا، اب بتا نہیں سکتے ہماری زبان بند ہے۔ مشرف کا زمانہ بھی ویسا نہیں تھا، اس سے پہلے ہم نے بنگالیوں کا مزاج درست نہیں کیا تھا۔ہمارا صوبہ جس نے وفاداری کا پرچم صدیوں اٹھائے رکھا، پتہ نہیں اسے کیا بخار چڑھ گیا ہے۔ ہم ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل میں کہا کرتے تھے کہ پنجابی ججز ادھر ہیں، باقی ادھر ہیں لیکن جو اب ہو رہا ہے یہ سب نیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ایک چیف جسٹس ڈیم بنانے نکلے تھے تو پھر ڈیم بن جانا چاہیے تھا، کل کو ملک کا بجٹ بھی سپریم کورٹ ہی پاس کرلے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملک کی پارلیمنٹ کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا ہے، اگر اس طرح کا الیکشن تمام جماعتوں کو تسلیم ہے تو بسم اللہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں منظور کی گئی قرار دادوں کے ساتھ پوری طرح کھڑے ہیں، جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق نہیں ہوگا الیکشن کا عمل بے سود ہے، جس الیکشن میں فوج اور عدلیہ شامل نا ہو تو اس الیکشن کو کون شفاف سمجھے گا، الیکشن کے عمل میں سیاسی جماعتیں ضروری فریق ہیں، سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کا الیکشن پر اتفاق ہونا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر توملک میں فساد برپا کرنا کسی فتنے کا خواب ہے تو شائد یہ خواب 14 مئی کو پورا ہوجائے گا، اس وقت جو بنچ بنا ہے کیا کوئی ایسا شخص ہے جسے اس بنچ پر اعتراض نا ہو،ایک چیف جسٹس ڈیم بنانے نکلے تھے تو پھر ڈیم بن جانا چاہیے تھا، ہم غیر آئینی وغیر جمہوری رویوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر فنڈز جاری ہو بھی گئے تو یہ الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کے پاس رہیں گے۔
آزاد کشمیر کونسل کے الیکشن میں تحریک انصاف نے میدان مارلیا، آزاد کشمیر کونسل کی نشست سردار تنویرالیاس کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی تھی۔ الیکشن میں تحریک انصاف کے عدنان خالد 27 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے طارق محمود 23 ووٹ لے سکے جبکہ 2 ووٹ مسترد ہوئے تفصیلات کے مطابق آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں تحریک انصاف کے 5 ووٹ ادھر اُدھر ہوگئے۔آزادکشمیر کونسل کی خالی نشست پر تنویر الیاس کی نااہلی کے بعد 31 سیٹوں والی پی ٹی آئی کے امیدوار عدنان کو 27 ووٹ ملے، اپوزیشن جس کے پاس 20 نشستیں ہیں لیکن انہیں 23 ووٹ ملے، 2 ووٹ مسترد ہوئے۔ خیال رہے کہ وزیراعظم بننے کیلئے سادہ اکثریت 27 ووٹ درکار ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس 31 ووٹس ہیں لیکن تحریک انصاف کے امیدوار کو 27 ووٹ ملنے کا مطلب 5 ووٹس ادھر ادھر ہونا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد حسین نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ رجیم چینج کا سب سے زیادہ فائدہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو ہوا ، سیاسی قیادت مستقبل کے فیصلے خود نہ کرسکے تو پھر قیادت کی اہل نہیں۔ رہنما ن لیگ نے اعتراف کیا کہ رجیم چینج کاسب سےزیادہ فائدہ پی ٹی آئی اورعمران خان کو ہوا ہے، کوشش ہے اس دلدل سے راستہ نکلے اور مسائل حل ہوں،میرا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے،کوئی بیک ڈور رابطہ بھی نہیں ، میں کسی سےاین اوسی لےکرسیاست نہیں کرتابطور پاکستانی بات کرتا ہوں۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام ‘سوال یہ ہے’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا مشاہد حسین نے کہا اس وقت سب سے اہم مسئلہ سیاست ہے،معیشت کی خرابی کی جڑسیاست ہے، کوئی بھی اداروں کیساتھ لڑائی نہیں جیت سکتا۔ مشاہد حسین نے مزید کہا پی ٹی آئی ارکان کو اسمبلی میں واپس آکربات چیت کرنی چاہیے اور حکومت کوپہل کرنی چاہیےٓ ، گفتگو سے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ مشاہد حسین نے مزید کہا سیاسی قیادت مستقبل کے فیصلے خود نہیں کرسکتی تو پھر قیادت کے قابل نہیں، تمام اسٹیک ہولڈر کو ساتھ بیٹھ کرمسائل کاحل نکالنا چاہیے، تمام اسٹیک ہولڈربیٹھیں گے تو پھر کسی گارنٹی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بیک ڈور مذاکرات کے حوالے سے لیگی رہنما مشاہد حسین نے کہا گارنٹی لینے دینے کی باتیں ہوں گی تو پھر کوئی حل نہیں نکلے گا، نظریہ ضرورت ہو یا ذاتی مفادات پھر تو بات کر کے حل نکال لیا جاتا ہے،اس وقت سیاسی خانہ جنگی کی صورتحال تو مسئلے کا حل کیوں نہیں نکالا جارہا ہے۔ مشاہد حسین نے کہا سیاسی جماعت یا قیادت کو سیاست کے ذریعے ہی کرش کرسکتے ہیں، ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کو کرش کرنےکی کوشش کی گئی لیکن ناکامی رہی، ہم پرانی غلطیاں نہ دہرائیں تو ملک کےلیے بہتر ہوگا، پرانی غلطیاں کریں گےتواس کےنتائج بھی ویسے ہی نکلیں گے۔ مشاہد حسین نے کہا ذوالفقار بھٹو کو کرش کیا گیا تو ان کی بیٹی آگئی اورجماعت نے بھی حکومت کی، ڈس انفارمیشن مہم یا ڈرٹی مہم سے لوگوں کی رائے تبدیل نہیں ہوتی، اس وقت ملک کے لیے ایک راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ چین ایران اور سعودی عرب کی صلح کرواسکتا ہے تو سعودی عرب بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کیلئے راستہ نکال سکتا ہے، فیصلے واشنگٹن میں نہیں ہوں گے ہم نے خود کرنے ہیں۔ لیگی رہنما نے کہا کوئی بھی پارٹی الیکشن سے نہیں بھاگتی بس آئین پرعمل کرناچاہیے، ضیاالحق توچلے گئے ہیں لیکن ان کی سوچ ابھی بھی زندہ ہے، اگر کوئی مثبت نتائج کا انتظار کررہا ہے تو غلط فہمی کاشکار ہے۔ مشاہد حسین نے کہا الیکشن اس سال ہونے ہیں، الیکشن نہیں ہونگے تو پھرسب کا کام خراب ہے، جمہوریت،انتخابات اور بیلٹ باکس کو روکنے کی کوشش کی گئی تو ملک کیلئےاچھانہیں ہوگا۔ لیگی رہنما نے بتایا نرم انقلاب،ایمرجنسی،مارشل لا ہم نےسب تودیکھ لیا، یہ وقت آگےبڑھنےکاہے،سیاسی لوگ ہی فیصلہ کرسکتےہیں، سیاسی لوگ فیصلہ نہیں کریں گے تو پھر کوئی اورفیصلہ کرے گا۔ مشاہد حسین نے خبردار کیا کہ پاکستان کی فالٹ لائنزنہ دی جائیں ورنہ اس سےکوئی اورفائدہ اٹھائےگا، کوئی اگریہ کہےکہ ہم کسی کو کرش کرسکتےہیں تواس کا فائدہ نہیں ہوگا، یہ وقت ملک کےحالات بہترکرنےکی ضرورت ہے۔

Back
Top