سیاسی

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 میں حالیہ ترامیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کی جانب سے "دھوکا" قرار دے دیا ہے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور سیکریٹری جنرل ارشد انصاری نے ان ترامیم کو غیر ضروری اور آئین کی روح کے خلاف قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدام میڈیا، سوشل میڈیا، اور صحافتی برادری کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ ایک بیان میں پی ایف یو جے نے مایوسی کا اظہار کیا کہ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اسٹیک ہولڈرز، بشمول پی ایف یو جے، سے مسودہ شیئر کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ترامیم کی گئی ہیں۔ یونین نے یہ بھی کہا کہ ان ترامیم نے پوری میڈیا انڈسٹری کے ساتھ دھوکا کیا ہے، اور یہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت نافذ کی گئیں ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ آزادی صحافت اور اظہار رائے کے آئینی حق کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے گا۔ پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ان ترامیم پر نظرثانی کرے اور میڈیا کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھی سید ذوالفقار علی بخاری نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں القادر ٹرسٹ بدعنوانی کیس میں سابق وزیر اعظم کے خلاف گواہی دینے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ مقتدرہ کی جانب سے انہیں مختلف پرکشش ڈیلز کی پیشکش کی گئی، لیکن انہوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ زلفی بخاری، جو کہ پی ٹی آئی کے بین الاقوامی مشیر برائے میڈیا ہیں، اس وقت لندن میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں مزید انکشاف کیا کہ اس کیس میں نامزد ہر شخص کو عمران خان کے خلاف گواہی کے لیے مختلف ڈیلز کی پیشکش کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نہ تو انہوں نے اور نہ ہی کسی اور نے انہیں قبول کیا۔ القادر ٹرسٹ کیس 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کے گرد گھومتا ہے، جس کا بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو منتقل کیا گیا تھا۔ اس کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو حال ہی میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ زلفی بخاری نے بتایا کہ ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے شدت پسند طریقے اپنائے گئے، جس میں ان کے اہلخانہ کے اغوا، ان کے کاروبار کو نقصان پہنچانے اور بینک اکاؤنٹس کی منجمدی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں شواہد کی کمی ہے اور 190 ملین پاؤنڈ کی رقم سپریم کورٹ میں جمع ہے، جس پر سود بھی حاصل کیا جا رہا ہے، لہذا اس کیس کا بیانیہ بے بنیاد ہے۔ عمران خان نے بھی اڈیالہ جیل سے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ زلفی بخاری پر دباؤ ڈالا گیا اور انہیں جھوٹی گواہی دینے کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ زلفی بخاری نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے گرفتاری کے خوف کی وجہ سے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کیا، جس کے بعد انہیں کیس میں بطور مدعا علیہ شامل کیا گیا تھا۔ یہ انکشافات موجودہ سیاسی صورتحال میں اہمیت رکھتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں بھی زیر بحث آئیں گے۔
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے 20 سال بعد ایک نئی ایڈوائزری جاری کی ہے، جس میں 15 ممالک، پاکستان کے 9 شہر اور 2 ائیرلائنز پر کڑی نگرانی کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ ایڈوائزری جولائی سے دسمبر تک آئی بی ایم ایس کے ڈیٹا بیس کے تجزیے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے ملک بھر کے ڈپٹی ڈائریکٹرز امیگریشن کو ایک مراسلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 15 سے 40 سال کی عمر کے بیرون ملک جانے والے مسافروں پر خاص توجہ دی جائے۔ مراسلے میں خاص طور پر فلائی دبئی اور اتھوپین ایئرلائنز کے جوان عمر کے مسافروں کی سخت چیکنگ کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، آذربائیجان، ایتھوپیا، سینگال، کینیا، روس، سعودی عرب اور مصر کے مسافروں کی چھان بین کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ حکام نے لیبیا، ایران، موریطانیہ، عراق، ترکیہ، قطر، کویت اور کرغیزستان کے مسافروں کی پروفائلنگ کے لیے بھی ہدایت دی ہے، کیونکہ یہ 15 ممالک پاکستانیوں کے لیے یورپ میں انسانی اسمگلنگ کے ٹرانزٹ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایڈوائزری میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ منڈی بہاؤدین، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، بمبر، جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد اور شیخوپورہ کے مسافروں کی کڑی نگرانی کی جائے۔ اس کے علاوہ، ریٹرن ٹکٹ، ہوٹل بکنگ اور دیگر دستاویزات کی مکمل چھان بین کی جائے۔ مشکوک مسافروں کے لیے ان کے سفری مقصد اور مالی انتظامات کے بارے میں انٹرویو کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ ایڈوائزری اس وقت سامنے آئی ہے جب حال ہی میں مغربی افریقہ کے راستے اسپین جانے والی ایک کشتی حادثے کا شکار ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 44 پاکستانی شامل تھے۔ زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں نے بتایا کہ اسمگلرز نے کشتی کے مسافروں کے ساتھ انتہائی تشدد برتا اور 21 پاکستانیوں نے تاوان دے کر اپنی جانیں بچائیں۔ ایف آئی اے کی اس نئی ایڈوائزری کا مقصد انسانی اسمگلنگ کے اس خطرناک کاروبار کو ختم کرنا ہے اور قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اسلام آباد: وفاقی سیکرٹری پاور ڈویژن نے سینیٹ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ پاور ڈویژن نے بجلی خریدنے سے متعلق آئی پی پیز کی پرانی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے 14 آئی پی پیز کو ٹیک اینڈ پے پر منتقل کردیا ہے۔ وفاقی سیکرٹری نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ حکومت بجلی کی مارکیٹ متعارف کروائے گی، جس کے تحت بجلی کی خرید و فروخت کا نظام شروع کیا جائے گا اور اس نظام کا اطلاق رواں سال سے شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت تک 1994 اور 2002 پالیسی کے 5 آئی پی پیز بند ہوچکے ہیں، جس سے حکومت کو 411 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، بیگاس کے 8 آئی پی پیز کے ٹیرف کو ڈالر اور درآمدی کوئلے سے ڈی لنک کردیا گیا ہے، جس سے حکومت کو 238 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ وفاقی سیکرٹری نے مزید کہا کہ 14 آئی پی پیز کو ٹیک اینڈ پے پر منتقل کرنے سے حکومت کو 802 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ آئی پی پیز کے پلانٹس آپریشنل ہونگے تو ہی کیپسٹی چارجز ملیں گی، اور اب بجلی بنائیں या نہ بنائیں کیپسٹی پیمنٹ ملنے کی تجویز ختم کردی گئی ہے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت نے این ٹی ڈی سی کو 3 اداروں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت این ٹی ڈی سی گرڈ کے لیے الگ کمپنی بنائی جائے گی، اور این ٹی ڈی سی کے ملازمین کو نیشنل گرڈ کمپنی میں شفٹ کرنے کی تجویز ہے۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ایف بی آر کی جانب سے 1000 سے زائد گاڑیاں خریدنے کے فیصلے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس خریداری کو فوری طور پر روکنے کی ہدایت کی ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں کمیٹی نے اس معاملے کا بغور جائزہ لیا اور ایف بی آر حکام کی جانب سے 1010 گاڑیوں کی خریداری پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ سلیم مانڈوی والا نے سوال کیا کہ ایف بی آر یہ گاڑیاں کس مقصد کے لیے خرید رہا ہے، جس پر وزارت خزانہ کے حکام نے وضاحت کی کہ یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کے استعمال کے لیے خریدی جارہی ہیں۔ اجلاس کے دوران سینیٹر فیصل واوڈا نے ایف بی آر پر تنقید کی اور کہا کہ مخصوص کمپنیوں سے گاڑیاں خریدنے کا معاملہ مستقل بنیادوں پر جاری ہے، جسے انہوں نے ایک بڑا اسکینڈل قرار دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر گاڑیوں کی خریداری روکی نہ گئی تو یہ ایک سنگین کرپشن کا باعث بنے گی۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ "کیا ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال پورا کرنے کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں؟" انہوں نے مشورہ دیا کہ اس خریداری کو فوری طور پر روکنا چاہیے تاکہ بعد میں مقابلے کی بنیاد پر خریداری کی جا سکے۔ ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ انہوں نے گاڑیوں کے آرڈر پہلے ہی دے دیے ہیں، جس پر سینیٹر واوڈا نے تنقید کی کہ یہ ایک بدعنوانی کا عمل ہے کہ اتنی جلدی خریداری کا آرڈر دیا گیا ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ کمیٹی کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے اور انہوں نے عزم کیا کہ پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کو 384 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے اور اس دوران ایسی غیر ضروری خریداری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے واضح کیا کہ اگر یہ خریداری روکی نہ گئی تو کمیٹی بھرپور احتجاج کرے گی۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ادارہ کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ رکھنے کے تمام اشارے مکمل طور پر غلط ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر حقائق سے بعید ہے اور مبصرین کو چاہیے کہ وہ اپنے خیالات پیش کرنے سے قبل حکام کی جانب سے جاری کردہ فیصلوں کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ تفصیلات کے مطابق، الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ ن کے رہنما عادل بازئی کے قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کے فیصلے کو اپنی ویب سائٹ پر دوبارہ شائع کیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عادل بازئی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں کامیاب ہوئے اور 15 فروری 2024 کو ان کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ عادل بازئی نے 16 فروری کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کا بیان حلفی پارٹی قیادت کو جمع کرایا، جبکہ یہ بیان حلفی الیکشن کمیشن کو 18 فروری 2024 کو ملا۔ الیکشن کمیشن نے 19 فروری کو عادل بازئی کی جماعت میں شمولیت کی باقاعدہ منظوری دی، جو کہ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر بھی 25 اپریل 2024 کو شامل کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ عادل بازئی اپنی پارٹی وابستگی پر خاموش رہے اور 2 نومبر 2024 کو اسپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کے جواب میں مقامی عدالت میں درخواست دائر کی۔ اس دوران، ان کا الزام ہے کہ انہوں نے فنانس بل پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور آئینی ترمیم کی رائے شماری میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ نتیجتاً، عادل بازئی کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرکے نشست کو خالی قرار دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئین کے تحت ادارہ مقررہ وقت کے اندر فیصلے کرنے کا پابند ہے اور اس طرح کسی جانب داری کی کوئی گنجائش نہیں۔
ملتان (سٹاف رپورٹر) ملتان اور پنجاب بھر کے سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی نے ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مریضوں کو مفت ادویات فراہم کرنے کا نظام متاثر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے آؤٹ ڈور مریضوں سمیت زیر علاج افراد بھی ضروری ادویات سے محروم ہو گئے ہیں۔ ایسے حالات میں، جہاں مریضوں کو میڈیکل سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے، سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں آپریشن کے لیے درکار ڈسپوزایبلز جیسے سامان بھی تھوڑی مقدار میں دستیاب ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو یہ اشیاء اپنی جیب سے خریدنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ حکام کے مطابق، یہ بحران اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ٹیچنگ ہسپتالوں پر اربوں روپے کے واجبات پڑے ہیں، اور بقایا جات کی عدم ادائیگی کی صورت میں ہسپتالوں میں ادویات کی قلت نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔ اس سے قبل مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی ایک معمول تھی، لیکن اب یہ صورت حال نہ صرف مریضوں کے لیے پریشان کن ہے بلکہ صحت کے نظام پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ یہ بحران عوامی صحت کے نظام کی خامیوں کی علامت ہے اور حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے اور مریضوں کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔
حکومت پاکستان نے نئی پاسپورٹ اور بارڈر کنٹرول اتھارٹی (پی بی سی اے) کے قیام کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ اس اتھارٹی کی تشکیل کے ذریعے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کچھ اختیارات میں کمی لانے کا ارادہ ہے، خاص طور پر امیگریشن کے حوالے سے۔ ڈان اخبار کے مطابق، حکومت کی جانب سے پیش کردہ مسودے میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ امیگریشن کے ڈائریکٹوریٹ جنرل اور پاسپورٹس کی موجودہ ذمہ داریوں کو ایک بہتر قیادت کے تحت تبدیل کیا جائے۔ گزشتہ سال اسی طرح کی ایک اتھارٹی کے قیام کی کوشش ناکام رہی تھی، جس کی وجہ ادارے میں موجود پولیس افسران کی مخالفت تھی۔ مرتفع انسانی اسمگلنگ کے واقعات اور غیر قانونی سرحد پار کرنے والوں کی موجودگی نے اس مسئلے کو مزید اجاگر کیا ہے اور یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، ملکی سرحد کی حفاظت کے لیے مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سرگرم ہیں، لیکن کئی داخلی اور خارجی راستوں پر مؤثر نگرانی کی ضرورت ہے۔ نئی اتھارٹی کے قیام کے لیے، عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ یہ تجویز قومی سلامتی کے خطرات، انسانی اور سامان کی اسمگلنگ جیسے مسائل کے تناظر میں اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ مسودے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایف آئی اے کو اب وائٹ کالر جرائم اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزیراعظم شہباز شریف سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ جلد از جلد ضروری اصلاحات کے نفاذ کے لیے اہم کردار ادا کریں گے۔ تجویز کردہ اتھارٹی کے قیام کے بعد دیگر ممالک کی طرح ایک جدید اور خود مختار ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مختلف علاقائی ممالک نے بھی اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں، جیسے بھارت میں 'بیورو آف امیگریشن'، بنگلہ دیش میں 'اینتی کرپشن کمیشن' سے علیحدہ امیگریشن اور پاسپورٹ کنٹرول کا قیام۔ تجویز کے تحت، پاکستان کے نظام میں موجود بدعنوانی اور غیر مؤثر طریقہ کار کو ختم کرنے کے لیے ایک علیحدہ 'پی بی سی اے' اتھارٹی قائم کی جائے گی تاکہ انسانی اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ سرحد کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ حکام نے ایک ماہ کے اندر بل کی منظوری کے خواہاں ہیں تاکہ جدید اتھارٹی کے قیام کی راہ ہموار کی جا سکے۔ مجوزہ منصوبے کے تحت، اتھارٹی کی سربراہی کے لیے 22 گریڈ کے افسر کی تقرری اور دیگر سرحدوں کی نگرانی کے لیے 21 گریڈ کے 3 افسران کی تعیناتی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ حکومتی اقدامات انسانی اسمگلنگ کے معاملے میں ناپسندیدہ حالات کو کم کرنے اور پاکستانی شہریوں کی حفاظت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اتھارٹی کی مکمل فعالیت کی توقع دو ماہ بعد کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر دفاع اور وزیر برائے ہوا بازی، خواجہ آصف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا بنیادی مقصد اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ قائم کرنا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یہ بات پارلیمنٹ میں ایرانی مسلح افواج کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کی۔ خواجہ آصف نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کا کوئی مطالبہ بیرون ملک سے آیا تو پاکستان ہمیشہ اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی بیرونی دباؤ کو برداشت نہیں کرے گا، جیسا کہ دیگر ممالک بھی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف آپس میں بھائی ہیں اور بھائیوں کے درمیان ملاقاتیں ہونا معمول کی بات ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جب پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا تو ان کے خلاف مقدمات جاری تھے اور گواہیاں بھی دی جا چکی تھیں۔ آصف نے یہ وضاحت بھی کی کہ پی ٹی آئی نے خود یہ بات تسلیم کی ہے کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے بحال ہو چکے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہو چکے ہیں تو اس کے پیش نظر، ن لیگ کے رہنما نے سوال اٹھایا کہ پھر ان کے ساتھ مذاکرات کی کیا ضرورت ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے ملزم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے پنجاب میں بڑھتے ریپ کیسز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت اور اینٹی ریپ ایکٹ پر عمل درآمد کے معاملے کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا پنجاب میں ہر منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے؟ چیف جسٹس عالیہ نیلم کی صدارت میں تین رکنی بینچ نے جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ کے ساتھ سماعت کی۔ عدالت نے آئی جی پنجاب عثمان انور کو فوری طلب کیا۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اینٹی ریپ ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔ جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے اظہار کیا کہ ان کی رپورٹ کے مطابق ہر 15 منٹ میں ایک ریپ کا واقعہ پیش آ رہا ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے وضاحت کی کہ یہ تمام کیسز ریپ کے نہیں ہیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا 32 ہزار کیسز کے لیے متبادل ڈی این اے کٹس خریدی گئی ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عدالتی احکامات پر کئی خامیوں کو دور کیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو بلا کر معاملے کی تفصیلات جاننے کی ہدایت کی۔ بعد میں آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے اور کارروائیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے مزید بتایا کہ پنجاب بھر میں 150 یونٹ فعال ہیں اور خصوصی عدالتیں قوانین کے تحت کیسز کی سماعت کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریپ کیسز میں اضافے کی صورتحال فکر انگیز ہے اور فوراً کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ 17 سکیل سے کم کے کسی پولیس افسر کو ان کیسز کی تفتیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آئی جی پنجاب نے آگاہ کیا کہ ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کر دیا گیا ہے جہاں متاثرہ خواتین ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے اپنی شکایت درج کرا سکتی ہیں۔ میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے التوا کی درخواست پر جب عدالت نے پوچھا کہ دستخط اس کے ہیں یا نہیں، تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کے دستخط نہیں ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں تنبیہ کی کہ سسٹم کو خراب نہ کریں اور غیر مشروط معافی مانگنے کی سفارش کی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں اس معاملے کو دیکھنے کا موقع دیا جائے، جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مکمل رپورٹ پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے حتمی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اور حکومت کو مل کر یہ مسائل حل کرنے چاہئیں اور اٹارنی جنرل پاکستان کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا۔ بعد ازاں، عدالت نے کارروائی 10 فروری تک ملتوی کر دی۔
پشاور: خیبرپختونخوا کے نگران دور حکومت میں بھرتی ہونے والے 16 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کے لیے ایک اہم بل تیار کر لیا گیا ہے، جو آج اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ یہ بل 2025 کے ایجنڈے کا حصہ ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نگران حکومت کے دوران غیر قانونی طور پر بھرتی کیے گئے ملازمین کو ہٹانا ہے۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بل کی منظوری کے بعد متعلقہ ادارے نوٹیفیکیشن جاری کریں گے، جس کے تحت غیر قانونی بھرتی ہونے والے ملازمین کو برطرف کیا جائے گا۔ اس بل میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کہیں پر کوئی قانونی پیچیدگیاں پیش آئیں تو ان کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس کمیٹی کے سربراہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ہوں گے، جبکہ اس میں ایڈووکیٹ جنرل، محکمہ خزانہ، انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے سیکریٹریز بھی شامل ہوں گے۔ کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق تمام متعلقہ افراد پر ہوگا۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب حکومت عوامی خدمات کی بہتری کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ اس بل کی منظوری اور اس کے بعد کے اقدامات کا اثر صوبے کی انتظامی ڈھانچے پر پڑے گا، جس کا متاثرہ ملازمین نے بھی انتظار کر رکھا ہے۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دائر کردہ انتخابی دھاندلی سے متعلق درخواست پر وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کے لیے مزید مہلت فراہم کر دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی زیر صدارت 6 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کے دوران اہم نکات پر گفتگو کی۔ سماعت کے دوران وکیل حامد خان نے سوال اٹھایا کہ آیا آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت کا دائرہ اختیار موجود ہے یا نہیں۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب دیا کہ اگر الیکشن کمیشن کے فارم 45 اور 47 میں کوئی فرق ہے تو ایک ہی فارم درست ہو گا، لہذا ان کی جانچ کے لیے مکمل انکوائری کرنا ہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل حامد خان سے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر تیاری کے ساتھ آئیں، جبکہ وکیل نے وضاحت کی کہ وہ صرف اعتراضات دور کرنے کے لیے آئے ہیں اور آپ میرت پر بات کر رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ملک کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہو؟ ہر حلقے کی علیحدہ انکوائری ہوگی اور ہر امیدوار کو اپنے حلقے کے الزامات کے بارے میں بتانا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پہلے بھی اٹھائے جا چکے ہیں، جس کے لیے آرڈیننس لانا پڑا تھا۔ وکیل حامد خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سرکاری عدالت کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ابھی تک سوموٹو نہیں لے سکی، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب غور سے کریں۔ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس معاملے پر ڈپٹی اسپیکر نے بھی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت کا اس کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ سماعت کے اختتام پر، سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر تیاری کے لیے مزید مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور قومی کمیشن برائے انسانی ترقی کے سابق سربراہ ڈاکٹر نسیم اشرف نے اپنی کتاب رنگ سائیڈ میں کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پھانسی سے بچانے کے لیے چیف جسٹس ارشاد حسن خان سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ بل کلنٹن کا خفیہ اقدام ڈاکٹر نسیم اشرف نے انکشاف کیا کہ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے دورۂ پاکستان سے منع کیا تھا۔ تاہم کلنٹن نے صرف اس مقصد کے لیے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا کہ نواز شریف کو پھانسی سے بچایا جا سکے۔ صدر پرویز مشرف کی یقین دہانی کے باوجود، کلنٹن نے صدارتی ظہرانے کے دوران واش روم جانے کا بہانہ بنایا اور چیف جسٹس ارشاد حسن خان سے وہاں 5 منٹ تک خفیہ گفتگو کی۔ اس ملاقات کے دوران چیف جسٹس نے کلنٹن کو یقین دلایا کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ اسرائیل سے تعلقات کی بات ڈاکٹر نسیم اشرف نے مزید لکھا کہ پرویز مشرف کے دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوا تھا، اور اس موضوع پر معروف اسکالر مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی مکالمے کی حمایت کی تھی۔ عمران خان اور جمائما خان کا ذکر سال 2019ء میں عمران خان کے دورۂ امریکا کو انہوں نے کامیاب قرار دیا اور لکھا کہ اس دورے سے پاک امریکا تعلقات مستحکم ہوئے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دیں اور وہ انسانی ہمدردی کی ایک مثال ہیں۔ منموہن سنگھ سے ملاقات ڈاکٹر نسیم اشرف نے جنرل مشرف کے دورۂ ہندوستان کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق، منموہن سنگھ نے تصدیق کی کہ انہوں نے بھارت کے بوئنگ طیارے میں 2 ٹن سونا بینک آف انگلینڈ بھیجا تاکہ قرض حاصل کیا جا سکے اور نئی اقتصادی پالیسی کا آغاز کیا جائے۔ قومی کمیشن برائے انسانی ترقی اور دیگر کامیابیاں ڈاکٹر نسیم اشرف نے قومی کمیشن برائے انسانی ترقی کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا۔ ان کے مطابق، اس ادارے نے ملک میں تعلیم کو فروغ دینے اور لوگوں کو غربت سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی حیثیت سے بھی فعال رہے اور ملک میں 19 اسٹیڈیم کی تعمیر کی خوشخبری سنائی۔ 9/11 کے بعد پاک امریکا تعلقات ڈاکٹر نسیم اشرف نے لکھا کہ 9/11 کے واقعے کے بعد امریکا کے افغانستان پر حملے کے دوران صدر پرویز مشرف نے امریکی صدر جارج بش کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ تاہم مشرف نے امریکی مطالبات میں سے صرف 5 تسلیم کیے، جو ملکی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے تھے۔ نواز شریف کی بحالی کے لیے پاکستانیوں کا کردار ڈاکٹر نسیم اشرف کے مطابق، امریکا میں مقیم پاکستانیوں نے نواز شریف کی معزولی کے بعد ان کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی، مظاہرے کیے، اخبارات میں اشتہارات دیے، اور امریکی کانگریس اور صدر کلنٹن کو خطوط لکھے۔ اسی دباؤ کے نتیجے میں کلنٹن نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اوول ٹیسٹ کا واقعہ ڈاکٹر نسیم اشرف نے پاکستان کے اوول ٹیسٹ میچ کے بائیکاٹ پر بھی بات کی۔ ان کے مطابق، انضمام الحق نے پہلے میچ کھیلنے سے انکار کیا، لیکن پرویز مشرف کی مداخلت کے بعد وہ کھیلنے پر آمادہ ہوئے، تاہم امپائرز نے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر نسیم اشرف کی کتاب رنگ سائیڈ اردو میں میدانِ عمل کے عنوان سے شائع کی گئی ہے۔ ان کی پشاور میں تقریبِ رونمائی کے بعد مختلف شہروں میں بھی اس کتاب کی رونمائی کی جائے گی۔
سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان سے متصل پاک افغان بارڈر پر دراندازی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے 5 مسلح خوارج کو ہلاک کر دیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ ضلع ژوب کے علاقے سمبازہ میں پیش آیا، جہاں سیکورٹی فورسز نے دراندازی کی کوشش کرنے والے ایک گروہ کی حرکت کو لاحق ہونے پر فوری کارروائی کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، خوارج اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں 5 خوارج کو ہلاک کیا گیا۔ یہ کارروائی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سرحدوں کی حفاظت کے عزم کی عکاسی کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ہر قسم کی دراندازی کو روکنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور سیکیورٹی فورسز ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستان نے مسلسل عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بارڈر پر مؤثر انداز میں نگرانی کو یقینی بنائے اور خوارج کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے۔ اس واقعے کے بعد، صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے سیکیورٹی فورسز کی بہادری کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے الگ الگ بیانات میں کہا کہ خوارج کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے پر فورسز کے اہلکاروں کی بہادری قابل تحسین ہے، اور وہ سرحدوں کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس کامیابی پر سیکیورٹی فورسز کو مبارکباد دی اور کہا کہ پاکستانی فورسز اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہادر جوانوں نے دشمن کے ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے مادر وطن کی حفاظت کی جس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
لاہور: سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آج کل عدالت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت اپنے فیصلوں کو نافذ نہیں کر سکتی تو اس کے وجود کی حیثیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ آج ایک تقریب میں جہاں جانوروں کے حقوق پر بات چیت کی گئی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت ہوئی ہے اور اسی عدالت نے جبری گمشدگی کے حوالے سے فیصلہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ بنیادی حقوق سے متعلق کئی اہم فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیا الحق نے سری لنکا سے درخواست کی تھی کہ ان کی بیٹی ایک ہاتھی کے بچے کو رکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاتھی بھی لوگوں کی طرح جذباتی ہوتے ہیں۔ یہ ہاتھی کا بچہ بعد میں پاکستان میں ایک باغ میں منتقل کردیا گیا, جہاں بعد میں اسلام آباد میں چڑیا گھر کی تعمیر کی گئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جب وہ جبری گمشدگی کے کیسز پر غور کر رہے تھے، تو انہیں اس درد کا احساس تھا کہ کسی عزیز کا لاپتا ہونا کیسا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طریقے سے عہدے سے ہٹا کر قتل کیا گیا جس میں سپریم کورٹ کا بھی استعمال ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں جنرل ضیا الحق کا دور ایک خوفناک دور تھا، جہاں لوگوں کو مہینوں عقوبت خانوں میں رکھا جاتا تھا۔ مزید برآں، جسٹس اطہر من اللہ نے ایک شدید نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان میں انسان محفوظ نہیں تو جانوروں کے حقوق کی بات کرنا بے معنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی کارکردگی پر بات کی جاتی ہے، لیکن قانون ایک ہی ہے، پھر بھی فیصلے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔ انہوں نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایسالگتا ہے کہ جو تعلیم اسکول میں حاصل کی گئی، وہ حقیقت سے دور تھی، مثلاً شیر کی زندگی سے متعلق جو معلومات فراہم کی گئیں وہ غیر حقیقی تھیں۔ آخر میں، انہوں نے بنی گالہ کی خوبصورتی کو نقصان پہنچانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹاؤن پلانر نے اسے جانوروں کے لیے بہترین جگہ قرار دیا تھا، مگر اشرافیہ نے وہاں رہائش گاہیں بنا کر قدرتی حسن کو ختم کر دیا۔
صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنی تازہ گفتگو میں فوجی کمان کو ہدف بنایا ہے، اس سے پی ٹی آئی اور حکومت بمعہ اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری رسمی مذاکرات اور پس پردہ بات چیت دونوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے انصار عباسی کے ذرائع کے مطابق، حالیہ دنوں میں آرمی چیف اور پی ٹی آئی کی قیادت کے درمیان ملاقات کے دوران عمران خان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ فوج اور اس کی قیادت پر حملے کرنے سے گریز کریں تاکہ بات چیت کامیاب ہو سکے۔ تاہم، عمران خان اپنی جارحانہ حکمت عملی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ جمعہ کو عمران خان نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ سے ایک سخت بیان جاری کیا جس میں انہوں نے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا، "1971 کی تاریخ پاکستان میں دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ یحییٰ خان نے ملک تباہ کیا، اور آج ایک آمر اپنی ذاتی مفادات کی حفاظت کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔" انصار عباسی کا دعویی ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اس جارحانہ رویے سے مایوس ہیں۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "عمران خان کی مسلسل جارحانہ ٹویٹس آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔" ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فوج مخالف بیانات سے گریز کریں، خاص طور پر اس وقت جب بیک چینل مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہو۔ لیکن اس کے باوجود، عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے سخت بیانات جاری کیے گئے، جس نے پارٹی کے لیے مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ پی ٹی آئی کی قیادت حالیہ بیک چینل ملاقاتوں سے مثبت نتائج کی توقع کر رہی تھی، لیکن عمران خان کی تازہ ترین ٹویٹ نے اس عمل کو دھچکا پہنچایا ہے۔ گنڈا پور اور گوہر نے حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی، جس کی عمران خان نے خود بھی تصدیق کی تھی اور اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔ تاہم، ان کے جارحانہ بیانات نے ان مذاکراتی کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پارٹی کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کنٹرول پاکستان منتقل کیا جائے تاکہ ان کا استعمال مزید تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے مثبت مقاصد کے لیے ہو۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے کنٹرول کرنے والے عناصر عمران خان کے بیانات کو مزید اشتعال انگیز بنا کر پیش کرتے ہیں، جس سے پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اگر عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ بیانات کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ نہ صرف جاری مذاکرات کو نقصان پہنچائے گا بلکہ پارٹی کو مزید مشکلات میں ڈال دے گا۔ اس پر فوادچوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ بات چیت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاھئے یہاں لوگوں کے گھر توڑے گئے ہیں، خواتین اور بچوں سے بیہودگی کی گئ ہے، لاکھوں چھاپے اور ہزاروں گرفتار ہوئے ہیں تشدد کا نشانہ بنے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ماحول میں اگر ایک ٹویٹ سے مزاج برھم ہوتا ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، مہربانی کریں ملک کو واپس پٹڑی پر ڈالیں اور عمران خان سے بات چیت ہی وہ راستہ ہے جس پر پاکستان سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے
محمود خان اچکزئی نے پاکستان تحریک انصاف سے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے اور نواز شریف سے قومی حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کی سخت مخالفت کی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے چاہئیں، اس بات کا ذکر انہوں نے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں کیا، جہاں وہ میزبان نادر گرمانی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔ اچکزئی کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گی تو یہ ناجائز حکومت کو جائز قرار دینے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف سے قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سابق وزیراعظم کو یہ کہنا چاہیے کہ ’بس بہت ہوگیا‘۔ ان کا خیال یہ ہے کہ شہباز شریف سے استعفیٰ لے کر ملک میں قومی حکومت قائم کی جائے۔ انہوں نے عمران خان کی سیاست پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اگر وہ سمجھوتہ کر لیں تو دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں، لیکن موجودہ حالات میں وہ ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے سے متعلق اپنی رائے دی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مدت پوری کرنی چاہیے تھی، اور ذاتی طور پر وہ اس عمل کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی تو آج عمران خان چار سیٹیں بھی نہیں جیت پاتے۔ خورشید شاہ نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع حالات کی ضرورت کے تحت کی گئی تھی، اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کبھی کبھی تکلیف دہ فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں، اس کا علم نہیں، اور اس لیے دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے وزرا اور ایم این ایز کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز ان سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وزرا نے انہیں بتایا کہ وہ آج تک وزیراعلیٰ سے مل نہیں سکے۔پی
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے معاشی شرح نمو کا ہدف پورا نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی جاری کردہ "ورلڈ اکنامک آؤٹ لک" میں رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی معاشی شرح نمو کی پیشگوئی کو 3.2 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ حکومت پاکستان نے اس مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا تھا، جو اب خطرے میں نظر آتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں پاکستان کے معاشی شرح نمو میں اضافہ متوقع ہے، جسے 4 فیصد تک پہنچانے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ پچھلے مالی سال، یہ شرح نمو 2.5 فیصد پر رہی تھی۔ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق، اکتوبر 2024 میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 3.2 فیصد رہنے کا امکان تھا۔ جبکہ رپورٹ کے مطابق اس سال بھارت کی معاشی ترقی 6.5 فیصد، اور امریکا کی معاشی ترقی 2.7 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے امریکا کی معاشی ترقی کی شرح 2.1 فیصد رہنے کے اندازے لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح، چین کی معاشی ترقی رواں مالی سال 4.6 فیصد رہنے کی توقع کی جا رہی ہے، جبکہ برطانیہ کی معاشی ترقی کی شرح 1.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، اور آئندہ مالی سال برطانیہ کی معاشی ترقی 1.5 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ یہ تضاد پاکستان کی معیشت کی موجودہ صورت حال کی عکاسی کرتا ہے اور ملک کے اقتصادی مستقبل کے بارے میں تشویش پیدا کرتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان صاحبزادہ حامد رضا نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پشاور میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں سیاسی امور پر بھی گفتگو ہوئی۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’آف دی ریکارڈ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی موجودگی میں ہوئی، اور اس کی طوالت تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تھی۔ صاحبزادہ حامد رضا نے واضح کیا کہ ملاقات کا ایک حصہ سکیورٹی معاملات پر تھا، مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی معاملات پر بات ہوئی ہے، اور ان کا خیال ہے کہ کچھ ٹکرز کی تردید کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ محتاط رہ کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ سیاست پر بھی بحث کی گئی ہے۔ رانا ثنا اللہ اور عرفان صدیقی کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کرنے والوں کی چہروں کی پریشانی بتاتی ہے کہ وہ کس قدر ناپختہ ہیں۔ انھوں نے اشارہ دیا کہ حکومتی رہنماؤں نے ایک ملاقات کی بازگشت کے سبب پریس کانفرنس کی، اور ساتھ ہی اس میں عمران خان کی رہائی کے مطالبے کا ذکر کیا گیا۔ صاحبزادہ حامد رضا نے حکومتی ارکان کی کوششوں پر بھی تنقید کی کہ ان کے بیانات کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیں، جسے وہ عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ بیان سیاسی کشیدگی کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر جب کہ پاکستان میں سیاسی ماحول پہلے ہی تنش میں ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا ہے کہ سیاست اور سکیورٹی کے معاملات پر بات چیت ہونا ایک اہم پیش رفت ہے اور یہ بات سامنے آنا کہ ایسی ملاقاتیں ہورہی ہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ ملک میں سیاسی صورتحال میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو 5 سے 14 سال کی سزا ہو سکتی ہے، اور یہ فیصلہ سنانے کا وقت اگرچہ تبدیل ہوسکتا ہے، مگر فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ فیصل واوڈا نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی اہلیہ کو بھی سزا ممکن ہے، اور کابینہ کے دیگر ارکان کو بھی جوابدہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اگر عمران خان اور ان کے رشتے دار اور پارٹی کے اراکین نے بھی سزا کی دعاؤں کے لیے مناجات کی ہیں تو ان کے نتیجے میں سزا ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ علی امین گنڈا پور، جو کہ موجودہ وزیر اعلیٰ ہیں، ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی، جبکہ ایک سابق وزیراعظم پر اگر ہاتھ ڈالا جائے تو وہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے ممکنہ ردعمل کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا کہ 20 جنوری کے بعد حالات ان کے حق میں نہیں ہوں گے اور پی ٹی آئی کا "روتا دھونا" دوبارہ شروع ہوگا۔ فیصل واوڈا نے یہ مذاق بھی کیا کہ دونوں حکومت اور پی ٹی آئی یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی پروپیگنڈا ٹیم بہت مضبوط ہے، اور ان کے دعوؤں پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے 9 مئی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں "فالس فلیگ" قرار دیا گیا، اور گنڈا پور نے بعد میں ان واقعات کا اعتراف کیا۔ سینیٹر کا کہنا تھا کہ جس بات کو پی ٹی آئی سچ مانتی ہے، اس پر شک کیا جا سکتا ہے، اور یہ واضح کیا کہ کیس کا فیصلہ کل آ رہا ہے، جس کے بعد عمران خان کو سزا ملنے کی توقع ہے۔

Back
Top