سب سے بڑا چیلنج فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہے، جسٹس اطہر من اللہ

athar1.jpg


لاہور: سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آج کل عدالت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت اپنے فیصلوں کو نافذ نہیں کر سکتی تو اس کے وجود کی حیثیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

آج ایک تقریب میں جہاں جانوروں کے حقوق پر بات چیت کی گئی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت ہوئی ہے اور اسی عدالت نے جبری گمشدگی کے حوالے سے فیصلہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ بنیادی حقوق سے متعلق کئی اہم فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیا الحق نے سری لنکا سے درخواست کی تھی کہ ان کی بیٹی ایک ہاتھی کے بچے کو رکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاتھی بھی لوگوں کی طرح جذباتی ہوتے ہیں۔ یہ ہاتھی کا بچہ بعد میں پاکستان میں ایک باغ میں منتقل کردیا گیا, جہاں بعد میں اسلام آباد میں چڑیا گھر کی تعمیر کی گئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جب وہ جبری گمشدگی کے کیسز پر غور کر رہے تھے، تو انہیں اس درد کا احساس تھا کہ کسی عزیز کا لاپتا ہونا کیسا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طریقے سے عہدے سے ہٹا کر قتل کیا گیا جس میں سپریم کورٹ کا بھی استعمال ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ میں جنرل ضیا الحق کا دور ایک خوفناک دور تھا، جہاں لوگوں کو مہینوں عقوبت خانوں میں رکھا جاتا تھا۔

مزید برآں، جسٹس اطہر من اللہ نے ایک شدید نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان میں انسان محفوظ نہیں تو جانوروں کے حقوق کی بات کرنا بے معنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی کارکردگی پر بات کی جاتی ہے، لیکن قانون ایک ہی ہے، پھر بھی فیصلے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔

انہوں نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایسالگتا ہے کہ جو تعلیم اسکول میں حاصل کی گئی، وہ حقیقت سے دور تھی، مثلاً شیر کی زندگی سے متعلق جو معلومات فراہم کی گئیں وہ غیر حقیقی تھیں۔

آخر میں، انہوں نے بنی گالہ کی خوبصورتی کو نقصان پہنچانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹاؤن پلانر نے اسے جانوروں کے لیے بہترین جگہ قرار دیا تھا، مگر اشرافیہ نے وہاں رہائش گاہیں بنا کر قدرتی حسن کو ختم کر دیا۔
 

Back
Top