تحریک انصاف سے مختلف رہنماؤں کی دھڑا دھڑ علیحدگی کے بعد جہانگیرترین متحرک ہوگئے ہیں اور نئی جماعت بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جہانگیرترین متحرک نہیں ہوئے بلکہ انہیں کیا گیا ہے ، انکی سربراہی میں ایک جماعت بنائ جائے گی جس میں مختلف رہنماؤں کو شامل کیا جائے گا۔
ایسا ہی ایک تجربہ 2016 میں بھی ہوچکا ہے جب پاک سرزمین پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی گئی جس کے سربراہ مصطفیٰ کمال بنے، مصطفیٰ کمال ان دنوں دوبئی میں ملازمت کررہے تھے، انہیں پاکستان بلوایا گیا اور یہ جماعت بنائی گئی۔
اس جماعت میں کراچی سے دھڑا دھڑ شمولیتیں ہوئیں، سابق ارکان اسمبلی انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر، آصف حسنین،رضا ہارون ،وسیم آفتاب جیسے کئی رہنما اسکا حصہ بنے۔
اس جماعت نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا لیکن مصطفیٰ کمال سمیت تمام لیڈران ضمانتیں ضبط کروابیٹھے۔خیال تھا کہ پاک سرزمین ایم کیوایم کاووٹ بنک اور سیٹیں لے جائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور کراچی کے ہر حلقے سے ضمانتیں ضبط کروابیٹھی۔
اسکے بعد بھی پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے کئی ضمنی الیکشن لڑے لیکن ہر بار ضمانتیں ضبط کرواتے رہے اور اس طرح مصطفیٰ کمال کی جماعت بے وقعت ہوکر رہ گئی۔
ایک بار پھر ایم کیوایم اور مصطفیٰ کمال والی کہانی تحریک انصاف کیساتھ دہرائی جارہی ہے۔اگرچہ جہانگیر ترین کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ اس کی جماعت میں ایسے لوگ شامل ہوں گے جن کا اپنے حلقوں میں ووٹ بنک ہے، مضبوط دھڑے بندیاں اور برادریاں ہیں اسکے باوجود جہانگیرترین ذاتی ووٹ بنک نہیں رکھتے۔
اگر جہانگیرترین پارٹی بنالیتے ہیں تو اس میں اسحاق خاکوانی، راجہ ریاض، نورعالم خان ، عون چوہدری اہم لیڈران ہونگے، باقی جنوبی پنجاب سے کچھ الیکٹیبلز لیکن کیا اس سے جہانگیرترین تحریک انصاف کو کاؤنٹر کرپائیں گے؟
دوسری جانب عمران خان ہیں جن کی جماعت سے بندے توڑے جارہے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ وہ پنجاب کے ہر قومی اسمبلی میں کم از کم 50 ہزار پارٹی کا ووٹ رکھتے ہیں جو عمران خان کی مرہون منت ہے حالانکہ تحریک انصاف کی تنظیم اتنی اچھی نہیں ہے۔
اگر ترین گروپ کا ایم این اے یا ایم پی اے کھڑا ہوگا تو اسے اپنا ہی ذاتی ووٹ ملے گا جبکہ تحریک انصاف کا کارکن جس کا ذاتی ووٹ بنک زیرو ہے وہ بھی پارٹی کی بدولت اتنا ہی ووٹ لینے کا اہل ہے۔جہانگیرترین کے الیکٹیبلز صرف اسی صورت میں جیت سکتے ہیں اگر وہ ن لیگ، پیپلزپارٹی سے اتحادکرلیں ۔
جس طرح تحریک انصاف کے لوگوں سے پارٹی چھڑوائی جارہی ہے تحریک انصاف کو اسکا شہری حلقوں میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن دیہی حلقوں میں دھڑے بندیوں، برادریوں کی وجہ سے فرق پڑسکتا ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی نئی صف بندیاں ہوں ۔ اس صورت میں امیدوار اسی جماعت کی طرف دیکھیں گے جس کا ووٹ بنک ہے۔ممکن ہے کہ اگر تحریک انصاف کا امیدوار کسی دوسری جماعت میں جائے تو دوسری جماعت چھوڑنے والا تحریک انصاف کی طرف آئے۔
یہ بات تو کنفرم ہے کہ 9 مئی کے واقعے کو بنیاد بناکر کوئی جماعت الیکشن نہیں لڑسکتی، اس وقت عوام یہ بھی دیکھے گی کہ جو جماعتیں برسراقتدار تھیں انہوں نے انکی زندگیوں میں کتنی تبدیلیاں کیں، کتنی مہنگائی کی، کیا ریلیف دیا، کیا معیشت ، زراعت کو سنبھالا دیا۔9 مئی کا بیانیہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو مہینے چل سکتا ہے لیکن یہ الیکشن میں فائدہ نہیں دے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جہانگیرترین مصطفیٰ کمال بنے گا یا عمران خان، نوازشریف،آصف زرداری کے پائے کا لیڈر؟ اس کا فیصلہ چند ہی ماہ میں ہوجائے گا