سوشل میڈیا کی خبریں

عمران ریاض وکیل کے حوالے سے جی این این چینل نے ایک خبر نشر کی کہ عمران ریاض کی تشدد سے ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ یہ خبر بے بنیاد اور جھوٹ نکلی اور عمران ریاض کے وکیل نے بھی اس خبر کی سختی سے تردید کی جی این این کی خبر پر عمران ریاض کی اہلیہ اور میاں علی اشفاق نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ عمران ریاض کی بازیابی کیلئے تو چینلز کی زبانیں جل جاتی ہیں لیکن اس طرح کی خبریں پھیلاکر چینلز کو بیچ رہے ہیں۔ عمران ریاض خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تشدد اور آنکھ ضائع ہونےکی افواہوں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عمران ریاض کی اہلیہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه۔۔خدا کا خوف کھائیں آپ سب لوگ اس طرح کی خبریں پھیلا کر اپنے دو ٹکےکے چینلز کو مت بیچیں انہوں نے مزید کہا کہ اس کے حق میں اور بازیابی کیلئے تو سب کی زبانیں جل جاتی ہیں اور مائی باپ سے کال آجاتی ہے شرم کرو رحم کرو آخر میں عمران ریاض کی اہلیہ نے کہاکہ اللہ پاک لمبی زندگی صحت دیں عمران کو ۔آمین اس سے قبل میاں علی اشفاق نے جی این این کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیا پاگل پن ہے۔ اگر آپ (جی این این نیوز) نے پرانی ویڈیوز نہیں دیکھیں تو دیکھیں۔۔لوگوں کو اس قسم کی پرکشش ہیڈلائنز سے گمراہ نہ کریں۔ بعدازاں میاں علی اشفاق نے قانونی کاروائی کی دھمکی دی تو جی این این نے کیپشن تبدیل کردی اس پر میاں علی اشفاق نے جی این این انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جس نے بھی اس قسم کی گمراہ کن ہیڈلائن لگائی ہے اسکے خلاف کاروائی کی جائے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار ارشاد بھٹی کی ایک جعلی تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئرکرکے ان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیاجارہا ہے، صدیق جان نے تصویر کی حقیقت بتادی۔ تفصیلات کے مطابق سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی سے منسوب کرکے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئرکی جارہی ہے جس میں ایک ارشاد بھٹی سے مماثلت رکھنے والے شخص کو کسی خاتون کے ہمراہ خوشگوار موڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ تصویر وائرل ہوتےہی صارفین نے ان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ شروع کردیا اور ارشاد بھٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عادی رائے نامی ٹویٹر صارف اور ایکٹیوسٹ نے بھی یہ تصویر شیئر کی اور کہا کہ یہ تو اپنی پچھلی بیوی کے مرنے کا ہی انتظار کررہا تھا۔ شیر خان نامی ایک صارف نے کہا کہ یہ خاتون کون ہیں؟ ارشاد بھٹی صاحب کچھ عرصے قبل اپنی بیوی کی وفات پر کہہ رہے تھے کہ وہ ٹوٹ چکے ہیں اور اب ان کیلئے جینا مشکل ہے۔ تاہم اس منفی پراپیگنڈے سے ہوا سینئر صحافی اور بول نیوز کے بیورو چیف صدیق جان نے نکالی اور حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ ارشا د بھٹی صاحب ایک نجی ٹی وی چینل پر "دودھ پتی ود سماء اینڈ بھٹی" نام سے پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام کی پرومو شوٹ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے، تاہم اب ان کی ایک جعلی تصویر کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جارہا ہے اور اس تصویر کے ساتھ عجیب و غریب قسم کی منفی تبصرے کیے جارہے ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔
تحریک انصاف کے خلاف حکومتی مظالم پر اسرائیل کو بیان دینا مہنگا پڑگیا۔۔ عمران خان نے اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لے لیا اپنے ٹوئٹر پیغام میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں کے خلاف قابض فوج کے طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بدترین ریکارڈ کے ساتھ اسرائیل نے پاکستان کو نشانہ بنانے کی جرات کیسے کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یو پی آر اقوام متحدہ کے کام کا ایک لازمی حصہ ہیں اور پاکستان کو کبھی بھی کسی ریاست نے اس گھٹیا انداز میں نشانہ نہیں بنایا جیسا کہ اسرائیل اب کرنے کی جرات رکھتا ہے۔ سراسر قابل مذمت۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ تمام بین الاقوامی قوانین اور رویے کے اصولوں سے ماورا ایک بدمعاش ریاست ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف اس بدعنوان اور فاشسٹ حکومت کی طرف سے ہماری سفارت کاری کے مکمل خاتمے کو ظاہر کرتا ہے جو پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر تباہ کر رہی ہے، بلکہ یہ ہمارے جنگل کے قانون کی طرف نزول کو بھی ظاہر کرتا ہے جہاں ممکن ہے۔
توشہ خانہ کیس: سینئر صحافی کیسےعوام کو گمراہ کرتے ہیں، حقیقت سامنے آگئی سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کی گھڑی فروخت کرنے کے معاملے پر سینئر صحافیوں کی جانب سے عوام کو گمراہ کرنےکی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار ہونے کا دعویٰ کرنے والے حسن ایوب کی جانب سے توشہ خانہ سے متعلق متضاد بیانات سامنے آئے ہیں، حسن ایوب اس معاملے کے اہم کردار محمد شفیق سے ملاقات اور توشہ خانہ کی گھڑی کی خرید و فروخت کے حوالے سے اہم دعوے کرتے رہے ، تاہم ان کے اپنے دعوے ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ حسن ایوب صاحب نے 16 نومبر2022 کو اے آروائی نیوز کےپروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص نے توشہ خانہ کی گھڑی خریدی اس شخص نے خود مجھے بتایا ہے کہ اس نے 5کروڑ 10 لاکھ روپے میں گھڑی عمران خان صاحب سے خریدی ہے، اس سودے کیلئے درمیان میں ایک اور آدمی بھی تھا جس نے ڈیل کروائی۔ یہی حسن ایوب صاحب 12 جولائی 2023 یعنی گزشتہ روز عادل عباسی کے پروگرام میں شریک ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں ابھی بھی دبئی میں محمد شفیق سے مل کر آیا ہوں، ڈیڑھ ماہ قبل ھی میری ان سے ملاقات ہوئی ہے، شفیق صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے گھڑی لی ہی نہیں ہے جبکہ عمران خاں صاحب کہتے ہیں کہ گھڑی شفیق نے لی ہے۔ حسن ایوب کی جانب سے ان متضاد بیانات پر پاکستان تحریک انصاف اور صحافیوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نے ٹویٹر پر یہ ویڈیو کلپس شیئر کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کے لبادے میں چھپے بدنام زمانہ ٹاؤٹس کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی، ان کی کوئی خبر بھی اپنی نہیں ہوتی، جہاں سے انہیں اچھے پیسے مل جاتے ہیں ان کی کہانی یہ چابی والے کھلونے کی طرح پیش کردیتے ہیں۔ ترجمان پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ ایسے لوگوں کا بس چلے تو یہ عدالتوں میں پارٹ ٹائم جھوٹی گواہیاں دینےکا دھندہ بھی شروع کرلیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم نے بھی حسن ایوب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جھوٹ بول کر وہ بات یاد رکھنا ناممکن ہے، اس کی مثال یہ ویڈیو ہے۔ سینئر صحافی صدیق جان نے صحافیوں کی ایسی غلطیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بڑی بڑی کمپنیز خسارے میں اسی لیے جاتی ہیں کہ ان کے نمائندے ایسی غلطیاں کرتے ہیں، حسن ایوب جس بھی کمپنی کے نمائندے ہیں کم از کم وہ کمپنی تو نہیں چلے گی۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹرائل کرنے والی عدالت اور ملٹری ٹریبونل میں کوئی فرق نہیں ، حقوق اور فئیر ٹرائل وہاں بھی نہیں ملتے اور یہاں بھی کوئی حق محفوظ نہیں اور فئیر ٹرائل کی شرائط کو روندا جا رہا ہے۔ توشہ خانہ ٹرائل ایک ایسے جج کی طرف سے ڈے ٹو ڈے سماعت رکھ کر چلایا جانا جس کے خلاف عدم اعتماد اور تعصب کی درخواست درخواست دائر کر رکھی گئی ہو اس سارے کیس اور اس سے حاصل کیا جانے والا ہدف نہ صرف واضح کرتا ہے بلکہ اس ٹرائل کی کاروائی میں عمران خان کے فئیر ٹرائل کے بنیادی حق کو بھی سلب کیے جانے کو بھی واضح کرتا ہے ایساٹرائل جس میں الزام علیہ کو حق دفاع میسر نہ ہو محض ایک ڈرامہ اور ڈھکوسلہ رہ جاتا ہے انتظار پنجوتھہ نے آخر میں وضاحت کی کہ کورٹ کا لفظ جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا کیونکہ آئین میں ملٹری کے پاس عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا توشہ خانہ ٹرائل ،عمران خان اور چیف جسٹس توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نگرانی کی درخواست منظور کر کے جس انداز میں بعد میں فیصلہ تبدیل کیا گیا اسکی گواہ ساری دنیا ہے اس کیس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست آنا اور معزز جج صاحب کا پھر بھی ایسا فیصلہ دینا بھی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن اب کچھ ایسا ہو رہا کہ جس کا تصوربھی اس ماڈرن دور اور سوشل میڈیا کے دور میں ممکن ہی نہیں پچھلے تین دن سے مبینہ طور پر چیف جسٹس بیمار ہیں اور جب کوئی چیف جسٹس صاحب بیمار ہو ں یا چھٹی پر ہوں تو ان کے بعد سب سے سنئیر ترین جج وہ تمام انتظامی زمہ داریاں نبھاتے ہیں جو چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہوتی ہیں یعنی عدلیہ اور انصاف کا نظام رکتا نہیں انصاف کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ ان تین دنوں میں عمران خان پر انصاف کے دروازے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بند کر رکھے ہیں پیر یعنی دس جولائی کو عمران خان کی جانب سے ہم نے مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں صبح نو بجے عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی دائر کیں یہاں یہ بتانا انتہائی اہم ہے کہ حفاظتی ضمانتوں کا کیس ایک بہت ہی ارجنٹ نوعیت کا کیس ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی آزادی کا سوال شامل ہوتا ہے اسی لئے ان درخواستوں کو فوراً سماعت کے لیے لگایا جا تا ہے لیکن عمران خان کی پیر کو دائر کی جانے والی درخواستیں چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہ ہو پائیں اس کے بعد ہم نے توشہ خانہ ٹرائل میں حالیہ غیر قانونی فیصلے کے خلاف پھر سے نئی نگرانی دائر کی ہے جس کے ساتھ ہماری ارجنٹ سماعت مقرر کرانے کی درخواست بھی ہے اسے پہلے دن بھی چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہیں گیا کہا گیا کہ دن کے دوسرے حصے میں جج صاحب آئیں گے لیکن نہیں آئے اور آج مقرر کرنے کے باوجود پھر جج صاحب خرابی صحت کے بدولت نہیں آ پائے ۔ ہم ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی درخواست کے زکر بھی کرتے ہیں اور استدعا یہ بھی کر رہے ہیں کہ کیس کسی اور معزز جج کو مارک کیا جائے تاکہ ہماری شنوائی ہو پائے لیکن یہی بتایا جا رہا کہ جج صاحب خود سنیں گے اور وہ آئیں گے دوسری جانب ٹرائل کو رٹ ہائی کورٹ کی اس نگرانی اور سپریم کورٹ میں دائر نگرانی کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے لیکن انہیں ایسی عجلت ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ہے نظام انصاف اور یہ کیس کسی عام شخص نہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور مقبول ترین لیڈر کا ہے
سندھ کے معاملات رپورٹ کرنیوالے فیض اللہ سواتی کا کہنا ہے کہ مجھے تو سیما حیدر جاکھرانی کا کیس منفرد پیچیدہ اور ورطہ حیرت میں مبتلاء کرنیوالا ہے 27 برس کی نوجوان لڑکی جس نے شاید میٹرک بھی نہیں کیا اونچے طبقے کے بجائے دیہی یا کچی آبادی کا پس منظر رکھتی ہے۔۔ فیض اللہ سواتی کے مطابق 17 برس کی عمر شوہر غلام حیدر سے بذریعہ مس کال رابطہ ہوا 4 ماہ کی محبت کے بعد شادی کی، 4 بچے ہوئے غلام حیدر مزدوری کرنے سعودیہ جاتا ہے سیما کو مکان خرید کر دیتا ہے 60/70ہزار خرچ بھیجتا ہےجوکہ سیما کے طرز زندگی کی مناسبت سے اچھی رقم ہے انکا مزید کہنا تھا کہ اس دوران پب جی کھیلتے ہندی شہری سچن سے رابطہ و محبت پھر بغیر بتائے پاسپورٹ بنوانا ویزہ لینا نیپال جانا ہندوانہ رسوم و رواج کیمطابق شادی کرنا نیپال میں سیرکرناانسٹا پہ عکس لگانا پھر کراچی آنا خاموشی سے گھر 12 لاکھ میں بیچنا بچوں کے پاسپورٹ بنواکر نیپال جانا اور وہاں سے ہند ، سیما کی بدن بولی انداز گفتگو جابجا ہندی الفاظ کا برجستہ استعمال خود اعتمادی حیران کن ہے بغیر پڑھے لکھے یہ سارا پراسیس کرنا بچوں کا کھیل نہیں ۔ فیض اللہ خان کے مطابق یہ سب کرتےاچھے بھلے بندے کا حشر ہوجاتا ہے سیما شعوری مسلمان تھی نا ہی ہندو دھرم شعوری طور پہ اختیار کیا پاکستان میں مذھب سے جڑے اکثر لوگ جذباتی مسلمان ہیں یا پھر مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے کے سبب کلمہ گو ہیں دین کے حقیقی تقاضوں کو ہم جانتے ہیں نا ہی سیما جیسے لوگ۔ صحافی کا مزید کہنا تھا کہ کیس کا اہم پہلو سیما کا 1 ایک شخص کیلئے ملک و ملت دین و شوہر چھوڑنا حیران کن ہے جو کہ اسکے شوہر سے کہیں زیادہ غریب ہے سیما اور اسکی دبئی میں ملاقات صرف اس لئیے نہ ہوسکی کہ سچن کے پاس پاسپورٹ کے پیسے بھی نہیں تھے نیپال میں انہیں پاسپورٹ کی ضرورت نہیں،1 کنگلے مزدور کیساتھ شادی تو رچالی مگر اگلے معاملاتِ اتنے سادہ نہیں 1 غریب مزدور کیسے سیما کے 4بچے پالے گا بچے بھی وہ جن میں سے 3 کے پاس کھیلنے کے اپنے موبائل ہیں جو غلام حیدر نے خرید کر دئیے۔ انکے مطابق ہندی میڈیا امیر ہندوؤں سے اپیل کر رہا ہے کہ سیما اور سچن کی مالی معاونت کریں کیونکہ 4 بچے و سیما کو پالنا سچن کے بس میں نہیں ہے دیکھئیے کہ یہ کہانی کہاں تک چلتی ہے محبت کے خمار میں اس نے بیوفائی کی عجیب داستان رقم کی ہے اور جسکے لئیے مذھب ملک شوہر چھوڑا وہ کوئی کروڑ پتی ہوتا تو بھی بات تھی یہاں تو سچن بیچارہ صرف پتی ہے ۔ فیض اللہ سواتی نے مزید کہاکہ اس معاملے کا سنگین پہلو جاکھرانی قبائل کیطرف خود کو منسوب کرنیوالے چند ڈاکوؤں کی ویڈیو ہے جسمیں وہ سندھ میں رھنے والےہندوؤں کو دھمکا رہے ہیں کہ سیما اوربچے واپس نہ آئےتو یہاں ہندو کمیونٹی کی خواتین کی عزتیں پامال کیجائیں گی ڈاکو حضرات اسے قبائلی غیرت اور اسلام کا نام دے رہے ہیں تو بھائیوں اسلام کسی شخص کے جرم کی سزا دوسرے کے دینے کا تصور ہی نہیں رکھتا ۔ سیما ارتدار کی راہ چل چکی ملک چھوڑ چکی ایمان کی قیمتی متاع لٹاچکی اسکامعاملہ پاکستانی نظام کے بس سے باھر ہے البتہ بچوں کی والد کو واپسی ضروری ہے تاکہ وہ مسلم معاشرے میں پروان چڑھیں ۔ ڈاکوؤں سے درخواست ہے کہ ہ ڈکیتی بھی غیر اسلامی فعل ہے اس سے اجتناب کریں اور یہاں کے ہندوؤں کو ڈرانا بند کریں تاکہ انہیں اسلام کےنام پہ غیرانسانی معاملےکا سامنا نہ کرنا پڑے،بہرحال سیماجاکھرانی کے ٹیلنٹ نےحیران کیا ہے۔ صحافی نے کہا کہ کاش یہ لڑکی مسلمان رھتی اسے تو شوہر نے بھی اچھے سے رکھا حیثیت کیمطابق سب کچھ دیا پھر بھی شوہر سے اور مذھب سے بیوفائی کرکے پاکستانیوں کو تکلیف پہنچائی ،خدا اسکے بچوں پہ رحم فرمائے
شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے بعد سلیمان شہباز کو بھی 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس سے احتساب عدالت نے باعزت بری کردیا ہے۔ فرخ حبیب نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ شہباز شریف اور بچوں کی 16 ارب روپے منی لانڈرنگ کی تفصیلات ایسے واضح اور ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود این آر او 2 کے تحت فرد جرم لگانے کی بجائے جنرل باجوہ نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا کر اس کی تفشیش کرنے والے ادارے ایف آئی اے کے اوپر بٹھا دیا انکا مزید کہنا تھا کہ پھر ایف آئی اے سے عدالتوں میں اپنی مرضی کے نئے تفشیشی رکھوا کر اپنی مرضی کے جوابات جمع کروائے اس پر صحافی جنید سلیم نے دلچسپ ردعمل دیا اور کہا کہ یار یہ فرخ حبیب صرف بغض شریف فیملی میں الزام تراشی کر رہا ہے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ شریف خاندان انتہائی سخی اور غریب پرور ہے جنید سلیم کا مزیدکہنا تھا کہ ڈرائیوروں اور چپڑاسیوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے صرف رضائے الہی کے حصول کیلئے ڈالے تھے ، یہ منی لانڈرنگ کہاں سے آ گئی۔
مسرت جمشید چیمہ کے گھر 60 کے قریب پولیس اہلکاروں کا دھاوا، مسرت جمشید چیمہ کا سخت ردعمل کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف چھوڑنے والی مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ آج پھر 60 کے قریب پولیس اہلکار اور سادہ لباس میں موجود افراد نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا. ہمارے گارڈ کو گرفتار کیا اور ہماری ویو اور لینڈ کروزر بھی ساتھ لے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے گھر کے کمروں کی بھی تلاشی لی گئی اور اہلخانہ سے نہایت بدتمیزی کی گئی. مسرت جمشید چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک کی زمین محب وطن شہریوں پر تنگ کی جارہی ہے. بچوں پر نفسیاتی ٹارچر کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اہلکار آتے ہیں لیکن آج لوٹ مار والی روایت دہرائی گئی ہے. حکومت جس کا کام شہریوں کو تحفظ دینا ہے وہ باقاعدہ ڈاکہ زنی اور چوری پر اتر آئی ہے واضح رہےکہ مسرت جمشید چیمہ اور انکے شوہر کو 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ انکے کاروبار بند کرادئیے گئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے تنگ آکر تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے چینل 24 نیوز نے دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی مزید دو وکٹیں گر گئیں، حماد اظہر انجینئر اور محمد عمیر نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ دونوں رہنماؤں نے اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی سینٹرل سیکرٹریٹ میں سیکرٹری جنرل سیدنیئرحسین بخاری سے ملاقات کی،دونوں رہنماؤں نے پیپلزپارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ کیا۔ خبر کی تھمب نیل دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین تجسس میں پڑگئے اور کلک کرکے دیکھتے رہے کہ کہیں یہ حماداظہر پی ٹی آئی کے سابق وزیر تو نہیں ہیں لیکن خبر میں لکھا ہوا تھا کہ انجینئر حماداظہر جو کسی یونین کونسل کے عہدیدار تھے۔ اس خبر پر حماد اظہر کا دلچسپ ردعمل سامنے آگیا انکا کہنا تھا کہ اس خبر کا پتہ کروایا تو چینل والوں نے کہا کے کوئی انجینیر حماد اظہر تھا جس نے شمولیت حاصل کی تھی۔ حماداظہر کا مزید کہنا تھا کہ خبر کی ہیڈلائین میں اس لئے نہیں واضح کیا کیونکہ کلکس زیادہ ملتے ہیں ایسے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں سرکاری ملازمین و عوام وفاقی و نگراں پنجاب حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں، صحافی برادری بھی عوام کی زبان بن گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں سرکاری ملازمین اور عوام نے وفاقی و نگراں پنجاب حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا، احتجاجی مظاہرے میں شریک مظاہرین نے بدترین مہنگائی، بجٹ میں سرکاری ملازمین کیلئے پنشنز میں اضافہ نا کرنے اور دیگر مظالم کے خلاف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کا اعلان کیا ، تاہم بعد میں پتا چلا کہ یہ اضافہ موجودہ بنیادی تنخواہ کے بجائے بھرتی کےوقت کی بنیادی تنخواہ کے حساب سے کیا جائے گا، اس سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بہت ہی کم اضافہ ہوا جبکہ پنشنز میں صرف 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر نے مظاہرین کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ شدید مہنگائی اور حکومتی ظلم و ستم کیخلاف سخت گرمی کے موسم میں بوڑھے بزرگ پنشنرز بھی رل گئے اور احتجاج پر مجبور ہوگئے۔ صابر شاکر نےمزید کہا کہ بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کے نام پر اربوں روپے کی سیاسی رشوت دی گئی اور پنشنزز کا حق ماردیا گیا۔ نسیم کھیڑا نے بھی مظاہرین کی ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ یہ آج لاہور کے مناظر ہیں جوبکاؤ میڈیا نہیں دکھائے گا، حکومت کے خلاف لاہور میں سرکاری اساتذہ احتجاج کررہے ہیں، لاہور جعلی وزیراعلی کے خلاف نعروں سے گونج اٹھا ہے۔ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ لاہور میں پنجاب بھر کے اساتذہ کا لاہور میں احتجاج کررہےہیں، کیونکہ پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین سے فراڈ کیا ہے، حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں میں بہت ہی کم اضافہ کیا جبکہ پنشنز میں صرف 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایڈووکیٹ سلمان شاہد نے کہا کہ لاہور میں ہر طرف لوگوں کا احتجاج جاری ہے مگر ہمارا میڈیا خاموش ہے، محنت کش طبقہ سراپا احتجاج ہے، افسوس کی بات ہے کہ میڈیا ان غریبوں کی آواز نہیں بن رہا۔ دعائے زینب نے لکھا کہ لاہور میں لوگ مہنگائی اور حکومتی ظلم و ستم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں، مگر یہ بکاؤ میڈیا یہ مناظر نہیں دکھارہا۔
لندن میں رہائش پذیر شریف فیملی کئے گھر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے باہر احتجاج کے باعث شہرت حاصل کرنے والے 17 سالہ نوجوان شایان علی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ: میں نے اپنے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ نواز شریف کے پاکستان آنے پر ان کے استقبال کے لیے میرے دورہ پاکستان کی تیاری کریں، جلد ملیں گے! جس کے بعد پاکستانی اداکارہ اور صحافیوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں اور جنسی تبصرے کیے گئے جس پر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ شایان علی کے پاکستان جانے کے پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار اجمل جامی نے لکھا کہ: بسم اللہ، کبھی آئو نا خوشبو لگا کے۔۔!! پاکستانی ڈراموں کی معروف اداکارہ عفت عمر نے ردعمل میں لکھا کہ: پتر تو آ ذرا! سینئر صحافی وتجزیہ کار رضوان رضی نے اپنے ردعمل میں لکھا کہ:سب اس سے دور رہیں، یہ میرا ہے! شایان علی پر صحافیوں کے جنسی تبصروں کے بعد ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ: ان نام نہاد صحافیوں اور اداکاروں کی حالت دیکھنے کے قابل ہے جو کھلے عام شایان علی جو پاکستان کے ایک سزا یافتہ، مفرور اور بدعنوان سیاستدان کے خلاف کھڑا ہے اور ان کا مقابلہ کر رہا ہے کیخلاف جنسی تبصرے کر رہے ہیں! یہ انتہائی شرم کی بات ہے! ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ: ان نام نہاد صحافیوں نے اپنے ماضی کے تجربات کا اظہار کیا ہے ورنہ کوئی بھی غیرجانبدار شخص شایان علی کے استقامت کی تعریف کرے گا، میرے خیال میں شایان علی کو پاکستان نہیں آنا چاہیے کیونکہ یہ اس کیلئے محفوظ نہیں! ایک صارف نے لکھا کہ: شایان علی کا اس وقت پاکستان جانے کا فیصلہ عجیب ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں جہاں پاکستان میں احساس سے عاری امپورٹڈ حکومت قائم ہے ! ایک صارف نے لکھا کہ: ہاہاہا بولنے دو انکو، شایان علی نے نوازشریف کی ناک میں اچھا خاصا دم کیا ہوا ہے۔ لفافہ صحافی ایسے تبصرے کر کے بتا رہے ہیں کہ پاکستان جنگل میں تبدیل ہو چکا ہے!
سی پیک منصوبے اور اس پر چین کی رائے سے متعلق احسن اقبال کا دعویٰ غلط نکلا چینی قونصل جنرل نے پی ٹی آئی دور میں سی پیک منصوبے پر پیش رفت کو اطمینان بخش قرار دے چکے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں الزام عائد کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جان بوجھ کر سی پیک کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ چین نے گزشتہ اسٹیبلشمنٹ کو کہنے کی کوشش کی تھی کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کا تجربہ نہ کیا جائے کیونکہ اس سے سی پیک اور پاکستان کو نقصان ہوگا۔ کراچی میں تعینات چین کے قونصل جنرل لی بی جیان گزشتہ سال احسن اقبال کے اس دعوے کو غلط قرار دے چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی باشندوں کی سکیورٹی کے انتظامات تسلی بخش ہیں، چینی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔ گزشتہ سال نومبر میں اردو نیوز کو انٹرویو میں لی بی جیان کا سی پیک کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ منصوبہ ہے اور دونوں ممالک اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے سی پیک منصوبوں میں تاخیر کی وجہ کورونا وبا اور سکیورٹی کی صورت حال کو قرار دیا۔ لی بی جیان نے پاکستان اور چین کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں میں مضبوط تعلق ہے اور ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پالیسی کی تبدیلی سے بھی سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے اور یہی بات سی پیک منصوبوں میں بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ان کے مطابق ’ہمیں سی پیک کے منصوبوں کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ ہمارے سامنے کئی مسائل آ رہے ہیں لیکن ہمیں ان کا حل تلاش کرکے آگے بڑھنا ہے۔ لی بی جیان نے سابق حکومت کے دوران سی پیک پر احسن انداز میں کام ہونے کا کہا جس سے گزشتہ دور حکومت میں سی پیک کے خلاف ہونے والے تمام پروپیگنڈے زمین ہوس ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کہتے ہیں کہ اس وقت پاک چین تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی خواہش کرنے والے اب کان پکڑ لیں۔ توانائی کے بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین پاکستان میں توانائی کے شعبے میں کام کر رہا ہے جن میں کچرے سے بجلی بنانے کا منصوبہ شامل ہے۔ چین کے قونصل جنرل نے ملک میں حکومت کی تبدیلی کے منصوبوں پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ’پچھلی حکومت اور موجودہ اتحادی حکومت کے درمیان سی پیک سے متعلق پالیسی میں تبدیلی نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک بہتر ملک ہے۔ ’چین میں پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے۔ چین کی کئی کارباری شخصیات اپنا کاروبار دیگر ممالک میں منتقل کر رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان ان کے لیے ایک اچھی جگہ ہے۔ مستحکم پالیسی ہوگی تو یہاں بھی سرمایہ کار آئیں گے۔‘ ملک میں سکیورٹی کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے دو صوبوں میں چینی باشندوں کو گزشتہ چند برسوں میں سکیورٹی کے مسائل رہے اور کچھ واقعات رونما ہوئے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے ہم مطمئن ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر سی پیک منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں سیف سٹی پراجیکٹ کے بعد صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔ چین اور امریکہ کے درمیان معاملات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دنوں تائیوان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بہت بات کی جا رہی ہے۔ لوگ جاننا چاہ رہے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ’یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، یہ وہی پرانا معاملہ ہے۔‘
عالمگیر ترین کی خودکشی کے بعد دو خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں جس میں سے ایک ایک اصلی اور دوسرا نقلی ہے، جو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ ذرائع کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ جو خط اردو میں ہے وہ جعلی ہے جبکہ انگریزی میں لکھا جانیوالا خط اصلی ہے۔ عالمگیر ترین نے خودکشی سے پہلے جوخط ایک خط لکھا تھا، مبینہ خط میں لکھا کہ ”میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا زندگی بہت خوبصورت ہے، میں بھرپور زندگی جی رہا تھا، کچھ عرصہ قبل سری لنکا چھٹیوں پر گیا تھا، بیماری نے جب مجھے گھیرا تو سٹیرائیڈ لینا شروع کیا“۔ عالمگیر نے خط میں مزید لکھا کہ ”ان ادویات کی وجہ سے میرا چہرا اور جلد متاثر ہونے لگی، مجھے پڑھنے میں ‏بھی مشکلات آرہی تھیں، مجھے نیند نہ آنے کا مسئلہ بھی ہو گیا تھا، نیند کی گولیاں لے کر سوتا تھا، مجھے اتنے مسائل ہو گئے کہ بتا نہیں سکتا، اب میں اس بیماری سے تنگ آگیا ہوں“۔ آخری خط میں انہوں نے مزید لکھا کہ ”میں اپنی باقی مانندہ زندگی ڈاکٹروں کے کلینکس کے چکر لگانے میں نہیں کاٹ سکتا، میں نے اپنی ساری زندگی اس طرح کا کوئی مسئلہ فیس نہیں کیا، یہ ہی وجہ ہے کہ میں یہ کر رہا ہوں، میں یہ بالکل بھی نہیں کرنا چاہتا، میں بہت بہت زیادہ معزرت خواہ ہوں“۔ عالمگیر ترین نے اپنے نوکر سے متعلق لکھا کہ ”جہانگیر برائے مہربانی میرے نوکر عالم کا خیال رکھنا، اس نے ساری زندگی بغیر کسی غلطی کے میری بہت زیادہ خدمت کی ہے، خیال کرنا کہ پولیس اس کو تنگ نہ کرے، میں نے لکھ دیا ہے کہ میں یہ قدم کیوں اٹھانے جا رہا ہوں، اس کو شیئر کر دینا“۔
فردوس عاشق اعوان کے ٹوئٹر پر جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بنانو پر لفظی حملے، سائرہ بانو کو تعفن زدہ مال قراردیدیا جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو آج کل میڈیا پر مرکز نگاہ ہیں اسکی وجہ اسکے پی ڈی ایم اور استحکام پاکستان کے خلاف بیانات ہیں، استحکام پاکستان پارٹی کی تشکیل اور علیم خان، جہانگیرترین پر تنقید فردوس عاشق اعوان سے برداشت نہ ہوپائی اور سائرہ بانو پر لفظی حملے کرنا شروع کردئیے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پیر پگاڑا صاحب ایک انتہائی نفیس اور خاندانی انسان ہیں لیکن آج کل جی ڈی اے کی ایک خاتون کو میڈیا پر توجہ لینے کے لئے عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہوئے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انکی جماعت سے بھی تعفن زدہ مال برآمد ہونا شروع ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ کچھ روز قبل سائرہ بانو نے کہا تھا کہ سائرہ بانو نے کہا ہے کہ کچرے سے بجلی بنائی جاتی ہے لیکن ہم نے پارٹی بنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے4سال تک ہمیں بتایا کہ جہانگیر ترین اے ٹی ایم ہیں، آج وہ سب اچھے ہوگئے، اب عطا تارڑ کہتے ہیں کہ مل کر چلیں گے۔
اے آروائی جو کبھی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو کوریج دیے بغیر نہیں رہتا تھا، اب اس نیوز چینل پر عمران خان کی تصویر بلر کردی گئی، جس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ ٹوئٹر پر شیم آن اے آر وائی " ٹاپ ٹرینڈ بن گیا،صارفین نیوز چینل اے آر وائی کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ رباب کوثر نے لکھا ظلم کی اندھیری رات بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ بنگش نے لکھا خان صاحب کو خریدے ہوئے میڈیا کی ضرورت نہیں۔ آرش عمر نے لکھا آپ نے تصویر سے خان کو ہٹا دیا ہم آپ کو ہٹا دیں گے۔ ریحانہ نے لکھا اے آر وائی کی منافقت ناقابل قبول ہے۔ ایک صارف نے کہا بائیکاٹ اے آر وائی، انور مقصود نے لکھا جتنا آپ دھندلا کرتے ہیں، جتنا آپ مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اتنا ہی زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ ارسلان یوسفزئی نے شیم آن اے آر وائی۔ علی ملک نے لکھا اے آر وائے کی مجبوری تھی عمران خان اور اس کے بیانیے کو مقبولیت دینے کی، اے آر وائے کا مقابلہ اس وقت کے مقبول ترین چینل جیو سے تھا۔ انہوں نے مزید لکھا عمران خان نے اے آر وائی کو مشہور ترین چینل بنایا جب اے آر وائی نے سمجھوتہ کر لیا تو بول نے وہ کام کیا اور پھر عمران خان کی بدولت بول پاکستان کا بہترین چینل بن گیا۔ عمران خان ایک برینڈ کا نام ہے۔ علی ملک نے کہا عمران خان کا ناشتہ، عمران خان کی جوتی، عمران خان کی عینک، عمران خان کی ایک ایک چیز اس میڈیا کے لئے بریکنگ نیوز ہے۔ اقرار، آپ کے مالکان کی کوئی بھی مجبوری ہو لیکن آج کی حرکت انتہائی شرمناک ہے اور اسکا دفاع کرنا ناممکن ہے۔ اقرا الحسن نے کچھ الگ ہی کہہ ڈالا، انہوں نے ٹویٹ کیا یاد رکھئیے یہ وہ عمران خان تھے جو درخواست کر کر کے دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ پینل میں بیٹھنے پر بھی فخر کرتے تھے، بابر غوری جیسے انہیں ٹیریان کے طعنے دیتے تھے۔ اقرار الحسن نے مزید کہا اے آر وائی الحمد اللہ تب بھی ملک کا مقبول چینل تھا۔ اے آر وائی آج بھی عمران خان سمیت ہر اس شخص کے ساتھ کھڑا ہے جو نا انصافی کا شکار ہے۔ انصافی دوستوں کو مشورہ ہے کہ اچھے دن اور اچھے تعلق اتنی جلدی فراموش نہیں کردینے چاہئیں۔ ایک صارف نے لکھا میڈیا کو عمران خان کی ضرورت ہے عمران خان کو میڈیا کی نہیں۔
عدیل راجہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر گورنر سیکرٹریٹ پشاور کی ایک دستاویز شیئر کر دی جس پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عدیل راجہ نے گورنر سیکرٹریٹ خیبرپختونخوا، پشاور کے سیکشن آفیسر کے دستخط سے جاری کی گئی ایک دستاویز شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: خیبرپختونخوا کے گورنر جو کہ سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمن کے رشتہ دار بھی ہیں عوام کے وسیع تر مواد میں پول کار کے طور پر یونیورسٹی آف سوات سے ٹویوٹا کرولا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک صارف نے ردعمل میں لکھا کہ: ایزی لوڈ کا دور پھر سے شروع ہو گیا ہے، جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: وسیع تر عوامی مفاد میں دھوکے پر اب صرف ایک ادارے "ریاست" کی اجارہ داری نہیں رہی ، اب اس دھوکے پر تقریباً تمام غنڈوں بشمول پولیس، الیکشن کمیشن، گورنر وغیرہ وغیرہ نے بھی اپنا حق مان لیا ہے۔خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: ان کو فون، مرسڈیز اور ایک بی ایم ڈبلیو فراہم کی جائے اور ساتھ میں دو ڈرائیور بھی دیئے جائیں جن میں سے ایک ان کو سکول لے کر جائے گا اور ایک گاڑی ان کے گھر والوں کے استعمال کے لیے دے دی جائے، ورنہ سارا تعلیمی نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایک صارف نے لکھا کہ: ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے! ایک صارف نے لکھا کہ: اس میں میرے وسیع تر مفاد کیا ہے؟ ایک صارف نے لکھا کہ: یہ حرامخور کس بیدردی سے قوم کا پیسہ لوٹ رہے ہیں!
پی ٹی آئی کی خلاف قانون سرگرمیوں کے خلاف استحکام پاکستان پارٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔استحکام پاکستان پارٹی کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عون چوہدری کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی عون چودھری نے پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی کہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے ۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف تمام ثبوت اور بیانات بھی درخواست میں شامل کئے گئے۔ عون چوہدری نے اس پٹیشن میں عمران خان سمیت مختلف پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات، پی ٹی آئی سپورٹرز اور رہنماؤں کے ٹویٹس اور اخباری تراشے بطور ثبوت شامل کئے۔بعض صحافیوں کے بھی وی لاگز کے لنکس اور ٹویٹس کے سکرین شاٹس ثبوت کے طور پر شامل کئے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عون چوہدری نے اس پٹیشن میں ان رہنماؤں کے بھی ٹویٹس اور بیانات بطور ثبوت پیش کئے جو پی ٹی آئی چھوڑچکے ہیں اور ان میں بعض استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ ہیں۔ان میں فوادچوہدری، ملیکہ بخاری، مسرت چیمہ، پرویز خٹک کے ٹویٹس بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑچکے ہیں۔ عون چوہدری نے میں فوادچوہدری کے بھی ٹویٹس کے سکرین شاٹس بھی ثبوت بناکر پیش کئے ہیں اور دعویٰ کیا کہ فوادچوہدری مختلف اداروں کو دھمکیاں دیتے پائے گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فوادچوہدری بھی استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ ہیں۔ عون چوہدری کی اس درخواست کا سوشل میڈیا صارفین نے خوب پوسٹمارٹم کیا اور عون چوہدری کا مذاق اڑاتے رہے، بعض ایسے سوشل میڈیا صارفین جن کے ٹویٹس عون چوہدری نے اپنی درخواست میں شامل کئے تھے، شئیر کرکے عون چوہدری پر طنز کرتے رہے اور انجوائے کرتے رہے۔ عون چوہدری کی رپورٹ سے سوشل میڈیا صارفین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس پٹیشن میں عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ، اس میں سوشل میڈیا صارفین کے ٹویٹس، اخباری خبروں کے تراشے اور بیانات کے سکرین شاٹس لیکر اسے ثبوت بناکر پیش کیا گیا ہے۔ انکے مطابق عون چوہدری کی یہ پٹیشن پہلی ہی سماعت میں ناقابل سماعت قراردیدی جائیگی عون چوہدری کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں https://raw.githubusercontent.com/OSPK/shared/main/AWN%20Chaudhry%20Case%20Against%20PTI.pdf
علی گل پیر نے فردوس عاشق اعوان کی گفتگو نقل کر کے ویڈیو شیئر کردی۔۔یہ ایک ہی وقت میں بہت مضحکہ خیز اور آگاہی دینے والی ویڈیو ہے: سوشل میڈیا صارف ملک کے معروف کامیڈین، میزبان وسوشل میڈیا ایکٹیوسٹ علی گُل پیر نے سابق سابق وزیر اطلاعات ورہنما استحکام پاکستان پارٹی فردوس عاشق اعوان کی نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام ریڈلائن میں کی گئی گفتگو پر مزاحیہ اور دلچسپ ویڈیو بنائی جس سے سوشل میڈیا صارفین لطف اندوز ہو رہے ہیں اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ علی گل پیر نے فردوس عاشق کی گفتگو کی مزاحیہ انداز میں نقل کی ، انہوں نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ: تھری سٹیجز آف لو ایکسپلینڈ بائی ڈاکٹر لو آئی مین ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان! اس موقع پر علی گل پیر نے مختلف گیٹ اپس بھی اپنائے۔ فردوس عاشق اعوان پروگرام میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ: کسی شخص کو ہپناٹائز، میگناٹائز اور میسمرائز کر لیا جائے تو اس کے بعد وہ وزیراعظم یا کسی بھی عہدے پر ہووہ صرف اور صرف آپ کے حکم کا پابند ہو جائےاور باقی تمام اداروں، کابینہ، پارٹی لیڈرشپ کی بات غیر اہم ہو جائے تو اس پر میری سائنس بھی فیل ہو جاتی ہے حالانکہ میں ڈاکٹر ہوں! علی گل پیر کی طرف سے ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے ویڈیو کو بہترین قرار دے دیا۔ سینئر صحافی نادر بلوچ نے ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا: دی لیجنڈ! ایک خاتون نے لکھا کہ: اس میں سب سے اچھا حصہ ہپناٹائز والا ہے، یہ ایک وقت میں بہت ہی مضحکہ خیز اور آگاہی دینے والی ویڈیو ہے، آپ ایک باصلاحیت فنکار ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ: یہ علی گل پیر کی زندگی بھر کی ہپناٹائزنگ، میگنیٹائزنگ اور مسحورکن کارکردگی ہے! امبر نے لکھا کہ: میری بھی سائنس فیل ہو گئی! ایک صارف نے لکھا کہ: میسمرائزڈ ، میگنیٹائزڈ، ہپناٹائزڈ! مجھے بھی ڈاکٹر فردوس لو اعوان سوامی کی اپائنٹمنٹ چاہیے!
لاہور کی احتساب عدالت کی جانب سے پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں نواز شریف کو بری کرنے سے متعلق تحریری فیصلے پر وکلاء اور صحافیوں نے اہم سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کی احتساب عدالت نے پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں نواز شریف کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس وقت کی حکومت نے نیب کے ذریعے نواز شریف کا سیاسی کیریئر تباہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ احتساب عدالت کی جانب سےنوا ز شریف کو اتنا بڑا ریلیف دینے پر صحافی برادری اور وکلاء کی جانب سے اہم سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں، صحافیوں اور وکلاء برادری کو احتساب عدالت کا یہ فیصلہ ہضم نہیں ہورہا ہے، مختلف وکلاء و صحافیوں نے اس حوالے سےاپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایڈووکیٹ عبدالغفار نے تحریری فیصلے کے مختلف پیراگرافس کی نقل شیئر کی اور کہا کہ شریف خاندان کو عدالت نے خصوصی انصاف دیدیا ہے، احتساب عدالت نے نواز شریف کو حیران کن ریلیف دیا، اشتہاری ہونے کے باوجود نا صرف ان کی بریت کی درخواست سنی گئی بلکہ ان کےسرنڈر کیے بغیر عدالت نے خود ہی دیا گیا اشتہاری کا سٹیٹس بھی واپس لے لیا۔ ایڈووکیٹ عبدالغفار نے مزید کہا کہ احتساب عدالت نےتحریری فیصلے میں میرٹس پر جاکر نواز شریف کو اس کیس سے بری بھی کردیا،جج صاحب نے بغیر شہادتوں اور ثبوتوں کے نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا الزام بھی لگادیا۔ مشہور قانون دان اور صحافی عبدالمعیز جعفری نے بھی اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ نواز شریف کے خلاف سیاست سے متاثر جوڈیشل انجینئرنگ نے عدالتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اب نواز شریف کے حق میں کی جانے والی جوڈیشل انجینئرنگ سے یہ ساکھ مزید خراب ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے خلاف ٹرائل کتنا بھی خراب رہا ہو، نواز شریف کو ایک عدالت نے سزا سنائی اور پھر انہیں مفرور قرار دیا، انہیں اس طرح سے کیس سے بری کرنا ایک مذاق ہے۔ کورٹ رپورٹر سہیل راشد نے کہا کہ احتساب عدالت نے نواز شریف کے اشتہاری ہونے کے باوجود ان کی بریت کی درخواست سنی، خود ہی انہیں اشتہاری قرار دیئے جانے کا اسٹیٹس واپس لیا اور انہیں تحریری فیصلے میں بری بھی کردیا۔ خیال رہےکہ احتساب عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی، عدالت نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ واپس لیتی ہے، نواز شریف اور ان کے اثاثوں کے 27 شیئرز ہولڈرز کی منجمد جائیدادوں کو بحال کرنے کا بھی حکم دیا جاتا ہے۔
ٹویٹر کے میٹا کے حریف تھریڈز نے جمعرات کو اپنے آغاز کے بعد سے کم از کم 10 ملین صارفین حاصل کیے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز بھی ایکٹیو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سابق وزیراعظم بھی نئے شامل ہونے والے صارفین میں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے لانچ کے پہلے چند گھنٹوں میں 37,000 سے زائد فالورز ہیں جبکہ وزیراعظم کی فالوورز کی فہرست ایک ہزار تک محدود تھی۔ دوسری جانب تھریڈز پر مختلف سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز بھی ایکٹیو ہوگئے ہیں اور اپنے اپنے اکاؤنٹ بناکر فیس بک اور ٹوئٹر پر شئیر کرکے دوسروں کو فالو کرنیکا کہہ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ پی ٹی آئی سپورٹرز اس ایپ پر ایکٹیو ہیں اورپی ٹی آئی آفیشل نے بھی اپنے اکاؤنٹس بنالئے ہیں سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ ایپ انتہائی آسان ہےجس کاانسٹاگرام پراکاونٹ ہےاُسے نیااکاونٹ بنانےکی ضرورت نہیں۔ اسکے لئے گوگل پلے پر جاکر تھریڈز ایپ ڈاؤن لوڈ کرنیکی ضرورت ہے جبکہ اسے لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرپر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Back
Top