خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
دنیا بھر میں پولیس کا محکمہ شہریوں کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اس محکمے سے بھی شہریوں کو تحفظ ملنے کے بجائے اکثر اوقات پریشانیاں ہی ملتی ہیں ، پنجاب پولیس کے بعد اب اسلام آباد پولیس اہلکاروں کے مختلف جرائم میں ملوث ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پولیس کے اہلکار شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے ساتھ ساتھ منشیات فروشی ودیگر سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد پولیس کے متعدد اہلکار تاوان حاصل کرنے کے لیے اغواکاری کا گینگ چلانے میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ مختلف شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے متعدد اہلکار اغواکاری کے علاوہ رشوت خوری اور منشیات فروشی جیسے جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ ایس ایس پی آپریشنز ارسلان شاہ زیب نے مختلف جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں برطرف کر دیا ہے جبکہ ڈی آئی جی آپریشن علی رضا نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے اہلکاروں پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ پولیس کے محکمے میں موجود جرائم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈائون جاری رہے گا اور سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اغواکاری گینگ چلانے کے علاوہ رشوت خوری اور منشیات فروشی کے الزامات کے تحت اسلام آباد پولیس کے 3اہلکاروں کو برطرف کیا جا چکا ہے جن میں ذوالفقار اور رمیز ستی نامی کانسٹیبل کے علاوہ فرخ آفتاب نامی ہیڈکانسٹیبل شامل ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن کے مطابق برطرف کیے گئے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کے 2 اہلکاروں پر گزشتہ میاں بیوی سے نکاح نامہ طلب کرنے پر تھانہ بہارہ کہو میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق خاتون شاہدرہ روڈ پر اپنے شوہر کے ساتھ جا رہی تھی کہ پولیس اہلکاروں نے روک کر نکاح نامہ طلب کیا، موبائل فون چھین لیا اور جنسی طور پر حراساں کرتے رہے اور کال کر کے ملنے کیلئے دبائو ڈالا اور نمبر نہ دینے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
سابق وزیراعظم وبانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے 22 ستمبر 2024ء کو مینار پاکستان جلسہ کرنے کے اعلان کے بعد پولیس وانتظامیہ متحرک ہو چکی ہیں۔ ایک طرف سے اطلاعات ہیں کہ تھری ایم پی او کے تحت تحریک انصاف کے 42 رہنمائوں وکارکنوں کی نظربندی کے احکامات جاری کرنے کیلئے مراسلہ لکھا گیا ہے تو دوسری طرف پنجاب پولیس نے لاہور جلسہ کے موقع پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث مفرور 37 سو افراد کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے پر پنجاب حکومت کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا آج انعقاد کیا گیا جس کے بعد پنجاب پولیس کی طرف سے ان افراد کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ پنجاب پولیس نے 3700 مفرور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے اور ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف مینار پاکستان پر جلسہ کے لیے بھرپور تیاریاں کر رہی ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر کو شام 5 بجے تک فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر لاہور نے پی ٹی آئی کے 5 رہنمائوں وکارکنوں کی نظربندی کے احکامات جاری کیے ہیں جن میں عامر گیلانی، فضل داد، ملک افضل اور فضل خان شامل ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے پی ٹی آئی رہنما غلام محی الدین دیوان کی نظربندی کے آرڈر جاری کیے گئے تھے جبکہ 50 سے زیادہ کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اقبال ٹائون ڈویژن پولیس نے نے بھی ایک مراسلہ ارسال کیا تھا جس میں 42 رہنمائوں وکارکنوں کی نظربندی کے احکامات جاری کرنے کی استدعا کی گئی جن میں میاں محمود الرشید کے دونوں بیٹے اور میاں اسلم اقبال کے نام شامل تھے۔
صوبہ سندھ کے شہر میرپور خاص میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیے گئے ڈاکٹر کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے کی تحقیقات کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ میرپورخاص میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیے گئے ڈاکٹر کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کی تحقیقات کرنے کے لیے سندھ حکومت کی طرف سے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کا باضابطہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد پرویز چانڈیو مقرر کیے گئے ہیں جبکہ دیگر اراکین میں ایس ایس پی شیراز نذیر اور ڈی آئی جی حیدرآباد طارق دھاریجو شامل ہیں۔ یاد رہے کہ توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیے گئے ڈاکٹر کی ہلاکت کے بعد پولیس کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ملزم کو پولیس مقابلے کے بعد ہلاک گیا ہے اور واقعے کے بعد پولیس اہلکاروں اور افسروں کا باقاعدہ استقبال کیا گیا تھا۔ ایس ایس پی اسد چوہدری اور ڈی آئی جی میرپورخاص جاوید جسکانی کو مختلف شخصیات کی طرف سے مبارکبادی پیغامات دیئے گئے اور ہار پہنائے گئے تھے۔ واقعہ کے بعد تھرپارکر سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی امیر علی شاہ نے پولیس کمپلیکس پہنچ کر دونوں افسران کو مبارکباد دی تھی۔ دوسری طرف مقامی افراد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی لاش لواحقین کے سپرد کی گئی جو اسے لے کر اپنے آبائی گائوں عمر کوٹ لے گئے تھے تاہم وہاں پر ہجوم اکٹھا ہو گیا اور تدفین کرنے سے روک دیا اور لاش کو آگ لگا دی تھی جس کے بعد باقیات دفن کی گئی تھیں۔ وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار ان تمام واقعات کے بعد آئی جی سندھ سے رابطہ کیا اور فیصلہ کیا کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں جس کے لیے کمیٹی کی تشکیل کر کے باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ سطحی کمیٹی 7 دنوں میں واقعات کی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے گی اور ایس ایس پی تھرپارکر شبیر احمد سیٹھار کو اضافی چارج دے کر ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری کو عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف اور گورنرپنجاب سلیم حیدر میں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرریوں کے معاملے پر اختلافات پیدا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی طرف سے پنجاب کی یونیورسٹی میں تقرری کے لیے بھیجی گئی سمری پر گورنر پنجاب نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے بھیجی گئی سمری کے مطابق واضح طور پر کوئی نام تجویز نہیں کر سکتے۔ گورنر پنجاب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ حروف تہجی کے اعتبار سے 3 نام بھیجے جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کا خیال ہے کہ ان کی طرف سے بھیجے گئے نمبر 1 والے ناموں کو منظور کر لیا جائے، وائس چانسلرز کی تقرریوں کیلئے کی گئی سلیکشن پر مطمئن نہیں ہوں۔ پنجاب میں چیزیں اگر آگے نہیں چل رہیں تو قیادت کو چاہیے کہ پیپلزپارٹی کو صوبے میں فری کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو بھی آفیسر آپ کی مرضی سے تعینات کیا جائے تو وہ میرٹ اور جو دوسرا کہے تو وہ میرٹ پر پورا نہیں اترتا، ایسے نہیں چل سکتا۔ گورنر پنجاب کے بیان پر وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی طرف سے ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی کو کابینہ نے منظور کیا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ گورنر پنجاب اس سے پہلے وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں اس لیے انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ کابینہ کے فیصلوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ سلیکشن کمیٹی نے قواعد وضوابط کے تحت پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بطور وائس چانسلرتعیناتی کے خواہشمند تمام امیدواروں کے باضابطہ انٹرویو کیے اس کے بعد ہی سینئر، تجربہ کار اور عہدے کیلئے اہل لوگوں کے نام بطور وائس چانسلر تجویز کیے گئے ہیں۔ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ گورنر کا کام پنجاب اسمبلی اور کابینہ میں کیے گئے فیصلوں اور کیے جانے والے اقدامات پر مہر لگانا ہوتا ہے، کابینہ کے فیصلے کو گورنر مسترد کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کے لیے تحریک انصاف نامی جماعت موجود ہے اس لیے آپ کو اپوزیشن کا رول ادا کرنے کے بجائے اپنے آئینی عہدے تک محدود رہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف سامنے آیا ہے کہ بہت سے خاندان بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ بیچ دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈائریکٹر جنرل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ بہت سے خاندان بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ بیچ دیتے ہیں اور اس سے سال بھر کے لیے پیسے اکٹھے کر لیتے ہیں۔ ڈی جی بی آئی ایس پی نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے بائیومیٹرک سسٹم پر کام کررہے ہیں تاکہ اس نظام میں شفافیت لائی جا سکے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں صوبہ سندھ کا حصہ 31 فیصد، صوبہ پنجاب کا حصہ 27 فیصد جبکہ بلوچستان کا 6 فیصد حصہ ہے، مزید انکشاف کیا کہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں 92 فیصد غربت ہے جبکہ ادارے کے 2 ملازمین تعینات ہیں۔ دوسری طرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساختی وانسانی وسائل کے مسائل حل کرنے کیلئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کا اجلاس سینیٹر جان محمد کی صدارت میں منعقد کیا گیا جس میں بی آئی ایس پی بورڈ میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی نمائندگہ نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا گیا اور صوبوں سے مساوی نمائندگی یقینی بنانے کیلئے قرارداد لانے کا مطالبہ کر دیا۔ وزارت کی طرف سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ بی آئی ایس پی 2010 ایکٹ بورڈ اراکین تقرری کے لیے کوٹے کا پابند نہیں کرتا، سندھ سے اس وقت 3 نجی ارکان اور پنجاب سے 1 رکن ہے۔ اجلاس میں رقم وصولی کے دوران بزرگ خواتین سے بدسلوکی اور تقسیم کے طریقہ کار پر خدشات کا اظہار بھی کیا گیا اور بتایا گیا کہ بی آئی ایس پی ہیڈکوارٹر میں اس وقت 126 اور صوبوں میں 1037اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
ایک طرف نااہلی اور بدنظمی پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے الیکشن کمیشن کے 3 افسران کو معطل کر دیا ہے تو دوسری طرف سٹرانگ روم میں پولنگ بیگز کو نقصان پہنچنے کے معاملے پر معطل کیے گئے سابق ڈائریکٹر ایڈمن اظہر حسین ٹنواری کا ایس ایچ او تھانہ بن قاسم کو لکھا گیا مراسلہ سامنے آگیا ہے۔ مراسلے میں سابق ڈائریکٹر ایڈمن اظہر حسین ٹنواری نے بتایا کہ سٹرانگ روم پہنچنے کے بعد میں نے خود جائزہ لیا تو پتا چلا کہ رپورٹ کیا گیا واقعہ حقائق پر مبنی ہے۔ معطل آفیسر اظہر حسین ٹنواری نے مراسلے میں لکھا کہ اجازت لے کر سٹرانگ روم کے نئے تالے توڑ کر کمرے کا جائزہ لینے پر پتا چلا کہ کچھ پولنگ سٹیشنز کے بیگز کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ سٹرانگ روم میں صبح کے اوقات میں تعینات پولیس اہلکار نے اس پر تحریری بیان نہیں دیا تاہم متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او نے کہا کہ انہوں نے سٹرانگ روم کی سکیورٹی صرف آدھے گھنٹے کے لیے ہٹائی تھی۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ چوکیدار کا بیان اصل حالات سے مختلف ہے کیونکہ چوکیدار نے اپنے بیان میں کمرے کا کوئی بھی تالا تبدیل ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ رات کی شفٹ پر پولیس اہلکار دستیاب ہی نہیں تھے۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے نااہلی اور بدنظمی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے 3 افسروں کو 4 مہینوں کے لیے معطل کیا گیا تھا جن میں اظہر حسین ٹنواری بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمشنر سندھ شریف اللہ، ڈائریکٹر ایڈمن اظہر حسین اور الیکشن آفیسر کراچی خدابخش کو معطل کر کے باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا اور ہدایت کی گئی تھی کہ تینوں افسران انکوائری مکمل ہونے تک کراچی میں رہیں۔ یاد رہے کہ 17 ستمبر کی رات کو پپری کراچی میں سٹرانگ روم کے تالے توڑ کر مختلف پولنگ سٹیشنز کے بیگز کو نقصان پہنچایا گیا جس کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل کیے جانے والے اثاثوں یا آمدن کو چھپانے کے لیے منی لانڈرنگ کرنے والے مجرموں کے خلاف حکومت نے کارروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ مقامی وعالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے منی لانڈرنگ میں ملوث 72 اشتہاری ملزمان جن میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں کے بینک اکائونٹس کو منجمد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے فیصلہ کیا ہے کہ منی لانڈرنگ و دیگر مقدمات میں مطلوب 72 اشتہاری ملزمان جن میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں کے بینک اکائونٹس منجمد کیے جائیں گے اور ان کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی بھی کی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سیل کی طرف سے انسداد منی لانڈرنگ سیل کو منی لانڈرنگ کے مقدمات میں ملوث اشتہاریوں کی فہرست اور تفصیلات دینے کے لیے ایک خط بھی لکھا گیا ہے اور ان اشتہاری ملزموں کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خط میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ منی لانڈرنگ و دیگر مقدمات میں مطلوب 72 اشتہاری ملزمان جن میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔ اینٹی کرپشن سیل کی طرف سے اینٹی منی لانڈرنگ سیل کو لکھے گئے خط میں معاملے پر کارروائی مزید آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں غیرقانونی ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی کو منی لانڈرنگ کے ذریعے چھپایا جاتا ہے اور اسے دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے خلاف مختلف قوانین بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کی مالی معاونت کے انسداد کا نظام اقوام متحدہ کی طرف سے بنائے گئے قوانین اور ملکی مالیاتی پابندیوں کے تحت چلایا جاتا ہے۔
روس نے پاکستان کو اہم پیغام دے دیا,روسی حکام نے اسلام آباد حکام سے کہا کہ وہ نئی دہلی کی طرح جرات مند ہو اور اگر ماسکو کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے تو مغرب کے دباؤ کا مقابلہ کرے۔ بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق یہ واضح پیغام روس کے دورے پر آئے ہوئے وفد نے پاکستانی حکام کے ساتھ سرکاری ملاقاتوں کے دوران پہنچایا۔پاکستانی حکام نے ماسکو کو کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ ذرائع کے مطابق روسی نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک کی قیادت میں روسی وفد ایک اسسمنٹ مشن ہے جو ماسکو میں اعلیٰ سطح پر اپنی رپورٹ پیش کرے گا جس کے بعد دونوں ممالک آگے بڑھیں گے, پاکستانی وفد رواں ماہ کے آخر میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی احسن اقبال کی قیادت میں ماسکو کا دورہ کرنے والا ہے جس میں مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کے طریقوں اور ذرائع پر بات چیت کی جائے گی۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان اور روس کے خوشگوار تعلقات جذبہ خیر سگالی اور اعتماد پر مبنی ہیں,پاکستان اور روس کے بہترین تعلقات کثیر الجہتی دو طرفہ تعاون بشمول تجارت توانائی اور رابطوں کے حوالے ظاہر ہوتے ہیں۔
وفاقی حکومت پر سال 2030 تک 49 ہزار 629 ارب روپے کے مقامی قرضے واجب الادا ہیں,انکشاف سامنے آگیا, اقتصادی امور ڈویژن حکام کے مطابق وفاقی حکومت کو 2024 میں سب سے زیادہ 13 ہزار 269 ارب روپے مقامی قرض واپس کرنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق2025 میں 12 ہزار 723 ارب، 2026 میں سات ہزار 684 ارب روپے، 2027 میں 4 ہزار 758 ارب، 2028 میں 5 ہزار 608 ارب قرضہ واجب الادا ہے۔2029 میں 4153 ارب، 2030 میں 1434 ارب روپے ادا کرنے ہیں، حکومت نے سب سے زیادہ 59 فیصد قرضہ انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے لے رکھا ہے۔ حکومت کے ذمہ سال 2030 تک واجب الادا مقامی قرضوں کی سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق یہ قرضے انویسٹمنٹ بانڈز،ٹریژری بلز، سکوک اوربچت اسکیموں کے ذریعے لیے گئے ہیں۔اگلے 5 سال میں واجب الادا قرض میں اصل رقم اور سود شامل ہے۔ 22 فیصد قرضہ ٹی بلز اور 10 فیصد سکوک بانڈز کےذریعے لیا گیا، باقی قرضہ قومی بچت اسکیموں اور پرائز بانڈزکی شکل میں لیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابرستار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ایجنسیوں کی جانب سے شہریوں کو اٹھائے جانے کا تاثر قومی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ فیضان عثمان کی بازیابی اور اغوا کاروں کے خلاف کارروائی کی درخواست پر ہونے والی گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے، حکم نامے میں اسلام آباد کی تمام خفیہ ایجنسیوں ، ایف آئی اے، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی کے ڈائریکٹر جنرلز، ایئر اینڈ نیول انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرلز اور سی ٹی ڈی پنجاب کو کیس میں فریق بنائے جانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ حکم نامے میں جسٹس بابرستار کے ریمارکس بھی شامل کیے گئے جس میں ان کا کہنا تھا کہ کیس میں چیف کمشنر اسلام آباد کو بھی فریق بنائیں اور ان سے کہیں کہ وہ اپنا بیان حلفی جمع کروائیں کہ ان کے علاقے میں مسلسل جبری گمشدگیاں کیوں ہورہی ہیں، ایجنسیوں کا کھلے عام لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنا ، شہریوں کو اغوا کرنے کا تاثر قومی سلامتی اوررول آف لاء کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ حکم نامے میں عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کی تفتیش میں بادی النظر میں خامیاں نظر ئی ہیں، یا پولیس نااہل ہے یا خود اس معاملے میں شریک ہے، آئی جی نے کیس کی تفتیش اور اغوا کاروں کی شناخت کرنے کے بجائے عدالت کو پرانے اقدامات دہراکر گھمانے کی کوشش کی، یہ درخواست مغوی کی بازیابی کی نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 199 ک تحت بھی دائر کی گئی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ایجنسیاں بتائیں کیا ان کو معلوم ہے کہ فیضان کو کس طرح جبری طور پر لاپتہ کیا گیا؟ اپنی انٹیلی جنس رپورٹ دیں کہ کیا وہ اغوا کاروں اور جرم میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کی شناخت کرسکتے ہیں؟ کیا وہ مغوی کو رکھے گئے ٹھکانے کی شناخت کرسکتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے ن لیگ کے کارکنان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر درج مقدمات ختم کرنے کافیصلہ کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت پنجاب نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ن لیگ کے کارکنان کے خلاف سیاسی بنیادوں پردرج مقدمات کا ریکارڈ اکھٹا کرنے کا حکم دیا ہے، ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ایسے مقدمات جو ریاست کی مدعیت میں درج کیے گئے ان مقدمات کو فوری طور پر ختم کرنے کیلئے ہدایات جاری کی جائیں۔ ایڈووکینٹ جنرل پنجاب آفس نے وزیراعلیٰ کی ہدایات پر سیاسی مقدمات کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کردیا ہے۔ خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کے عہدیداران، ارکان اسمبلی اور کارکنان کے خلاف صوبے کے مختلف شہروں میں سیاسی مقدمات درج ہیں، یہ مقدمات نواز شریف و مریم نواز شریف کی وطن واپسی پر گرفتاری کے موقع پر مختلف شہروں میں نکالی گئیں ریلیوں اور پولیس سے جھڑپوں کے الزامات میں درج کیے گئے۔ ان مقدمات میں ن لیگ سے وابستہ افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں اور یہ مقدمات سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دور میں درج کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ مریم نواز شریف کی نیب پیشی کے موقع پر بھی ن لیگ کے سینکڑوں کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا ہے کہ جو سیاسی جماعت انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرواتی اس سے انتخابی نشان واپس لے کر اس پارٹی کو ڈی نوٹیفائی کیا جاسکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے یہ ریمارکس جے یو آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران پاس کیے، سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں بینچ نے کی۔ دوران سماعت جے یو آئی ف کے وکیل نےکہا کہ ہماری جماعت میں الیکشن کا عمل 2023 سے شروع ہے، یونٹ، تحصیل اور اضلاع کی سطح الیکشن ہوچکے ہیں، گلگت بلتستان میں بھی انٹرپارٹی الیکشن ہوچکے ہیں، اس وقت ہمارے صوبائی الیکشن جاری ہیں، اس سارے عمل میں کافی وقت لگا ہے، ہمارے یہاں پیپر ورک نہیں ہوتا ہر شخص کو انتخابات میں حصہ لڑنے کا حق دیا جاتا ہے، ہمارے انٹراپارٹی انتخابات کے دوران ملک میں جنرل الیکشن آگئے جس کی وجہ سےیہ معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ناظم منتخب ہوچکے ہیں، ابھی آئینی ترامیم کا معاملہ چل رہا ہے، ہمیں مہلت دی جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آئینی ترمیم کا پارٹی انتخابا ت سے کیا تعلق ہے؟ آپ کو کتنی مہلت چاہیے؟ وکیل جے یو آئی ف نے کہا کہ ہمیں مزید 60 دن کی مہلت دی جائے، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ بہت زیادہ ٹائم ہے، جےیو آئی کے پارٹی الیکشن کا معاملہ تو ہم دیکھ لیتے ہیں، آپ کو ٹائم دیں یا نا دیں وہ تو ہم دیکھیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر نے مزید کہا کہ انٹراپارٹی پارٹی الیکشن نا کروانے والی جماعت سے انتخابی نشان بھی واپس لیا جاسکتا ہے اور اس جماعت کو ڈی نوٹیفائی بھی کیا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت پر فیصلہ محفوظ کرکے سماعت ملتوی کردی ہے۔
سوشل میڈیا پر گزشتہ روز سابق وزیراعظم و بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے بیان کے بعد زیرگردش مختلف خبروں پر نعیم حیدر پنجوتھا کی طرف سے وضاحت جاری کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق بانی پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن سے ناخوش تھے تاہم تحریک انصاف کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے کردار کو سراہا ہے۔ نعیم حیدر پنجوتھا اڈیالہ جیل سے واپسی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں درست نہیں ہے، عمران خان ان سے ناخوش نہیں نہ ہی ایسی کوئی بات ہے۔ عمران خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن کے کردار کو سراہتے ہیں، وہ مطمئن تھے اور کہا کہ آئین کے ساتھ کھڑے ہونے والے ہر شخص کو پوری قوم سراہے گی۔ عدالتی اصلاحات سے متعلقہ آئینی ترامیم کے معاملہ پر مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو فوری طور پر ووٹ دینے سے معذرت کرتے ہوئے مزید مشاورت کا مشورہ دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے اس حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ عمران خان نے آج اڈیالہ جیل راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمن جمہوریت کی خاطر کھڑے ہیں تو یہ اچھی بات ہے اس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ چلنا ہو گا۔ صحافی نے آئینی ترامیم کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے کردار بارے سوال کیا تو کہا کہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم اس لیے لائی جا رہی ہیں کہ اپنے ساتھ 4 امپائر ملائے ہوئے ہیں جن کے لیے حکومت نمبر پورے کر رہی ہیں اور وہ ترمیم لا کر رہیں گے۔ حکومت کے 4 امپائرز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب سےبجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ کی رعایت کےاعلان کے باوجود وزارت توانائی اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے سے عوام کی اکثریت فائدہ اٹھانے سے محروم رہ گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مریم نواز کی جانب سے عوام کیلئے اگست اور ستمبر کے مہینے میں 14 روپے فی یونٹ کے ریلیف کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم اگست کے مہینے میں عوام کو ملنے والے بلوں میں عوام کی اکثریت اس ریلیف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جب اس معاملے پر تحقیقات کی گئیں تو پتا چلا کہ حکومت نے ریلیف دینے کیلئے 201 سے 500 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کا انتخاب کیا تھا، 200 سے کم یونٹس چلانے والے صارفین اس سہولت سے محروم رہ گئے اور 201 سے 500 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ کی رعایت کی گئی۔ تاہم حکومت نے یہ رعایت صرف سنگل فیز میٹر استعمال کرنے والے صارفین کو ملی اور تھری فیز میٹر استعمال کرنے والے اس رعایت کیلئے منہ ہی دیکھتے رہ گئے کیونکہ حکومت نےتھری فیز یعنی گھروں میں ہیوی لوڈ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو اس رعایتی پیکج سے محروم رکھا ہے۔ لیسکو حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نے تو سنگل اور تھری فیز گھریلو صارفین کے بلوں میں ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا مگر وزارت توانائی نے یہ سہولت صرف سنگل فیز میٹر صارفین کو دینے کی ہدایات جاری کیں، تھری فیز میٹر کے گھریلو صارفین کےبلوں میں یہ ریلیف شامل نہیں ہےجس کی وجہ سےصارفین کی اکثریت روزانہ واپڈا دفاتر چکر لگانے پر مجبور ہے۔ ترجمان لیسکو کے مطابق وزارت توانائی اور دیگر متعلقہ محکموں کا کہنا ہے کہ تھری فیز میٹر کو کمرشل کنکشن میں شمار کیا جاتا ہے، وزیراعلیٰ کا اعلان کردہ ریلیف پیکج کمرشل یا انڈسٹری صارفین پر لاگو نہیں ہوتا۔
مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کے فیصلے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جاری وضاحت پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قانونی ماہرین کی معاونت حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی صدارت میں اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن، سپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن لاء اور لیگل ٹیم کے علاوہ ممبران نے شرکت کی اور فیصلہ کیا کہ قانونی ماہرین سے مشاورت لی جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے مختصر فیصلے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے مانگی گئی وضاحت کے جواب میں 14 ستمبر 2024ء کے عدالتی آرڈرز پر بھی غوروخوص کیا گیا۔ اجلاس میں مخصوص نشستوں سے متعلق پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی پر بھی بحث کی گئی اور قانونی نکات کے ساتھ ساتھ اس کے مضمرات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اگلا اجلاس کل دوبارہ منعقدہ کرے گا۔ واضح رہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف کی درخواستوں پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 12 جولائی کو جاری کیے گئے مختصر فیصلے میں کوئی ابہام نہیں۔ سپریم کورٹ نے وضاحت میں کہا 12 جولائی کا سپریم کورٹ کا مختصر فیصلہ بہت واضح تھا اور اس حکم نامے کو الیکشن کمیشن نے غیرضروری طور پر پیچیدہ بنا دیا، فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ وضاحت میں یہ بھی کہا گیا کہ بیرسٹر گوہر کو چیئرمین تحریک انصاف اور عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل تسلیم کیا جا چکا ہے جس کے جواب میں ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی چوہدری الیاس نے معروف صحافی عمران ریاض خان پر کیس کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے معافی کا مطالبہ کر دیا جس نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ چوہدری الیاس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض خان کبھی کہتے ہیں کہ میں ق لیگ میں ہوں کبھی کہتے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوں،ایسی غلط حرکت کرنا بہت زیادتی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں عمران ریاض خان کو تنبیہ کر رہا ہوں کہ اگلے 24 گھنٹے میں اپنی غلط حرکت پر معافی مانگیں اور ایسی معافی مانگیں جس پر ہمیں بھی تسلی ہو، اگر ایسا نہ کیا تو ان کے خلاف سول اور کریمنل کیس بھی کروں گا۔ کہتا ہے کہ میرے 100 ووٹ بھی نہیں ہیں، میرے والد 1947ء کے بعد ایم ایل اے رہے ہیں، میرے بہت سے عزیز ممبر ضلع کونسل رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا 2008ء میں انتخاب تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف آزاد حیثیت میں لڑا تھا جس میں 11ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے ، 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور ڈویژن بھر میں دوسرے نمبر پر ووٹ لیے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ 100 ووٹ بھی نہیں ہیں۔ عمران ریاض خان نے چند مہینے پہلے میرے مخالف امیدوار کی تعریفیں بھی کی تھیں، میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا۔ شمس خٹک نامی صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا: یہ موصوف تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں، چوہدری الیاس ووٹ کے ٹائم پر غائب ہوئے اب عمران ریاض نے پوائنٹ آؤٹ کیا تو کہہ رہے عمران ریاض پر کیس کروں گا! جبکہ اسی پریس کانفرنس میں بیان حلفی بھی اُٹھا سکتے تھے جو کہ پارٹی نے کل سے کہا ہوا ہے! چوہدری الیاس کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں رہنما تحریک انصاف چودھری مونس الٰہی نے لکھا: اس شخص کی مہم چلانے اور ووٹ دینے کے لیے پورے یورپ سے لوگ پاکستان گئے تھے، اگر یہ لوٹا بن گیا ہے تو گجراتی اس کا شکار کریں گے۔ ابوذر سلمان نیازی نے اپنے پیغام میں لکھا: ان کے کام مشکوک ہیں، پارٹی ہدایات کے مطابق آکر حلف نامہ جمع کروائیں ورنہ نہ صرف پارٹی بلکہ ان کے حلقے کے عوام ان کا احتساب کریں گے! سینئر صحافی عمران ریاض خان نے بھی چوہدری الیاس کی پریس کانفرنس پر ردعمل جاری کر دیا اور لکھا: جن سے اجازت لے کر اور ڈیل کر کے یہ شخص پاکستان آیا ہے انہوں نے پہلے ہی مجھ پر تین درجن مقدمات کروا رکھے ہیں، آج بھی ایک ضمانت کروائی ہے۔ یہ مہرہ بھی اپنا شوق پورا کر لے، مقدمہ کروانا ہے تو ان پر کروائو جنہوں نے اغوا کیا تھا۔ انہوں نے لکھا: کیا یہ شخص عمران خان کے نام پر جیت کر چوہدری شجاعت کی پارٹی میں لوٹا بن کر نہیں گیا؟ کیا اس نے ابھی تک الیکشن کمیشن کے خلاف کوئی کاروائی کی ہے؟ اس کی دو نمبری کے تو اتنے ثبوت ہیں کہ طبیعت صاف ہو جائے گی، موصوف کی۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومتی مسودے کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے یہ اعلان اسد قیصر کی رہائش پہنچ کر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کیا اور کہا کہ ہم نے آئینی ترامیم پر حکومت کے مسودے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے،اب تو یہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا مسودہ نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کیجانب سے جو پہلے مسودہ فراہم کیا گیا وہ کیا کھیل تھا؟ جب اس مسودے کا مطالعہ کیا وہ مسودہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں لگا، اگر ہم اس مسودے کی حمایت کرتے تو یہ قوم کے ساتھ بڑی خیانت ہوتی۔ مولانا فضل الرحمان نے اسد قیصر کے گھر آمد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس قیصر نے میرے بہت کھانے کھائے ہیں ، ہم کھانا کھانے آئے تھے کھاکر جارہے ہیں، اس ظہرانے میں سابق صدر عارف علوی، رؤف حسن سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی شریک ہوئے۔
ممبر خیبر پختونخوا اکرام اللہ نے کہا 5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے, اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے,الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابی کیس کی سماعت کے دوران ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ نے ریمارکس دیے, ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہمارے وکیل آج پیش نہیں ہو سکتے، تین ہفتوں کا وقت دے دیں۔اس موقع پر ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ کا کہنا تھا ویسے آپ نے الیکشن کہاں کرائے تھے؟ 5 سال کے اندر آپ نے انتخاب نہیں کروائے، 5 سال کے بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب کیس کی سماعت 2 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ 6 ستمبر کو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی کیس میں پاکستان تحریک انصاف کی چاروں متفرق درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ 27 اگست کو الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کی وضاحت آنے تک مقدمے کو زیر التوا رکھنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔دوران سماعت تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا تھا۔ وکیل عذیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی جانچ پڑتال الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، الیکشن کمیشن صرف یہ دیکھ سکتا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے یا نہیں، الیکشن کمیشن پہلے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے۔ اس پر ڈی جی لا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے شارٹ آرڈر میں کہا تھا کہ صرف 41 آزاد ارکان کے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کروائے جائیں، سپریم کورٹ نے کسی مخصوص جماعت کا ذکر نہیں کیا تھا، آزاد رکن کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے یہ وضاحت مانگی ہے کہ 41 ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے کس کا سرٹیفکیٹ تسلیم کیا جائے؟ 23 جولائی کو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دستاویزات جمع کروانے کے لیے مہلت دے دی تھی۔13 جولائی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
پاکستان کے خوشبری سامنے آگئی,پاکستان کاربن کریڈٹ برآمدات سے سالانہ ایک ارب ڈالر کماسکتا ہے,موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق قانون سازی کے باعث رضاکارانہ کاربن کریڈٹ مارکیٹ تیزی سے ابھر رہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کاربن کریڈٹ کی برآمدات کرکے سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کرسکتا ہے. کلائمٹ ایکشن سینٹر میں کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس کو کلائمٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر، مجتبی بیگ اور ماحولیات کی کنسلٹنٹ زویا تنیو نے بریفنگ دی,ماہرین ماحولیات نے بتایا دنیا کی ماحولیاتی آلودگی میں اگرچہ پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پاکستان کو سالانہ 4ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے,درجہ حرارت بڑھنے سے ماحول میں ناصرف زیریلی گیسز کی مقدار بڑھ جاتی ہے بلکہ اس سے گندم کپاس کی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ ایک انسان کے کام کرنے کی صلاحیت گھٹنے کے ساتھ عوام کی صحت کا بل بھی بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ باغبانی اور زراعت کے ذریعے اگر ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضاء سے جذب کرلیا جائے تو یہ ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔ پاکستان سے ایک کاربن کریڈٹ 10 سے 15ڈالر میں عالمی منڈی میں فروخت ہوسکتا ہے, کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ کا حجم 950 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہورہا ہے۔ کاربن کریڈٹ کے لئے کنسلٹنٹ رپورٹ اور اس کی تھرڈ پارٹی کی تصدیق بنیادی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ فیکٹریوں گاڑی دھوئیں اور Un Treated پانی کی سمندر میں نکاسی سے گرین گیسز کی بڑی مقدار فضاء یا آب وہوا کو زہریلا ہورہا ہے۔ پاکستان بھی فرانس “پوسٹ انڈسٹریلسٹ نیٹ ٹمپریچر” معاہدے کا سگنیٹری ہے جسکے تحت ہمیں اپنے درجہ حرارت کو نیٹ انکریز کو 1.5فیصد پر روکنا ہے لیکن اسکے برعکس صرف کراچی میں گزشتہ 10سال سے نیٹ انکریز کی شرح 2فیصد ہے۔ پیرس معاہدے کے تحت آلودگی کی شرح میں کمی ضروری ہے۔ کلائمٹ ایکشن سینٹر کے مطابق کاربن کریڈٹ کی عالمی مارکیٹ 50ارب ڈالر ہے لیکن اسکے برعکس او سی سی آئی نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ دنیا میں کاربن کریڈٹ کی مارکیٹ 500ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے. بیرونی خریداروں کے مطالبے پر پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی صنعتوں نے اپنے مصنوعات کی مینوفیکچرنگ میں آلودگی کی رپورٹنگ شروع کردی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی مصنوعات کے برآمدکنندگان کی جانب سے رضاکارانہ طور پر آلودگی کی رپورٹنگ نہ کی گئی تو سال 2028 کے بعد عالمی مارکیٹوں میں انکی مصنوعات کی برآمدات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
نگراں حکومت کے دور میں احد چیمہ کی خاندانی زمینوں کی حفاظت کیلئے منظور کردہ گرانٹ کو 48 کروڑ روپے سے 84 کروڑ روپے تک لے جانے کا انکشاف ہوا ہے، کوئی محکمہ یا سرکاری افسر ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ خبررساں ادارے فیکٹ فوکس کی رپورٹ کے مطابق موجودہ پنجاب حکومت اور سابقہ نگراں حکومت نے ن لیگ کے اہم رہنما احد چیمہ کی خاندانی زمینوں کی حفاظت پر کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں، ابتدائی طور پر نگراں حکومت نے اس معاملے میں 480 ملین روپے خرچ کیےجس کے بعد اضافی فنڈز بھی جاری ہوئے اور یہ لاگت 84 کروڑ روپے تک پہنچ گئی، اس حکومتی منصوبے سے وفاقی وزیر احد چیمہ اور ان کے خاندانی زمین کے مالکان کو فائدہ پہنچا۔ رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ 2022 میں اس وقت شروع ہوا جب وفاق میں نگراں حکومت کے دور میں احد چیمہ کو وزیراعظم کا مشیر مقرر کیا گیا، اس وقت حافظ آباد کی ضلعی انتظامیہ نے کوٹ کمیر، بہک احمد یار اور محمود پورہ کے علاقے میں وزیراعظم کے مشیر احد چیمہ اور ان کے خاندان کی ملکیتی اراضی کی تحفظ کا ایک منصوبہ متعارف کروایا اور اس منصوبے کے تحت کئی مقامات پر بندھ کی تعمیر کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کے سامنے آنے کے بعد تمام متعلقہ محکموں نےفوری طور پر اس منصوبے کی منظوری دی اور اس وقت کے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے تحت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے 16نومبر 2023 کو 48 کروڑ روپے کے فنڈز کی منظوری دی۔ نگراں حکومت کے خاتمے کےبعد بجائے اس منصوبے کے آڈٹ کے مسلم لیگ ن کی نئی آنے والی حکومت نے اس منصوبے کو آگے بڑھایا اور اس منصوبے کی گرانٹ میں اضافے کی منظوری بھی دی، نگراں حکومت کے دور میں منصوبے کی منظوری میں میرٹ کو سامنے نا رکھنے اور منصوبے سے ن لیگ سے وابستہ شخصیات کو فائدہ پہنچنے جیسی وجوہات کےباوجودہ اس منصوبے کو سرکاری سطح پر جاری رکھا گیا۔ 8 جولائی 2024 کو مریم نواز کی حکومت نے اس منصوبے میں مزید 360 ملین یعنی 36 کروڑ روپے کی منظوری دی جس سے اس منصوبے پر مجموعی لاگت 84کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس انکشاف کے سامنے آنے کے بعد متعدد خبررساں اداروں کی جانب سے جب پنجاب حکومت سے اس حوالے سےحقائق جاننے کی کوشش کی تو کسی محکمے نے اس منصوبے کی منظوری کی ذمہ داری نہیں لی بلکہ ہر افسر اور محکمے نے اس منصوبے کو دوسرے افسر یا محکمے کی ذمہ داری قرار دیا۔

Back
Top