وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر بدتمیزی کرنے اور اسےتھپڑ مارنے کے معاملے پر صحافی برادری اور سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک صحافی کی جانب سے سوال کرنے پر انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اور اسے دھکا دیتے ہوئے تھپڑ مار ا جس سے صحافی کے ہاتھ میں پکڑا ہواموبائل فون نیچے کرگیا اور اسحاق ڈار گارڈز کے گھیرے میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
واقعہ کی ویڈیو جیسے ہی ٹویٹر پر وائرل ہوئی تو صحافی برادری،سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئےاسحاق ڈار صاحب کو کھری کھری سنائیں۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سمیع ابراہیم نے اس معاملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صحافی شاہد قریشی کو تھپڑ مار کر اسحاق ڈارنے کوئی نیک نامی نہیں کمائی، تاہم اب اصل امتحان صحافی تنظیموں کا ہے کہ وہ اس معاملےپر کیا ردعمل دیتی ہیں۔
سینئر صحافی و نجی ٹی وی چینل کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہ جو کچھ سپریم کورٹ اور جمہوریت کے نام پر پارلیمان میں ہورہا ہے، صحافی کو تھپڑ مارے جارہے ہیں، یہ سب کچھ دیکھ کر ہر کوئی یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ اس ملک کاکیا بنے گا؟
عدیل حبیب کا کہنا تھا کہ آپ سب کو یہ تو پتہ ہی ہے کہ کسطرح اسحاق ڈار نے پاکستانی اکانومی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے. اپنی پرفارمنس سے اتنے زیادہ پریشان ہیں کہ کل ایک صحافی کو سوال کرنے پر ہی تھپڑ جڑ دیا. پاکستانی حکومت کی پرفیکٹ عکاسی کر رہے ہیں!
سینئر صحافی عمران میر نے اسحاق ڈار کی ملک بدری کے دوران لندن میں لی گئی تصویریں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جب اسحاق ڈار زیر عتاب تھے تو لندن کی سڑکوں پر سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، شلوار ٹخنوں سے اوپر کیے عاجزی اور مسکینی کا پیکر بنے دکھائی دیتے تھے۔
عمران میر نے کہا کہ پاکستان میں قدم رکھتے ہی ان کا غصہ ہی ختم نہیں ہوتا، آج بھی انہوں نے ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر گارڈ سے کہا کہ اس کا موبائل فون چھین کر پھینک دو۔
صحافی و اینکر پرسن اویس منگل والا نے کہا کہ ویسےتو ڈار صاحب مناسب آدمی ہیں مگر یہاں یا تو وزارت دماغ پر چڑھ گئی ہے یا پھر معیشت نا سنبھال پانے کا غصہ ہے، اب آزادی صحافی کے علمبرداروں کو کچھ کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی ویسٹ پنجاب کے صدر فرخ حبیب نے اس واقعے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار ایک غنڈہ اور بدمعاش بن گیا ہے،نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں،دلیل کے بجائے گلوکریسی شروع کردی ہے، آزادی صحافت کی دکان چمکانے والے اب کہاں خاموش بیٹھے ہیں؟
پی ٹی آئی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری سالار سلطانزئی نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ پر اب کچھ دیر بعد سرخیل اجرتی دانشور آپ کو بتائیں گے کہ پراپیگنڈہ نا کریں، کیونکہ اسحاق ڈار نے صحافی کو تھپڑ نہیں مارا بلکہ وہ صحافی کے منہ پر بیٹھی مکھی اڑا نا چاہتے تھے۔
وقار ملک نے کہا کہ اسحاق ڈار نے صحافی کو نہیں بلکہ پوری قوم کو تھپڑ مار کر پیغام دیا ہے کہ غلام مالک سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
صحافی نادیہ مرزا کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا کوئی سیاستدان کسی صحافی سے بدٹمیزی کرے تو پوری صحافی برادری سراپا احتجاج ہوتی تھی اور آج ایک صحافی کو تھپڑ پڑنے پر خاموش ہے۔۔ کسی نے اسحٰق دار سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا یا کوئی بائیکاٹ وغیرہ؟؟
وقاص امجد نےبھی طنزیہ انداز اپنایا اور کہا کہ مہنگائی بہت ہے، اسحاق ڈار سے سوال پوچھ کر اپنا موبائل مت گنوائیں۔