سوشل میڈیا کی خبریں

عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے طلاق کی حوصلہ شکنی کرنے پر ٹک ٹاکر کنول آفتاب کو جواب دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق ٹک ٹاکر کنول آفتاب نے انسٹاگرام پر سوالو جواب کے دوران خواتین کو تشدد کرنے والے شوہروں کو برداشت کرنے کی ترغیب دی جس پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک خاتون نے کنول آفتاب سے سوال کیا کہ اگر کسی خاتون کا شوہر کوئی کام بھی نا کرتا ہو اور عورت پر تشدد بھی کرتا ہو تو کیا اس سے طلاق لے لینی چاہیے؟ کنول آفتاب نے جواب میں کہا کہ طلاق لینا کوئی راستہ نہیں ہے، اسے سپورٹ کرنے اور بہتری کی جانب لانے کی کوشش کی جائے۔ کنول آفتاب کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین بشمول سابق وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے بھی تنقید کی اور کہا کہ میں نے پہلی شادی کے بعد سالوں تک طلاق نہیں لی کیونکہ مجھے یہی بتایا گیا تھا، تاہم طلاق کے بعد مجھےکوئی مسئلہ نہیں ہوا، بلکہ دونوں طلاقوں کے بعد میں مالی طور پر مستحکم تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی طلاق کے بعد میرے پاس شادی کیلئے بہتر پروپوزلز تھے، دوسری طلاق کے بعد جو شوہر مجھے ملا وہ مجھے واقعی بہت پسند ہے ، لہذا ایسی بدنامی سے بچا جاسکتا ہے اور اسے شکست دی جاسکتی ہے۔
میشا شفیع نے علی ظفر کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی خاطر جنسی ہراسانی کے جھوٹے الزامات عائد کیے: وکیل علی ظفر ذرائع کے مطابق لاہور ڈسٹرکٹ کورٹ میں آج ملک کے معروف گلوکار واداکار علی ظفر کی طرف سے نامور گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کیس کی سماعت ہوئی۔ علی ظفر کے وکیل نے میشا شفیع سے سوال پوچھا کہ کیا کوئی خاتون عوام کے سامنے جھوٹے الزامات لگا سکتی ہے؟ میشاشفیع نے وکیل کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر چیز ممکن ہے، خواتین پبلک میں جھوٹ بول سکتی ہیں اور کسی بھی شخص کے خلاف سنگین جھوٹے الزامات لگا سکتی ہیں۔ علی ظفر کے وکیل نے ہتک عزت کیس کا سامنے کرنے والی گلوکارہ میشا شفیع سے جرح کی جسے ان کے وکیل کی طرف سے غیرمتعلقہ قرار دیا گیا اور کہا کہ سوالات دہرائے جا رہے ہیں۔ علی ظفر کے وکیل کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ میشا شفیع نے علی ظفر کی ساکھ اور شہرت کو نقصان پہنچانے کی خاطر جنسی ہراسانی کے جھوٹے الزامات عائد کیے۔ میشا شفیع نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ میں نے جھوٹ الزامات عائد نہیں کیے نہ ہی میں پاکستان میں "می ٹو" مہم لانچ کرنا چاہتی تھی نہ ہی اس کا مقصد شہرت حاصل کرنا تھا۔ یاد رہے کہ 2018ء میں میشا شفیع کی طرف سے علی ظفر کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جنسی ہراسگی کے الزامات لگائے گئے تھے اور لکھا تھا کہ ایسے مسائل کے حوالے سے خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ میشا شفیع کے الزامات لگانے کے بعد علی ظفر کی طرف سے لاہور کی مقامی عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا جس کی سماعتیں اب تک جاری ہیں۔ خبر رساں ادارے ایکسپریس ٹریبون نے ٹوئٹر پر میشا شفیع کا خواتین کے پبلک میں جھوٹ بولنے کے بیان کو شیئر کیا جس پر ردعمل دیتے ہوئے علی ظفر نے لکھا کہ: مجھے اس کی بات پر یقین ہے!
نریندر مودی نے ہر بھارتی شہری کو شرمندہ کر دیا، بھارت کو پڑھے لکھے وزیراعظم کی ضرورت ہے: سوشل میڈیا صارف بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جو اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں کی بات کرتے ہوئے ایک بار پھر سے زبان پھسل گئی، کہنا کچھ چاہتے تھے لیکن کہہ کچھ اور گئے جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ نریندر مودی انویسٹنگ (سرمایہ کاری) بولنے کے بجائے انویسٹی گیٹنگ (تفتیش) کا لفظ استعمال کر گئے جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کا مذاق بن گیا۔ بھارتی سوشل میڈیا صارف ڈاکٹر نیمو یادیو نے نریندر مودی کی تقریر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: یہ نریندرا مودی ہے بھارت کے وزیراعظم! ان دنوں وہ بین الاقوامی رہنمائوں سے ملاقات کیلئے امریکہ میں موجود ہیں اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کے بجائے لڑکیوں میں تفتیش کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔ انہوں نے ہر بھارتی شہری کو شرمندہ کر دیا ہے، اسی لیے بھارت کو ایک پڑھے لکھے وزیراعظم کی ضرورت ہے۔ ایوش سکسینا نے نریندر مودی کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ: انویسٹنگ ان اے گرل چائلڈ نہیں انویسٹی گیٹنگ ان اے گرل چائلڈ درست لفظ ہے! نریندر مودی ٹیلی پرومپٹر سے دیکھ کر بھی ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ سکتے۔ ایک اور صارف نے نریندر مودی کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ: ان پڑھ وزیراعظم آف انڈیا! ایک صارف نے لکھا کہ: ہمیں ایسے ٹیلی پرامپٹرز کی ضرورت ہے جو انگریزی الفاظ گجراتی یا ہندی زبان میں دکھا سکیں۔ یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس سے پہلے بھی غلط الفاظ بولنے پر مذاق کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 20 جنوری کو ایک تقریب کے دوران "بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو" مہم کے حوالے سے ویڈیولنک خطاب کرتے ہوئے بیٹی پڑھائو کے بجائے بیٹی پٹائو کہہ گئے تھے۔ نریندر مودی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اڑایا گیا، مزاحیہ تبصرے اور میمیز شیئر کی گئیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر بدتمیزی کرنے اور اسےتھپڑ مارنے کے معاملے پر صحافی برادری اور سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک صحافی کی جانب سے سوال کرنے پر انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اور اسے دھکا دیتے ہوئے تھپڑ مار ا جس سے صحافی کے ہاتھ میں پکڑا ہواموبائل فون نیچے کرگیا اور اسحاق ڈار گارڈز کے گھیرے میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ واقعہ کی ویڈیو جیسے ہی ٹویٹر پر وائرل ہوئی تو صحافی برادری،سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئےاسحاق ڈار صاحب کو کھری کھری سنائیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سمیع ابراہیم نے اس معاملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صحافی شاہد قریشی کو تھپڑ مار کر اسحاق ڈارنے کوئی نیک نامی نہیں کمائی، تاہم اب اصل امتحان صحافی تنظیموں کا ہے کہ وہ اس معاملےپر کیا ردعمل دیتی ہیں۔ سینئر صحافی و نجی ٹی وی چینل کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہ جو کچھ سپریم کورٹ اور جمہوریت کے نام پر پارلیمان میں ہورہا ہے، صحافی کو تھپڑ مارے جارہے ہیں، یہ سب کچھ دیکھ کر ہر کوئی یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ اس ملک کاکیا بنے گا؟ عدیل حبیب کا کہنا تھا کہ آپ سب کو یہ تو پتہ ہی ہے کہ کسطرح اسحاق ڈار نے پاکستانی اکانومی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے. اپنی پرفارمنس سے اتنے زیادہ پریشان ہیں کہ کل ایک صحافی کو سوال کرنے پر ہی تھپڑ جڑ دیا. پاکستانی حکومت کی پرفیکٹ عکاسی کر رہے ہیں! سینئر صحافی عمران میر نے اسحاق ڈار کی ملک بدری کے دوران لندن میں لی گئی تصویریں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جب اسحاق ڈار زیر عتاب تھے تو لندن کی سڑکوں پر سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، شلوار ٹخنوں سے اوپر کیے عاجزی اور مسکینی کا پیکر بنے دکھائی دیتے تھے۔ عمران میر نے کہا کہ پاکستان میں قدم رکھتے ہی ان کا غصہ ہی ختم نہیں ہوتا، آج بھی انہوں نے ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر گارڈ سے کہا کہ اس کا موبائل فون چھین کر پھینک دو۔ صحافی و اینکر پرسن اویس منگل والا نے کہا کہ ویسےتو ڈار صاحب مناسب آدمی ہیں مگر یہاں یا تو وزارت دماغ پر چڑھ گئی ہے یا پھر معیشت نا سنبھال پانے کا غصہ ہے، اب آزادی صحافی کے علمبرداروں کو کچھ کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی ویسٹ پنجاب کے صدر فرخ حبیب نے اس واقعے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار ایک غنڈہ اور بدمعاش بن گیا ہے،نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں،دلیل کے بجائے گلوکریسی شروع کردی ہے، آزادی صحافت کی دکان چمکانے والے اب کہاں خاموش بیٹھے ہیں؟ پی ٹی آئی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری سالار سلطانزئی نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ پر اب کچھ دیر بعد سرخیل اجرتی دانشور آپ کو بتائیں گے کہ پراپیگنڈہ نا کریں، کیونکہ اسحاق ڈار نے صحافی کو تھپڑ نہیں مارا بلکہ وہ صحافی کے منہ پر بیٹھی مکھی اڑا نا چاہتے تھے۔ وقار ملک نے کہا کہ اسحاق ڈار نے صحافی کو نہیں بلکہ پوری قوم کو تھپڑ مار کر پیغام دیا ہے کہ غلام مالک سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ صحافی نادیہ مرزا کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا کوئی سیاستدان کسی صحافی سے بدٹمیزی کرے تو پوری صحافی برادری سراپا احتجاج ہوتی تھی اور آج ایک صحافی کو تھپڑ پڑنے پر خاموش ہے۔۔ کسی نے اسحٰق دار سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا یا کوئی بائیکاٹ وغیرہ؟؟ وقاص امجد نےبھی طنزیہ انداز اپنایا اور کہا کہ مہنگائی بہت ہے، اسحاق ڈار سے سوال پوچھ کر اپنا موبائل مت گنوائیں۔
شوبز انڈسٹری کی مشہور اداکارہ عروہ حسین نے ملکی معیشت و شوبز سے متعلق بیان دینے پر ریحام خان کو کھری کھری سنادی ہیں۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں عروہ حسین نے ریحام خان کے ایک بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ردعمل دیا اور کہا کہ میں اس بیان پر خاموش نہیں رہ سکتی، اگر آپ اداکاروں سے متعلق توہین آمیز بیان نا دیتی تومیں مقامی کمیونیٹیز پر سرمایہ کاری سے متعلق آپ کی بات سے اتفاق کرسکتی تھی۔ عروہ حسین نے کہا کہ آپ نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز بطور ایک چائلڈ اسٹار پاکستان ٹیلیویژن سے کیا تھا، یہ حقیقت آپ کو مختصر ملبوسات میں صرف پوسٹرز پر نظر آنے والی شخصیت نہیں بناتی اور اس سے آپ کو ملکی سیاست پر اپنے رائے کا اظہار بھی نہیں چھینا جاسکتا۔ مشہور اداکارہ نے کہا کہ ہم بطور آرٹسٹس اس ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اور پوری دنیا سے لوگ ہمیں محبت اور عزتیں دیتے ہیں، ہم میں سے زیادہ تر لوگ خودمختار ہیں اور بہت محنت کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں، ہم ابھی ابھی اس مقام تک پہنچنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں۔ خیال رہے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے اپنے ایک بیان میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور شوبز سے منسلک شخصیات کی جانب سے سیاسی معاملات پر اپنے رائے دینے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ریحام خان نے کہا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی نوکریاں نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن پاکستانی سیاست کے ماہر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، ان لوگوں کو اصل حقائق جاننے کی ضرورت ہے، مشہور شخصیات مختصر ملبوسات پہنے پوسٹرز پر اچھی لگتی ہیں، ان میں عام طور پر سیاستدان بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے کبھی عام آدمی کی طرح زندگی نہیں گزاری ہوتی۔ ریحام خان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان صرف دلہنوں اور لان کی کلیکشن خریدنے والا ملک نہیں ہونا چاہیے، یہاں مقامی کمیونٹیز پر سرمایہ کاری بھی ہونی چاہیے۔
وزارت خزانہ کی 18ویں گریڈ کی افسر مریم ایوب کو سرکاری ٹور کے دوران بزنس کلاس میں سفر کی تصاویر ٹویٹر پر شیئر کرنا مہنگا پڑگیا، ٹویٹر صارفین کے سخت ردعمل پر پہلے تنقید کی اور پھر ٹویٹ ڈیلیٹ کرکے اکاؤنٹ ہی بند کردیا۔ تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ کی 18ویں گریڈ کی افسر مریم ایوب نے ٹویٹر پر ایک تصویر شیئر کی جس میں ان کا پاسپورٹ ، بورڈنگ پاس اور چائے کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں دکھائی دے رہی تھیں، مریم ایوب نے یہ تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کام اچانک سفر کا مطالبہ کرتا ہے۔ بدحال معاشی صورتحال اور شدید مالی مسائل سے دوچار ایک ملک کی وزارت خزانہ کی افسر کی ان شاہ خرچیوں پر سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے، عوام نے ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر سرکاری افسران کی عیاشیوں کو آڑے ہاتھوں لیا، ایک صارف نے کہا کہ کیا ایسا کرنا اخلاقیات اور تہذیب کی گرتی ہوئی حد نہیں ہے؟ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکے بیٹے شہباز تاثیر نے بھی اس معاملے پر افسوس کا اظہار کیا۔ سینئر صحافی عمرقریشی نےکہا کہ جس سرکاری افسر کا کام آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہے وہ بین الاقوامی سفر کیلئے بزنس کلاس کا انتخاب کرتی ہیں؟یہ اچھا ہے مگر ٹیکس دہندگان کیلئے نہیں۔ ایک صارف نے کہا کہ بزنس کلاس میں 10 گھنٹے سے اوپر کےہی مزے ملیں گے، ایک طرف ملک اجڑا پڑا ہے، کھانے کو کچھ نہیں ہے مگر سرکاری ملازمین نے سفر بزنس کلاس میں کرنا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ایک گرتی ہوئی معیشت کی سرکاری ملازمہ کی جانب سے بزنس کلاس کے سفر کے دوران شو آف کیا جارہا ہے، ہمارے سی ایس ایس بیوروکریٹس غیر حساس قسم کی مخلوق میں سے ہیں۔ سائرہ بانو نے کہا کہ موج کریں، عوام کا ٹیکس کا پیسہ آپ ہی کیلئے ہے، اب تو شرم کو بھی شرم آتی ہوگی۔ ٹویٹر صارفین کی شدید تنقید کے بعد مریم ایوب نے ایک تنقید بیان جاری کیا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ٹویٹر بدترین اور گھٹیا شکل اختیار کرچکا ہے ، یہاں بغیر کسی وجہ کے ہر چیز کو اخلاقیات اور تہذیب سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مریم ایوب نے اس ردعمل کے بعد دوران سفر شیئر کی گئی تصاویر شیئر کرتے ہوئے اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بند کردیا ہے۔ عمر آفتاب نامی صارف نے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے پر سوال کیا کہ ایک ٹیکس دہندہ پوچھ رہا ہے کہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کی وجہ کیا تھی؟
اداکارہ سنیتا مارشل نے مذہب تبدیل کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ "میرا اسلام قبول کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سنیتا مارشل نے نادر علی کے پوڈ کاسٹ میں شرکت کی جہاں نادر علی نے سنیتا مارشل سے مذہب تبدیل کرنے سے متعلق سوال کیا۔ میزبان کا پوچھنا تھا کہ "آپ عیسائی اور آپ کے شوہر اداکار حسن احمد مسلمان ہیں، بچے کونسا مذہب فالو کر رہے ہیں؟ اور مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے آپ کا کیا ارادہ ہے؟"۔ اس پر سنیتا مارشل کا کہنا تھا کہ" اُن کے بچے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، شادی سے قبل ہی میں اور حسن نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ بچے کس مذہب کو فالو کریں گے۔" انہوں نے خود سے متعلق کہا کہ" میرا فی الحال مذہب تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی مجھ پر سسرالیوں کی جانب سے کوئی دباؤ ہے، مجھے آج تک سسرال میں کبھی کسی نے اسلام قبول کرنے سے متعلق نہیں کہا ہے اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے یوٹیوبر نادرعلی کو کڑی تنقید کانشانہ بنایا او رکہا کہ نادرعلی کو ایسے متنازعہ سوالات نہیں پوچھنےچاہئے تھے۔ اس پر صحافی خرم اقبال کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے اس (سنیتامارشل) کے مذہب سے متعلق اس قسم کے سوالات نہیں پوچھنے چاہئے تھے لیکن اسکے باوجود اس نے اچھے انداز اورتحمل سے جواب دئیے مقدس فاروق اعوان نے تبصرہ کیا کہ یہ یوٹیوبر کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے،کسی شخص سے بھی مذہب سے متعلق خاص ذاتی سوال اس طرح بار بار پوچھنا انتہائی نامناسب ہے،وائرل کلپ کی چاہ میں ہر معاملے پر فرینک ہوجانا اچھی بات نہیں ہوتی، اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے،آمین ۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ نادر صاب !اس قسم کے سوال پوچھنے سے پہلے آپ ایک بار سوچ لیتے کہ خود آپ سے پوچھ کر آپکا نام بھی نہیں دیا گیا مذہب ، شہریت , زات تو دور کی بات ہے۔ اور تو اور اس دنیا میں آنے میں بھی آپکی کوئی مرضی نہیں ۔ البتہ دماغ دیا گیا ہے سوچنے کے لئے ۔ اسکو استعمال کرنے کی کوشش کریں ۔۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ سنیتا مارشل ہمیشہ سے ہی گریس فل ہے ، اللہ ہدایت دے انہیں جو مائیک کے سامنے بیٹھے ہیں اداکارہ متھیرا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نادر علی کو اپنے مہمان کو ایسے سوالات کر کے تنگ کرنے کی عادت ہے، جب میں اِن کے شو میں گئی تھی نادر نے مجھ سے بھی بے تکے سوالات کیے تھے۔ دوسری جانب اداکارہ غنیٰ علی کا کہنا تھا کہ نادر علی اپنی کامیابی کے لیے مہمانوں سے ایسے متنازع سوالات کرتے ہیں۔ سینئر اداکارہ صبا فیصل نے بھی اس موضوع پر تبصرہ کیا اور نادر علی کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عالیہ حمزہ کا ایک پیغام شئیر کیا جس میں انکا کہنا تھا کہ جیلوں میں ہماری خواتین کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ ہولناک ہے۔ جس پاکستان میں میں پَلا بڑھا ہوں یا کسی بھی مہذب معاشرے میں (ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ ایسے بہیمانہ سلوک کا) تصوّر تک ممکن نہ تھا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ عالیہ حمزہ کی بیٹی کی جانب سے بھجوائے گئے پیغام سے وہ کرب و اذیّت جھلکتی ہے جس سے ان کے اہلِ خانہ گزر رہے ہیں۔ عالیہ حمزہ کی بیٹی کے مطابق ان کی والدہ کی صحت بہت بگڑ گئی تھی اور ایک دن پہلے وہ ہوش وحواس کھو بیٹھی تھیں اور گر گئی تھیں جس کی وجہ سے ان کے سر کے پچھلے حصے سے خون بہہ نکلا اور ان کے کندھے اور بازو پر بائیں جانب چوٹیں آئی ہیں۔ 24 گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن انہیں ابھی تک طبی امداد نہیں دی جا رہی۔ ہمیں میڈیا کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، 42 دن سے وہ جیل میں قید ہیں اور بدترین حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ عمران خان کے ٹویٹر پیغام پر صحافی حامد میر نے ہلکی سی مذمت کرکے عمران خان کو طعنے دینا شروع کردئیے۔ انکا کہنا تھا کہ جیلوں میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک قابل مذمت ہے لیکن یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہو رہا ماضی میں زیر حراست خواتین کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک ہوتا رہا 2005 میں کوہلو سے حراست میں لی جانے والی سکول ٹیچر زرینہ مری کے ساتھ جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے وہ آج بھی لاپتہ ہے آپ نے کبھی اسکا نام ہی نہیں لیا اس پر صحافی ریاض الحق نے حامدمیر کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ سر عمران سے اختلاف اپنی جگہ مگر مرتے کو مارنا کوئی جراحت مندی نہیں۔ کل کو یہ طعنے ہمیں بھی ملیں گے کہ صحافیوں پر جبر، اغوا اور سینسرشپ تو ماضی میں بھی ہوتی تھی تو اسلیے شور نہ کیا جائے کیونکہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا۔ میر صاحب کہیں بھی کوئی اچھا جملہ لکھتے ہیں تو ساتھ میں لیکن،اگر،مگر لگا کر اپنا بغض نکالنے کا موقع ضائع نہیں کرتے۔ حتی کہ بھارت میں ہونے والے غیر انسانی سلوک کا تذکرہ کرتے وقت بھی پاکستان کے کسی علاقہ کا نام لیکر بیلنس کر جاتے ہیں۔ کبھی تو منافقت سے ہٹ کر بول لیا کیجئے!! وقاص نے حامد میر کوجواب دیا کہ جی بھائی آپ کا بھائی عامر اور محسن نقوی یہ سب کروا رہے مریم اور رانا ثنااللہ کا حکم ہے پورا تو کرنا پرے گا پھر ہی تو اپ کا بزنس چلے گا کرپشن کریں لوٹوں پاکستان کو کوئی نہیں پوچھے گا قانون اور آئین تو ختم ہوچکا ہے۔ لیکن اللّٰــــــہ پاک کی طرف سے ہی انصاف ملے گا صداقت نے کہا کہ مطلب ابھی جو کچھ غلط ہورہا ہے اس پر آپ نے نہیں بولنا بس یہی بولتے رہتے ہیں یہ کونسی نئی بات ہے عجیب منطق ہے ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ اگر کوئ چیز ماضی میں غلط تھی تو وہ آج بھی غلط ہے
گزشتہ روز اسدعمر نے کاشف عباسی کو انٹرویو دیا جس میں انکا کہنا تھا کہ عمران خان کی ٹکراؤ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتا اس لیے عہدہ چھوڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ لیے جب کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے مجموعی طور پر سوا 2کروڑ ووٹ لیے، اس لیے سیاسی طور پریہ نہیں کہہ سکتےکہ جنہیں سوا 2 کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالا ان سے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے بات نہیں کروں گا۔ اسدعمر کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتحال سے باہر نکلنے کیلئے عمران خان کی رضامندی ضروری ہے، میں مائنس ون کی بات نہیں کررہا، عمران خان اپنی سیاسی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جائیں، ایک دو چیزیں چھوڑ دیں تو ان حالات سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ اسد عمر کے اس انٹرویو پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر تو عمران خان کا نام لینے پر پابندی ہے، تحریک انصاف کے کسی بندے کو ٹاک شوز پر بلانے پر پابندی ہے تو پھر اسد عمر کو کیوں بلایا گیا؟ اسد عمر بار بار عمران خان کا نام لیتے رہے لیکن نہ اینکر نے انہیں روکا اور نہ ہی عمران خان کا نام سنسر کیا گیا۔ ثمینہ پاشا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسد عمر کے میسج پر عمران خان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔ لیکن ان کے انٹرویو پر ایک تفصیلی جواب کا آنا عمران خان کی ناراضی شو کرتا ہے۔ ۔ اسد عمر یہی باتیں نو مئی سے پہلے کرتے تو الگ بات تھی۔ سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہم ہوتی ہے۔۔ فیاض شاہ کا کہنا تھا کہ میڈیا پر عمران خان کا نام لینے پر پابندی ہے۔ اسد عمر کو کاشف عباسی کے شو میں لایا گیا اور عمران خان کا نام سینسر کیے بغیر سارا پروگرام دکھایا گیا کیونکہ عمران خان کی خلاف بیانیہ بنانا مقصود تھا۔ اسد عمر کو استعمال کر کے وہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسد عمر نے یہ تاثر دیا ہے کہ عمران خان تصادم کی سیاست کر رہے ہیں جس سے میرا ہمیشہ اختلاف تھا۔ جناب اگر آپ کا اتنا شدید نظریاتی اختلاف تھا تو عہدہ چھوڑ دیتے بلکہ پارٹی چھوڑ دیتے۔ اس مشکل وقت میں نظریہ ضرورت کے تحت پیٹھ دکھانے کے بعد آپ کو سب یاد آ رہا؟ انہوں نے مزید کہا کہ اور جن کو اب بھی اسد عمر سے ہمدردی ہو رہی ہے ان کی عقل پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔ مقدس فاروق اعوان نے لکھا کہ تحریک انصاف کا تازہ ترین اعلامیہ اسد عمر پر عمران خان کے عدم اعتماد کا اظہار کا ثبوت ہے ، اعلامیے سے واضح ہے کہ اسد عمر اب تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہیں، ان کے کسی بیان کو پارٹی کی ترجمانی کے طور پر مت لیا جائے ۔۔۔!!! عبداللہ نے تبصرہ کیا کہ آہ! اسد عمر آپ میں اور علیم خان میں کچھ تو فرق ہوتا، آہ! اسد عمر۔ حسان بلوچ کا کہنا تھا کہ اسد عمر کا انٹرویو تضادات اور کنفیوژن سے بھرا ہوا تھا۔اسد عمر ایسے قابل شخص کو اس حالت میں دیکھ کر افسوس ہوا۔انکو پی ٹی آئی کی موجودہ سٹریٹیجی سے اختلاف ہے وہ کونسی سٹریٹیجی ہے ؟ ابھی تا ماریں پڑ رہی ہیں گرفتاریاں ہو رہی ہیں جو پارٹی ساتھ کھڑے ہیں عتاب کا شکار ہیں۔۔ فرحان کا کہنا تھا کہ اسد عمر بطور وزیرِ خزانہ ناکام ہوا، بطور منسٹر پلاننگ ناکام رہا، بطور سیاستدان ناکام اور اب بطور خان کا وفادار ناکام ہے۔اسے چاہیے اب دوبارہ اینگرو میں نوکری کر لے۔ علی رضا نے لکھا کہ اسد عمر دوسرا فواد چوہدری ہے اور رات والے کاشف عباسی واکے شو میں جب کہ عمران خان کا نام بھی۔ نہیں لیا جاتا سینسر کیا جاتا ہے اور رات عمران خان کا نام بھی لیا گیا اور دیکھایا بھی گیا۔۔۔ یاسف نے تبصرہ کیا کہ اسد عمر کا پورا انٹرویو سنا، بہت سی ٹھیک باتیں کیں، غلط فیصلوں کی نشاندہی کی گئی اس پر متفق ہوں لیکن اسد عمر بزدلی دکھاتے ہوئے صرف تحریکِ انصاف کی غلطیاں سناتے رہے، گزشتہ 14 ماہ کے دوران تحریک انصاف پر ہونے والے ظلم کو بھول گئے جبکہ رؤف حسن کا اس انٹرویو پر ردعمل انتہائی سخت ہے ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ اسد عمر کا پورا انٹرویو نشر ہوا اور عمران خان کا نام بھی بار بار لیا گیا جس پر ویسے پابندی ہے۔عقل والوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے اور قوم اتنی احمق نہیں ہے۔اسد عمر کسی کے بلاوے پر یہ سب بولنے آئے تھے۔ عمران خان کے نام پر پابندی کے باوجود اسد عمر کا کاشف عباسی شو میں بیٹھ کر عمران خان سے اختلاف کرنا صاف بتاتا ہے کہ عمران خان مخالف بیانیہ گھڑا جا رہا ہے۔ اسد عمر سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ کبھی عمران خان مخالف بیانیہ گھڑنے میں استعمال ہوں گے مگر اللہ جہاں مخالفین کی ہر چال ناکام کر رہا ہے یہ بھی ناکام ہوگی۔ ساجد نے تبصرہ کیا کہ اسد عمر کا تحریک انصاف سے تعلق ہوتا تو میڈیا پر اسے بیٹھنے ہی نہیں دیا جاتا کیونکہ میڈیا پر تو تحریک انصاف کے کسی نمائندے کو بھی بٹھانے کی اجازت نہیں، آگے آپ سمجھدار ہیں۔؟
چوہدری شجاعت حسین کی جیل میں چوہدری پرویزالٰہی سے ملاقات ہوئی ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی کی ملاقات کیمپ جیل میں ہوئی جس میں چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادہ بھی موجود تھے۔ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے بیٹوں نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر پرویز الہٰی سے ملاقات میں ان کا حال احوال دریافت کیا۔ بعض چینلز کے مطابق چوہدری شجاعت پرویزالٰہی سے ق لیگ میں واپسی کیلئے ملے اور پرویزالٰہی کی ق لیگ میں واپسی متوقع ہے۔ مونس الٰہی نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا میرے والد کو ان کے وکیلوں سے نہیں ملنے دیا جا رہا۔ میری والدہ کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ک آج جیل خانہ جات خود چوہدری شجاعت صاحب اور ان کے بیٹے چوہدری سالک ھسین کو لے کر ملوانے گئے ہیں۔ مونس الٰہی کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ (جیل حکام) ہمیں جواب دیں گے کہ اس ہفتے کی ملاقات خاندان والوں کی ہم نے کروا دی ہے۔
معروف پاکستانی ٹک ٹاکر "فاطمہ طاہر" سے منسوب ٹرینڈ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ فاطمہ طاہراپنی بولڈ تصاویر کی وجہ سے جانی جاتی ہیںلیکن اس بار اُن کا نام سوشل میڈیا پرایک مختلف حوالے سے وائرل ہوگیا ہے۔ اسکی وجہ ان کا جناح ہاؤس (کورکمانڈرہاؤس) کا دورہ کرنا ہے۔ گزشتہ روز فاطمہ طاہر نے کورکمانڈرہاؤس کا دورہ کیا اور 9 مئی 2023 کو کیے جانے والے پُرتشدد واقعات کی مذمت کی ۔ فاطمہ طاہرنے اس دورے کی تصاویرسوشل میڈیا پرشیئرکرتے ہوئے میڈیا کوریج کے حوالے سے لکھا کہ وہ اس بار ایک اچھی وجہ سے ٹی وی پر خبرنامے میں نظرآئی ہیں۔ ٹک ٹاکر نے اس وزٹ کی تصاویربھیجنے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ ان کا نام سپیرئیریونیورسٹی کے وفد میں شامل تھا۔فاطمہ طاہر کے وزٹ کے بعد فاطمہ طاہر سوشل میڈیا پر چھاگئیں اور ٹاپ ٹرینڈ بن گئیں۔ فاطمہ طاہر کو دیکھ سپیرئیر یونیورسٹی کے وفد میں دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین نےدلچسپ تبصرے کئے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے طاطمہ طاہر سے متعلق ایک ویڈیو شئیر کی جس میں بتایا گیا کہ فاطمہ طاہر ایک بار پھر امتحان میں فیل ہوگئی ہے۔ کسی نے فاطمہ طاہر پر تنقید کی تو کسی نے مذاق اڑایا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا تھا کہ اگر بات فاطمہ طاہر تک آگئی ہے تو صلح کرلینی چاہئے، کسی نے کہا کہ جو لوگ 9 مئی کے واقعے کو فاطمہ طاہر جیسے لوگوں کو استعمال کرکے مذمت کروارہے ہیں وہ اس واقعے کو غیرسنجیدہ بنارہے ہیں۔اسکا فائدہ تو کچھ نہیں ہوگا، الٹانقصان ہی ہوگا۔ بعض سوشل میڈیا صارفین فاطمہ طاہر کی بولڈ تصاویر شئیر کرتے رہے جو انہوں نے انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ پر شئیر کی تھی لیکن کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ فاطمہ طاہر جیسی بھی ہے پاکستانی تو ہے، محب وطن بھی ہے ، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے
گزشتہ روز آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور تحریک انصاف کے مرحوم کارکن ظل شاہ کے گھر گئے جہاں انہوں نے ظل شاہ کی والدہ ، بچوں اور دیگر اہل خانہ سے ملاقات کی۔ آئی جی پنجاب نے ظل شاہ کی والدہ کی خیریت دریافت کی، بچوں سے گھل مل گئے اور انکی دلجوئی کرتے رہے۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے ظل شاہ کی والدہ سےپیار بھی لیا آئی جی پنجاب کی ظل شاہ کے گھر آمد پر سوشل میڈیا صارفین نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا کسی نے آئی جی کی تعریف کی تو کسی نے کہا کہ آئی جی تو دعوٰی کررہا تھا کہ ظل شاہ کی موت ٹریفک حادثے میں ہوئی پھر یہ کیوں اسکے گھر پہنچا؟ کیا کوئی احساس گناہ اسکے کھینچ کر لایا ہے؟ جنید نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ 6 ماہ قبل "ٹریفک حادثے" میں جانبحق ہونے والے ظل شاہ کے گھر IG پنجاب کی آمد ۔ پتہ نہیں کونسا احساس گناہ ہے یا اس معصوم کی کوئی آہ اس ظالم انسان کو لگ گئی ہے جسکا مداوا کرنے پہنچا ہوا ورنہ ٹریفک حادثے وہ بھی 6 ماہ قبل، اس پر کونسا آئی جی ایسے گھر جاتا ہے
وفاقی حکومت نے یونان کشتی حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کے غم میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ، مگر نوٹیفکیشن میں یہ دن منانے کیلئے خوشی کااظہار بھی کرڈالا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم آفس کی جانب سے 19 جون کو کشتی حادثے سے متعلق یوم سوگ منانے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے کشتی حادثے میں جاں بحق پاکستانی تارکین وطن کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا اور یوم سوگ کا اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کی۔ وزیراعظم کے سپیشل سیکرٹری کی جانب سے جاری کیے گئے اس نوٹیفکیشن میں اس غلطی کو سوشل میڈیا صارفین نے نا صرف فوری طور پر پکڑا بلکہ اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں بھی لیا، صحافی برادری، سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا صارفین نے اس نوٹیفکیشن کو جاں بحق افراد کے اہلخانہ کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف قرار دیا۔ صحافی رائے ثاقب کھرل نے نوٹیفکیشن میں لکھی تحریر کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں آپکو بتاتے یہ خوشی ہو رہی ہے کہ 300 پاکستانی دنیا سے چلے گئے ہم ان کے کیے سوگ منائیں گے"۔ صدیق جان نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کو سینکڑوں افراد کی ڈوب کر ہلاکت پر کل یوم سوگ منانے کا حکم دیتے ہوئے بہت خوشی ہورہی ہے۔ طارق متین نے کہا کہ یوم سوگ منانے کا اعلان خوش سے ؟ یہ سب لوگ جوکر ہیں۔ کامران واحد نے کہا کہ" انتہائی خوشی محسوس ہورہی ہے؟ لعنت وزیراعظم صاحب"۔ ایک صارف نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ 400 پاکستانی جو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کیلئے اپنی جان دے بیٹھے، آپ اس پر کتنے خوش ہیں؟ ایک دوسرے صارف نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن ہمارے حکمرانوں اور سول سروس کے ان کے ملازمین کے گرے ہوئے آئی کیو کا عکاس ہے، عوام ایک اور چھٹی ملنے پر خوشی محسوس کرے گی، ایسی غلطیوں سے بچنے کیلئے کوئی اقدام کیے بغیر اللہ کو اس حادثے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ میجر (ر) عاصم نامی صارف نے کہا کہ ہر شاخ پر آلو بیٹھا ہے، جس خاتون نے دستخط کئے اسے شرم نہ آئی، اور یقیناً ایسا ہی سرکلر باقی محکموں میں بھی پھر رہا ہوگا، اور ہم اب بھی ان بے غیرتوں کو سلام ٹھوکنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری جائز کردہ کرپشن پر پردہ ہیں اور ہم ان کا پردہ رکھتے ہیں۔ وقار نے کہا کہ عمران خان نے صحیح کہا تھا کہ ایک تو یہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور اوپر سے جاہل بھی ہیں۔ وقاص امجد نے کہا کہ کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ نوٹیفکیشن میں لفظ "Pleased" کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ان کی جماعت الیکشن کے لیے تیار ہے اور اتحادی بھی تیاری کریں،پی پی پی انتخابات کے لیے تیار ہے اور اسی طرح تاریخ رقم کرنے کے لیے تیار ہے جس طرح اس نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا ہم اپنے اتحادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ خود کو تیار کریں اور الیکشن لڑیں تاکہ اگلی حکومت عوام کو درپیش مسائل کا حل نکالے۔ بلاول بھٹو کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین میدان میں آگئے، شیخ رشید نے لکھا ملک میں آئینی سیاسی اقتصادی مالیاتی بحران شدید ہوگیاہےغریب کاکوئی پرسان حال نہیں لوگ باشعورہوچکےترقیاتی فنڈکاووٹ نہیں رہااگرغریب کوووٹ کاحق مل گیاتوسب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی حکمرانوں کی آنکھوں پرپرده پڑچکاہےزمینی حقائق سےبےخبر ہیں جوفیصلہ کررہےہیں الٹا اُنکےگلےپڑرہا ہے۔ شیخ رشید نے مزید لکھا سیاسی کھچڑی کیسے بن رہی ہے اس کااندازہ لگانا آسان کام نہیں ہے بلاول نےکہا جس طرح کراچی میں الیکشن جیتےاسی طرح ملک میں جیتیں گےاسمبلی میں5بندے بل پاس کرتے ہیں اور24کروڑ لوگوں پر مسلط ہو جاتا ہے ہر آدمی داؤ پےبیٹھا ہےدیکھنایہ ہےکس کاداؤ لگےگایا سب داؤ کی زد میں آئیں گئے۔ مشرف زیدی نے لکھا بلاول بھٹو کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ آنے والے عام انتخابات کراچی کے میئر کے انتخاب کی طرح ہوں گے،شرم کی بات ہے، یہ بیان پی پی پی اور پی ڈی ایم کے دیگر اتحادی ارکان کی محنت سے حاصل کی گئی ساکھ کو تباہ کر رہا ہے، جو پاکستانی جمہوریت کی وفاداری پر ہے۔ ذیشان بٹ نے لکھا مسلم نواز و ہمنوا جو کراچی الیکشن پر بھنگڑے ڈال رہے تھے تیاری پکڑ لیں۔ کرن جہانگیر نے لکھا ماشاءاللّه،یعنی دھاندلی کاعظیم مظاہرہ کراچی کی طرح پورےملک میں کرکے دکھایاجاۓگا۔قوم کو مبارک ہو،شاید اسی عظیم منصوبےمیں چیئرمین نادراطارق ملک نےساتھ دینےکی حامی نہ بھری۔ شاہین سہبائی نے لکھا کراچی کا الیکشن ، گلے کی ہڈی، زرداری مافیا بڑی خوش ہے کے جماعت اسلامی کو 12 ووٹوں سے ہرا کر انہوں نے میدان مار لیا اور اب بلاول کو وزیر اعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا،کیا خوش فہمی ہے- انہوں نے مزید کہا الیکشن دھاندھلی کرنے والی مافیا رو رہی ہے یہ کیا ہوا، ایک چھوٹا سا 400 ووٹروں والا الیکشن تقریبا ہاتھ سے نکل گیا تھا اور 30 لوگوں کو حبس بیجا میں رکھنا پڑا- شاہین نے مزید لکھا پورے ملک میں جب ووٹر نکلیں گے اورعمران خان کو ووٹ ڈالیں گے تو کتنے لاکھ لوگوں کو اور کیسے حبس بیجا میں رکھیں گے،کام مشکل ہے اور اس لئے الیکشن کروانے کا فیصلہ بڑا مشکل ہوگا - اتنا بڑا خطرہ کون مول لے سکتا ہے - خان بس آرام سے بیٹھا رہے اور لوگ الیکشن کی تاریخ کا انتظار کریں - دھاندھلی والی مافیا روتے روتے ڈھیر ہو جائے گی۔ آزاد خیال نے لکھا بلاول نے پہلے ہی بتا دیا اگلا الیکشن کیسے جتنا ہے. کراچی میئر کا الیکشن اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر جیتا اب جنرل الیکشن بھی ایسے ہی جیتیں گئے. اس کے علاوہ اور تو ہے کچھ نہیں ان. کے پاس. نا ووٹ بینک نا کارکردگی صرف ملی بھگت اور دھاندلی۔
کراچی کے مئیر اور ڈپٹی مئیر کے الیکشن پر جہاں سخت ردعمل آرہا ہے وہیں کچھ سوشل میڈیا صارفین طنزیہ تبصرے بھی کررہے ہیں ، اس تناظر میں ایک انگلش موؤی ڈکٹیٹر موؤی کا ایک کلپ بہت وائرل ہورہا ہے جو کسی افریقی ملک پر بنائی گئی تھی۔ اس کلپ میں ڈکٹیٹر کا کردارادا کرنیوالا جنرل حفاظ الہ دین ایک ریس میں نظر آرہا ہے اور وہ ریس بڑے دلچسپ انداز میں جیت جاتا ہے۔ جب ریس شروع ہوتی ہے تو ڈکٹیٹر پستول کی مدد سے پہلے بھاگنے لگ جاتا ہے اور خود ہی فائرنگ کرکے بھاگنے کا اعلان کرتا ہے جس کے بعد باقی شرکاء بھی بھاگنے لگتے ہیں۔ جو بھی ڈکٹیٹر سےآگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو ڈکٹیٹر پستول کی مدد سے انہیں ٹانگ پر گولی مارتا ہے اور وہ وہیں ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ سین کے آخر میں ڈکٹیٹر ریس جیت جاتا ہے جب امپائر فیصلہ سنانے لگتا ہے تو ڈکٹیٹر اسے بھی گولی ماردیتا ہے کراچی مئیر اور ڈپٹی مئیر کا الیکشن پیپلزپارٹی نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود جیت لیا اور مبینہ طور پر تحریک انصاف کے 30 چئیرمین اغوا کرلئے۔ تحریک انصاف کے ان ممبران کے نہ پہنچنے پر الیکشن کمیشن نے پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو فاتح قراردیدیا۔ اس کلپ کو مئیر کا الیکشن ہارنے والے حافظ نعیم الرحمان بھی شئیر کرتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین بھی اس کلپ کو شئیر کرتے ہیں اور دلچسپ تبصرے کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈکٹیٹر موؤی لیبیا کے سابق صدر کرنل معمر قذافی کے کردار پر بنائی گئی تھی۔۔ کرنل قذاقی کے کردار کو اس فلم میں بری طرح مسخ کیا گیا تھا اور بہت زیادہ مبالغہ آرائی کی گئی تھی
پاکستانی اداکار حمزہ علی عباسی کی اہلیہ اداکارہ نیمل خاور سوشل میڈیا پر چھائی رہتی ہیں، کبھی گھومنے پھرنے کی تصاویر تو کبھی اپنے نے لکس کے ساتھ دلچسپ تبصرے کیے، سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ نیمل خاور نے سرجری کروائی ہے،نیمل خاور کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو مداح ان کے چہرے کے خدوخال میں نمایاں تبدیلی اور فرق دیکھ کر حیران رہ گئے جب کہ ٹوئٹر پر اداکارہ ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگیں۔ وائرل تصاویر پر نیمل خاور خان کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ اداکارہ نے ناک کی سرجری کروائی،ایک صارف نے توتصاویر دیکھ یہ کہا کہ انہیں نیمل خاور کے بجائے نعم البدل کہنا چاہیے۔ صارفین نے کہا اداکارہ نے ناک کی غیر ضروری سرجری کروا کر اپنی قدرتی خوبصورتی کو خراب کر دیا ہے، مداحوں نے اداکارہ کی حوصلہ افزائی بھی کی اور انہیں منفی باتوں کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا جب کہ اداکارہ کی جانب سے اس معاملے پر لب کشائی بھی کی گئی۔ ایک صارف نے کہا آپ خوبصورت ہیں، ان منفی باتوں سے خود کو افسردہ مت کیجیے گا، آپ قدرت کے ان نظاروں کے ساتھ خوبصورت نظر آرہی ہیں،آپ اب بھی ویسی ہی ہیں، ہمیشہ پراعتماد اور مضبوط رہیں،اس تبصرے کے جواب میں نیمل خاور نے مداح کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’میری خواہش ہے کہ کاش آپ کی طرح اور بھی لوگ سوشل میڈیا پر مہربان رویہ اختیار کرتے۔ آیت نامی ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے اداکارہ کی تصاویر کا کولاج شیئر کیا اور الزام عائد کیا کہ نیمل نے اپنی خوبصورتی تباہ کردی، ساتھ ہی صارف نے افسوس کا اظہار بھی کیا،ایک اور صارف نے نیمل سے سوال کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ایک اور صارف نے لکھا نیمل کو اب 'نعم البدل' پکارنا چاہیے،کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ یہ سرجری حمزہ کی بہن فضیلہ عباسی نے کی ہے جو کہ ایک کاسمیٹک سرجن ہیں۔ متعدد صارفین نے نیمل خاور کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا وہیں کچھ مداحوں نے یہ اداکارہ کا نجی معاملہ قرار دیا۔ شاہزیب ملک نامی مداح نے کہا 'نیمل سرجری کے بعد کیسی نظر آرہی ہیں اور وہ سرجری سے قبل کیسی دکھتی تھیں یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے، کسی کے جسم پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ گزشتہ شب ایک کچھ تصاویر انسٹاگرام پر شیئر کیں جس پر صارفین نے کڑی تنقید کی، ناقدین کے تبصروں کے بیچ کچھ مداح ایسے بھی تھے جنہوں نے نیمل کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں منفی باتوں کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا جب کہ اداکارہ کی جانب سے اس معاملے پر لب کشائی بھی کی گئی۔ اس تبصرے کے جواب میں نیمل خاور نے مداح کا شکریہ ادا کیا اور کہا 'میری خواہش ہے کہ کاش آپ کی طرح اور بھی لوگ سوشل میڈیا پر مہربان رویہ اختیار کرتے۔
بحیرہ عرب میں بننے والا سمندری طوفان بائپر جوائے بھارتی ریاست گجرات کے قریب ٹکرانے کے بعد کمزور ہوکر شدید ڈپریشن میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بائپر جوائے کی غیر محفوظ اور مضحکہ خیز انداز میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور یوٹیوبرز پر تنقید کی جارہی ہے ۔ ’بائپر جوائے پر پاکستانی خاتون رپورٹر زم زم سعید بھی رپورٹنگ کرتی دکھائی دیں، جہاں زم زم سعید کی صلاحیتوں کو سراہا گیا وہیں وائرل ہونے کے لیے غیر محفوظ انداز میں کی جانے والی رپورٹنگ پر تنقید بھی کی گئی۔ ماڈل و میزبان متھیرا نے خاتون رپورٹر کی کلپ شیئر کرتے ہوئے غیر محفوظ انداز میں رپورٹنگ کو وائرل اور لائیکس حاصل کرنے کا بہانہ قرار دیا۔ متھیرا نے زم زم سعید کی کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا صحافی عوام کو طوفان سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ خود محض چند لائکس اور کلکس کے چکر میں اپنی زندگی خطرات میں ڈالتے ہیں۔ خاتون رپورٹر کی غیر محفوظ انداز میں کی گئی رپورٹنگ کی کلپ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی شیئر کی گئیں، جہاں لوگوں نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ان کے عمل کو وائرل اور مشہور ہونے کا حربہ قرار دیا۔ بھارتی ریاست گجرات میں طوفان بیپرجوائے سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں مکانات ڈوب جانے سے معمولات زندگی مفلوج ہوگئی,بحریہ عرب سے اٹھنے والا طوفان بیپرجوائے نے بھارتی ریاست گجرات میں بڑے پیمانے پر تباہی مچادی ہے، طوفان سے مانڈوی گاؤں مکمل زیر آب آگئے، کئی مکانات ڈوب گئے جس کی وجہ سے معمولات زندگی مفلوج ہوگیا۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے بحالی کا کام جاری ہے، تاہم اب تک ایک ہزار سے زیادہ دیہات تاریخی میں ڈوبے ہوئے ہیں,بھارتی محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے 12 گھنٹوں کے دوران سترہ جون دوپہر 12 بجے تک یہ مزید کمزور ہو کر ڈپریشن میں بدل جائے گا، سمندری طوفان بیپرجوئے کے زیر اثر راجستھان کے کچھ علاقوں میں جمعہ کو شدید بارش ہوئی بھارتی محکمہ موسمیات کا کہنا ہے راجستھان کے کچھ حصوں میں پیر تک بارش جاری رہے گی، محکمہ نے جالور اور باڑمیر کے لیے ’ریڈ‘ الرٹ جاری کیا ہے، جہاں 200 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہونے کا امکان ہے۔ بحیرہ عرب میں 10 دن سے زیادہ کا چکر لگانے کے بعد طوفان بپرجوائے نے جمعرات کو گجرات کے جاکھاؤ بندرگاہ کے قریب لینڈ فال کیا جس سے مغربی ساحلی ریاست کے کچھ اور سوراشٹرا علاقوں میں تباہی مچائی تھی اس واقعے میں 2 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے تھے۔ Ctdzh2kotfo
اشنا شاہ کو سمندری طوفان کا مذاق اڑانا مہنگا پڑگیا، سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی مشہور اداکارہ اشنا شاہ کو سمندری طوفان کا مذاق اڑانا مہنگا پڑگیا ہے، سوشل میڈیا صارفین نے غیر سنجیدہ پوسٹ کرنے پر اشنا شاہ کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق اشنا شاہ نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ٹویٹ کی اور کہا کہ میری کراچی کی فلائٹ اڑان بھرنے کیلئے تیار ہے، اور وہاں ایک طوفان کی بھی وارننگ جاری ہے، میں اپنے شوہر سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ اگر میرا طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا تو وہ کسی اور جیون ساتھی کے ساتھ خوش رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یہ بھی امید ہے کہ میرے شوہر یہ جان جائیں گے کہ ان کی نئی جیون ساتھی مجھ جیسی شاندار نہیں ہوسکتی، یہ ایک مذاق ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کو اشنا شاہ کا پبلک پلیٹ فارم پر ایسا مذاق کرنا بالکل پسند نہیں آیا اور انہوں نے اشنا شاہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا،انوشے امجد نے کہا کہ میں مذاح کی سیاہ قسم کو بھی پسند کرتی ہوں مگر یہ مذاق ایک کچرا ہے ، ساتھ ہی ساتھ یہ انتہائی غیر حساس بھی ہے۔ ماہین نامی صارف نے کہا کہ ان لوگوں نے موت کا ایسا مذاق بنایا ہوا ہے کہ انہوں نے آخرت کی بہت تیاری کی ہوئی ہے، بہت اچھا مذاق ہے ، سب کھل کر ہنسو، ان کے شوہر نے ویسے بھی 2 دن بعد کوئی دوسری عورت ڈھونڈ لینی ہے، نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ مراد علی نے کہا کہ آپ لوگوں کا حوصلہ توڑ رہی ہیں، طوفان اتنا بھی نہیں، انشااللہ خیر ہوگی۔ ایک صارف نے اشنا شاہ کو انتہائی غیر حساس قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس معاملے پر کیسے مذاق کرسکتی ہیں؟ اگر آپ کچھ سمجھداری کی بات نہیں کرسکتیں تو خاموش رہیں۔ سالار شیخ نے کہا کہ آپ کے شوہر آپ کے نمٹنے کے بغیر بھی کسی اور کے ساتھ خوش رہ سکتے ہیں، آپ کو اس کیلئے مرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مریم عباسی نے سیلاب سے متاثرہ 60 ہزار افراد کی نقل مکانی کی خبر شیئر کرتےہوئے کہا کہ اشناء شاہ تھوڑی شرم کریں یا کم از کم خاموش رہیں۔
نبیل گبول کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انکے دادا نے 70 فیصد کراچی خریدلیاتھا، کراچی ائیرپورٹ اور خداداد کالونی بھی انکے دادا کی تھی۔ نبیل گبول نے دعویٰ کیا ہے کہ 1947 میں جب انڈیا سے مہاجر آئے تھے تو میرے دادا نے پوری خداداد کالونی انکو دیدی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے دادا نے نے جناح ائیرپورٹ سمیت خرید کر 1928 میں ریاست پاکستان کو دیا تھا بہت ہی کم قیمت پر۔۔ اسکے پیسے آج تک ہمیں نہیں ملے اور حکومت کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں کہ وہ ہمیں دے سکے۔ انکا کہنا ہے کہ اگر ہم آپکو پیسے دیں گے تو آئی ایم ایف کی قسط کیسے بھریں گے۔ نبیل گبول نے مزید دعویٰ کیا کہ کراچی کی 70 فیصد زمین میرے دادا نے خریدی تھی، جو بھی نیلامی ہوتی تھی پھر انگریز حکومت نے پابندی لگادی تھی کہ میرے دادا مزید زمین نہیں خرید سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکے بعد میرے دادا نے ہائیکورٹ میں اپیل کی وہ کیس جیتے اور پھر زمینیں خریدنا شروع کردیں اسکے بعد میرے دادا کو قتل کردیا گیا۔ نبیل گبول نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس وقت کراچی کا ایک ایکڑ اندرون سندھ کے 5 ایکڑ کے برابر ہوتا تھا۔۔ اینکر بھی حیرت سے نبیل گبول کا منہ دیکھتا رہا سوشل میڈیا صارفین نے اس پر دلچسپ تبصرے کئے اور دلچسپ میمز شئیر کیں۔
پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب 173 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن کو 160 ووٹ ملے۔ تحریک انصاف کی حمایت کی وجہ سے حافظ نعیم کو 192 ارکان کی حمایت حاصل تھی لیکن پیپلزپارٹی نے سرکاری مشینری اور پولیس استعمال کرکے اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا اور 30 کے قریب تحریک انصاف کے چئیرمین ووٹنگ کے وقت غائب تھے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس پر سخت ردعمل دیا، انکا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا وطیرہ ہےدوسروں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا اور ان کی اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ہی ملک دو لخت ہوگیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 میں شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی ضد اور انا کی وجہ سے ملک تڑوادیا۔۔ آج بھی پیپلزپارٹی اسی فلسفے پر کاربند ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی ہر دور میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے کبھی مخالفین کے جلسے میں سانپ چھوڑدیتی ہے، کبھی بھینس چوری کا مقدمہ درج کروادیتی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ منتخب نمائندوں کے اغوا، ووٹوں کی خریداری، دھونس دھاندلی سے میئر کراچی کا الیکشن آئین و جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر جمہوریت کو اس طرح مسلسل مذاق بنایا جائے گا تو اس پر لوگوں کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کی ملی بھگت بھی واضح ہے، بلدیاتی اور میئر الیکشن میں اس نے سندھ حکومت کے طفیلی ادارے کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ شفاف قومی انتخابات کےلیے الیکشن کمیشن نے اپنی وقعت کھو دی ہے۔ ڈاکٹر منصورکلاسرا نے لکھا کہ مئیر کراچی ۔۔سقوط ڈھاکہ کی ایک بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا مجیب الرحمان کے مینڈیٹ کو تسلیم نا کرنا تھا جمشید دستی کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے شیخ مجیب الرحمان کو بھی ہرایا تھا یہ بھٹو کے وقت سے یہ گند سندھ میں چل رہا ہے۔ وسیم اعجاز نے لکھا کہ پڑھا کرتے تھے بھٹو نے مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ اور شرم کا مقام ہیں ان تمام جمہوریت کے علمبرداروں سے جو آج ہونے والی کھلی دھاندلی سے منتخب ہونے والے پی پی پی مئیر مرتضی وہاب کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت کا جس کا تم پرچار کرتے ہو؟ زین نے لکھا کہ آج کراچی میں مئیر کے الیکشن میں جنرل الیکشنز کی ریہرسل کی گئی ہے۔ فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ ہمیشہ حیرت ہوتی تھی کہ شیخ مجیب الرحمان کی واضح اکثریت کے باوجود بھٹو کو کیسے اقتدار سونپا گیا۔ آج کراچی میں ہونے والے مئیر الیکشن میں اس سوال کا جواب مل گیا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کی اکثریت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے مرتضی وہاب کو کراچی کا مئیر بنا دیا گیا ہے۔ یہ ملک جنگل بن چکا ہے۔ یہاں کوئی آئین و قانون نہیں رہا۔ اور ہاں ڈٹ کے کھڑا ہے بندیال! کہانی وہی ہے بس کردار بدل گئے ہیں۔۔۔ 1971 میں واضح اکثریت کے باوجود بھٹو نے شیخ مجیب کو حکومت قائم کرنے نہیں دی تھی اور آج بھی زرداری نے حافظ نعیم الرحمن کو میئر کراچی منتخب نہیں ہونے دیا۔ ہر دور میں اقتدار کی ہوس میرے ملک کو لے ڈوبی ہے اوریا مقبول جان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی میئر کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کا 1977 والا نسخہ استعمال کردیا اور بلدیاتی اراکین کو غائب کرکے جماعت اسلامی کو بظاہر شکست دے دی ۔ لیکن تاریخ تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ بھٹو کو انجام تک پہنچانے والی تحریک بھی کراچی سے ہی شروع ہوئی تھی اوریا مقبول جان نے مزید کہا کہ سات مارچ 1977 کو پاکستان ٹیلی ویژن پر انتخابات کے نتائج کے اعلانات میں پیپلز پارٹی کے جیتنے کے ویسے ہی اعلانات ہور ہے تھے جیسے آج سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں کے چیرمینوں کی جیت کی خبریں سنائی جا رہی ہیں ۔ اس وقت قوم مضحکہ خیز ہنسی ہنس رہی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ پھر اس کے بعد جو ہوا وہ بھٹو آمریت کے انجام کی بہت تلخ تاریخ ہے الیاس نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ہم نے تو1971 میں شیخ مجیب الرحمٰن کی اکثریت کو نہیں مانا تھا تم کس باغ کی مولی ہو صحافی اعزازسید نے لکھا کہ ذاتی طور پر پیپلزپارٹی پسند ہے اور جماعت اسلامی کی مذہبی سیاست کےباعث اسے ناپسند کرتا ہوں مگر پیپلزپارٹی نےکراچی میئر کے انتخاب میں جسطرح جماعت کی واضع اکثریت کومبینہ دھونس دھاندلی کے ذریعے اقلیت میں بدلا گیااس سے دلی تکلیف ہوئی۔مینڈیٹ تسلیم کرناہی جمہوریت ہے۔ صحافی طارق متین نے طنز کیا کہ ہمارے صحافی اور تجزیہ کار پتہ ہے کیا کہہ رہے ہیں طریقہ غلط ہے تو کیا ہوا ؟ مرتضی وہاب بندہ تو اچھا ہے

Back
Top