سوشل میڈیا کی خبریں

آپریشن رجیم چینج کے بعد اینکر عمران ریاض مسلسل حکومتی نشانے پر ہیں، انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا اورایک مرتبہ پانچ ماہ کیلئے لاپتہ بھی کردیا گیا تھا۔ عمران ریاض نے اپنے ایکس پیغام میں لکھا کہ فروری 2024 میں الیکشن کے فورا بعد ایک دن اچانک ن لیگ کےمیڈیا سیل کے لوگوں نے میرے حوالے سے پراپیگنڈا کیا کہ میں نے قاضی فائز عیسی کو مروانے کی کوشش کی ہے اور اسکے لیے مبارک ثانی کیس کو استعمال کیا ہے حالانکہ میرے فرشتوں کو بھی اس معاملے کا علم نہیں تھا۔ پھر مجھے گھر سے اغوا کرکے مختلف کیسوں میں 3 ہفتے تک جیل میں رکھا۔ اور تسلی سے فارم 47 کی حکومت بننے کے بعد چھوڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ایک بار پھر وہی میڈیا سیل نئے پراپیگنڈا کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ میں نے طلبہ کو احتجاج پر اکسایا۔ حالانکہ میں نے صرف اس واقعے کو نہ صرف درست رپورٹ کیا بلکہ طلبہ پر ریاستی تشدد کی بھرپور مذمت بھی کی اور آیک آزادانہ انکوائری کمیشن کی تجویز بھی دی۔ صحافی نے دعویٰ کیا کہ اطلاعات کے مطابق ایف آئی کو اس حوالے سے احکامات جاری کر دیئےگئے ہیں اور افسران نے مجھے پھر سے نشانہ بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ میری گزشتہ اڑھائی برسوں میں 9 گرفتاریاں ہو چکی ہیں پونے 5 ماہ مجھے اغوا بھی رکھا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری رائے میں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت پر بہت دباؤ ہے اور اب اس مکروہ عمل کے دوران ایک بار پھر میری آواز کو دبانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یادرہے کہ گزشتہ روز مریم نواز نے پریس کانفرنس میں عمران ریاض کے اس ٹویٹ کا خصوصی ذکر کیا اور کہا تھا کہ جیل میں رہ کر آنے والے بھی اس پراپیگنڈے میں شامل تھے
سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد عظمیٰ بخاری نے وضاحتی کلپ شئیر کردیا مگر وضاحتی کلپ بھی کام نہ آیا عظمی بخاری نے صحافیوں کو وارننگ دی کہ اگر کسی رپورٹر نے اونچی آواز میں بات کی یا بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تو سن لو بات ان کی نوکریوں تک جائے گی۔اس پر سوشل میڈیا پر عظمیٰ بخاری پر خوب تنقید ہوئی تو وضاحتیں دینے پر آگئیں عظمیٰ بخاری نے کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے آج کا پورا کلپ،میں پریس کانفرنس کے بعد جرنلسٹ ہاوسنگ سوسائٹی کی میٹینگ میں چلی گئی،بعد میں دیکھا تو پتا چلا میں نے کوئی دھمکیاں اور گستاخی کی ہے،”بڑے بڑے “صحافی بھی ایڈیٹیڈ کلپ کا شکار ہوئے،ہاتھ جوڑ کر ڈسپلن اور خاموشی کی ریکویسٹ کررہی تھی،عہدوں کی بجائے ہمیشہ عزت کمانے کی کوشش کی ہے عظمیٰ بخاری کا یہ وضاحتی کلپ بھی کام نہ آیا اور تنقید کانشانہ بن گئیں، اس وضاحتی کلپ میں عظمیٰ بخاری صحافیوں کو کہہ رہی ہیں کہ چوں چاؤں چاؤں نہ کرنا، میں برداشت کرلوں گی میڈم چیف منسٹر برداشت نہیں کریں گی۔ اس کلپ میں بھی عظمیٰ بخاری صحافیوں کو نوکری جانے کی دھمکیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ اس پر صحافیوں نے کہا کہ ایسی وضاحتیں دینے سے بہتر ہے کہ وضاحت نہ ہی دی جاتی، کسی کو نوکری کی دھمکی لگانا کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنگین مذاق ہے۔ صحافی زبیر علی خان نے اس پر کہا کہ کسی کو نوکری کی دھمکی لگانا مذاق نہیں ہوتا میڈم جی !!! اپنا حس مزاح بہتر کریں صحافی عمرچیمہ نے کہا کہ نوکری سے فراغت کی دھمکی اگر ہنستے ہوئے بھی دی جائے تو یہ ایک سنگین مذاق تصور ہو گا اور پھر یہ کہ کہنے والی شخصیت اگر وزیر اطلاعات ہو تو مزید تشویش کی بات ہوتی ہے شبیر ڈار نے ردعمل دیا کہ وائرل وڈیو کلپ اور اب وضاحتی وڈیو کلپ میں فرق صرف اتنا ہے کہ منسٹر صاحبہ نے صحافیوں کو پہلے ہنستے بولتے سمجھایا پھر نوکری کی دھمکی دی، ایسی وضاحت سے وضاحت نہ دینا ہی مناسب تھا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ صحافیوں سے ہاتھ باندھ کر درخواست تک تو ٹھیک ہے اس کے بعد شکایت اور نوکری کی وارننگ کی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، کسی بھی حکومت کے کسی بھی عہدےدار خصوصی طور پر وزیر اطلاعات کو ناپ تول کر گفتگو کرنی چاہیے صحافی رہنما شکیل قرار نے ردعمل دیا کہ رازق اللہ کی ذات ہے کوئی منسٹر یا وزیراعلی نہیں صحافی وسیم عباسی نے تبصرہ کیا کہ ویسے پورے کلپ سے واضح ہے کہ عظمی بخاری اپنی نوکری کے لیے ہاتھ جوڑ بھی رہی ہیں۔۔تاہم بہتر ہوتا صحافیوں کی نوکری کی بھی بات ہی نہ کی جاتی۔۔سوال کتنا بھی سخت ہو اگر تمیز کے دائرے میں ہو تو اس کا جواب دینا چاہیے۔ ایک صارف نے لکھا کہ اسکو کہتے ہے ہاتھ جوڑ کر صحافیوں کو دھمکی دینا
عظمیٰ بخاری کا مریم نواز کی آج پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل صحافیوں کو نوکریاں سے ہاتھ دھونے کا دھمکی نما پیغام۔۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل مریم نوازکی پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل عظمی بخاری نے صحافیوں کو وارننگ دی کہ اگر کسی رپورٹر نے اونچی آواز میں بات کی یا بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تو سن لو بات ان کی نوکریوں تک جائے گی۔ تحریک انصاف نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ یہ ہوتا ہے ایک جمہوری سوچ اور ڈکٹیٹر سوچ میں فرق:عمران خان نے تو وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی کو سخت سے سخت سوال کرنے سے نہیں روکا، جبکہ یہ دیکھیں ایک کٹھ پتلی کی حالت جو ایک جعلی وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس سے پہلےصحافیوں کو دھمکیاں دے رہی ہے مقدس فاروق اعوان نے ردعمل دیا کہ عظمی بخاری آپ کو ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا، صحافی کیا ،کسی بھی شخص کو نوکری سے نکالنے کا ارادہ کوئی سنگدل ہی کر سکتا ہے اس پر صحافی محمد عمران نے سوال کیا کہ کیا یہ ویڈیو واقعی مریم نواز کی پریس کانفرنس سے پہلے کی ہے ؟یہ کیسی ہدایات جاری کررہی ہیں ؟ یہ تو باقاعدہ صحافیوں کو دھمکا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کی ایک سنیئر منسٹر جو آج کل پنجاب میں بھی کافی سینئر ہیں میں تو خود ان کی اس طرح کی شکایت کا شکار ہوچکا ہوں۔ صحافی سہیل رشید نے کہا کہ اب ان لوگوں کو اپنی خدائی کا یہاں تک یقین ہو چلا ہے کہ لوگوں کو رزق بھی یہ دے رہے ہیں۔ استغفار اللہ۔ رہی صحافتی تنظیموں کی بات تو کچھ بعید نہیں وہ محترمہ کے حق میں بیان جاری کر دیں بشارت راجہ نے کہا کہ او بی بی رزق اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے تم کسی کا کیا بگاڑ لو گی کسی کا ایک دانہ نہ کم کر سکتی ہو اور نہ زیادہ دے سکتی ہو سحرش مان نے تبصرہ کیا کہ عورت راج تو غنڈاراج نہیں بنتاجارہا پنجاب میں۔؟مخصوص نشست پرغیر منتخب عورت صحافیوں کو سوال پوچھنے کی پاداش میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دےرہی ہے۔محترمہ بخاری کوکوئی بتائےیہ پی ایم اےکاکول نہیں ہے۔یہ ایک سیاسی پریس کانفرنس ہے جس میں شور شرابےمیں سوال پوچھنے کی مکمل آزادی ہے ثمینہ پاشا نے ردعمل دیا کہ ایسی دھمکیوں پر صحافیوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ اب کوئی مائیک اٹھاۓ گا سامنے سے؟ کوئی بائیکاٹ کرے گا؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ شریف خاندان نے صحافیوں کو صحیح اوقات میں رکھا ہوا ہے، کسی صحافی میں اتنی جرات نہیں کہ اٹھ کر چلا جائے۔لیکن جب تحریک انصاف جیسی شریف جماعت تنقید کرے تو سلمان اکرم راجہ کے سامنے سے مائیک ہٹا لیتے ہیں۔ عثمان فرحت نے ردعمل دیا کہ یہ ہے اس میڈیا کی اصلی اوقات اور اصلی حیثیت جو صرف دو ہفتے پہلے بہت غیرت مند ہونے کی ڈرامے بازیاں کر رہا تھا! صحافی زبیر علی خان نے سوال کیا کہ کوئی پریس کلب ، کوئی صحافتی کمیونٹی، کوئی صحافتی لیڈر، کوئی شرم کوئی حیا؟؟؟ عدیل راجہ نے سوال کیا کہ جی بھی، کدھر ہے پریس کلب کے لیڈران؟ قلم فروش کہاں ہیں؟ صحافی بشیر چوہدری نے کہا کہ وزیر اطلاعات پنجاب عظمہ بخاری کو ہرگز صحافیوں کے ساتھ تحکمانہ رویہ اور دھمکیاں دینا زیب نہیں دیتا۔ ایسے رویے کی مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔ یہی بات بہتر انداز میں سے کی جا سکتی تھی۔۔ اس پر سخت ردعمل کی امید رکھیں۔ پتہ نہیں کیوں رپورٹرز اس کے باوجود وہاں کیوں بیٹھے رہے۔۔ صحافی طارق متین نے طنز کیا کہ ہاں بھائی لاہور پریس کلب والو ، کلاسیں لو میڈم سے ورنہ تم لوگوں کی نوکریاں نہیں بچیں گی
عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان نے ایکس پر لکھا کہ عام طور پر وہ پاکستان کی سیاست پر بات نہیں کرتی ہیں۔ ان کے مطابق میں عمران خان سے متعدد سیاسی امور پر اختلافات رکھتی ہوں۔ مگر یہ بات سیاست سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ میرے بچوں کے والد سے متعلق ہے، ان کے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا سوال ہے۔ جمائمہ خان نے لکھا کہ گذشتہ کچھ برسوں سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے عناصر ان کو ہراساں کر رہے ہیں اور انھیں خاموش کرانے کے لیے انھیں تنگ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ چند ہفتوں سے اڈیالہ جیل میں میرے بچوں کے والد کی صحت متعلق بہت سنجیدہ اور تحفظات والے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی حکام نے ان کے خاندان اور ان کے وکلا پر ان سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی۔ انھوں تمام عدالتی کارروائی بھی روک دی۔ جمائمہ خان کے اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا اور غیرملکی صحافیوں، اخبارات، دانشوروں اور انسانی حقوق سے متعلقہ تنظیموں نے یہ معاملہ اٹھایا۔ کرسٹینا بیکر نے جمائمہ کے ٹویٹ پر ردعمل دیا کہ ایسا لگتا ہے کہ امن و امان اور انسانی حقوق نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویشناک حد تک ٹوٹ چکے ہیں۔ اتنی بے گناہ جانیں ماری گئیں یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اتنے مظالم کیے گئے اور اقوام متحدہ کی بہت سی قراردادیں ٹوٹ گئیں… انہوں نے مزید کہا کہ کوئی حکومت، کوئی بین الاقوامی ادارہ یا انسانی حقوق کی تنظیم کامیابی سے مداخلت نہیں کرتی۔ زندگی کے دائیں جانب کون کھڑا ہے؟ امن اور انصاف کون لاتا ہے؟ آج کے ہیرو کہاں ہیں؟ جیل میں یا جنت میں ایسا لگتا ہے۔ خدا ان کو بچائے۔ اے جے پلس (الجزیرہ) کی صحافی ثناسعید نے کہا کہ ان پاکستانیوں نے جنہوں نے اس کی حمایت میں اور اس کی رہائی کے لیے احتجاج کیا ہے انہیں سیکیورٹی/فوجی دستوں کی جانب سے پرتشدد کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ریاست کا سارا ہاتھ اس شخص کو سیاسی جمود سے توڑنے کی سزا دینے پر لگا ہوا ہے۔ اور بہت سارے پاکستانی، جاگیردارانہ مفادات کے ساتھ، ہم اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے نظر انداز کر دیں گے۔ امریکی مصنفہ سارہ بینٹ نے ردعمل دیا کہ عمران خان کی خیریت سے متعلق اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جیل کے حالات کی وضاحت بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ ہیومین رائٹس کونسل نے کہا کہ جمائما خان کے خدشات، ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کونسل پاکستان انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہماری کوششوں کے باوجود جیل انتظامیہ نے عمران خان سے ملاقات کی ہماری درخواست مسترد کردی۔ پیرس مورکن نے اس صورتحال کو خوفناک اور اشتعال انگیز قرار دیا اور سوشل میڈیا صارفین نے جمائما کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنیکا مطالبہ کیا غیرملکی صحافی سی جے ورلیمین نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ترک اخبار ٹی آر ٹی ورلڈ نے لکھا کہ 1995 سے 2004 تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سے شادی کرنے والے گولڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ عمران خان "مکمل طور پر الگ تھلگ، قید تنہائی میں، لفظی طور پر اندھیرے میں ہیں، باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔" پیٹر کرونو نے کہا کہ اوہ ۔۔دیکھو، ۔۔ یک اور امریکی حمایت یافتہ غیر جمہوری حکومت کی تبدیلی… معروف پوڈکاسٹر اور صحافی جمی ڈور نے تبصرہ کیا کہ بین الاقوامی وار مشین ان لوگوں کے ساتھ کیا کرتی ہے جو امن چاہتے ہیں اور اس کے خلاف کھڑے ہیں: ڈینینل ہنن نے تبصرہ کیا کہ انتہائی تشویشناک خبر۔ پاکستان کے فوجی رہنماؤں نے اب عمران خان کے دوروں اور فون کالز کی تردید کی ہے اور ان کے سیل کی بجلی کاٹ دی ہے۔ وہ 14 مہینوں سے قید تنہائی میں ہے - جسے اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ جارگ گیلوے نے ردعمل دیا کہ میں اپنے بہت سے دوستوں سے پاکستان میں اپیل کرتا ہوں کہ یہ عمران خان کی زندگی بچانے کے لیے شاید آخری دن ہیں۔ مصنف خالد بیدون نے ردعمل دیا کہ عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی خیریت سے متعلق میڈیکل رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ تاہم عمران خان کی بہن نورین نیازی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کو سرکاری ڈاکٹرز پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی صحت پر اطمینان کا اظہار کیا جن کے ٹویٹ کو خواجہ آصف اور دیگر لیگی رہنما بھی ری ٹویٹ کرتے رہے۔پی ٹی آئی سپورٹرز نے بیرسٹر گوہر کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یا تو بیرسٹر گوہر حکومت سے ملا ہوا ہے یا احمق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بیرسٹر گوہر کی ٹویٹ ری ٹویٹ کررہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ واہ کیا حسین اتفاق ہےبیرسٹر گوہر کی ٹویٹ کو خواجہ آصف ری ٹویٹ کر رہا ہے۔اب بھی اگر آپ لوگ ڈیل کی بکواس پر یقین کر کے حالات کی سنگینی سے منہ موڑ رہے ہو تو پھر اللہ ہی حافظ ہے احمد بوباک کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف بھی بیرسٹر گوہر کی مطمئن ہونے والی ٹویٹ پر پہنچ چکا ہے۔آج ثابت ہوگیا کہ بیرسٹر گوہر شریف ہی نہیں بلکہ بیوقوف بھی ہیں عمرانعام نے ردعمل دیا کہ خواجہ آصف کی یہ ٹویٹ ثبوت ہے کہ فوج اور اسکے غلاموں پر کتنا پریشر تھا جو بیرسٹر گوہر نے ریلیز کیا سلمان درانی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کی ٹویٹ بھی مجھے اتنی ہی قابل یقین لگ رہی ہےجتنی علی امین گنڈاپور کی اسلام آباد سے پشاور پہنچنے والی کہانی انورلودھی کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر صاحب! جس سرکاری ڈاکٹر کی رپورٹ میں نوازشریف کے پلیٹلیٹسں گرتے تھے اور جس میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر وہ باہر چلے گئے تھے کیا اس سرکاری ڈاکٹر کی رپورٹ بھی درست تھی؟ ارسلان بلوچ نے کہا کہ اتنی محبتیں؟ وقار ملک نے ردعمل دیا کہ خواجہ آصف کا جو ٹریک ریکارڈ ہے اسکو سامنے رکھتے ہوئے اب میرے پاس کوئی وجہ نہیں کہ میں یقین کرلوں کہ اس ٹویٹ میں بیرسٹر گوہر نے سچ بولا ہے میں ان پہ شک نہیں کرنا چاہتا اسلئے پھر دہراتا ہوں یقینی طور پہ انکا فون ایجنسی کے پاس ہے اور وہ اس سے ٹویٹ کر رہے ہیں بیرسٹر شہزاداکبر نے بیرسٹر گوہر پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انتہائی افسوس اور دکھ سے یہ ٹویٹ کر رہا ہوں بیرسٹر صاحب آپ نے یہ ٹویٹ کر کے آج اسٹیبلشمنٹ کی فسطائیت اور ظلم کی حمایت کر دی ہے حکومتی ڈاکٹروں کا معائنہ اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا یاد رکھیے ایسے ہی سرکاری ڈاکٹروں نے اسوقت جنرل باجوہ کی ایما پہ نواز شریف کے پلیٹلٹس گرا دیے تھے انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے کل قوم کو گمراہ کیا کہ شوکت خانم کے ڈاکٹر معانئہ کریں گے اور آج ڈاکٹر عاصم اسی وعدے پہ اڈیالہ گیے لیکن انھیں ملنے نہ دیا گیا آپ خوب جانتے ہیں کہ مطالبہ فیملی، ذاتی معالج اور پارٹی کے وفد کے مطالبے کا تھا۔ بیرسٹر شہزاد کے مطابق آپ یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان کا رابطہ دنیا سے منقطع کرنے کا اصل مقصد آہنی ترامیم پاس کروانا ہیں آپ لوگ کسی مینڈیٹ کے بغیر کمیٹیوں میں جا رہے ہیں اور اس سارے مکروح کھیل کا حلالہ کر رہیے ہیں ۔آپکا مطالبہ ان کمیٹیوں اور پارلیمان میں بھی فقط یہ ہونا چاہیے کہ اپنے قائد سے ملے بنا آپ کسی بھی معاملے کا حصہ نہیں بنیں گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائدین سے دغا کی ایک لمبی داستان ہے لیکن آج عمران خان سے دغا کرنے والے آئین اور قانون سے بھی دغا کر رہے ہیں آج پاکستان کے لوگ اپنا فیصلہ خود کریں اور ہر شخص دغا کو دغا پکارے اور جفا کو جفا! عمران خان کے آخری پیغام کی روشنی میں سب کو اس آہنی پیکج کے خلاف احتجاج کرنا ہو گا! آخر میں بیرسٹر شہزاد کا کہنا تھا کہ اللہ کرے آپ سے یہ ٹویٹ حبس بیجا میں رکھ کہ کروائی گئی ہو نہ کہ آپ نے ازخود کی ہو
کلفٹن تین تلواراورپریس کلب پر دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود احتجاج کرنے والے مختلف جماعتوں کے50 سے زائد کارکنان وعہدیداران کو حراست میں لےلیا گیا۔ پولیس کی بھاری بھر کم نفری اس احتجاج کو روکنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے بے دریغ آنسو گیس، شیلنگ، لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔اس دوران پولیس نے بعض خواتین کیساتھ بدسلوکی بھی کی اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جس پر سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔ صحافی حامد میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زمین پر گرائی گئی قوم کی اس نہتی بیٹی کو چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر سڑک پر گھسیٹا گیا پوری دنیا نے کراچی میں اس تماشے کو دیکھا یہ تماشاپاکستانیوں کے حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا اس قسم کے تماشے کرنے والے ہمیں آئینی عدالت کے فائدے سمجھا رہے ہیں یہ عدالت انہی ظالموں کا ہتھیار بنے گی انکا مزید کہنا تھا کہ لاٹھی گولی کی سرکار اقتدار کے ایوانوں پر تو قابض ہو جاتی ہے لیکن عوام کے دلوں پر راج قائم نہیں کر سکتی میاں علی اشفاق نے ردعمل دیا کہ بے شرمی اور بے غیرتی کی حقیقی شکل و صورت یہ ھے- کیسے بھیڑیے خودساختہ و جعلی کمینے حکمران یہاں قابض ھیں- رائے مختار کا کہنا تھا کہ جس دن اس طرح بختاور اور آصفہ کو گھسیٹا گیا ، اس دن کے بعد یہ ظلم رک جائے گا سلطان سالارزئی نے ردعمل دیا کہ بےنظیر بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے زرداریوں کے کرتوت شاہد نے تبصرہ کیا کہ یہ ہے بلاول بھٹو کی جمہوریت ۔۔لندن سے اعلی تعلیم یافتہ سندھ کی بیٹی کو سندھ میں مذہبی روادری کے لیئے پرامن ریلی کرنے پر یوں سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے۔۔۔ڈوب مرو بلاول تم اور تمھاری نام نہاد جمہوریت معروف دانشور نورالہدٰی شاہ نے تبصرہ کیا کہ اسلام آباد میں آپکوخبر ہےبھی کہ نہیں؟مذہب کےنام پر ریاستی دہشتگردی کےخلاف سندھ رواداری مارچ میں شامل سندھ کےباشعور/ناموَرنوجوانوں/ بچیوں/عورتوں پرسندھ پولیس کاتشدد پیپلزپارٹی کوسندھ میں کھاجائےگا انہوں نے مزید کہا کہ آپکی سندھ میں موجودپارٹی تماشا دیکھتی رہ جائےگی۔سندھ کاشعورہماری ریڈلائن ہے صوبان افتخار کا کہنا تھا کہ کراچی کی شاہراہوں پر پولیس کے ہاتھوں گھسیٹے جانے والی یہ ایک روماسہ جامی نہیں ہے بلکہ یہ بلاول بھٹو کی نام نہاد جمہوریت کی دعویدار سندھ حکومت کا عمومی رویے کا برملا اظہار ہے جو وہ دہائیوں سے دھونس اور دبدبے کے ذریعے شکیل نے طنز کیا کہ ویلکم ٹو پرانا پاکستان علی زیدی نے ردعمل دیا کہ یہ ہے بلاول اور سندھ حکومت کا گھناؤنا چہرہ سبی کاظمی نے بلاول کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ آپ بے غیرت ہیں جو خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔۔۔ جبران نے لکھا کہ نظیر کے صوبے میں بلاول کا ظلم وستم ہمیشہ یاد رکھا جائے گ احمد بوباک کا کہنا تھا کہ اس تصویر کو سالوں یاد رکھا جائے اور بتایا جائے گا کہ عورت کی بدترین تذلیل کراچی میں ہوئی تھی اور تب پیپلز پارٹی کا دور تھا ایمان مزادی نے تبصرہ کیا کہ یہ پی پی پی کی جمہوریت ہے،منافق ترین جماعت جو آج بھی صرف درس دیتی ہے جمہوری اصولوں پر جب خود انکا کوئی اصول نہیں، صرف اقتدار کی لالچ ہے۔ کل جو کچھ ہوا وہ انکی حکومت میں کافی دفعہ پہلے بھی ہوچکا ہے اور کسی کا احتساب نہیں ہوا۔کبھی بلوچ خواتین کے ساتھ تو کبھی اور خواتین کے ساتھ۔
ڈکٹیٹرز اچھے بھی ہوتے ہیں، ذاکر نائیک کے بیان پر سوشل میڈیا پر تبصرے ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ اگر ڈکٹیٹر قابل ہے، قرآن وحدیث پر عمل کررہا ہے تو وہ اچھا ڈکٹیٹر ہے،اسلام کو ایسے ڈکٹیٹر سے کوئی پرابلم نہیں باقی لوگوں کو پرابلم ہوسکتی ہے۔ ڈاکر نائیک نے حضرت عمر فاروق کی مثال دی کہ وہ انتہائی سخت گیر تھے، قرآن وحدیث پر عمل کرتے تھے، وہ ذرا بھی کمپزومائز نہیں کرتے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا ذاکر نائیک کو اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان بلایا گیا تھا؟ انکے مطابق یہ ہے وہ ایجنڈا جس کے لیے در اصل ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا تھا۔ رائے مختار نے تبصرہ کیا کہ ڈکٹیٹر ہمارے ہاں آمر کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک منفی اصطلاح ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ڈکٹیٹر کہنا ذاکر نائیک کی جہالت کا ایک اور بڑا ثبوت ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ڈکٹیٹر نہیں تھے وہ باقاعدہ منتخب ہو کر آئے تھے عدنان حفیظ کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر پارسا بھی ھوتے ہیں؟ کیاریاست کے ستون منہدم کرکےاقتدار پرغاصب ھونا،قرآن وحدیث کی روشنی میں پارسائی ھے؟ عمر بن خطاب کوڈکٹیٹر قراردےدیا۔ کیاحضرت عمر آمر،مطلق العنان اورغاصب تھے؟ رہی قرآن وحدیث کی روشنی۔ رٹوطوطےکوکوئی بتلائےآٹھویں صدی سےپہلےحدیث کاوجودتھا نہ قانونی حیثیت- ندیااظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں ایک بار پھر ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے ذہن سازی کی جا رہی ہے؟ ایک صارف نے سوال کیا کہ اور جو آئین و قانون اور عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کریں لوگوں کو اغواء کریں ان کے لیے کیا حکم ہے؟؟؟
بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں بلاول نے کہا کہ قائداعظم نے سب سے پہلے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز پیش کی۔قائد اعظم نے پہلی مرتبہ وفاقی آئینی عدالت کی تفصیل 27 اکتوبر 1931 کو لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں پیش کی انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کی یہ تجویز تقریباً پی پی پی کی پیش کردہ تجویز سے مماثلت رکھتی ہے۔قائداعظم نے کہا کہ کوئی بھی سوال جو وفاقی آئین سے متعلق ہو یا آئین سے پیدا ہو، اسے وفاقی عدالت میں جانا چاہئے سوشل میڈیا صارفین نے اس پر دلچسپ تبصرے کئے، انہوں نے کہا کہ قائدِ اعظم کی ترجیح ایک جائز آئینی عدالت ہو سکتی ہے، ارکان کے گھر والوں کو اغوا کرنا، ملازمین کو مارنا تو قائد اعظم نے نہیں کہا ہو گا مغیث علی نے ردعمل دیا کہ واہ واہ۔۔ قائد اعظم کا خواب تھا ؟ اس بات کا تو بھٹو صاحب کو بھی نہیں پتہ تھا، اگر پتہ ہوتا تو آئین میں وفاقی عدالت نہ ڈال دیتے علی رضا نے کہا کہ 1931 میں پاکستان ہی نہیں بنا تھا تو خواب کیسا۔ بلاول زرداری ہمیشہ سے ہی جھوٹ بول رہا ہے۔ علینہ شگری نے تبصرہ کیا کہ اور افسوس کہ یہ خواب 1947 میں اس لیے پورا نہ ہو سکا کہ اُس وقت آئینی عدالت کی ترمیم کے نمبرز پورا کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی سہولت قائداعظم کو میسر نہیں تھی سعید بلوچ نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام قائد اعظم کا خواب تھا جسے بلاول کے نانا ذوالفقار بھٹو نے 1973 کے آئین کی تخلیق کے موقع پر پورا نہ ہونے دیا تھا شفقت علی نے سوال کیا کہ قائداعظم کی یہ ترجیح آئین بناتے ہوئے بلاول کے نانا کی نظر سے نہیں گزری؟؟ رحیق عباسی نے تبصرہ کیا کہ بلاول نے اپنے نانا کے خلاف چارج شیٹ کردی جنہوں نے قائد اعظم کے خواب کو کوئی اہمیت نہ دی اور آئینی عدالت کا 1973 کے آئین میں شامل نہیں کیا احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم کی ترجیح ایک جائز آئینی عدالت ہو سکتی ہے، ارکان کے گھر والوں کو اغوا کرنا، ملازمین کو مارنا تو قائد اعظم نے نہیں کہا ہو گا فرحان منہاج نے ردعمل دیا کہ بلاول صاحب تھوڑی تحقیق کرکے یہ بھی بتائیں کہ قائد اعظم نے لوٹے خریدنے کا بھی نظریہ کہیں تو ضرور دیا ہوگا
سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ ویڈیو وائرل ہوئی ہےجس میں علی امین گنڈاپور کے پی ٹی آئی کے احتجاج میں ادا کیے گئے کردار کو طنز و مزاح سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین دلچسپ تبصرے کررہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عون علی کھوسہ کے بھائی علی شیر کھوسہ نے سوشل میڈیا پر ایک اینی میٹڈ ویڈیو شیئر کی جس میں علی امین گنڈاپور کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات اور علی امین گنڈاپور کی جانب سے عمران خان کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں علی امین گنڈاپور کو عمران خان کے سامنے احتجاج کے دوران اپنی بڑائیاں کرتے اور عوام سے متعلق یقین دہانیاں کرواتے ہوئے دکھایا گیا ہے ، ویڈیو میں علی امین 2 بار عمران خان کے عوام سے متعلق سوال پر کہتے ہیں "چھوڑی عوام کو وہ تو مکمل طور پر آپ کے ساتھ ہیں"۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر لوگوں کی جانب سے اس کو بہت پسند کیا جارہا ہے اور علی شیر کھوسہ کے اس مزاح کو انجوائے کیا جارہا ہے، صارفین نے اس ویڈیو پر دلچسپ تبصرے بھی کیے ہیں۔ ایک صارف نے علی امین گنڈاپور کی گفتگو میں ایک جملے کا اضافہ کرتےہوئے کہا کہ علی امین کاکہنا ہے کہ"خان صاحب پوری عوام آپ کے ساتھ بلکہ ساتھ والے سیل میں ہے"۔ ایک دوسرے صارف نے کہا کہ جی عوام بالکل آپ کے ساتھ ہے، ساتھ والے سیل میں ہے۔ ایک پی ٹی آئی صارف نے بھی اس ویڈیو پر بجائے برا ماننے یا سخت ردعمل دینے کے اسے انجوائے کیا اور اس پر ہنسی کا اظہار کیا۔
سابق کرکٹر عامر سہیل اور پاکستانی پریزینٹر زینب عباس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہےجس کی وجہ سے وہ سخت تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ملتان ٹیسٹ میچ کے دوران پریزینٹر کے فرائض سرانجام دینے والی زینب عباس اور سابق کرکٹر عامر سہیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے،اس تصویر میں عامر سہیل، زینب عباس اور سابق برطانوی کرکٹراور کمنٹیٹر ناصر حسین میچ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تینوں کرکٹ ایکسپرٹس کو گرمی کی شدت سے بچانے کیلئے چھتریوں کا سہارا لینا پڑررہا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ناصر حسین نے اپنی چھتری کو خود تھاما ہوا ہے مگر عامر سہیل اور زینب عباس نے اس کام کیلئے گراؤنڈ اسٹاف کے ممبران کو اپنے پیچھے کھڑا کیا ہے جو ان کے سر پر چھتری کا سایہ کیے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس واضح فرق کو فوری طور پر محسوس کیا اور زینب عباس اور عامر سہیل کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ساتھ ہی ناصر حسین کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ایک صارف نے کہا کہ گورے نے اپنی چھتری خود پکڑی ہوئی ہے کیونکہ وہ معذور نہیں ہے جبکہ ہمارے دونوں تجزیہ کار معذور ہیں ۔ ذوہیب نامی صارف نے کہا کہ ہمارے چھوٹے لوگ احساس کمتری کا شکار ہیں، جب بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں تو ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے خیبرپختونخواء ہاؤس کو سیل کر دیا گیا ترجمان سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ ’پختونخوا ہاؤس کی لیز بھی ختم ہو چکی ہے اور یہ لیز 2006 میں ختم ہوئی مگر آج کی کارروائی تعمیرات کے قوانین کی خلاف ورزی پر کی گئی ہے۔‘ خیبرپختونخوا ہاؤس یل کرنے کے دوران خیبرپختونخوا ہاوس کے اندر سی ڈی اے عملہ اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار موجود تھے اور خیبرپختونخوا ہائوس میں وزیراعلیٰ آفس بھی سیل کردیا ہے سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول ونگ نے خیبرپختونخوا ہائوس مین داخلی راستے کو بھی سیل کر دیا، فیملی بلاک میں رہائش پزیر فیملیز کو بلڈنگ خالی کرنے کیلئے 24 گھنٹے کی مہلت دیدی۔ اس پر صحافی علی اکبر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ خیبر پختونخوا ہاؤس خیبر پختونخوا صوبے کے لئے باعث عزت عمارت ہے ، انتقامی کاروائی کے تحت وفاقی حکومت کو کے پی ہاؤس کو سیل کرنا قابل افسوس اور قابل مذمت ہے رفاقت یوسفزئی نے کہا کہ انکی مت ماری گئی ہے۔ پنجاب اور وفاق سمیت وزیر داخلہ نے علی امین کا اب تک کیا بگاڑا ہے یا کونسا نقصان پہنچایا ہے؟ بلکہ الٹا انکی مشہوری کی جارہی ہے جیسے تحریک انصاف چیئرمین شپ کی تیاری ہو۔ پختونخوا ہاوس کو سیل کرنا شرمناک ہے۔ حکمرانوں کی ہر دوائی الٹا اثر کررہی ہے وسیم عباسی کا کہنا تھا کہ پتا نہیں کون ایڈوئس کرتا ہے۔ خیبر پختونخواہ ہاوس سیل کرنا غلط اور قابل مذمت ہے اور اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔ صحافی فہیم اختر نے تبصرہ کیا کہ اسلام آباد میں پاگل پن اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔۔ وفاق میں ایک اکائی خیبرپختونخواہ ہاوس کو سیل کردیا گیا۔۔ کیا جان بوجھ کر علیحدگی پر مجبور کیا جارہا ہے؟ ثاقب بشر نے لکھا کہ لگتا ہے حکومتی سائیڈ سے بھی کوئی چاہ رہا ہے مرکز صوبے کی لڑائی ہر صورت بڑھے اجمل خان وزیر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام اباد کو سیل کرنا قابل افسوس ہے۔۔۔“خیبر پختونخوا ہاؤس “خیبر پختونخوا صوبے کے لئے باعث عزت عمارت ہے صابر شاکر نے ردعمل دیا کہ یاست پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی ملکیت سرکاری ریاستی عمارت خیبرپختونخوا ہاؤس کو نقوی سرکار کے محکمے نے سِیل کردیاہے صوبوں قومیتوں کے مابین منافرت پھیلانے کا گھناؤنا اقدام جاری ہے خیبرپختونخوا اسمبلی ہاؤس میں غنڈہ گردی کی تحقیقات کا حکم دے چکی ہے صحافی نعمت خان نے تبصرہ کیا کہ “لسانی اور صوبائی عصبیت کو ہوا دینی والی اسٹبلشمنٹ اور رائیونڈ والوں کی وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں واقع خیبرپختونخوا ہاوس کو سیل کردیا۔” ایک دوست کا تبصرہ
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ میں وہاں سے نکلا تو میری جیب میں پیسے نہیں تھے، 12 ضلعوں سے ہو کر یہاں پہنچا ہوں ، سوشل میڈیا صارفین علی امین گنڈاپور کی بات پر یقین نہیں کررہے اور کہہ رہے ہیں کہ علی امین گنڈاپور نے کہانی گھڑی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جیب خالی ہو اور گنڈاپور خالی جیب 12 اضلاع پار کرکے پشاور پہنچ گئے ہوں؟ کیا گنڈاپور پیدل پشاور آئے تھے؟ انہوں نے مزید کہا کہ گنڈاپور جھوٹ بول رہے ہیں، اصل بات نہیں بتارہے، سارا ملبہ آئی جی پر ڈال رہے ہیں لیکن دیگر کرداروں کو بچارہے ہیں۔ عدیل حبیب نے اس پر ردعمل دیا کہ گنڈاپور کی کہانی کا نہ سر ہے نہ پیر ہے احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور نے ساری ملبہ آئی جی اسلام آباد پر ڈال دیا، محسن نقوی سمیت باقی تمام افراد کو کلین چٹ راشد نے کہا کہ گنڈاپور خالی جیب نیو خان بس والوں کو اپنا سٹوڈنٹ کارڈ دکھا کر 12 ضلعوں کا مفت سفر کرکے پشاور پہنچا فلک جاوید کا کہنا تھا کہ ایسے سفید جھوٹ سے بہتر تھا کالا سچ بتا کر مستعفی ہو جاتے کم از کم عوام کی نظروں میں سرخرو ہو جاتے صدیق جان نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کو یہ ڈرامے کرنے کے بجائے مستعفی ہو جانا چایئے تھا انہوں نے مزید کہا کہ علی امین گنڈا پور سب کو جاہل سمجھتا ہے، یہ جھوٹ بول رہا ہے اور منہ سے ہوائی فائرنگ کررہا ہے۔ محمد عمیر نے طنز کیا کہ چن کتھاں گزاری ای دن تے رات وے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آج ثابت ہو گیا کہ اٹھائے جانے والا ہر شخص واپس آکر محض یہی بیان دیتا ہے کہ میں تو شمالی علاقاجات کی سیر کو گیا تھا چاہے وہ ایک صوبے کا وزیر اعلی ہی کیوں نہ ہو سلمان شریف نے طنز کیا کہ میری ایک ٹانگ نقلی ہے میں ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی تھا ایک دن ادے بھائی کو میری کسی بات پر غصہ آیا میری ٹانگیں توڑی دل کے بہت اچھے تھے ہسپتال لے گئے نقلی ٹانگ لگوائی آج اسمبلی پہنچ گیا بلال غوری کا کہنا تھا تجسس کی معذرت،جیب میں پیسے نہیں،ناکے ،تلاشی،گنڈا پور اسلام آبادسے پشاور پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟باالخصوص 12اضلاع والی بات ہضم نہیں ہورہی۔جو بھی راستہ اختیارکریں، راولپنڈی،اٹک،نوشہرہ،مردان،چارسدہ اورپشاورکے علاوہ کوئی ساتواں ضلع شامل نہیں ہوسکتا۔رہنمائی فرمائیں کس راستےگئےہونگے سعید بلوچ نے ردعمل دیا کہ علی امین گنڈاپور اپنے لاپتہ ہونے کے علاوہ باقی تمام غیر ضروری باتیں کر رہا ہے، جو عوام سننا چاہتی ہے وہ نہیں بتا رہا، جو بتا رہا وہ جھوٹ بتا رہا ہے اسد چوہدری نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ تاثر انکی بادی لینگویج سے واضح ہورہا ہے۔ انکو معلوم نہیں پڑ رہا ہے کہ انہوں نے کیا بولنا ہے، کیا کہنا ہے، کس موضوع پر کیسے بات کرنی ہے۔ وہ گزشتہ شب کا مدعا آئی جی پر ڈال کر فرار چاہتے ہیں مگر سچ بولنے سے کتراتے دکھائی دے رہے ہیں۔ احمد ابوبکر نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈہ پور اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب نہیں کر رہے۔۔۔ کیا اسے میچ فکس اورطعلی امین گنڈا پور کا سرنڈر سمجھا جا ئے؟ ارسل نیازی نے کہا کہ ایسے سفید جھوٹ سے بہتر تھا کالا سچ بتا کر مستعفی ہو جاتے کم از کم عوام کی نظروں میں سرخرو ہو جاتے۔ عامر خوانی نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور نے پوری تحریک انصاف کو شرمندہ کرایا اور ان کے کارکنوں کو تکلیف دی ہے۔ اب جو کم از کم کام علی امین کو کرنا چاہئیے وہ وزارت اعلی سے استعفا ہے۔ ڈیمیج کنٹرول پھر بھی نہیں ہو گا مگر اسمبلی میں سفید جھوٹ بولنے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ تو بنتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مبینہ طور پر حکومتی لسٹ میں شامل کیے گئے 2 ارکین اسمبلی نے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے آئینی ترامیم کی مخالفت اور پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری الیاس بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ عادل بازئی بلوچستان میں ہیں اور حکومت کی رسائی سے دور ہیں۔یہ دونوں ایم این ایز تحریک انصاف کی حمایت سے جیتے تھے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر صحافی فہیم اختر ملک نے اپنی ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ رکن قومی اسمبلی عادل بازئی اور الیاس چوہدری نے آئینی ترامیم کے معاملے میں حکومت کا ساتھ نا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ اور ق لیگ کیجانب سے ان اراکین کے خلاف اسپیکر کو ریفرنس بھیج دیا گیا ہے، اگر یہ سیٹ چلی گئی تو نقصان حکومت کو ہی ہوگا۔ صحافی احمد وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف کو عادل بازئی اور شجاعت حسین کو چوہدری الیاس کے بارے میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے بجٹ سیشن کے دوران پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا، حالانکہ ایوان میں کوئی گنتی نہیں ہوئی بلکہ یس اور نو کی بنیاد پر ووٹنگ ہوئی، پھر یہ کیسے طے کرلیا گیا کہ ان دونوں نے بجٹ میں مخالف ووٹ دیا؟ انہوں نے اپنی دوسری ٹویٹ میں کہا کہ عادل بازئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا بیان حلفی دیا، اس کے بعد انہیں ن لیگ میں شامل کرنا بدنیتی ہے۔ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ عادل بازئی اور چوہدری الیاس کے ساتھ جو بھی ہوا مگر انہوں نے اہم وقت پر غائب ہوکر اپنی وفاداری ثابت کردی۔ علی رضا نے کہا کہ عادل بازئی اور چوہدری الیاس دونوں ہی پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتے مگرالیکشن کمیشن نے ان دونوں کو ن لیگ اور ق لیگ میں شامل کردیا، بجٹ میں ان دونوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا تو ان کے خلاف پارٹی صورت نے اسپیکر کو ووٹ دیا، چالیس سال بعد نواز شریف اور شجاعت حسین کی سیاست یہ ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر نظرِ ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ نہ محفوظ کیا گیا اور نہ ہی سماعت کے دوران کسی قسم کا وقفہ لیا گیا اور فیصلہ سنادیا گیا۔۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر صحافی شدید تنقید کررہے ہیں اور اسے فلور کراسنگ اور لوٹاکریسی کی سہولت کاری قرار دے رہے ہیں۔ وقاص اعوان نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس نے ہر موقع پر حکومت کو ریسکیو کیا ہے الیکشن ہوں تو انتخابی نشان چھین لو بندے پورے نہ ہون تو دوبارہ گنتی کروا کہ سیٹیں چھین لو مخصوص نشستیں چھین لو پھر بھی بات نہ بنے تو عین موقع پر ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے دو کمال کا منصف ہے محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ بلے کا نشان چھینا،ٹربیونلز کو کام سے روکا،سیٹیں چھین کردیں،فلور کراسنگ کا راستہ کھولا،اس سے زیادہ اور سہولت کاری کیا ہوگی؟ احمد بوبک نے ردعمل دیا کہ قاضی فائز عیسٰی جمہوریت کا دشمن بشارت راجہ نے تبصرہ کیاکہ جس کیس میں عمران خان فریق ہو اور وہ کیس قاضی القضاۃ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں ہو اُس کا فیصلہ آئین اور قانون نہیں بلکہ خواہشات کے مطابق دیا جاتا ہے احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ ری کاؤنٹنگ میں 3 سیٹیں دیں، فلور کراسنگ پر عائد پابندی بھی ہٹا دی، اب بھی ترمیم نہ ہو سکی تو حضرت نے سرف کھا لینی ہے اظہر صدیق ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے کرپشن کے دروازے کھول دے!! ووٹ خریداروں کی بولیاں کروڑوں تک جا پہنچی رائے ثاقب کھرل نے طنز کیا کہ چھانگا مانگا کی طرف جانے والی سڑکیں صاف ستھری ہیں وسیم ملک نے طنزیہ ہیڈلائین دی کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی گروہ نے فلور کراسنگ کی اجازت دے دی سحرش مان نے ردعمل دیا کہ بلاول کے نام قاضی کا اہم پیغام میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا اب تمہارے حوالے سندھ ہاؤس کی منڈی ساتھیو زبیر علی خان نے لکھا کہ کینگرو کورٹ آف پاکستان نے فلور کراسنگ کی اجازت دیدی فیضان کا کہنا تھا کہ فیصلہ تو کر لیا گیا تھا سنایا آج گیا ہے، سب کو معلوم تھا صدیق جان کا کہنا تھا کہ سیاسی جسم فروشی حلال ہے،قاضی اور اس کے یاروں کا فیصلہ ثاقب بشر نے لکھا کہ فلور کراسنگ کا رستہ کھل گیا سپریم کورٹ نے درست فیصلہ بھی ایسے وقت میں دیکر سسٹم کو سہولت فراہم کی ہے محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ تیز ترین انصاف ،،، تاریخ رقم طارق متین نے کہا کہ غیر قانونی کمیٹی کا غیرقانونی بینچ فلور کراسنگ کی اجازت دے کر بیٹھ گیا اب ترمیم کے لیے راستہ کھول دیا ہے
راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچنے والا بچے حیدر نے جنید سلیم کے شو میں پاکستان میں کسانوں کی تباہی بارے بات کی اور کسانوں کے حالات سامنے رکھ دئیے اس نے پنجابی زبان میں کہا کہ مونجی دا ریٹ ہی نئیں صحیح ہون ڈیا، بندے تپے اے نیں، اسی مر گئے آں، ایہہ ریٹ ای نئیں صحیح کردے، اینہاں سانوں کھا چھڈناں اے‘‘ یعنی چاول کی فصل کا ریٹ مناسب نہیں، لوگ غصے میں ہیں، ہم مر گئے ہیں، یہ ہمیں کھا جائیں گے یہ کلپ سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوا اور اس پر دلچسپ تبصرے ہوئے۔ فارم 45 نامی ایکس اکاؤنٹ کا کہنا تھا کہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچنے والا بچہ حیدر "پاکستان میں کسانوں کی تباہی بارے بات کرتے ہوئے" اسکی گفتگو سننے کا مزہ آتا ہے لیکن پھر بھی میری گزارش ہے کہ میڈیا اس بچے سے دور رہے عمران بھٹی نے تبصرہ کیا کہ یہ بچہ بھی بدتمیز ہے،،یہ بھی آواز بلندکرتاہے،،،،،منجانب گدھ صحافی،لگڑ بگڑ ،مداری اور انکے آقا مزنج شاہ نے لکھا کہ مجبوریاں اور حالات انسان کو وقت سے پہلے سمجھدار بنا دیتے۔ خرم مغل کا کہنا تھا کہ سیانت کسی کی میراث نہیں
مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نےعمران خان کے پیچھےچلنے والی عوام کو بھیڑ بکریاں قرار دیدیا ہے، سوشل میڈیا نواز شریف کے بیان پر پی ٹی آئی کارکنان اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ" بھیڑ بکریوں کی طرح پیچھے چلنے والے اس (عمران خان) سے پوچھیں کہ 50 لاکھ گھر کہاں ہیں"۔ نواز شریف کی جانب سے نام لیے بغیر عمران خان اور ان کے پیچھے کھڑی عوام سے متعلق یہ ریمارکس عوام کو بالکل پسند نہیں آئے، پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان اور عوام نے نواز شریف کے اس بیان پر ان کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ عمران ریاض خان نے کہا بھیڑ بکریاں وہ ہیں جنہیں ہم نے چند دن پہلے پارلیمان میں ہانکتے ہوئے دیکھا۔ 47 والے ایم این ایز اپنی مرضی سے باتھ روم بھی نہیں جا پا رہے تھے۔ اور ایک بڑی بھیڑ تو ایسی ہے جسے ترمیم تک ہر حال میں باہر جانے سے روکا گیا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ شہر بانو نے کہا کہ ہم بھیڑ بکریاں نہیں باشعور عوام ہیں جنہوں نے آپ کے خاندان کو مسترد کیا، یہ ایسٹ انڈیا کمپنی طرح آتے ہیں پاکستان پر حکومت کرتے ہیں اور جیسے ہی حکومت ختم ہوتی ہے تو واپس برطانیہ بھاگ جاتے ہیں۔ صحافی طارق متین نے کہا کہ یاسمین راشد سے شکست کھانے والے کو دکھ بس یہ ہے کہ ان کیلئے عوام باہر نہیں نکلی، میاں صاحب لوگ پتلی گلی سے نکلنےو الوں کیلئے باہر نہیں نکلتے۔ عمران بھٹی نے کہا کہ جو قائد کے پیچھے نہیں چلتے اور قائد کو ووٹ نہیں دیتے وہ بھیڑ بکریاں ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے اس بیان پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی ذہنی حالت پر تشویش ہے، یہ عوام کو آج بھیڑ بکریاں کہہ رہے ہیں کیونکہ ان کو ووٹ نہیں ڈالا، یہ تین بار ملک کا وزیراعظم بننے والا شخص ہے جو عوام کے شعور کی روز توہین کرتا ہے اور خود پر مصیبت پڑتی ہے تب بھی عوام کو کوستا ہے کہ یہ باہر نہیں نکلے۔ https://x.com/Salmanrajaakram/status1841463220609110188 عبدالباسط نے کہا کہ یہ شخص اس ساری عوام کو بھیڑ بکریاں کہہ رہا ہے جو آئینی حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں، جب لوگ ان کیلئے نہیں نکلتے تو لوگ ذمہ دار، اور اگرعمران خان کیلئے نکلیں تو بھیڑ بکریاں۔ پی ٹی آئی کارکنان نے کہا کہ کسی نے تو اتنی گارنٹی دی ہے جو آج پٹہ کھولا گیا ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی اور قوم کو بھیڑ بکریاں قرار دیا جارہا ہے، اب لفافی حرام خوروں کو اخلاقیات یاد نہیں آئے گی۔ لال ماہی نے کہا کہ تین بار وزیراعظم اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے کا لیول چیک کریں، عمران خان کے کروڑوں سپورٹرز اور چاہنے والوں کو بھیڑ بکریاں کہہ دیا۔ ڈاکٹر امتیاز اعوان نے کہا کہ بھیڑ بکریاں آپ کے وہ پیروکار ہیں جنہیں آپ کی لوٹ مار اور ناجائز اثاثے نظر نہیں آتے، ہم باشعور ہیں جو ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔ سردار امتیاز نے کہا کہ وہ 50 لاکھ گھروں کا نہیں بتاسکتے تو آپ عدالت میں لندن والے گھر کا بتادیتے ۔ https://x.com/SardarImtiazMa3/status1841454487732408461 ایک صارف نے کہا کہ انہیں چار دہائیوں پر محیط سیاست پر بھی عقل نہیں آئی، آج کی تقریر میں نواز شریف صوبائیت کو ہوا دے رہے تھے۔
نجی خبررساں ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شیطان کی تعریفیں شروع ہوگئیں، کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی خبررساں ادارے سماء ٹی وی کے ڈیجیٹل چینل کے ایک پروگرام میں شریک لالہ رخ نامی خاتون نے نا صرف شیطان کی تعریفیں کیں بلکہ شیطان سے اپنی ملاقات اور شیطان کا حلیہ بھی بیان کردیا۔ لالہ رخ نے کہا کہ" میں نے شیطان کو دیکھا وہ انتہائی خوبصورت تھا، اس کی عمر پینتالیس پچاس ہوگی، اس نے گرے کلر کا سوٹ گرے ٹائی پہن رکھی تھی اور کیا اس کی مسکراہٹ تھی، شیطان بہت ایلی گینٹ تھا، وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ سجدے کرکے دیکھ لیے، مانگ کر دیکھ لیا، ایک بار مجھ سے مانگ کردیکھو، "۔ شیطان کی تعریفیں کرنے والی اس خاتون کی گفتگو کو اپنے چینل پر نشر کرنے والے خبررساں ادارے سماء ڈیجیٹل کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صحافی و اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے اس کلپ کو شیئر کرتے ہوئے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ سماء ٹی کی چینل انتظامیہ شرک اور شیطان کی پرستش کو فروغ دے رہی ہے، یہ آنٹی اللہ کے بجائے شیطان سے مدد مانگنے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے اور یہ چینل اس گفتگو کو نشر کررہا ہے۔ صحافی و اینکر اجمل جامی نے خاتون کی گفتگو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سماء ٹی وی کی خصوصی پیشکش پر تالیاں۔ حمیرا وجاہت نے کہا کہ پاکستان میں شیطان اور جنات کی عبادات سکھائی جارہی ہے، ان سے پہلے عورت مارچ والے مردوں کوٹرانسجینڈر اور ہم جنس پرست بننا سکھارہے تھے، اپنے گھروں کی حفاظت کریں اور اللہ کے راستے پر آئیں۔ راجا فیصل نے کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے یہ عورت شیطان کو کس طرح گلیمرائزڈ کرکے بتارہی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ہمارے میڈیا اور لبرل آنٹیوں نے شیطان کو بھی گلوریفائی کرنا شروع کردیا ہے، ان محترمہ کو سماء والوں نے بطور مہمان کیوں بلایا ہے؟ حیدر چٹھا نے کہا کہ خدا مرکز ہے اور اس کی زندگی کی اخلاقیات، قانون اور علم اسی مرکز سے نکلتے ہیں، یہ ایک یقین ہے ، جو اس پر یقین نہیں رکھتے وہ آزاد ہیں شیطان سے مدد مانگنے میں اور اس کی پیروی کرنے میں۔ ساحر مقصود نے کہا کہ علیم خان کے سماء ٹی پر شیطان کو خوبصورت بتایا جارہا ہے، جیسے برائی کو فیشن ویک میں لے آیا ہو، کیا اب شیطان ماڈلنگ بھی کرے گا؟ اگر ریٹنگز مل گئیں تو وہ اپنی کاسمیٹکس بھی لانچ کردے گا، اب تو شیطان بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بننے کو تیار ہے۔
ایران اسرائیل کشیدگی پر پاکستانی وزیردفاع کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے اسرائیل ایران کشیدگی پر دعمل دیتے ہوئےعمران خان کی ایک تصویر شئیر کی جس میں انہوں نے عدالت پیشی پر حفاظتی ٹوپ پہنا ہوا ہے۔ قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان کو کسی جانی نقصان سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ ٹوپ پہنایا جاتا تھا جو ایک بلٹ پروف ٹوپ ہے خواجہ آصف نے تصویر شئیر کرتے ہوئے کہا اسرائیل کو مشورہ دیا کہ اسرائیل کو عمران خان سے اس آئرن ڈوم کی ٹیکنالوجی لینی چاہئے۔ انہوں نےمزید کہا کہ ویسے بھی رشتے داری ہےکوئی میزائل نہیں وڑ سکے گا شرطیہ۔۔ یہ دنیا کی بیسٹ ٹیکنالوجی ہے۔ صحافی ثاقب بشیر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وزیر دفاع ایران اسرائیل کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ۔۔ !! ٹرولز اور وزیر دفاع میں کوئی فرق نظر آئے تو بتائیں ؟ وسیم اعجاز جنجوعہ نے تبصرہ کیا کہ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ صاحب جگتیں مار کر ہی ملک کا دفاع کر سکتے ہیں ۔۔ ویسے جگتوں سے یاد آیا اگر بات مراثیوں تک ا گئی ہے تو پاکستان کو دنیا سے صلح ہی کر لینی چاہیے عرفان علی نے تبصرہ کیا کہ یہ پاکستان کا وزیر دفاع ہے؟ اس کی سوچ دیکھیں. کیا نمونے ہمارے اوپر مسلط ہیں ارشاد کا کہنا تھا کہ آخر ہو نہ رنگباز، رنگبازی تو دکھاؤ گے عمرخیام نے تبصرہ کیا کہ ہمارے وزیردفاع کی ذہنی پستی کا لیول چیک کریں ،،،ذرا سعدیہ مظہر نے تبصرہ کیا کہ وزیر دفاع۔۔ ملک کا دفاع کرتے ہوئے اور خطے میں کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے
گرفتاری کے دوران پولیس اہلکاروں کی جانب سے سیمابیہ طاہر کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا انکشاف۔۔ سیمابیہ طاہر کو گزشتہ روز راولپنڈی میں احتجاج کے دوران گرفتارکیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی گرفتار رہنما سیمابیہ طاہر نے عدالت پیشی پر انکشاف کیا کہ خالد نامی پولیس اہلکار نے اور اس کے ساتھ سول کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش نے میرا دوپٹہ پھاڑا، میرے گریبان پے ہاتھ ڈالا اور میرے سر پر مارا، ان سے ضرور حساب لیا جائے گا کیا سیمابیہ طاہر کا یہ دعویٰ درست ہے؟ گزشتہ دنوں راولپنڈی احتجاج کے دوران ویڈیو نے سیمابیہ طاہر کے دعوے کی تصدیق کردی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرد پولیس اہلکار سیمابیہ طاہر کو گرفتار کر کے لے جا رہا ہے اور ڈنڈے مار رہا ہے چل۔چل اور پھر موبائلز چھین لئے گئے اور اسے گریبان سے پکڑ گرفتار کر کے لے جا رہا ہے اس ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ ارد گرد سادہ کپڑوں والے ہیں جبکہ پاکستانی قانون کے مطابق کسی خاتون کو گرفتار کرنے کیلئے لیڈی کانسٹیبل کا ہونا ضروری ہے۔ ادریس عباسی نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشرہ جلسے،احتجاج کی اجازت دیتا ہے،عدلیہ،پارلیمان ہمارے حقوق کے تحفظ کے لیے بنی ہیں لیکن اگر تمام مسائل سڑکوں پر حل ہونے ہیں تو پارلیمان،عدالتوں کی کیا ضرورت؟جب بھی کوئی اچھا لیڈر ابھرتا ہے اس کا راستہ ہی روک لیا جاتا ہے،ان مفاد پرست حکمرانوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے سلمان درانی کا اس پر کہنا تھا کہ جلد یا بدیر ان کے گریبان اسی عوام کے ہاتھ میں ہونگے اور ان کو انہی سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔
پولیس نے 80 سالہ بزرگ خاتون پر احتجاج میں شرکت کی بنیاد پر دہشتگردی کا پرچہ درج کر لیا اور اسے گرفتار کرلیا اسی سالہ روشن بی بی کو انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ دیا یہ تصویر سوشل میڈیا پر خوب وائر ل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین نے تبصرے کرکے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ نعیم ضرار نے ردعمل دیا کہ اس 80 سالہ بزرگ خاتون روشن بی بی کا چہرہ وہ روشن آئینہ ہے جس میں پنجاب کی چیف منسٹر عورت اپنا بھیانک چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ عائشہ بھٹہ کا کہنا تھا کہ جس کو گرفتار کرتے ہیں، قوم اسے ہیرو بنا دیتی ہے۔۔آج 80 سالہ روشن جہاں بیگم اس مزاحمتی تحریک کا ابھرتا ہوا چہرہ ہیں بشارت راجہ نے تبصرہ کیا کہ یہ دو فوٹو ہیں ایک میں ضعیف والدہ جو ریاست سے اپنا حق مانگنے نکلی اور اُسے دہشتگرد بنا دیا گیا جبکہ دوسری طرف ایک ٹک ٹاکر خاتون ہے جو اٹک پُل پر فوٹو شوٹو کروانے کے بعد واپس خیبر پختونخواہ چلی گئی اور کچھ نابغہ روزگاروں کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی لیڈر ہے ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ سنا ہے پنجاب پولیس کے شیر، کڑیل ،جری، دلیر، لیگی اہلکاروں نے ایک بہہہہہہت خطرناک، ظالم ، طاقت ور، مطلوب، پھولن دیوی دہشت گرد کو پکڑ کر سینے پر فخر کا تمغہ سجایا ہے۔۔ ڈوب کے مر جاؤ ۔۔ بےشرمو فریحہ ادریس نے تبصرہ کیا کہ 80 سالہ عورت کو تہذیب یافتہ معاشروں میں ویٹرن کا درجہ مِلتا ہے اور ہمارے مُلک میں انھیں احتجاج کرنے پر ریمانڈ پر بھیج دیا؟ کیا سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں؟ عبید بھٹی نے تبصرہ کیا کہ سلطنت شریفیہ میں عزت صرف کلثوم نواز اور مریم نواز کی ہے، احترام، عورت ہونا، بزرگی، سب کچھ صرف ان چند خاندانوں کیلیے ایکسکلوژو ہے۔ ورنہ انکے خلاف احتجاج کرنے والی بوڑھی بزرگ عورت بھی خطرناک دہشت گرد ہے۔ ویسے لعنت تو پنجاب پولیس کے ان شیر جوانوں پر بنتی ہے جو اپنا ضمیر اس خاندان کو بیچ چکے ہیں عامرعباسی نے معنی خیز تبصرہ کیا کہ دہشتگردی کے مقدمے میں زیر حراست اماں جی احتشام عباسی نے تصویر شئیر کرتے ہوئے ٹوٹے دل کا ایموجی شئیر کیا بشارت راجہ نے تبصرہ کیا کہ ہاتھ میں تسبیح لئے ضعیف والدہ کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے حق کی مانگ کے لیے گزرے روز سڑک پر نکلی ریاست نے اُسے دہشت گرد ٹھہرا دیا مگر ایک بات یاد رکھیں کہ پاکستان بدل رہا ہے تمہیں جلد یا بدیر واپس جانا ہو گا اور یہ لکھا جا چکا ہے فرحان کا کہنا تھا کہ اٹھیں مریم نواز حکومت کے خلاف آواز بلند کریں ایک ضعیف ماں کو دھشت گردی مقدمے میں نامزد کرنا خود ایک بڑی دھشتگردی ہے زین قریشی نے تبصرہ کیا ک ہحکومت کی بے شرمی اور ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ 80 سالہ روشن بی بی اور اسد اللہ ممبر قومی اسمبلی کی 13 سالہ بچی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ روشن بی بی کو راولپنڈی لیاقت باغ میں پرامن احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ پر پیش کیے جانے کے باوجود انہوں نے وکٹری کا نشان بنا کر فاشسٹ حکومت کو پیغام دیا کہ ان ہتھکنڈوں سے عوام کا عزم کمزور نہیں ہوگا۔ یہ حکومت اخلاقی پستی کی تمام حدیں عبور کر چکی ہے، مگر خان کی قیادت میں حقیقی آزادی کا سفر جاری رہے گا اور قوم متحد ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا ک پنجاب حکومت نے اس ضعیف خاتون کو دہشتگردی کے کیس میں گرفتار کیا، عدالت نے ایک روز کا جسمانی ریمانڈ بھی دیا۔ پولیس تفتیش کرے گی۔ریاست ہو گی یزید کے جیسی رضوان غلزئی نے کہا کہ“میں پاکستان کی شہری، پاکستان کی مالک ہوں”۔ پاکستان میں جب جمہوریت بحال ہوگی تو یہ تصویر پارلیمنٹ ہاؤس کی دستور گیلری کا حصہ بنے گی۔ حماداظہر نے تبصرہ کیا کہ روشن بی بی کی عمر 80 سال سے اوپر ہے اور انھیں راولپنڈی لیاقت باغ کے احتجاج کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر فارم 47 کی جعلی حکومت نے اپنے جیسا جعلی دہشت گردی کا پرچہ کیا ہے زبیر علی خان نے ردعمل دیا کہ تم اس لیے خاموش ہو کہ یہ تمہاری ماں نہیں ہے ادریس عباسی نے عظمیٰ بخاری کو مخاطب کیا کہ آپ آج ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دی رہی تھیں کہ پنجاب میں قانون کی حکمرانی ہے یہ کیسی حکمرانی ہے ایک 80 سالہ بزرگ خاتون پر دہشتگردی کا مقدمہ درج کروا دیا؟یہ کون سے قانون کی حکمرانی ہے پنجاب میں ؟، افسوس آپکے قانون اور آپکی بدتہزیب پولیس پر عثمان فرحت کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حیوان صفت لبرلز کے مطابق قاضی فائز عیسی کی بیوی کا ڈونٹ نہ کھانا 80 سالا ماں کو گرفتار کرنے سے بڑا مسئلہ تھا!!

Back
Top