چیئرمین بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بالاچ قادر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں اپنے ساتھیوں سمیت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیںاور ہر شخص کے لکھنے اور بولنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
بلوچستان میں اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے اور سیاسی عمل سے وابستگی ممنوعہ عمل قرار دی جا چکی ہے جبکہ اساتذہ کی نگرانی بھی کی جا رہی ہے اور ہم اساتذہ، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔
بالاچ قادر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کو کاروبار بنا دیا گیا ہے، صوبے کی جامعات میں اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی، ہم تعلیمی نظام کے خلاف گول میز کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے فیسوں میں اضافے کیخلاف تحریک شروع کرینگے۔
گزشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس اور سیمینار کو ڈپٹی کمشنر کے این او سی سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کی نظر کہیں نہیں ملتی، یہ انتہائی گھنائونا عمل ہے۔
انہوں نے کہا ہمارے حکمران اب پریس کلب کو تالا لگا کر شہریوں کی آوازیں دبانا چاہتے ہیں، یہاں پر میڈیا پر مکمل کنٹرول کے ساتھ زیرعتاب ہے اور شہریوں کے بولنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی اظہار آزاد رائے پر قدغن تھی تاہم اب شہریوں کے آخری سہارے پریس کلب کو بھی بند کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ یہ واحد جگہ ہے جہاں پر بے بس شہری اپنی آواز حکمران بالا تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حکمران گونگے بہرے تو پہلے ہی ہو چکے ہیں تاہم اب وہ مظلوم، بے بس شہریوں کو سننا بھی پسند نہیں کرتے اسی لیے اسے بند کرنا چاہ رہے ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ ہم کابینہ اجلاس میں بلوچستان حکومت کی طرف سے طلباء رہنمائوں، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی رہنمائوں سمیت سینکڑوں اساتذہ کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔