کیا پنجاب میں ہر منٹ میں ایک بچے کا ریپ ہورہا ہے؟

rape1.jpg


لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے ملزم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے پنجاب میں بڑھتے ریپ کیسز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت اور اینٹی ریپ ایکٹ پر عمل درآمد کے معاملے کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا پنجاب میں ہر منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے؟

چیف جسٹس عالیہ نیلم کی صدارت میں تین رکنی بینچ نے جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ کے ساتھ سماعت کی۔ عدالت نے آئی جی پنجاب عثمان انور کو فوری طلب کیا۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اینٹی ریپ ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔ جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے اظہار کیا کہ ان کی رپورٹ کے مطابق ہر 15 منٹ میں ایک ریپ کا واقعہ پیش آ رہا ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے وضاحت کی کہ یہ تمام کیسز ریپ کے نہیں ہیں۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا 32 ہزار کیسز کے لیے متبادل ڈی این اے کٹس خریدی گئی ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عدالتی احکامات پر کئی خامیوں کو دور کیا گیا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو بلا کر معاملے کی تفصیلات جاننے کی ہدایت کی۔ بعد میں آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے اور کارروائیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے مزید بتایا کہ پنجاب بھر میں 150 یونٹ فعال ہیں اور خصوصی عدالتیں قوانین کے تحت کیسز کی سماعت کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریپ کیسز میں اضافے کی صورتحال فکر انگیز ہے اور فوراً کارروائی کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ 17 سکیل سے کم کے کسی پولیس افسر کو ان کیسز کی تفتیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آئی جی پنجاب نے آگاہ کیا کہ ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کر دیا گیا ہے جہاں متاثرہ خواتین ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے اپنی شکایت درج کرا سکتی ہیں۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے التوا کی درخواست پر جب عدالت نے پوچھا کہ دستخط اس کے ہیں یا نہیں، تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کے دستخط نہیں ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں تنبیہ کی کہ سسٹم کو خراب نہ کریں اور غیر مشروط معافی مانگنے کی سفارش کی۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں اس معاملے کو دیکھنے کا موقع دیا جائے، جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مکمل رپورٹ پیش کی جائے۔

چیف جسٹس نے حتمی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اور حکومت کو مل کر یہ مسائل حل کرنے چاہئیں اور اٹارنی جنرل پاکستان کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا۔

بعد ازاں، عدالت نے کارروائی 10 فروری تک ملتوی کر دی۔
 

Back
Top