وزارت تعلیم کی طرف سے سرکاری اخراجات پر پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے بیرون ملک جا کر واپس نہ آنے والے سکالرز کی تفصیلات کے حوالے سے سینٹ میں تحریری جواب جمع کروا دیا گیا ہے۔
وزارت تعلیم کی طرف سے سینٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 10 سالوں کے دوران بیرون ملک جانے والے پی ایچ ڈی سکالرز میں سے 99 بیرون ملک سے واپس نہیں آئے اور نہ ہی سکالرشپ کی رقم معاہدے کے تحت سرکاری خزانے میں جمع کروائی۔
سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت تعلیم کی طرف سے تحریری طور پر بتایا گیا کہ 10سالوں کے دوران پی ایچ ڈی کرنے کے لیے 3001 سکالرز بیرون ملک گئے جن میں سے 1126 سکالر نے تعلیم مکمل کی اور 1810 تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 65 سکالرز اب تک بیرون ملک میں ہیں۔
وزارت تعلیم کے مطابق 5 سالوں کے دوران فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 185 سکالرز نے تعلیم مکمل کی اور وطن واپس آگئے اور 144 سکالرز پی ایچ ڈی کی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ بیرون جانے والے 34 سکالرز وہاں سے واپس نہیں آئے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں ان سکالرز کے معاہدوں پر عملدرآمد بارے تشویش پیدا ہو گئی ہے اور نئے سکالرز کو بیرون ملک بھجوانے سے کترا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نادہندہ پی ایچ ڈی سکالرز سے 113 اعشاریہ 20 ملین ڈالرز واپس لیے جا چکے ہیں جبکہ متعدد کیسز عدالتوں میں زیرالتواء ہیں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو فارن ایکسچینج کی کمی کا بھی سامنا ہے اس لیے نئے داخلوں میں مشکلات ہیں۔ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی وجہ سے غیرملکی یونیورسٹیوں میں پاکستانی سکالرز کے لیے جگہ حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
سینٹ اجلاس میں اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے بطور پروفیشن اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ خواتین کے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کم تعداد میں اسے بطور پروفیشن اختیار کرنا حساس مسئلہ ہے تاہم ہم کسی کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ پروفیشن جوائن کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔