استحکام پاکستان پارٹی کی اکثریت بڑی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کی خواہشمند

istehkaamash.jpg

استحکام پاکستان پارٹی کی اکثریت بڑی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کی خواہشمند

صحافی نعیم اشرف بٹ کا کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کی اکثریت بڑی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کی خواہشمندہے اور پارٹی کے اکثررہنما ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1668178591010668544
نعیم اشرف بٹ کے مطابق جہانگیرترین اکثریتی رائے لیکر لندن گئے ہیں اور امکان ہے کہ ان کی لندن میں نوازشریف سے ملاقات ہو۔

انکا مزید کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں آئی پی پی کے رہنما مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ جبکہ سنٹرل پنجاب میں ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔

ن لیگ کا مفاہمتی گروپ جو شہبازشریف کے قریبی لوگوں پر مشتمل ہے، وہ چار سے 5 سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ چاہتا ہے جبکہ مریم نواز گروپ ایک سیٹ پر بھی ایڈجسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں

صحافی کے مطابق پیپلزپارٹی بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حق میں نہیں، وہ کہتی ہے کہ ہماری پارٹی میں شمولیت اختیارکریں۔ پیپلزپارٹی تحریک انصاف چھوڑنے والوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
 

ek hindustani

Chief Minister (5k+ posts)
..to phir Imran Khan say kaho, sab say bari party to unhi ki hai.
PTI say seat Adjustment kar lo ..... hahahaha aisa huaa to mazah hi aa ja,ay ga..... wah
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)






حالات جس طرف جا رہے ن لیگ والے بڑے پریشان ہے مریم نے تو چپ تان لی ہے کئی کئی دن ٹویٹ ہی نہیں کرتی کہتے ہے پٹواریوں کے بڑے بڑے رہنماوں نے غور فکر کیا ہے اور وہ انتہائی پریشان سر پکڑ کت بیٹھے ہے پیپل پارٹی نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ہے کہ اس ڈوپبتی کشتی سے بچو بلکہ کئی جگہوں پر تو وہ انہیں پشانتے تک نہیں ان کی پتلونے گیلی ہے خوف ان پر طاری ہے کہ بڑی درگت بننے والی ہے ہمارے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے نہ حکومتی کاکردگی ہے جس پر ہم الیکشن لڑے گے کیا بیچے گے عوام کو کس طرح بیوقوف بنائے گے زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے ان کا الیکشن کمپین میں سامنا کرنا پرے گا اگر کہیں گے ہم حکومت میں آکر یہ کریں گے تو واپس جواب ایک زناٹے دار تھپڑ کی طرح ملتا ہے تو تم تیرہ جماعتوں نے ڈیڑھ سال حکومت کی کوئی اپوزیشن نہیں تھی کیا کیا کیوں نہیں کیا یہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے پٹرول آٹا دالیں کوکنگ آئل سستا کرے گے جن کی قیمتیں انہوں نے خود آسمانوں تک پہنچائی ہے کیا یہ کہے گے اکانومی بہتر کرے گے اس کا بیڑا غرق تو انہوں نے خود کیا ہے کہاں انہیں سولہ سترہ ارب ڈالر خزانہ عمران خان قاسم کے ابا سے ملا تھا اور انہوں نے صر ف ڈیڑھ سال میں تین چار ارب ڈالر پر پہنچا دیا امن و امان کا عالم یہ ہے کہ خود بار بار عدالتوں میں کہتے ہے ملکی حالات انتہائی خراب ہے یہ تو ڈیڑھ سال میں آئی ایم ایف کو نہیں منا سکے اپنی کارکردگی سے آئی ایم ایف نے تو انہیں جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے کوئی پروگرام ان کے ساتھ سائن نہیں کیا ۔۔۔ کوئی ملک ان کی امداد نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اب انہوں نے جس چھوٹی سی بات سے امید لگائی ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ چھوڑ رہے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچاس پچاس سال کا تجربہ رکھنے والے سیاسی پنڈٹ کہتے ہے یہ بات بھی ن لیگ اور اس کی اتحادیوں یعنی پی ڈی ایم کے خلاف جائے گی اس وقت تحریک انصاف چھوڑنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہے جو پہلے بھی کئی کئی جماعتیں بدل چکے ہے جیسے ڈبو فواد کو ہی لے لیں وہ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر قائد لیگ مشرف لیگ پتا نہیں کہاں کہاں کئی کئی جگہوں پر منہ مار چکا ہے اسی طرح جہانگر ترین علیم خان فیاض چوہان فردوس اعوان وغیرہ وغیرہ بھی پہلے کئی کئی پارٹیاں بدل چکے ہے ان اپنا نہ کوئی نظریہ نہ ووٹ ہے ان کا انجام بھی جاوید ہاشمنی گلالئی ریحام خان وغیرہ وغیرہ سے مختلف نہیں ہو گا لہذا اب تحریک انصاف میں ان کا نظریاتی کارکن اوپر آ جائے گا جو کہ ان کے لیے انتہائی سخت حریف ثابت ہو گا جس میں ان بھاگنے والو سے زیادہ ثابت قدمی ہو گی لہذا ڈر ہے کہ یہ زیادہ مظبوط ہو کر سامنے آئے گے کیوں کہ الیکٹیبلز لینے کی وجہ سے ان میں اور پرانے ورکر ز میں ایک خلا ہو ا کرتا تھا جس کا فائدہ پی تی آئی مخالفین کو ہوتا تھا اب وہ خلا ختم ہو گیا تو یہ زیادہ سخت جان حریف ہوں گے اپنا ووٹ بنک پہلے سے زیادہ مضبوتی سے منظم کرے گے


اور ویسے بھی عمران خان کی جماعت اپنے حلقوں میں کئی کئی مقابلہ کرنے والے کارکن رکھتی ہے لوگ ٹکٹ لینے کے لیے لائنوں میں کھڑے ہے یاد کرو سولہ جولائی دوہزار اکیس میدان پنجاب تھا چلو یہاں ایک سیٹ پر بات کرتے ہے علیم خان کا حلقہ گڑھی شاہو لے لیجیے عمران خان نے اپنے ایک عام اپنے ورکر شبیر کجر کو ٹکٹ دے کر میدن میں اتارا تھا ہر کوئی کہتا تھا یہ کیا کیا عمران خان نے یہ تو مقابلے کی سیٹ تھی اور اس شبیر گجر نے دن کی روشنی میں بائی الیکشن میں حمزہ شہباز کی صوبائی حکومت شہباز شریف کی وفاقی حکومت ہونے کے باوجود شکست دی تھی جبکہ اس کے مقابلے پر نزیر احمد چوہان تھا جسے حکومتی ہر طرح سے حمایت حاصل تھی علیم خان اس پر بے دریغ پیسہ خرچ کر رہا تھا لیکن چالیس ہزار ووٹ لے کر چودہ ہزار کی چوہان کو لیڈ مار کر شبیر گجر چیتے کی طرح جیتا تھا چوہان دوران کمپین ہر حربہ آزمایا پولیس اس کے ساتھ تھی ان سے ریڈیں کرواتا تھا شبیر گجر کو کمپین کرنے سے روکتا تھا اس کے جلسے تک چوہان نہیں ہونے دیتا تھا کہیں کمپین دفتر نہیں کھلنے دیتا تھا اس پر میڈیا بھی چیخ اٹھا تھا اور پھر جتنے پر ہر کوئی کہتا تھا کمال سیٹ لی ہے شبیر گجر نے دوسرے لفظوں دھول چٹا دی اپنے مخالف کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبیر گجر نے شیر کے جبڑے سے سیٹ نکالی تھی جبکہ یہ ایک عام پی ٹی آئی کا کارکن تھا سولہ جولائی پی ٹی آئی بیس میں سے پندرہ سیٹیں جیتی تھی


جناب الیکشن میں انتقامی کاروائی بڑی مہنگی پڑتی ہے سارا ہمدردی کا ووٹ ادھر مخالف کو شفٹ ہو جاتا ہے یعنی ہر تدبیر الٹ پڑتی ہے یہ ایک سیٹ کی روداد تھی جب پورے ملک میں جنرل الیکشن ہو گا ماوں نے بچے نہیں سبھالنے پھر میدان سجے گا انتقامی کاروائی کرنا انتہائی مشکل ہو گا انتظامیہ صرف امن و امان کو برقرار رکھنے پھنسی ہو گی تب لگے گا پتا کیا بھاو بکتی ہے بڑے بڑے ششدر رہ جائے گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے پی کے تو ذرا فرق نہیں پڑنا بلکہ اب ان پٹھانوں نے یہ اپنی ناک غیرت کا مسئلہ بنا لیا ہے جب سے پنجاب سے بشرموں والے پیغام جا رہے کہ یہاں پی ٹی آئی پر بڑا ظلم ہو رہا ہے کے پی کے میں تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے پٹھانوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تیسری مرتبہ پھر عمران خان پی ٹی آئی کو ہی لانا ہے مولانا کے چودہ طبق روشن کر دینے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی ن لیک اس وقت بھی بڑی قابل رحم حالت سے گزر رہی ہے اس کی ہوم گاراونڈ پنجاب مشکل میں ہے اگر بڑا جلسہ کرے اور اپنی مقبولیت کا دعوی کرے تو فورا اسے کہا جاتا ہے تو پھر الیکشن سے کیوں بھا گ رہے ہو کرو اعلان فورا الیکشن میں جاو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اگر اپنی حکومت کی کامیابی کا دعوی کر بیٹھے تو لوگ کہتے چلو الکیشن کراو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے نواز شریف اتنا حالات سے ڈرے ہوئے


کہ قریب پاکستان آکر سعودی عرب عمرہ کرکے پاکستان نہیں آئے وہاں سے ہی پتلی گلی سے واپس بھاگ گئے جبکہ یہاں پاکستان میں ان کے بھائی کی حکومت ہے یعنی سب تدبیرے الٹ ہو رہی ہے کوئی چورن نہیں بک رہا کوئی پھکی کام نہیں آ رہی پریس کانفرنسوں میں بھی اداکاری کرنی پڑتی ہے ابھی اردگان سے ملاقات کی تو آم کا اشارہ لے بیٹھا ساری قوم کے فقیر بنانے کے لطیفے تو پہلے ہی مشہور تھے شہباز سپیڈ تو بری طرح پٹ گئی حمزہ تو باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا اس قدر ڈر گیا ہے وہاں کارکن کا کیا حال ہو گا دوچار دن کی رونقیں رہ گئی ہے سرکاری خزانے سے جلسے کیے جاتے ہے پھر عوام کی عدالت میں ہونا ہے اب ان کی حالت یہ کے آسمان دیکھ کر کہتے ہے کہ کہیں یہ ہی اتنا برس جائے کہ دریا بپھر جائیں کوئی زلزلہ سیلاب آجائے کوئی ڈینگی پھیل جائے کوئی بہانہ مل جائے اور ہم الیکشن سے بچ جائے لیکن یہ جنریشن کا فرق ان سے نکل نہیں پا رہا اور نہ پائے گا کیوں کہ یہ اسی نوے کی داہئی میں بیٹھے سوچ رہے ہے آج کا نواجون پھنسانا بڑا مشکل ہے اور یہ نوجوان پاکستانی آبادی کے چونسٹھ فی صد ہے ان میں کوئی تیس فیصد تو پندرہ سے انتیس سال کے نوجوان ہے ان کی سوچ آزاد ہے بلکہ بڑی ہے نہ یہ بکنے والے نہ یہ جھکنے والے ہے اور نہ کسی بہکاوے میں آنے والے ہے جب بات ان کے ہاتھ مین آئی تو بتا پتا دے گے
 

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
Problem is that none of those parties is a 'bari party' any more.

PDM is a balloon filled with hot air of 14 parties. And they arent able to tackle PTI even after picking off entire PTI leadership one by one.
 

Back
Top