چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیتے ہوئے جسٹس منیب اختر پر سنگین الزامات لگائے اور جسٹس منیب اختر کے روئیے کو سینئر ججز کیساتھ درشت قرار دیا ۔
ثاقب بشیر نےخط کا متن شئیر کرتے ہوئے کہا کہ 13 ستمبر کو سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن رولز کمیٹی کی میٹنگ میں جسٹس منیب اختر نے ممکنہ آئینی ترامیم کی وجہ سے کمیٹی اجلاس ملتوی کرنے کا موقف اپنایا پھر کہا میں متفق نہیں اور کمیٹی سے اٹھ کر چلے گئے
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل نے واضع نہیں کیا ترامیم آرہی ہیں یا نہیں پھر اگلے دن 14 ستمبر کو آئینی ترمیم لانے کے لئے حکومت تیار بھی تھی جس نے جسٹس منیب اختر کے موقف کو درست ثابت کیا ۔۔۔۔
ثاقب بشیر کا مزید کہان تھا کہ اب اس تناظر میں نیا معاملہ کھل گیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی سے الگ کرنے کی 11 وجوہات میں سے ایک وجہ یہ دی ہے کہ وہ 13 ستمبر کی میٹنگ میں سے واک آؤٹ کر گئے تھے ان کا رویہ درست نہیں تھا
دیگر صحافیوں نے بھی اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اس خط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جسٹس منیب اختر کو نکلوانے کیلئے جاری کروایا گیا۔یہ خط خود چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ ہے
صحافی وسیم ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط لکھ کر خود کو ہی چارج شیٹ کردیا ہے، کیونکہ جسٹس منیب اختر کمیٹی سے نکالنے کی جو وجوہات لکھی گئی ہیں وہ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس قاضی فائز عیسیٰ کی خواہش پر ہی جاری کیا
سہیل رشید کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نکالنے کی وجوہات لکھنا تھیں لکھ ان کے جوڈیشل آرڈرز سے زاتی اختلاف دیا ہے۔
انکے مطابق لگتا ہے یہ جسٹس منیب کو کمیٹی سے نہیں، سپریم کورٹ سے نکالنے کا آرڈر ہے۔ ایڈہاک ججز کو اہم کیسز نہ دینا ہی اکلوتی کمیٹی رکن والی وجہ ہے
ابوذرسلمان نیازی نے ردعمل دیا کہ قاضی صاحب تاریخ دانوں کے لیے اتنا ریکارڈ چھوڑ رہے ہیں کہ انھیں تاریخ کی تاریک کوٹھریوں میں پھینک دیں۔
سعید بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ میں مقدمات کی لائیو سٹریمنگ نہ ہوتی تو شاید عوام قاضی صاحب کے اس الزام کو مان بھی لیتی کہ جسٹس منیب اختر واقعی ساتھی ججز کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں لیکن بھلا ہو لائیو سٹریمنگ کا کہ عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قاضی صاحب مقدمات کی سماعت کے دوران ساتھی ججز کے ساتھ کس طرح کا تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کا لہجہ کتنا درشت ہوتا ہے ۔
سعید بلوچ کے مطابق وہ نہ صرف خود ججز کو جھڑکتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں بلکہ وکلاء سے بھی ججز کی تضحیک کرواتے ہیں اور اس پر مکمل طور پر خاموش رہتے ہیں اور پردہ بھی ڈالتے ہیں، جیسا مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل کو غلط رویے پر جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس عائشہ ملک صاحبہ سے معذرت بھی نہ کرنے دی تھی
سحرش مان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسی کا جسٹس منصور علی شاہ کو جوابِ شکوہ
احتشام کیانی نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جسٹس منصور علی شاہ کو لکھے گئے خط میں جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نکالنے کی وجوہات نے مکمل طور پر واضح کر دیا کہ قاضی فائز عیسٰی کے کہنے پر ہی ملی بھگت سے وفاقی حکومت نے پریکٹیس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جاری کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس صاحب حکومت سے بھی زیادہ جسٹس منیب اختر سے تنگ تھے اور ان کے ہی کہنے پر جسٹس منیب کو کمیٹی سے نکالنے کا بندوبست کیا گیا. آرڈیننس جاری ہونے کے فوری بعد کمیٹی کی تشکیلِ نو بھی یہی بات بتاتی تھی لیکن اب تو حکومت اور عدلیہ کے سربراہ کی ملی بھگت مکمل طور پر کُھل کر سامنے آ گئی ہے۔
احتشام کیانی کا مزید کہنا تھا کہ اب جبکہ وفاقی حکومت چیف جسٹس صاحب پر اتنی مہربان ہے تو چیف جسٹس کیونکر اُس حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس کو چھیڑیں گے یا اگر کل کو آئینی ترامیم کی جاتی ہیں تو کیسے اُس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیں گے؟
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے ایگزیکٹو کے ساتھ اِس معاشقے کے بعد جسٹس منیب اختر کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سماعت کے دوران سامنے لائے گئے خدشات درست ثابت ہوئے اور سپریم کورٹ عملی طور پر ایگزیکٹو کے تحت ہو گئی ہے جس سے Tricotomy of power کا تصور بالکل ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے اور یہ ملک کے مفاد میں قطعی طور پر نہیں ہے