صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنی تازہ گفتگو میں فوجی کمان کو ہدف بنایا ہے، اس سے پی ٹی آئی اور حکومت بمعہ اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری رسمی مذاکرات اور پس پردہ بات چیت دونوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے
انصار عباسی کے ذرائع کے مطابق، حالیہ دنوں میں آرمی چیف اور پی ٹی آئی کی قیادت کے درمیان ملاقات کے دوران عمران خان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ فوج اور اس کی قیادت پر حملے کرنے سے گریز کریں تاکہ بات چیت کامیاب ہو سکے۔ تاہم، عمران خان اپنی جارحانہ حکمت عملی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتے۔
جمعہ کو عمران خان نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ سے ایک سخت بیان جاری کیا جس میں انہوں نے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا، "1971 کی تاریخ پاکستان میں دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ یحییٰ خان نے ملک تباہ کیا، اور آج ایک آمر اپنی ذاتی مفادات کی حفاظت کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔"
انصار عباسی کا دعویی ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اس جارحانہ رویے سے مایوس ہیں۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "عمران خان کی مسلسل جارحانہ ٹویٹس آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔"
ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فوج مخالف بیانات سے گریز کریں، خاص طور پر اس وقت جب بیک چینل مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہو۔ لیکن اس کے باوجود، عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے سخت بیانات جاری کیے گئے، جس نے پارٹی کے لیے مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
پی ٹی آئی کی قیادت حالیہ بیک چینل ملاقاتوں سے مثبت نتائج کی توقع کر رہی تھی، لیکن عمران خان کی تازہ ترین ٹویٹ نے اس عمل کو دھچکا پہنچایا ہے۔ گنڈا پور اور گوہر نے حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی، جس کی عمران خان نے خود بھی تصدیق کی تھی اور اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔ تاہم، ان کے جارحانہ بیانات نے ان مذاکراتی کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پارٹی کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کنٹرول پاکستان منتقل کیا جائے تاکہ ان کا استعمال مزید تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے مثبت مقاصد کے لیے ہو۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے کنٹرول کرنے والے عناصر عمران خان کے بیانات کو مزید اشتعال انگیز بنا کر پیش کرتے ہیں، جس سے پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اگر عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ بیانات کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ نہ صرف جاری مذاکرات کو نقصان پہنچائے گا بلکہ پارٹی کو مزید مشکلات میں ڈال دے گا۔
اس پر فوادچوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ بات چیت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاھئے یہاں لوگوں کے گھر توڑے گئے ہیں، خواتین اور بچوں سے بیہودگی کی گئ ہے، لاکھوں چھاپے اور ہزاروں گرفتار ہوئے ہیں تشدد کا نشانہ بنے ہیں ۔
https://twitter.com/x/status/1880865904646406368
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ماحول میں اگر ایک ٹویٹ سے مزاج برھم ہوتا ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، مہربانی کریں ملک کو واپس پٹڑی پر ڈالیں اور عمران خان سے بات چیت ہی وہ راستہ ہے جس پر پاکستان سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے