خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ میں نئے صدر کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے گا، دونوں ممالک کے درمیان جنوری سے پہلے معاملات حل ہوجائیں گے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے "العربیہ" کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ہیٹی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات جلد بحال ہوجائیں گے۔ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی رخصتی سے قبل سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان نارملائزیشن ڈیل کی پوری امید ہے، غزہ جنگ بندی کے ساتھ ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات شروع ہوجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم بہت پرامیدہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان جنوری سے پہلے ہی معاملات حل ہوجائیں گے، یہ صدر جوبائیڈن کے دور اقتدار میں ہی ہونے جارہا ہے،اگر ہم غزہ میں جنگ بندی کرواسکیں تو اس میں ایک موقع ہے کہ نارملائزیشن ڈیپ کو آگے بڑھایا جاسکے۔
کینیڈا میں ایک پاکستانی نوجوان کو یہودیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق 20 سالہ محمد شاہ زیب کو امریکہ میں یہودیوں پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث پایا گیا جس کے بعد انہیں کینیڈا سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق شاہ زیب مبینہ طور پر ایک خفیہ ایجنٹ ہے اور وہ نیویارک سٹی کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا کیونکہ وہاں یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے،شاہ زیب کو کینیڈا کی سرحد سے 12 کلومیٹراندر گرفتار کیا گیا ہے۔ شاہ زیب 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے ایک سال مکمل ہونے پر یہودیوں کو داعش کا نام استعمال کرکے قتل کرنا چاہتا تھا،اگر شاہ زیب پر جرم ثابت ہوا تو اسے تقریبا 20 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق شاہ زیب 4 ستمبر کو کینیڈا سے امریکہ آیا تھا اور اس سفر کے دوران اس نے 3 مختلف گاڑیاں استعمال کی تھیں۔
پاک نیوی نے ملکی بحری دفاعی صلاحیتیں مضبوط بنانے کے لیے 2 مزید جنگی جہازوں کو بیڑے میں شامل کر لیا ہے جس کیلئے خصوصی تقریب یوم دفاع کے موقع پر منعقد کی گئی۔ پاک بحریہ کے بیڑے میں جنگی جہازوں کی شمولیت کی تقریب میں صدرمملکت، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، چیف آف نیول سٹاف، کراچی شپ یارڈز اور مسلح افواج کے اعلیٰ حکام کے علاوہ نائب صدر ترکیہ اور وزیر دفاع نے نے شرکت کی۔ پاک بحریہ کے فلیٹ میں پی این ایس بابر اور پی این ایس حنین کی بیک وقت شمولیت کو ملکی بحری دفاعی صلاحیتیں مضبوط بنانے کی جانب اہم کامیابی قرار دیا گیا اور ترکیہ میں تیار کیے گئے پہلے ملجم، بابر کلاس جہاز کو بھی پاک بحریہ کا باضابطہ حصہ بنایا جا رہا ہے۔ رومانیہ میں تیار کیے گئے تیسرے آف شور پیٹرول ویسل پی این ایس حنین کو بھی پاک بحریہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ پی این ایس بابر کی تعمیر 4 جون 2020ء کو شروع کی گئی تھی اور 15 اگست 2021ء کو باضابطہ لانچ کرنے کے بعد کمیشننگ 23 ستمبر 2023ء کو کی گئی تھی۔ دوسری طرف پاک بحریہ میں ورٹیکل لانچنگ سسٹم سے لیس بابر کلاس کے 4 جہازوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے، پاکستان اور ترکیہ میں معاہدے کے تحت 2 جہاز کراچی اور 2 استنبول میں کیے جائیں گے۔ بابر کلاس جہاز زیرآب، سطح آب اور فضا میں لڑنے کی صلاحیت کے حامل ہیں اور 2888 ٹن وزنی جہاز پر فضائی خطروں سے نپٹنے کے لیے ورٹیکل لانچ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ بابر کلاس جہاز کے ورٹیکل لانچ سسٹم سے فضائی اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ، مزید برآمد بتایا گیا ہے کہ پی این ایس خیبر، بدر، اور طارق بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ واضح رہے کہ پی این ایس حنین کی تعمیر ڈامین شپ یارڈ رومانیہ میں ہوئی اور اس جہاز کی کمیشننگ کی تقریب رواں برس ماہ جولائی میں رومانیہ میں منعقد کی گئی تھی۔ پی این ایس حنین کثیرالمقاصد، انتہائی سبک رفتار بحری جنگی جہاز ہے جو ٹرمینل ڈیفنس سسٹم کے ساتھ ساتھ جدید ترین اینٹی شپ ، الیکٹرانک وارفیئر اور اینٹی ایئر وارفیئر کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔
پچھلے چند دنوں سے پاکستان کی سمندری حدود میں گیس وتیل کے بڑے ذخائر دریافت ہونے کے حوالے سے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر خبریں گردش کر رہی ہیں جس کے بارے میں پٹرولیم ڈویشن کا موقف سامنے آیا ہے۔ پٹرولیم ڈویشن کے ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر اندازہ یا تخمینہ ہو سکتی ہے، دریافت گیس و تیل کے ذخیرے بارے زیرگردش خبر میں کہا جا رہا تھا کہ یہ دنیا کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہے جو 3 سال کے سروے کے بعد سامنے آیا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سمندری حدود میں گیس اور تیل کی تلاش کے لیے جیولوجیکل سروے کیا گیا تھا، اس سروے کے دوران سمندر سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ گیس وتیل کے بھاری تعداد میں ذخائر دریافت ہونے کے حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے تاہم اس کی موجودگی سے متعلق یہ ایک اندازہ یا تخمینہ ہو سکتا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل پٹرولیم کنسیشنز آفس اگلے برس کی پہلی سہ ماہی میں اس حوالے سے بڈنگ کروائے گا جس کے بعد کامیاب بولی دہندگان کو آف شور بلاکس ایوارڈ کیے جائیں گے۔ پاکستان کی سمندری حدود میں ایکسپلوریشن کے عمل کا آغاز ہونے کے بعد گیس وتیل کے ذخائر کی دریافت کا پتہ چل سکے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی بہت دفعہ سمندری حدود میں گیس وتیل کے ذخائر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ماضی میں گیس وتیل کی تلاش کے لیے تخمینوں کی بنیاد پر سرگرمیاں کی گئی تھیں۔ سمندر میں جب تک گیس یا تیل کے ذخائر دریافت نہ ہو جائیں تب تک اس کے حجم بارے نہیں بتایا جا سکتا۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی بھارتی ریاست اترپردیش میں باغپت ضلع کے کتانہ گائوں میں واقع خاندانی زمین کو نیلام کر دیا گیا ہے۔ بھارتی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کی خاندانی زمین نیلامی میں فروخت کرنے کے لیے اس کی بنیادی قیمت 39 لاکھ 6 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی جسے خریدنے کے لیے بولی اس کی بنیادی قیمت سے ساڑھے 3 گنا لگائی گئی جس پر اسے فروخت کر دیا گیا۔ 2010ء سے پرویز مشرف کی خاندانی زمین کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا تھا جس کے لیے آن لائن بولیاں بھی لگیں اور بنیادی قیمت سے ساڑھے 3 گنا زیادہ (1 کروڑ 38 لاکھ 16 ہزار) پر بولی ختم ہوئی۔ اترپردیش میں پرویز مشرت کے آبائواجداد کی یہ آخری زمین تھی جسے فروخت کیا گیا، کوتانہ گائوں میں واقع ان کی دیگر خاندانی زمینیں پہلے ہی نیلامی میں فروخت کی جا چکی ہیں۔ سب ڈویژنل مجسٹریٹ امرورما نے میڈیا کو بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دادا کوتانہ گائوں میں رہائش پذیر تھے تاہم ان کی والدہ زرین بیگم اور والد سید مشرف الدین اس گائوں میں رہائش پذیر نہیں تھے۔ پرویز مشرت کے چچا ہمایوں عرصہ دراز تک یہاں پر مقیم رہے جو بعدازاں اپنی زمین فروخت کر کے بھارت چھوڑ گئے تاہم اب نیلام کی گئی زمین حکومت نے قبضے میں لے کر دشمن کی ملکیت قرار دیا تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے لیکن اپنی زندگی میں کبھی کوتانہ گائوں نہیں گئے کیونکہ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان پاکستان آکر آباد ہو گیا تھا۔ کوتانہ گائوں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرت کے رشتہ دار نورو پاکستان بننے کے بعد 18 سال تک یہاں پر مقیم رہے تاہم 1965ء میں بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ واضح رہے کہ ایسی جائیداد جو بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان میں جا بسنے والے افراد نے بھارت میں چھوڑی ہو اسے بھارت میں دشمن کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ 1965ء میں ہونے والی جنگ کے بعد بھارت نے ایسی جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے 1968ء میں اینیمی پراپرٹی ایکٹ کا نفاذ کیا تھا۔ 1962ء میں بھارت کی چین کے ساتھ جنگ کے بعد چین جانے والے شہریوں کی جائیدادوں کے لیے بھی ایسا ہی کیا تھا اور انہیں ایک سرکاری محکمے کے زیرانتظام دے دیا جاتا ہے جسے بھارت میں کسٹوڈین فار اینیمی پراپرٹی کہا جاتا ہے۔ اینیمی پراپرٹی (ترمیم وتوثیق ایکٹ) 2017ء میں اصل ایکٹ کی چند شقوں میں ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد منقولہ جائیدادیں بھی دشمن کی ملکیت میں شامل کر لی گئی ہیں۔
جعلی سرمایہ کاری کا ایک اور بڑا اسکینڈل سامنے آگیا, جعلی ناموں اور دفاتر کا جال پھیلانے والے بالادی بھائیوں نے سرمایہ کاری کے نام پر سیکڑوں شہریوں کو لوٹ لیا، سائبر کرائم یونٹ نے 2 اہم ملزمان کو گرفتار کر لیا. سی ٹی ڈی انٹیلیجنس ونگ سائبر کرائم یونٹ نے ملیر کینٹ روڈ پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا,کامیابی کارروائی کرتے ہوئے بین الصوبائی جعل ساز گروہ کے 2 ملزمان شمشاد علی بالادی عرف عمران بلوچ عرف عامر علی شاہ اور لکھمیر بالادی عرف مختیار وایو ایڈووکیٹ عرف ابرار شاہ کو گرفتار کر لیا, ملزمان پاکستان کے مختلف تفتیشی اور تحقیقاتی اداروں اور پولیس کو انتہائی مطلوب تھے انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کے مطابق ملزمان کراچی، ملتان اور راولپنڈی میں نیب، ایف آئی اے اور پولیس کو درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے ملزمان نے کار، ہاؤس لون اور فنانسنگ کا جھانسا دے کر سندھ اور پنجاب کے سیکڑوں شہریوں سے اربوں روپے لوٹے, گرفتار ملزمان نے ایس جی انٹرپرائز اور فور سیزن الائنس لمیٹڈ کے نام سے راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں کئی دفاتر بنائے تھے.
چیئرمین بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بالاچ قادر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں اپنے ساتھیوں سمیت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیںاور ہر شخص کے لکھنے اور بولنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بلوچستان میں اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے اور سیاسی عمل سے وابستگی ممنوعہ عمل قرار دی جا چکی ہے جبکہ اساتذہ کی نگرانی بھی کی جا رہی ہے اور ہم اساتذہ، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔ بالاچ قادر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کو کاروبار بنا دیا گیا ہے، صوبے کی جامعات میں اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی، ہم تعلیمی نظام کے خلاف گول میز کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے فیسوں میں اضافے کیخلاف تحریک شروع کرینگے۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس اور سیمینار کو ڈپٹی کمشنر کے این او سی سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کی نظر کہیں نہیں ملتی، یہ انتہائی گھنائونا عمل ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے حکمران اب پریس کلب کو تالا لگا کر شہریوں کی آوازیں دبانا چاہتے ہیں، یہاں پر میڈیا پر مکمل کنٹرول کے ساتھ زیرعتاب ہے اور شہریوں کے بولنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی اظہار آزاد رائے پر قدغن تھی تاہم اب شہریوں کے آخری سہارے پریس کلب کو بھی بند کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ یہ واحد جگہ ہے جہاں پر بے بس شہری اپنی آواز حکمران بالا تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حکمران گونگے بہرے تو پہلے ہی ہو چکے ہیں تاہم اب وہ مظلوم، بے بس شہریوں کو سننا بھی پسند نہیں کرتے اسی لیے اسے بند کرنا چاہ رہے ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ ہم کابینہ اجلاس میں بلوچستان حکومت کی طرف سے طلباء رہنمائوں، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی رہنمائوں سمیت سینکڑوں اساتذہ کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے فنڈز کے اجراء سے متعلق خط کا جواب دیدیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ فنڈز سندھ کو جاری کیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کے خط کے جواب میں تمام صوبوں کو جاری کردہ فنڈز کی تفصیلات شیئر کردی ہیں اور کہا ہے کہ تمام صوبوں میں سے سب سے زیادہ فنڈز سندھ کو جاری کیے گئے۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ تمام صوبوں کو مجموعی طور پر 9ارب 97کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے جس میں سے 5 ارب 58 کروڑ روپے سندھ کو دیئے گئے۔ وزارت خزانہ نے بتایا کہ رواں سال کے ترقیاتی بجٹ میں صوبہ خیبر پختونخوا کو سب سے کم صرف 39 کروڑ روپے ملے، پنجاب کو 90 کروڑ روپے جاری کیے گئے جبکہ بلوچستان کو 3 ارب روپے سے زائد کے ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ ملا ہے مگر اس کے باوجود شکوہ کیا جارہا ہے، وزارت سندھ کو رواں سال ریلیز اسٹریٹجی کے فنڈز جاری کیے جانے کی بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ خیال رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک خط ارسال کرکے سندھ میں ترقیاتی اسکیموں کی منظوری، فنڈز کے اجراءکی اجازت مانگی گئی تھی، وزیراعلیٰ سندھ نے حیدرآباد اربن انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پیکج کے تحت وفاق سے 5ارب روپے مانگے گئے جبکہ سندھ میں اسکولوں کی تعمیر و بحالی کیلئے بھی 5 ارب روپے خرچ کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ خط میں روہڑی سے گڈوبیراج تک سڑک کی تعمیر، سیلاب متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر، ٹنڈول الہ یار تا ٹنڈوآدم سڑک کی توسیع، مہران ہائی وے پر اضافی کیرج وے کی تعمیر کیلئے وفاق سے فنڈز کے اجراء ک مطالبہ کیا گیا ۔
وزارت تعلیم کی طرف سے سرکاری اخراجات پر پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے بیرون ملک جا کر واپس نہ آنے والے سکالرز کی تفصیلات کے حوالے سے سینٹ میں تحریری جواب جمع کروا دیا گیا ہے۔ وزارت تعلیم کی طرف سے سینٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 10 سالوں کے دوران بیرون ملک جانے والے پی ایچ ڈی سکالرز میں سے 99 بیرون ملک سے واپس نہیں آئے اور نہ ہی سکالرشپ کی رقم معاہدے کے تحت سرکاری خزانے میں جمع کروائی۔ سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت تعلیم کی طرف سے تحریری طور پر بتایا گیا کہ 10سالوں کے دوران پی ایچ ڈی کرنے کے لیے 3001 سکالرز بیرون ملک گئے جن میں سے 1126 سکالر نے تعلیم مکمل کی اور 1810 تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 65 سکالرز اب تک بیرون ملک میں ہیں۔ وزارت تعلیم کے مطابق 5 سالوں کے دوران فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 185 سکالرز نے تعلیم مکمل کی اور وطن واپس آگئے اور 144 سکالرز پی ایچ ڈی کی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ بیرون جانے والے 34 سکالرز وہاں سے واپس نہیں آئے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں ان سکالرز کے معاہدوں پر عملدرآمد بارے تشویش پیدا ہو گئی ہے اور نئے سکالرز کو بیرون ملک بھجوانے سے کترا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نادہندہ پی ایچ ڈی سکالرز سے 113 اعشاریہ 20 ملین ڈالرز واپس لیے جا چکے ہیں جبکہ متعدد کیسز عدالتوں میں زیرالتواء ہیں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو فارن ایکسچینج کی کمی کا بھی سامنا ہے اس لیے نئے داخلوں میں مشکلات ہیں۔ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی وجہ سے غیرملکی یونیورسٹیوں میں پاکستانی سکالرز کے لیے جگہ حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سینٹ اجلاس میں اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے بطور پروفیشن اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ خواتین کے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کم تعداد میں اسے بطور پروفیشن اختیار کرنا حساس مسئلہ ہے تاہم ہم کسی کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ پروفیشن جوائن کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
وزارت سمندر پار پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے 5 سالوں (2019ء سے ماہ اگست 2024) کے دوران 1.3 فیصد پاکستانی شہریوں کو دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سینٹ کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران پچھلے 5 سالوں کے دوران ملک چھوڑ کر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ انکشاف سامنے آیا۔ وزارت سمندر پار پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل نے سینٹ اجلاس میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ 2019ء سے گزشتہ ماہ اگست 2024ء کے دوران 32 لاکھ 75 ہزار پاکستانی شہریوں کو بیرون ممالک میں بھجوایا گیا ہے۔ وزارت کی طرف سے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو میزبان ملکوں کے مطالبے پر بھجوایا جاتا ہے۔ دوسری طرف چند دن پہلے ہی سینٹ کی اوورسیز کمیٹی کی طرف سے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی شہریوں کی جائیدادوں ودیگر مسائل حل کرنے کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کے بل کی منظوری دی جا چکی ہے۔ اجلاس میں سینٹ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ گزشتہ برس 2023ء میں پاکستان سے 8 لاکھ 59 ہزار 763 جبکہ رواں برس 4 لاکھ 22 ہزار 487 افراد کو دوسرے ممالک میں بھیجا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 20 ہزار پاکستانی شہری اس وقت مختلف ممالک میں قید ہیں جن میں سے 10 ہزار کے قریب شہری سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ دوسرے ملکوں میں قید پاکستانی شہریوں کی یہ تعداد 2022ء کے اعدادوشمار کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے جو کہ 11 ہزار کے قریب تھی جس پر مختلف تنظیموں کی طرف سے حکومت سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہونیوالے کار ساز کیس میں فریقین میں معاملات طے پا گئے ہیں اور ملزمہ نتاشا کی ضمانت منظور کر لی گئی ہے، حادثے میں جاں بحق عمران عارف اور آمنہ عارف کے ورثا کی طرف سے حلف نامہ عدالت میں پیش کیا گیا جس میں اہلخانہ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ اللہ کی رضا کے لیے بغیر کسی دبائو کے کیا ہے۔ عدالت نے 1،1 لاکھ کے مچلکوں کے عوض ملزمہ نتاشا اور خاوند کی درخواست ضمانت منظور کر کے منشیات کے کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔ دوسری طرف ذرائع کے مطابق کارساز حادثہ کیس میں فریقین کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے بعدملزمہ نتاشا دانش کی ضمانت کو شیخ ثاقب ایڈووکیٹ کی طرف سے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دی گئی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ، وزارت قانون اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ شیخ ثاقب ایڈووکیٹ نے سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ڈرائیونگ اور منشیات استعمال کرنے کے مقدمات میں قتل خطا کے بجائے قتل عمد کی دفعات کو شامل کیا جائے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپوتو نے درخواست دائر ہونے کے بعد اس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کر لیے ہیں۔ عدالت کی طرف سے ملزمہ نتاشا دانش کی ضمانت کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کو 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ ملزمہ نتاشا دانش کے وکیل نے عدالت سے ضمانت منظور ہونے کے بعد کہا کہ اب وہ ملک سے باہر بھی کہیں جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ عدالت نے 21 اگست 2024ء کو کارساز ٹریفک حادثہ کیس کی ملزمہ نتاشا دانش کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا تھا اور 23 اگست کو اس کی گاڑی تلے روند کر باپ اور بیٹی کو قتل کیے جانے کے واقعے کی تحقیقات کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی۔ سی سی ٹی وی میں سامنے آیا کہ ملزمہ نے پہلے ایک سفید رنگ کی کرولا گاڑی اور ایک موٹرسائیکل کو ٹکر مار کر فرار ہونے کی کوشش میں موٹرسائیکل سوار باپ بیٹی کو ایس یو وی گاڑی تلے روند ڈالا تھا۔
سندھ حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کو نوازنے کیلئے مہنگی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کیلئے 2 ارب روپے مانگ لیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایک طرف ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، حکمرانوں کا کہنا ہے کہ تنخواہیں و پنشن دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں اور یہ بہانے بنا بنا کر حکمران عوام پر آئے دن نئے سے نئے ٹیکسز عائد کردیتےہیں ۔ تاہم اسی صورتحال میں سندھ حکومت نے اپنے سرکاری افسران کو ایک ایک کروڑ روپے مالیت کی گاڑیاں دے کر نوازنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے پرعمل درآمد کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔ سندھ کے محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن نے محکمہ خزانہ کو ایک خط لکھا ہےجس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے لگژری گاڑیاں خریدنے کیلئے 2 ارب روپے جاری کیے جائیں۔ خط کے مطابق سندھ حکومت مختلف اضلاع میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے 4 بائی 4 ڈبل کیبن ٹویوٹا کی گاڑیاں خریدنا چاہتی ہے، اس ایک گاڑی کی قیمت تقریبا 1کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف دو ہفتے قبل استعفیٰ دینے والے تھے، ان کی حکومت صبح بھی ختم ہوسکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنما عامر ڈوگر اے آروائی نیوز کے پروگرام"خبر" میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی یا باقی حکومتی اتحادی اپنا ہاتھ ہٹالیں تو یہ حکومت صبح بھی ختم ہوسکتی ہے، اس وقت بہت ساری چیزیں ن لیگ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے جو بات کی ہے اس کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو سب کچھ سمجھ آجائے گا، رجیم چینج کے بعد سے پاکستان دن بدن نیچے جارہا ہے۔ عامر ڈوگر نے 9 مئی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کب تک عوام کو اس واقعہ کا نام لے کر بیوقوف بناتے رہیں گے، اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن کیوں نہیں بناتے؟ سارا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا، کمیشن بنوالیں تو قوم کو بھی سب کچھ پتا چل جائے گا، اگر ہم ذمہ دار ہیں تو ہمیں سزائیں دیں، ڈیڑھ سال ہوگیا ہے سینکڑوں ایسے بے گناہ ہیں جو آج بھی جیل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بیساکھیوں والی حکومت اور فارم 47 نہیں چاہیے تھا، اگر الیکشن ٹریبونلز کو کام کرنے دیا جائے تو یہ حکومت خود ہی گر جائے گی،عجیب منطق ہے کہ جماعت اسلامی کو دھرنے کی اجازت مل جاتی ہے مگر ہمیں جلسے کی نہیں ملتی، اگر ہمیں 8 ستمبر کو جلسہ دیں تو اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کریں گے۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ عوام کی قوت خرید میں کمی آگئی ہے، اگر مہنگائی کی شرح میں واقعی کمی آئی ہے تو اس کا فائدہ عوام کو بھی ملنا چاہیے، آپ عوام سے پوچھیں کہ مہنگائی میں کتنی کمی آئی ہے۔
شمالی کوریا میں آنے والے سیلاب سے ملک بھر میں ہونے والی تباہی اور شہریوں کی ہلاکت کے بعد 30 افسران کو کرپشن وفرائض سے غفلت برتنے پر سزائے موت دے دی گئی۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں شمالی کوریا میں سیلاب آنے کے بعد ملک بھر میں تباہی اور شہریوں کی ہلاکتیں ہونے کے باعث ملک کے سربراہ کم جونگ اُن کے احکامات پر 30 افسران کو کرپشن وفرائض سے غفلت برتنے پر سزائے موت دیدی گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس خبر کی اب تک غیرجانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تاہم ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کرپشن ودیگر سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے پر عبرتناک سزائیں نہ جائیں تو مجرموں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ مجرم سزا نہ ملنے کے باعث کسی بھی طرح کا خوف محسوص کیے بغیر اپنی روش پر گامزن رہتے ہیں اس لیے انہیں ایسی سخت سزا دینا ضروری ہے۔ اعلیٰ افسران کا کہنا تھا کہ کم جونگ اُن نے ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ ملک بھر میں سیلاب سے 4 ہزار شہری ہلاک ہوئے اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کے ذمہ دار سرکاری افسروں کیخلاف سخت کارروائیاں ہونی چاہئیں تاہم اب اطلاعات ہیں کہ 20 سے 30 افسروں کو کرپشن یا فرائض سے غفلت پر سزائے موت دے دی گئی ہے۔ کم جونگ اُن نے ایک مہینے پہلے ہی حالیہ سیلاب کے بعد ہونے والی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے منعقد اجلاس میں چیگینگ صوبے میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کو برطرف کر دیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اس منصب پر 2019ء سے ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے تاہم برطرفی کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن ایسی طرزِ حکمرانی اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے بارےیقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور وہ عجیب وغریب احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے جرائم پر بھی سزائے موت دیتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کم جونگ اُن نے ایسا یہ عجیب و غریب حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی شہری بلاوجہ نہ ہنسے، اگر اس قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو سخت قانونی کارروائی ہو گی۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے جاتی امراء میں اپنی رہائش گاہ کے دو ٹریکٹرز خراب ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کیلئے کمیٹی بنادی ہے۔ ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم وی نیوز کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف ان دنوں جاتی امراء میں اپنی رہائش گاہ میں نجی مصروفیات میں وقت گزار ررہے ہیں، ان صاحبزادے حسن اور حسین بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹارہے ہیں، جاتی امراء میں شریف خاندان کی ملکیت 3 سو ایکٹر زمین ہے جس میں سے 20 ایکڑ پر نواز شریف کا گھر اور 100 ایکڑ زرعی زمین ہے، ان میں سے کچھ زمینیں شریف خاندان کے اپنے استعمال میں ہیں جبکہ باقی ٹھیکے پر کسانوں کو دے رکھی ہیں۔ شریف خاندان کی اپنی زرعی زمین پر ہل چلانے کیلئے لیے گئے ٹریکٹرز کی کچھ خبریں سامنے آرہی تھیں جن کے مطابق 2 ٹریکٹرز میں کچھ فالٹ سامنے آئے ہیں جن کا سن کر میاں نوازشریف کو غصہ آگیا ہے اور میاں صاحب نے آئے روز ٹریکٹرز کی خرابی کی انکوائری کا حکم دیدیا ہے۔ نواز شریف نے جاتی امراء میں دیکھ بھال کیلئے مامور اسٹاف سے پوچھا کہ ٹریکٹر کے ڈرائیور سے پوچھا جائے کہ پہلے جب ٹریکٹر کا کام کروایا گیا تو اس میں کیا مسئلے تھے اور اب کیا خرابی ہوئی ہے، کمیٹی کو معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ نواز شریف کو دینے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ شریف خاندان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی توجہ سیاسی معاملات سے زیادہ اپنے کاروبار کو دوبارہ سیٹ کرنے اور شریف خاندان کے شروع کردہ مختلف پراجیکٹس کی بہتری پر ہے،میاں نواز شریف نے شریف میڈیکل سٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بھی اس حوالے سے مشاورت کی اوروالڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے سربراہ کامران لاشاری سے ملاقات طے کی مگر یہ ملاقات ہونا سکی۔ میاں نواز شریف شریف خاندان کی شوگر ملز اور حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ بحالی پر بھی غور کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ میاں نواز شریف جاتی امراء کی زرعی زمین پر وقت گزار رہے ہیں اور اس علاقے کے جنگل کی صفائی اور علاقے کے زمینداروں سے مشاورت میں مصروف ہیں۔
امریکہ نے پاکستان کو ایران سے معاہدے کرنے کی صورت میں ممکنہ اثرات کے حوالے سے وارننگ جاری کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق واشنگٹن میں روٹین نیوز بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے ایک صحافی نے ایران کی جانب سے پاکستان کو گیس پائپ لائن مکمل کرنے کیلئے دیئے گئے نوٹس سے متعلق سوال کیا۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے اس سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد کرنا امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے، ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ توانائی کے شعبہ پر تعاون جاری رکھیں گے، پاکستان ایران پر عائد عالمی پابندیوں کی وجہ سے پائپ لائن منصوبہ مکمل نہیں کررپارہا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا نفاذ جاری رکھیں گے، گزشتہ ہفتے بلوچستان میں عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہے، پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے، متاثرہ پاکستانیوں کے اہلخانہ اور پیاروں کیلئے ہمارے دل دکھتے ہیں۔ امریکی ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنا دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ مہینے ایران نے پاکستان کو آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت لائپ لائن کی تعمیر کیلئے اپنا آخری نوٹس جاری کرکیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ستمبر 2024 میں پاکستان کے خلاف پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
سینٹ میں گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پرامن جلسے جلوس کے انعقاد کا بل پیش کیا گیا جسے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے منظور کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سینیٹر فیصل سلیم رحمان کی صدارت میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی طرف سے پرامن اکٹھ وامن عامہ بل 2024ء پیش کیا گیاجسے منظور کر لیا گیا ہے اور جلسے جلوس کو حکومتی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اجلاس میں بل پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ بل اسلام آباد کی حدود تک ہے جہاں آج بھی کنٹینرز لگے ہوئے ہیں اور شہری پریشان ہے، احتجاج کرنے کیلئے کوئی جگہ مختص کی جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا اس بارے قانون پہلے سے موجود ہے تو نیا بل لانے کا کیا مقصد ہے؟ جس پر عرفان صدیقی نے کہا مقصد یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کو قانون کے مطابق لایا جائے۔ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کا کہنا تھا ہم جلسے جلوسوں کو قانون کے تحت لانا چاہتے ہیں کیونکہ اکثر چیزیں عدالت میں چلی جاتی ہیں جس کے بعد انتظامیہ اور عدلیہ آمنے سامنے ہوتی ہے، کل بھی کشمیر ہائی وے بلاک ہونے پر ہم سینٹ اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔ سری نگر ہائی وے کو 20 سے 25 لوگوں سے بلاک کر رکھا تھا، ڈپلومیٹک کور کے لوگ بھی پریشان ہیں، بل لانے کا مقصد سیاسی نہیں نہ ہی سیاسی ایجنڈا ہے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بل کی مخالفت کی اور کہا مردمومن مرد حق نے 58-2B کی ایک شق ڈالی جس سے سسٹم 2 دہائیوں تک تباہ ہوتا رہا، نئے بل سے پہلے موجودہ قانون دیکھا جائے کیا کہتا ہے؟ موسم کی خرابی کی وجہ سے 2 فلائٹ ڈائیورٹ ہو گئیں، ترمیم سے پہلے ہمیں بریف کیا جائے کہ اس وقت قانون کیا ہے؟ سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جتھے آجاتے ہیں اور پھر لوگ عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا ان جگہوں پر سیاسی جماعتوں تو اجازت لے کر جاتی ہیں تاہم بغیر این او سی جانے والوں کیلئے قانون موجود ہے۔ سینیٹر ثمینہ زہری نہ کہا لوگ یہاں جائیدادوں کا نقصان کرتے ہیں، بلوچستان میں اینٹ سٹیٹ ایلیمنٹ تھے ان کو جہاں اجازت ملی وہاں کے بجائے کہیں اور چلے گئے۔ انہوں نے کہا اسی لیے ہمارے جوان شہید ہوئے، نئے بل کا مقصد سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے جس بندے کی 5 یا 10 ہزار فالونگ ہو وی جہاں مرضی جتھہ لے کر بیٹھ جائے۔ سینیٹر عمر فاروق نے کہا بل میں لکھا ہے کہ جلسے کی اجازت کیلئے لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں بتائیں گی لیکن اگر یہ ادارے اپنا کام کرتے تو نوبت یہاں تک آتی ہی نہیں۔ سیف اللہ ابڑو نے کہا پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے، کشمیر ہائی وے پر کل جو ہوا ان کو سینیٹر مشتاق احمد کی طرح اٹھانا چاہیے تھا، کل یہ لوگ ہمیں مشتاق احمد اور ان کے بچوں کی طرح سڑک پر گھسیٹ کر اٹھائیں گے۔ بل کہیں اور سے آتے ہیں اور ہم سینیٹر استعمال ہوتے ہیں، پاکستان کی پولیس اگر اسرائیل کی حمایتی ہے تو پھر تو ان کے ساتھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ اجلاس میں ایک موقع پر سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر سیف اللہ ابڑوں میں تلخ کلامی ہو گئی جس پر سینیٹر عمر فاروق اور پلوشہ نے بیچ بچائو کروایا جس کے بعد بل پر رائے شماری ہوئی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے علاوہ تمام اراکین کمیٹی نے اس بل کی حمایت کی اور کثرت رائے سے پاس کر لیا گیا، کمیٹی نے بل 6-1 ووٹوں کی برتری سے بل منظور کر لیا۔ واضح رہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی طرف سے پرامن اکٹھ وامن عامہ بل 2024ء منظور ہونے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے موضع سنگجانی یا کسی بھی ایسے علاقے میں جلسہ جلوس کیا جا سکے گا جہاں کی اجازت حکومت دے گی۔ حکومت کے جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے پر جلسہ کرنے والوں یا اس میں شریک ہونے والوں کو 3 سال تک کے لیے جیل میں ڈالا جا سکے گا۔ دوسری باری جلسہ کرنے پر 10 سال تک کی سزا ہو چکی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں تین لاکھ باسٹھ ہزار مقدمات کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان مقدمات کو زمین کھاگئی یا آسمان بتایا جائے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں منشیات کے کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر ملزم عمران علی کو عدالت میں پیش کیا گیا، دوران سماعت ہائی کورٹ نے بروقت چالان جمع نا کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے مقدمات کے چالان کی تفصیلات طلب کیں جو راضی نامے کی بنیاد پر نمٹائے گئے تھے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مقدمات کے اندراج کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ صوبے میں یہ کیا ہورہا ہے؟ ساڑھے تین لاکھ سے زائد مقدمات درج ہوئے اب ان مقدمات کو زمین کھاگئی یا آسمان؟ کن اضلاع میں زیادہ مشکلات آرہی ہیں یہ عدالت کو بتایا جائے۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ کئی روز سے مسلسل اجلاس طلب کررہے ہیں اور اس دوران ڈیڑھ لاکھ مقدمات کو ٹریس کرکے ان کے چالان مرتب کیے گئے ہیں، 11ہزار800 سے زائد تفتیشی افسرا کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جبکہ 11 ہزار اہلکاروں کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مقدمات کے اندراج میں چھیالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے،لاہور میں 59 ہزار جبکہ فیصل آباد میں 81 ہزار مقدمات درج ہوئے، لودھراں ایسا ضلع ہے جہاں کے مقدمات کے چالان زیرو فیصد تک آگئے ہیں، سالانہ ایک تفتیشی کے حصے میں 160 کیسز آتے ہیں۔ عدالت نے دو لاکھ دو ہزار مقدمات کے چالانز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ جن مقدمات میں راضی نامہ ہوا ان کی تفصیلات تو متعلقہ عدالت کو بتائی ہی نہیں گئیں، ہم نے تو 2017 سے ریکارڈ طلب کیا ہے اس سے قبل کا حال پتا نہیں ہے، ایک تفتیشی کے حصے میں آنے والے کیسز کے حساب سے تفتیشی افسر کیلئے چالان پیش کرنا مشکل نہیں ہے،چالان پیش نا ہونے کی وجہ سے معاملات متاثر ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے شہری پریشانی کا شکار ہیں اور پولیس بے بس نظر آتی ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک بار پھر سے اغواکار متحرک ہو گئے ہیں اور لاہور کے نواحی علاقے باغبانپورہ کی حدود میں دن دیہاڑے نامعلوم مسلح افراد نے سرعام گن پوائنٹ پر 2 نوجوانوں کو اغوا کر لیا اور ساتھ لے کر موقع سے فرار ہو گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماجد لیاقت اور عرفان اشرف نامی شہریوں کو ایک نجی بیکری کے سامنے سے 4 نامعلوم موٹرسائیکل اغواکاروں نے اسلحہ دکھا کر اغوا کر لیا۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آ گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں اور ماجد لیاقت اور عرفان اشرف جو نجی بیکری کے سامنے موجود تھے انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔ پولیس نے نامعلوم مسلح افراد کے خلاف شہریوں کے اغوا کی ایف آئی آر درج کر لی ہے تاہم واقعے کو 2 دن گزر جانے کے باوجود پولیس اب تک ان نوجوانوں کو بازیاب کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔ پولیس نے شہریوں کے مختلف علاقوں میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے تاہم ابھی تک کسی ملزم کی گرفتاری کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا اور شہریوں نے پولیس کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے احتجاج کیا اور کہا کہ ایسے واقعات سے پولیس کی نااہلی ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ شہر کی امن وامان کی صورتحال پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق مغوی نوجوانوں کو جلد بازیاب کروا لیا جائیگا، واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور عوام سے اپیل ہے اگر اس بارے کوئی معلومات ہوں تو مطلع کرے۔ واضح رہے کہ گزشتہ مہینے بھی باغبانپورہ کے علاقے سے ایک 14 سالہ بچے کو تاوان کی غرض سے اغوا کر لیا گیا تھا تاہم انویسٹی گیشن پولیس باغبانپورہ نے ایس ایس پی ڈاکٹر انوش مسعود چودھری کے نوٹس پر بچہ فیصل آباد سے بازیاب کروا لیا تھا۔ خضرشہزاد نامی مغوی کے اغوا کا مقدمہ باغبانپورہ تھانے میں درج کیا گیا تھا تاہم بچے کی بازیابی کے بعد اس کے والدین نے ڈاکٹر انوش مسعود چودھری کے دفتر میں انہیں پھول پیش کر کے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
پاک فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او نے عطیات اور خیرات کی مد میں 7 ارب روپے بانٹے جن کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں: آڈیٹر جنرل کی رپورٹ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 2023-24 میں انکشاف ہوا کہ ایف ڈبلیو او نے بیرون ملک ایک نجی کمپنی قائم کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک نجی کمپنی میں آرمی افسران کی خدمات کو پروموشن / پنشن کے لئے شمار ہونے والی باقاعدہ سروس نہیں کہا جا سکتا۔" رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف ڈبلیو او نے حکومتی منظوری کے بغیر ایک نیا منصوبہ شروع کیا۔"نہ تو اس کے قیام کے سلسلے میں حکومت سے کوئی منظوری طلب کی گئی اور نہ ہی خرچ شدہ رقم یا موصول ہونے والی آمدنی کی تفصیلات محفوظ کی گئیں۔"۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ ایف ڈبلیو او نے 7,201.543 ملین روپے کے عطیات اور خیرات دیے۔لیکن آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ایک حکومتی ادارہ ہونے کی حیثیت سے ایف ڈبلیو او کے پاس خیرات دینے کا سرکاری اختیار نہیں ہے۔مزید کہا گیا کہ "خیرات کے مستفید ہونے والوں کی فہرست دستیاب نہیں تھی اور نہ ہی اس خرچ کے لیے کسی منظوری کا ثبوت تھا۔" ایف ڈبلیو او کے آڈٹ کے دوران مالی بیانات سے یہ دیکھا گیا کہ مالی سال 2008-09 سے 2019-20 تک کی مدت میں ایف ڈبلیو او نے اپنے منافع اور نقصان کے کھاتے میں ٹول کلیکشن سے آمدنی ظاہر کی۔ اس مدت کے دوران ٹول کلیکشن سے ظاہر کی گئی کل آمدنی 29,393.988 ملین روپے تھی۔تاہم، رپورٹ کے مطابق، ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے کوئی بل، واؤچر، رسیدیں یا دیگر ڈیٹا دستیاب نہیں تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ 30 جون 2020 کو ختم ہونے والے سال کے لیے نقد بہاؤ کے بیان سے ایف ڈبلیو او نے 46,146.202 ملین روپے نقد اور نقد کے مساوی ظاہر کیے۔ تاہم، یہ فنڈز نجی اکاؤنٹس میں رکھے گئے ہیں جن کی حکومت سے منظوری نہیں لی گئی، رپورٹ میں مزید کہا گیا۔سال 16-17 کے دوران ایف ڈبلیو او نے ایف بی آر کو 7.3 ارب روپے ٹیکس جمع کرانے کا دعویٰ کیاجبکہ اسی مدت کے لیے ایک نجی آڈٹ فرم کی رپورٹ میں 15.6 ارب روپے ٹیکس جمع کرانے کا انکشاف ہوا۔ آڈیٹر جنرل نے نوٹ کیا کہ ایف بی آر کو ظاہر کردہ ٹیکس کے اعداد و شمار میں 8.2 ارب روپے کا بڑا فرق پایا گیا۔ یہ بھی پتا چلا کہ 30 جون 2020 تک ایف ڈبلیو او نے 4,584.850 ملین روپے ٹیکس کی ادائیگی روک رکھی تھی۔ یہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرائی جانی چاہیے تھی۔اس کے بجائے، ایف ڈبلیو او نے یہ رقم نجی بینک اکاؤنٹس میں رکھی، جو قواعد کے خلاف ہے۔ سال 2008-09 سے 2019-20 کے دوران ایف ڈبلیو او نے 528.648 ملین روپے کا ایڈوانس ٹیکس معاف کر دیا۔آڈیٹر جنرل نے نوٹ کیا کہ اس معافی کے نتیجے میں حکومت کو آمدنی کا نقصان ہوا۔

Back
Top