سیاسی

ن لیگ نے ثاقب نثار پر تنقید بند نہ کی تو ان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی، سابق چیف جسٹس بارے میرا دعویٰ ہے وہ عمران خان کی کوئی مدد نہیں کر رہے، اب تک ان پر 70 مقدمے درج ہو چکے ہیں: سینئر صحافی نجی ٹی وی چینل جی این این نیوز کے پروگرام خبر ہے میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ میری سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی ہے جس کے بعد میری مسلم لیگ ن کی قیادت سے گزارش ہے کہ اپنی تنقیدی توپوں کا رخ جسٹس (ر) ثاقب نثار کی طرف نہ موڑیں ورنہ منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار عمران خان کی کوئی مدد نہیں کر رہے، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ملک میں موجود تمام مافیاز کے خلاف سوموٹو نوٹسز لیے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام پاکستان کے وکلاء میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ لاء سیکرٹری بھی انہیں ن لیگ نے لگایا۔ سابق چیف جسٹس کے گھر کے باہر صرف ایک کانسٹیل کھڑا ہے اور پوری حکومت ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ ثاقب نثار آئین وقانون کی حکمرانی کے بجائے ان کو تحفظ دیں گے۔ مریم نوازشریف کو چاہیے کہ نوازشریف کو فون کریں اور پوچھیں کہ بڑے میاں صاحب کے ثاقب نثار کے بارے کیا تعریفی کلمات کہتے تھے؟ ثاقب نثار کا کوئی قصور نہیں، میاں محمد نوازشریف کو جب پانامہ کیس میں نااہل کیا گیا تو ثاقب نثار نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میرا دعویٰ ہے کہ وہ عمران خان کی کسی کیس میں مدد نہیں کر رہے، اب تک ان پر 70 مقدمے درج ہو چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ماورائے آئین کسی سے بات نہیں کرتے، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ مسلم لیگ ن چاہتی تھی کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال پر بھی تنقید کی جا رہی ہے حالانکہ وہ کورٹ میں جانے سے پہلے آدھا گھنٹہ تلاوت کرتے ہیں پھر کیس کو دیکھتے ہیں۔ جو بھی آپ کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو اس کی زندگی تنگ کر دیتے ہیں، شہید صحافی ارشد شریف نے چند پروگرام کیے تو 16 مقدمات درج کروا دیئے، ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا، وہ باز نہیں آئے تو انہیں ادھر ہی قتل کروا دیا۔
سینئرتجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے تصدیق کردی ہے کہ پاکستانی معیشت دوست ممالک کے رحم و کرم پر ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر تجزیہ کار کامران خان نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک خبر کا تراشہ شیئر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ادائیگیوں کے فرق کے مالیاتی توازن کی یقین دہانی کروانےکی ہدایات دی ہیں۔ اس خبر کے مطابق آئی ایم ایف کے مقامی نمائندے کا کہنا ہے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ جون میں ختم ہونےوالے مالی سال کیلئے پاکستان کے بیلنس آف پیمنٹس خسارے کیلئے مالی اعانت پوری گئی ہے، اگر یہ یقین دہانی کروادی جائے تو آئی ایم ایف فنڈنگ کی اگلی قسط کو کھولا جاسکے گا۔ کامران خان نے اس خبر کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی تصدیق سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک خصوصا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے رحم وکرم پر ہے، یہ ممالک اگر ہمارے اسٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروادیں تو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح پر پہنچ جائیں گے کہ آئی ایم ایف کی تسلی ہوجائے اور ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام بحال ہوجائے۔
عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کیلئے اسلام آباد پولیس کو ماموں بنایا، جیو نیوز کا دعویٰ نجی چینل جیو نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں سے پولیس کی مڈبھیڑ‘ گرفتاری سے بچنے کیلئے عمران خان نے پولیس کو ’’ماموں ‘‘ بنادیا‘۔ جیو نیوز کا کہنا تھا کہ پولیس کے مطابق ایس پی کمرے میں گئے مگر وہاں پی ٹی آئی چیئرمین موجودنہیں تھے ‘ خالی کمرہ دکھا کر شبلی فراز نے نوٹس پر لکھ دیا کہ عمران دستیاب نہیں ۔ اس طرح پولیس کو لاہور سے خالی ہاتھ روانہ ہونا پڑا اور صرف نوٹس کی تعميل کرائی جاسکی جبکہ عمران خان زمان پارک میں ہی موجود تھے ، انہوں کارکنوں سے خطاب بھی کیا‘ اسلام آباد پولیس نے غلط بیانی پر شبلی فرازکے خلاف کارروائی کا اعلان کردیا۔اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ عمران خان رہائش پر موجود نہیں، قانونی کارروائی کی راہ میں غلط بیانی سے کام لینے پر شبلی فراز کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ پولیس نے ایک کمرہ دیکھ کر ہی نوٹس کی تعمیل کیوں کروادی، پولیس چاہتی تو مزید کمروں کی تلاشی بھی لے سکتی تھی اور انتظار بھی کرسکتی تھی۔ اسی اخبار کا کہنا تھا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے ایس پی اسلام آباد پولیس حسین طاہر کی سربراہی میں آنے والی ٹیم نے اس ایکشن کے حوالے سے محکمہ داخلہ پنجاب کو بھی اطلاع نہیں دی۔ یہ معمول کا عمل ہے کہ اسلام آباد یا کسی دوسرے صوبے کی پولیس پنجاب میں کسی ہائی پروفائل شخصیت کی گرفتاری کے لئے آتی ہے تو اس حوالے سے ہوم سیکرٹری پنجاب کو بھی اطلاع دی جاتی ہے اور صوبہ اس میں معاونت کرتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کہ ساری کاروائی بے دلی کے ساتھ کی گئی جس کی وجہ سے عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب پولیس کے متعلقہ افسران بھی خود کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے لئے اسلام آباد پولیس کے اس ایکشن پر پوری طرح عملدرآمد کروانے میں ساتھ نہ دے سکے۔ خیال رہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے آئی ٹیم کے سربراہ حسین طاہر موجودہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کے داماد ہیں جن کے ساتھ پی ٹی آئی کارکن الجھ بھی پڑے تھے لیکن وہ اپنا دامن بچاکر نکل آئے تھے۔ کچھ تجزیہ کار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ جان بوجھ کر حسین طاہر کو بھیجا گیا تاکہ چیف جسٹس اور پی ٹی آئی کو آمنے سامنے لایا جاسکے لیکن حسین طاہر نے تحمل اور بردباری سے واپس جانے کو ترجیح دی اور میڈیا کے متنازعہ سوالوں کے جواب دینے سے بھی گریز کیا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ دوروز سے میرا وٹس ایپ ہیک ہو گیا ہے ، ابھی تک ریکور نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ میرے موبائل ڈیٹا کو کسی خاص مقصد کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے،میرا وٹس اپ ہیک کرنے والوں کو شرمندگی ہی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی میری مختلف ویڈیوز کو جوڑ کر ایک آڈیو بنائی گئی تھی، کسی کی نجی زندگی میں مداخلت چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان کی نااہلی سے متعلق فیصلے پر ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عمران خان کو 3 نکا ت پر صادق اور امین قرار دیا تھا، عمران خان کیخلاف 3 نکات پر میری ججمنٹ آج بھی موجود ہے ،تینوں نکات پر عمران خان صادق اور امین ثابت ہوئے تھے، اکرم شیخ نے عمران خان سے متعلق 3 نکات لکھ کر دئیے کہ ان پر فیصلہ کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو مکمل طور پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا، اسے سیاسی رنگ دیا گیا، نااہلی کی معیاد کا تقرر آئین قانون کی روشنی میں کیا، نااہلی کیس میں معیاد سے متعلق اوپن نوٹس کردیا تھا کہ جو بھی معاونت کرنا چاہے کرے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے پانامہ کیس میں خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا، آج کل عدالتی فیصلوں پر وہ بات کر رہے ہیں جنہیں قانون کی زبر زیر معلوم نہیں۔ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ جب چیف جسٹس نہیں بنا تھا تو نواز شریف نے مختلف حلقوں میں کہنا شروع کیا کہ یہ اپنا چیف ہے،جو شخص آج عدالتوں پر حملہ آور ہے وہ کبھی عدالتوں کا پسندیدہ رہا ہے،، صرف ایک مقدمہ کے علاوہ اسے ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف ہی ملتا رہا ہے۔ ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ملک کے مسائل کا حل الیکشن میں ہے، 2018میں بھی الیکشن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں جسے ناکام بنایا تھا،گواہ بابر یعقوب ہیں ، انہوں نے انکشاف کیا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ کو ایک پیر کے کہنے پر لگایا گیا، پی کے ایل آئی کی فرانزک رپورٹ کا اگر کوئی جائزہ لے تو سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ میرے مرنے کے بعد ایک کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے، 1997سے لیکر چیف جسٹس کے عہدے تک کی ساری کہانی لکھوں گا، ثاقب نثار میں اب کسی کو انٹریو نہیں دوں گا۔
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ قوم منتظر ہے کہ فوجی قیادت جنرل عاصم منیر کی سربراہی اور سپریم کورٹ کی رہنمائی میں موجودہ نظام کو فارغ کردے۔ اپنے تازہ ترین وی لاگ میں کامران خان نے کہا ہے کہ کہنے کو پاکستان میں جمہوریت ہے مگر قومی اسمبلی کا وجود ایک مذاق سے کم نہیں، دوتہائی پاکستان پر محیط پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق عدالتی فیصلے کو 12 جماعتیں پی ڈی ایم حکومت نے مسترد کرتے ہوئے کسی بھی قیمت پر الیکشن نا کروانےکا اعلان کیا ہے۔ کامران خان نےکہا کہ یعنی نگراں حکومت کی صورت میں ملک کے دو بڑے صوبوں میں آئین کی پامالی جاری رہے گی، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اس جمہوری ڈھکوسلے کو جاری رکھنےکی کیا ضرورت ہے؟ اب جنگ ہے ملک کو بچانے کی، ہمیں ہر قیمت پر ملک کو معاشی ، سیاسی وسماجی بحران سے نجات دلانا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ قو م نے اس وقت پاک فوج اور سپریم کورٹ سے امید لگالی ہے کہ دونوں ادارے ملک کو اس عذاب سے نکالیں، اب ایک ہی چارہ ہے کہ فوجی قیادت بغیر وقت ضائع کیے جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں فیصلہ کرے، آئین کی پاسداری کیلئے سپریم کورٹ کی رہنمائی حاصل کرے اور موجودہ نظام فارغ کردیا جائے، کیونکہ اس حکومت نے ببانگ دہل صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق عدالتی حکم کو مسترد کردیا ہے۔ کامران خان نے کہاکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج کی مکمل حمایت اور سپریم کورٹ کی رہنمائی میں ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائے ، یہ حکومت آئی ایم ایف حکومت سے معاہدہ مکمل کرے، عالمی برادری کا پاکستان پر اعتماد بحال کرے، اس عرصے میں سپریم کورٹ نیب قوانین میں موجودہ حکومت کی لائی تمام ترامیم مسترد کردے، تمام کرپشن کیسز بحال ہوجائیں اور جنرل (ر) نذیر بٹ کی قیادت میں احتساب کا نامکمل سفر دوبارہ سے شرو ع کرکے تکمیل کو پہنچا دے۔
صحافی انصار عباسی نے اپنے ذرائع سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپریل میں الیکشن کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے کیلئے اپریل کے آخری ہفتے یا پھر مئی 2023ء میں کوئی تاریخ دینے کاامکان ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کا اجلاس گزشتہ روز ہوا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد معاملے پر غور کیا گیا تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اجلاس ایک مرتبہ پھر آج ہوگا اور کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ انصارعباسی کے ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کی انتخابات سے متعلق رائے بہت واضح تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہوگا اور صدر مملکت کو پنجاب میں تاریخ بتانا ہوگی جبکہ کے پی میں الیکشن کیلئے گورنر سے مشاورت کرنا ہوگی۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے 90؍ دن میں ممکن نہیں ہوں گے، جبکہ صدر مملکت اور گورنر کے پی کی جانب سے تاریخ کا اعلان ہونے کے 54؍ دن میں بھی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ممکنہ طور پر رمضان اور عید کے بعد تاریخ کی تجویز پیش کرسکتا ہے۔ انتخابات عیدالفطر کے فوری بعد اپریل کے آخری ہفتے یا مئی میں ہونکاامکان ہے۔ جب ذرائع سے یہ پوچھا گیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر جن اداروں نے کمیشن کی معاونت پر ہچکچاہٹ دکھائی تھی کیا وہ اب معاونت کیلئے تیار ہیں، تو ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے کا مرحلہ دونوں صوبوں میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد آئے گا۔ واضح رہے کہ کچھ روز قبل پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی نے اپنے ویڈیو پیغام میں صدر مملکت عارف علوی سمیت دیگر اداروں سے اپیل کی تھی کہ وہ انتخابات کی تاریخ سے متعلق کوئی ایسی حکمت عملی بنا کر دن منتخب کریں جس سے رمضان یا مسیحی برادری کے ایسٹر کے ایام متاثر نہ ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک خالص عبادات کا مہینہ ہے جو سال میں ایک ہی بار آتا ہے اور نجانے دوبارہ کسی کو نصیب ہو یا نہ ہو اس لیے میری اداروں سے اپیل ہے کہ وہ اس حوالے سے حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے کوئی ایسی تاریخ منتخب کریں جب رمضان میں لوگوں کی عبادات متاثر نہ ہوں۔ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ اس طرح انتخابات سے نہ تو لوگوں کا رمضان پر فوکس رہے گا اور نہ ہی انتخابات میں بھرپور شرکت اور گرمجوشی بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے انتخابات کی تاریخ 15 شوال کے بعد کی دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل صدر نے جو تاریخ دی تھی وہ رمضان میں آ رہی تھی اس لیے دوبارہ اس چیز کا خیال رکھا جائے۔
ن لیگ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 10، 20 فیصد سیٹیں بھی نہیں نکال سکے گی، سینئر پارٹی رہنماؤں کا نواز شریف کو پیغام سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ن لیگ کے تین سینئر ترین رہنماؤں نے نواز شریف کو پیغام بھجوایا ہے کہ اگر آپ وطن واپس نہیں آتے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ن لیگ 10 ، 20 فیصد سیٹیں بھی نہیں نکال سکے گی۔ تفصیلات کے مطابق جی این این کے پروگرام خبر ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے کہا کہ نواز شریف کیلئے بڑی مشکل صورتحال ہے، وہ واپس آتے ہیں تو انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر حکومت الیکشن سے ایسے بھاگتی رہی تو ان پر توہین عدالت لگے گی، یوسف رضا گیلانی کو کس کیس میں عدالت نے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا تھا ؟ توہین عدالت کرنے پر ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جو عمل درآمد کرنے میں کوتاہی کرے گا وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا، تاہم مسلم لیگ ن شروع سے الیکشن کے فرار کے راستے ڈھونڈنے کی کوشش کررہی ہے۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ اگر یہ الیکشن سے فرار کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں تو دوسری جانب سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر قیمت پرآئین کی بحالی کیلئے 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد کروایا جائے گا ورنہ اس ملک میں آئین سے بغاوت ہوجائے گی اور سپریم کورٹ ایسا کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا ہے کہ معزز جج صاحبان کا کہنا ہے کہ یہ وقت اداروں کیلئے ہر غیر آئینی اقدام کو ماننے سے انکار کرنے اور آئین کی بحالی کیلئے کردار ادا کرنے کا ہے،اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ 90 روز میں انتخابات نا کروائے جائیں۔
سینئر تجزیہ کار و صحافی ابصار عالم نے کہا ہے کہ میرے خیال میں یہاں جوڈیشل مارشل لاء ہے ،دوسری جانب سینئر تجزیہ کار ایثار رانا کا کہنا ہے کہ کوئی کتنا بھی روئے یا پیٹے الیکشن تو ہونے ہی ہونے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سماء ٹی وی کے پروگرام"سٹریٹ ٹالک"میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو منظر نامہ نظر آرہا ہوتا ہے اسکے پیچھے ڈائریکشن دینے والے بہت سے لوگ ہوتے ہیں، انتخابات کے حوالے سے کچھ بھی کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا، سوال یہ ہے کہ کیا پرانی مردم شماری پر صرف دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کروائے جاسکتے ہیں؟ اور باقی 2 صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی اسمبلی کے انتخابات نئی مردم شماری پر منعقد کروائے جاسکتے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ جب صوبوں میں انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں آجائیں گی تو قومی اسمبلی کے انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن کیسے غیر جانبدار انتخابات کرواسکے گا؟ جس بھارت کی ہم مثالیں دیتے ہیں وہاں کے تمام ججز کے اثاثہ جات کی تفصیلات ان کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ ابصار عالم نے کہا کہ اصل میں یہاں جوڈیشری کی حکومت ہے ، یا ملک میں جوڈیشل مارشل لاء نافذ ہے، اب عدلیہ نے ہی فیصلےکرنے ہیں اور اس کیلئے پردے کے پیچھے کے تما م کردار بھی ڈائریکشن دیتے رہیں گے۔ اسی پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار ایثار راناکا کہنا تھا کہ کوئی روئے، چیخے یا چلائے الیکشن تو ہونے ہی ہونے ہیں، اس کو تو کسی بھی صورت رد نہیں کیاجاسکتا، تاہم ابھی بہت کچھ دھند میں ہے جس سے متعلق آئندہ کچھ دنوں میں وضاحت سامنے آئے گی،وزارت خزانہ کے پاس ایک دھیلا بھی نا ہو تب بھی اسے پیسے فراہم کرنا ہوگا، سیکیورٹی کی جہاں تک بات ہے راجن پور کا الیکشن آپ کا سامنے ہے ۔
سپریم کورٹ کے وکیل راجہ عامر عباس کا کہنا ہے کہ پرویزالہیٰ عدالت کے بلانے پر اگر پیش ہو بھی جاتے ہیں اور وہاں اگر یہ کہہ دیا کہ اسمبلی کی تحلیل میرا اپنا ذاتی فیصلہ تھا جو خود سب دیکھ بھال کر کیا ہے تو معاملہ وہیں ختم ہو جائے گا۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام شطرنج میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر قانون دان راجہ عامر عباس نے کہا کہ یہ تو سوال ہی غلط ہے کہ اسمبلیاں عمران خان کے کہنے پر کیوں توڑیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت وزیراعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے میں مداخلت کر سکتی ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مان بھی لیا جائے تو سابق وزیراعلیٰ پرویزالہیٰ عدالت میں پیش ہو کر اگر یہ بیان دے دیتے ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل صرف ان کے اپنے مائنڈ کا فیصلہ تھا تو پھر یہ معاملہ وہیں ختم ہو جائے گا۔ وہ صحافی عبدالقیوم صدیقی کی جانب سےاٹھائے گئےایک سوال کے جواب میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے جس میں ان کا کہنا تھا کہ جس طرح گزشتہ برس قومی اسمبلی کی تحلیل پر عدالت نے ازخود نوٹس لیا تھا اس طرح اگر اب بھی نوٹس لیا جاتا توپھر اس کا کیا نتیجہ نکلتا؟
تحریک انصاف کا جادو سرچڑھ کر بولنے لگا۔ضمنی الیکشن کے دوران سردار محسن لغاری نے تمام مخالف جماعتوں کے امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کر کے سب کو چاروں شانے چت کیا۔ تحریک انصاف کے محسن لغاری 90392 ووٹ لیکر پہلے نمبر پر رہے ان کے مخالف مسلم لیگ (ن) کے عمار لغاری 55218 ووٹوں کے ساتھ ان سے پیچھے رہے، پیپلز پارٹی کے اختر حسن گورچانی 20074 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ راجن پور کے حلقے این اے 193 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے دوران حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے امیدوار نے تمام امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ سردار محسن لغاری کے ووٹ 90392 ہیں جبکہ باقی تمام مخالفین امیدواروں کے مجموعی ووٹ 83574 بنتے ہیں۔ ارشاد بھٹی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کل امیدوار گیارہ،جیتی پی ٹی آئی،اب دلچسپ بات یہ کہ یہاں مسلم لیگ،پی پی سمیت تمام 10 امیدواروں کےووٹ ملا لئیےجائیں تو بھی پی ٹی آئی کےووٹ زیادہ،اب بتائیےان حالات میں پی ڈی ایم سےیہ توقع کہ وہ دو صوبوں کےالیکشن کروا دے،پاگل سمجھ رکھا ہےپی ڈی ایم کو کیا۔۔ اگر 2018ء کے عام انتخابات کی بات کی جائے تو این اے 193 میں پی ٹی آئی کے امیدوار سردار جعفر خان لغاری نے 81149 ووٹ حاصل کر کے فتح حاصل کی تھی اور ان کے مد مقابل آزاد امیدوار سردار شیر علی خان گورچانی نے 55409 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون امیدوار شازیہ عابد نے 27 ہزار 710 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہ سیٹ جعفرخان لغاری کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی جس کے بعد تحریک انصاف نے محسن لغاری کو کھڑا کیا تو مسلم لیگ ن نے عمارلغاری کو ٹکٹ دیدیا۔ خیال رہے کہ جعفرلغاری اویس لغاری کے چچا تھے جس کی بناء پر اویس لغاری نے اپنی بیٹے عمارلغاری کو ٹکٹ دلوایا۔ ماسوائے مینالغاری اور محسن لغاری خاندان کے تمام افراد نے ن لیگ کی حمایت کی، دوسری جانب آزادامیدوار شیرعلی گورچانی جنہوں نے آزادامیدوار کے طور پر 55409 ووٹ حاصل کئے تھے، نے بھی عمارلغاری کی حمایت کی جس کے بعد خدشہ تھا کہ تحریک انصاف یہ سیٹ ہارجائے گی۔ لغاری فیملی،علی شیرگورچانی کی حمایت کے باوجود اویس لغاری پر شکست کا خوف برقرار رہا اور پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے تحریک انصاف کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی کوشش کی گئی ، اسکے لئے پی ٹی آئی کے بااثر افراد کو گرفتار کروایا گیا، مبینہ طور پرفصلوں کو آگ لگائی گئی لیکن شکست پھر بھی ن لیگ کا مقدر رہی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شیرعلی گورچانی جنہوں نے آزادامیدوار کے طور پر 55409 ووٹ حاصل کئے،حمایت لیکر بھی عمارلغاری اتنے ووٹ بھی حاصل نہ کرپائے۔ اگر تحریک انصاف کے 2018 کے نتائج کا 2023 سے موازنہ کیا جائے توسردار جعفر خان لغاری نے 81149 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ 2023 میں محسن لغاری 90392 ووٹ حاصل کئے۔تحریک انصاف نے 2023 کی نسبت 9243 ووٹس زیادہ حاصل کئے۔ تحریک انصاف نے یہ سیٹ 2018 میں 25740 ووٹوں کے مارجن سے جیتی تھی لیکن اس بار 35174 ووٹوں کے مارجن سے جیتی پیپلزپارٹی جس کے بارے میں کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ آئندہ الیکشن جتوانے کیلئے پرواجیکٹ بلاول لانچ کیا جارہا ہے، یہ نتائج پیپلزپارٹی کیلئے بھی اہمیت کے حامل تھے۔پیپلز پارٹی کے اختر حسن گورچانی 20074 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے جبکہ 2018 میں پیپلزپارٹی نے یہاں سے 27 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود اس بار پیپلزپارٹی کو7500 کے قریب کم ووٹ ملے۔ اخترگورچانی ایک اثرورسوخ رکھنے والا شخص تھا جبکہ شازیہ عابد زیادہ اثرورسوخ نہ رکھنے کے باوجود 27000 سے زائد ووٹ لے گئیں
سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بہن جو کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر چکی ہیں ان سے متعلق پروپیگنڈہ کیا گیا کہ انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران کبھی پاکستان آنے کی زحمت نہیں کی وہ متحدہ عرب امارات میں رہتے ہوئے حکومت پاکستان سے بھاری تنخواہ وصول کرتی رہی ہیں۔ نجی اخبار سے وابستہ تحقیقاتی صحافی فخردرانی نے ان تمام جواب طلب سوالوں کو اٹھایا ہے کہ آیا ان کے خلاف جتنی خبریں پھیلائی گئیں کیا ان میں کوئی صداقت بھی ہے؟ کیا سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی بہن نے متحدہ عرب امارات میں رہتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے بھاری تنخواہ لی؟ انہوں نے اس سوال کا بھی جواب دیا کہ کیا وہ عمران خان کی حکومت کے دوران ایچ ای سی میں پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر بھی ذاتی طور پر کام کرتی تھیں؟ قومی ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سابق خاتون اول کی بہن کے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی جہاں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ بشریٰ بی بی کی بہن مریم ریاض وٹو ماہانہ 8 لاکھ پچاس ہزار روپے کی بھاری تنخواہ وصول کرتی ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مریم ریاض وٹو نے پاکستان آنے یا ایچ ای سی میں ذاتی طور پر کام کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت ہے یا یہ سب غلط معلومات پر مبنی جھوٹی باتیں ہیں۔ تو فیکٹ چیک کرنے کیلئے صحافی فخر درانی نے ایف آئی اے سے تصدیق کی کہ کیا وہ واقعی اس عرصے میں پاکستان نہیں آئیں؟ ایف آئی اے حکام نے مریم ریاض وٹو کی سفری تفصیلات کے ذریعے تصدیق کی کہ وہ اس عرصے کے دوران پاکستان میں ہی تھیں۔ مریم ریاض وٹو کینیڈا کی شہری ہیں اور انہوں نے پاکستانی سفری دستاویزات کے بجائے اپنے غیر ملکی پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان کا سفر کیا۔ اس بات کی بھی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ مریم ریاض نے جب ایچ ای سی میں ملازمت قبول کی تو وہ پاکستان میں ٹیکس دہندہ کے طور پر رجسٹرڈ تھیں۔اس سے پہلے وہ کبھی بھی رجسٹرڈ پاکستانی ٹیکس دہندہ نہیں تھیں۔ دی نیوز نے ایچ ای سی کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ اکرام سے بھی رابطہ کیا تاکہ حقائق کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا انہوں نے ذاتی طور پر کام کیا یا انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بطور کوآرڈینیٹر اپنے دور میں کبھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ ترجمان نے تصدیق کی کہ مریم ریاض نے ایچ ای سی میں ذاتی طور پر کام کیا ہے اور ایچ ای سی کے ساتھ کام کرتے وقت وہ باقاعدہ اور وقت کی پابند تھیں۔ ان کا ایچ ای سی میں دفتر تھا اور یہ غلط معلومات ہیں کہ وہ متحدہ عرب امارات میں رہتے ہوئے کبھی پاکستان نہیں آئیں اور تنخواہ وصول کی۔ ترجمان ایچ ای سی نے بتایا کہ مریم ریاض وٹو کو ہائر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ ان پاکستان (ایچ ای ڈی پی) کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر رکھا گیا تھا۔ پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر ان کی بنیادی ذمہ داری پروجیکٹ کوآرڈینیشن یونٹ کی سربراہی اور قیادت فراہم کرنا اور عالمی بینک کے ایچ ڈی ای پی پروجیکٹ کے نفاذ کو آگے بڑھانا تھی۔ ایف آئی اے حکام، ایچ ای سی کے ترجمان کا جواب اور پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے ان کی مدت ملازمت کے دوران ان کی ٹیکس رجسٹریشن اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ سابق خاتون اول کی بہن سے متعلق معلومات بے بنیاد اور جعلی خبروں بلکہ محض افواہوں کے زمرے میں آتی ہیں۔
نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں، یہ سوالات اس وقت سے اٹھ رہے ہیں جب نگران وزیراعلیٰ نے اپنی کابینہ کااعلان کیا اور اس میں نہ صرف اپنے رشتہ داروں بلکہ جے یو آئی ف، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے اہم رہنماؤں کے رشتہ داروں اور سفارشیوں کو شامل کرلیا۔ کچھ روز قبل ایک وزیر خوشدل خان کو اس بناء پر فارغ کیا گیا کہ وہ ایک سرکاری ملازم تھا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا لیکن اسی روز 2 افراد کو مشیر بنادیا جن میں رحمت سلام خٹک اور جرارحسین بخاری شامل تھا، جرار حسین بخاری پیپلزپارٹی کے رہنما نئیر حسین بخاری کے بیٹے ہیں اور انکا تعلق خیبرپختونخوا سے نہیں ہے اسکے باوجود وہ مشیر بن گئے جس پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے لاعلمی کا اظہار کیا اور انکوائری کا حکم دیدیا۔ اس پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے صحافی لحاظ علی نے تبصرہ کیا کہ خیبرپختونخوا کے انتظامی امور سے متعلق ایک اہم ملاقات کے دوران گورنر غلام علی اور جے یو آئی کے رہنما اکرم درانی نے نگران وزیراعلی اعظم خان کو کہا ”حضور اپ بیٹھ جائیے“ نگران وزیراعلی نے آنکھ اٹھا کر دونوں کی جانب دیکھا ۔۔ اور فوراً بیٹھنے کی بجائے ”لیٹ“ گئے سماء ٹی وی کے صحافی طارق آفاق کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی کے تبادلوں اور تقرریوں میں نذرانوں کی وصولی کی شکایات موصول ہورہی ہیں۔۔۔اس ضمن میں کرپشن پر ملازمت سے برطرف ایک سابق اعلی افسر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔۔۔جو منفعت بخش عہدوں پر تقرریوں کے لیے مالی معاملات طے کرنے پر مامورہے۔۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات پر نگران حکومت نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔۔۔۔الیکشن کے لیے 57ہزار اضافی پولیس نفری درکار۔ نگران کابینہ نے پولیس کی نفری ناکافی قرار دیدی۔
سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے جیل انتظامیہ کو پی ٹی آئی رہنماؤں پر تشدد کی ہدایات دیدی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جی این این کے پروگرام خبر ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا کہ حکومت بادی النظر میں پاگل پن کی حد تک ہوش و ہواس کھو بیٹھی ہے ، میری جیل کے ایک افسر سے بات ہورہی تھی ، اس افسر کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت نے ہمارا جینا مشکل کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیل کے افسر نے مجھے بتایا کہ حکومت نے ہمیں کہا ہے کہ گرفتاریاں دینے والے لوگوں کو ٹارچر کرو، حکومت نے اسد عمر کو اٹک جیل، کسی کو راجن پور جیل اور کسی کو رحیم یار خان کی جیل میں منتقل کردیا ہے، ان رہنماؤں کو جن گاڑیوں میں ایک سے دوسرے شہر بھیجا گیا ہے اس میں ایک شخص کا بیٹھنا محال ہے۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہے، یہ حکومت اس حسن کو داغدار کررہے ہیں، یہ گرفتاریاں دینے والے خدانخواستہ کوئی دہشت گرد یا ملک دشمن تو نہیں ہیں، ان رہنماؤں کو صرف تذلیل کرنے کیلئے انہیں جیل وین میں بٹھا کر دوسرے شہروں کی جیلوں میں منتقل کیا جارہا ہے، کیا ان کے اندر کا ضیاء الحق آج تک نہیں مرا؟ جیسے ضیاء کا نظریہ تھا کہ مخالفین کو راستے سے ہٹادو اور اس نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھادیا تھا۔
جیسے جیسے حکومت کی طرف سے عمران خان کو دبایا جا رہا ہے اس سے ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جیلوں میں جگہ کم پڑ جائے گی کیونکہ کارکنوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، مبینہ طور پر سازش کی جا رہی ہے کہ جیلوں میں ان پر تشدد کیا جائے: سینئر صحافی سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے اعلان پر لاہور سے جیل بھرو تحریک شروع کر دی گئی ہے جبکہ پشاور میں بھی ہزاروں کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ نجی ٹی وی چینل جی این این نیوز پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے حکومت کی طرف سے عمران خان کو دبایا جا رہا ہے اس سے ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 15 سال سے پاکستان میں جمہوریت ہےموجودہ حکومت عمران خان کی تحریک کے خلاف جتنی فسطائیت کا مظاہرہ کر رہی ہے کسی ڈکٹیٹر کے دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہے ہیں، اسد عمر وفاقی وزیر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اعظم سواتی سینیٹر ہیں جن پر پہلے بھی ٹارچر کیا گیا ، اگر انہیں گرفتار نہیں کرنا تھا تو قیدیوں والی وین وہاں کیا کرنے گئی تھی؟آپ کا مقصد ہی ان کی گرفتاری تھا۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ جیلوں میں جگہ کم پڑ جائے گی کیونکہ کارکنوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، مبینہ طور پر سازش کی جا رہی ہے کہ جیلوں میں ان پر تشدد کیا جائے ۔ دوسری طرف اتحادی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے گٹھ جوڑ سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اگلے سو سال بھی الیکشن نہیں کروائیں گے۔ مجھے لگتا ہے حکومت چاہتی ہے عمران خان اقتدار میں نہ آئے چاہے کوئی تیسری طاقت اقتدار میں آجائے۔ دریں اثنا چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں عام انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے ازخود نوٹس لے لیا ہے، کل 2بجے 9رکنی لارجر بنج کیس سماعت کرے گا جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔
پرویزالٰہی کی تحریک انصاف میں شمولیت ق لیگ اور چوہدری شجاعت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ نہ صرف پرویزالٰہی بلکہ انکے بیٹے مونس الٰہی اور بھتیجے حسین الٰہی بھی تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ ساتھ ساتھ ق لیگ کے 10 سابق ارکان صوبائی اسمبلی بھی تحریک انصاف کا حصہ بن گئے ہیں جن میں حافظ عمار یاسر، شجاعت نواز، عبداللہ یوسف وڑائچ، باؤ رضوان، ساجد بھٹی، احسان الحق، محمد افضل، باسمہ چوہدری اور خدیجہ عمر فاروقی شامل ہیں۔ اسی طرح موسیٰ الٰہی، خرم منورمنج، ثمینہ خاورحیات بھی تحریک انصاف کا حصہ بن گئی ہیں۔ طار ق بشیر چیمہ نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ق لیگ وہی ہے جس کے صدرچوہدری شجاعت ہیں، یہ بہت بڑا ڈرامہ ہے کہ پارٹی ضم ہونے جارہی ہے۔مونس الٰہی، حسین الٰہی اور کامل علی آغا کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کیلئے پہلے استعفیٰ دینا ہوگا۔ جنگ جیو کے صحافی صالح ظافر نے دعویٰ کیا ہے کہ وضاحت نہ دینے پر مونس الٰہی ، حسین الٰہی اور کامل علی آغا سے پارلیمنٹ اور سینٹ رکنیت واپس لئے جانے امکان ہے۔ صالح ظافر کے مطابق ق لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ ضم ہونے والے قومی اسمبلی کے دو ارکان اسمبلی چوہدری مونس الٰہی اور چوہدری حسین الٰہی اور واحد سینیٹر کامل آغا کو نوٹس جاری کریں گے کہ وہ ق لیگ کے ساتھ اپنی وفاداری کے معاملے پوزیشن واضح کریں۔ اگر یہ لوگ خود کو پی ٹی آئی کا حصہ قرار دیتے ہیں تو انہیں نہ صرف پارٹی سے نکال دیا جائے گا بلکہ یہ لوگ اسمبلی رکنیت بھی ختم کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ صالح ظافر کے مطابق تینوں کو قانون کے تحت انضباطی کارروائی کا بھی سامنا کرنا ہوگا کیونکہ انہوں نے وفاداریاں تبدیل کی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں کہیں بھی صوبائی اسمبلی کا ذکر نہیں ہے، ایکٹ میں اسمبلی کا لفظ لکھا ہے جس میں تمام صوبائی وقومی اسمبلیاں شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوزکے پروگرام آف دی ریکارڈ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئےلطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی شق 57 ٹو میں بھی "ڈیٹ " اور "ڈیٹس" کے الفاظ درج ہیں،اگر یہ شق صرف قومی اسمبلی کے حوالے سے ہوتی تو صرف "ڈیٹ" پر ہی اکتفا کیا جاسکتا تھا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ صدر کو اختیار ہے وہ الیکشن کی تاریخ دے جب گورنر آئین کی خلاف ورزی کرے گا تو صدر آئینی سربراہ ہونے کہ ناطے انکا بھی حق بنتا ہے وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ گورنرز اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کررہے تو کیا صدرنے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، ایسےہی پوری قوم نے آئین کے آرٹیکل5 کے تحت یہ حلف اٹھایا ہوا ہے،آرٹیکل7 میں ریاست کی تعریف بھی بیان کی گئی ہے جس کے مطابق طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، عوام ہی ریاست ہے اور عوام ہی مقتدر ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ نا کوئی اور ادارہ نا عدلیہ یا کوئی اور حلقہ مقتدر ہے ، صرف عوام مقتدر ہے اور عوام کے نمائندے اور ان نمائندوں کی مدد سے بننے والی حکومتیں ریاست ہیں۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افغانستان کےدورے کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ بلانے کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی 6 سے 8 مہینوں میں نہیں آئی ہے، جنہوں نے ان دہشت گردوں کو یہاں لاکر بسایا ہے وہ پارلیمنٹ میں آکر جواب دیں۔ انہوں نے جنرل فیض حمید کو حالیہ سیکیورٹی معاملات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ کابل کے سرینا ہوٹل میں سرینا ہوٹل میں ہاتھ میں چائے کا کپ اٹھا کر کہا گیا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا یادرہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے دوران ستمبر 2021 میں جنرل فیض حمید بطور ڈی جی آئی ایس آئی اچانک کابل کے دورے پر پہنچ گئے، کابل کے ایک بڑے ہوٹل میں ان کی ہاتھ میں چائے کا کپ اٹھائے تصویر بھی منظر عام پر آئی ، اس پر ہر کسی کو شدید حیرت تھی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے اپنےدورہ افغانستان کے دوران افغان طالبان، سربراہ حزب اسلامی گلبدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی تھی، ان ملاقاتوں میں افغانستان میں حکومت کے قیام کیلئے درپیش مسائل، اقتصادی و سیکیورٹی معاملات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
کیا پنجاب کا نگران سیٹ اپ وقت سے پہلے ختم ہورہا ہے؟ دوصحافیوں نے بڑا دعویٰ کردیا ذرائع کے مطابق دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک تقریب میں پنجاب نگراں حکومت کے تین چار وزرا کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کے ہمارا اصل مقصد صرف 90 دن میں الیکشن کروا کر یہاں سے عزت سے جانا ہے۔ محسن نقوی کے چینل کے رپورٹر علی رامے کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کی موجودہ نگران حکومت صوبے میں الیکشن کے لیے کسی بھی قسم کی بلاوجہ تاخیر اور رکاوٹ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے اور اگر ایسی کوئی رکاوٹ پیدا کی گئی تو یہ نگران سیٹ اپ وقت سے پہلے ختم بھی ہوسکتا ہے اسی طرح کا دعویٰ رائے ثاقب کھرل نے بھی کیا ہے جن کے مطابق پنجاب کا نگران سیٹ اپ جانے کی اطلاعات ہیں۔۔ یا الیکشن کروائو یا سیٹ اپ جا رہا رائے ثاقب کھرل کا مزید کہنا تھا کہ غیر ضروری مقدمہ بنانے میں بھی نگران سیٹ اپ استعمال نہیں ہونا چاہتا۔ ن لیگ رگڑے دینا چاہتی تو وفاقی حکومت سے کروائے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ صدر کے الیکشن کی تاریخ سے متعلق آرڈر کی اہمیت ردی کے ایک ٹکڑے جتنی بھی نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق رانا ثناء اللہ نے یہ بیان "جیو نیوز "کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ "میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ آئین اس معاملے میں بالکل واضح ہے، صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے،وہ خود سے کوئی اختیار نہیں رکھتا، اس آرڈر پر نا تو کسی کو عمل کرنےکی کوئی ضرورت ہے اور نا ہی کسی کو اس آرڈر کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کروانا چیف الیکشن کمشنر کا کام ہے اور یہ انہیں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فری اینڈ فیئر الیکشن کروائیں،جب آئین یہ کہتا ہے کہ الیکشن ایک کیئرٹیکر سیٹ اپ میں ہوں گے تو ایک طرف وفاقی حکومت موجود ہے، دو صوبوں کی حکومتیں موجود ہیں ایسے میں بغیر کسی کیئر ٹیکر سیٹ اپ کےفری اینڈ فیئر الیکشن کیسے ہوسکتے ہیں؟ راناثناء اللہ نے مزید کہا کہ اگر آئین میں 90 روز کے اندر الیکشن کروانا درج ہے تو اسی آئین میں کیئر ٹیکر سیٹ کے تحت الیکشن کروانا بھی درج ہے، اگر الیکشن کمیشن ہماری اس رائے سے متفق ہے تو وہ قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کروانے کیلئے تاریخ دے دے، ان لوگوں نے 2 صوبائی اسمبلیاں بغیر کسی آئینی جواز کے ایک شخص کی ضد اور جھوٹی انا کی خاطر تحلیل کردیں، اب الیکشن کمیشن ان اسمبلیوں کے الیکشن کا فیصلہ کرے۔ صدر مملکت کے مواخذے سے متعلق سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس مسکین کا ہم نے کیا مواخذہ کرنا ہے، اس کی اپنی کیا حیثیت ہے اس کو جو کچھ عمران خان نے کہا ہے وہ انہوں نے کردیا ہے، تاہم اس آرڈر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
6 نومبر 2007ء کو صوبہ خیبرپختونخوا کے وکیلوں کی طرف سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کے ساتھ ساتھ جیل بھرو تحریک کا اعلان بھی کیا گیا پاکستان میں "جیل بھرو تحریک" کی تاریخ بہت پرانی ہے جس میں سب سے پہلے 1981ء میں قائم کی گئی سیاسی جماعتوں کے اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی) نے سابق صدر ضیاء الحق کے خلاف 1983ء میں مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے شروع کی تھی جس میں ملک بھر سے ہزاروں پارٹی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سیاسی رہنمائوں اور وکلاء کے علاوہ ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ ایم آر ڈی نے ہی دوسری بار 1986ء میں جنرل ضیاء الحق کیخلاف تحریک شروع کی جس میں پیپلزپارٹی نمایاں تھی، ایم آر ڈی جیل بھرو تحریک ضیاء الحق کی حکومت ختم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ملک بھر میں تحریک کے دوران بڑے جلسے جلوس نکالے گئے جس میں عوام کا مطالبہ تھا کہ جلد انتخابات کروائے جائیں بالآخر 16 نومبر 1988ء کو عام انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی اور بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ صدر متحدہ مجلس عمل قاضی حسین احمد کی طرف سے 18 نومبر 2004ء کو حکومت کو پیغام دیا گیا کہ اگر ان کی 28 نومبر 2004ء کو احتجاجی ریلی میں کسی قسم کا رخنہ ڈالا گیا تو وہ جیل بھرو تحریک کا آغاز کر دیں گے لیکن قاضی حسین احمد کی یہ دھمکی محض دھمکی ہی ثابت ہوئی۔ ملک میں سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے خلاف 6 نومبر 2007ء کو صوبہ خیبرپختونخوا کے وکیلوں کی طرف سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کے ساتھ ساتھ جیل بھرو تحریک کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن اس اعلان کو وکیلوں کی طرف سے حکومت کے خلاف صرف دبائو کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن اس پر بھی کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ودیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے 13 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے، شہید بینظیر بھٹو کی نظربندی اور ججز کو برخاست کرنے کے خلاف احتجاج پر پولیس نے 100 سے زائد مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو گرفتارکیا جس پر پیپلزپارٹی ود یگر جماعتوں کی طرف سے جیل بھرو تحریک شروع کی گئی۔ تحریک میں عوامی پارٹی کے 5 کارکنوں نے کوٹ غلام محمد پولیس سٹیشن میں عدالت کے ذریعے گرفتاری دی تھی۔ تحریک لبیک یارسول اللہؐ کے امیر اشرف آصف جلالی نے 15 جنوری 2018ء کو اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ، راجہ ظفر الحق کی رپورٹ سامنے لانے اور شہید کارکنوں کی جانوں کے ازالہ کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا نہ ہوا تو 27 جنوری 2018ء کو جیل بھرو تحریک شروع کر دینگے اور عدالتوں کے ذریعے پنجاب اسمبلی کے سامنے گرفتاری دینگے اور دیگر کارکن بھی تب تک گرفتاری دیتے رہیں گے جب تک کہ پنجاب کی جیلیں بھر نہ جائیں۔ گزشتہ سال میانوالی کے 8 اکتوبر 2022ء کو ہونے والے جلسہ میں سابق وزیراعظم وچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت کو کارکنوں کو ڈرانے دھمکانے پر جیل بھرو تحریک کی دھمکی کے 133 دنوں بعد 17 فروری کو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ لاہور میں زمان پارک سے عوام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے17 فروری کو اعلان کیا کہ جیل بھرو تحریک باقاعدہ طور پر 22 فروری 2023ء سے لاہور سے شروع کی جائے گی۔

Back
Top