سیاسی

صحافی و تجزیہ کار اجمل جامی نے کہا ہے کہ انتخابات منسوخی کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواستوں پر بینچ ٹوٹنے کے بعد نیا بینچ نہیں بنے گا بلکہ یہی چار رکنی بینچ کل سماعت کرے گا۔ اپنے تازہ ترین وی لاگ میں اجمل جامی کا کہنا تھا کہ جسٹس امین الدین کے اٹھنے سے ٹوٹنے والا بینچ از سر نو تشکیل نہیں دیا جائے گا، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر نیا بینچ تشکیل دیا جاتا ہے تو سارا کیس صفر سے دوبارہ شروع کرنا پڑے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ بینچ میں شامل ججز کے ذہن میں یہ بات بھی موجود ہوگی کہ حکومت ساتھ ساتھ قانون سازی میں بھی مصروف ہے ، ایسی صورت میں نیا بینچ کسی تنازعے کا شکار ہوسکتا ہے۔ اجمل جامی نے کہا کہ چیف جسٹس ہٹنے والے نہیں ہیں، وہ کھڑے رہیں گے اور ڈٹے رہیں گے اور وہ اپنی طاقت کو حت الامکان استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور اسی لیے کل اس کیس میں بقیہ رہ جانے والے چار ججز کا بینچ ہی سماعت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کی باتیں بھی ہورہی ہیں تاہم فل کورٹ بھی تشکیل نہیں دیا جائے گا کہ عدالت میں تقسیم اس قدر واضح ہوچکی ہے کہ اب اعتماد کا فقدان پیدا ہوگیا ہے، عددی معاملات بھی ایسے ہیں رسک نہیں لیا جارہا کیونکہ دو ججز جن میں ایک خاتون جج شامل ہیں کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اجمل جامی نے کہا کہ اب چیف جسٹس اس کیس کا فیصلہ دیں گے اور اگر حکومت نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور عملدرآمد میں رکاوٹ کھڑی کی تو ملک میں بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا جو تیسری راہ کو کھولنے کی باتیں ہوں گی، کوئی مانے یا نامانے، حالانکہ وہ آنا نہیں چاہتے ، ان کے بس میں بھی نہیں ہے مگر ان کی راہیں کھولی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے شہید ذولفقار علی بھٹو اور آصف علی زرداری کی تعریفوں کے پیچھے پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کی یہ سوچ ہے کہ اگر کوئی درمیانی راستہ نکلے گا تو پیپلزپارٹی کے ذریعے ہی نکلے گا اور تمام دروازے بند ہیں۔
خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان اختلافات شد ت اختیار کرگئے ۔بیوروکریسی نگران وزراء کے رویوں سے تنگ آگئی۔ بدھ کے روز خیبرپختونخوا کے نگران وزیراطلاعات میاں فیروز شاہ اچانک سیکرٹری اطلاعات کے دفتر پہنچ گئے ۔ وزیر اطلاعات نے سیکرٹری کی کرسی پر بیٹھنے کا تقاضا کیا ۔ سیکرٹری نے اپنی کرسی دینے سے معذرت کرلی اور انہیں صوفے پر بیٹھنے کو کہا ۔ جس پر نگران وزیرطلاعات فیروز شاہ شدید برہم ہوگئے اور ایڈیشنل سیکرٹری کے کمرے میں گئے اور انکی کرسی پر بیٹھنے کا تقاضاکیا لیکن انہوں نے بھی کرسی دینے سے انکار کردیا اسکے بعد نگراں وزیر نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پریس کانفرنس کرڈالی ۔ جس کے بعد محکمہ اطلاعات میں شدید بے چینی پائی گئی اور انہوں نے گورنر اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے معاملہ کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس سے قبل بھی ارشد عزیز ملک کا مزید کہنا تھا کہ گورنر غلام علی کا سرکاری افسروں کے ساتھ رویہ انتہائی ہتک امیز ہے بیوروکریسی میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے گورنر خیبرپختونخوا اور نگران وزرا کے رویوں کیخلاف بیورو کریسی نے قلم چھوڑ ہڑتال دھمکی دیدی ہے ۔ بیوروکریسی کا کہنا ہے کہ وزرا خلاف ضابطہ کاموں کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں آئین و قانون میں نگران کابینہ کا مینڈیٹ صرف اور صرف شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ اس ضمن میں بیوروکریسی تنظم نے نگران وزیر اعلی کو خط بھی لکھا ہے لیکن کہاجارہا ہے کہ نگران وزیراعلٰٰی کی گورنر خیبرپختونخوا کے سامنے ایک نہیں چل رہی
لیگی رہنمائوں کی سپریم کورٹ مخالف دشنام ترازی پر سپریم کورٹ حملے کے عینی شاہد صحافی پریشان ہیں، نہ بھولیں اسی سپریم کورٹ کے فیصلے سے عمران خان کا اقتدار ختم ہوا اور آپ کو حکومت ملی!: سینئر صحافی سینئر صحافی وتجزیہ کار کامران خان نے دی ورلڈ ٹوڈے کی 1997ء میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے سپریم کورٹ پر حملے کے مناظر اور واقعات کی رپورٹ شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا کہ: مجھ سمیت بہت سے صحافی جو 28 نومبر 1997 ء کو ن لیگ کے سپریم کورٹ پر بھیانک حملے کےعینی شاہد ہیں، گزشتہ 2 روز سے حکومتی جماعتوں بالخصوص ن لیگی رہنماؤں کی سپریم کورٹ مخالف گفتگو دشنام ترازی پر یقیناً بہت پریشان ہیں! نہ بھولیں اسی سپریم کورٹ کے فیصلے سے عمران خان کا اقتدار ختم ہوا اور آپ کو حکومت ملی! انہوں نے لکھا کہ: غور سے دیکھتے رہیے مسلم لیگ ن کی حکومت سپریم کورٹ سے ایک اور پنجہ آزمائی کرنے جارہی ہے! سپریم کورٹ سے وہ ہی شکایتیں جو 1997ء میں بھی تھیں وہ ہی غصہ، وہی سپریم کورٹ کو زیر کرنے کا عزم، سپریم کورٹ پر بھیانک حملے کے مناظر بھولے نہیں بھولتے! ایک اور ٹویٹر پیغام میں 28 نومبر کے حوالے سے خبر کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: 28 نومبر 1997 ء تاریخِ پاکستان کا وہ سیاہ ترین دن جب پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں وکارکنوں نےمنصوبہ بندی سے سپریم کورٹ آف پاکستان پر حملہ کردیا تھا! چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالت عظمیٰ ججز کی حفاظت کے لئے فوج کو طلب کرنا پڑا! آج مجھے ن لیگی لیڈرشپ کا سپریم کورٹ حوالے سے لب و لہجہ سن کر خوف آرہا تھا! دریں اثنا وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ہم نےوہ دور بھی دیکھا جب ہسپتال میں پارکنگ سہولیات پر سوموٹو نوٹس لیے گئے۔ سپریم کورٹ رولز کے مطابق سوموٹو اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے لیکن فرد واحد نے ماضی میں اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد قیصر کہتے ہیں عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں چاہتے، انہوں نے یقین دہانی کرائی عمران خان کا ایجنڈا اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے ذاتی رنجش کے بغیر ملک کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جانا ہے۔ اسد قیصر نے کہا عمران خان نے ایک عوامی بیان میں ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا ہے جنہوں نے پی ٹی آئی کے گزشتہ سال لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں مبینہ طور پر ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی، اسد قیصر نے اس تاثر کو سختی سے زائل کردیا کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد کسی کے خلاف ذاتی دشمنی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا عمران خان صرف قانون کی حکمرانی اور تمام ریاستی اداروں کا اپنی آئینی حدود میں کام چاہتے ہیں۔ اسد قیصر پی ٹی آئی کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ کے پی کے اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور فواد چوہدری بھی ان میں شامل ہیں جو عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کو پر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اسد قیصر بولے کچھ لوگ ایسے ہیں، جو چیئرمین پی ٹی آئی کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، جو مبینہ طور پر عمران خان کو موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سازشی تھیوریاں فراہم کر رہے ہیں، فیصل واوڈا، جو کبھی عمران خان کے قریبی ساتھی تھے، ایسے لوگوں کو ’’سانپ‘‘ کہتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا واوڈا نے اگرچہ ان ’سانپوں‘ کا نام نہیں لیا لیکن اصرار کیا کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران، عمران خان نے انہیں قتل کرنے کے لیے کم از کم پانچ مختلف ’پلانٹس‘ کے بارے میں بات کی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی کے بیشتر رہنماؤں کے پاس ان مبینہ پلاٹس کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ کچھ لوگ خان کو غلط مشورہ دے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر وزیر اعظم کے عہدے سے ان کی برطرفی کے بعد چند ماہ کے اندر عمران خان نے کہا تھا کہ چار افراد نے ان کے قتل کی سازش کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے سازش اور مبینہ سازش کرنے والوں کے بارے میں اپنا ویڈیو بیان ریکارڈ کر لیا ہے اور اگر انہیں قتل کر دیا گیا تو ویڈیو کو عام کردیا جائے، خان نے مبینہ سازشیوں کا نام نہیں لیا، وزیر آباد حملے کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر کو اپنی جان پر حملے کی ناکام منصوبہ بندی کے لیے نامزد کیا تھا۔
لاہور کی سیاست کے دلچسپ کردار، صاف شفاف سیاست کے حامی ڈاکٹر امبر شہزادہ انتقال کر گئے۔ تفصیلات کے مطابق امیر شہزادہ اگرچہ کوئی الیکشن نہ جیت سکے اور ہر بار ضمانت ضبط کرواتے رہے لیکن ہرالیکشن میں وہ دلچسپی کا سامان ضرور مہیا کرتے ۔ امبر شہزادہ نے آپ جناب سرکار پارٹی کے نام سے پارٹی بنارکھی تھی اور وہ انجمن ضمیر فروشاں کے سربراہ بھی تھے۔وہ زیادہ تر انتخابی نشان چمچہ یا لوٹا لیکر الیکشن لڑا کرتے تھے۔ الیکشن کمیشن نے جب چمچہ اور لوٹا کے انتخابی نشان ختم کئے تو انہوں نے سیب کے انتخابی نشان سے بھی الیکشن لڑنا شروع کردئیےاور اپنی الیکشن کمپین میں سیب بھی تقسیم کرکے ووٹ مانگا کرتے تھے۔گزشتہ الیکشن انہوں نے چمچہ کے انتخابی نشان پر لڑا۔ ڈاکٹر امبر شہزادہ نے کونسلر سے صدر پاکستان تک تمام الیکشن لڑے، آپ سیاست میں کرپشن اور وفاداری بدلنے والوں پر مزاحیہ تنقید کرتے تھے۔ ڈاکٹر امبر شہزادہ خود کو "نیم کرپٹ" کہتے تھے اور ان کا معروف نعرہ تھا کہ’نیم کرپٹ آوے گا۔ مُلک ترقی پاوے گا۔۔ اسکے علاوہ تھوڑی رشوت کام زیادہ انکا معروف نعرہ تھا۔ جب انہوں نے چمچہ کا انتخابی نشان لیکر الیکشن بڑا تو انہوں نے الیکشن کمپین میں سلوک "عوام کا چمچہ " اپنایا۔ سوشل میڈیا صارفین نے انکے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔
ایک سال کی پہلے کے برعکس آج تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اور عمران خان مقبول ترین لیڈر بن چکے ہیں: سینئر صحافی سینئر صحافی وتجزیہ کار کامران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ انگنت پاکستانیوں کی طرح میں بھی بہت پریشان ہوں، ڈوبنے کا احساس مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔ پاکستان سے بہت سی شخصیات سے ملاقات ہوتی ہے جو پاکستان کی موجودہ صورتحال میں بہت پریشان ہیں۔ ہر شعبہ زندگی سے جڑا ہوا شخص پریشان ہے، مقبول ترین سیاسی جماعت اوراسٹیبلشمنٹ لیڈرشپ کے درمیان"آل از ناٹ ویل" کی کیفیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ پاکستانی فوج اور جوہری پروگرام پاکستان کی طاقت کا مرکز ہے، فوج کمزور ہوئی تو پاکستان کمزور ہو گا۔ ہماری قوم کی نظر میں فوج کی عزت میں کمی ہوئی تو خدانخواستہ پاکستان کی چولیں ہل جائیں گی۔ میری دیرینہ دعا، خواہش اور بھرپور کوشش ہے کہ 22 کروڑ عوام اپنی فوج سے والہانہ پیار کرے، حرمت پر جان قربان کر دے لیکن افسوس ہے کہ مجھے اپنے خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے میں اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا، معیشت زمیں بوس ہو چکی ہے، زندہ قوموں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ حقائق تسلیم کرتی ہیں۔ زندہ قوموں کی لیڈرشپ شترمرغ کی طرح سر ریت میں نہیں دباتی، ایک سال کی پہلے کے برعکس آج تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اور عمران خان مقبول ترین لیڈر بن چکے ہیں۔ عمران خان پاکستان کے نوجوانوں، اوورسیز پاکستانیوں کے سب سے پسندیدہ رہنما بن چکے ہیں جبکہ ایک دردناک حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان اور سٹیبلشمنٹ لیڈرشپ میں اعتماد کا فقدان ہے۔ فوجی لیڈرشپ کی عمران خان سے بہت سی شکایتیں ہیں جن سے میں آگاہ بھی ہوں اور متفق بھی، عمران خان نے فاش غلطیاں کیں مگر تسلیم کرنا چاہیے کہ عمران خان کی بھی شکایات ہیں، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ سٹیبلشمنٹ کا عمران خان سے وہی لگائو ہو جو آج وزیراعظم شہبازشریف، آصف علی زرداری اور فضل الرحمن سے ہے۔ دوسری طرف عمران خان بھی فوجی لیڈرشپ کیلئے اسی توقیر کو بحال کریں جسے ایک ڈیڑھ سال پہلے تک انجوائے کرتے رہے ہیں۔ خدارا! روابط بحال کریں، ذاتی انا، ماضی کی دوطرفہ غلطیاں پس پشت ڈال کر پاکستان کو بچائیں۔ عمران خان پوری کوشش واخلاص سےدوستی کے سفر کا آغاز کریں!
پاکستان مسلم لیگ ن کےرہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مدت ملازمت میں توسیع کیلئے پیغام بھیجا تھا مگر نواز شریف نے انکار کردیا ۔ تفصیلات کے مطابق سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ نومبر2022 میں اس وقت کے آرمی چیف اپنی ریٹائر منٹ سے قبل مدت ملازمت میں دوبارہ توسیع کے خواہش مند تھے، ان کی اس خواہش پر میاں نواز شریف کو پیغام بھی بھجوایا گیا تاہم میاں نوا زشریف نے انہیں توسیع دینے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تو جنرل باجوہ کو ملنے والی پہلی توسیع اور قانون سازی کے بھی خلاف تھے، وہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کی حکومت کو منطقی انجام سے دوچا ر ہونے دیا جائے، عمران خان کو نئے انتخابات طشتری میں رکھ کر پیش کیے جارہے تھے، مریم نواز خود بھی حکومت جاری رکھنے کی مخالف تھیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کی ضد، ہٹ دھرمی اور دھونس کی وجہ سے انتخابات موخر کیے گئے، اسی دھونس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو انتخابات کا فیصلہ بدلنا پڑا، عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کرکے انتخابات کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے، وہ انتخابات نہیں انتشار اور ہنگامہ آرائی چاہتے تھے، شہباز شریف حکومت نے عمران خان اور جنرل باجوہ کو پیغام پہنچایا کہ حکومت مئی 2022 میں مستعفیٰ ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج نے اپنے طور بھی عمران خان کو بھی بتادیاتھا، اور یہ بھی بتایا تھا کہ25 مئی کا لانگ مارچ کا کوئی جواز نہیں ہے مگر پی ٹی آئی نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی22 مئی کو پشاور لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔
تحریک انصاف کے گزشتہ روز مینارپاکستان جلسے میں کتنے لوگ شریک تھے اعدادوشمار سامنے آگئے ہیں ۔ روزنامہ خبریں کے مطابق تحریک انصاف کاکہنا ہے کہ 3 لاکھ افراد تھے جبکہ غیر جانبدار ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ڈیڑھ لاکھ لوگ ہوں گے ۔ خبریں کے مطابق ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق 70 ہزار افراد نے شرکت کی تاہم مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ صرف 25 ہزار لوگ تھے ۔ دوسری جانب عمران خان کی مینارپاکستان جلسے سے واپسی کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں عمران خان پی ٹی آئی کے رہنما کو کہتے ہیں کہ تم نے دیکھا کہ کتنی پبلک باہر نکلی ہے؟ اس پر پی ٹی آئی رہنما کہتے ہیں کہ اسپیشل برانچ والوں نے اندازہ لگایا ہے کہ پانچ لاکھ لوگ تھے جس پر عمران خان قہقہے لگاتے ہیں۔ عمران خان کے بھانجے کہتے ہیں کہ جلسے میں 90 فیصد لوگ لاہور کے تھے اور دس فیصد دوسرے شہروں سے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارا وجود ختم ہو رہا ہے، اب دونوں میں سے کسی ایک کا وجود باقی رہنا ہے۔ اب یا عمران خان رہے گا یا ہم۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لئے ہم ہر حد تک جائیں گے پھر یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ کیا جمہوری ہے کیا غیر جمہوری، کیااصولی ہے اور کیا غیراصولی ہے۔ اس پر صحافی نے سوال کیا کہ آپکے ماننے والے چاہنے والے لاکھوں میں ہیں وہ یہ بات سنیں گے تو حملہ کریں گے جس پر رانا ثناء اللہ نے جواب دیا کہ کیا عمران خان کے ساتھ جتنے لوگ ہیں وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ صحافی نے مزید پوچھا کہ اس سے تو انارکی پھیلے گی جس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انارکی تو پھیلی ہوئی ہے اور کتنی انارکی پھیلے گی؟ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ یا عمران خان سیاست سے منفی ہوجائے گا یا ہم ہوجائیں گے۔ عمران خان نے اس سٹیج پر لاکھڑا کیا اور یہ اسکا قصور ہے۔
معروف اینکر و تجزیہ کار کامران خان کا کہنا ہے کہ عمر گزرنے کے ساتھ یقیناً یادداشت مسائل سے دو چار ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ آج پی ڈی ایم بشمول نواز شریف، فضل الرحمان وغیرہ بھول گئے الیکشن کسی قیمت ملتوی نہیں ہوسکتے آپ بھول گئے گو ہم یاد دلا تے ہیں ویسے میاں صاحب "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ نہ بھولیے گا مہنگا پڑے گا۔ کامران خان نے اس کے ساتھ ایک مختصر کلپ شیئر کیا جس میں پی ڈی ایم قیادت یعنی نوازشریف، فضل الرحمان اور شاہدخاقان عباسی ماضی میں الیکشن التوا کے سخت مخالف نظر آئے ہیں۔ 4 مئی 2018 کو نوازشریف نے عمران خان سے متعلق کہا کہ اب تو انگھوٹھے سے ڈر رہے ہو۔ یہ جو ایک مہینہ الیکشن ملتوی کرنے کی بات کرتا ہے ہم اسے ایک مہینہ تو دور ایک دن بھی آگے نہیں کرنے دیں گے۔ ہم لڑیں گے اور اس کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔ کون ہے جو ایسی سوچ سوچ رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انتخابات کا جو مرحلہ ہے یہ پُرامن ہونا چاہیے اور اگر یہ خون خرابہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قوتیں ذمہ داری لے رہی ہیں کہ انتخابات کو ملتوی کرانے کیلئے جواز حاصل کر سکیں۔ ان کو انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ماضی میں ایسا ہوا ہے کہ الیکشن کو ملتوی کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ جب آئین کہتا ہے کہ 60 دن میں الیکشن ہوں گے تو کسی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے، ورنہ کل کو پاکستان سے علیحدگی کی بات بھی ہو سکتی ہے۔ جو آئین توڑتا ہے اس پر آرٹیکل6 لگتا ہے یہی دنیا کا قانون ہے۔ دوسری جانب کامران خان نے کہا کہ اب سپریم کورٹ کوفیصلہ کرنا ہے اس نظام کا تسلسل جاری رہے یا خاتمہ ہو حکومت سپریم کورٹ فیصلہ/آئینی شقیں روند رہی ہے الیکشن کمیشن حکومت کوآئین یاد دلاتا ہے نہ سپریم کورٹ فیصلہ بلکہ پنجاب الیکشن مزید 6 ماہ بڑھا دئے کیا ملک میں ہرسو معاشی سیاسی تباہی ہواوریہ نظام چلتا رہے؟ نا ممکن
حامد میر نے گالف کلب فارمولے پر خواجہ آصف کو مشکل میں پھنسا دیا، جیو نیوز کے پروگرام میں حامد میر نے وزیر دفاع خواجہ آصف سے کہا کہ آپ نے کچھ دن پہلے پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے فارمولا دیا تھا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا تھا کہ گالف کلب کی کھربوں کی زمین ہےاور حکومت کا کرایہ صرف 5000 روپے ہے، پاکستان میں 200 گالف کلب اربوں ڈالرز کی سرکاری زمین پر بنے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ایک کلب اور گالف کورس کھربوں کی زمین پر قائم ہے اور حکومت کا کرایہ صرف 5000 روپے ہے،غریب کے گھر اور بستیوں پر حکومت بلڈوزر چلا دیتی ہے، ایسے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس پر حامد میر نے سوال کیا کہ آپ جہاں کی بات کررہے ہیں وہاں آپ سوئمنگ کرتے ہیں جس پر خواجہ آصف نے کہا کہ ہاں میں سوئمنگ کرتا ہوں،میں انہیں لاکھوں روپے چندہ دیتا ہوں وہ حکومت کو کیا دیتے ہیں؟ خواجہ آصف کے اس بیان پر حامد میر نے پوچھا کہ خواجہ صاحب کون سے گالف کلب ہیں، جس پر وزیر دفاع نے کہا ایک تو لاہور جم خانہ ہے دوسرا اسلام آباد کلب ہے،سب سے بڑے اسمگلرز ہیڈ بنے ہوئے ہیں، اور ہم لوگ ان کو توسیع بھی دے دیتے ہیں،افغانستان سے اسمگلنگ ہوتی ہے،اسے روکا جائے، معاملات کنٹرول کرلئے گئے تو سب بہتر ہوسکتا ہے۔ دنیا کو ہماری پارلیمنٹ نظر آتی ہے، بھارت کی نہیں۔ اس موقع پر خواجہ آصف نے بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم مختلف محاذوں پر لڑرہے ہیں اگر ہمارے پاس مینڈیٹ ہو، امن ہو توہم یہ قانون سازی بھی کریں
سازش سے عدلیہ کو متنازعہ بنا کر آئین وعدالتی حکم پر شب خون مارا گیا :تمام ریاستی ادارے جن کا کام آئین کے تابع رہ کر کام کرنا ہے وہ ایک کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح الیکشن تاخیر کا شکار ہو جائیں : رہنما تحریک انصاف علی افضل ساہی رہنما تحریک انصاف علی افضل ساہی نے نجی ٹی وی چینل جی این این کے پروگرام خبر ہے میں کرپشن کے الزامات پر گفتگو کرتے کہا کہ نیب اور اینٹی کرپشن کا بلانا میرے لیے اعزاز ہے، میرے ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ الحمدللہ! میں ایک نیٹ اینڈ کلین آدمی ہوں ، مجھ پر کرپشن کے تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ مسلم لیگ ن مجھ پر الزام لگاتی ہے کہ ٹرانسفر، پوسٹنگ کے پیسے لیے ہیں، ان کی حیثیت ہی یہی ہے اس لیے ایسے الزامات لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کبھی رولز آف بزنس پڑھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ میرے پاس ایسا کوئی اختیار ہی نہیں ہے، یہ قانون جانتے ہی نہیں، کوئی وزیر ایک کلرک کا تبادلہ بھی نہیں کر سکتا، اگر میں تبادلہ ہی نہیں کر سکتا تو اس کے پیسے کیسے لے سکتا ہوں؟ پچھلے 35 سال تک یہ سب کرپشن کرتے رہے پھر عدالتوں نے ان کو کون سی سزائیں دی ہیں؟ اگر ثابت ہو جائے کہ میں نے اپنے کسی ماتحت کو کسی بھی معاملے میں فون کیا ہو تو مجھے قصوروار سمجھا جائے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی ایسی خلاف ورزی تو بدترین آمریت کے دور میں بھی نہیں کی گئی۔ آئین پاکستان یہ کہتا ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات ہونے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن پی ڈی ایم کی بی ٹیم بن کر الیکشن ملتوی کرنے کی سازش کرتا رہا جس کے خلاف ہم ہائیکورٹ گئے۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد بھی الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کیلئے سنجیدہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ریاستی ادارے جن کا کام آئین کے تابع رہ کر کام کرنا ہے وہ ایک کوشش میں لگے ہیں کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہو جائیں کیونکہ یہ سب عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کوئی ابہام نہیں تھا کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو ہوں۔ جیسے کل انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا یہ منظم سازش تھی۔ پہلے عدلیہ کو متنازعہ بنایا گیا پھر آئین اور عدالتی حکم پر شب خون مارا گیا۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی جس کی وجہ سامنے آگئی ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان نے انٹرویو میں چیئریٹی رقوم سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔یہ غیرقانونی عمل ہے ۔ وکیل کا مزید کہنا تھا کہ یو اے ای میں ایسے چندہ جمع نہیں کیا جا سکتا، اجازت لینا پڑتی ہے جسٹس محسن اختر کیانی نے اس پر کہا کہ آپ کا یہ کیس ہی نہیں کہ تحریک انصاف نے باہر غیر قانونی طور پر رقم جمع کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکے کے پیسے سے اگر کوئی زکوٰۃ دے دیتا ہے تو آپ لینے والوں پر جرم ڈال دیں گے؟ اگر کوئی چوری کے پیسے یتیم خانے میں یا مسجد میں دیتا ہے تو مسجد پر کیس بنا دیں گے؟ عدالت نے کہا اگر رقم کا غلط استعمال کیا گیا تو متاثرہ فریق تو بھیجنے والا ہوگا۔ متاثرہ شخص تو درخواست گزار ہے ہی نہیں، وفاقی حکومت کیسے متاثرہ ہوسکتی ہے؟ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو یہ کیس ہی قابل سماعت نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک نے تو اپنا کام ہی نہیں کیا تو آپ کیسے پراسیکیوٹ کرنے آ گئے؟ کل اسٹیٹ بینک کہے کہ یہ ٹرانزیکشن ٹھیک تھی تو آپ کہاں کھڑے ہوں گے؟ عدالت نے مزید کہاکہ یہ سارا کیس اسٹیٹ بینک کی ریگولیشن میں آتا ہے ، اکاؤنٹ تحریک انصاف کا ہے تو تحریک انصاف کی کمیٹی نے چلانا ہے ، عمران خان بینفشری کیسے ہوگئے؟ دنیا نیوز کے رپورٹر محمد عمران کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آج ممنوعہ فنڈنگ کیس کی جئی تئی پھیر کر رکھ دی ہے ، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ بنیادی معاملہ ،ایس ٹی آر جنریشن کا تھا ،وہ تو ہوئی نہیں ، سٹیٹ بینک نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا ،وفاق کا اختیار تھا وہاں سے بھی کچھ نہیں ہوا، ایف آئی اے وفاقی حکومت نہیں
مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ عدالت میں یہ تکنیکی نکتہ اٹھایا گیا کہ امیدوار صرف انہی کے نام دے گا جو اہل خانہ میں زیرکفالت ہوں، بچے بڑے ہوجائیں تو وہ زیرکفالت نہیں رہتے۔ اگر بچے زیرکفالت نہیں ہیں تو کوئی بھی امیدوار پابند نہیں ہے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی میں ان بچوں کا بھی ذکر کرے جو زیرکفالت نہیں ہیں یا جو شادی شدہ ہیں۔ عدالت میں سوال کیا گیا کہ ٹیریان وائٹ عمران خان کی زیرکفالت ہیں؟ الیکشن کمیشن کے وکیل کے ایک جملے نے پانسہ پلٹ دیا ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی میں تمام بچوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ زیرکفالت افراد کا ذکر ہے، جو بھی فرد چاہے وہ آپکا بچہ ہے یا نہیں ہے اسکا ذکر الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی میں کرنا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے مطابق اگر فیملی کے افراد کا تذکرہ کرنا ضروری ہوتا تو پھر نادرا کا فیملی سرٹیفکیٹ مانگا جاتا۔ مطیع اللہ جان کے مطابق اب الیکشن کمیشن بھی ٹیریان وائٹ کے کیس میں عمران خان کے وکیل کے موقف کیساتھ کھڑا ہے۔ ججز کا کہنا تھا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ٹیریان وائٹ عمران خان کی بیٹی ہیں تو پھر بھی قانون میں زیرکفالت افراد کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ سےپاکستان کے حق میں نہیں بلکہ عمران خان کے حق میں بیانات آرہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرا م کیپٹل ٹالک میں میزبان حامد میر نے وفاقی وزیر دفاع سے سوال کیا کہ موجودہ وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عہدہ سنبھالنے کے بعد زیادہ تر وقت امریکہ میں گزارا ہے مگر آج امریکی عہدیداران حکومت کے بجائے عمران خان کے حق میں بیانات دے رہے ہیں، کیا یہ موجودہ حکومت کی خارجی سطح پر شکست نہیں ہے؟ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ میں اسے شکست نہیں کہوں گا، عمران خان کی حمایت میں پوری امریکی حکومت بیان نہیں دے رہی کچھ سینیٹرز ہیں جو یہ بیان دے رہے ہیں، امریکہ میں لابی سسٹم ہے اور اس لابی سسٹم پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے،امریکہ سے کس کے حق میں بیان آرہے ہیں؟ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟یہ ان لوگوں کا بندا ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم اور تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں کے ضمیر فلسطین، کشمیر،عراق، افغانستان اور لیبیا میں کیوں نہیں جاگتے ؟ ان لوگوں کے ضمیر صرف پاکستان کیلئے جاگتا ہے؟ عمران خان کیلئے جاگتا ہے؟ کیونکہ عمران خان ان کا اپنا پراڈکٹ ہے ، عمران خان کے کفیل وہاں بیٹھے ہیں اور عمران خان ان کا سپانسرڈ آدمی ہے۔
اپنے پروگرام میں بینش سلیم کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی کے نام پر ایک اور پاپولر لیڈر کو فکس کرنیکا تسلی بخش کام اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے، وہی روایتی ہتھکنڈے، ویسے ملک بھر میں سینکڑوں جھوٹے مقدمے، وہی ملک دشمن بیانیہ اور وہی دہشتگرد جماعت کی دہائیاں انہوں نے کہا کہ ناظرین پاکستان کے سارے مامے چاچے اس وقت عمران خان کو فکس کرنے کیلئے اکٹھے ہوچکے ہیں، گزشتہ کئی دنوں سے عمران خان کو گرفتار کرنیکی بھونڈی کوشش ہورہی ہے، یہی وہ وقت ہے جب تن تنہا کھڑے عمران خان کیلئے آواز بلند کی جائے بینش سلیم کا مزید کہناتھا کہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ کارکن اپنے لیڈر کے سامنے ڈھال بن کر ریاست سے بھی ٹکرانے کو تیار ہے۔ صرف اپنے سلگتے سگار کو ٹھنڈا کرنے کیلئے عمران خان کی موجودگی میں انکے گھر پر دھاوا بولا گیا ہے۔ انکے گھر کا دروازہ توڑا گیا، ملازمین پر تشدد کیا گیااور برآمدگی میں وہ چیزیں ڈالی گئیں جس پر صاحب اور انکی پولیس بری طرح بے نقاب ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹول پلازہ پر جب پولیس نے کمال مہارت سے عمران خان کے قافلے کو روک کر فتح کا جشن منایا کہ خان اکیلا پڑگیا ہے تبھی اسلام آباد کی گلیوں سے عوام کا سمندر برآمد ہوا اور پھر وہ ہوا جو ہم نے دیکھا، روتی پیٹتی پولیس، شکایت لگاتی پولیس اور ٹسوے لگاتے مخالفین۔ جب کچھ کرکے بھی کوئی مائی کا لال عمران خان تک نہ پہنچ پایا تو تو پھر چادرچاردیواری کی پامالی، بچوں اور خواتین کو ذلیل کرنا، وہی گھسے پٹے مقدمات، چادر اور چاردیواری کی پامالی ۔ عمران خان کو شیلنگ، لاٹھی چارج سمیت ہر ممکن طریقے سے پیشی سے روکنے کی سازش رچائی گئی، امجدنیازی کی تشددزدہ کمر مارنے والوں کا پتہ دے رہی ہے۔عمران خان کا ذاتی باورچی مطلوب ہوگیا، پشتون کے حوالے سے گمراہ کیا جارہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ عمران خان جو کررہے ہیں اس سے وہ کیسز سے بھی نہیں بچیں گے بلکہ انتخابات کو بھی دور لے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق میاں جاوید لطیف نے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام"فیصلہ آپ کا" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے یہ کسی سیاسی جماعت کا رویہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان کا یہ سوچنا ہے کہ میں ایسے رویے اختیار کرکے کیسز سے بچ جاؤں گا اور انہوں نے یہ رویہ نا چھوڑا تو میں انہیں بتانا چاہوں گا کہ یہ کیسز سے بھی نہیں بچ سکیں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہ ایسے رویے کی وجہ سے انتخابات کو بھی دور لے جائیں گے۔ پروگرام میں شریک سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا کہ پاکستان میں آج بھی رمضان کا چاند ایک دن نہیں دیکھا جاتا، پی آئی اے کی فلائٹ کبھی وقت پر نہیں چلی جس دن یہ دونوں چیزیں وقت پر ہوجائیں گی اس دن الیکشن بھی ہوجائیں گے
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے نئے انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر لی ہے۔ مشاورت کے نتیجے میں آئندہ 24گھنٹے کے اندر الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ہوگا۔ روزنامہ جنگ سے منسلک صحافی حنیف خالد کا دعویٰ ہے کہ اس اجلاس میں جو فیصلے ہوں گے ان کا اعلان چند ہی روز تک کئے جانے کا قوی امکان ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جی ایچ کیو، ڈائریکٹریٹ جنرل آف ملٹری انٹیلی جنس، آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز، وزارت دفاع، وزارت داخلہ، وزارت خزانہ، وزارت قانون سے مشاورت کی ہے۔ ای سی پی نے اس کے علاوہ ہائی کورٹس سمیت دونوں صوبوں کے آئی جی پولیس پنجاب اور آئی جی پولیس خیبر پختونخوا، چیف سیکرٹری پنجاب، چیف سیکرٹری کے پی کے، قائم مقام وزیراعلیٰ پنجاب اور خیبر پختونخوا، گورنر پنجاب بلیغ الرحمان، گورنر خیبرپختونخوا غلام علی، سیکرٹری وزارت خزانہ، سیکرٹری وزارت داخلہ اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا سلسلہ مکمل کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ آئندہ 24گھنٹے میں اس مشاورت کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے ممبر صاحبان سے مشاورت کریں گے۔ اس مشاورت کی روشنی میں الیکشن کمیشن دو نئی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے بارے میں اہم اعلان آئندہ دو روز میں کریگا۔ صحافی حنیف خالد کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت کے سیکرٹری خزانہ نے قومی و صوبائی انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 65ارب روپے کے فنڈز کے اجرا سے معذرت کی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیکرٹری خزانہ کے ساتھ میٹنگ کے دوران الیکشن کمیشن ہیڈکوارٹرز میں یہ تک کہا کہ فوری طور پر فی الحال پنجاب اسمبلی، کے پی اسمبلی جسے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے توڑنے کا کہا تھا، اور وہ ٹوٹ چکی ہیں، انکی جگہ نئی اسمبلی کے الیکشن کیلئے درکار 25ارب روپے کے فنڈز جاری کر دیں تو بتایا گیا کہ ملک کی معاشی صورتحال اتنی بھاری رقم جاری کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
وزیراعلٰی خیبرپختونخوا اور گورنر کے درمیان تلخ کلامی کی اطلاعات۔۔ کیا گورنر خیبرپختونخوا مستعفی ہونے جارہے ہیں؟ جواب سامنے آگیا رضوان غلیزئی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ذرائع کےمطابق نگراں وزیراعلی پختونخوا اعظم خان اور گورنرکےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہواہے۔ انکے مطابق وزیراعلی نےگورنر کےانتظامی امور میں مداخلت پر اعتراض کرتے ہوئےکہا “صوبےکا چیف ایگزیکٹو ہوں، آپ میری مرضی کےبغیر چمچ نہیں اٹھاسکتے، آپکی جانبداری اورمداخلت رہی توشفاف انتخابات نہیں ہوسکتے”۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کے استعفے سے متعلق خبر میں کوئی صداقت نہیں، یہ محض ایک افواہ ہے صحافی لحاظ علی نے طنز کیا کہ خیبر پختونخوا کے خاموش طبع وزیراعلی محمد اعظم خان نے چپ کا روزہ توڑتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ ” میں استعفی نہیں دوں گا“
سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے مدد کی تھی لیکن امریکا کا ہاتھ نہیں تھا۔ گرفتاری کے دوران مجھ سے کہا گیا شاہد خاقان اور نواز شریف کے خلاف بیان دے دو چھوڑ دیں گے۔ عمران خان اچھے لیڈر نہیں سیاستدان اچھے ہیں۔ ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو دیے گئے انٹرویو میں نے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو وزیرِاعظم کے منصب سے ہٹانے میں امریکا کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ انہیں اپوزیشن نے ہٹایا اور فوج اس معاملے پر اپوزیشن کے خلاف نہیں تھی۔ میرے خیال سے عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے ساتھ بھی دیا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا جہاں تک مجھے ہٹانے کا تعلق ہے تو میں محض ایک وزیر تھا اور فقط ایک نوٹیفیکشن سے ہٹ گیا۔ جس طرح نواز شریف کو اقامے کی بنیاد پر عدالت نے نااہل کرکے ہٹایا وہ عدالتی مداخلت کی انتہا تھی۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا گیا جو اپوزیشن کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں ہاتھ ہے اور کس طرح خان صاحب کو لائے تھے۔ انہوں نے عمران خان کو ایک اچھا سیاستدان تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جتنا اچھا بیانیہ انہیں بنانا آتا ہے شاید ہی پاکستان میں کسی اور کو آتا ہو۔ جب انہیں ہٹایا گیا تو سب سے پہلے بیرونی سازش کی بات کہی گئی، حقیقی آزادی کی بات ہوئی اور پھر اندرونی سیاست، باجوہ صاحب کی سازش، پھر کہا کہ محسن نقوی صاحب کی سازش ہے، اور آخر میں کاروباریوں پر الزام لگادیا گیا۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا وہ روز اپنا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔ قانون جب ان پر لاگو ہوتا ہے تو یہ نہیں مانتے۔ میں نے خدانخواستہ یہ کبھی نہیں کہا کہ عمران خان اچھے لیڈر ہیں، ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اچھے سیاستدان ہیں۔ اپنے استعفی سے متعلق مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ لندن میں نواز شریف سے میٹنگ میں وزیرِاعظم شہباز شریف بھی موجود تھے۔ ظاہر ہے وزیرِاعظم کی مرضی کے بغیر تو یہ نہیں ہوا۔ مجھے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ نواز شریف کا تھا کیونکہ وہ پارٹی کے قائد تھے۔ مفتاح اسماعیل نے متعدد پالیسیوں سے متعلق غلطیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قیمت کو معاشی طاقت سمجھتے ہوئے کبھی ہم نے روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے بڑھایا اور کبھی ڈالر کی قیمت کو کم کیا۔ جس زمانے میں ہم دنیا سے قرض لے سکتے تھے اس زمانے میں ہم نے قرض لے کر مارکیٹ میں پیسا ڈالا۔ انہوں نے بتایا عمران خان کے دورِ حکومت کے آخری سال 80 ارب کی درآمدات جبکہ 31 ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئیں۔ سمندر پار پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر 30 ارب ڈالرز تھیں جبکہ ڈالر کا خسارہ ساڑھے 17 ارب ڈالرز تھا ۔جب آپ کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہوں تو ظاہر ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھے گی۔ ہمیں چاہیے کہ جب ڈالر کی قیمت بڑھے تو درآمدات کم کریں پھر برآمدات خود بخود بڑھیں گی۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد وہی کوشش کی گئی جو 2013 سے 2018 میں کی گئی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر ان کے مطابق ان کی گزارشات سچ ثابت ہوئیں۔ اس وقت اگر ہم تسلسل کے ساتھ دانشمندانہ فیصلے کرتے، چاہے وہ مشکل ہی کیوں نہیں ہوتے تو آج جب پیٹرول دنیا میں سستا ہوگیا ہے تو پیٹرول کی قیمت بڑھانے کی نوبت نہیں آتی اور نہ اتنی مہنگائی ہوتی نہ شرح سود اس قدر بلند ہوتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مشکل فیصلے کرلیے ہوتے تو اکتوبر اور نومبر سے بہتری آنے کا قوی امکان تھا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ضمن میں مفتاح نے بتایا کہ عوام کے ساتھ زیادتی تو ضرور ہو رہی ہے لیکن وہ اس سارے قضیے میں آئی ایم ایف کو قصور وار نہیں گردانتے بلکہ 75 سال میں ہمارے حکمرانوں نے جو پالیسیاں دی ہیں اس کی روشنی میں اصل قصور وار وہ ہیں۔ عمران خان کے کرپشن مخالف بیانیے سے متعلق مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ خان صاحب یا کسی اور جماعت کے لیڈر کے ایجنڈوں میں کوئی فرق ہے۔ کرپشن کے الزامات تو ہر طرف لگ چکے ہیں۔ اگر خان صاحب پر توشہ خانہ کے گفٹ بغیر اندراج کیے لینے کے الزامات نہیں ہوتے اور عثمان بزدار، فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر سمیت ان کے دیگر ساتھیوں پر کرپشن کے سنگین الزامات نہ لگے ہوتے تو ان کے کرپشن مخالف بیانیے کو بالکل فوقیت ملتی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کے مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہئیں بلکہ اگر عمران خان جیت جاتے ہیں تو انہیں حکومت بھی ملنی چاہیے لیکن ساتھ ہی انہیں توشہ خانہ کیس میں جوابدہ بھی ہونا چاہیے۔

Back
Top