سیاسی

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما خرم جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ بدمعاش آئی جی ہم سے بدلے لینے پر تلا ہوا ہے، آج ان کی جانب سے بدمعاشی ، دہشت گردی اور توہین عدالت کی گئی ہے۔ خبررساں ادارے جی این این کے پروگرام فیس ٹو فیس میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ اس ملک میں مقدس گائے کون ہے؟ کیا جاتی امراء اس ملک کی مقدس گائے ہے یا وہ جو اس سب میں ملوث ہیں؟اگر ملک کی اکثریتی عوام آج ان کی طرف رخ کرلے تو کون محفوظ رہے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جس آگ سے آج کھیل رہے ہیں یہ جب ان کے گھروں تک پہنچے گی تو انہیں سمجھ آئے گی، ہمارے دور میں ایک ایف آئی آر ایسی دکھادیں جس میں ہم نے اپنے سیاسی مخالف یا ان کے کارکنان پر تشدد کیا ہو، ٹی ایل پی والوں پر بھی آپریشن ہم نے نہیں کیا، جنہوں نے کیا سب کو معلوم ہے، ان کا نام لیتے آپ کے بھی پر جلتے ہیں۔ رہنما تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ "52 سال پہلے شیخ مجیب کے گھر کے دروازے توڑے گئے تھے جس کء نتیجے میں ہمارا ملک ٹوٹا تھا، اگر یہ سب کچھ اس غنڈی بدمعاش عورت کی ڈکٹیشن پر ہورہا ہے تو اس کا مطلب ہے ملک مریم نواز کی فرمائشی پروگرام پر چل رہا ہے"
جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں جرنیلوں، حکمرانوں کو ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے، 75 سال کے اس تجربے کے بعد یہ سوال ہی ختم ہو جانا چاہیے کہ کس پر بات ہوسکتی ہے اور کس پر نہیں، پاکستان کی 75 سال کی تاریخ ہے جس میں فوجی اسٹیبلشمنٹ، سول اسٹیبلشمنٹ اور اب عدلیہ بھی اس میں کردار ادا کرتی ہے۔ وہی تو فیصلہ دے رہی ہے،عدلیہ کے بھی پیمانے الگ الگ ہیں۔ کسی کے لیے رات کو 12 بجے عدالت کُھل جاتی ہے اور کسی کیس کے لیے سپریم کورٹ کے پاس وقت ہی نہیں۔ وی نیوز کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے۔ ایک انسان کی حیثیت سے ایک جرنیل اور ایک مزدور دوںوں برابر ہیں،حافظ نعیم الرحمان کے مطابق سب کو اپنی 75 سال کی ناکامی کا جواب دینا چاہیے،75 سال میں کس کی حکومت رہی ہے؟ جاہلوں کی رہی ہے؟غریبوں کی رہی ہے؟ یا مڈل کلاس کی رہی ہے؟ ان میں سے کسی کی نہیں رہی۔ پاکستان میں حکومت رہی ہے ٹاپ کلاس جرنیلوں کی۔ ٹاپ کلاس بیورو کریٹس کی۔ ٹاپ کلاس وڈیروں اور جاگیرداروں کی اور ان لوگوں کی جو اس سسٹم کو چلانے والے سیاستدان ہیں۔‘ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا حکومت مسئلہ نہیں ہوتی، حکمران طبقہ مسئلہ ہوتا ہے، یہ سب ایک دوسرے کے پارٹنر ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے سہولت کار ہیں، یہ ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں کریں گے،ان سب کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ جرنیلوں کو بھی کرنا چاہیے۔ جاگیرداروں کو بھی کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا بلدیاتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا اسٹیبلشمنٹ بظاہر پورے انتخابی عمل میں سامنے نہیں آئی اور نہ ہی ایسا محسوس ہوا تھا اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا اس وقت پیپلزپارٹی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی کے مطابق اگر پیپلز پارٹی اتنا کھل کر کھیل رہی ہے، جیتی ہوئی چیزوں کو ہار میں زبردستی تبدیل کر رہی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ اکیلے یہ کام کر رہی ہو،آرمی چیف یہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اے پولیٹیکل رہیں گے اور سیاست میں دخیل نہیں ہوں گے،ایسا ہے تو پھر اس پر ہر جگہ عمل ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ اگر میرا خدشہ غلط ہے تو یہ ان کے آئندہ عمل سے ہی ظاہر ہوگا۔ حافظ نعیم نے کہا پیپلز پارٹی اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہے اور وہ عوام کی وجہ سے نہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مراسم کی وجہ سے سمجھتی ہے، لیکن پیپلز پارٹی کو یہ نہیں پتا کہ یہ چیزیں بدل جاتی ہیں،عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد نہیں آنی چاہیے تھی،جو جیت جائے اسے پانچ سال کا موقع دینا چاہیے، نواز شریف کو بھی وقت پورا کرنے دینا چاہیے تھا۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا نوازشریف کو ہٹانا ہو یا بے نظیر ہو یا کوئی بھی وزیراعظم ہو ان کو ہٹانے میں اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان تو اب انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں لیتے لیکن ان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے اتحاد سے متعلق حافظ نعیم نے کہا کون ہے جو وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کو ساتھ بٹھا سکتا ہے؟ کس میں یہ صلاحیت موجود ہے؟ کون ہے جو ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگانے والوں اور ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھنے والوں کو اکٹھا کر سکتا ہے؟ لیکن یہ زیادہ دیر اکٹھے رہ نہیں سکتے۔ حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ ایک بار پھر غلطی کر رہی ہے، ایک بار پہلے بھی مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی جا چکی ہے اور اس کا اثر کراچی کے عوام پر پڑا ہے۔ الطاف حسین کی پاکستان کی سیاست میں واپسی سے متعلق امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی واپسی کا کوئی اشارہ نہیں ملا لیکن ہمارے ہاں فیصلے کا کچھ پتا نہیں چلتام، اسٹیبلشمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ زیرو جمع زیرو کرکے سو کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ بھی بدنام ہوگی۔ انہیں اس کام سے گریز کرنا چاہیے۔
شفاف انتخابات کروا کر کشیدگی ختم کی جائے ورنہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے: آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہونگے، سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی اس کے باوجود عملدرآمد نہ کرنا آئین سے انحراف اور توہین عدالت ہو گی: سینئر صحافی نجی ٹی وی چینل جی این این کے پروگرام فیس ٹو فیس میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کار عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ حکومت کو جیسے بھی برسراقتدار لایا گیا وہ آگئی لیکن اب وقت کا تقاضا ہے کہ ملک میں جیسے اختلاف رائے ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکا ہے صاف وشفاف انتخابات کروا دینے چاہئیں اور اس سیاسی کشیدگی کو ختم کرنا ہو گا ورنہ ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ڈیم) جو نیب زدہ تھی 11 سو ارب کے اپنے مقدمات ختم کروا دیا ہے اور وزیر دفاع خواجہ آصف خود کہہ چکے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں اس سب کے بعد تمام رنجشیں، دشمنیاں ختم کر کے انتخابات کروا دیئے جائیں اور عوام کو فیصلے کا حق دیا جائے ورنہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ یہ حکومت اب بھی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہےاور عمران خان پر جو اتنے سارے مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں اس سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ حکومت ہوش کے ناخن کیوں نہیں لے رہی؟ آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہونگے، سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی اس کے باوجود عملدرآمد نہ کرنا آئین سے انحراف اور توہین عدالت ہو گی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ مبینہ طور پر حکومت نے سازش کی تھی کہ عمران خان کو راستے سے ہٹایا جائے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ متعدد بار دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں عمران خان کو گرفتار کروںگا جس دن لاہور میں پنجاب پولیس زمان پارک کو خون سے رنگ کر رہی تھی اس دن بھی رانا ثناء اللہ مریم نوازشریف کے پرسنل اسسٹنٹ کی طرح کہہ رہے تھے کہ آج میں اسے گرفتار کروں گا۔ ہزاروں شہری جب زمان پارک پہنچ گئے تو ان کی سازش ناکام ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات بھی بہت سے لوگوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان کی 3 بڑی ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ عمران خان 70 فیصد سیٹیں حاصل کر لے گا۔ مریم نوازشریف جانتی ہیں وہ الیکشن نہیں جیت سکتیں، عمران خان کی انتخابات میں کامیابی کا خوف پی ڈی ایم کو سونے نہیں دے رہا۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی لیڈر پر 10 مہینوں میں 94 مقدمات درج کر دیئے گئے ہوں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کفایت شعاری کی پالیسی تار تار ہونے لگی، حکومتی عہدیداران، بیوروکریٹس ، عدلیہ و فوجی افسران کی جانب سے 200 ارب بچانے کے بجائے300 ارب اضافی خرچ ہونے کا خدشہ ہے۔ سینئر تجزیہ کار عامر متین نے 92 نیوز کے پروگرام مقابل میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کفایت شعاری پالیسی پر بہت شور مچایا کہ، تاہم16 وفاقی وزراء ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک لگژری گاڑیاں واپس نہیں کیں، بعض بیوروکریٹس ایسے ہیں جو گاڑیاں واپس کرنے پر ملنے والا الاؤنس بغیر گاڑیاں واپس کیےہی وصول کررہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں عنقریب ان افسران کے نام بھی سامنے لاؤں گا جنہوں نے لاہور و اسلام آباد میں 2 ،2 سرکاری گھر رکھے ہوئے ہیں، اس حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کفایت شعاری مہم سے 200 ارب روپیہ بچایا جائے گا، تاہم محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس حکومت کے طور طریقے ایسے ہیں انہیں اضافی 100 ارب روپیہ بھی دینا پڑے گا۔ عامر متین نے کہا کہ یہ کلچر صرف ایک وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان پر تبدیل نہیں ہوجائے گا، انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم کے تمام معاونین بغیر تنخواہ کے کام کریں گے مگر ایسا نہیں ہے سب کی مراعات ویسے ہی چل رہی ہیں،مریم نواز کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے مگر پھر بھی انہیں 30، 30 گاڑیوں کا پروٹوکول اور سیکیورٹی مل رہا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ دوسری جانب عمران خان جو اس ملک کے سابق وزیراعظم ہیں انہیں حکومت سیکیورٹی فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن نےکہا ہے کہ اس وقت پنجاب میں انتخابی مہم چل رہی ہے اس دوران کسی بھی سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے کیلئے 15 روز قبل نوٹس دینا ضروری نہیں ہوتا۔ تفصیلات کے مطابق اعتزاز احسن نے جی این این کے پروگرام خبر ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پنجاب میں الیکشن کا ماحول بن رہا ہے، ہر سیاسی جماعت نے ایک دن میں 4سے 5 جلسے کرنے ہیں، مثال کے طور پر جب بلاول پنجاب کے دورے پر آئیں گے تو ہم ایک دن میں ان کے کم از کم چار پانچ جلسے توضرور کروائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح جب مریم انتخابی مہم شروع کریں گی تو ان کیلئے بھی ان کی پارٹی ایک دن میں 4،5 جلسے منعقد کرے گی، یہ تو بے تکی بات ہے کہ پی ٹی آئی سے پوچھا جائے کہ انہوں نے جلسہ کیوں کرنا ہے، یا 15 دن پہلے نوٹس دے کر جلسہ کیا جائے، الیکشن مہم کے دوران تو روز جلسے ہوں گے، عدالت ایسی کسی بھی حکومتی فیصلے کو منسوخ کردے گی۔ زمان پارک پر آنسو گیس کی شیلنگ کےحوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے گھر پر تو شیلنگ ہوئی ہے انہوں نے تو ساتھ میں ہمارے گھروں پر بھی آنسو گیس کے شیل فائر کیے ہیں، گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں، جب کسی جگہ پر آنسو گیس فائر کی جاتی ہے تو وہ 15سے 20 گھروں میں پھیلتی ہے اور یہ جو آنسو گیس استعمال کررہے ہیں وہ بہت ہی ظالم قسم کی ہے جس سے اردگرد رہنے والے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں توشہ خانہ سے تحائف لینے کی خبریں گرم ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوا 2002ء کے بعد سے کسی جج نے توشہ خانہ سے لیا جانے والا تحفہ ظاہر نہیں کیا، توشہ خانہ کی جو فہرست جاری کی گئی اس کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا تھا کہ انہیں 14 فروری 2022ء کو صرف ایک تحفہ صراحی ملا تھا جو انہوں نے توشہ خانے میں جمع کرا دیا۔ یہ تحفہ سپریم کورٹ کی عمارت میں نمایاں مقام پر نمائش کیلئے رکھا گیا ہے۔ تحفے کی مالیت کا تخمینہ تین لاکھ تیس ہزار روپے لگایا گیا تھا،تین اور ججز بھی تھے جنہوں نے تحفے ظاہر تو کیے لیکن ایگزیکٹو پوزیشن پر رہتے ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال نے تحفہ اس وقت ظاہر کیا جب وہ چیئرمین نیب تھے، جسٹس محمد بشیر نے اس وقت ظاہر کیا جب وہ وفاقی محتسب تھے اور سابق چیف جسٹس ریاض احمد نے اس وقت ظاہر کیا جب وہ قائم مقام صدر پاکستان تھے۔ تینوں ججز نے یہ تحفے مفت میں لیے یا پھر تخمینہ لگائی گئی رقم ادا کرکے، صرف جسٹس جاوید اقبال نے جو تحفہ لیا تھا وہ نیلامی میں لیا تھا،جسٹس جاوید کو ایک اور تحفہ بھی ملا تھا جو انہوں نے توشہ خانے میں جمع کرائے بغیر ہی اپنے پاس رکھ لیا،جسس جاوید اقبال کو 2011ء میں تحفہ ملا تھا اور اس وقت وہ چیئرمین انکوائری کمیشن ایبٹ آباد تھے۔
مسلم لیگ ن کی چیف آرگنازئر مریم نواز نے صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے۔ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنازئر مریم نواز نے پنجاب کے دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں۔ مریم نواز نے پہلے حلقہ پی پی 173 لاہور سے کاغذات نامزدگی ایڈووکیٹ محمد اسماعیل کے ذریعے جمع کروائے، ڈپٹی ڈائریکٹر آفتاب احمد انصاری نے کاغذات نامزدگی وصول کئے۔ مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے لاہور کے حلقہ پی پی 149 سے بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئیے ہیں۔ پی پی 149 سے اس سے قبل خواجہ عمران نذیر جبکہ پی پی 173 سے بلال یاسین الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ آج نیوز کے مطابق مریم نواز نے گوجرانوالہ کے حلقہ پی پی 63 سے بھی الیکشن لڑنیکا فیصلہ کیا ہے اور کاغذات جمع کرادئیے ہیں۔ مریم نواز کے کاغذات نامزدگی ملک لیاقت اعوان ایڈوکیٹ اور کنول لیاقت ایڈووکیٹ نے جمع کروائے، اور یہاں پر مریم نواز کے تائید کنندہ میں ایم شہباز بھٹی،عامر رضا، میاں مبشر، عاشق سلہری اور خرم مغل شامل ہیں۔ حناپرویزبٹ نے بھی صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور انہوں نے پی پی 155 اور پی پی 160 کیلئے الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔ دوسری جانب ریٹرننگ افسر پی پی 173 نے مریم نواز کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے 22 مارچ کو بلا لیا ہے۔ مریم نواز کو دو کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لئے دوپہر سوا دو بجے کا وقت دیا گیا ہے، اور ریٹرنگ افسر نے کہا ہے کہ مریم نواز الیکشن ایکٹ کے تحت حاضری کے لئے کسی کو نامزد بھی کرسکتی ہیں۔
ن لیگ جھوٹی، عمران خان نے توشہ خانہ تحائف گوشواروں میں ظاہر کیے، شریف خاندان کی توشہ خانہ چوری پکڑےجانےکےبعد مسلم لیگ ن کےچند افراد جھوٹ پھیلارہےہیں: تحقیقاتی صحافی وفاقی حکومت نے توشہ خانہ تحائف کی خریداری سے متعلق 2002ء سے 2023ء تک کا 466 صفحات پر مشتمل 21 سالہ ریکارڈ پبلک کرتے ہوئے سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا گیا ہے۔ توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق وزرائے اعظم ، سابق صدور، وفاقی وزراء اور سرکاری حکام کے نام بھی شامل ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس پر بیانیہ بنایا جا رہا تھا کہ انہوں نے تحائف ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔ تحقیقاتی صحافی احمد نورانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ویب سائٹ فیکٹ فوکس کی خبر شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا کہ: شریف خاندان کی توشہ خانہ چوری پکڑےجانےکےبعد مسلم لیگ ن کےچند افراد یہ جھوٹ پھیلارہےہیں کہ عمران خان نےوزیراعظم بننےکےفوراً بعد ملنےوالےتحائف دوہزارانیس کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے حالانکہ سب کچھ مکمل طور پر ڈکلیئر کیا گیا۔ 2019ء سمیت تمام گوشوارےاس خبر میں ہیں! ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ: اور سر یہ جھوٹ پھیلانے میں آپ کے میڈیا ئی دوستوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے! جو اپنے ذاتی اور وقتی فائدے کیلئے گلے پھاڑ پھاڑ کے جھوٹ بولتے پھیلاتے اور عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے تھے اور ہیں!صحافت کاروبار بن گیا بدقسمتی سے اس ملک میں! ایک صارف نے لکھا کہ: سر میں نے یہ نوٹس کیا ہے کہ سیویلین سپرمیسی پر لکھنے اور بولنے والے لوگ نواز شریف کے ساتھ اس لئے کھڑے ہوتے تھے کہ وہ ایک امید تھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف گو کہ یہ امید ہر بار ٹوٹی لیکن موجودہ حالات نے ان لکھاریوں کو کافی ایکسپوز کیا ہے! ووٹ کو عزت دو صرف ڈھکوسلہ تھا! یاد رہے کہ توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے کویت سے ملنے والے 12 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی، کف لنکس اور کویتی یادگاری سکے 2لاکھ 43 ہزار روپے میں حاصل کیے تھے جبکہ 2015 ء میں ان کی اہلیہ نے 6 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا سونے کا ہار اور بریسلٹ 1لاکھ 21 ہزار روپے میں لے لیا۔ سابق وزیراعظم نے 3 کروڑ 60 لاکھ مالیت کے تحائف 76 لاکھ 30 ہزار روپے ادا کر کے اپنے پاس رکھ لیے۔
مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ جس دن سے سپریم کورٹ نے انتخابات کروانے کااعلان کیا ہے حکومت اسے ملتوی کروانے کے بہانے ڈھونڈھ رہی ہے۔ جی این این کے پروگرام نیوز ایج میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ یہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے جنہیں کچھ علم نا ہو، اس حکومت کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہیں جنہیں یہ پورا کرنا چاہتے ہیں مگر حکومتیں خواہشات پر نہیں چلا کرتیں، یہ ترازو کے پلڑے برابر کرنے کے چکر میں ملک کو تہس نہس کردیں گے۔ انہوں نےمزید کہا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں انتخابات کا اب جاکر اعلان کیا اور 28 مئی کی تاریخ دی ہے، یہ کبھی سیکیورٹی نا دینے ، کبھی پیسے نا دینے کے بہانے بنارہے ہیں۔ اسی پروگرام میں شریک سینئر صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عمران خان گرفتاری دینے کیلئے مکمل طور پر تیاری کرچکے تھے، لیکن جن حلقوں کو امن و امان سوٹ نہیں کرتا ان حلقوں نے دیکھا کہ معاملہ مصالحت کی جانب جارہا ہے، اسی وقت شیخوپورہ میں مریم نوا ز اور رانا ثناء اللہ نےزہر آلود گفتگو شروع کی،اس کے علاوہ کچھ پرائیویٹ گفتگو بھی ہوئی جو عمران خان تک پہنچادی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو بتایا گیا کہ ان کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے آپ گرفتاری دینے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں، منصوبہ بندی تھی کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر میں بٹھاکر نامعلوم مقام پر منتقل کرنا تھا اور انہیں 30 دن کیلئے نظر بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، اس پیش رفت کے بعد زمان پارک میں موجود پولیس نے عمران خان کی رہائش گاہ پر شیلنگ شروع کردی ، جس کے بعد معاملات مزید خرابی کی طرف بڑھ گئے۔
ظلِ شاہ کا ایکسیڈنٹ ہوا تو عمران خان پر 302 کا پرچہ کیوں؟آج ایسا لگ رہا تھا جیسے یکی گیٹ سے لوہاری کی طرف جاتے ہوئے ویزا لینا پڑے گا: سینئر صحافی وتجزیہ نگار نجی ٹی وی چینل جی این این کے پروگرام خبر ہے میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار فریحہ ادریس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک ہونے کے بعد ایک بات سامنے آئی ہے کہ اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں تھانہ ہی کوئی قانون تھا۔ انگلینڈ میں قانون کے مطابق 40 پائونڈ کے تحفے سے زائد قیمت کے تحفے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن عمران خان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے تحفے کی خریداری کیلئے قیمت 20% سے 50% کردی تھی۔ سینئر صحافی عارف حمید بھٹی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کے تحائف یہ مکمل تفصیلات نہیں ہیں ، شریف فیملی نے 2 تحائف بیچے تھے جن میں سے ایک میرے دوست نے خرید رکھا ہے، اگر تحفہ بیچنا جرم ہے انہیں کہیں جتنے تحائف لیے ہیں ثابت کر دیں کہ ان کے پاس ہیں۔ عمران خان بارے کہتے ہیں کہ اس نے گھڑی بیچ دی الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ان سے پوچھے جو مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو تھی وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ سونے کا ایک ہار جو مہارانی صاحبہ نے لیا تھا وہ یو کے کی بہت بڑی دکان پر بکا ہوا ہے۔ 1997ء اور 1998ء جب میاں محمد نوازشریف برسراقتدار تھے کا توشہ خانہ ریکارڈ جان بوجھ کر پبلک نہیں کیا گیا۔ ان میں سے کچھ چیزیں لندن کے بڑے سٹور پر بیچی گئیں، وہ بہت قیمتی چیز تھی اور پاکستان میں اس کا خریدار نہیں مل رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج ایسا لگ رہا تھا جیسے یکی گیٹ سے لوہاری کی طرف جاتے ہوئے ویزا لینا پڑے گا، راستے ایسے بند کیے گئے کہ کوئی ریلی میں شریک نہ ہو سکے۔ پی ٹی آئی کے شہید کارکن ظل شاہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس بے دردی سے اسے قتل کیا گیا، ان کے ہاتھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ ظلِ شاہ کا خون رائیگاں نہیں جا سکتا، ظل شاہ کو پہلے قتل کیا گیا پھر ایک سابق وزیر ایک ٹائوٹ اور پولیس والوں کو ساتھ لے کر ان کے گھر گیا۔ میری آج بھی ان کے خاندان کے ایک شخص سے بات ہوئی ہے، ظل شاہ کے خاندان سے انصاف دینے کا جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ظل شاہ کو قتل کیا گیا، پولیس حراست میں اس کے پکڑے جانے کا بیان آچکا، اسے کہاں چھوڑا گیا اور وہ اڑھائی گھنٹے کہاں رہا اس کا جواب نہیں ملا۔ ظلِ شاہ اگر ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوا تھا تو عمران خان پر 302 کا پرچہ کیوں دیا گیا؟ وہ بھی تب جب آپ نے اس کے والد کو اغوا کروا لیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز نے دعویٰ کیا ہے کہ صرف شہباز شریف ہی واحد حکمران ہیں جنہوں نے توشہ خانہ کا کوئی تحفہ نہیں لیا۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے۔اگرریکارڈ کو دیکھا جائے تو سلیمان شہباز شریف کا دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کئی تحائف اپنے پاس رکھے ان میں سے زیادہ ترتحائف وہ تھے جن کی قیمت 30000 روپے سے کم تھی اور یہ تحائف مفت میں رکھے جاسکتے تھے۔ جن تحائف کی لاگت 30 ہزار سے زیادہ تھی وہ انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کرادئیے جبکہ ریکارڈ کے مطابق صرف 2 ہی تحائف وزیراعظم شہبازشریف نے خریدے۔سال 2014 میں شہبازشریف کو بحیثیت وزیراعلیٰ تلوار ملی جوانہوں نے 3000 روپے دیکر اپنے پاس رکھی۔ آؤڈ وڈ کمپنی کے پروفیومز اور مختلف اشیاء شہبازشریف نے ایک لاکھ 25500 میں اپنے پاس رکھے۔ اگست اور ستمبر 2022 میں شہبازشریف کو 2 اونیکس پلیٹیں ملی ایک کی قیمت 12000 تھی اور دوسری کی 2200 روپےاور شہبازشریف نے وہ پلیٹ اپنے پاس رکھی جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے چاکلیٹ، شہد کے جار بھی اپنے پاس رکھے۔ ازبک پراڈکٹس کی کتاب جس کی قیمت 33000 روپے تھی شہبازشریف نے 1500 روپے دیکر اپنے پاس رکھ لی۔ ایک دھاتی مجسمے کا گھوڑا جس کی قیمت 28000 روپے تھی اسے شہبازشریف نے مفت اپنے پاس رکھ لیا۔ ایک صراحی اور پلیٹ جس کی لاگت 22000 روپے تھے شہبازشریف نے وہ بھی بغیر پیسے دئیے اپنے پاس رکھی، 15000 روپے کی لاگت کا سٹیڈیم کا ماڈل بھی شہبازشریف نے اپنے پاس رکھا۔ آٹھ ہزار روپے کا گائے کا ماڈل، 15000 روپے کا ایک وال ہینگنگ،25000 روپے کی لاگت کی ایک صراحی بھی شہباز شریف نے اپنے پاس رکھی۔ بیس ہزار روپے کا سرامک باؤل، 3000 روپے کا ایک گلاس پلیٹ سٹیند کیساتھ، 3600 روپے کی لاگت کی ایک شہد کی بوتل، بھوٹانی ہربل چائے اور جام بھی شہبازشریف نے اپنے پاس رکھا۔ جولائی میں وزیراعظم شہبازشریف کو15000 کی لاگت کے 3 فٹ بال، ایک صراحی جس کی قیمت 22000 روپے تھی، 26000 روپے کے 3 کپ پر مشتمل عربی کافی پوٹ اور 30000 روپے والا کارپٹ شہبازشریف نے توشہ خانہ سے مفت حاصل کیا۔ اسی طرح ایک باکس جس میں ایک باؤل، پلیٹ اور ایک کپ تھا جس کی قیمت 10 ہزار روپے تھی،شہبازشریف نے مفت حاصل کیا۔ 32 ہزار کا ایک اوپل گلاس اور ڈیکوریشن پیس بھی شہبازشریف نے اپنے پاس رکھا، ایک سٹیشن ماڈل بھی شہبازشریف نے مفت اپنے پاس رکھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو مختلف اوقات میں دو کتابیں بھی ملیں جو انہوں نے نیشنل لائبریری کو ٹرانسفر اور کیبنٹ ڈویژن کو ٹرانسفر کروادیں۔
وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور بیوروکریٹ فواد حسن فواد نے کہا کہ نواز شریف حکومت کو بھی گھر بھیجنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے لئے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف تیار نہیں تھے۔ آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ کی میزبان عاصمہ شیرازی نے فواد حسن فواد کی کتاب کا ابتدائیہ پڑھا کہ جیل میں ایک رات ایسی بھی تھی کہ فواد حسن فواد سیل میں آگ لگ گئی جس دوران بجلی کی تاریں پگھل پگھل کر میرے سیل میں گرنے لگیں، اس سے پہلے سیل کے وسط میں محافظوں کے دفتر کے لوگ آتے، شعلے اس قدر بلند ہوچکے تھے کہ پوری بیرک جاگ گئی اور لوہے کے دروازے جنجھوڑنے شروع کردیے۔ اپنی کتاب میں فواد حسن فواد نے لکھا کہ سیل نمبر 20 میں موجود خواجہ سعد رفیق نے میری فکر میں سیل کا دروازہ اس زور سے پیٹا کہ اپنی پیشانی خون آلود کر بیٹھے، یہ عین انہی دنوں کی بات ہے جب ثاقب نثار اسلام آباد میں منصف اعلی کے مرتب اعلیٰ پر براجمان روز دہائی دیتے تھے کہ انہیں معلوم ہے ہم جیل میں کتنی عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد حسن فواد نے کہا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، سب جانتے ہیں میرا جرم کیا تھا، عوام کو معلوم ہے میرے احتساب کا کیا مقصد تھا، اس کیس میں عدالت نے مجھے باعزت بری کیا ہے۔ اپنی گرفتاری سے متعلق انہوں نے کہا کہ میری گرفتاری کے روز مجھے کہا گیا کہ آپ کی گرفتاری کی خبر ٹی وی پر آگئی ہے لیکن ہم نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی، بس اس کاغذ پر دستخط کردیں جس پر میں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا، وہ کاغذ آشیانہ کیس سے متعلق تھا، جب میں نے دستخط سے انکار کیا تو مجھ پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سابق چیئرمین نیب کے حوالے سے فواد حسن نے کہا کہ میں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب لگانے کی مخالفت کی تھی، میری گرفتاری میں ان کی ذاتی رنجش ہوگی کیونکہ انہیں اس حوالے سے بتا بھی دیا گیا، اس وقت کمرے میں کئی لوگ موجود تھے، میں نے جسٹس وجیہہ الدین کو نیب کا چیئرمین لگانے کی تجویز کی تھی، میرا مؤقف تھا کہ جسٹس وجیہہ انصاف پسند آدمی ہیں۔ نیب کے اختیارات پر انہوں نے کہا کہ میں نے نیب کے اختیارات کم کرنے کی بھی مخالفت کی، اس کا اختیار کم کردیں تو باقی کچھ نہیں بچتا، اگر نیب کا دائرہ اختیار کم کردیں تو نیب بے مقصد ہو جائے گا۔ فواد حسن فواد نے کہا کہ 2013 میں ن لیگ الیکشن جیتی تو اس وقت بھی یہ خواہش نہیں تھی کہ مسلم لیگ ن انتخابات جیتے لیکن وہ معاملہ ناگزیر ہوگیا، البتہ الیکشن میں تیسری متبادل طاقت کو لانے کی کوشش ضرور کی گئی تھی جو ناکام ہوئی۔ ن لیگ مین دراڑ پڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے فواد حسن فواد نے بتایا کہ پارٹی میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب نواز شریف نے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا، میں نواز شریف کے اس تقریب میں جانے کے حق میں نہیں تھا، اس کے بعد 2014 میں دھرنا شروع ہوا اور راستے کھلتے گئے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ نواز شریف کے اس فیصلے پرعوامل فوری کھلنا شروع ہوگئے، کئی تنازعات روز کی بنیاد پر ہوتے تھے جو طے بھی ہوجاتے تھے، البتہ اس دورانیے میں کئی بارکوشش ہوئی کہ حکومت کو گھر بھیج دیا جائے لیکن جنرل (ر) راحیل شریف اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ سابق پرنسپل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ پاناما کیس کے بعد معاشی ترقی کی رفتار متاثر اور نواز شریف کے مسائل میں اضافہ ہوا، اس کیس میں جے آئی ٹی بنی تو میں نے نواز شریف کو الیکشن میں جانے کی تجویز پیش کی جس پر وہ آمادہ تھے لیکن ان کے ساتھ سینئر رفقاء نے انتخابات میں جانے کے لئے رضامندی ظاہر نہیں کی۔ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر فواد حسن فواد نے کہا کہ 2015 میں یہ سلسلہ شروع ہوچکا تھا کہ جنرل راحیل کو تین سال کے لئے ایکسٹیشن دی جائے یا انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کردیا جائے جس پر نواز شریف نے انکار کیا اور یہ وجہ بنا کر پانامہ کیس سامنے آیا۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ وہ عمران خان کی جگہ ہوتے تو گرفتاری دے چکے ہوتے، اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں خصوصی بات چیت کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا عمران خان کی گرفتاری ہو یا نہ وہ کوئی فرق نہیں پڑتا اگر وہ گرفتار ہوئے تو پارٹی کی کمان کون سنبھالے گا یہ فیصلہ پی ٹی آئی نے کرنا ہے۔ شیخ رشید نے کہا عمران خان کی جگہ میں ہوتا تو اب تک خود گرفتاری دے چکا ہوتا اور ہو بھی سکتا ہے میں گرفتار ہوجاؤں اور ماہ رمضان جیل میں ہی گزار دوں، میں جیل چلا گیا تو وہاں سے بھی الیکشن لڑ سکتا ہوں اور عمران خان جیل گئے تب بھی الیکشن وہی جیت جائیں گے۔ انہوں نے کہا پرویزالہیٰ کو پی ٹی آئی کا صدر بنانے پر کہا کہ ان کو جنہوں نے صدر بنایا اس کی منطق کا ان ہی کو معلوم ہوگا، ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جگہ میں ہوتا تو خود گرفتاری دے چکا ہوتا۔ شیخ رشید نے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چوہدری شجاعت اور پرویزالہٰی الگ ہوں گے، چوہدری برادران کو الگ کرنے میں نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اہم کردار ادا کیا، وہ آصف زرداری کا فرنٹ مین ہے، سندھ سے پیسہ جمع کرتا ہے۔ حکمران اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم تو ٹوٹ چکی ہے 10 ماہ میں ان کا کوئی اجلاس نہیں ہوا، سب جماعتیں اپنے نشانات پر الیکشن لڑیں گی، مولانا فضل الرحمان نے ساری پیدا گیری کی وزارتیں لی ہیں، انہوں نے ن لیگ کو گندا کردیا اور مریم نواز کو تقریروں پر لگادیا۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ الیکشن یہ لڑ نہیں سکتے اور کہہ رہے کہ سیکیورٹی نہیں ہے، عام انتخابات کرانے میں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے،اصل مسئلہ صرف یہی ہے، الیکشن ون سائیڈڈ ہیں۔ پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کے قتل کے حوالے سے شیخ رشید نے کہا کہ ظل شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر محسن نقوی جیل جائیں گے، یہ لوگ پریس کانفرنس کررہے کہ ظل شاہ کو ٹرک نے مار دیا تو عمران خان پر پرچہ کیو ں کیا گیا؟ ظل شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر محسن نقوی گرفتار ہوگا۔
قانون دان اور تجزیہ کار سعد رسول نے کہا کہ مریم نواز شریف کے بیانیہ کو اس وقت بہت ٹھیس پہنچتی ہے جب وہ یہ کہتی ہیں کہ عمران خان بیماری کا بہانہ بنا کرعدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ دنیا نیوز کے پروگرام اختلافی نوٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سعد رسول کا کہنا تھا کہ جب مریم عمران خان کو یہ طعنہ دیتی ہیں تو ان کے پیچھے نواز شریف کی تصویر آویزاں ہوتی ہے جو پچھلے چار سال سے علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں اور واپس نہیں آرہے، مہربانی کرکے وہ یا تو نواز شریف کی تصویر ہٹادیں یا اپنا جملہ تبدیل کرلیں۔ ظل شاہ کی موت پر سیاست کے معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے سعد رسول کا کہنا تھا کہ1970 کے بعد سے کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے شہداء یا کسی اور حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے نام پر سیاست کی، یہ ایک بدقسمتی ہے، تلخ حقیقت یہ ہے کہ ظل شاہ اور ایسی دیگر تمام پراسرا اموا ت کی تحقیقات کبھی بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتیں، اگرتحقیقات مکمل ہو بھی جائیں تو عدالتی نظام میں اتنی کمزوریاں ہیں کہ ملزمان بآسانی بری ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے ظل شاہ کے معاملے پر بھی ایسا ہی ہوگا، مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں ہم ظل شاہ کے اصل قاتلوں تک پہنچ پائیں گے، جس بھی وجہ سے ظل شاہ کی موت ہوئی اگر یہ وجہ سامنے نا آسکی اور ذمہ داروں کا تعین نا ہوسکتا تو پھر یہاں بھی وہی قانون لاگو ہوگا کہ جس مقتول کا قاتل نا ہو تو حاکم وقت اس کا قاتل ہوتا ہے۔
مریم نواز کو مطالعے کا کس قدر شوق ہے؟ مریم نواز کو کون کونسی کتابیں پسند ہیں؟پسندیدہ لکھاری کون ہے؟ بتادیا ایک ڈیجیٹیل پلیٹ فارم سے صحافی عمارمسعود نے سوال کیا کہ سنا ہے کہ آپ کو مطالعے کا بہت شوق ہے، آپ کونسی کتابیں پڑھتی ہیں؟ کس طرح کے رائٹرز کو آپ پڑھنا پسند کرتی ہیں؟ اس پر مریم نواز نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ ہسٹری میں فکشن پسند ہے، فکشن میں ایک دو رائٹرز ہیں جو حقیقت کے قریب ہیں میں انہیں بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ مریم نواز کے مطابق انہیں پونوکوئنڈو جو برازیلین رائٹر ہیں میں انہیں بہت شوق سے پڑھتی ہوں، اسی طرح آئیکمسٹ، ایلف شقف کو بہت پسند کرتی ہیں انہیں فورٹی رولز آف لو میری پسندیدہ ترین کتاب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی کتابیں پڑھناپسند کرتی ہیں جن کے بیک ڈراپ میں ہسٹری ہوتی ہے، اسی طرح شاعروں میں سیمس ہینی پسند ہیں، انہوں نے فریڈم کیلئے جو شاعری کی وہ مجھے پسند ہے۔ عمار مسعود کے استفسار پر مریم نواز نے بتایا کہ انہیں پاکستانی شاعروں میں احمد فراز اور ساحرلدھیانوی پسند ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ میں نے قید کے دوران نیب کی لائبریری میں کتابیں پڑھیں، اگرچہ لائبریری آؤٹ ڈیٹڈ تھی لیکن وہاں جتنی بھی اردو کی شاعری کی کتابیں تھیں وہ سب میں نے پڑھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پروین شاکر اور امجداسلام آباد کو پڑھا ہے، کچھ فلاسفرز ہیں جن کی سوچ کو میں نے اپنے اندرڈھالنے کی کوشش کی ہے جن میں فرانسس بیکن شامل ہیں۔
سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے گزشتہ روز مبینہ طور پر پولیس حراست میں جاں بحق ہونے والے ظل شاہ سےکی موت کو قتل قرار دیدیا۔ جی این این کے پروگرام "خبر ہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے کہا کہ ان نے ضمیروں کو شرم نہیں آتی، اس معصوم کو جس بے دردی سے مارا گیا وہ قابل بیان نہیں ہے، ظل شاہ پولیس کی حراست میں مارا گیا، یہاں قتل کرنا جرم نہیں لاش کو ہسپتال پہنچانا جرم بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رات ظل شاہ کے والد کی مدعیت میں میں مقدمہ درج نہیں کیا گیا، یہاں ایک بار پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن دہرایا گیا کہ پولیس خود مدعی بن گئی، یہ عمران خان پر پہلا 302 کو مقدمہ ہے۔ دو دن پہلے ایک ایسے افسر کو لاہور میں ایس پی لایا گیا جس نے 25 مئی کو ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی، اس علاقے میں اسی ایس پی کی ڈیوٹی تھی، ایس پی صدر وقار کھرل کی سرپرستی میں مبینہ طور پر ظل شاہ پر تشدد ہوا، 25 مئی کو یہ ایس پی ماڈل ٹاؤن لاہور بھی یہی وقار کھرل تھے، اس شخص کو خصوصی طور پر پی ٹی آئی کارکنان پر تشدد کیلئے لایا گیا۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا خود پر لگے الزامات سے متعلق موقف سامنے آگیا۔ نجی چینل جیو کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ" میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ فیض حمید نے خود پرالزامات کی تردید نہیں کی جب کہ ان تمام الزامات اور سوالات کی ذمہ داری سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ پر ڈال دی ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ فوج میں فیصلہ چیف کا ہوتا ہے، جس دور سے متعلق الزامات لگے اس وقت میں میجر جنرل کے عہدے پر تھا، فوج کے ڈسپلن کا کس کو نہیں پتا کیا تنہا حکومت ختم کرنا ممکن تھا؟ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے یہ بھی کہا کہ تمام فیصلے عدالتوں نےکیے۔ جبکہ حکومت کے خلاف عدلیہ کو مینج کرنے سے متعلق الزامات پر موقف جاننے کے لیے بھی فیض حمید کو سوالات بھیج دیے گئے ہیں جس پر سابق آئی ایس آئی سربراہ کے ردعمل کا انتظار ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز کامران خان نے کہا تھا کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ فیض حمیدنے مریم نواز کی جانب سے ان پر لگے الزامات کے جواب میں مجھے بھیجے گئے پییغام میں یا دہانی کروائی کہ میں 2017-18 میں صرف میجر جنرل تھا کیا فوجی ڈسپلن میں تنہا میجر جنرل حکومت ختم کرسکتا تھا؟ دوسرا فوج میں فیصلہ صرف چیف کا ہوتا ہے۔ تیسرا تمام فیصلے عدالتوں نے کئے
معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے شہبازشریف کو خبردار کر دیا کہ ان کے ساتھ وہی ہونے جا رہا ہے جو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔ انہوں نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں سزا سے متعلق شہبازشریف کو خبردار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے پروگرام آج کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن کامران خان نے سوال اٹھایا کہ اب صورتحال کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک حد تک شیڈول دیا گیا مگر ساتھ ہی وزیراعظم کو اس کا ذمہ دار بتایا گیا ہے۔ کامران خان نے کہا کہ اب حکومتی عذر ہیں جو ایک کے بعد ایک سامنے آ رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ تمام اداروں سے انہیں درکار معاونت دلائی جائے۔ اس سوال کے جواب میں سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ تاریخ دہرائی جا رہی ہے یہ بالکل اسی طرح کا وقت ہے جب ہماری حکومت میں عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو خط لکھنے کیلئے حکم دیا مگر ان کے انکار پر 5 سیکنڈ کی سزا اور اس کے بعد وزارت عظمی سے ہٹا گیا۔ لطیف کھوسہ نے واضح کر دیا کہ موجودہ صورتحال میں اگر عدالت سمجھے کہ حکم عدولی ہوئی ہے تو پھر وزیراعظم کی نہ صرف وزارت عظمیٰ جا سکتی ہے بلکہ انہیں 5 سال کیلئے نااہل بھی کیا جا سکتا ہے اور 6 ماہ تک قید کی سزا بھی عدالت کی جانب سے دی جا سکتی ہے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ ملک میں رجیم چینج اصل میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بغض کی وجہ سے مکمل ہوا۔ جیو نیوز کے پروگرام"رپورٹ کارڈ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگرآپ ثاقب نثار کے کنڈکٹ اور ان کے فیصلوں کو دیکھیں تو اس میں آپ کو واضح طور پر جانبداری نظر آئے گی، اسی جانبداری اور بغض کی وجہ سے رجیم چینج ہوا، پنجاب حکومت کو رگیدا گیا،کمپنیاں ختم کی گئیں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا وہ خود عدالت سے نکل کر میدانوں اور دفتروں میں داخل ہوگئے تھے، ان کا کنڈکٹ ایک مکمل طور پر جانبدار شخص جیسا تھا، وہ بجائے ایک غیر جانبدار منصف کے طور پر سامنے آنے کے ایک جانبدار شخص کے طور پر سامنے آئے جو نواز شریف اور ان کی میراث کو ملیا میٹ کرنا چاہتا تھا۔ پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ نواز شریف کو لندن سے بے گناہ قرار دیدیا جائے اور عمران خا ن کو شاہد خاقان عباسی والی جیل میں رکھ کر جو فرائی پین دینا ہے وہ بھی پوچھ لیں کونسا ہوگا لوہےکا ہوگا یا اسٹین لیس اسٹیل کا ہوگا۔
کیا گزشتہ روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے صدر عارف علوی کو عمران خان کے پاس پیغام دیکر بھیجا؟ صحافی کامران خان کاانکشاف صحافی کامران خان نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے ملک کی چوٹی کی بزنس لیڈرشپ کے ساتھ کل شب ملاقات میں بتایا انہوں نے صدرعلوی کے زریعے عمران خان کو وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کا پیغام بھیجا تھا مگر خان صاحب نہ مانے انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کے مطابق عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جس پر انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی عمل میں مداخلت کے لئے تیار نہیں۔ گزشتہ روز ایک صحافی فیاض راجہ نے بھی اشارہ دیا تھا کہ جن کا کہنا تھا کہ پنجاب الیکشن کا شیڈول جاری ہونے سے پہلے صدر عارف علوی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کیلئے آخری پیغام زمان پارک پہنچ گئے پانچ جڑی ہوئی خبریں ، صدر مملکت عارف علوی کی زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات ، پنجاب الیکشن کا شیڈول اگلے 24 گھنٹوں کے اندر فائنل ، عمران خان کی ضمانت منسوخ ، کپتان نے کوئی بھی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور فواد چوہدری کا بیان اگر آپ عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں

Back
Top