سوشل میڈیا کی خبریں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیتے ہوئے جسٹس منیب اختر پر سنگین الزامات لگائے اور جسٹس منیب اختر کے روئیے کو سینئر ججز کیساتھ درشت قرار دیا ۔ ثاقب بشیر نےخط کا متن شئیر کرتے ہوئے کہا کہ 13 ستمبر کو سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن رولز کمیٹی کی میٹنگ میں جسٹس منیب اختر نے ممکنہ آئینی ترامیم کی وجہ سے کمیٹی اجلاس ملتوی کرنے کا موقف اپنایا پھر کہا میں متفق نہیں اور کمیٹی سے اٹھ کر چلے گئے انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل نے واضع نہیں کیا ترامیم آرہی ہیں یا نہیں پھر اگلے دن 14 ستمبر کو آئینی ترمیم لانے کے لئے حکومت تیار بھی تھی جس نے جسٹس منیب اختر کے موقف کو درست ثابت کیا ۔۔۔۔ ثاقب بشیر کا مزید کہان تھا کہ اب اس تناظر میں نیا معاملہ کھل گیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی سے الگ کرنے کی 11 وجوہات میں سے ایک وجہ یہ دی ہے کہ وہ 13 ستمبر کی میٹنگ میں سے واک آؤٹ کر گئے تھے ان کا رویہ درست نہیں تھا دیگر صحافیوں نے بھی اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اس خط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جسٹس منیب اختر کو نکلوانے کیلئے جاری کروایا گیا۔یہ خط خود چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ ہے صحافی وسیم ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط لکھ کر خود کو ہی چارج شیٹ کردیا ہے، کیونکہ جسٹس منیب اختر کمیٹی سے نکالنے کی جو وجوہات لکھی گئی ہیں وہ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس قاضی فائز عیسیٰ کی خواہش پر ہی جاری کیا سہیل رشید کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نکالنے کی وجوہات لکھنا تھیں لکھ ان کے جوڈیشل آرڈرز سے زاتی اختلاف دیا ہے۔ انکے مطابق لگتا ہے یہ جسٹس منیب کو کمیٹی سے نہیں، سپریم کورٹ سے نکالنے کا آرڈر ہے۔ ایڈہاک ججز کو اہم کیسز نہ دینا ہی اکلوتی کمیٹی رکن والی وجہ ہے ابوذرسلمان نیازی نے ردعمل دیا کہ قاضی صاحب تاریخ دانوں کے لیے اتنا ریکارڈ چھوڑ رہے ہیں کہ انھیں تاریخ کی تاریک کوٹھریوں میں پھینک دیں۔ سعید بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ میں مقدمات کی لائیو سٹریمنگ نہ ہوتی تو شاید عوام قاضی صاحب کے اس الزام کو مان بھی لیتی کہ جسٹس منیب اختر واقعی ساتھی ججز کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں لیکن بھلا ہو لائیو سٹریمنگ کا کہ عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قاضی صاحب مقدمات کی سماعت کے دوران ساتھی ججز کے ساتھ کس طرح کا تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کا لہجہ کتنا درشت ہوتا ہے ۔ سعید بلوچ کے مطابق وہ نہ صرف خود ججز کو جھڑکتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں بلکہ وکلاء سے بھی ججز کی تضحیک کرواتے ہیں اور اس پر مکمل طور پر خاموش رہتے ہیں اور پردہ بھی ڈالتے ہیں، جیسا مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل کو غلط رویے پر جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس عائشہ ملک صاحبہ سے معذرت بھی نہ کرنے دی تھی سحرش مان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسی کا جسٹس منصور علی شاہ کو جوابِ شکوہ احتشام کیانی نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جسٹس منصور علی شاہ کو لکھے گئے خط میں جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نکالنے کی وجوہات نے مکمل طور پر واضح کر دیا کہ قاضی فائز عیسٰی کے کہنے پر ہی ملی بھگت سے وفاقی حکومت نے پریکٹیس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جاری کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس صاحب حکومت سے بھی زیادہ جسٹس منیب اختر سے تنگ تھے اور ان کے ہی کہنے پر جسٹس منیب کو کمیٹی سے نکالنے کا بندوبست کیا گیا. آرڈیننس جاری ہونے کے فوری بعد کمیٹی کی تشکیلِ نو بھی یہی بات بتاتی تھی لیکن اب تو حکومت اور عدلیہ کے سربراہ کی ملی بھگت مکمل طور پر کُھل کر سامنے آ گئی ہے۔ احتشام کیانی کا مزید کہنا تھا کہ اب جبکہ وفاقی حکومت چیف جسٹس صاحب پر اتنی مہربان ہے تو چیف جسٹس کیونکر اُس حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس کو چھیڑیں گے یا اگر کل کو آئینی ترامیم کی جاتی ہیں تو کیسے اُس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے ایگزیکٹو کے ساتھ اِس معاشقے کے بعد جسٹس منیب اختر کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سماعت کے دوران سامنے لائے گئے خدشات درست ثابت ہوئے اور سپریم کورٹ عملی طور پر ایگزیکٹو کے تحت ہو گئی ہے جس سے Tricotomy of power کا تصور بالکل ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے اور یہ ملک کے مفاد میں قطعی طور پر نہیں ہے
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر حماداظہر اور معروف ٹی وی اینکر شفاء یوسفزئی کی شادی سے متعلق جھوٹی خبروں کا طوفان برپا ہے جس کی نہ صرف حماداظہر نے بلکہ شفاء یوسفزئی نے بھی تردید کی ہے۔ شفاء یوسفزئی نےایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ڈئیر آل۔۔ یہ واضح رہے کہ میں نے کسی سے شادی نہیں کی! تاہم سوشل میڈیا مہم، جس میں مجھے نشانہ بنایا گیا ہے انہوں نے مزید کہا ک یہ مجھے یاد دلاتا ہے، جیسا کہ اسے تمام کام کرنے والی خواتین کو یاد دلانا چاہیے، کہ مردانہ تسلط والے پاکستان میں عورت کتنی کمزور ہے، ہمیشہ اپنے وجود کی وضاحت کرتی رہتی ہے۔ (یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مجھے اس طرح نشانہ بنایا گیا ہو)۔ شفاء یوسفزئی کا کہنا تھا کہ میں تمام سوشل میڈیا سائٹس سے درخواست گی گا کہ وہ اس بکواس کو حذف کردیں اور تمام مہذب مردوں اور عورتوں اس قسم کی کمپین کا ٹارگٹ بنانا بند کردیں انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ان تمام لوگوں کا بھی بہت شکریہ جنہوں نے تعاون کیا۔ حماداظہر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ سوشل میڈیا پر میرے حوالے سے جھوٹی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ براہ کرم ایسے تمام اکاؤنٹس اور کلک بیٹس کو رپورٹ کریں انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی حرکتیں ہمیں اپنے مقصد سے نہیں ہٹاسکتیں جو پاکستان کو ظلم سے نجات دلانے کے کئے ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی کہ اس قسم کی خبروں کو رپورٹ کریں اور پھر نظر انداز کریں۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہےجس میں ایک بچے پراعتمادانداز میں پولیس اہلکار سے مرغی چوری کی شکایت کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، بچے کا انداز اور گفتگو اتنی معصومانہ ہےکہ دیکھنے والا اس ویڈیو کو شیئر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں نظر آنے والا بچہ پنجابی زبان میں ایک پولیس اہلکار کو اپنی مرغی چوری کی داستان بتارہا ہے اور پولیس اہلکار سے کہہ رہا ہے کہ مرغی چور کو پکڑ کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یونیفارم پہنے بچے نے اپنی کمر پر ہاتھ کر پورے اعتماد سے پولیس اہلکار کو بتایا کہ پہلے ایک دوسرا پولیس والا آیا تھا جس سے میں نے چوزے چوری ہونے کی شکایت کی تھی، اس پولیس افسر نے میری شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو پکڑ لیا تھا۔ ویڈیو بنانے والے پولیس اہلکار نے بچے کو جواب دیا کہ وہ مرغی چور کے خلاف پرچہ کٹوائے گا، بچے نے سوال کیا کہ پرچہ کٹوانے کیلئے پیسے کتنے لگیں گے؟ پولیس اہلکار نے جواب دیا کہ پرچہ کٹوانے کے کوئی پیسے نہیں لگیں گے۔ بچے کی معصومانہ گفتگو اور پراعتماد انداز نے لوگوں کی توجہ فورا ہی اپنی جانب کھینچ لی، لوگوں نے اس ویڈیو کو تیزی سے شیئر کیا بچے کی تعریف کی اور پولیس سے بچے کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے مرغی بازیاب کروانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ عائشہ بھٹہ نے تبصرہ کیا کہ ہم سے زیادہ تو اس بچے کے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تعلقات ہیں
گزشتہ دنوں فاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے شمس کالونی تھانہ کے سب انسپکٹر صہیب پاشا کو مختلف علاقوں میں بھیک مانگنے والے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق شمس کالونی تھانہ کے ملزم صہیب پاشا نے اسلام آباد کے پمز ہسپتال سے 2 بچوں کو اٹھا لیا اور غیرقانونی طور پر 2 دنوں تک اپنے پاس رکھا لیکن کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔ملزم صہیب پاشا نے پمز ہسپتال سے 12 سالہ عبداللہ اور 11 سالہ عبدالرحمن کو بدفعلی کا نشانہ بنایا اور اس دوران ان پر لاٹھیوں اور جوتیوں کے ساتھ تشدد بھی کیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ صہیب پاشا بچوں سے بدفعلی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ایدھی سنٹر میں چھوڑ گیا۔ اینکر ابصا کومل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پولیس جس نے لوگوں کا تحفظ دینا ہوتا ہے وہاں ایسے زہنی مریض اور درندے بھرتی ہے۔ انتہائی دلخراش واقعہ ہے، اس اسلام آباد پولیس اہلکار نے غریب مزدور کے دو کمسن دس اور بارہ سالہ بیٹوں کو اغوا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شمس تھانے کے تفتیسی افسر کے کمرہ اور نجی ڈیرہ میں ان کے ساتھ زیادتی کرتا رہا، ایک دن دیگر پولیس اہلکاروں نے اسکو رنگے ہاتھوں پکڑا ، تو جان چھڑواتے ہوئے بچوں کو ایدھی سینٹر چھوڑ آیا۔ اسلام آباد پولیس جو اب کڑے احتساب کا دعوی کر رہی ہے، تب حرکت میں آئی جب سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبر وائرل ہو چکے تھی۔ قاسم سوری کا کہنا تھا کہ ہمارے محافظ:اسلام آباد پولیس اہلکار نے غریب مزدور کے دو کمسن دس اور بارہ سالہ بیٹوں کو اغوا کیا، شمس تھانے کے تفتیسی افسر کے کمرہ اور نجی ڈیرہ میں ان کے ساتھ زیادتی کرتا رہا، ایک دن دیگر پولیس اہلکاروں نے اس کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو جان چھڑوانے کے لیے بچوں کو ایدھی سینٹر چھوڑ آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس جو اب کڑے احتساب کا دعویٰ کر رہی ہے تب حرکت میں آئی جب سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبر وائرل ہو چکی تھی۔ تنویر اعوان کا کہنا تھا کہ دس اور بارہ سال عمر ہی کیا ہوتا ہے اس نے دو معصوم زندگیاں تباہ کردی ہیں۔مگر کیا اس کو سزا ہوگی؟ جواب ہے نہیںکیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے خورشید خٹک کا کہنا تھا کہ پولیس جس نے لوگوں کا تحفظ دینا ہوتا ہے وہاں ایسے زہنی مریض اور درندے بھرتی ہے۔ آزاد چوہدری نے تبصرہ کیا کہ اسلام اباد پولیس کا سب انسپیکٹر سہیب پاشا جس نے دو نا بالغ لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی اس طرح کی اور نا جانے کتنی کالی بھیڑوں سے پولیس بھری پڑی ہے
گزشتہ دنوں خواجہ آصف نے علی امین گنڈاپور کو چیلنج کیا تھا کہ علی امین گنڈاپور اٹک پل کراس کرکے دکھائے، ہم اسکا انتظار کررہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے خواجہ آصف کا چیلنج پورا کرتے ہوئے نہ صرف اٹک پل کراس کیا بلکہ لاہور تک پہنچ گئے مگر جگہ جگہ کنٹینرز اور رکاوٹیں ہونے کی وجہ سے جلسہ گاہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ جلسہ گاہ پہنچ کر علی امین گنڈاپور نے مختصر تقریر کی اور چلے گئے۔ خواجہ آصف نے ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گنڈاپور صاحب ایک سوچے سمجھے پروگرام کےتحت جلسے میں تاخیر سے پہنچے تا کے تقریر نہ کرنی پڑے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنہوں نے تقریر کرنی ھوتی وہ ھر قیمت پہ پہنچتے ھیں۔ کچھ پچھلی تقریر کی معافی تلافی وجہ ھے کے ساری بھڑکیں وڑگئی ھیں نہ لشکر آیا نہ گنڈا پور آیا نہ تقریر ھوئی۔ یہ لوگوں کو چ سمجھتے ھیں۔ عمران خان نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچےتم نے چیلنج کیا تھا گنڈاپور اٹک کا پُل کراس کر کے دیکھائے۔۔۔ اُس نے اٹک پُل بھی کراس کیا اور تمام رکاوٹین توڑ کر جلسہ گاہ میں بھی پہنچا اب تم رو پٹو چیخیں مارو خان ٹائیگر نے خواجہ آصف کا کلپ شئیر کرتے ہوئے خواجہ آصف کو بے شرم کہا علی رضاخان نے تبصرہ کیا کہ خواجہ صاحب آپ نے ایک کے بعد ایک رکاوٹ ڈالی تاکہ علی امین گنڈاپور پہنچ نہ سکے۔ ان کے قافلے کو لاہور سے باہر روک لیا گیا تھا۔ آپ نے کہا تھا علی امین گنڈاپور اٹک پل کراس کرکے دکھائیں۔ وہ لاہور آئے بلکہ جلسہ گاہ پہنچے کارکنوں سے بغیر ساؤنڈ کے خطاب کیا اور چلے بھی گئے۔ میاں وقاص محمود کا کہنا تھا کہایسے کرکے گنڈہ پور نے تمہارا رنگبازی کا پلان ملیا میٹ کر دیا۔ کیونکہ تمہیں معلوم آرمی اور پی ٹی آئی ہی اصل طاقت ور 2 قوتیں اس ملک میں باقی تم لوگ شامل باجے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمہارا پلان تھا آرمی کے خلاف سخت تقریریں ہوں، دونوں لڑتے رہیں اور تمہارا مچھی شورا چلتا رہے اسرار احمد جان نے تبصرہ کیا کہ واجہ صاحب یہ باتیں بعد میں ہو جائیں گی پہلے یہ بتائیں اپ نے تو کہا تھا کہ اٹک کا پل کراس نہیں کرنے دیں گے اگلا گھر میں گھس کے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے چیر کے نکل گیا ہے اب کیا کرنا ہے بہت پریشانی ہو رہی ہے جلال قاضی نے ایموجی کے ذریعے مزاحیہ ردعمل دیا دایان ملک نے طنز کیا کہ خواجہ صاحب بات اٹک پل کی ہوئی تھی آپ اپنی بات سے مکر رہے ہیں
ملک بھر میں سوشل میڈیا صارفین شدید پریشان ہیں, واٹس ایپ اور انسٹاگرام ایپلی کیشن کی بندش کی اطلاعات نے مزید پریشانی بڑھادی, پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین نے زونگ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ کی جانب سے فراہم کردہ انٹرنیٹ سروسز میں رکاوٹوں کی شکایات ارسال کی پیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے واٹس ایپ اور انسٹاگرام ایپلی کیشنز میں بھی بندش سامنے آرہی ہیں,انٹرنیٹ کی بندش پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ڈاؤن ڈیٹیکٹر کے مطابق ایک گھنٹے کے دوران انسٹاگرام صارفین نے ایپلی کیشن میں بندش کی تقریباً 86 شکایات دیں، واٹس ایپ صارفین کی جانب سے آج صبح 10 بجکر 45 منٹ تک ایپلی کیشن میں سست روی اور بندش کی اطلاعات دیں۔ ڈاؤن ڈیٹیکٹر کی رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ صارفین کی جانب سے کہا گیا کہ ایپلی کیشن کے ذریعے تصاویر ڈاؤن لوڈ کرنے اور کسی دوسرے صارف کو بھیجنے میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ وائس نوٹ بھیجنے میں بھی کافی وقت لگ رہا ہے۔ ڈاؤن ڈیٹیکٹر نے مزید کہا کہ نیٹ ورک فراہم کرنے والے زونگ اور پی ٹی سی ایل نے بھی صبح سے بندش کی اطلاع دی تھی۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے اس معاملے پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا گیا۔پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے اگست میں ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز ’اکتوبر کے شروع‘ تک سست رہنے کی توقع ظاہر کی تھی، پی ٹی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انٹرنیٹ میں سست روی کی اصل وجہ سب میرین کبیل ہے جس کی مرمت اکتوبر تک کردی جائے گی۔ پی ٹی اے حکام نے کہا تھا ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی بنیادی طور پر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنے والی 7 بین الاقوامی سب میرین کیبلز میں سے دو میں خرابی کی وجہ سے ہے۔ٹیلی کام اتھارٹی نے مزید کہا کہ ایس ایم ڈبلیو-4 سب میرین کیبل میں خرابی اکتوبر 2024 کے اوائل تک ٹھیک ہونے کا امکان ہے جب کہ سب میرین کیبل اے اے ای-1 کی مرمت کر دی گئی ہے جس سے انٹرنیٹ صارفین کی مشکلات میں کمی آئے گی لیکن صارفین اب تک مشکلات کا شکار ہیں۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضاربانی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ انتہائی جمہوریت پسند اور آمریت کے ہتھکنڈوں کے خلاف ہیں مگر عامرمتین اور دیگر صحافیوں نےانکی حقیقت بتادی کہ وہ جمہوریت کے کتنے بڑے چمپئین ہیں۔ عامرمتین نے رضاربانی کو جمہوریت پسند سمجھنے پر معافی مانگ لی اور کہا کہ میں اپنی غلطی کی معافی مانگتا ہوں۔ رضا ربانی ہمارا بھی ہیرو تھا۔ اس نے پارلیمان میں جمہوریت گلی رکھوائی اور ایک کتاب بھی لکھی اور پھر ایک دفعہ فوجی جرنیل کو توسیع دیتے ہوئیے آنسو بھی دکھائے۔ اس کے بعد ان کا ضمیر سو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرداری نے ان کی بہت بے عزتی بھی کی مگر وہ بس کتاب لکھ کر دوستوں کو بجھواتے رہے۔ اب اعتزاز کی طرح وہ بھی فارغ کر دیے گئے ہیں مگر ذرا بھی شرم نہیں کرتے کہ پرانے جذبات کا ذرا اظہار کر دیں۔ کمزور لوگ تھے کیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ہم بے وقوف تھے کہ ان پر امید لگا بیٹھے تھے کہ یہ بہت منافق تھے کہ اختیار کے مزے لے کر گھر چلے گئے۔ شاید ہم ہی بے وقوف تھے۔ صحافی نعمت خان نے ردعمل دیا کہ رضا ربانی صاحب بہت ساروں سے بہتر سیاستدان ہیں، لیکن وہ کتنا اصول پسند ہیں؟ ایک واقعہ سن کر فیصلہ کیجیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ربانی صاحب نے ۶ جنوری ۲۰۱۵ کو جب ۲۱ ویں آئینی ترمیمی بل، جس کے نتیجے میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، کے حق میں ووٹ دیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو اور زبان پر یہ الفاظ تھے:"میں ۱۲ سے زائد برسوں سے سینیٹ میں ہوں، مگر میں کبھی اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوں۔ میں نے اپنی ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔"۔ نعمت خان نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے موضوع پر کوئی ڈیبیٹ ہو اور ربانی صاحب کے قیمتی آنسو اور وہ سنہرے الفاظ ہوں جو انہوں ادا کیے تھے تو پھر کسی اور کو مہمان خصوصی کیسے بلا سکتا ہے۔ یہہی صورت حال کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے تحت منعقدہ سیمینار کے لیے بھی پیش آئی۔ انہوں نے کہا کہ ربانی صاحب نے بہ خوشی دعوت قبول کی اور سیمینار سے ایک دن قبل اپنی شرکت کی تصدیق بھی کی۔ مگر ۲۱ جنوری کو نہ تو انہوں نے فون اٹھایا اور نہ ہی تشریف لائے۔ اس کے ۵۱ دن بعد ربانی صاحب چئیرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور ایک اہم قانون ساز فورم کے چئیرمین کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ ڈاکٹر شہباز گل نے عامر متین کے ٹویٹ پہ تبصرہ کیا کہ بد قسمتی سے یہ لوگ شروع سے ہی ایسے تھے۔ بھٹو صاحب سے بڑا آمر کون تھا۔ انہوں نے حنیف رامے صاحب کو ننگا کر کے لاہور قلعے میں پھروایا تھا۔ یہ سب دھوکے باز تھے۔ کوئی جمہوریت پسند نہیں تھے۔ شہباز نے ردعمل دیا کہ دراصل یہ ہمیشہ سے بہروپیے تھے بس ہمیں دھوکہ دیتے رہے اور ہم اپنی معصومیت میں انھیں جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے رہے۔ لیکن اللہ تعلٰی نے ان بہروپیوں کے چہرے سے نقا ب کیچھینچ لی اور یہ بیچ بازار میں ننگے ہو گئے اکبر باجوہ نے تبصرہ کیا کہ متفق سر! مجھے بھی یہ گمان تھا لیکن مختار مسعود صاحب کہتے ہیں “یہ بھلا کہاں ضروری ہے کہ ایک بڑا آدمی تمام عمر بڑا ہی رہے۔ بعض آدمیوں کی زندگی میں بڑائی کا صرف ایک دن آتا ہے اور اس دن کے ڈھلنے کے بعد ممکن ہے کہ انکی باقی زندگی اُس بڑائی کی نفی میں بسر ہو جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” کیسا قحط الرجال ہے کہ تقریبا وہ تمام نابغے جو ہمیں گمان تھا کہ کسی حد میں اب بھی، ہر لحظہ پھیلتی ظلمت میں آواز کی شمع جلا سکتے ہیں، جرم کی حد تک صُمٗ بکمٗ ہیں ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہو سکتی مگر ہمیں نہیں یہ نوٹنکی باز ہے ہم تو شروع سے جانتے ہیں اگر یہ سچا شخص ہوتا اور ملک سے مخلص ہوتا تو کبھی پیپلز پارٹی اور زرداری ڈاکو کے ساتھ نہ ہوتا
عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک پیغام جاری ہوا جس میں انکا کہنا تھا کہ اپنی قوم کو پیغام دیتا ہوں کہ ہفتے والے دن لاہور کے جلسے کے لیے کشتیاں جلا کر نکلیں- انہوں نے مزید کہا کہ اس ناجائز حکومت کے خلاف مزاحمت فرض ہے جو ہر آئین و قانون پسند شہری کو کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہماری نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ اس پر ن لیگ کی حمایتی صحافی اور تمغہ امتیاز حاصل کرنیوالی شمع جونیجو نے ناشائستہ تبصرہ کیا اور کہا کہ میں سمجھی کہ گشتیاں جلا کر نکلیں لکھا ہے۔۔۔ یادرہے کہ شمع جونیجو ٹی وی ڈراموں کی ناکام اداکارہ ہیں جنہیں ڈراموں میں عام طور پر معاون اداکارہ یا چھوٹے موٹے رول ملتے تھے بعد ازاں اداکاری کو خیر باد کہہ کر خود کو صحافی لکھنا شروع کردیا اور ن لیگ سے قربتیں بڑھالیں۔۔ اداکارہ کو 2023 میں صحافتی خدمات پر تمغہ امتیاز بھی مل چکا ہے شمع جونیجو پر صحافیوں نے تنقید کی لیکن اس نے اس پر بھی اپنی اصلاح نہیں کی اور کہا کہ سالا ایک لفظ پُوری پارٹی میں آگ لگا دیتا ہے ۔صرف ایک لفظ پر اُڑتا تیر تڑپ تڑپ کے لے رہے ہیں ۔حالانکہ کسی کا نام نہیں لیا، کسی کو اشارہ نہیں کیا لیکن چیکیں جاری کہ ڈاکٹر جونیجو یہ نے ہمیں کہا ہے شفیق احمد ایڈوکیٹ نے شمع جونیجو کو جواب دیا کہ اب جب پی ٹی آئی والوں نے اسکی طبیعت فریش کرنا شروع کرنی ہے تو اس نے عورت کارڈ کے بعد اپنا اگلا کارڈ استعمال کرنا ہے اور ایکسرے اٹھا کر آجانا ہے کہ میں کینسر کی مریضہ ھوں پاکستانی ریاست کا اندازہ اس ایک ٹویٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ ریاست نے اس خاتون جو تمغہ امتیاز سے نوازا ہوا ہے۔ اس خاتون کی سوچ ہی ہماری ریاست کی موجودہ سوچ ہے۔ یہی لوگ موجودہ ریاستی میرٹ پر پورا اترتے ہیں وقاص بگا نے تبصرہ کیا کہ یہ کیا گندی سیاست ہے، کیسے کیسے کردار ہیں ۔جب یہ گفتگو ہو گی اور کسی عورت کی طرف سے نظریات کی مخالفت کی بنیاد پر مخالف سیاسی جماعت کی خواتین کیلئے ایسے الفاظ استعمال کیئے جائیں گے تو اخلاقی گراوٹ پر صرف افسوس ہوگا یاسر چیمہ نے ردعمل دیا کہ اور ابھی کسی نے اسے جواب دیا تو جیب سے عورت کارڈ نکل آنا ہے محمد عمیر کا کہنا تھا کہ آئینہ سب لوگوں کو انکا چہرہ ہی دکھاتا ہے آفتاب نے لکھا کہ جس گٹر کا ڈھکن اٹھاؤ، اندر سے تمغہ امتیاز نکلتا ہے صحافی اویس سلیم نے ردمعل دیا کہ یہی لغویات کسی پی ٹی آئی والے نے لکھی ہوتی تو انہیں معاشرے کی اخلاقیات یاد آ جاتیں اسد قریشی نے معنی خیز جواب دیا کہ زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ کشتیاں ہی لکھا ہے اس لیے آپ سکون کریں۔ عمر کا کہنا تھا کہ جس کی جتنی عقل ہو وہ اتنا ہی سوچے گا اور سمجھے گا۔
حسن ایوب نے ایمان مزاری کا پرانا انٹرویو ڈھونڈ کے پراپیگنڈہ شروع کیا کہ وہ عمران خان دور میں اغوا ہوئی تھی۔۔ایمان مزاری نے کہہ دیا میں اگست 2023 میں اغواء ہوئی تھی۔۔ حسن ایوب کو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پا اور معذرت کرنا پڑی تفصیلات کے مطابق حسن ایوب خان نے ایمان مزاری کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ایمان مزاری عمران دور حکومت میں اپنی گرفتاری کا قصہ بیان کرتے ہوئے جبکہ حقیقت اسکے برعکس تھی، ایمان مزاری اگست 2023 میں گرفتار ہوئی تھیں جب شہباز شریف کی پی ڈی ایم سرکار کی حکومت تھی جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں انکا کیس چلا اور وہ رہا ہوئیں حسن ایوب کو جواب دیتے ہوئے ایمان مزاری نے کہا کہ میں سمجھ سکتی ہوں اس انٹرویو کی تکلیف کسے ہورہی ہے لیکن جھوٹ بولنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری گرفتاری اگست 2023 میں ہوئی تھی اور اس انٹرویو میں میں نے پہلی دفعہ بیان کیا ہے میرے ساتھ کیا ہوا۔جبری گمشدگیوں اور بلوچستان پر بھی تفصیل میں بات کی ہے بعدازاں حسن ایوب نے اپنی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ایمان مزاری کی عمران خان دور گرفتاری سے متعلق میرا ٹوئٹ درست نہیں ۔ معذرت
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن ٹربیونل تبدیل کرنے اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تبدیل کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت کی طرف سے معاملہ واپس الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے جس کے بعد اسلام آباد کے 3 حلقوں کا فیصلہ ایک بار پھر سے لٹک گیا ہے اور فیصلے پر صحافیوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سینئر صحافی بشارت راجہ نے اپنے پیغام میں لکھا: اسلام آباد ہائی کورٹ امام القضیان قاضی عامر فاروق کی عدالت نے الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا، اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کیس ریٹائرڈ جج کو منتقل کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار! امام القضیان نے معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھیج دیا کہ دوبارہ فیصلہ کریں، الیکشن کمیشن دوبارہ سے فیصلہ کرے گا، قاضی عامر فاروق نے دوبارہ کیس لٹکا دیا! کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے ردعمل میں لکھا: الیکشن کمیشن نے دوبارہ وہی فیصلہ کرنا ہے، یوں بال کلیم اللہ سے سلیم اللہ سے ہوتی ہوئی دوبارہ کلیم اللہ کے پاس آئے گی! ثاقب بشیر نے لکھا: ایک چیز جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ 10 جون سے تقریبا 3ماہ 10 دن آج تک جسٹس جہانگیری ٹربیونل کو کام نہیں کرنے دیا گیا پہلے 10 جون کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا پھر ہائیکورٹ نے ایک ڈیڑھ ہفتہ سٹے کیا، ایک دو سماعتیں ہوئیں پھر جسٹس جہانگیری ٹربیونل کو 14 جولائی کو مرکزی معاملات آگے بڑھانے سے روک دیا۔ عدالت نے 29 جولائی کو ایک دو دن کیلئے فیصلہ محفوظ کیا، ٹھیک 1ماہ 20 دن بعد سنایا اور جو سنایا وہ بھی عجیب ہے، دوبارہ الیکشن کمیشن کو کہا ہے دوبارہ ٹربیونل تبدیلی کا فیصلہ کریں وہ تو وہی فیصلہ کریں گے جو پہلے کر چکے۔ یوں پہلے بال الیکشن کمیشن پھر ہائی کورٹ اب پھر الیکشن کمیشن پھر دوبارہ ہائیکورٹ آئے گی، یوں جو چاہتے ہیں اسلام آباد الیکشن پٹیشنز جوں کی توں ہی پڑی رہیں ان کو بھی سہولت ملتی رہے گی! عدنان عادل نے لکھا:الیکشن پٹیشنز پر حکمت عملی یہ ہے کہ معاملہ کو الجھاتے جائو، تاخیری حربے استعمال کرتے رہو تاکہ ایک سال گزر جائے اور ریکارڈ تلف کر دیا جائے! فرحت اللہ خان نے لکھا:آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور دوبارہ کیس الیکشن کمیشن کے پاس بھیج دیا، جب ایک دفعہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کر لیا تو دوبارہ بھیجنے کی کیا ضرورت! دوسرا عامر فاروق نے 55 دن تک یہ فیصلہ کیوں روکے رکھا ؟ یہ سب کچھ آئینی ترمیم اور ایکسٹینشن کے لیے ہو رہا ہے۔ حسنین احمد چوہدری نے لکھا: آسان الفاظ میں کہیں تو اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپیلوں کا معاملہ مزید لٹک گیا !
اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی صحافی منیب فاروق نے تحریک انصاف کو بات چیت کی کھڑکی کھولنے کا طریقہ بتادیا۔۔ انکے مطابق بات جیت کی کھڑی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر کھولی جاسکتی ہے، ن لیگ نے بھی ایسے ہی کھولی تھی اپنے ویڈیو پیغام میں منیب فارق کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے جب برے حالات تھے تو باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کا وقت آیا تھا اس وقت سب نے ووٹ دیے تھے تو پی ٹی آئی کو اس موقع کا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کو خیر سگالی کا پیغام دے کر ووٹ دینا چاہئے تا کہ بات چیت کی کھڑکی کھولی جا سکے۔ مطیع اللہ جان نے تبصرہ کیا کہ ہر موقعے سے فائدہ اُٹھانے والے تحریک انصاف کو اِس موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے فضائل بتا رہے ہیں۔ اسلام الدین ساجد نے ردعمل دیا کہ ھاھاھا یہ ترجمان اس حد تک تحریک انصاف نے مایوس کردیا ہے کہ اب پاگل پن کا شکار نظر آنے لگا ہے فرخ شہزاد نے ردعمل دیا کہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ ترلے کرنے کیلئے پیغام رساں ایک بار پھر شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لیکن دھکمیاں پھر بھی اسی طرح کہ ہم ترامیم کروا لیں گے۔ پہلے تو ان شخصیت کا نام زبان پر لو۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری بات کہ ملک کی خاطر جو تھوڑے مذاکرات کے دروازے کھلے تھے وہ انکے کرتوتوں کی وجہ سے ہم بند کر چکے ہیں۔ تیسری اور اہم بات کہ اسکے کچے مالک اپنے کچے ڈرافٹ کی ترامیم کروانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب فرنٹ پہ کوئی اور رکھ کے اپنی دہائیاں اپنے پاس رکھو اور ڈانگ کا انتظار کرو۔ ابوبکر نے لکھا کہ تو اچھا یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں مجھے صحافی کہو۔کتنا بدنصیب ہیں ہم کہ ہمیں ان کو سننا پڑتا ہے طاہر نعیم ملک نے ردعمل دیا کہ وفاداری بشرط استواری کے درس کو تجزیہ کے نام پر بیچا جا رھا ھے ۔ شاہد اسلم نے تبصرہ کیا کہ پی ٹی آئی کو فائدہ اٹھاتے ہوئے آینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینا چاہیے تاکہ قاضی اور جنرل عاصم منیر کی ایسنٹینشن کی ٹینشن ختم ہو جس سے خیر سگالی کا راستہ نکلے، منیب بھائی نے نئے پیغام کے مندرجات پبلک کردیے
خواجہ آصف نے عمران خان کو ایک فاشست شخص ثابت کرنے کیلئے ایک نامکمل خبر شئیر کی جو 2020 کی تھی جب کورونا کی وبا عروج پر تھی اور عمران حکومت اس وبا کو روکنے کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کررہی تھی۔ ان دنوں پی ڈی ایم حکومت نے اعلان کیا کہ وہ عمران خان کے خلاف جلسے جلوس کرے گی جبکہ ان دنوں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد تھی۔ اس پر عمران خان نے ایک بیان دیا کہ جلسے میں کرسیاں دینے والوں پر مقدمہ درج ہوگا خواجہ آصف نے اس بیان کو اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ عمران خان نے یہ بیان کرونا کی وجہ سے دیا۔ خواجہ آصف نے نامکمل خبر شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ جمہوری ھے وزیراعظم تھا تو یہ بیان دیتا تھا۔ جلسے کے لئے کرسیاں دینے والوں پہ مقدموں کی دھمکیاں دیتا تھا۔ یہ اسکی اوقات تھی اور ھے۔ بڑے عہدوں سے لوگوں کی اوقات تبدیل نہیں ھوتی۔ کوئ شرم کوئ حیا اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کو جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف کو جھوٹا قرار دیدیا۔ فوادچوہدری نے خواجہ آصف کو طنزیہ جواب دیتے ہوئے لکھا کہ میں آپ سے متفق ہوں اگر کرونا کے دنوں میں عمران خان نون لیگ کو جلسے کرنے دیتے آج پاکستان مختلف ہوتا۔۔ ہمارا ایک اور غلط فیصلہ کہ آپ کو کرونا سے بچایا ۔۔ عمران ریاض نے جواب دیا کہ کبھی کبھی ترس آتا ہے کہ کوئی شخص عمر کے اس حصے میں بھی کیسے لگاتار جھوٹ بول سکتا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ بیان کرونا کی وجہ سے تھا۔ ورنہ عمران خان کے دور میں آپ لوگ 3 دھرنے لے کر اسلام آباد آئے اور اس نے پورا موقع دیا۔ عمران خان کا بیان کورونا کے دوران تھا (6 دسمبر 2020)۔ اس سے اگلے دن ملک میں کورونا سے 58 افراد دم توڑ گئے تھے۔ خواجہ صاحب وبا دوران کوئی بھی جلسے جلوس کرتا تو اس پر مقدمے ہونے چاہیں تھے۔ افسوس تب بھی آپ کو عوام کا کوئی احساس نہیں تھا۔ ذیشان عزیز نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ عمر کے اس حصے میں بھی جس ڈھیٹائی سے آپ جھوٹ بول کر بیانیہ بنا رہے ہیں اس سے صاف واضع ہے کہ آپ کی سوچ صرف انتشاری اور انتقامی ہے جو جمہوریت کے لباس میں چھپی ہوئی ہے - مکمل خبر دیجیئے کہ کورونا واحد وجہ تھا اس بیان کے پیچھے. طلعت نے ردعمل دیا کہ منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں پھر بھی جھوٹ پھیلانے میں اپکا کوئی ثانی نہیں۔کوووڈ میں جلسہ کرکے اپکو کوووڈ سے بچایا، باقی اپنے 3 دھرنے بھول گئے جہاں پر اپکو پوری آزادی تھی۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت۔۔ ظہیر نے تبصرہ کیا کہ خان صاحب صیح کہتے ہیں ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں اور دوسرا کوشش بھی نہیں کرتے خواجہ صاحب کوئی شرم ہوتی کوئی حیا ہوتی ہے اس سرخی کے نیچے یہ بھی پڑھ لیا ہوتا کہ" کرونا بے قابو پی ڈی ایم کے کچھ راہنماوں کا جلسے روکنے کا مشورہ" روکی نامی سوشل میڈیا صارف نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ کچھ لوگوں کو عقل چھوٹی عمر میں ہی ا جاتی ہے اور کچھ لوگ 72 سال کے ہو کر بھی عقل سے محروم رہتے ہیں۔ خواجہ اصف صاحب انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو 72 سال کی عمر میں بھی عقل نہیں ائی۔ یہ شخص پوری زندگی فوجیوں کے بوٹ چاٹتا رہا اور اب پوری خبر پڑھے بغیر پی ٹی ائی کو اخلاقیات کے طعنے دے رہا ہے۔ چول انسان پہلے پوری خبر تو پڑھ لیا کرو پروپیگنڈا کرنے کے لیے کچھ بھی اٹھا کر لگا دیتے ہو ارم زعیم کا کہنا تھا کہ کرونا کے دنوں میں ن لیگ نے بہت کوشش کی کہ بریانی کے لالچ میں لوگوں کو اکھٹا کیا جائے اور کرونا کو گھر گھر پھیلا کر لاشیں گرائی جائیں حالات اٹلی جیسے کر کے پھر عمران خان پر الزام لگا دیا جائے۔ شُکر الحمداللہ وزیراعظم خان نے شیطانی چال کو ناکام بنایا
پی ٹی وی کی رسائی چھوٹے بڑے تمام شہروں تک ہے, لیکن اس کے باوجود پی ٹی وی پر لائے گئے بڑے بڑے چہرے ناظرین کو اسکرین دیکھنے پر مجبور نہ کرسکے,جی ہاں 12 گھنٹے گزرنے کے بعد پی ٹی وی پر لاے گئے ہیروں نے کل ملا کر 165ویوز لیے. بات کی جائے اپنی دلچسپ رپورٹنگ اور منفرد انداز سے ہاد رہ جانے والے امین حفیط کی جن کی پی ٹی سی بھی کمال کی ہوتی ہے ان کے پروگرام کا ٹیزر بارہ گھنٹے میں صرف43 ویوز ہی لے سکا. بنش سلیم کا ٹیزر 12 گھنٹے میں صرف اکتالیس بار دیکھا گیا,نجم ولی کے پروگرام کا ٹیزر بھی صرف 41 لوگوں کی توجہ حاصل کرسکا جبکہ رضوان رضی کے پروگرام کے ٹیزر نے بھی کچھ خاص اثر نہ دکھایا,40 لوگوں نے ہی دیکھا۔ تینوں تجزیہ کار پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے جلد ہی پی ٹی وی پر صحافتی ذمہ داری نبھائیں گے لیکن ٹیزر تو فی الحال کچھ تہلکہ نہ مچاسکے. سوشل میڈیا صارفین بھی اتنے کم ویوز پراظہار خیال کررہے ہیں,کسی نے کہاویسے ان سے اچھا تو پھر میرا یوٹیوب چینل ہی ہے کسی نے کہا ویسے انکی قابلیت کرتوتوں اور زبانوں کے مطابق یہ ویوز ابھی بھی زیادہ ہیں۔ 6 ہونے چاہئیے تھے, ایک صارف نے طنزیہ لکھا یقیناً یہ جو اب کے 40 ویوز ہیں یہ پی ٹی وی کے ملازمین ہونگے.
نجی چینل کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے منیب فاروق نے اظہر صدیق کو پنڈ کے چوہدری کی مثال دی اور پنڈ کے چوہدری کو ڈرانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ جو پنڈ کا چوہدری ہوتا ہے ناں، جس سے آپ نے دانے بھی لئے ہوتے ہیں، اُس سے پھر اکڑتے نہیں ہیں، کیونکہ جب آپ اکڑتے ہیں تو وہ آپ کو کوٹتا بھی ہے اور ساتھ ڈھول بھی مارتا ہے سوشل میڈیا صارفین نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پنڈ کے چودھری نے اپنی دھاک بٹھانے اور جھوٹی بہادری کے قصے سنانے کے لیے کچھ نائی اور میراثی بھی رکھے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت منیب فاروق خود پنڈ کے چوہدری کی نوکری پہ ہے جس سے دانے لے رہا ہے سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ مثال منیب فاروق پہ ہی فٹ ہوتی ہے جو آج کل اسٹیبلشمنٹ کے پے رول پہ ہے اور ٹی وی چینلز پہ آکر مخالفین کو چوہدری کا نام لیکر دھمکیاں لگاتا ہے احمد وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت آتا ہے نسل در نسل تقسیم کے بعد چودھری صاحب کی زمین ختم ہو جاتی ہے، دانے لینے والے مزدوری کرتے ہیں تو سروائیو کر جاتے ہیں۔ لیکن چودھری کے اثاثے ختم ہونے کے بعد حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں۔ تو جناب والا چودھری کے پاس اب 'اثاثے' نہیں ہیں، دانے ختم ہو رہے ہیں اور کامے تگڑے بشیر چوہدری نے تبصرہ کیا کہ پنڈ کے چودھری نے اپنی دھاک بٹھانے اور جھوٹی بہادری کے قصے سنانے کے لیے کچھ نائی اور میراثی بھی رکھے ہوتے ہیں جو ہر جگہ اور ہر معاملے میں چودھری صاحب کی داستان شجاعت سنانا فرض عین سمجھتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے ردعمل دیا کہ اور جب آپ پنڈ کے چودھری کی جوتیاں سیدھی کرتے ہیں اور چودھری صاحب کے قصے سنا کر گاؤں والوں ڈراتے رہتے ہیں تو وہ آپ کو ایسا رینکر اینکر (Ranker Anchor)بنا دیتا ہے۔ لالہ مرتضیٰ نے ردعمل دیا کہ ہماری طرف تو پنڈ کے چوہدری نے مختلف پروگراموں میں اپنی تعریفیں کرنے کے لیے مراثی بھی رکھے ہوتے ہیں چوہدری ان مراثیوں کی وقتاً فوقتاً مالی مدد کرتا رہتا ہے چوہدری اپنے قیمتی لباس پرانے ہونے پر ان مراثیوں میں بانٹ دیتا ہے چوہدری کے گندے ، چنگے کاموں کا دفاع مراثی کرتے ہیں۔ کاشف نے کہا کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ یہ اسٹیبلشمنٹ کو پنڈ کا چوہدری بناکر، لوگوں کی کٹ لگواکر صحافت کررہے ہیں یا میراثیوں کا کردار ادا کررہے ہیں؟ ذیشان عزیز نے ردعمل دیا کہ اور اگر آپ پنڈ کے چوہدری کی چپلیں پالش کریں ، حقہ گرم کریں اور پورے جہاں کو پنڈ کے چوہدری کے قصے سنا کر ڈراتے رہیں تو وہ آپکو بڑے ٹی وی چینل پر "اینکر" بھی لگوا دیتا ہے چوہدری سجاد کا کہنا تھا کہ پنڈ کے میراثی منیب جیسے بھی ہوتے ہیں جنکو خرچہ پانی ملے تو چوکیداروں کو بھی چوہدری بنا دیتے ہیں لعنت اس جیسے صحافیوں پر شہبازگل نے طنز کیا کہ چوہدری نے میراثی بھی ٹیسٹ ٹیوب رکھا ہوا ہے
قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے، اینکر ماریہ ذوالفقار، بینش سلیم، نجم ولی، رضوان رضی اور امین حفیظ کو لے کر آئے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ سفارشی شوز سارے بند کر دیئے، پی ٹی وی کو نیا فیس دینگے، اپوزیشن کو بھی سپیس ملے گی۔ عبید بھٹی نے تبصرہ کیا کہ اپنے پالتو اور گھریلو نوکروں کو صحافت کے نام پر سرکاری مال سے نوازنا ہے تو ڈنکے کی چوٹ پر نوازیں اور کہیں کہ ہاں انہوں نے ہم سے وفاداری دکھائی ہے اسلیے سرکاری نوکری اور مال پر ان کا بھی حق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجم ولی تو پہلے بھی ڈی جی پی آر ریلوے کی نوکری سے مستفید ہوچکا ہے۔ عوام نے بھلا آپکا کیا اکھاڑ لینا ہے حوصلہ کریں اور ڈنکے کی چوٹ پر بتائیں۔ لیکن یہ بھونڈی تاویل مت دیں کہ ہنس ہنس کر لوگوں کی وکھیاں دوہری ہوجائیں ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ یہ چہرے پی ٹی وی کو منافع بخش بنائیں گے، واہ کیا ویژن ہے ساجد اکرام نے طنز کیا کہ رضی داد اب پی ٹی وی کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائگا لوگ لیری کنگ ۔ اسٹیفن سیکر ۔ مہدی حسن ۔ فرید زکریا وغیرہ کو بھول جائیں گے مبشر زیدی نے تبصرہ کیا کہ پی ٹی وی میں چوٹی کے اینکر بھرتی ہو گئے ہیں۔ اب قومی ٹی وی کو حکومت کی ٹی سی کی معراج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا سلمان درانی کا کہنا تھا کہ نجم ولی خان، بینش سلیم، رضی دادا آزاد اور غیر جانبدار صحافت سے پی ٹی وی کو منافع بخش بنائیں گے۔ قیامت قریب ہے ایک سوشل میڈیا صارف نے ردعمل دیا کہ ن لیگ کو لاہور کے علاوہ ویسے کوئ جگہ نظر نہیں آتی۔ نادر بلوچ نے رضی دادا کی ایک پوسٹ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ پی ٹی وی میں کسی اینکر کی بھرتی کا یہ معیار ہے صبیح کاظمی کا کہنا تھا کہ چہرے چیک کریں، رضی دادا، نجم اولیا، بینش بٹ، امین انجم حفیظ۔۔۔۔ ان لوگوں سے قسم اٹھواہیں انہوں نے خود کبھی پی ٹی وی دیکھا ہے؟ پہلے ہی لوگ تنگ تھے اب پی ٹی وی بین ہی ہونا رہ گیا ہے احتشام الحق نے تبصرہ کیا کہ باقی ممالک کے اسٹیٹ ٹی وی چینلز کہاں سے کہاں پہنچ گئے، اور ہمارےPtv پر بینش سلیم،نجم ولی،اور رضی کو لایا گیا تاکہ پی ٹی وی ترقی کر سکے۔ کوئی محبِ وطن اوراس ملک سےمحبت کرنے والا ایسا نہیں کرے گا۔آئندہ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں،وہ ملک کی بہتری کے لیے کر رہے ہیں۔ صحافی ثناء اللہ خان کا کہنا تھا کہ کمال ہے ویسے ،اس قسم کی پوسٹیں کرنے والے اینکرز اب پی ٹی وی پر اپوزیشن کو سپیس دیں گے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی تقریر کے خلاف بیان دینے کے بعد ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کو عہدے سے ہٹائے جانے کا امکان ہے۔ تفصیلات کے مطابق صحافی کامران علی نے اپنی ایک ٹویٹ میں بیرسٹر سیف کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی تقریر کے حوالے سے جاری کردہ بیان کے بعد کی صورتحال کی تفصیلات شیئر کیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما کا کہنا ہے کہ واپس آنے کے بعد جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بیرسٹر سیف سے جب ان کے بیان کے حوالے سے تفصیلات پوچھیں تو بیرسٹر سیف نے نا صرف اپنے بیان پر معذرت کی بلکہ ایک گھنٹے تک مسلسل اس بیان پر صفائی بھی پیش کرتے رہے۔ کامران علی نے کہا پی ٹی آئی رہنما کے مطابق اب شائد بیرسٹر سیف کی چھٹی کا وقت قریب آچکا ہے۔ ایک اور صحافی محمد فہیم نے بھی اس خبر کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ مشال یوسفزئی کے بعد خیبر پختونخوا کابینہ سے ایک اور رکن کے دن گنے جاچکے ہیں، اب یہ فیصلہ وزیراعلیٰ نے کرنا ہے کہ انہیں کب عہدے سے ہٹایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی تقریر کے بعد ترجمان خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو ایسی تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی، اس تقریر پر چیئرمین پی ٹی آئی معذرت کرچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ رات گئے وزیراعلیٰ سے رابطہ نہیں ہوسکا، جلسے میں تقریر کے دوران بعض الفاظ ایسے استعمال کیے گئے جو نازیبا تھے، قابل اعتراض الفاظ ہوئے ہیں تو اس کیلئے قوانین موجود ہیں، ان قوانین کے تحت کارروائی کریں مگر ایسا نا کریں کہ اسمبلی کا اجلاس ختم ہوتے ہی اراکین اسمبلی کو پکڑنا شروع کردیں۔
شاہد خٹک نے فہد حسین کو مشکل میں ڈال دیا اور کہا کہ میں مریم نواز کا کلپ چلانا چاہتا ہوں جس پر فہد حسین نے کہا کہ نہیں وہ لائیو نہ چلائیں کیونکہ اس کلپ میں مریم نواز نے پی ٹی آئی رہنماؤں بالخصوص عمران خان سے متعلق انتہائی سخت اور نازیبا زبان استعمال کی تھی۔ شاہد خٹک نے ن لیگ کے حامی صحافی فہد حسین سے کہا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں مریم نواز کے کلپ چلا دوں ؟؟؟ جس پر فہد حسین نے کہا کہ نہیں نہیں وہ لائیو نہ چلائیں۔ فہد حسین نے کہا کہ دو غلط چیزیں ایک نہیں ہوسکتیں۔ میں نے وہ کلپ سنے ہیں۔ اس پر شاہد خٹک نے پھر کہا کہ میں وہ کلپ چلادیتا ہوں۔ اس پر فہڈ حسین نے کہا کہ میں نے وہ کلپ سنا ہوا ہے، میں خود ہی چلوادوں گا یہ تھا مریم نواز کا وہ کلپ جو شاہد خٹک نے چلوانے کی کوشش کی مگر فہد حسین نے نہ چلایا کیونکہ اس میں مریم نواز نے عمران خان کو گھٹیا، بدبودار، منشیات زدہ کہا تھا۔مریم نواز نے عمران خان کو مکروہ کردار، بدکردار بھی کہا مریم نواز نے عمران خان کو بندر کہتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بندر ہے اور اسکے ہاتھ میں ماچس ہے، یہ بندہ نشہ کرکے بے سدھ پڑا ہوتا ہے۔چوہے کی طرح بل میں گھسا ہوا ہے۔ مریم نواز نے مزید کہا تھا کہ آپکو پتہ ہے کہ نشئی کہاں پڑے ہوتے ہیں، قبرستانوں میں پڑے ہوتے ہیں مریم نواز نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ عمران خان پر ذاتی حملے کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی بیٹی چھپائی
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر علی امین گنڈاپور کے بھیس بدل کر برقعہ پہنے افغانستان فرار ہونے والی بی بی سی اردو کی رپورٹ کے سکرین شارٹ کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ جیوفیکٹ چیک نے بی بی سی اردو کے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر گردش کرنے والے آرٹیکل کے سکرین شاٹ کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ زیرگردش سکرین شاٹ گزشتہ برس 5 اکتوبر 2023ء کو بی بی سی اردو کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کا ہے۔ بی بی اردو کی رپورٹ کا جو سکرین شارٹ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خبررساں ادارے نے لکھا ہے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور رہنما تحریک انصاف علی امین گنڈاپور بھیس بدل کر برقعے میں افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ مبینہ فرار 8 ستمبر کو وفاقی دارالحکومت میں تحریک انصاف کے جلسے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کیخلاف کریک ڈائون سے بچنے کیلئے کیا گیا جبکہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ ڈاکٹر سیدہ صدف نامی سوشل میڈیا صارف نے گزشتہ روز اپنے ایکس (ٹوئٹر) سے بی بی سی اردو کے مبینہ سکرین شارٹ کو شیئر کیا تھا اور کیپشن میں لکھا: بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور برقعہ پہن کر افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر سیدہ صدف نے لکھا: علی امین گنڈاپور نے افغان تذکرہ (افغانستان کی ایک سرکاری شناختی دستاویز) ایک خاتون کے نام پر حاصل کی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ علی امین گنڈاپور کے فرار ہونے میں پشاور میں واقع رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں داخل ایک مریض کے رشتہ داروں نے انہیں اس میں سہولت فراہم کی۔ سوشل میڈیاصارف کی طرف سے بی بی سی اردو کے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد سے اب تک یہ پوسٹ 2 ہزار بار سے زیادہ دیکھی جا چکی ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے اسے 82 لائیک ملے ہیں۔ اسی آرٹیکل کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے دعوے سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس جیسے کہ فیس بک اور تھریڈزپر بھی شیئر کیے گئے جنہیں ہزاروں صارفین دیکھ چکے ہیں۔ جیوفیکٹ نے حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ بی بی سی اردو کی طرف سے ایسا کچھ رپورٹ نہیں کیا گیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا 9 ستمبر کی رات بھیس بدل کر افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔ بی بی سی اردو کے نیوز ایڈیٹر ذیشان حیدر نے جیو فیکٹ چیک سے رابطے میں بتایا کہ "ہم نے تو اپنی رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں لکھا"۔ واضح رہے کہ 8 ستمبر 2024ء کو سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقے میں ریلی نکالی تھی جس میں ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ریلی کے بعد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنمائوں وممبران صوبائی وقومی اسمبلی کو پولیس چھاپوں کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جیوفیکٹ کے اس آرٹیکل کا تجزیہ کرنے پر پتہ چلا کہ یہ سکرین شارٹ گزشتہ برس 5 اکتوبر 2023ء کو بی بی سی اردو کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا ہے جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بجائے پاکستان میں غیرقانونی رہائش پذیر غیرملکیوں کو ڈی پورٹ اور خصوصاً افغانیوں کو پاکستان سے نکالنے کے حکومتی منصوبوں بارے لکھا گیا تھا جو اس لنک سے پڑھا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے گزشتہ روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد سلمان اکرم راجہ کو تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا ہے۔ جس پر خواجہ سعد رفیق نے ٹوئٹ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ سلمان اکرم راجہ اور گوہر علی کے لیے میرے ذاتی احترام کے باوجود، یہ ایک حقیقت ہے کہ بطور چیئرمین اور جنرل سیکرٹری دونوں پی ٹی آئی میں نئے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے,یہاں قیادت ذاتی پسند اور ناپسند ,سنیارٹی اور جدوجہد سے زیادہ ناقص ہے۔ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح کام کرنے والی یہ جماعتیں مزاحمت کی سیاست کو منزل تک نہیں پہنچا سکتیں۔ خواجہ سعد رفیق کے ٹوئٹ پر زبیر علی خان نے تنقید کرتے ہوئے لکھا سر تمام عہدے شریف خاندان میں جب بانٹے جاتے ہیں اس پر بھی کچھ لکھ دیں , آپ کو سیاست میں عرصہ گزر گیا آپ پھر بھی ن لیگ میں عہدہ نہیں مل رہا کیوں؟ کیونکہ آپ مریم نواز کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں, سچ پورا بولنا چاہئے. ابوذر سلمان نیازی نے کہا ابھی تک عمران خان کے خاندان کا کوئی بھی شخص کسی بھی عہدے پر فائز نہیں, جو پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں سے مختلف رکھتی ہے,ہمیں غلاموں کی طرح کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمر جٹ نے لکھا خواجہ سعد رفیق صاحب کی یہ ٹویٹ اپنے تاحیات قائد,ان کی صاحبزادی۔بھائی۔۔بھھتیجے۔بھانجے۔اور سمدھی کے خلاف ایک نہایت سیریس قسم کی چارج شیٹ ہے۔ عدیل راجا نے لکھا وہ شخص جو ایک شریف کے زندہ ہونے تک کبھی اپنی پارٹی کا چیئرمین یا صدر نہ بن سکا اب پی ٹی آئی کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کہہ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں علی امین گنڈاپور نے مریم نواز سے متعلق کچھ الفاظ کہے جس پر ن لیگی رہنما سیخ پا ہیں اور سخت ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریم نواز میں لاہور آرہا ہوں، میں مینارپاکستان جلسہ کرکے رکھاؤں گا، میں بارات لیکر آرہا ہوں اس پر ن لیگی رہنما شدید غصے میں آگئے اور کہا کہ علی امین گنڈاپور کو عورتوں کی عزت کرنا نہیں آتی، انہوں نے چیلنج کیا کہ اب علی امین گنڈاپور اٹک کا پل کراس کرکے دکھائے۔ ن لیگ کے اس غم وغصے پر پی ٹی آئی رہنماؤں، سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں کا کہنا تھا کہ کیا عزت صرف مریم نواز کی ہے؟ پی ٹی آئی خواتین کی کوئی عزت نہیں؟ جب مریم نواز کی پولیس لوگوں کے گھروں میں گھسی، پی ٹی آئی خواتین کو گھسٹیا،انکی بے حرمتی کی اس وقت خواتین کی عزت یا نہیں آئی؟ سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت جیسا گھٹیا کیس بنایا گیا، انکے خلاف ایک کیس کے بعد دوسرا کیس بنایا گیا، اسکے سابق شوہر کو لانچ کرکے اسکی کردارکشی کی گئی، اس وقت خواتین کی حرمت یاد نہیں آئی؟ خدیجہ صدیقی نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور کے خطاب پَر حکومتی جماعتوں نے جتنا شور مچایا ہے، اگر اسکا آدھا بھی مچا دیتے جب بشریٰ بی بی پر غلیظ عدت کیس بنایا گیا، ان کو عدالت میں ذلیل کرنے کے لئے انکی ماہواری کا دورانیہ بیان کیا جا رہا تھا! جب عون چودھری اور مُبینا ملازم کی جھوٹی گواہی پر بشریٰ بی بی کو ۷ سال سزا دی گئی تھی ،تو ملک میں یہ حالات نا ہوتے! کہاں تھی تب آپکی اخلاقیات؟! عائشہ بھٹہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جمائمہ خان کی نجی زندگی سے لے کر عدت کیس میں بشری عمران خان سمیت پاکستان تحریکِ انصاف کی تمام خواتین پردنیا جہاں کی غلاظت انڈیلنے والےعورت کو سیاست میں گالی بنانےوالےن لیگی آج پریس کانفرنس پرپریس کانفرنس کرکےہمیں عورت کی عزت و تکریم پردرس دےرہے ہیں۔ یہ منافقت کا بدترین درجہ ہے زبیر علی خان نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی کردار کشی کرنے کے لیے تاریخ کا غلیظ ترین کیس عدت نکاح بنوایا، شرعی قانون تک تبدیل کر دیا لیکن خواتین کے حرمت کے جعلی علمبردار خاموش رہے۔۔۔ اب ان کو کس منہ سے خواتین کی حرمت یاد آگئی؟ یہ منافقت کے اعلی معیار پر قائم ہیں اسد نے تبصرہ کیا کہ پاکستان میں لوگوں اور میڈیا کی اخلاقیات کا دائرہ بس ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے گرد گھومتا ہے، پی ٹی آئی کی ہر طرح کی بکواس پر نا تو کوئی ڈان نیوز، جینو نیوز اور دیگر چینلوں کی مائیاں ویڈیوز بناتی ہیں نا کسی کو ان کی بکواس میں کچھ برا نظر آتا ہے۔ بھلے اسکا شکار خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ پی ٹی آئی خواتین پر پولیس گردی کے ذریعے تشدد کرانے والی جماعت کو علی آمیں گنڈا پُور کے بیان پر اعتراض ہے ۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی بیوی پر اسلامی تاریخ کا گھٹیا ترین عدت کیس چلانے والے بھی آج گنڈا پور کی تقریر پر اعتراض کر رہے ہیں ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی کردار کشی کرنے کے لیے تاریخ کا غلیظ ترین کیس عدت نکاح بنوایا، شرعی قانون تک تبدیل کر دیا لیکن خواتین کے حرمت کے جعلی علمبردار خاموش رہے۔۔۔ اب ان کو کس منہ سے خواتین کی حرمت یاد آگئی؟ یہ منافقت کے اعلی معیار پر قائم ہیں ایڈوکیٹ فائزہ نے تبصرہ کیا کہ اب یہ خاتون بھی اخلاقیات کا درس دیں گی۔ سبحان اللّٰہ! آپکی غیرت کہاں تھی جب PTI کے لوگوں کے گھروں کی چادر چار دیواری کو پامال کیا جا رہا تھا؟ جب خواتین کے سروں سے چادروں کو کھینچا جا رہا تھا؟ جب انہے سڑکوں پہ گھسیٹا جا رہا تھا؟ جب جعلی مقدموں میں انہیں عدالتوں میں مہینوں ذلیل کیا جا رہا تھا؟ بد قسمتی سے انکی پوری پارٹی اور انکے سپورٹرز کی نظر میں عزت صرف ایک عورت کی ہے۔ منیبہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی خواتین کی سرعام بےحرمتی کرنے پر کسی وزیر ،مشیر اور ٹاؤٹ صحافیوں کو کبھی خیال نہیں آیا ؟ کیا عورت صرف مریم صفدر ہے ؟ عزت صرف ایک مریم صفدر کی ہے ؟ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون کے نزدیک صرف عورت کی عزت مریم نواز کی حد تک ہے باقی کوئی بھی عورت باعزت ان کی نظر میں نہیں ہے اس کا منہ بولتا ثبوت ان کی حکومت میں بشر بی بی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا عدت جیسے غلیظ کیس بنائے گئے اور یہ ایک مکروہ کردار اپ کے سامنے ہے عثمان فرحت کا کہنا تھا کہ عورتوں کی عزتیں ان کو بے گنا گرفتار کرکے منہ پر کالے کپڑے چڑھاتے وقت یاد نہیں آئیں تھیں؟

Back
Top