سیاسی

اسلام آباد: انسداد دہشتگردی عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما مشال یوسفزئی کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ انہوں نے عمران خان کی طرف سے وکالت نامہ جمع کروانے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کیا۔ جج امجد علی شاہ نے سینٹرل جیل اڈیالہ میں ہونے والی سماعت میں عمران خان کو پیش کیا جبکہ ان کا خاندان بھی عدالت میں موجود تھا۔ اس موقع پر گواہ خرم علی جاوید کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور عدالت نے راجہ ناصر محفوظ، نوید عمر ستی اور سعد سراج کی بریت کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ اس کیس میں اب تک 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ عدالت نے مزید ہدایت کی کہ 13 یو ایس بی ڈیفنس کے وکلا کو فراہم کیے جائیں۔ بشری بی بی کی عدالت میں آنے کی درخواست پر جج نے سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے جواب طلب کیا اور یہ بھی پوچھا کہ کیا سزا یافتہ قیدی جیل مینول کے تحت مقدمے کی سماعت میں شرکت کر سکتے ہیں۔ مشال یوسفزئی کے خلاف عمران خان کی طرف سے وکالت نامہ جمع کروانے کے باوجود ان کے لائسنس کی معطلی کے تناظر میں ایک ریفرنس خیبر پختونخوا بار کونسل کو بھیجا گیا ہے۔ اس فیصلے تک انہیں اڈیالہ جیل میں قائم عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔
حکومت نے پیر کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ زراعت اور صنعت کے شعبوں میں سکڑاؤ کے باعث معاشی نمو کے ہدف حاصل کرنے میں دشواریاں درپیش ہیں۔ تاہم، حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ پالیسی اصلاحات، مالیاتی نرمی، اور مالی استحکام کی بدولت پاکستان رواں سال میں ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ششماہی ’اسٹیٹ آف اکانومی رپورٹ‘ کے مطابق، گزشتہ مالی سال میں زرعی شعبے کی نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں فصلوں کے شعبے میں ہائی بیس ریٹ اور اہم فصلوں کی پیداوار میں کمی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2024 کی پہلی سہ ماہی میں اہم فصلوں کی شرح نمو میں 11.19 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ خاص طور پر کپاس کی پیداوار میں 29.6 فیصد، چاول میں 1.2 فیصد، گنے میں 2.2 فیصد، اور مکئی کی پیداوار میں 15.6 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ تاہم، گندم کی پیداوار پر کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ اس سہ ماہی میں نہ تو گندم کی بوائی ہوئی اور نہ ہی کٹائی۔ رپورٹ میں صنعتی شعبے کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ اس شعبے کی شرح نمو منفی رہی، لیکن سکڑاؤ کی شرح گزشتہ سال کے 4.43 فیصد سے کم ہو کر 1.03 فیصد رہ گئی ہے، جو بتدریج بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مالی سال 2023 میں صنعتی شعبے میں 0.2 فیصد سکڑاؤ کے بعد، مالی سال 2024 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 فیصد تک پہنچ گئی، جس سے معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ تاہم، گزشتہ سال کے 2.3 فیصد کے مقابلے میں شرح نمو میں سست روی دیکھی گئی ہے، جو خاص طور پر زراعت کے شعبے میں اعتدال کی عکاسی کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2023 کے دوران افراط زر کے دباؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ مؤثر پالیسی مداخلت، عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی، اور شرح تبادلہ میں استحکام ہے۔ اس کے نتیجے میں مالیاتی نرمی کی گنجائش پیدا ہوئی، اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ میں 1000 بیسس پوائنٹس کی کمی کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو تقویت دی ہے۔ بیرونی شعبے میں بھی بہتری کے آثار دیکھے گئے ہیں۔ ترسیلات زر کی آمد میں نمایاں اضافہ اور برآمدات میں لچکدار کارکردگی نے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، خاص طور پر توانائی اور مالیاتی کاروبار کے شعبوں میں تقریباً 20 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے علاوہ، ڈالر کے مقابلے میں روپے نے استحکام کا مظاہرہ کیا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں مدد ملی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ پالیسی اصلاحات اور مالیاتی نرمی کے باعث پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات روشن ہیں۔ تاہم، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں سست روی کو دور کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ معاشی نمو کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔
لندن: شریف فیملی کے ارکان کو لندن میں نامعلوم افراد کی طرف سے پرتشدد حملے کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے۔ میٹ پولیس نے شریف فیملی کو اس خطرے سے آگاہ کیا ہے۔ ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کو ممکنہ حملے کے بارے میں مطلع کیا، جس کی اطلاع انٹیلی جنس مانیٹرنگ سسٹم سے حاصل ہوئی تھی۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے افسران نے ایون فیلڈ فلیٹ میں جا کر شریف فیملی کے ارکان کو اس خطرے کے بارے میں بتایا اور ان سے چوکنا رہنے اور آنے-جانے میں احتیاط برتنے کی ہدایت کی ہے۔ یاد رہے کہ دو ہفتے قبل، گلفام حسین کو پولیس نے ایون فیلڈ کے باہر سے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد اسے فلیٹس کے قریب آنے سے منع کیا گیا تھا۔ تاہم، ذرائع کے مطابق، گلفام حسین کی گرفتاری کا ویسٹ مڈلینڈز پولیس کے اس انتباہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شریف خاندان کے بیشتر افراد اب پاکستان منتقل ہو چکے ہیں، اور انہوں نے حملے کے خطرے سے متعلق رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
پشاور: خیبرپختونخوا اسمبلی نے نگران دور میں بھرتی ہونے والے ہزاروں سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے ایک بل کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بل 22 جنوری 2023 سے 29 فروری 2024 کے درمیان ہونے والی بھرتیوں پر لاگو ہوگا۔ تاہم، قانون میں نگران دور کے دوران سن، اقلیتی کوٹہ اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیوں کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ ملازمین کو نکالنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ بل کے تحت تمام اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نگران دور کی بھرتیوں کے حوالے سے 30 دن کے اندر رپورٹ مرتب کریں۔ اس موقع پر وزیر قانون آفتاب عالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ بار بار اجلاسوں کے باوجود بھی انہیں ملازمین کی کل تعداد کا علم نہیں ہو سکا، صرف 9 ہزار 762 افراد کا ڈیٹا حاصل ہوا ہے۔ وزیر قانون نے مزید وضاحت کی کہ یہ بھرتیاں محکموں نے کی تھیں جس کی وجہ سے ڈیٹا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا، پھر بھی 9 ہزار کا ڈیٹا مل گیا ہے۔ آفتاب عالم نے یہ بھی بتایا کہ بہت سے محکموں نے الیکشن کمیشن سے این او سیز حاصل کیے ہیں اور طویل المدتی اس سیکشن کے خلاف گورنر راج کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا کرنا خود کو بدنام کرنے کے مترادف ہوگا۔
کراچی: وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے چھ چینی شہریوں کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس میں پولیس کی جانب سے ہراسانی اور نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف شکایت کی گئی تھی۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پروٹوکول کے خلاف ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، چار چینی شہریوں نے اپنے وکیل پیر رحمان محسود کے ذریعے درخواست دائر کی تھی جس میں وہ دعوی کر رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان میں کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے اور پولیس نے انہیں گزشتہ چھ سے سات ماہ کے دوران متعدد بار ہراساں کیا ہے جس میں ان کی نقل و حرکت کو غیر منصفانہ طور پر محدود کیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے گزشتہ ہفتے اس معاملے پر وزارت خارجہ اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے جب کہ سندھ حکومت نے ہفتے کے روز الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ غیر ملکی شہریوں کو فارن ایکٹ پر عمل کرنا چاہیے اور چینی شہریوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے اس درخواست کو قانونی طور پر درست نہیں قرار دیا اور کہا کہ چینی شہریوں کو اپنے قونصل جنرل یا دفتر خارجہ کے ذریعے اس معاملے کو اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ یہ درخواست گزار نجی حیثیت میں پاکستان میں موجود ہیں اور ان کی کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم چینی شہریوں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں فول پروف سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں، تاہم جب کوئی ایس او پیز پر عمل نہیں کرتا تو صورتحال بگڑ جاتی ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس معاملے پر پولیس حکام کی چینی قونصل جنرل سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ بھی ان سے ملاقات کریں گے تاکہ کوئی پالیسی بیان جاری کیا جا سکے۔ ڈی آئی جی اسپیشل پروٹیکشن یونٹ (ایس پی یو) ڈاکٹر محمد فاروق احمد نے بتایا کہ گزشتہ سال 6 اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ پر چینی شہریوں پر حملے کے بعد سے ایئرپورٹ پہنچنے والے غیر ملکیوں کو ایس او پیز کے مطابق ان کی منزل تک لے جایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتے میں پانچ پروازیں کراچی ایئرپورٹ پر آتی ہیں جن میں 20 سے 60 چینی شہری شامل ہوتے ہیں اور انہیں ایک ساتھ منزل تک لے جانے کے بجائے 3 سے 4 گھنٹے کے وقفے کے بعد بلٹ پروف گاڑیوں اور پولیس اسکواڈ کے ساتھ لے جایا جاتا ہے۔
پشاور: خیبر پختونخوا اسمبلی نے زرعی انکم ٹیکس بل کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت زیادہ آمدن والے کسانوں پر سپر ٹیکس بھی عائد کیا جائے گا۔ یہ ٹیکس یکم جنوری 2025 سے نافذ ہوگا۔ بل کے تحت، صوبے کی زمین کو تین ڈویژنز اور چار زونز میں تقسیم کیا جائے گا۔ بل میں انکم ٹیکس کی مختلف شرحیں مقرر کی گئی ہیں۔ جن کی سالانہ زرعی آمدن 12 لاکھ سے زائد ہو، ان پر 15 فیصد انکم ٹیکس کے علاوہ 90 ہزار روپے سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ 16 لاکھ سے زائد آمدنی پر 30 فیصد انکم ٹیکس اور ایک لاکھ 70 ہزار روپے سپر ٹیکس لگایا جائے گا۔ 32 لاکھ سے زائد آمدن کے لیے 40 فیصد انکم ٹیکس اور 6 لاکھ 50 ہزار روپے سپر ٹیکس ہوگا۔ اگر آمدن 56 لاکھ روپے سے زائد ہو تو 45 فیصد انکم ٹیکس اور 16 لاکھ 10 ہزار روپے سپر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ کارپوریٹ فارمنگ پر بھی ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔ چھوٹی کمپنیوں پر 20 فیصد جبکہ بڑی کمپنیوں پر 29 فیصد ٹیکس کی شرح مقرر کی گئی ہے۔ اضافی طور پر، بل میں سالانہ زرعی آمدن پر مزید ٹیکس کی شرحیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ 15 کروڑ روپے سے زائد آمدن پر 1 فیصد، 20 کروڑ سے زائد پر 2 فیصد، 25 کروڑ سے زائد پر 3 فیصد، 30 کروڑ سے زائد پر 4 فیصد، 35 کروڑ سے زائد پر 6 فیصد، 40 کروڑ سے زائد پر 8 فیصد، اور 50 کروڑ سے زائد پر 10 فیصد ٹیکس لیا جائے گا۔ اراضی ٹیکس کے حوالے سے، زون ون میں ساڑھے بارہ ایکڑ سے زائد زمین پر 1200 روپے فی ایکڑ کے حساب سے ٹیکس عائد ہوگا، 25 سے 50 ایکڑ زمین پر 2500 روپے فی ایکڑ اور 50 ایکڑ سے زائد پر 3500 روپے فی ایکڑ کی شرح سے اراضی ٹیکس لیا جائے گا۔ زون ٹو اور زون تھری میں زون ون سے کم ٹیکس لگایا جائے گا۔ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کریں گے، ان پر اعشاریہ ایک فیصد فی اضافی دن جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ 12 لاکھ روپے سے کم زرعی آمدنی والے نادہندہ کو 10 ہزار روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ 14 نومبر 2024 کو پنجاب اسمبلی نے بھی زرعی انکم ٹیکس بل منظور کیا تھا، جس کے بعد لائیو اسٹاک پر بھی ٹیکس لگانے اور زیادہ آمدن والے کسانوں پر سپر ٹیکس کا نفاذ ہوا تھا۔
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مذاکراتی عمل سے علیحدگی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مذاکرات جاری نہیں رہتے تو پھر مذاکراتی کمیٹی کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رویہ بہت غیر منطقی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے اپنی ڈیمانڈز پیش کرنے کے لیے 6 ہفتے لیے جبکہ ہم نے ان سے 7 ورکنگ ڈیز مانگے تھے جو مشترکہ اعلامیے میں بھی لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین اجلاسوں میں کسی نے بھی 7 دن کے اندر مطالبات نہ ماننے کی صورت میں الگ ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ ڈیمانڈ کہاں سے آئی ہے یہ سوال ہے۔ عرفان صدیقی کے مطابق، اسپیکر پی ٹی آئی کے رابطے میں ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ پی ٹی آئی کل کے اجلاس میں شرکت کرے گی یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پی ٹی آئی میٹنگ کا حصہ نہیں بنتی تو اسپیکر اس کمیٹی کو تحلیل کر دیں گے اور اس کے بعد حکومتی کمیٹی بھی تحلیل ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ختم ہو گئے تو پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی بھی اقدام حکومت کی جانب سے ردعمل کا متقاضی ہو گا۔ دوسری جانب، وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران سینیٹر عرفان صدیقی نے انہیں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ مذاکرات سے گریز غیر جمہوری رویہ ہے جو کشیدگی کا ماحول پیدا کرتا ہے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو محاذ آرائی کی بجائے مفاہمت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسپیکر ایاز صادق کے سیکرٹری کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔
راولپنڈی: انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 9 مئی کے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی بریت کی درخواست مسترد کر دی۔ سماعت کے دوران جج امجد علی شاہ نے عمران خان کی آرٹیکل 265 کے تحت دائر کردہ درخواست پر غور کیا۔ پبلک پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ استغاثہ کے پاس ملزم کے خلاف کافی شواہد موجود ہیں اور یہ کیس ابھی ٹرائل کے مرحلے میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 12 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں اور ٹرائل کے دوران بریت کی درخواست دائر کرنا مناسب نہیں۔ عدالت نے عمران خان کی درخواست بریت قبول نہ کرتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔ اس سے پہلے بھی اسی عدالت نے پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں، اجمل صابر اور سہیل عرفان عباسی کی بریت کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔
دیونہ منڈی میں انوکھا واقعہ: رفع حاجت کے بہانے گھر میں داخل ہو کر عورت نے شیمپو کی بوتل چرائی، پولیس نے مقدمہ درج کر لیا گجرات کے تھانہ رحمانیہ میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جہاں ایک نامعلوم عورت نے رفع حاجت کے بہانے ایک گھر میں داخل ہو کر شیمپو کی بوتل چرا لی۔ واقعہ موضع دیونہ منڈی کے رہائشی اسد اشفاق کے گھر میں پیش آیا، جہاں ایک عورت نے واش روم میں رکھی ہوئی 500 روپے مالیت کی شیمپو کی بوتل چرا کر فرار ہو گئی۔ پولیس نے ہمسائے توقیر لیاقت کی مدعیت میں اسد اشفاق کے گھر میں ہونے والی چوری کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقدمہ دفعہ 380 تھفٹ ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے، اور پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ تاہم، شیمپو کی بوتل چوری کے مقدمے کی خبر عام ہونے کے بعد پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ لاکھوں روپے کی چوری اور ڈکیتیوں کے مقدمات کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس نے محض 500 روپے کی شیمپو کی بوتل چوری کا مقدمہ درج کر کے وقت ضائع کیا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پولیس کو چھوٹے چھوٹے مقدمات پر توجہ دینے کے بجائے بڑے جرائم کی تفتیش اور ان کی روک تھام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات درج کرنے سے عوام کا پولیس پر سے اعتماد کم ہو رہا ہے۔ پولیس کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر چوری کا مقدمہ، چاہے اس کی مالیت کچھ بھی ہو، قانونی طور پر درج کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس تمام مقدمات کو یکساں اہمیت دیتی ہے اور ہر معاملے میں قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف پولیس کی ترجیحات پر سوال اٹھاتا ہے، بلکہ سماج میں چھوٹے جرائم کے تئیں بیداری کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس مقدمے کی تفتیش میں کس حد تک پیش رفت کرتی ہے اور کیا عوام کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرتی ہے۔ اس واقعے کے بعد سماجی میڈیا پر بھی پولیس کی کارکردگی پر تنقید کی جا رہی ہے، جبکہ کچھ صارفین نے اسے "شیمپو گیٹ" کا نام دے کر مزاحیہ انداز میں بھی بیان کیا ہے۔ تاہم، اس معاملے کی سنگینی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ معاشرے میں قانون اور نظم و ضبط کے تئیں عوام کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔
وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات کے باوجود پارلیمانی ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز میں تین گنا اضافہ کر دیا۔ وفاقی حکومت نے اس ماہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام (ایس اے پی) کے تحت پارلیمانی اراکین کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز میں تقریباً تین گنا اضافہ کر دیا ہے، حالانکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس زمرے میں اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ فنڈز کی کل رقم 48.3 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، جو وزارت خزانہ کی مقرر کردہ حد سے 19 ارب روپے زیادہ ہے۔ خزانہ ڈویژن نے جولائی سے مارچ تک کے لیے سالانہ مختص فنڈز میں سے صرف 60 فیصد فنڈز جاری کرنے کی پابندی عائد کی تھی، لیکن منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے 17 جنوری کو اضافی 18.4 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دے دی، جبکہ اس سے صرف چار دن قبل 12.5 ارب روپے جاری کیے گئے تھے۔ اس طرح کل جاری کردہ فنڈز 48.3 ارب روپے تک پہنچ گئے، جو مالی سال 2023-24 کی پہلی تین سہ ماہی کے لیے مقرر کردہ 29 ارب روپے کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔ کابینہ ڈویژن کی جانب سے اضافی فنڈز کی درخواست کی گئی تھی، جبکہ اتحادی سیاسی جماعتوں نے اپنے حلقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ حکام نے بغیر کسی مالی جائزے کے ان مطالبات کو بے دریغ منظور کر لیا۔ اس فنڈنگ کے نتیجے میں بجٹ پر دباؤ بڑھ گیا ہے، جس نے حکومت کی مجموعی مالی ضروریات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں بجلی سبسڈیز اور دیگر خساروں کو پورا کرنے کے لیے 300 ارب روپے کی کمی کر کے اسے 1.1 کھرب روپے تک محدود کر دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے اخراجات کم کرنے اور مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے دباؤ کا شکار ہے۔ پارلیمانی اراکین کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری مالیاتی نظم و ضبط کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو ترجیح دینے کے مترادف ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مالیاتی حدود کو نظر انداز کرنے کے اقدامات سے نہ صرف ملکی معیشت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں عوامی فنڈز کے استعمال میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پائیدار ترقی اور معاشی استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔ وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی دباؤ کے تحت مالیاتی پالیسیوں کو نظر انداز کرنا ملک کے طویل المدتی معاشی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے مالیاتی نظم و ضبط کو بحال کرتی ہے یا سیاسی مصلحتوں کو ترجیح دیتی رہتی ہے۔
ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں خواتین ووٹرز کے رجحانات سے متعلق فافن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خواتین میں سب سے مقبول جماعت رہی، جبکہ ن لیگ دوسرے اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) تیسرے نمبر پر رہی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عام انتخابات میں 18 فیصد خواتین نے مردوں سے مختلف امیدواروں کو ووٹ دیا، جبکہ 82 فیصد حلقوں میں مرد اور خواتین ووٹرز کا انتخاب جیتنے والا امیدوار ایک ہی تھا۔ یہ اعداد و شمار خواتین ووٹرز کے الگ رجحانات کو واضح کرتے ہیں۔ شہری حلقوں میں خواتین نے مردوں کے مقابلے میں مختلف ووٹنگ رجحان دکھایا۔ اسلام آباد کے حلقوں میں 37 فیصد خواتین نے مرد ووٹرز کے مقابلے میں مختلف امیدوار کو ووٹ دیا۔ بلوچستان میں بھی 37 فیصد خواتین نے مردوں سے مختلف ووٹ ڈالے، جبکہ سندھ میں یہ شرح 19 فیصد اور پنجاب میں 18 فیصد رہی۔ رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں ن لیگ خواتین ووٹرز میں زیادہ مقبول رہی، جبکہ سندھ میں پی پی پی نے خواتین ووٹرز کو اپنی طرف راغب کیا۔ این اے-37 میں خواتین نے جیتنے والے امیدوار کے مخالف کو زیادہ ووٹ دیا، جبکہ این اے-266 میں خواتین ووٹرز نے جیتنے والے امیدوار کو زیادہ ووٹ دئیے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ خواتین پولنگ اسٹیشنز پر زیادہ ووٹ جیتنے والے امیدواروں نے حاصل کیے۔ فافن کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملک بھر میں ووٹوں کے تناسب کے لحاظ سے پی ٹی آئی خواتین ووٹرز میں سب سے مقبول جماعت رہی، جبکہ ن لیگ دوسرے اور پی پی پی تیسرے نمبر پر رہی۔ یہ اعداد و شمار خواتین ووٹرز کے سیاسی رجحانات کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین ووٹرز نے انتخابات میں اپنی اہمیت کا واضح اظہار کیا اور ان کے ووٹنگ رجحانات نے کئی حلقوں میں نتائج پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ خواتین نے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے حقوق اور ترجیحات کے معاملے میں بیدار ہیں۔ فافن کی یہ رپورٹ انتخابی عمل میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت اور ان کے فیصلہ کن کردار کو اجاگر کرتی ہے، جو ملک کی جمہوری روایات کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
کراچی کے تاجروں اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہوا جس میں تاجروں نے احسن اقبال سے کہا کہ مریم نواز کو ہمیں دے دیں، مراد علی شاہ آپ رکھ لیں۔ کراچی کے تاجروں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سے ایک غیر معمولی اور دلچسپ مطالبہ کیا۔ تاجروں نے کہا کہ "کچھ عرصے کے لیے مریم نواز شریف کو ہمارے حوالے کر دیں، اور مراد علی شاہ کو آپ اپنے پاس رکھ لیں۔" یہ مطالبہ تاجروں اور احسن اقبال کے درمیان ہونے والے ایک اجلاس کے دوران سامنے آیا۔ اجلاس میں شریک تاجروں نے مریم نواز شریف کو وزیر اعلیٰ سندھ بنانے کی حمایت کا اظہار کیا۔ تاہم، وفاقی وزیر احسن اقبال نے تاجروں کے اس مطالبے پر صرف مسکراہٹ کے ساتھ ردعمل دیا اور کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ دوسری جانب، حکومت سندھ کی ترجمان ایم پی اے سعدیہ جاوید نے تاجروں کے مطالبے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ "خوشامدیوں سے رٹا لگوائی بات کہلوانے سے زمینی حقائق نہیں بدلے جا سکتے۔ ایک چاپلوس کی بات کو باشعور اور باوقار تاجر برادری کا بیانیہ کہنا بد دیانتی ہے۔ کوئی سنجیدہ سیاستدان اور ذمہ دار وزیر اپنے سامنے فضول بات برداشت نہیں کرتا"۔ سعدیہ جاوید نے مزید کہا کہ "مخصوص تاجروں کا ایک گروہ سازش کے تحت سندھ کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کر رہا ہے۔ یہ تاجر مختلف فورمز پر کاروبار کے علاوہ ہر چیز پر بات کرتے ہیں۔ جمہوریت شطرنج نہیں کہ مہرے کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے۔ عوام کے منتخب نمائندے ہی عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ حقیقی معنوں میں ایک تاجر دوست صوبہ ہے"۔ یہ دلچسپ مکالمہ اور اس پر ردعمل نے سیاسی حلقوں میں تازہ بحث چھیڑ دی ہے۔ تاجروں کی جانب سے مریم نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے کی درخواست نے سیاسی مبصرین کو حیران کر دیا ہے، جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے سخت ردعمل نے اس معاملے کو مزید گرم کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا تاجروں کا یہ مطالبہ کسی سنجیدہ سیاسی تبدیلی کی طرف لے جائے گا یا یہ صرف ایک غیر رسمی گفتگو تک محدود رہے گا۔ فی الحال، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ حکومت اپنے موقف پر قائم ہے اور تاجروں کے مطالبے کو مسترد کر چکی ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے سعودی عرب میں کئی حجاج کی جانیں بچانے پر آصف بشیر کو ستارہ امتیاز سے نوازا ہے۔ صدر مملکت نے یہ اعزاز عوامی خدمات کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں دیا۔ اس تقریب کا انعقاد ایوان صدر اسلام آباد میں کیا گیا۔ آصف بشیر نے گزشتہ سال حج کے دوران معاونین حج کے طور پر غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ 9 ذوالحج کو شدید گرمی کے باعث کئی پاکستانی، بھارتی اور برطانوی حجاج بےہوش ہوگئے تھے۔ اس بحران کے دوران، آصف بشیر اور ان کی 5 رکنی ٹیم نے متاثرہ عازمین کو فوری طبی امداد فراہم کی۔ پاکستانی ٹیم نے بہت سے بھارتی حجاج کو بھی امداد دی۔ مشکل حالات میں آصف بشیر نے 26 عازمین کو، جن میں سے 17 بھارتی تھے، کندھوں پر اٹھا کر اسپتال پہنچایا، جس کی وجہ سے ان کی جانیں بچائی جا سکیں۔ ان کی ان شاندار خدمات کے اعتراف میں، بھارتی وزیر اقلیتی امور نے بھی انہیں تعریفی خط لکھا تھا۔
پاکستانی لڑکی کی محبت میں سرحد پار کرنے والے بھارتی نوجوان بادل بابو نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اسے قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔ عدالت میں پیشی کے دوران، بادل نے اپنے گھر والوں سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کی جو اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں مقیم ہیں۔ اس نے والدین کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ ثنا کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس لیے اس نے اسلام قبول کیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ وہ اب پاکستان میں ہی رہے گا اور بھارت واپس آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عدالتی کارروائی کے دوران، بادل کو اس کے والدین سے رابطہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس نے فون پر انہیں یقین دلایا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا اور وہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ اس نے تصدیق کی کہ اب وہ مسلمان ہے اور بھارت واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ بادل بابو کے وکیل، فیاض رامے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ منڈی بہاؤالدین کی عدالت میں بادل کی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے جس کی سماعت تین دن بعد ہوگی۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کے آئین کے تحت ہر فرد کو منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بادل کو اپنے اعمال کے قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وکیل نے مزید بتایا کہ بادل نے اسلام قبول کر لیا تھا اور مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کا ذاتی فیصلہ کیا تھا، جسے عدالت نے تسلیم کیا ہے۔ عدالت فیصلہ کرے گی کہ کیس کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ یاد رہے کہ بادل بابو، جو بھارت کی ریاست علی گڑھ کا رہائشی ہے، نے 24 اگست 2023 کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کی تھی اور یکم جنوری 2025 کو منڈی بہاؤالدین سے گرفتار ہوا تھا۔ وہ فی الحال ضمانت کے انتظار میں ہے اور اسے پاکستان کے فارن ایکٹ کے تحت دفعہ 13 اور 14 کے الزامات کا سامنا ہے، جو غیر قانونی داخلے اور مناسب سفری دستاویزات کی کمی سے متعلق ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ پیکا ایکٹ 2025 میں کی جانے والی تبدیلیاں حکومت کو ڈیجیٹل منظرنامے پر مزید کنٹرول دے سکتی ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قومی اسمبلی میں پی ٹی ای کی قیادت میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل پیش کیا گیا۔ اس دوران صحافیوں نے بھی ایوان کی گیلری سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ صحافیوں کا خیال ہے کہ یہ قانون سازی آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے جبکہ پی ٹی ای نے پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت کے ساتھ اس بل کی حمایت کرنے پر تنقید کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر بابو رام پنٹ نے کہا کہ اگر یہ ترمیمیں دونوں ایوانوں سے منظور ہو جاتی ہیں تو یہ حکومت کو پاکستان کے پہلے سے کنٹرول شدہ ڈیجیٹل مواد پر مزید اختیارات دے گی۔ بابو رام پنٹ نے بتایا کہ ترمیم میں جھوٹی خبروں اور غلط معلومات کے پھیلانے والوں کے خلاف ایک نیا جرم شامل کیا گیا ہے جس کی سزا 3 سال قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس ایکٹ میں نئی شق کی غیر واضح تشریح اور پیکا کی مخالف آوازوں کو دبانے کی تاریخ کی وجہ سے آن لائن اظہار رائے کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بل کو بغیر کسی بحث کے ایوان میں پیش کیا گیا اور اس ترمیم نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اختیارات میں اضافہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر یہ بل واپس لے اور سول سوسائٹی کے ساتھ معنی خیز بات چیت کرکے پیکا کو عالمی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق بنائے۔
عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائسر نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس 2035 تک سالانہ سات فیصد کی شرح نمو کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ ان کے مطابق یہ ہدف "بالکل ممکن" ہے، لیکن اس کے لیے کلیدی اصلاحات اور مضبوط معاشی پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہوگا۔ عالمی بینک نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی آبادی کے لیے معاشی ترقی اور خوشحالی حاصل کرنے کے لیے جامع اصلاحات کرے۔ عالمی بینک نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے کاربن قیمتوں کے ذریعے آب و ہوا سے متاثرہ ممالک کو معاوضہ دینے کے عالمی لائحہ عمل کی بھی تجویز پیش کی ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائسر نے ایک خصوصی گفتگو میں پاکستان کے بہت سے مسائل کی وجہ توانائی، پانی اور محصولات کے شعبوں میں اصلاحات کی کمی کو قرار دیا۔ انہوں نے خاص طور پر توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے معاہدوں کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ مارٹن رائسر نے کہا کہ پاکستان نے کچھ ابتدائی اقدامات کیے ہیں جو درست سمت کی جانب تھے، لیکن ابھی بہت سے اچھے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2015 کے بعد عالمی بینک کے پاس پاکستان کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) نہیں تھا، اس دور میں کورونا وبا اور سیلاب کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے جنہیں چند سالوں میں حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے بینک نے اب 10 سال کی طویل مصروفیت پر غور کیا ہے۔ مارٹن رائسر نے آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کاربن اخراجات کو کم کرنے کے لیے قیمتوں کے تعین کے آلات کی ضرورت ہے، لیکن یہ عالمی مذاکرات میں پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ وہ ماحولیاتی انصاف اور متاثرہ ممالک کو معاوضہ دینے کے اخلاقی جواز پر زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، عالمی بینک کوپ 28 کے بعد خسارے اور نقصان کے فنڈ کی میزبانی کر رہا ہے جس کے لیے زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ آب و ہوا سے متاثرہ ممالک کی مدد کی جا سکے۔ مارٹن رائسر نے مزید کہا کہ عالمی بینک نے زیادہ نتیجہ خیز ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے آلات اور فنانسنگ ماڈلز کے امتزاج سے مضبوط عمل کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہنگامی ضروریات کے تحت مہنگے معاہدے کرنا پڑے لیکن اب بھی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کی لاگت کم کی جا سکے اور نظام کو موثر بنایا جا سکے۔ انہوں نے اضافی اصلاحات، ٹرانسمیشن انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور گرڈ کی استحکام کی ضرورت پر زور دیا۔ مارٹن رائسر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں کچھ پیش رفت کی ہے لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لئے "میزبان" نامی ہوم اسٹے ٹورازم پروگرام کے اجراء کے لئے محکمہ سیاحت اور بینک آف خیبر کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس اقدام کی تقریب وزیر اعلیٰ ہاو¿س، پشاور میں منعقد ہوئی جہاں وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور مہمان خصوصی تھے۔ یہ پروجیکٹ ابتدائی طور پر 39.5 کروڑ روپے کی لاگت سے اپر چترال، لوئر چترال، اپر دیر، لوئر دیر، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور سوات کے اضلاع میں شروع کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت، مقامی لوگوں کو ان کے گھروں میں سیاحوں کے لئے رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے، جو 30 لاکھ روپے تک ہوں گے۔ یہ قرضے بینک آف خیبر کے ذریعے دیئے جائیں گے۔ منصوبے کے تحت، مقامی شہری جو اہلیت کے معیار پر پورے اتریں گے، وہ اپنے گھر کے موجودہ کمروں کی تزئین و آرائش یا نئے کمرے تعمیر کرنے کے لئے قرضہ حاصل کر سکیں گے۔ ان کمروں میں سیاحوں کے لئے واش رومز، کچن اور دیگر ضروری سہولیات موجود ہوں گی۔ قرضہ کی واپسی کی مدت پانچ سال ہوگی اور ادائیگی دوسرے سال سے شروع ہوگی۔ وزیر اعلیٰ نے اس منصوبے کو صوبائی حکومت کا فلیگ شپ پروجیکٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف سیاحوں کے لئے معیاری اور محفوظ رہائشی سہولیات فراہم کرے گا بلکہ مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت سیاحت کو صنعت کے طور پر فروغ دینے پر کام کر رہی ہے، جس میں موجودہ سیاحتی مقامات کی بہتری اور نئے مقامات کی ترقی شامل ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں انہوں نے صدر ٹرمپ کو ان کے نئے عہدے پر فائز ہونے کی مبارکباد پیش کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان کے مطابق، یہ خط 20 جنوری کو لکھا گیا تھا۔ اسی سلسلے میں، پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو ان کی نئی تقرری پر مبارکباد دی ہے۔ یہ اقدامات دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ایک علامت سمجھے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد: ایک اور دلچسپ خبر سامنے آئی ہے جو قومی اسمبلی کے تمام ارکان اور سینیٹ میں بھی شامل ہے۔ انھوں نے ایک اہم بل کے ذریعے اپنی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافے کا حتمی فیصلہ کیا ہے۔ مطالعہ کے مطابق جب سے انہیں اس فیصلے کا علم ہوا، تو انھوں نے ایک صفائی کے طور پر اس بل کو سینیٹ کی فنانس کمیٹی بھیج دیا ہے، جس کے بعد یہ اہم کارروائی آج قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔ دستاویزات کے مطابق موجودہ تنخواہیں تقریباً ایک لاکھ چھیاسی ہزار ہیں جن کی تعداد میں 200 فیصد اضافے کے بعد اس کی رقم پانچ لاکھ ہو کر تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل بھی پانچ ماہ قبل، پنجاب کی تمام ایم پی اے کے ممبران نے یہی سے فیصلے کیا تھا اور ان کی تنخواہوں میں اس وقت ہزاروں روپے کی اضافے سے اپنی جیب بھرنے کی کوشاں کرتے ہوئے اس قانون کو پاس کروایا تھا۔ ان تمام اہم کارروائیوں کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور یہ بات پریشان کن ہے کہ قائمہ ممبران اپنے مسائل کو دیکھتے ہوئے ناکام ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد: وزارت توانائی نے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اہم دستاویزات سے یہ بات سامنے لائی ہے کہ پبلک اور کارپوریٹ سیکٹر کے دو لاکھ ملازمین کو اربوں روپے کی مفت بجلی فراہم کی گئی ہے۔ دستاویزات کے مطابق، یہ سہولت سالانہ بنیاد پر 44 کروڑ 15 لاکھ یونٹ بجلی کی صورت میں دی گئی، جس میں حاضر سروس ملازمین کو 30 کروڑ 82 لاکھ یونٹ جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کو 13 کروڑ 32 لاکھ یونٹ مفت فراہم کیے گئے۔ مزید برآں، ڈسکوز کے 1 لاکھ 49 ہزار ملازمین، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے 26 ہزار 368 ملازمین اور جنریشن کمپنیز (اورجینکو) کے 12 ہزار ملازمین بھی اس مفت بجلی سے مستفید ہوئے۔ دستاویزات کے مطابقت میں، واپڈا کے 12 ہزار 700 ملازمین اور پاکستان انٹرنیشنل ٹرانسمیشن کمپنی (پی آئی ٹی سی) کے 159 ملازمین کو بھی مفت بجلی کی سہولت فراہم کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈسکوز کے 78 ہزار حاضر سروس ملازمین اور 71 ہزار 800 ریٹائرڈ ملازمین کو بھی اس فائدے سے نوازا گیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر امدادی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ انکشاف ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بحران کے باعث عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

Back
Top