سیاسی

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اور وزیر دفاع خواجہ آصف ہر ممکن طور پر مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے عزم موجود ہے، اسی وجہ سے ہم اعتماد کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسد قیصر نے کہا کہ حکومت نے عمران خان سے ملاقات کرانے کے وعدے کے بعد بہانے تلاش کر لیئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ نہ تو ہم کسی خوف میں مبتلا ہیں اور نہ ہی کسی سے ڈرتے ہیں، صرف پاکستان کے مفاد میں اپنے تحفظات کو نظرانداز کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز اور خواجہ آصف کی باتوں پر افسوس ہوا ہے، جو واقعی مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے ٹوئیٹ کے بعد مذاکرات کی صورتحال غیر یقینی ہوگئی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اتمامِ حجت کے لیے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی سے ملاقات کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ منتقلی کے متعلق دعوے محض خواہشات ہیں اور اس معاملے میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ رہائی کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے۔ یہ صورتحال ملک کی سیاسی بحالی اور مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے مابین بیانات سے عوام میں بے چینی اور عدم استحکام کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مذاکراتی کمیٹی کو بانی پی ٹی آئی، عمران خان سے ملاقات کی اجازت مل گئی ہے، جو کہ آج دن 2 بجے ہونے کی توقع ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ ملاقات پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے بانی کے ساتھ رابطہ بڑھانے کی ایک اہم کڑی ہوگی۔ پروگرام "نیا پاکستان" میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ہمیں طعنہ دینا مقصود نہیں، بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کمٹمنٹ کیوں پوری نہیں ہوئی۔ اسد قیصر نے مزید وضاحت کی کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی اور عمران خان کے درمیان ملاقات نہ ہونے کا باعث بڑا سوال ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مذاکرات میں سنجیدگی مقصود ہے تو قیادت کا انپٹ بہت ضروری ہے۔ پی ٹی آئی رہنما نے الزام عائد کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف اور مریم نواز کی کوشش ہے کہ ہر ممکن طریقے سے مذاکرات کو ناکام بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے لیے پختہ عزم رکھتے ہیں، اس لیے ہم اعتماد کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں اور مریم نواز اور خواجہ آصف کی تنقید پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہ ملاقات نئی سیاسی حکمت عملی کے لیے اہم مانی جارہی ہے، جس کا انتظار عوام اور سیاسی حلقوں میں شدت سے کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں ایف آئی اے نے مریم نواز کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ذریعے جعلی تصاویر اور ویڈیوز تخلیق کر کے سوشل میڈیا پر پھیلانے کے الزام میں تین ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، ایف آئی اے نے ابتدائی طور پر 20 ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے یہ جعلی مواد شیئر کیا گیا۔ ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ نے مقدمات کا اندراج کر کے گرفتاریاں شروع کر دی ہیں اور تحقیقات کا دائرہ کار بھی وسیع کر کے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے۔ جے آئی ٹی کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز کر رہے ہیں جبکہ فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور لاہور کے افسران اس میں شامل ہیں۔ ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ نے سائبر پٹرولنگ کے ذریعے ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی جنہوں نے اے آئی سے تخلیق کردہ ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ کی تھیں۔ حکام کے مطابق، تحقیقات کی شروعات ایک 'سورس رپورٹ' کے بعد کی گئی، جس میں ان ملزمان کے اکاؤنٹس سے پھیلائی جانے والی جعلی تصاویر اور ویڈیوز کا پتہ چلا۔ ایف آئی اے نے بتایا ہے کہ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب 7 جنوری 2025 کو سوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کے درمیان مبینہ ملاقات کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں۔ آئی ویریفائی پاکستان کی ٹیم نے تحقیقات کے بعد یہ ثابت کیا کہ یہ ویڈیوز جعلی تھیں اور انہیں اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پاکستان کا پہلا "دھی رانی پروگرام" لاہور کے ایک میرج ہال میں منعقدہ 51 شادیوں کی اجتماعی تقریب کے ذریعے لانچ کر دیا۔ اس تقریب میں نوبیاہتا جوڑوں میں پانچ کرسچن جوڑے بھی شامل تھے، جو اس منصوبے کے بین الثقافتی پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔ مریم نواز نے تمام نوبیاہتا جوڑوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی اور اُن کے لیے دعائیں کیں۔ تقریب میں ڈاکٹر مفتی محمد رمضان سیالوی اور بشپ ندیم کامران نے خصوصی دعا کروائی۔ نوبیاہتا دلہا اور دلہن کو میٹریس، کھانے پکانے کا سامان، ڈنر سیٹ اور دیگر ضروریات کے تحائف دیے گئے۔ اس تقریب کے دوران، مریم نواز نے "دھی رانی پروگرام" کی سلام کارڈ کی بھی رونمائی کی، جس کے تحت ہر دلہن کو سلامی کارڈ بھی دیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت، دلہنیں دھی رانی سلامی کارڈ کے ذریعے ایک لاکھ روپے سلامی حاصل کرنے کی اہل ہوں گی، جو انہیں شادی کے بعد مالی مدد فراہم کرے گا۔ تقریب کے شرکا کے لیے محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے ظہرانہ بھی ترتیب دیا گیا۔ مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ "شادی بچوں اور والدین کے لیے ایک جذباتی لمحہ ہوتا ہے، اور میں بھی آپ کی ماں ہوں۔ اس خوشی کے لمحے میں آپ کے ساتھ ہوں۔" اس طرح، "دھی رانی پروگرام" نہ صرف نوبیاہتا جوڑوں کی خوشیوں میں شریک ہورہا ہے بلکہ انہیں مالی معاونت بھی فراہم کر رہا ہے، جو کہ معاشرتی بهرتی کا ایک اہم اقدام ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ عمران خان این آر او کیلئے جھک گئے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات، عظمیٰ بخاری، نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے این آر او کے حصول کے لیے جھکاؤ دکھایا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ لاہور میں ترقیاتی منصوبے جاری ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب، مریم نواز، خود ان کی نگرانی کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ "دھی رانی" پروگرام مریم نواز کے دل کے قریب ہے، جو کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کے لئے اہم ہے۔ وزیر اطلاعات نے اطلاع دی کہ تعلیمی اسکالرشپ پروگرام کے تحت 30 ہزار بچوں کو تعلیم حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ، ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، حالانکہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر نے سول نافرمانی کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو خطوط ارسال کیے۔ عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ ملک و قوم کے اداروں کو سازش کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا، اور پی ٹی آئی کی کال کا جوش و شوق ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کے رہنما ڈی چوک چھوڑ کر بھاگ گئے اور اب منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پی ٹی آئی این آر او کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے، اور پنجاب حکومت ترقیاتی امور میں سفارشات کے بجائے مکمل طور پر میرٹ پر کام کر رہی ہے۔ صوبائی وزیر نے علی امین گنڈا پور پر کرپشن کے الزامات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ایک وزیر میٹرک میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے پناہ گاہوں کے منصوبے کی ناکامی کا بھی ذکر کیا۔ عظمیٰ بخاری نے آخر میں کہا کہ "دوسروں کے لیے اے سی بند کرنے والوں کو اب اپنی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے"۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بانی پی ٹی آئی سے اس کے گھر والے بھی ملنے نہیں جاتے۔
اسلام آباد: فریڈم نیٹ ورک (فافن) کی حالیہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی وزارتوں کی اکثریت نے معلومات تک رسائی کے قانون (آرٹی آئی) پر عملدرآمد نہیں کیا، جس کی وجہ سے عوامی اہمیت کی معلومات کا اجرا قانونی طور پر مطلوبہ سطح پر نہیں ہو سکا۔ رپورٹ کے مطابق، 33 وفاقی وزارتوں کی 44 ڈویژنز کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے کسی بھی ڈویژن نے قانون کی دفعہ 5 پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی سطح پر معلومات تک رسائی کے حوالے سے صورتحال انتہائی ناقص ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ ڈویژن میں سب سے کم 8 فیصد عملدرآمد کیا گیا، جب کہ شق 19 پر 15 فیصد اور اطلاعات و صحت کے شعبوں میں 19 فیصد عمل درآمد ہوا۔ اسی طرح کیبنٹ اور بین الصوبائی ڈویژن میں 42 فیصد عمل درآمد کا ذکر کیا گیا، جب کہ پٹرولیم، ریونیو اور داخلہ سمیت 6 ڈویژنز میں 38 فیصد عمل درآمد ہو سکا۔ فافن کے مطابق، معلومات تک رسائی کے قانون پر مناسب عملدرآمد نہ ہونے سے غلط معلومات پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جس کا عوامی سطح پر منفی اثر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی معلومات کی شفافیت اور عوامی اعتماد میں کمی آ رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارتوں میں آرٹی آئی قانون پر فوری طور پر عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ عوامی معلومات کا شفاف طریقے سے اجرا ممکن ہو سکے اور غلط فہمیوں اور بے بنیاد معلومات کا خاتمہ کیا جا سکے۔
پشاور: خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا قرض اتارنے والا پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا ہے، جس نے ڈیبٹ منیجمنٹ فنڈز میں 30 ارب روپے منتقل کیے ہیں۔ مزمل اسلم نے کہا کہ دیگر صوبے اور وفاقی حکومت قرض لینے کے پروگرام پر عمل کرتے ہیں، جبکہ خیبرپختونخوا نے قرض اتارنے کے لیے واضح حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ ان کے مطابق، خیبرپختونخوا حکومت مزید 30 سے 35 ارب روپے اس فنڈ میں منتقل کرکے مجموعی قرض کے 10 فیصد تک پہنچا سکتی ہے۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ فنڈز کی منتقلی کا عمل شروع ہو چکا ہے، اور مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید رقم بھی منتقل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا نے قومی اور صوبائی حکومتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے قرض اتارنے میں سبقت حاصل کی ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ پچھلے چھ ماہ میں 20 ارب روپے پنشن فنڈ اور 20 ارب روپے گریجوٹی فنڈ میں منتقل کیے گئے ہیں۔ ان فنڈز سے تین سے چار ارب روپے کا منافع حاصل کرکے محفوظ سرمایہ بنایا گیا ہے۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے خزانے میں اب تین ماہ کی ایڈوانس تنخواہیں موجود ہیں، جو ماضی کے مالی مسائل کے برعکس ایک بڑی کامیابی ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر کم از کم دو ماہ کی تنخواہوں کے لیے فنڈز کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ مزمل اسلم نے وفاقی حکومت کی قرض پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صرف نومبر میں وفاق نے 12,248 ارب روپے قرض لیا ہے، جبکہ خیبرپختونخوا کا 77 سال کا مجموعی قرض 725 ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کل قرض 70,400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جو اپریل 2022 میں 43,500 ارب روپے تھا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے ویژن کی پیروی کر رہی ہے، اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں قرض ختم کرکے معیشت کو مستحکم کرنے کی جانب گامزن ہے۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کے دورِ حکومت میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، جہاں صرف ڈھائی سال میں فی یونٹ ٹیرف میں مجموعی طور پر 25 روپے 76 پیسے کا اضافہ ہوا۔ تفصیلات کے مطابق، شہباز شریف کی حکومت کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جو پاکستانی تاریخ میں کسی بھی حکومت کے تحت سب سے زیادہ ہیں۔ شہباز شریف کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 22 روپے 53 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا، جبکہ صارفین پر فی یونٹ 3 روپے 23 پیسے کا مستقل سرچارج بھی عائد کیا گیا۔ اس طرح، مجموعی طور پر بجلی کے نرخ میں 25 روپے 76 پیسے کا اضافہ ہوا۔ جولائی تا اکتوبر 2022 کے دوران بجلی کے فی یونٹ بنیادی ٹیرف میں 7 روپے 91 پیسے کا اضافہ ہوا، جبکہ جولائی 2023 میں فی یونٹ 7 روپے 50 پیسے مزید بڑھائے گئے۔ اسی ماہ 3 روپے 23 پیسے کا مستقل سرچارج بھی لاگو کیا گیا۔ جولائی 2024 میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مزید 7 روپے 12 پیسے کا اضافہ کیا گیا۔ اس دوران کابینہ کی منظوری سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ صارفین کو سہ ماہی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹس کی صورت میں اضافی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا۔ شہباز شریف کے دور میں بجلی صارفین پر ڈھائی سال کے دوران 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ یہ اضافہ نہ صرف بنیادی ٹیرف اور سرچارج کی صورت میں ہوا بلکہ ایڈجسٹمنٹس اور ٹیکسوں کی شکل میں بھی عوام کو متاثر کیا۔ تاریخی اضافے کے بعد، موجودہ حکومت بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ آئی پی پیز کے معاہدے: حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں تبدیلی یا خاتمے کا عندیہ دیا ہے تاکہ اس سے حاصل ہونے والا فائدہ عوام تک پہنچایا جا سکے۔ ٹیکسوں کا جائزہ: بجلی بلوں کے ذریعے وصول کیے جانے والے ٹیکسوں پر بھی نظرثانی کی جا رہی ہے تاکہ صارفین کو ریلیف فراہم کیا جا سکے بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافے نے عام شہریوں کے بجٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے، اور عوام حکومت سے فوری ریلیف کے منتظر ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں مستقل بہتری کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ صحت کا شعبہ کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، مگر حکومت عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ انہوں نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر روز ایک نیا چیلنج درپیش ہوتا ہے، اور سرکاری ہسپتالوں میں دوائیوں کی چوری اور مریضوں کو باہر سے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کے سرحدی علاقوں کو دراندازی کے سنگین خطرات لاحق ہیں، جو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ 14 سے 15 کروڑ عوام کی صحت کی فکر مجھے رات کو چین سے سونے نہیں دیتی، کیونکہ موجودہ سہولیات ان کے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سابقہ حکومت کے دور میں سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی 90 فیصد سے کم ہو کر 30 فیصد رہ گئی تھی، اور بعض بیماریوں جیسے کینسر کے مفت علاج کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم، موجودہ حکومت نے شہباز شریف کے دور کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے مفت ادویات کی فراہمی بحال کر دی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ صحت کے شعبے میں تبدیلی راتوں رات ممکن نہیں، لیکن حکومت مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے موبائل ہیلتھ کلینک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 70 لاکھ سے زائد لوگوں کا علاج کیا جا چکا ہے، جبکہ غریب مریضوں کے لیے مفت ادویات کی ہوم ڈیلیوری بھی شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پنجاب میں امراض قلب کے نئے ہسپتال قائم کیے جا رہے ہیں اور کینسر کے جدید علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ملک کے پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کی تعمیر جاری ہے۔ اس کے علاوہ سرگودھا میں نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی کے قیام سے علاقے میں امراض قلب کے علاج کی سہولت فراہم ہوگی۔ مریم نواز نے بتایا کہ ہسپتالوں میں سیکیورٹی اور سہولیات کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے خصوصی افسران تعینات کیے گئے ہیں۔ مریضوں کی شکایات کے فوری ازالے کے لیے ہسپتالوں میں "وزیراعلیٰ کمپلین ڈیسک" بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں موجود 2,500 بنیادی صحت مراکز میں سے 1,250 کی تزئین و آرائش اسی ماہ مکمل کی جائے گی، جبکہ 904 مراکز پر کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کا شعبہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور پنجاب کے عوام کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے دوران خیبرپختونخوا ہاؤس میں ہونے والے نقصانات کی رپورٹ سامنے آ گئی ہے، جس کی خیبرپختونخوا اسمبلی نے متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ یہ اجلاس اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی کی صدارت میں منعقد ہوا، جہاں رکن صوبائی اسمبلی منیر حسین لغمانی نے 5 اکتوبر 2022 کو ہونے والے واقعات کی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق، خیبرپختونخوا ہاؤس میں نقصانات کا تخمینہ 3 کروڑ روپے سے زائد لگایا گیا ہے، جس میں وزیراعلیٰ کے گمشدہ سامان کی قیمت 35 لاکھ روپے شامل ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ وزیراعلیٰ کی 25 لاکھ روپے مالیت کی ایم فور رائفل، 6 لاکھ کا آئی فون، اور ڈیڑھ لاکھ روپے کی بلٹ پروف جیکٹ غائب ہوئی ہیں۔ مزید یہ کہ خیبرپختونخوا ہاؤس سے سرکاری اسلحہ، موبائل اور نقدی بھی چوری ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں دیگر نقصان کا تخمینہ بھی دیا گیا ہے، جس میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی گاڑیوں کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 10 لاکھ روپے، جبکہ 45 لاکھ روپے مالیت کے گیس ماسک، موبائل فونز، اور موبائل بینک بھی غائب ہوئے۔ سی ایم سیکرٹریٹ کے اسٹاف سے اسلحہ گمشدگی، گاڑیوں کے نقصان اور دیگر سامان کی نقصانات کا تخمینہ 40 لاکھ 50 ہزار روپے لگایا گیا ہے۔ قیمتی آلات، سی سی ٹی وی کیمرے، ڈی وی آر، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 10 لاکھ 50 ہزار ہے۔ وزیر اعلی کے کمروں کی دو وی ایٹ گاڑیوں کو 15 لاکھ 40 ہزار روپے کا نقصان پہنچا جبکہ دروازے، شیشے اور فیملی روم کو بھی نقصان ہوا۔ یہ اہم رپورٹ اس وقت پیش کی گئی جب 5 اکتوبر 2022 کو تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران اسلام آباد پولیس نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے خیبرپختونخوا ہاؤس میں کارروائی کی تھی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں اس بات کا بڑا انکشاف ہوا ہے کہ 22 ہزار پاکستانیوں کے پاس دہری شہریت موجود ہے۔ کمیٹی نے ججز اور ارکان اسمبلی کے لیے دہری شہریت کی پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور بیوروکریٹس پر بھی ایسی پابندی عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چئیرمین خرم نواز کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں دہری شہریت کے معاہدے رکھنے والے ممالک کے شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے سے متعلق مجوزہ قانون سازی پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ دوران اجلاس رکن کمیٹی عبدالقادر پٹیل نے انکشاف کیا کہ اس وقت 22 ہزار بیوروکریٹس کے پاس دہری شہریت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی کے ممبران اور ججز دہری شہریت نہیں رکھ سکتے تو بیوروکریٹس کیوں رکھ سکتے ہیں؟ انہوں نے اس بل میں یہ شق شامل کرنے کی تجویز دی کہ دہری شہرت رکھنے والا شخص بیوروکریٹ کی حیثیت سے تعینات نہیں ہوسکتا۔ عبدالقادر پٹیل نے دہری شہریت کی پابندی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، "یہ کہتے ہیں کہ سیاست دانوں کو اس لیے دہری شہریت نہیں دی جاسکتی کیونکہ ان کے پاس راز ہوتے ہیں، ہمارا راز کونسا راز ہے؟ فائلیں ساری بیو روکریٹس کے پاس ہوتی ہیں، ان کے پاس ہم سے زیادہ راز ہوتے ہیں"۔ اجلاس کے دوران کمیٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد، دہری شہریت ترک کرنے والوں کی تعداد اور نادرا کے پاس موجود دیگر معلومات کی تفصیلات طلب کیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایک اہم شخصیت کو دہری شہریت پر ریلیف دے کر اہم عہدہ دیا گیا، جس کی روزمرہ کے کاموں میں اثرانداز ہونے کی ضرورت ہے۔ نبیل گبول نے پاکستان کی شہریت ترک کرنے والوں کو پاسپورٹ دینے کے حوالے سے بل کی مخالفت کی، یہ کہتے ہوئے کہ مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔ جبکہ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اس بل کی حمایت کی اور کہا کہ جو لوگ بیرون ملک جا کر نیشنیلٹی سرنڈر کرتے ہیں، ان کو بےعزتی نہیں سمجھا جا سکتا۔ کمیٹی کی یہ کاروائیاں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ قومی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے دہری شہریت کے مسائل پر گہرائی سے سوچا جانا ضروری ہے۔
لاہور میں اووربلنگ کا شکار صارفین کیلئے اہم خبر سامنے آگئی، لاکھوں روپے کی اوور بلنگ کے معاملے پر نیب لاہور کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے۔ انکوائری کے نتائج کے مطابق، لیسکو کے اعلیٰ افسران اس معاملے میں ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، نیب لاہور کی جانب سے کروڑوں روپے کی اوور بلنگ کی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے۔ ابتدائی انکوائری میں لیسکو کے چیف ایگزیکٹو، سی ایس ڈی اور ڈائریکٹر کمرشل پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، نیب کی تحقیقاتی رپورٹ چیئرمین نیب کو پیش کی جائے گی۔ لیسکو نے 2024 میں صارفین کو کروڑوں روپے کے اضافی بل بھیجے، جس پر تحقیقات کی گئیں۔ چیئرمین نیب کو بریفنگ کے بعد انکوائری پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا، جبکہ اوور بلنگ کے ذمہ دار لیسکو افسران کے خلاف کارروائی کا بھی امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیسکو کے افسران نے انکوائری میں تاخیری حربے استعمال کیے، جو کہ تین سے دو ماہ رہا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں لیسکو کے آڈٹ رپورٹ میں ایک سال کے دوران اوور بلنگ سے اربوں روپے کی وصولی کا انکشاف ہوا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، شہریوں سے اوور بلنگ کے ذریعے 1 ارب 95 کروڑ وصول کیے گئے، جبکہ مختلف تعمیراتی منصوبوں میں تین ارب 68 کروڑ کی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا تھا۔ اس کے علاوہ LINE LOSSES میں 8 ارب روپے سے زائد کا نقصان بھی درج کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے بجلی چوری کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے اور اوور بلنگ میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اوور بلنگ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور اس معاملے میں ملوث افسران کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عدالت کی جانب سے طلب کیا جاسکتا ہے؟اہم سوال پیدا ہوگیا۔ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ممکنہ طلبی کا امکان ابھر کر سامنے آیا ہے، جب کہ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ابھی تک اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 12 اگست 2024 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں آئی ایس پی آر کے مطابق ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کی کارروائی کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔ 10 دسمبر کو ان پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی گئی اور تب سے ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چل رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق جنرل فیض کے کورٹ مارشل میں کئی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ کارروائی کے دوران ستغاثہ اپنے گواہوں کو پیش کر رہا ہے، جبکہ دفاعی ٹیم بعد میں اپنے گواہوں کا انتخاب کرے گی۔ اگر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عدالت طلب کرتی ہے تو وہ پیش ہونے کے قانونی طور پر پابند ہوں گے۔ جنرل فیض حمید نے اب تک ہونے والی تمام سماعتوں میں شرکت کی ہے اور وہ صحت مند ہیں۔ ان کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا ہے کہ جب تک استغاثہ اپنے ابتدائی شواہد پیش نہیں کر دیتا، اس وقت تک دفاعی گواہوں کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ میاں علی اشفاق نے یہ بھی بتایا کہ فیض حمید کی قانونی ٹیم جنرل قمر جاوید باجوہ کو بطور دفاعی گواہ پیش کرنے کے معاملے میں کوئی جلد بازی میں فیصلہ نہیں لے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ یہ ہمیں کس حد تک فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میاں علی اشفاق نے میڈیا میں آنے والی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم کسی بھی گواہ کو بلانے کا فیصلہ بعد میں کرے گی، جو کیس کی پیشرفت اور حقائق کی بنیاد پر ہوگا۔ اس تمام صورتحال پر عوام میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور سب کی نظریں اب اس بات پر ہیں کہ آیا جنرل قمر جاوید باجوہ واقعی اس کیس میں دفاعی گواہ کے طور پر پیش ہوں گے یا نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بار بار موقف تبدیل کرنے سے مذاکراتی عمل مثبت طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ کئی مہینوں کی رسہ کشی کے بعد اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی نے 23 دسمبر 2024 کو تناؤ کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جو کہ خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسد قیصر کی باتوں نے مذاکرتی کمیٹی میں اب تک ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے نئے مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ ایسے مطالبات سامنے آ گئے ہیں، جو پہلے ہمارے سامنےبالکل نہیں تھے انہوں نے کہا کہ ایک طرف پی ٹی آئی کہتی ہے کہ حکومت کو اسٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل ہے اور دوسری طرف اپنا ہی مؤقف تبدیل کر کے شکوک و شہبات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی مذاکرات کمیٹی کی پیر کو عمران خان سے ملاقات ہوجائے گی. مذاکرات شروع ہونے سے آج تک ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ چیزیں تحریری طور پر سامنے آ جائیں تاکہ واضح ہو جائے کہ ان کے کیا کیا مطالبات ہیں، پی ٹی آئی نے دونوں میٹنگز میں اشارتاً بھی نہیں کہا کہ پہلے اسٹیک ہولڈرز سے بات کر لیں، ہم کس سے بات کرتے ہیں کس سے ضمانت لیتے ہیں یہ ہمارا دردِ سر ہے۔
اسلام آباد: پاکستان کو توقع ہے کہ اسے 40 ارب ڈالرز تک کا قرضہ مل سکتا ہے۔ اس میں سے 20 ارب ڈالر عالمی بینک فراہم کرے گا جبکہ باقی 20 ارب ڈالرز کے لیے عالمی بینک کے دو ذیلی ادارے ملک کی مالی معاونت کریں گے۔ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، وزارت اقتصادی امور کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کو 10 سال کے دوران 20 ارب ڈالرز قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ قرض اس ماہ کی 14 تاریخ کو عالمی بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے منظور ہونے کی توقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قرض کی منظوری کے بعد عالمی بینک کے نائب صدر مارٹن ریسر کا اسلام آباد کا دورہ بھی متوقع ہے۔ قرض کے پروگرام کے تحت 10 سال کے ہدف کا تعین کیا جائے گا اور یہ قرض کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک 35-2025 کے تحت فراہم کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق، 10 سالہ قرض پروگرام کا مقصد ملک کے نظر انداز کردہ اہم شعبوں کو بہتر بنانا ہے، اور اس کے تحت دی جانے والی منصوبوں کی حفاظت سیاسی تبدیلیوں سے کی جائے گی۔ عالمی بینک کے دو ذیلی ادارے مزید 20 ارب ڈالرز کے نجی قرضوں کے حصول میں معاونت کریں گے، جس سے مجموعی طور پر 40 ارب ڈالرز کا پیکیج تشکیل پائے گا۔ حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ قرض ملک کی اقتصادی بحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
پی ٹی اے نے سب میرین کیبل میں خرابی کےبعد ملک میں انٹرنیٹ سروس کے حوالے سے اہم بیان جاری کردیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے حال ہی میں ملک بھر کے انٹرنیٹ صارفین کے لیے ایک اچھی خبر سنائی ہے، جس کے مطابق سب میرین کیبل اے اے ای ون میں ہونے والی خرابی کو دور کر دیا گیا ہے اور انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بحال ہو گئی ہے۔ پہلے پی ٹی اے نے اطلاع دی تھی کہ قطر کے قریب اس سب میرین کیبل میں خرابی کے باعث انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی آئی ہے، جس سے صارفین کو سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن خدمات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی اے نے واضح کیا کہ یہ کیبل پاکستان کو عالمی انٹرنیٹ ٹریفک سے جوڑتی ہے اور اس میں مسئلے کی وجہ سے پاکستانی براڈ بینڈ اور انٹرنیٹ صارفین متاثر ہوئے تھے۔ خرابی دور کرنے کے لیے پی ٹی اے کی تکنیکی ٹیمیں متحرک تھیں، اور عارضی بینڈوتھ شامل کر کے خدمات کی بحالی کے لیے کوششیں کی گئیں۔ پی ٹی اے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ سروسز کے حوالے سے کوئی ڈی گریڈیشن نہیں ہے۔ ترجمان پی ٹی اے کے مطابق، "ہم تمام سروسز کو فعال بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور اے اے ای ون سب میرین کیبل کی بحالی کے عمل کی نگرانی جاری ہے۔" یہ اعلان انٹرنیٹ صارفین کے لیے خوش آئند خبر ہے، جس کی بدولت وہ اپنی روزمرہ کی آن لائن سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھ سکیں گے۔ دو روز قبل پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پر اپنی وضاحت کی تھی اور اس مسئلے کی شدت کو واضح کیا تھا۔ اب، انٹرنیٹ کی مکمل بحالی کی تصدیق کے ساتھ، صارفین نے سکون کا سانس لیا ہے۔
لکی مروت: خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کے علاقے کرم پار میں دہشت گردوں نے کرک سے سفر کرنے والی ایک مسافر کوچ میں سوار دو فوجیوں کو اغوا کر لیا ہے۔ اسی دوران بنوں میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار بھی شہید ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق، ایک فوجی نے اپنے اغوا کاروں سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی، جبکہ دوسرے فوجی کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، دہشت گردوں نے دادی والا تھانے کی حدود میں واقع وانڈا گلپہ کے قریب ایک دیہی سڑک بند کر رکھی تھی اور وہاں گاڑیوں کی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ فوجی مسافر کوچ میں کرک سے میانوالی کی طرف جا رہے تھے، جب مسلح افراد نے ان کو گاڑی سے نکال کر اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اس صورتحال کے پیش نظر، ایک فوجی توانائی سے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسری جانب، بنوں میں مامش خیل کے علاقے میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار کانسٹیبل کامران خان کو نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ واقعے کے فوراً بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور حملہ آوروں کی تلاش میں تحقیقات شروع کر دیں۔تاہم، جمعہ کی شام تک اس واقعے سے متعلق کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی تھی۔ اس صورتحال نے سیکیورٹی حالات کے بارے میں تشویش کو بڑھا دیا ہے، جو کہ علاقے کے مکینوں اور حفاظتی اہلکاروں کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو فوراً موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کی تعدد کو کم کیا جا سکے۔
اسلام آباد: سستی بجلی کی دستیابی کے باوجود نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کی جانب سے مہنگی بجلی خریدنے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل، شاہد ریاض نے اس معاملے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ کینپ 2 اور 3 میں قابل قدر مقدار میں سستی بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ شاہد ریاض نے بتایا کہ گزشتہ سال، نیشنل گرڈ کو کینپ سے 22 ارب یونٹس بجلی فراہم کی گئی، جس سے تقریبا 2.5 ارب ڈالر کی بچت ہوئی۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کینپ دو اور تین ملک کے سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھروں میں شامل ہیں، جو کراچی کو 2200 میگاواٹ بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کینپ میں بجلی پیدا کرنے کا فیول کا خرچ صرف ڈیڑھ روپے ہے، جبکہ دیگر اخراجات شامل کر کے یہ قیمت 15 روپے فی یونٹ بنتی ہے۔ بدقسمتی سے، این پی سی سی نے سستی بجلی کے بجائے مہنگی بجلی خریدنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شاہد ریاض نے واضح کیا کہ ملک میں سب سے مہنگی بجلی تیل سے تیار کی جاتی ہے، جس کی لاگت 31.66 روپے فی کلو واٹ ہے، جبکہ آر ایل این جی سے تیار ہونے والی بجلی کی قیمت 24.15 روپے اور امپورٹڈ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 20.67 روپے فی یونٹ ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر، ماہرین کا کہنا ہے کہ این پی سی سی کو فوری طور پر کینپ کی سستی بجلی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے میں تبدیلی کرنی چاہیے، تاکہ عوام کو بجلی کی بلوں میں کمی کا فائدہ پہنچایا جا سکے۔
سپریم کورٹ کا آئینی بینچ 6 سے 10 جنوری میں کون کون سے اہم کیسز کی سماعت کرے گا؟ کاز لسٹ جاری کردی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 6 سے 10 جنوری 2025 کی کاز لسٹ جاری کر دی ہے، جس میں اہم مقدمات کی سماعت کی تاریخیں متعین کی گئی ہیں۔ یہ بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں کام کرے گا، جس میں 7 ممبران شامل ہیں: جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جس Justice مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، اور جسٹس شاہد بلال حسن۔ کاز لسٹ کے مطابق، 7 جنوری کو خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق مختلف درخواستوں کی سماعت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، 2005 میں متاثرین کی بحالی کے کیس پر بھی اسی دن سماعت رکھی گئی ہے، جس کے لیے ایرا سمیت تمام متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے 8 فروری 2025 کے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق درخواست کی سماعت 8 جنوری کو متوقع ہے۔ اسی دن شیر افضل مروت کی انتخابی دھاندلی سے متعلق درخواست بھی سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت بھی اسی دن 8 جنوری کو ہو گی۔ مزید برآں، ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ نظرثانی کیس پر سماعت 9 جنوری کو کی جائے گی۔ ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات کے خلاف درخواست اور طلبہ تنظیموں پر پابندی سے متعلق درخواست کی سماعت 10 جنوری کو ہوگی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی تھی، تاہم یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط کیا گیا تھا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں وزیر اعظم عمران خان کی موبائل مینوفیکچرنگ پالیسی کے ثمرات کا اعتراف پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے 2020 میں متعارف کرائی گئی موبائل مینوفیکچرنگ پالیسی کے مثبت نتائج کی تصدیق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار میں پیش کردہ اعداد و شمار سے ہوئی ہے۔ سینیٹر عون عباس بپی نے کمیٹی کے اجلاس میں اس ترقی کو نمایاں کیا۔ سینیٹر نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت 37 موبائل کمپنیاں فعال ہیں جو مقامی سطح پر موبائل فونز کی تیاری کر رہی ہیں۔ 2021 کے دورن تقریباً 24.66 ملین موبائل فونز تیار کیے گئے، اور ہر سال 20 ملین سے زائد موبائل مقامی طور پر بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں استعمال ہونے والے 93 فیصد موبائل فونز پاکستان ہی میں تیار ہوتے ہیں، جو کہ عمران خان کی صنعت دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس نئی ترقی نے پیکنگ انڈسٹری میں 2.6 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی، جس سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوئے ہیں۔ سینیٹر عون عباس بپی نے کہا کہ وزیر اعظم کی دوراندیش پالیسیوں کے باعث موبائل انڈسٹری میں 40 ہزار سے زائد نئی نوکریاں پیدا ہوئی ہیں، اور یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اس ایک پالیسی نے تقریباً 200 ملین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار وزیر اعظم کی کوششوں کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ پاکستان کی موبائل انڈسٹری کس طرح ترقی کر رہی ہے۔

Back
Top