لاہور ہائیکورٹ نے بھینس چور کی ضمانت مسترد کر دی جس کے بعد پولیس نے ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا۔ بھینس چوری جیسے معمولی جرم کے ارتکاب پر عدالتی کارروائی دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا کہ بڑے جرائم اور اربوں کی کرپشن کرنے والے آزاد کیوں ہیں؟
اسی جرم پر عدالتی انصاف دیکھ کر سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا کہ شکر ہے ریاست پاکستان میں انصاف ہو رہا ہے اور عدالتیں دن رات انصاف کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے کورٹ رپورٹر محمد اشفاق نے بتایا تھا کہ ملزم کے خلاف ساہیوال کے مقامی تھانے میں بھینس چوری کا مقدمہ درج ہے۔ عدالت نے نامزد ملزم کی ضمانت خارج کی تو پولیس نے اسے احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا۔
ملک حمزہ نامی صارف نے کہا کہ بھینس چوری کے مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزم کی ضمانت خارج کردی۔ جب کہ سرکاری بھینس فروخت کرنے والے کی 16 مقدمات میں ضمانت منظور ہو چکی ہے، اس صارف نے مزید کہا کہ چھوٹے چور کے لیے الگ قانون، بڑے چور کے لیے الگ قانون، یہ ہمارا نظام عدل ہے۔
احمد خان کا کہنا تھا کہ بالکل، اٹھا کر بند کرو اس بھینس چور کو۔ یہ بندہ اگر 10 کروڑ کا غبن کرتا تو اسے پروٹوکول ملتا۔ اسے ہمت کیسے ہوئی بھینس چوری کرنے کی؟
محمد انور نے کہا لاہور ہائیکورٹ نے بھینس چوری کے ملزم کی ضمانت خارج کر دی پولیس نے ملزم کو ہائیکورٹ سے گرفتار کر لیا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ملزم کی عبوری ضمانت خارج کی ، لیکن 16 ارب منی لانڈرنگ ،کرپشن کے ملزم کا کیا بنا؟
نسیم صدیقی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے بھینس چوری کے ملزم کی ضمانت خارج کر دی پولیس نے ملزم کو ہائیکورٹ سے گرفتار کر لیا۔ امیر کے لیئے الگ قانون اور غریب کے لیئے الگ۔ (بمپر آفر) اربوں کی کرپشن کرو اور حکمران بنو، بھینس چوری کرو تو جیل جاؤ۔