سوشل میڈیا کی خبریں

گزشتہ رات پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتار کرلیا گیا ہے،پولیس نے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہو کر سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے وقت قومی اسمبلی کے اندر کی لائٹس بند کر دی گئیں، جس کے بعد سول کپڑوں اور نقاب میں ملبوس چند اہلکار پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہو گئے، جبکہ باہر موجود پولیس نے پوزیشن سنبھال لیں۔ پی ٹی آئی رہنما شیخ وقاص اکرم، عامر ڈوگر، زین قریشی، احمد چٹھہ، یوسف خان، جنوبی وزیرستان سے رکن اسمبلی زبیر خان سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس پر صحافیوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانیوالی جماعت نے ووٹ کا تقدس پامال کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ پارلیمنٹ ایک ایس ایچ او کی مار ہے صحافیوں نے پیپلزپارٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ انہوں نے جمہوری روایات بہت سستے میں بیچ دی ہیں۔ بشیر چوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ پارلیمنٹ ہاوس کے اندر سے گرفتاریاں کرنے کی کم از کم پولیس میں تو ہمت نہیں ہے۔ رضوان غلزئی نے طنز کیا کہ یہ پارلیمنٹ “ایک ایس ایچ او کی مار ہے” زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے آج ووٹ کو عزت دلوا دی ۔۔۔ جن کے ووٹوں سے وہ منتخب ہوئے انہیں کو عزت دے رہے ہیں جبرن ناصر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ کل رات کالے شیشے والی گاڑیوں میں پارلیمنٹ کے اندر گھسے اور لائٹس بند کرکے ایم این ایز کو دبوچ کر لے گئے وہ کل پوری قوم کو پارلیمنٹ کی اوقات بتا گئے۔ بہت سستے میں بیچ دی پارلیمنٹ ن لیگ اور پی پی پی اتحاد نے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی اس پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے زوالفقار علی بھٹو نے پھانسی قبول کی تھی۔ کبھی اس پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے نواز شریف نے ۷ سال جلاوطنی کاٹی۔ کچھ اپنی ہی قربانیوں کا خیال کرلیتے۔ ان کو بس اب بادشاہ بننے سے مطلب ہے چاہے ان کی حکومت میں صرف کھنڈرات ہی کیوں نا باقی رہ جائیں۔ ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ ن لیگ کی شرمناک تاریخ رہی ہے کہ کبھی یہ اپنے غنڈوں سے سپریم کورٹ پر حملہ کروا کر چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کو تھپڑ اور مکے پڑواتے پاۓ گئے۔ آج رات انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کر کے پی ٹی آئی کے منتخب ارکان اسمبلی اغوا کرواۓ۔ اب 9 مئی پر بھی جوڈیشل انکوائری کی جاۓ، یہی مجرم نکلیں گے۔ عامرمتین نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ معاف کیجیے گا پارلیمان کی بے عزتی پر کچھ لوگ سوچ رہے ہو گیں کہ میں شائد زیادہ جزباتی ہو رہا ہوں۔ بلکل صحیح۔ میں واقعی جزباتی ہوں آج۔ اس اطلاع پر کے پولیس پارلیمان میں گھس کر ممبران کو گرفتار کر کے لے گئ۔ ہم پارلیمانی صحافی کبھی ایسا سوچ ہی نہی سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عمران خان یا اس کی پارٹی کی بات نہی۔ یہ پارلیمان کی بات ہے۔ ہم نے ایسا پارلیمانی حملہ نہی دیکھا۔ میں نے زندگی گی تیس سال پارلیمان کی صحافت میں گزارے۔ اب گند پڑ گیا ہے۔ پتا نہی کون کیا ہے۔ کہاں عزت ہے اور کہاں نہی۔ بنیادی بات۔ عزت زبردستی سے نہی ہوتی۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ آج کی پارلیمان اک شرمندگی کا مقام ہے۔ اور ہم سب بھی شرمندہ ہیں۔ میرے دوست شائد اس دور کی ترجمانی بہتر کر سکیں۔ مگر موجودہ بہت گھٹیا لوگ ہیں۔ نادربلوچ نے طنز کیا کہ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ وہ ایس ایچ او جو بلوچستان میں امن قائم کرنے چلا تھا۔۔ اس اقدام سے یقیناً سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام بھی آئیگا ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایم این ایز کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گرفتار کرنا یہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے امجد خان نے ایک ویڈیو شئیر کرتے ہوئے ردعمل دیا کہ یہ پارلیمنٹ ایک ایس ایچ او کی مار ہے ، تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں ان کی نگرانی میں پارلیمنٹ کو تقدس پامال کیا گیا ایمان مزاری نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ “جناح ہاؤس” جا کر رو رہے تھے ان سے پوچھنا تھا کہ ابھی تک پارلیمان رونے نہیں پہنچے؟ویسے ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ “جناح ہاؤس” ہے کیونکہ بلڈی سویلین کے ٹورز ۹ مئی کے بعد شروع ہوئے ہے لیکن یقیناً پارلیمان کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہے۔مجسمے جلانے کے جواب میں ملک کا نظام احمد وڑائچ نے طنز کیا کہ اسلام آباد میں آپریشن ردالپارلیمان کے دوران فتنہ سول بالادستی کے 11 کارندے گرفتار، فتنہء سول بالادستی کا چیئرمین بھی شامل وسیم ملک کا کہنا تھا کہ اے میرے وطن کے عظیم مجاہدو !آپریشن رد الپارلیمان کے پہلے فیز میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ لئے ہوں تو براہ کرم ریڈ زون کے داخلی/خارجی راستوں کو تو کھول دیجیئے۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف کی جو رات کے 2 بجے پی ٹی آئی رہنماؤں کو جگتیں ۔۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کو چوہوں سے تشبیہہ دیتے رہے۔ خواجہ آصف جگتیں عین اس وقت ماررہے تھے جب پارلیمنٹ ہاؤس میں نقاب پوش اہلکار ویگوڈالوں سمیت داخل ہوئے تھے اور پارلیمنٹ ہاؤس کی لائٹیں بجھاکر پی ٹی آئی رہنماؤں کو حراست میں لیا جارہا تھا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں خواجہ آصف نے علی امین گنڈاپور پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ گنڈاپور نے 15 دن کی بڑھک ماری تھی۔اک دن لنگ گیا 14دن رہ گئے ۔انہوں نے پشتونوں کا لشکر لے کر آنا تھا سنا ہےسارے پہلے دن ھی چھپ گئے ھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی اسمبلی سے باہر نہیں آرہے اندر سو گئے ھیں۔ سیاسی ورکر ھو تو لاج رکھو دلیری سے گرفتاری دو سارے چوہوں کی طرح بلوں گھس گئے ھو۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور کو کہو باہر آئے ابھی تو پہلا دن ھے 14دن باقی ھیں ۔ حوصلہ کر شیر بن ۔ اس پر معید پیرزادہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تباہ کرنے کرنے والے چوروں میں یہ شیطان سر فہرست ہے! اور یہ سب شریف خاندان کی پیداوار ہیں اور شریف خان جنرل ضیا کی پیداوار ہے! جتھوں دی کھوتی اتنے آند کھلوتی زبیر نیازی کا کہنا تھا کہ تمہارے جیسے دلالوں کی وجہ سے پارلیمانی نمائیندوں کی آج بے توقیری ہو رہی ہے۔عوام کے ووٹ سے آتا تو تجھے سمجھ ہوتی جمہوریت کی شاہد حق نواز نے ردعمل دیا کہ اندازہ کیجئے ایسا شخص ملک کا وزیر دفاع ہے ۔ملک میں اس وقت ہیجان کی کیفیت ہے،ایک صوبے کا منتخب وزیراعلی پچھلے کئی گھنٹوں سے غائب ہے۔عوام کے منتخب نمائندوں کو نیشنل اسمبلی کے باہر سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔کے پی میں عوام کا غصہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔اور یہ صاحب عقل سے عاری شخص پشتون اور پنجابیوں کو اشتعال دلا رہا ہے۔خواجہ صاحب آپ کا اپنا جملہ آپ پر فٹ آتا ہے۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے امجد اقبال نے تبصرہ کیا کہ جس ملک کا وزیر دفاع ایسی سوچ کا مالک ہو وہاں خاک ترقی یا امن ہوگا شرم کا مقام ہے اگر ریاستی طاقت استعمال کرکے غیر آئینی کام کرنے ہیں تو پھر ملک میں کہاں رول آف لا ہوگا کتنے دن ایسے نظام کو چلا لو گے پورے ملک کو آپ جیسے مسخروں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے فاروق محسود کا کہنا تھا کہ اس انسان میں ہمیشہ پشتونوں کے خلاف بغض دیکھا ہے" پشتونوں کا لشکر لیکر انا تھا اور سارے چھپ گئے" اس جملے میں ان صاحب کی ذہنیت کھل کر سامنے ارہی ہے اور انکی اس قسم کے چول مارنے کی وجہ سے پی ایم ایل ن کے پی میں جگہ نہیں بنا پارہی،
اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے انکشاف کیا ہے کہ مرحوم سینئر صحافی و اینکر پرنس ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے بعد مراد سعید ان ہی کے گھر میں چھپے ہوئے تھے، پورے پاکستان کو چیلنج ہے میری بات غلط ثابت کر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے مراد سعید کو اپنے بعد لیڈر نامزد کیا تھا، بانی کو کچھ بڑا ہونے کا پتا تھا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ ارشد شریف کا قتل ہوگا۔ اس پر اینکر عمران ریاض نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ابھی ارشد شریف شہید کی فیملی نےمجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ہمارا نام لے کر فیصل واڈا صاحب نے اے آروائی نیوز پر جو معلومات دیں وہ غلط اور گمراہ کن ہیں انہوں نے مزید کہا کہ فیصل واڈا کو کوئی بتائے کہ ارشد شریف شہید کے قتل کے وقت DGISI کون تھا۔ یہ شخص تین صحافیوں کے سامنے انکے ساتھی کی شہادت پر جھوٹی کہانیاں سناتا رہا۔ صحافی عمرانعام کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے تین دوست، ارشد شریف کے چینل پر بیٹھ کر، ارشد شریف کے بارے میں فرضی کہانیاں سنتے رہے لیکن اس بے گناہ کے حق میں بولے نہیں۔۔۔ صحافی طارق متین نے ردعمل ددیا کہ فیصل واوڈا کو رات بٹھا کر زیادتی کی گئی اگر یہ کہیں سے حکم تھا بھی تو تین صحافیوں نے میری رائے میں ارشد شریف شہید سے دوستی اور صحافت دونوں کا حق ادا نہیں کیا۔ پہلا جھوٹ گھر میں ارشد صاحب کی شہادت کے بعد مراد سعید کا چھپنا جس کا شہید کے خاندان نے ہی تسلی بخش جواب دے دیا انکا مزید کہان تھا کہ دوسرا جھوٹ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے مراد سعید کو وہاں چھپایا کہ ڈھونڈنا ممکن نہیں فیض حمید نے بہت پہلے ڈی جی کی پوسٹ سے ہٹا دیے گئے ۔ حیرت ہے تینوں مایہ ناز صحافی سنتے ہی رہے
معروف ٹک ٹاکر علی حیدرآبادی اپنے 20 ملین فالوورز والا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بین کردیا گیا جس کے بعد وہ اور انکی اہلیہ زاروقطار روتے رہے۔ علی خان عرف علی حیدرآبادی نے اپنے مخصوص انداز سے راتوں رات شہرت پائی اور آج ایک انفرادی پہچان رکھتے ہیں اور انکی ویڈیوز کو بہت پسند کیا جاتا تھا ۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ٹک ٹاکر علی حیدر آبادی اور ان کی اہلیہ زینب علی کو زاروقطار روتے دیکھا گیا۔ ویڈیو میں زینب نے اپنے تمام چاہنے والوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے شوہر علی حیدرآبادی کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بند ہوگیا ہے جس پر تقریباً 20 ملین سے زائد فالوورز تھے۔ زینب علی نے زاروقطار روتے ہوئے اپنے فینز سے التجا کی کہ برائے مہربانی ہیش ٹیگ ”اَن بین اکاؤنٹ“ لگا کر اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور علی کا اکاؤنٹ بحال کروانے میں ہماری مدد کریں، کیونکہ انکے لیے سب کچھ ٹک ٹاک ہی ہے۔ دونوں میاں بیوی نے ٹک ٹاک اکاؤنٹ بین ہونے کے بعد نیا اکاؤنٹ بنالیا ہے جس پر اب تک تقریبا 50 ہزار کے قریب فالورز ہوچکے ہیں اور اس اکاؤنٹ پر وہ اپنے رونے کی ویڈیوز شئیر کررہے ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ یہ نیا طریقہ نکالا ہے انہوں نے اپنا نیا اکاؤنٹ پروموٹ کرنیکا ۔ فیاض شاہ نامی صارف نے لکھا کہ یہ اس لیے رو رہی ہے کیونکہ ٹاک ٹاک نے ان کا اکاؤنٹ بین کر دیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ جس نے بھی اِس کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بین کروانے کا نیک کام کیا ہے اللہ اُسے دُنیا و آخرت میں کامیابی نصیب فرمائے۔ آمین وجاہت سمیع کا کہنا تھا کہ یہ ہماری نوجوان نسل کس کاموں میں لگی ہوئی ہے ؟ ایک ٹِک ٹاک اکاؤنٹ بند ہونے پر ایسے ظاہر کیا جا رہا جیسے علی حیدرآبادی اور اس کی بیوی کی زندگی ختم ہو جائے گی۔ پیسے کمانے کے اور بہت طریقے ہیں۔ اللہ نے رزق حلال کمانے کے بہت کاروبار انسانوں کو مہیا کئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ علی حیدرآبادی اور اس کی بیوی کی مشکلات کو آسان کردیں، آمین۔ اس پر عارف ڈار نامی صارف نے جواب دیا کہ وجاہت صاحب یہ صرف پبلک اسٹنٹ کرتے ہیں ویور شپ بڑھانے کیلئے۔۔۔۔ڈرامہ بازیاں۔۔۔ یہ تو کئی بار اپنے مرنے کی خبریں چلوا چکے اسی سوشل میڈیا پر
ٹائمز آف اسرائیل ویب سائٹ پر پبلش بلاگ پر دانشوڑوں کی روایتی دو نمبری پکڑی گئی۔ عمران خان پر بلاگ ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کیلئے آذربائیجان کی ایک خاتون نے لکھا جو ایک فری لانسر ہے اور 4 پاؤنڈز یعنی 1400 روپے میں بلاگ لکھتی ہے۔ اس خاتون فری لانسر نے یہ بلاگ اسرائیلی ویب سائٹ کیلئے لکھا اس خاتون کی رائے نہ تو ٹائمز آف اسرائیل کا اداریہ یا رائے ہے اور نہ ہی باقاعدہ کالم ہے۔۔ ایسے بلاگز دنیا نیوز، ایکسپریس، سماء، اے آروائی کیلئے کوئی بھی اکاؤنٹ بناکر لکھ سکتا ہے اور اسکے لئے ان اداروں کا باقاعدہ ملازم ہونا ضروری نہیں ہے۔ مگر پاکستان میں اس بلاگ کو اسرائیلی اخبار کی رائے بناکر پیش کیا جارہا ہےا ور صبح سے شام تک کئی بڑے چینلز اسے ایسے پیش کررہے ہیں جیسے یہ اسرائیلی اخبار کااداریہ ، تجزیہ یا رائے ہے۔ احمد وڑائچ نامی صحافی نے اس کالم کا پوسٹمارٹم کیا ہے اور تبصرہ کیا ہے کہ بلاگ انتہائی سطحی لیول کی تحریر ہے، جس کیلئے کوئی تحقیق نہیں۔ بلاگ لکھنے والی خاتون کا تعلق آذربائیجان سے ہے، برسلز میں مقیم ہیں، فائیورر کے مطابق فکشن اور ہارر اسٹوریز لکھتی ہیں۔ غالباً اسی فکشن کا استعمال اس بلاگ میں کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خاتون نے اگر مگر کر کے اپنی رائے دی ہے، مثلاً خاتون کا کہنا ہے عمران خان نے اپنے دور میں پاکستانی مفاد کیلئے دشمنوں کی طرف قدم بڑھایا شاید اسی لیے وہ اسرائیل پر بھی اپنی پوزیشن بدل لیں۔ شاید، کیوں کہ، چنانچہ آگے بڑھیں تو خاتون کا کہنا ہے ’رپورٹس کے مطابق‘ عمران خان نے گولڈ اسمتھ فیملی کے ذریعے اسرائیلی آفیشلز کو پیغام بھجوائے۔ کون سی رپورٹس ہیں، نہیں بتایا۔ انکے مطابق تھوڑا سا آگے جا کر کہتی ہیں ’’اگر یہ رپورٹس درست ہیں‘‘، اندازہ لگائیں خاتون کو خود معلوم ہی نہیں کہ رپورٹس درست بھی ہیں یا نہیں، نہ رپورٹس کے سچا ہونے کیلئے کوئی تحقیق کی، پھر خود ہی ان رپورٹس پر شکوک اٹھا دیے۔خاتون نے خود ہی سوچا، اندازے لگائے کہ یہ ہو گا وہ ہو گا، ایسا ہو سکتا ہے، ویسا ہو سکتا ہے، پہلے یہ کیا تو اب وہ کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پورا بلاگ اسی چیز سے بھرا ہوا ہے۔ آخر میں اس بلاگ کو ٹائمز آف اسرائیل کا اداریہ یا کالم کہنے والوں پر چار لفظ احمد وڑائچ نے دنیا نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ببلاگ لکھنے والی خاتون اسرائیل نہیں، آذربائیجان کی ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کیلئے بلاگ لکھا ہے جو خاتون کی ذاتی رائے ہے۔ فائیورر کے مطابق 4 برطانوی پاؤنڈ میں بلاگ لکھ دیتی ہیں۔ اپنی تصیح کر لیں ۔ سید محمد علی کو بھی بتا دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا نیوز جس نے دنیا بلاگز کے نام سے سیکشن بنارکھا ہے اس نے اسے بھرپور کوریج دی اور ایک سید محمد علی نامی شخص کو دفاعی تجزیہ کار بناکر پیش کیا۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ عمران خان پر ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کیلئے بلاگ لکھنے والی آذربائیجان کی خاتون 4 برطانوی پاؤنڈ (1462روپے) میں آپ کیلئے بھی بلاگ وغیرہ لکھ دیں گی۔ فائیورر پر پروفائل موجود ہے۔ حسن ایوب خان کو جواب دیتے ہوئے احمد وڑائچ نے کہا کہ سمجھ سکتے ہیں آپ صحافت میں پیراشوٹر ہیں، اداریے، کالم، بلاگ میں فرق نہیں کر پاتے ہوں گے۔ بہرحال ٹائمز آف اسرائیل میں کسی آذربائیجانی خاتون نے ایک بلاگ لکھا ہے۔ یہ جریدے کا کوئی اداریہ نہیں، نہ ہی اسرائیلی حکومت کی رائے ہے
گزشتہ دنوں فواد چوہدری نے غریدہ فاروقی کے پروگرام میں شرکت کی، غریدہ فاروقی تحریک انصاف کی مخالف ترین صحافیوں میں سمجھی جاتی ہیں اور انکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں۔ غریدہ فاروقی کے شو میں فوادچوہدری کی شرکت پر شہبازگل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے غریدہ فاروقی کو گھٹیا صحافی نما ٹاؤٹ قرار دیا اور غریدہ فارقی کی صحافت کو غلاظت قرار دیا جس پر فوادچوہدری بھی جواب دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ شہبازگل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب ایسے گھٹیا صحافی نما ٹاؤٹ کے پروگرام پر جا کر آپ اپنے نام کا نقصان کریں گے۔ انہوں نے صحافت نہیں کی خطرناک ٹاؤٹ گیری کی ہے۔ ان کے شو پر بیٹھنا اس پوری موومنٹ کی توہین ہے۔ اس پر فوادچوہدری نے جواب دیا کہ صحافی اور سیاستدان مستقل حقیقتیں ہیں باقی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، اپنے نقطہ نظر کے خلاف بات کرنے والوں کو بھی سپیس دینی ہوتی ہے جمہوریت اسی اصول پر کھڑی ہے ۔۔۔ انشاللہࣿ آپ واپس آئیں گے تو یہ سارے ناقدین اس وقت آپ کے ساتھ ہوں گے وقت بدلتے کون سی دیر لگتی ہے۔۔ شہبازگل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب آپ درست کہہ رہے۔ نقطہ نظر کے خلاف بات کرنے والوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر زاہد حسین صاحب ہوں یا محمد حنیف صاحب یا حامد میر ہوں یا محمد مالک یا عارفہ نور ہوں یا بینظیر شاہ۔ یہ تمام لوگ دبا کر تنقید کرتے ہیں اور ہم ان کا احترام۔ شہبازگل نے مزید کہا کہ معاف کرنا یہ خاتون صحافی نہیں ہے۔ نہ ہی اس نے صحافت کی۔ انہوں نے غلاظت کی ہے۔ غلاظت کو صحافت کہنا مختلف نقطہ نظر کہنا میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ انہوں نے وہ حدود کراس کی ہیں جو ہمارے معاشرے میں دشمن بھی نہیں کرتے۔ ان میں سے چند لوگوں کے ہاتھوں ہمارے لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا احتساب ضروری ہو گا۔ وقت ہے یہ بھی گزر جائے گا۔ جنہوں نے ارشد شریف کی مییت کی توہین کی وہ حساب تو دیں گے ایک دن دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
سینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کے حج کے حوالے سوشل میڈیا پر بحث چل پڑی,حج سرکاری تھا یا نہیں اس معاملے پر شیعب صہبائی نے بات کی جس پر عاصمہ شیرازی نے لکھاشاہین صہبائی صاحب! آپ کے لیے بہت عزت تھی، افسوس اب نہیں رہی۔ سرکاری حج میں نے کیا نہیں اور جو کیا اس کے پیسے ادا کیے، رسیدیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولا علی کا قول ہے دوست وضاحت مانگتا نہیں، دشمن یقین کرتا نہیں اس لیے یہ معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے۔ باقی شکر ہے میں نے کینیڈا کا سفیر لگنے کے لیے کسی حکومت کی سفارشیں نہیں کیں۔ اب آپ صحافی سے ٹرول بن چکے ہیں وقت گزاری کے لیے اچھا مشغلہ ہے۔ سو لگے رہیں۔ جوابی ٹوئٹ پر شاہین صہبائی نے لکھا عاصمہ ، میں معذرت خواں ہوں کے جو ٹویٹ میں آپکو پرسنل میسج کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ آپکے بہت فولوور ہیں اور آپ مجھے فالو نہیں کرتیں اسلئے میری ٹویٹ پبلک میں چلی گئی، مگر پھر میں نے سوچا ایک مخلص مشورہ ہی دیا ہے . مجھے نہیں معلوم تھا آپ اپنے خرچے پر حج کرنے گئی تھیں - قابل تحسین بات تھی - انہوں نے مزید کہا کہ آپکو جیو سے اے آر وائی میں لانے اور آپکا خاص خیال رکھنے پر مجھے فخر ہے اور آپکی پرسنل زندگی میں بھی ضیاء صاحب آمر متین اور دوستوں سے مل کر آپکا جیون ساتھی ہم نے مل کر چنا - آپ خوش رہیں - انہوں نے کہا آپ کہتی ہیں رسیدیں ہیں تو مجھے یقین ہے ہونگی مگر آپکا مطیع اللہ جان کے ساتھ انٹرویو ہے - جو مانگتا ہے رسید دکھا کر چپ کرا دیں - یا پیسے ابھی بھی دے دیں - مجھے کوئی آپ سے شکوہ نہیں - میں اپنی اننگ کھیل چکا اور آجکل آپ کا وقت ہے - انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی ہے آپ باقی لوگوں کو خاموش کر سکتی ہیں - الله آپکا اور مدثر کا خیال رکھے گا - باقی یہ کینیڈا والی بات محض ایک پی پی والوں کا الزام تھا جو الزام ہی ہے - مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ویسے بھی میں امریکی شہری ہو کر پاکستان کا سفیر کہیں نہیں لگ سکتا مگر یہ سوچنے والوں کے لئے بات ہے ان کا کہنا تھا کہ - آپ خوش رہیں اور الله آپکو مزید ترقی دے - میرے پاس اگر کوئی موقع آیا میں آپکی مزید مدد کرونگا اگر ہو سکا - شکریہ ایک صارف نے عاصمہ شیرازی کی پرانی ویڈیو نکالی اور لکھا عاصمہ باجی آج , میں نے سرکاری حج نہیں کیا,عاصمہ باجی چند سال قبل,شوہر کے ہمراہ سرکاری حج کرنے کا دفاع کررہی ہیں۔ فرخ شہزاد نے بھی کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھایا تب آپ جھوٹی تھیں یا اب,ایون فیلڈ کی رسیدیں تو کوئی دکھا نہیں پایا، لیکن آپ رسیدیں منہ پر ماریں اور سچ کو آشکار کر ہی دیں تا کہ یہ سرکاری حج کا معمہ حل ہو جائے۔ امجد اقبال اعوان نے لکھامحترمہ عاصمہ شیرازی صاحبہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے سرکاری پیسوں اور سہولیات سے حج کیا جب حج واپسی پر آپ پر تنقید ہوئی تو آپ نے کہا کہ میں نے حج کے پیسے جمع کرا دئیے ہیں لیکن پروٹوکول اور سہولیات کو تو آپ نے انجوائے کیا حج ٹوٹل اپنی کمائی اور مشقت کے ساتھ مقبول حج ہے انہوں نے مزید کہا کہ باقی اگر شاہین صہبائی صاحب نے وہی بات کی ہے جو لیبل لگ جائیں وہ انسان کا ساری زندگی پیچھا کرتے ہیں جب آپ ایک صحافی سے پارٹی کے ترجمان بنیں گی تو پھر اسی طرح تنقید ہوگی اور پھر اسی طرح سب کہیں کے کہ آپ صحافی سے زیادہ ٹرولر بن گئیں ہیں,معذرت کے ساتھ.
وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان جیل میں نوکیا 3300 استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا سب سے محفوظ ترین موبائل سمجھا جاتا ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ عمران خان جیل میں اتنے اکیلے نہیں ہیں سارا دن میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں۔ہمیں تو جیل میں گفتگو کیلئے کوئی نہیں ملتا تھا مشقتی سے ہی بات کرتے تھے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کا معاملہ زیادہ عرصہ معلق نہیں رہے گا، چند دنوں یا ہفتوں میں معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے۔ سوشل میڈیا صارفین کا اس پر کہنا تھا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ ابھی تک نوکیا 3300 میں پھنسے ہیں صحافی طارق متین نے طنز کیا کہ نوکیا 3300 محفوظ فون ہوتا ہے اخروٹ توڑو کیل ٹھونکو ۔ جھوٹ بولنے والے کے بے فکر ہو کے پھینک کے مارو احمد ابوبکر نے تبصرہ کیا کہ نوکیا 3300 پرانا فون۔۔۔۔کیا بچگانہ گفتگو ہے، ایسے مہمان کو روزانہ سکرین پر مسلط کرنا سمجھ سے بالاتر ہے تنولی کا کہنا تھا کہ اس بیان کے بعد آئی فون اور سام سنگ موبائل کی مارکیٹ گر گئی اور ہر طرف نوکیا 3300 کی آواز ہے۔ جمیل فاروقی نے ردعمل دیا کہ نوکیا 3300 سے "عالمی ریکٹ" چلانے والا آئی فون والوں کو سمجھ نہیں آرہا سید بخاری کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کے اس دعوی پر کہ نوکیا 3300 جیلوں میں بھی کام کرتا ہے،جہاں سگنل نہیں ہوتے۔ نوکیا والے خود بھی حیران ہیں؟ صابر شا کر نے ردعمل دیا کہ ریحانہ امتیاز ڈار سے ہارےہوئےفارم47کےوزیردفاع نے اہم ترین انکشاف کردیااوربتایا کہ عمران خان جیل میں دنیاکےبہترین حساس اورمحفوظ ترین کمیونی کیشن کےآلات استعمال کررہاہے اورجیل کی کال کوٹھڑی سےایک عالمی نیٹ ورک چلا رہا ہے اور اس آلے کا نام ہے نوکیا فون 3300 ارشد کا کہنا تھا کہ نوکیا 3300 وہ ڈیوائس ہے جو جیل میں جیمرز کی موجودگی میں بھی کام کرتی ہے سلمان حیدر نے سوال اٹھایا کہ کیا وزارت دفاع نوکیا 3300 کو پکڑ سکتی ہے ؟ اکبر نے تبصرہ کیا کہ خواجہ آصف کی بونگی کا مطلب ہے کہ عمران خان نے 500 روپے کے موبائل فون نوکیا 3310 سے پوری ریاست کو نچایا ہوا ہے جنکا پوری جیل پر قبضہ ہے جنکے پاس کمیونیکیشن intercept کرنے لئے اربوں روپے کا بجٹ ہے جنکے انڈر ملک کی ساری مشینری اور ادارے ہیں امیتاز اعوان نے تبصرہ کیا کہ یہ بندہ اس قابل ہے کہ اسے وزیر دفاع لگایا جائے۔ ان پڑھ جاہل لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے۔ نوکیا 3300 کو فوت ہوئے بھی مدت ہو گئی ہے۔ خواجہ کو اب یاد آیا۔ خان صاحب صحیح فرماتے یہ اتنے پڑھے لکھے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف بونگیاں مار سکتے ہیں۔
پنجاب کی یونویرسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے9 جامعات کے امیدواروں کے انٹریوز مکمل کرلیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق11 جامعات کے امیدواروں کو وائس چانسلرز کے انٹرویوز کے لیے بلایا گیا تھا9 امیدواروں کو پنجاب کی جامعات کے لیے منتخب کرلیا گیا جبکہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف نارووال کے امیدواروں کو وزیراعلی پنجاب نے مسترد کردیا۔ ذرائع کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی( یو ای ٹی )لاہور، بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) ٹیکسلا اور خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کے وائس چانسلرز سمیت9 جامعات کے وائس چانسلرز کو فائنل کرلیا گیا ہے جن کے نوٹیفکیشنز کچھ دن بعد جاری کردئیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا صارفین اس پر مریم نواز کا مذاق اڑارہے ہیں اور طنزیہ تبصرے کررہے ہیں۔ ثمینہ پاشا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سنا ہے جو مزار اقبال پر اردو میں دو سطریں نہیں لکھ سکیں وہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلر کا"میرٹ " چیک کر کے ان کی تعیناتی کرنے جا رہی ہیں۔ ! ٹھیک ہو گیا صحافی طارق متین نے خبر شئیر کرکے اپنے دلچسپ تاثرات کا اظہار کیا کامران کا کہنا تھا کہ لگتا ہے ان وائس چانسلرز کو اُن کے گناہوں کی سزا تو دنیا میں "کے کی" کی صورت میں مل گئی ہے۔۔۔ بشارت راجہ نے ردعمل دیا کہ ایک خاتون جو تاریخ میں فکشن کا مطالعہ کرتی ہے وہ پی ایچ ڈی لوگوں کا انٹرویو کر رہی ہے ۔۔سبحان اللہ فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔وہ عورت جسے باپ کی سفارش پر میڈیکل کالج میں داخلہ ملا لیکن پھر بھی ڈاکٹر نہ بن سکی۔ جو کا اور کی کا سیدھا جملہ نہیں لکھ سکتی وہ وائس چانسلرز کے لیے پروفیسرز کے انٹرویوز کر رہی ہے جمی ورک نے لکھا کہ پروفیسرز حاضر ہوں، میٹرک پاس سی ایم ان کے انٹرویوز کرے گی۔ سحرش مان نے تبصرہ کیا کہ محترمہ امیدواران سے پہلا سوال یہی پوچھیں گی کہ بتائیں ”کی اور کے“سے آگے کیا لکھتے ہیں ۔؟جنہوں نے بتا دیا وہ پاس ،جنہوں نہ بتایا وہ فیل سجادچیمہ کا کہنا تھا کہ اسکی اپنی تعلیم کتنی ہے جو یہ وائس چانسلرز کے انٹرویو کرنے چلی ہے
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید کی قبر پر جیالوں کی نعرے بازی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس پر صارفین کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، بینظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے تنقید کرنے والوں کو جواب بھی دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہےجس میں پیپلزپارٹی کے کارکنان کو بینظیر بھٹو کی قبر پر نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے،کارکنان بینظیر کے حق میں ایک نظم کے انداز میں نعرے بازی کرتے ہوئے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ اس ویڈیو کو صحافی و وی لاگر وجاہت سعید خان نے پوسٹ کیا اور تنقید کی جس کے بعد اس ویڈیو پر ردعمل آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بینظیر کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے اس تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اپنی زندگی میں وہ کارنامے سرانجام دیتے ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد بھی عوام کا پیار حاصل رہتا ہے، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باتھ رومز میں تصاویر بنوالیتے ہیں اور شائد اپنے خاندان والوں کو بھی یاد نہیں رہے اور تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں بھی ان کا نام نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا، بلال ذیشان نے کہا کہ یہ ویڈیو دیکھیں اور رب کا شکر اداکریں کہ آپ جیالے نہیں ہیں۔ مطیع اللہ نے کہا کہ جہالت کے گڑھ پی ٹی آئی اور ان سے جڑے ٹاؤٹ ایسے ہیں جنہیں آج تک لیڈر اور آمریت میں فرق نہیں سمجھ آیا، واش روم کی صحافت کرنے والا کیا جانے عقیدت اور محبت کا درجہ کیا ہے، بدقسمتی یہی ہے کہ اس ملک میں جرنیلوں کی گود میں بیٹھنے والے آج صحافی بنے بیٹھے ہیں۔ ایک صارف نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کا سارا بجٹ دیہاتوں کے نام پر خود کھا جانے کے بعد پیپلزپارٹی نے ورکرز کو نیا منجن بیچ دیا کہ بینظیر آئے گی تو تمہاری حالت بدلے گی ورنہ نہیں۔ صبیح کاظمی نے سوال کیا کہ محترمہ کی قبر پر یہ کیا ہورہا ہے؟ تنویر اعوان نے کہا کہ پی ایس ایف کے نعرے اپنی جگہ مگر قبر پر کھڑے ہوکر اللہ کی تلاوت کرنی چاہیے تاکہ روح کو ایصال ثواب پہنچ سکے، خود بھی قبر کا خوف کرنا چاہیے اور تالیاں بجانے سے گریز کرنا چاہیے۔ فوزیہ صدیقی نے کہا کہ یہ جاہل ہوگ ہیں اور ان سے بڑے جاہل وہ جو ان کے سرپرست ہیں۔ سرفراز برگری نے کہا کہ "اب تو آجا آجا بینظیر" نعرے پیپلزپارٹی کارکنان کی جانب سے کراچی میں اکتوبر 2007 حملے کے بعد متعارف کروایا گیا تھا۔ صہیب ایس ودھو نے کہا کہ یہ اپنے لیڈر سے محبت کا اظہار کرنے کا طریقہ ہے، شدت پسند ذہنیت رکھنے والے اس چیز کو سمجھ نہیں سکتے۔
نجی چینل کی صحافی تنزیلہ مظہر نے پروفیسر ریاض کی گرفتاری کا دفاع کیا اور کہا کہ پاکستان میں ہر ایشو پر سازشی تھیوریز ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ریاض احمد کو پولیس کے حراست میں لینے کو بھی کسی سازش سے جوڑنے کے کوشش کی جارہی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ ان کی حراست کو جسٹس جہانگیری کا معاملے سے جوڑا جا رہا ہے وہ دو ہزار سترہ میں بھی تفتیش کے لئے پولیس کی حراست میں رہے اس وقت تو جسٹس جہانگیری کاُکوئی معاملہ نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ذرائع کے مطابق ان سے دہشت گردی سے جڑے شکوک و شبہات پر تفتیش کی جا رہی ہے ۔ شک کسی پر بھی ہو سکتا ہے تفتیش کرنے کا حق بھی قانون ریاستی اداروں کو دیتا ہے اگر ان پر شکوک بے بنیاد ہوئے تو باہر آ جائیں گے انشاءاللہ جلدی ۔ تنزیلہ مظہر نے کہا کہ اگر اس عمل میں کوئی غیر قانونی طریقہ اپنایا گیا ہے اس کی پر زور مذمت کریں مگر ریاستی اداروں کو ہر بات پر اتنا متنازعہ نا بنائیں کہ کسی بھی غیر قانونی عمل پر ریاست کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں ۔ اس پر صحافی ماجد نظامی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض 2017 میں ایک پریس کانفرنس کے لیے پریس کلب جا رہے تھے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دعوی کیا تھا کہ ان سے لائسنس کے بغیر لوڈڈ پستول برآمد ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈان اخبار نے اس بھونڈے الزام اور گرفتاری کے خلاف اداریہ بھی لکھا تھا۔ جس طرح 7 سال بعد حکومت کو ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری اچانک یاد آ گئی ہے، تو لگے ہاتھ ڈان اخبار کی انتظامیہ کو بھی دھر لیں کہ وہ دہشت گردوں کی سہولت کار ہے۔۔۔ صحافی نعمت خان نے کہا کہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں ڈگری منسوخی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس اجلاس سے کئی گھنٹے قبل، ڈاکٹر ریاض صاحب ایک تفصیلی ٹویٹ کرکے بیرونی مداخلت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد، انہیں غائب کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اسے سیدھے طور پر ڈگری کے معاملے میں غیرقانونی حراست یا اغوا سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف، ڈاکٹر ریاض کو 2017 میں نہیں بلکہ 2018 میں رینجرز نے کراچی پریس کلب کے سامنے سے اٹھایا تھا۔ مقصد انہیں پروفیسر ظفر حسن عارف کی بازیابی کے لیے پریس کانفرنس کرنے سے روکنا تھا۔ انکے مطابق اس سے چند دن قبل، پریس کلب پر پریس کانفرنس منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، لیکن پریس کلب نے ایسا نہیں کیا۔ اس وقت ڈاکٹر ریاض پر دہشت گردوں سے تعلق کا کوئی الزام نہیں تھا؛ وہ ایک استاد کے لیے آواز اٹھا رہے تھے، اور اس استاد کا جرم ایم کیو ایم میں شمولیت تھا۔
گلوکار جواد احمد نے کئی سال پہلے سیاست میں قدم رکھا اور اپنی جماعت برابری پارٹی بنائی لیکن انہیں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو عمران خان کو ملی، جواد احمد ہر الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہر الیکشن میں ہی چند سو یا چند ہزار ووٹ لیکر ضمانت ضبط کرالیتے ہیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ جواد احمد گراونڈ کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور انکا ٹارگٹ سابق وزیراعظم عمران خان ہیں، اپنے ایکس اکاؤنٹ پر عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف گھٹیا اور غلیظ زبان کا استعمال انہوں نے اپنا معمول بنالیا ہے۔ پاکستان میچ ہار جائے تو جواد احمد عمران خان پر لعنت بھیجتے ہیں، کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو یا کچھ بھی جس کا تعلق عمران خان سے نہ ہو وہ عمران خان پر لعنت بھیجنا نہیں بھولتے اور عمران خان کو جھوٹا، ذاتی، شرابی قرار دیتے ہوئے ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں۔ ایک طرف تو جواد احمد کا ہر وقت کا معمول عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں پر ذاتی حملے، گھٹیا زبان ہے تو دوسری جانب انکی رائے سے اختلاف کرنیوالے صحافی بھی ان سے محفوظ نہیں۔ پہلے انکا ٹارگٹ عمران خان تھے لیکن اب تحریک انصاف کی خواتین بھی انکا ہدف ہیں۔عائشہ بھٹہ، شاندانہ گلزار، زرتاج گل کا خصوصی ہدف ہیں جن کے ہر ٹویٹ کو قوٹ کرکے انہیں جھوٹا، مکار، جاہل قراردیتے ہیں۔ جواد احمد کی اس قسم کی زبان پر عائشہ بھٹہ کی برداشت جواب دے گئی اور ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ویسے تو جواد احمد کی ساکھ نوجوانی کے زمانے سے ہی گِری ہوئی ہے لیکن اس اسٹیج پر بیروزگاری کے مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سی جواد احمد کا ذہنی مرض شدت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں ے مزید کہا کہ اسے لگتا ہے پاکستان تحریکِ انصاف کی خواتین کی کردارکشی اور ان کے ساتھ گالم گلوچ سے جواد احمدکا روزگار چل سکتا ہے تو اچھی بات ہے۔ اس پر جواد احمد غصے میں آگئے اور عائشہ بھٹہ کو مکار، جاہل، بدتمیز، بے غیرت کہتے ہوئے دھمکیوں پر اتر آئے اور کہا کہ بکواس نہ کرو مکار اور بدتمیز عورت۔ خبردار جو مجھ پر جھوٹا الزام لگایا۔ میں نے کبھی کسی عورت کی کردار کشی نہیں کی۔ وہ عمران بےغیرت بدزبان گالم گلوچیا ہے جو عورتوں کی کردار کشی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاست میں آئی ہو تو عورت کارڈ مت کھیلو۔ میرے ساتھ بدتمیزی تم نے شروع کی تھی۔ اگر تم مجھ سے اس بات پر بدتمیزی کرو گی کہ میں نے تمئارے مذہبی منافق قسم کے بدکار، کرپٹ اور جھوٹے لیڈر عمران کی اصلیت لوگوں کو دکھائی ہے تو پھر اس کے جواب کے لیے بھی تیار رہا کرو۔ طارق متین نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس بے غیرت کی کوئی گندی ویڈیو ہے ان کے پاس ۔ بلاک کر رہا ہوں میں اسے
این اے 79 گوجرانوالہ کی سیٹ تحریک انصاف سے چھین لی گئی ہے اور تحریک انصاف کے ایم این اے احسان اللہ ورک کو 23000 ووٹ مسترد کرکے ہروادیا گیا ہے جس پر سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہورہی ہے۔ آٹھ فروری الیکشن میں اس حلقے سے مجموعی طور پر 9300 ووٹس مستردہوئے تھے مگر ن لیگ کے امیدوار کوجتوانے کیلئے مزید 14 ہزار ووٹ مسترد کئے گئے۔ سوشل میڈیا صارفین سوال اٹھارہے ہیں کہ 8 فروری الیکشن کی رات پولنگ عملے، ن لیگ، تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے گنتی ہوئی تھی، اس وقت تو 9300 ووٹ مسترد ہوئے مگر اس بار اکٹھے ہی 14000 ووٹ مسترد کروادئیے گئے؟ اس پر صحافی صابر شاکر اور ن لیگ کے حامی سمجھے جانیوالے صحافی فخردرانی کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ثاقب بشیر نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر فخردرانی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا دفاع کیا اپنے ٹوئٹر پیغا میں فخر درانی نے کہا کہ اگر مفروضے پر ہی چلنا ہے تو پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جتنے ووٹوں سے ایک امیدوار ہارا تھا اتنے یا اس سے زیادہ ہی ووٹ مسترد کرکے اسکو جان بوجھ کر ہروایا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا قاسم سوری کے حلقے میں اسکے مخالف کو 52 ہزار ووٹ مسترد کرکے ہروایا گیا تھا۔ یہ پرانا طریقہ واردات رہا ہے۔اسی لیےری کاونٹنگ میں پھر حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے فخردرانی کے اس دعوے پر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ قاسم سوری کو تو ووٹ ہی 26 ہزار سے کم پڑا تھا تو پھر اسے 52 ہزار ووٹ مسترد کرکے کیسے جتوایا گیا؟متعدد سوشل میڈیا صارفین قاسم سوری کے دعوے کی حقیقت سامنے لے آئے۔ الیکشن 2018 میں این اے 265 کوئٹہ میں قاسم خان سوری نے لشکری رئیسانی کو 5 ہزار کے قریب ووٹوں سے ہرایا تھا، اس الیکشن میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 14 ہزار ووٹ پول ہوئے تھے جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 3422 ہے۔ قاسم سوری نے 25979 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ لشکری رئیسانی نے 20394 ووٹ اور محمودخان اچکزئی نے 11487 ووٹ حاصل کئے تھے۔ رزلٹ مرتب کرنیوالے فارم 49 کے مطابق اس حلقے میں 52 ہزار نہیں بلکہ 3422 ووٹ مسترد ہوئے تھے قاسم سوری کے حلقے کے 52 ہزار ووٹوں کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ووٹ غیر تصدیق شدہ ووٹ تھے جن کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی اور سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق انہیں جعلی ووٹ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نادرا کے پاس متعدد لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مربوط نظام نہیں ہے یہ 52 ہزار ووٹس بھی قاسم سوری کو نہیں پڑھے تھے بلکہ قاسم سوری کو اس سے آدھے سے یعنی 26 ہزار ووٹ پڑے تھے۔۔ یہ ایسے ووٹس ہیں جو قاسم سوری، لشکری رئیسانی، محمودخان اچکزئی، راحیلہ درانی اور دیگر امیدواروں کے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں پنجاب پولیس کی ایک گاڑی نظر آ رہی ہے، جس کی نمبر پلیٹ پر 804 درج ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار قیدیوں کی بس کے پیچھے کھڑا ہے اور اسکی نمبر پلیٹ پر 804 لکھا ہوا ہے۔ پولیس اہلکار خوشی سے گاڑی کی نمبر پلیٹ پر اشارے کرتا ہے جبکہ بیک گراؤنڈ میں ایک گانا "قصے عشق دے دیکھے " چل رہا ہے اور 804 سے والہانہ محبت کا اظہار کررہا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مطابق اس پولیس اہلکار کا نام یاسر ہے اور اسے معطل کردیا گیا ہے جبکہ بس کو بھی گراؤنڈ کردیا گیا ہے صحافی محمر عمیر کے مطابق بس نمبر 804 کے ساتھ ویڈیو بنانے کے جرم پر لاہور پولیس کے اہلکار یاسر کو معطل کردیا گیا۔ یادرہے کہ یہ نمبر 804 تحریک انصاف کے سپورٹرز کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل جانے کےبعد قیدی کا نمبر" 804" الاٹ کیا گیا تھ اور یہ ایک مشہور اصطلاح بن چکی ہے۔ اسی نمبر سے متعلق شرٹس، ٹوپیاں اور دیگر سامان بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے، اور اس پر گانے بھی تخلیق کیے جا رہے ہیں۔804 پر سب سے زیادہ ملکو نامی گلوکار کا گانا "نک دا کوکا" مقبول ہوا تھا
نعیم پنجوتھہ نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ بشری بی بی نے جج سے کہا کہ چھت سے چوہے آتے ہیں،پہلے بھی متعدد بار شکایت کر چکی ہیں لیکن سنوائی نہیں ہوئی،پرانے کمرے ہیں اور چوہے اتنے زیادہ تعداد میں ہیں کہ واک کریں تب بھی پیروں میں آتے ہیں۔ نعیم پنجوتھہ کے مطابق آج جب دوبارہ سے بشری بی بی نے کہا تو جج نے جواب دیا آپ ان چوہوں کے ساتھ فٹ بال کی طرح کھیلیں۔ تحریک انصاف کے ایم این اے شاہد خٹک نے اس پر ردعمل دیا کہ ہم نے قومی اسمبلی کے فلور پر انہیں کہا ہے کہ کہ اتنا کرو جو کل آپ برداشت کر سکو، آگر آپ آج بشری بی بی پر چوہے چھوڑ رہے ہیں تو کل پھر یہ گلہ نہ کرنا ہمارے سیل میں چوہے کیوں چھوڑے؟ زبیر علی کان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے جج صاحب چوہوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے جج بن گیے ہیں ارسلان بلوچ کا کہنا تھا کہ ذہنیت چیک کرو اس جج کی اور اب سوچو کیا یہ انصاف کرے گا؟ ایک ایکس صارف نے مزاحیہ انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ لگتا ہے جج کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ سیدہ حرا نے سوال کیا کہ کیا یہ جج نواز شریف، زرداری یا کسی اور کی بیوی بیٹی کو ایسا کہہ سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ عاصم نے عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھا کی بات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی جج کبھی ایسی بات نہیں کر سکتا اور اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو سب وکیل جانتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جج کو پتا ہوتا کہ وکلا ساتھ ہیں اور وہ ایسی کوئی بھی بات برداشت نہیں کریں گے تو جج کیسے ایسی بات کرسکتا ہے؟ واضح رہے کہ بشریٰ بی بی نے بیرک میں چوہے ہونے کی جج کو شکایت کر کی اور کہا کہ نماز پڑھتی ہوں تو چوہے چھت سے گرتے ہیں ، جس پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ یہ معاملہ پہلی بار ہمارے علم میں آیا ہے اور ہم اسے دیکھ لیتے ہیں۔
سافٹ وئیر اپڈیٹ فیل؟ عون علی کھوسہ کی پہلی ویڈیو نے دھوم مچادی۔۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین بھی عون علی کھوسہ کے نقش قدم پر چل پڑے حال ہی میں اپنے پیروڈی گانے بل بل پاکستان بنانے والے یوٹیوبر عون علی کھوسہ نے بازیاب ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنی دلچسپ ویڈیو جاری کی۔ عون علی کھوسہ نے 'دِل دِل پاکستان' کی پیروڈی 'بِل بِل پاکستان' بنائی تھی جس میں پاکستان میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی مزاحیہ انداز میں منظر کشی کی گئی تھی۔ گانا منظرِ عام پر آنے کے بعد اُنہیں 14 اور 15 اگست کی رات لاہور میں اُن کے گھر سے مبینہ طور پر نامعلوم افراد اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ عون علی کھوسہ کے اغوا کے بعد نہ صرف یہ ویڈیو ڈیلیٹ کروائی گئی بلکہ کچھ دن نامعلوم افراد نے انہیں محبوس رکھا اور پھر چھوڑدیا۔ عون علی کھوسہ نے بازیابی کےبعد گھر پہنچنے کے بعد اپنی پہلی دلچسپ ویڈیو جاری کی جو ایک خاموش پیغام ہے۔ اس ویڈیو کے شروع میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عون علی کھوسہ ڈرے ہوئے ہیں، انکا سانس پھولا ہوا ہےانکے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہیں لیکن پھر اچانک ہی وہ شرارتی انداز میں مسکرانے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ خاموش پیغام ان لوگوں کیلئے ہے جوڈرانے پر تلے ہوئے ہیں عون علی کھوسہ کی اس ویڈیو کے بعد ٹک ٹاکرز نے بھی ایسی ہی ویڈیوز بنانا شروع کردی ہیں جو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اب لوگ خوف کے بت توڑچکے ہیں اور ب ڈر مسکراہٹ اور قہقہتوں میں تبدیل ہورہا ہے سوشل میڈیا صارفین کے مطابق عون علی کھوسہ نے ایک نیا ٹرینڈ شروع کردیا ہے
سوشل میڈیا پر ایک نیا موضوع زیر بحث آگیا ہے، یہ بحث قومی ہیرو ارشد ندیم کے ایک صحافی کو سوال کا جواب دیئے بغیر روانہ ہونے پر شروع ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کو 40 سال بعد اولمپکس میں گولڈ میڈل جتوانے والے قومی ہیرو ارشد ندیم کی ایک ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے، ویڈیو میں ارشد ندیم کو ایک صحافی کو سوال کا جواب دیئے بغیر روانہ ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ارشد ندیم کہیں جانے کیلئے اپنے گھر سے نکل رہے ہوتے ہیں کہ ایک وی لاگر یا صحافی ارشد ندیم سے سوال کرتا ہے کہ آپ کو چیمپئن بن کر کیسا لگ رہا ہے، ارشد ندیم اس سوال کا جواب دیے بغیر تیزی سے آگے بڑھ جاتے ہیں جس پر صحافی دوبارہ سوال کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ جواب کیوں نہیں دے رہے۔ ارشد ندیم صحافی سے کہتے ہیں کہ انہیں دیر ہورہی ہے، اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر سوشل میڈیا پر بحث شرو ع ہوگئی ہے، صارفین اس معاملے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں، کچھ صارفین اسے ارشد ندیم کا غرور قرار دے رہے ہیں تو کچھ بغیر وقت لیے قومی ہیرو سے سوال جواب کرنے پر صحافی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ صحافی و وی لاگر سلمان درانی نے ارشد ندیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک یا دو سوالوں کے جواب دینے پر ارشد ندیم صاحب چھوٹے نہیں ہوجاتے، یہ صحافی لاہور سے آپ کےگاؤں میاں چنوں صرف آپ کا انٹرویو لینے آیا تھا، آپ کو اس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ صوفیہ نامی صرف نے کہا کہ ارشد ندیم کے تو بہت نخرے ہیں، ویسے انہوں نے شاہین آفریدی کے بچے کیلئے ٹویٹ کردی تھی اور ان کے پاس ٹائم نہیں ہے۔ عمر قریشی نے کہا کہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت گھس کر انٹرویو دینے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، یہ کہاں کی صحافت ہے؟ فیضان لاکھانی نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا رپورٹر نے ارشد ندیم سے انٹرویو کیلئے وقت لیا تھا یا بس یونہی پہنچ گیا؟ اگر یونہی پہنچا تو گفتگو کیلئے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں، کسی ایتھلیٹ کو اس طرح راہ چلتے روک کر سوال کرنا مناسب نہیں ہوتا اور اس کے شکوہ تو بالکل بھی نہیں بنتا۔ انجم اقبال نے کہا کہ تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے، صبح شام انٹرویوز دے دے کر ارشد ندیم تھک چکے ہیں، ہر کسی کو انٹرویو دیا، ہر کسی کے ساتھ ہنس کر ملے، اب ایک آدھ بار تھکاوٹ سے جواب نہیں دے سکا تو کیا ہوگیا، آپ نے اس کے زوال کی داستانیں لکھنا شروع کردیں۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں دہشتگردی کے دل دہلادینے والے واقعات ہوئے ، موسیٰ خیل میں 23 پنجابیوں کو بی ایل اے کے دہشتگردوں نے گولیاں مار کر قتل کردیا اس واقعے پر پاکستانیوں نے انتہائی غم وغصے کا اظہار کیا اور حکومت سے روک تھام اور ایسے عناصر کے قلع قمع کا مطالبہ کیا لیکن دوسری طرف اسکی آڑ میں لسانیت پھیلانے والے بھی متحرک ہوگئے اور وہ پنجاب میں چلنے والے کوئٹہ ہوٹلز کے پیچھے پڑگئے کوئٹہ ہوٹل والوں کی لاہور سمیت مختلف شہروں میں کئی برانچز ہیں اور یہ اپنے خستہ اور لچھے دار پراٹھے اور مزیدار چائے کی وجہ سے مشہور ہیں اور انکے چائے پراٹھا کی قیمتیں بھی انتہائی مناسب ہیں جو ایک عام مزدور کی پہنچ میں ہیں۔ اس کمپین میں ن لیگ کے حامی صحافی اور سپورٹرز پیش پیش تھے جن میں ایک صحافی نجم ولی خان سب سے آگے آگے تھے، نجم ولی خان ایک چھوٹے سے نجی چینل پر پروگرام کرتے تھے مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اب اسے پی ٹی وی پر اینکر کی نوکری دیدی ہے جبکہ ماضی میں وہ ریلوے میں بطور پی آر تعینات رہے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں نجم ولی نے کہا کہ میں نے 2020 میں توہین آمیز خاکوں کے خلاف فرانس کی کمپنی ٹوٹل کا بائیکاٹ کیا۔ کبھی اس سے پٹرول نہیں ڈلوایا اور اسے پاکستان سے بھاگنا پڑا۔ آج میں بی ایل اے کی دہشت کردی پر نہ کسی کو گولی مار سکتا ہوں نہ شہروں سے نکال سکتا ہوں مگر میں بطور احتجاج ہر کوئٹہ ہوٹل کا بائیکاٹ کرتا ہوں۔ وسیم جنجوعہ کا کہنا تھا کہ آج سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ریاستی ادارے (پی ٹی وی ) کا ملازم یوں سر عام صوبائیت کو ہوا دے کر ملک میں مزید آگ بھڑکانے والی باتیں کرے گا۔بلوچستان میں پیش آئے سانحے کے بعد چند مخصوص اکاؤنٹس سے اسطرح کی ٹویٹس تواتر سے کی جا رہی ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور انکا ایجنڈا کیا یے؟ عدیل حبیب نے تبصرہ کیا کہ ابھی آج کا سوشل میڈیا دیکھا ہے ، ٹاؤٹ صحافی اس وقت بلوچوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں. یہ ایک organized campaign لگ رہی ہے. مجھے پتہ ہے، آپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا. آپ ان سے کہیں زیادہ شاطر اور سمارٹ ہیں. بلوچ ہمارے بھائی ہیں! رائے ثاقب کھرل کا کہنا تھا کہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے، ہم سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ ہوٹل اور ایسے اورکاروباروں خلاف کمپین ایک لغو اور گھٹیا کمپین ہے۔ نفرتیں ختم کریں الٹی سیدھی کمپینز مت کریں۔ عدنان عامر نے ردعمل دیا کہ نسل پرست ہمیشہ غلط معلومات کیوں رکھتے ہیں؟ کوئٹہ ہوٹل بلوچستان کے پشتون چلاتے ہیں۔ نفرت پھیلانا آسان ہے اور بکتا بھی ہے، ذرا سوچئے احمد وڑائچ نے لکھا کہ کوئٹہ ہوٹل میں ہزاروں مزدور حق حلال کی کھاتے ہیں۔ نہ ان کو کسی حکومت نے ریلوے میں بھرتی کرنا ہے، نہ PTV کی لاکھوں کی نوکری ملنی ہے۔ حرام کھانے والے سانڈوں کو اگنور کریں، کوئٹہ ہوٹل جائیں، پراٹھے کے ساتھ گڑ والی چائے کا لطف لیں۔ اسلام آباد، پنڈی والوں کیلئے میری طرف سے آفر۔ شاعر احمد فرہاد کا کہنا تھا کہ آپ مریم نواز کے اس چپراسی اور جاتی امرا کے چوکیدار کی دماغی حالت ملاحظہ کیجے۔جس شخص کو میں پندرہ ہزار کی نوکری پر نہ رکھوں اسے فوطہ برداری پر بارہ لاکھ ماہانہ پر پی ٹی وی میں ملازم رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر شہباگل نے تبصرہ کیا کہ کچھ لوگوں کو کوئٹہ ہوٹل کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں کرتے دیکھا۔ یہ بکواس ہے۔ ایسے اقدامات سے نفرت بڑھے گی کم نہیں ہو گی۔ پنجابیوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی یقیناً دردناک افسوسناک ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں دکھ میں ہم بھول جائیں کہ عام بلوچی ہمارا بھائی ہے۔اتحاد کی فضا پیدا کریں سالار سلطانزئی نے تبصرہ کیا کہ یہ سرکاری چینل پر ملازم ہے اور موجودہ لاڈلوں میں سے ہے. اس سوچ کی ترویج سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ آپسی خانہ جنگی سے ملک کو توڑنے کی کوششوں میں ہیں. نوٹ: کوئٹہ ہوٹل پشتونوں کے ہیں بلوچ بھائیوں کے نہیں. امجد خان نے سوال کیا کہ کوئٹہ ہوٹل والوں کا کیا قصور ؟؟؟
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر سینئر صحافی حامد میر و عمران ریاض خان کے درمیان ارشد شریف کے قتل کیس کے حوالے سے مکالمہ ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے ارشد شریف قتل کیس میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ ارشد شریف کو ایجنسیوں نے ہراساں کیا، کیا حالات تھے جس کی وجہ سے ارشد کو ملک چھوڑنا پڑا، ارشد شریف نے ملک چھوڑ کر نہیں جانا تھا کیونکہ اس کے پاس تو کسی ملک کا ویزہ بھی نہیں تھا۔ حامد میر کے اس ٹویٹ پر سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران ریاض خان نے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ جس وقت ارشد شریف اور ہم سب پر ظلم ہورہا تھا تو کوئی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، بہت سے دوست تو آج بھی بہت کچھ بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی تمام اختلافات کے باوجود اظہار رائے اور صحافیوں کے بنیادی حقوق پر سب کو اکھٹا ہونا چاہیے، کئی صحافی تو ایسے بھی ہیں جو آج بھی جلاوطنی اور تکلیف کی زندگی گزاررہے ہیں۔ حامد میر نے عمران ریاض خان کے اس شکوے کا جواب دیتے ہوئے جواب شکوہ کیا اور کہا کہ جب عمران خان کے دور پر مجھ پر کئی ماہ کی پابندی لگائی گئی اور شہر شہر غداری کے پرچے دائر ہورہے تھے تب میرے ساتھ بھی بہت کم لوگ کھڑے تھے۔ حامد میر نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں کم لوگ ہی کسی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، تاہم مشکل وقت آخر کار کٹ ہی جاتا ہے، تاہم مشکل وقت میں مدد کرنے والے یاد نہیں رہتے بلکہ پیچھے سے وار کرنے والے زیادہ یاد رہتے ہیں۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں یہ دہشت گرد صرف ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، دہشت گردوں کو جلد ایک ’’اچھا میسج‘‘ مل جائے گا۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ آمد کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان پر محسن نقوی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر دہشتگرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں تو نئے آپریشن کیلئے 20 ارب روپے کی منظوری کی کیا ضرورت ہے اور لاکھوں کی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت محسن نقوی کے بیان کا مذاق اڑاتی رہی اور اسے ایک ناکام وزیرداخلہ اور ناکام چئیرمین پی سی بی قرار دیا۔ احمد فرہاد نے ردعمل دیا کہ میری حکومت اور مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ محسن نقوی کو فوری پر بلوچستان کے سب سے خطرناک علاقے میں بطور ایس ایچ او تعینات کیا جائے تا کہ وہ امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر قابو پا سکیں۔ اینکر عمران خان کا کہنا تھا کہ موصوف شائد سیاسی دہشتگردوں کی بات کر رہے ہیں ورنہ ابھی چند دن پہلے ایک نئے آپریشن کے لیے 20 ارب کی منظوری نہ دی جاتی بلکہ 4 پولیس والوں کو مزید SHO لگا دیا جاتا۔ عیسیٰ نقوی نے ردعمل دیا کہ صرف 1 ایس ایچ او۔۔۔ آپکا ویژن ہے سر! معاذ نے ردعمل دیا کہ جناب کچے کے ڈاکو تو پکڑے جاتے نہیں ہیں بس باتوں کے سوائے کچھ نہیں کیا اور دوسری بات آپ پہلے پی ٹی آئی کے لوگوں کو تو دہشت گرد ملک دشمن بنانے سے فرصت ملے تو کچھ کریں۔ملک کےسب اداروں کو پی ٹی آئی کے پیچھے لگایا ہوا۔ ارم زعیم کا کہنا تھا کہ ناکام ترین آئین شکن نگران وزیر اعلیٰ ناکام ترین PCB چیئرمین ناکام ترین وزیر داخلہ نا عوام میں کوئی حیثیت، نا کوئی سیاسی حیثیت ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ 24 سال سے دہشتگردوں کے نام پر اربوں ڈالر کا بجٹ کھا گئے۔ غریب عوام کو یہہ کر تہہ لگا دی۔ اب ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ ایک اور سوشل کا کہنا تھا کہ محسن نقوی کے خیال میں اگر ایس ایچ او کسی سیاسی جماعت کے سپورٹروں سے نمٹ سکتا ہے تو دہشتگردوں سے بھی نمٹ سکتا ہے ، محسن نقوی کو وزیرداخلہ بنانے والوں کی جے ہو ۔ امجد اعوان کا کہنا تھا کہ پھر یہ عزم استحکام آپریشن اور آج بیس ارب روپیہ جو حکومت نے منظور کیا ہے یہ سب کس کے لئے ایک ایس ایچ او اختیار دیں اور قوم کا پیسہ اور وقت بچائیں محسن نقوی صاحب

Back
Top