
تحریک انصاف کی متبادل جماعت: جہانگیرترین کو تاحال کوئی بڑی کامیابی نہ مل سکی۔
نومئی کے بعد جب تحریک انصاف کے رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنا شروع کی تو جہانگیر ترین اچانک متحرک ہوگئے اور نئی سیاسی جماعت بنانے کیلئے کوششیں شروع کردیں اس کے لئے جہانگیرترین نے جوڑتوڑ شروع کردی لیکن جہانگیرترین کو تاحال کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔
متحرک ہونے کے بعد جہانگیرترین نے کئی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں علیم خان، فردوس عاشق اعوان، منظور وٹو ، سردار تنویرالیاس ،زرگل خان شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف کے منحرف اراکین جو پہلے سے ہی جہانگیرترین گروپ کا حصہ تھے وہ بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔
فردوس عاشق اعوان اور منظور وٹو 2008 کے بعد سے مسلسل الیکشن ہاررہے ہیں جبکہ ان کا ووٹ بنک بھی کم ہوتا جارہا ہے، سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کا کوئی حلقہ نہیں ہے ، زرگل خان مانسہرہ سے الیکشن لڑتے ہیں لیکن مسلسل ہاررہے ہیں۔
جہانگیرترین گروپ کے منحرف اراکین 17 جولائی 2022 کو ن لیگ کا ٹکٹ اور جہانگیرترین کی حمایت کے باوجود ہارگئے تھے، یہاں تک کہ جہانگیرترین اپنے حلقے سے بھی اپنے گروپ کے دو ارکان کو نہ جتواسکے۔ ترین گروپ میں سعیداکبرنوانی، زواروڑائچ، طاہررندھاوا، قیصر مگسی ، اجمل چیمہ شکست سے دوچار ہوئے۔ علیم خان بھرپور حمایت کے باوجود ن لیگ کے امیدوار کو نہ جتواسکے۔
ایکسپریس نیوز کے صحافی رضوان غلیزئی کے مطابق ذمہ دار ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کا مشن اسلام آباد اور مشن لاہور بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والا کوئی بھی اہم رہنماء جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہے۔ جہانگیر ترین نے جن جن رہنماؤں سے رابطے کیے، سب کا تقریباً ایک ہی جواب تھا کہ عمران خان کے بغیر انتخابی سیاست ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مختصر یہ کہ “یہ کمپنی نہیں چلے گی”۔
صحافی حبیب اکرم نے جہانگیرترین کو ملبہ جمع کرنیوالے سے تشبیہہ دی ، ان کا اس پر کہنا تھا کہ پیپلزُپارٹی اور جہانگیر ترین تحریک انصاف کے ملبے سے محل بنانے کے شوق میں کہاں تک جائیں گے؟حبیب اکرم
تحریک انصاف چھوڑنے والے بہت سے رہنما ایسے ہیں جو ماضی میں جہانگیرترین کے سخت ناقد رہے ہیں۔فوادچوہدری اور ڈاکٹر مراد راس اپنا اپنا علیحدہ گروپ بناکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر جہانگیرترین گروپ میں کچھ رہنما شامل ہوتے بھی ہیں تو انکی ترجیح تحریک انصاف ہی ہوگی کیونکہ انکی نظر عمران خان کے ذاتی ووٹ بنک پر ہے۔
اگر کل کلاں حالات نے پلٹا کھایاتو وہ تحریک انصاف میں دوبارہ شامل ہوسکتے ہیں یا اپنے کسی بھائی، بیٹے ، بیٹی کو شامل کرواکر انکے ذریعے سیاست جاری رکھیں گے۔بعض صحافیوں کے مطابق کچھ رہنما تحریک انصاف میں واپسی کے پرتول رہے ہیں ۔
جہانگیر ترین کا سب سے ڑا ا "ڈرابیک" ذاتی ووٹ نہ ہونا ہے، 2022میں جہانگیرترین کے حلقے سے جہانگیرترین گروپ کا مخالف پیر عامر شاہ جیت گیا تھا جبکہ الیکشن 2018 سے قبل جہانگیرترین کے صاحبزادے علی ترین پیر عامرشاہ کے والد پیر اقبال شاہ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگئے تھے۔
ابھی تک جہانگیرترین گروپ میں دو صرف ہی پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے شامل ہوچکے ہیں جن میں ایک پیر سعید الحسن شاہ ہیں جو 2018 میں ناروال سے آزاد حیثیت سے جیتے تھے جبکہ دوسرے مظفر گڑھ سے نیاز گشکوری جنہیں تحریک انصاف نے ٹکٹ نہیں دیا۔
پیر سعید الحسن شاہ کے تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد تحریک انصاف کے پاس اویس قاسم متبادل چوائس ہیں جو پیر سعیدالحسن شاہ سے 7ہزار ووٹوں سے ہارگئے تھے۔