خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
وزارت داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ایک خط کے ذریعے ہدایت دی ہے کہ ملک میں غیر قانونی وی پی اینز (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس) کو فوری طور پر بند کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق، وی پی اینز کا غیر مجاز استعمال نہ صرف سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے بلکہ اسے مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد وی پی اینز کے ذریعے اپنی شناخت چھپاتے ہیں، غیر قانونی بینکنگ ٹرانزیکشنز کرتے ہیں، اور دہشت گردی سے جڑے منصوبوں میں مدد لیتے ہیں۔ مزید برآں، وزارت داخلہ نے نشاندہی کی کہ وی پی اینز کو فحش اور توہین آمیز مواد تک رسائی کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جو سماجی اقدار اور قوانین کے خلاف ہے۔ خط میں پی ٹی اے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی وی پی اینز کو بلاک کرنے کے لیے فوری اور مؤثر حکمت عملی اپنائے تاکہ ملک میں انٹرنیٹ کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان میں محکمہ پاسپورٹ کی فیس میں اضافہ، 50 ارب روپے سے زائد کا ریونیو جمع پاکستان میں محکمہ پاسپورٹ نے حالیہ دنوں میں پاسپورٹ فیس میں اضافہ کیا ہے، جس کے بعد اس محکمے کو ایک "پیسہ چھاپنے والی مشین" کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ نئی فیس پالیسی کے تحت، محکمہ پاسپورٹ نے 50 ارب روپے سے زائد کا ریونیو اکٹھا کیا ہے، جو کہ ایک بڑا مالی اضافہ سمجھا جا رہا ہے۔ محکمہ پاسپورٹ نے اپنے مختلف خدمات کے لیے فیسوں میں اضافہ کیا ہے، جس کا مقصد سرکاری خزانے میں اضافی آمدنی فراہم کرنا ہے۔ اس فیصلے کے بعد، عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، کیونکہ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ فیسیں غیر معقول اور بوجھل ہیں۔ محکمہ پاسپورٹ کی جانب سے اکھٹا ہونے والا یہ ریونیو بنیادی طور پر نئے پاسپورٹ کی فیس، تجدید، اور دیگر متعلقہ خدمات سے آیا ہے۔ یہ ریونیو حکومت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ ان اضافی فیسوں سے سفر کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ حکومت نے اس اضافے کو اہمیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قدم ملک کے اقتصادی حالات کے پیش نظر ضروری تھا، لیکن عوامی ردعمل نے اس پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ محکمہ پاسپورٹ کی فیس میں اضافے سے نہ صرف غریب بلکہ متوسط طبقہ بھی متاثر ہوگا۔ مجموعی طور پر یہ معاملہ سرکاری پالیسی اور عوامی سہولت کے درمیان ایک توازن تلاش کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
لندن میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر حکومت پاکستان نے سخت نوٹس لیا ہے۔ پاکستانی حکام نے لندن میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کو برٹش ٹرانسپورٹ پولیس سے رابطہ کر کے معاملے کی تفصیلات جاننے اور تحقیقات کروانے کی ہدایت دی ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ واقعہ منگل کے روز ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب پیش آیا، جہاں ایک نامعلوم شخص نے وزیر دفاع کو نہ صرف گالیاں دیں بلکہ چاقو حملے کی دھمکی بھی دی۔ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پاکستانی حکام نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے اور ہائی کمیشن کو ضروری اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔ واضح رہے کہ خواجہ آصف ان دنوں لندن میں موجود ہیں جہاں ان کی سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
فیصل آباد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے گودام سے سگریٹ کے سیکڑوں کاٹن چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف بی آر حکام کے مطابق، گودام میں غیر ادا شدہ ایکسائز ڈیوٹی اور اسمگل شدہ سگریٹ کا اسٹاک محفوظ کیا گیا تھا، جس کے اچانک غائب ہونے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے اس معاملے کی مکمل جانچ کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو چوری کے اصل محرکات اور ملوث افراد کا پتہ لگانے کی کوشش کرے گی۔ ذرائع کے مطابق، گودام کی نگرانی پر مامور دو اہلکاروں کو چوری میں ملوث ہونے کے شبے میں حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوگا کہ آیا اس چوری میں کوئی اور عوامل بھی شامل ہیں یا یہ صرف داخلی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ایف بی آر کے گودام سے سگریٹ کی یہ چوری ایک سنگین معاملہ تصور کیا جا رہا ہے، جس پر جلد از جلد کارروائی کی توقع ہے۔
اسلام آباد: پاکستان میں چینی منصوبوں پر کام کرنے والے شہریوں کی حفاظت کے لیے بیجنگ نے اپنی سیکیورٹی فورسز تعینات کرنے پر زور دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، کراچی میں حالیہ بم دھماکے کے بعد چین نے پاکستان سے اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد بیجنگ کی ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔ پانچ پاکستانی سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان میں موجود چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے چینی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی اجازت دی جائے، مگر پاکستان نے اس مطالبے پر اتفاق نہیں کیا۔ یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب کراچی میں ایک کار بم دھماکے میں دو چینی انجینیئرز ہلاک ہوگئے، جو تھائی لینڈ میں چھٹی گزار کر سی پیک منصوبے پر واپس آرہے تھے۔ ذرائع کے مطابق چین نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ سیکیورٹی نظام کے قیام کے لیے باقاعدہ مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ اس حوالے سے ایک تحریری تجاویز اسلام آباد کو بھیجی گئی ہے، جس میں یہ شرط شامل ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین پر مشترکہ کاروائیاں بھی کرسکیں گے۔ تاہم پاکستانی حکام نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے چین سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ براہ راست شمولیت کی بجائے انٹیلیجنس اور نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے۔ دونوں ممالک نے متفقہ طور پر ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے، لیکن پاکستان نے چینی سیکیورٹی اہلکاروں کی زمینی سیکیورٹی میں شمولیت پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات سے لاعلمی کا اظہار کیا، مگر کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ تعاون مضبوط کرنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھے گا۔ ادھر پاکستانی وزارت داخلہ نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔ کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک حملے میں سیکیورٹی کے سنگین نقائص سامنے آئے ہیں، جس میں دھماکے کے لیے 100 کلوگرام بارود سے بھری گاڑی کو تقریباً 40 منٹ تک بغیر کسی چیکنگ کے باہر ہی کھڑا رہنے دیا گیا۔ بعد میں یہ گاڑی چینی انجینیئرز کے قافلے سے ٹکرا دی گئی۔ اس حملے کو چینی وزیراعظم لی کیانگ کے پاکستان دورے سے صرف ایک ہفتہ قبل پیش آنے والے ایک سنگین سیکیورٹی نقض کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ممکنہ طور پر اندرونی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ حملہ آوروں کو انجینیئرز کے روٹ اور سفر کے بارے میں معلومات حاصل تھیں، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حملہ اندرونی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ چین نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے پاکستان کی کوششوں کی عوامی طور پر حمایت کی ہے، لیکن اندرونی سطح پر مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے۔ حالیہ اجلاسوں میں چین نے پاکستان کے سامنے اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ حالیہ چند مہینوں میں پاکستان نے کئی مرتبہ متفقہ سیکیورٹی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کی۔ پاکستانی حکام نے تسلیم کیا کہ چین کی طرف سے مسلسل دباؤ موجود ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندے اکثر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کا نشانہ بنتے ہیں، جو بیجنگ کو پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچستان کے وسائل کے استحصال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات میں ایک نئی حفاظتی حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، جس سے دونوں ممالک کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور دہشت گردانہ حملوں کو مؤثر طور پر روکا جا سکے۔
پنجاب حکومت نے اسموگ کی شدت میں اضافے کو روکنے کیلئے نئی حکمت عملی تیار کرنی شروع کردی ہے، اس حکمت عملی میں دیگر تجاویز کے ساتھ ساتھ نومبر سے جنوری تک شادیوں پر بھی پابندی عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب کو اسموگ کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک جامع اور مستقل 10 سالہ پالیسی تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اسموگ کو طویل مدتی بنیادوں پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کو مزید موثر اور مربوط بنانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت پنجاب نے اسموگ کی شدت میں اضافے کو روکنے کے لیے نومبر، دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں شادیوں کی تقریبات پر پابندی کی پالیسی تیار کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں اسموگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ حکومت پنجاب نے اس مسئلے پر پہلے کی نسبت بہتر اقدامات کیے ہیں، لیکن اسموگ کے مسئلے کا حل ایک مستقل پالیسی کی صورت میں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس سال ستمبر میں اسموگ نظر آنا شروع ہوئی ہے تو اگلے سال یہ اگست میں بھی پہنچ سکتی ہے، جس پر وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے میں شامل ہونا پڑے گا۔ جسٹس شاہد کریم نے لاہور میں جاری بڑے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں بھی خبردار کیا اور کہا کہ اسموگ کے موسم میں کسی قسم کی تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ حکومت کی اسپیڈو بسوں سے کتنا دھواں خارج ہو رہا ہے اور کیا اس پر کوئی کنٹرول کیا جا رہا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ جو گاڑیاں دھواں چھوڑیں گی، ان کو سڑک پر نہیں آنے دیا جائے گا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس وقت جو اسموگ لاہور میں موجود ہے، وہ جنوری تک برقرار رہ سکتی ہے اور حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ عدالت نے اس حوالے سے حکومت کے سامنے تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 نومبر تک ملتوی کر دی۔ اس دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ایک نئی پالیسی تیار کی ہے جس کے تحت اگلے سال نومبر، دسمبر اور جنوری میں شادی ہالز کو بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ فضائی آلودگی اور اسموگ کی شدت میں کمی لائی جا سکے۔ جسٹس شاہد کریم نے اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی کر سکتی ہے، جیسے کہ صرف ایک شادی کی تقریب منعقد کرنے کی پالیسی پر غور کیا جائے تاکہ معاشرتی تقسیم میں بھی کمی آئے۔ اسی دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موٹر وے پولیس نے اس مہینے میں اسموگ کے باعث 18 ہزار سے زائد چالان کیے اور 45 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے ہیں۔ تاجر برادری کے وکیل نے مال روڈ پر دکانوں کو رات دیر تک کھلا رکھنے کی اجازت دینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے کہا کہ اس وقت ایمرجنسی کی صورت حال ہے اور پوری دنیا میں دکانیں شام 5 بجے بند ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب لاہور سمیت پنجاب بھر میں اسموگ کی شدت برقرار ہے، اور لاہور کے ایئرکوالٹی انڈیکس نے 700 پوائنٹس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے دنیا کے سب سے آلودہ شہروں میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اسموگ کی وجہ سے موٹر وے کے مختلف سیکشنز کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور اسکولوں میں تدریسی عمل 12ویں جماعت تک آن لائن منتقل کر دیا گیا ہے۔ محکمہ ماحولیات نے تمام سرکاری محکموں کو اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے، جن میں کار پولنگ اور ورک فرام ہوم کے طریقہ کار کو اپنانا شامل ہے۔ اسموگ کی اس سنگین صورتحال میں حکومت اور عدالت دونوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ فوری اور طویل مدتی بنیادوں پر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
پنجاب پولیس کا نیا اسکینڈل: 171 کانسٹیبلز کی بھرتیوں کے ریکارڈ میں غفلت، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے پردہ فاش کر دیا لاہور: پنجاب پولیس کی ایک اور مبینہ بدعنوانی کا راز آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 2023-24 میں بے نقاب ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 171 کانسٹیبلز کی بھرتیوں کے ریکارڈ کو چھپایا گیا، جس سے بھرتی کے عمل میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی روشنی میں یہ معاملہ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او ننکانہ صاحب نے 171 کانسٹیبلز اور لیڈی کانسٹیبلز کی بھرتیوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ یہ بھرتیاں بی پی ایس 07 کے اسکیل پر کی گئی تھیں، لیکن ان کا ریکارڈ دفتر میں نہ تو موجود ہے اور نہ ہی آڈیٹر کے حوالے کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس غفلت کی وجہ سے بھرتیوں کے عمل میں سنگین بے قاعدگیاں اور شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے نشاندہی کی ہے کہ کمزور انتظامی نگرانی اور داخلی کنٹرول کی کمی کی وجہ سے یہ خرابی سامنے آئی ہے، جو پولیس کے بھرتی کے عمل پر سوالات اٹھاتی ہے۔ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پنجاب حکومت اور پولیس انتظامیہ پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں۔ یہ رپورٹ نہ صرف پولیس کے اندرونی انتظامی مسائل کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کے ذریعے پنجاب حکومت کے اس اہم شعبے میں شفافیت کی ضرورت کو بھی واضح کرتی ہے۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد، اپوزیشن نے پنجاب حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس اسکینڈل کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کی جائیں تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
سندھ کے علاقے تھرپارکر کے گاؤں پبھوہار میں ایک درخت سے دو بہنوں کی لٹکی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ تھرپارکر کے علاقے پبھوہار میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں درخت سے دو بہنوں کی لٹکی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق ان کی شناخت 14 سالہ وینتی اور 16 سالہ ہیماوتی کے نام سے ہوئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی تھیں اور واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس حوالے سے مزید معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں تاکہ واقعہ کی اصل وجوہات کا پتہ چل سکے۔ پولیس نے کیس کی مزید تفتیش شروع کر دی ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کے پاس اس واقعہ سے متعلق معلومات ہوں تو وہ پولیس سے رابطہ کریں۔
سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے سپریم کورٹ میں آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے مقدمات کا تعین، بینچ فکسنگ کمیٹی اور ہائیکورٹ کے کیسز سمیت دیگر اہم اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ آئینی مقدمات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں آرٹیکل 191 (اے) کے تحت مقدمات کی کلرکوڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق، اجلاس جسٹس امین الدین خان کے چیمبر میں منعقد ہوا جس میں رجسٹرار سپریم کورٹ سلیم خان سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں آئینی مقدمات بشمول بنیادی حقوق کے مقدمات کے لیے موجودہ طریقہ کار اور آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اجلاس میں سینئر ریسرچ افسر مظہر علی خان کو آرٹیکل 199 کے تحت مقدمات کی جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، آئینی مقدمات کی سماعت اور بینچز کی تشکیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں جسٹس امین الدین خان اور دو سینئر ججز شامل ہوں گے۔ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ آئینی بینچز کمیٹی کا ایک رکن بیرون ملک ہونے کے باعث فی الحال دستیاب نہیں، اس لیے آئندہ اجلاس کمیٹی کے ارکان کی مکمل دستیابی پر بلایا جائے گا۔ واضح رہے کہ 5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں آئینی بینچز کے لیے ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان کی تقرری کے حق میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا بھی مشورہ دیا تھا۔ اجلاس کے دوران 7 رکنی آئینی بینچ کی تشکیل کے حق میں ووٹنگ ہوئی، جس میں اکثریت نے بینچ کے قیام کی حمایت کی۔
پاکستان میں ٹوئٹر پر 216 دنوں سے جاری پابندی پر سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بیٹے عواب علوی نے شدید ردعمل دیا ہے۔ عواب علوی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ٹوئٹر پر پابندی نہ صرف معلومات کے اہم ذرائع کو محدود کر رہی ہے بلکہ اس کا مقصد عوامی آوازوں کو خاموش کرنا ہے۔ عواب علوی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستانی حکومت نے یہ پابندی لگا کر عالمی سطح پر خبروں کے ایک اہم ذریعے سے خود کو الگ کر لیا ہے، جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی میڈیا بھی بریکنگ نیوز کے لیے ٹوئٹر پر انحصار کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس پابندی سے ملک کی معاشی صورتحال پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو ٹوئٹر پر پابندی سے 911 ملین ڈالر (تقریباً 262 ارب روپے) کا نقصان ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی پالیسیاں، جو ترقی کی بجائے زوال کی طرف لے جا رہی ہیں، پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ عواب علوی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ روایتی میڈیا اپنی اثرپذیری کھو رہا ہے جبکہ سوشل میڈیا جدید معلومات اور خبروں کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے۔ عواب علوی نے ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیسے انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں ٹوئٹر کو استعمال کیا جبکہ روایتی میڈیا پرانے خیالات میں الجھا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی حکومت جدید مواصلات کے طریقوں کو اپنانے کے بجائے روایتی میڈیا پر انحصار کرتی رہی، تو میڈیا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اسلام آباد: اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں موجود پرانی سرکاری رہائش گاہوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے، جس سے قومی خزانے میں اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹرز F-6، G-6 اور G-7 میں ایک منزلہ سرکاری رہائش گاہیں واقع ہیں۔ ان میں سے F-6 میں اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے کشادہ مکانات موجود ہیں جن میں خدام کے کوارٹرز بھی شامل ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق اگر ان ایک منزلہ رہائش گاہوں کو مسمار کر کے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں تو زمین کا وسیع حصہ بچایا جا سکتا ہے، جس سے اسلام آباد کی زمینوں کا موثر استعمال ممکن ہوگا۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صرف G-6/1 کے ایک ذیلی سیکٹر میں 86 ایکڑ زمین پر سرکاری رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ ان عمارتوں کو عمودی تعمیرات کے ذریعے نو ایکڑ میں سمیٹا جا سکتا ہے، جس سے 77 ایکڑ قیمتی زمین آزاد ہو گی جس کی مالیت 52 ارب روپے سے زائد ہے۔ یہ معاملہ پچھلے دو دہائیوں سے زیر بحث رہا، تاہم اس پر ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ گزشتہ ہفتے SIFC نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) سے اس معاملے پر رائے طلب کی، خصوصاً G-6/1 کے حوالے سے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے ایک تحقیقی مضمون "ڈیڈ کیپیٹل" نے SIFC کی توجہ حاصل کی۔ لہذا، CDA سے اس معاملے پر تفصیلی رائے مانگی گئی ہے۔ PIDE کی تحقیق کے مطابق اسلام آباد میں 86 ایکڑ زمین پر واقع سرکاری رہائش گاہوں کو چھ بلند و بالا عمارتوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے 77 ایکڑ زمین آزاد ہوگی، اور 55.2 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں 0.09 فیصد اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ SIFC کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ "ریاستی زمین کا موثر انتظام شہری ضروریات کو پورا کرنے اور شہر کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ غیر استعمال شدہ زمین مالی بوجھ بن جاتی ہے اور معاشی امکانات کو محدود کرتی ہے۔ پاکستان میں شہری مراکز کے قریب بڑی مقدار میں زمین ہے جو غیر موثر طور پر استعمال ہو رہی ہے۔" ذرائع کے مطابق، SIFC کا منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور CDA کی جانب سے رائے موصول ہونے کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔
اسلام آباد: پاکستان نے چین سے 3.4 ارب ڈالر کے قرضے کی واپسی میں دو سال کی توسیع کی درخواست کی ہے۔ یہ قرضہ آئی ایم ایف پروگرام کے دوران میچور ہو رہا ہے اور اس کی ری شیڈولنگ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے قبل پاکستان چین سے 16 ارب ڈالر کے انرجی قرضے کی ری شیڈولنگ کی درخواست بھی کر چکا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق سامنے آئی ہے، جنہوں نے بتایا کہ اس قرضے کی ری شیڈولنگ کا مقصد پانچ ارب ڈالر کے بیرونی فنانسنگ خسارے کو پورا کرنا ہے، جس کا ذکر آئی ایم ایف نے ستمبر 2024 میں اپنے پیکیج پر دستخط کے دوران کیا تھا۔ اس قرضے کی ری شیڈولنگ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت قرض کی پائیداری کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان نے چین کے ایکزیم بینک سے لیے گئے قرضے کی واپسی میں توسیع کی درخواست کی ہے، جو کہ سرکاری ضمانت پر لیا گیا تھا اور اس میں زیادہ تر رقم ریاستی ملکیتی اداروں نے حاصل کی تھی۔ پاکستان نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں یہ دوسری بار چین سے اس قرضے کی مدت بڑھانے کی درخواست کی ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی نے اس سوال پر کوئی ردعمل نہیں دیا کہ آیا چین اس ری شیڈولنگ پر راضی ہو چکا ہے یا نہیں، تاہم ذرائع کے مطابق چین ہمیشہ خاموشی سے پاکستان کی مدد کرنے والا رہا ہے، اور اس بار بھی چین سے معاونت کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق، ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ چینی ایکزیم بینک کے قرضے کی میچورٹی 2024 کے اکتوبر سے 2027 کے ستمبر تک ہے۔ اس قرضے میں 75 کروڑ ڈالر کا حصہ رواں مالی سال میں میچور ہو رہا ہے، جس کی ری شیڈولنگ پاکستان اور آئی ایم ایف کے لیے انتہائی اہم ہے تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ سات ارب ڈالر کا پروگرام مکمل طور پر فنڈڈ ہے اور پاکستان کا قرضہ پائیدار رہنے کے قابل ہے۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کی ٹیم سوموار کو اسلام آباد پہنچے گی اور پانچ روزہ قیام کے دوران پروگرام کی اب تک کی کارکردگی اور پیشرفت کا جائزہ لے گی۔ آئی ایم ایف بورڈ کے شیڈول کے مطابق سات ارب ڈالر کے پروگرام کا پہلا جائزہ مارچ 2025 میں ہونا تھا، لیکن آئی ایم ایف ٹیم کا قبل از وقت دورہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سات ارب ڈالر کے پروگرام پر فریقین کی بات چیت میں کچھ خامیاں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے چین سے قرض کی ری شیڈولنگ کی یہ درخواست، آئی ایم ایف کے پروگرام کی کامیابی کے لیے اہمیت رکھتی ہے، اور اس سے پاکستان کی معاشی پوزیشن کی پائیداری کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے پی ٹی آئی کے گزشتہ ماہ کے احتجاج کے دوران 120 افغان باشندوں کو گرفتار کیے جانے سے متعلق دعوے پر اہم سوالات اٹھ گئے ہیں، اس دعوے کے حوالے سے نا صرف اسلام آباد پولیس بلکہ محسن نقوی کی اپنی وزارت داخلہ بھی کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کرسکی۔ اسلام آباد: وزیر داخلہ محسن نقوی کے دعوے پر سوالات اٹھ گئے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو روزہ احتجاج کے دوران گزشتہ ماہ 120 افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے افسران ابھی تک اس دعوے کی تصدیق کے لیے کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کر سکے۔ پانچ اکتوبر کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل علی ناصر رضوی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ 4 اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران 120 افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کل رات جو جھڑپیں ہوئی ہیں، ان میں 120 افغان شہری گرفتار ہوئے ہیں، جو کہ ایک الارمنگ چیز ہے۔ محسن نقوی نے اسی دعوے کو اگلے دن ایک اور میڈیا بریفنگ میں دہرایا، لیکن ان دعووں کی تصدیق کے لیے وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔ جیو فیکٹ چیک نے 7 اکتوبر سے 4 نومبر تک وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سینیئر حکام سے وزیر داخلہ کے دعوے کی تصدیق کے لیے متعدد بار رابطہ کیا، لیکن کسی بھی درخواست پر کوئی جواب نہیں ملا۔ 7 اکتوبر کو جیو فیکٹ چیک نے وزارتِ داخلہ کے ڈائریکٹر جنرل میڈیا قادریار ٹوانہ سے رابطہ کیا، تاہم انہوں نے اس معاملے کے حوالے سے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔ اسی دن اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے کہا کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا جائے۔ تاہم، جب جیو فیکٹ چیک نے بار بار اس معاملے پر درخواست کی، تو تقی جواد نے صرف یہ کہا کہ گرفتار افغان شہریوں کا ڈیٹا عدالت میں پیش کرنے کے بعد شیئر کیا جائے گا، اور ان کا دعویٰ تھا کہ "سرکاری ادارہ کوئی بیان دیتا ہے تو وہ کسی بنیاد پر ہی دیتا ہے، ہم کوئی سیاسی لوگ نہیں ہیں کہ بے بنیاد بیان دے دیں۔" متعدد بار جیو فیکٹ چیک کی جانب سے کی جانے والی متعدد درخواستوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔ 31 اکتوبر کو دوبارہ رابطہ کرنے پر تقی جواد نے کہا کہ "ڈیٹا صرف وزارتِ داخلہ جاری کر سکتی ہے" اور وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے کی تجویز دی۔ جب جیو فیکٹ چیک نے وزارتِ داخلہ کے قادر یار ٹوانہ سے دوبارہ رابطہ کیا، تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی اس معاملے پر کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ اسلام آباد پولیس کے سینیئر حکام، محمد ارسلان شہزاد (سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، آپریشنز) اور علی رضا (ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس، آپریشنز) کی جانب سے بھی جیو فیکٹ چیک کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔ وزیر داخلہ کے دعوے کے باوجود، نہ تو وزارت داخلہ اور نہ ہی اسلام آباد پولیس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزی شواہد فراہم کر سکی ہیں۔ اس کے علاوہ، جیو فیکٹ چیک کی جانب سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود حکام نے اس معاملے میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کی ہے۔ اب تک اس معاملے کی تحقیقات اور شواہد کی فراہمی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
جیکسن ٹریفک پولیس افسر کے دفتر میں بچوں سے زیادتی کرنے والا شخص ٹریفک پولیس کا ہی ایک اہلکار نکلا کراچی: کیماڑی پولیس افسر کے دفتر میں بچوں سے زیادتی کرنے کا ایک المناک معاملہ سامنے آیا ہے۔ ملزم ارسلان، جو ٹریفک پولیس کا اہلکار ہے، نے جیکسن ٹریفک پولیس افسر کے دفتر میں دو بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ بچے سلطان آباد کے رہائشی ہیں۔ اہلکار ارسلان نے بچوں کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ واقعے کا مقدمہ جیکسن تھانے میں درج ہے۔ ملزم ارسلان عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد فرار ہوگیا تھا۔ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ ملزم ارسلان انہیں اب بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے اور علاقے میں کھلے عام گھوم رہا ہے۔ پولیس کی کارروائی زیر سوال پولیس نے ایف آئی آر میں اہلکار ارسلان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس معاملے نے پولیس کی کارروائی کو زیر سوال کیا ہے۔ حکومت سے مطالبہ متاثرہ خاندان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کو فوری گرفتار کیا جائے اور انہیں انصاف دلایا جائے۔
خیبرپختونخوا: محکمہ ایکسائز کے سابق افسران کے قبضے میں 70 سے زائد قیمتی سرکاری گاڑیاں موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے پشاور: خیبرپختونخوا میں محکمہ ایکسائز کے سابق افسران کے قبضے میں 70 سے زائد قیمتی سرکاری گاڑیاں ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے بعد محکمہ نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ محکمہ ایکسائز کے ذرائع نے آج نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات میں بتایا ہے کہ سابق افسران نے ان گاڑیوں کو غیرقانونی طور پر اپنے ساتھ لے لیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق، سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) عاطف الرحمٰن کے پاس تین، سابق سیکرٹری ایکسائز اسلام زیب کے پاس چار، سابق ڈی جی ثاقب رضا کے پاس تین، عادل شاہ کے پاس تین اور سابق سیکرٹری اقبال حیدر کے پاس چار گاڑیاں موجود ہیں۔ اسی طرح، سابق ڈی جی ایکسائز ظفر اسلام نے بھی تین گاڑیاں اپنے ساتھ لے رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ، سابق افسران شاہ فہد، رفیق مہمند، محمد طاہر، عبدوالی منصور، ارشد مشرف مروت، یوسف کریم، سید مظہرعلی شاہ، عطاءالرحمٰن، ظاہر شاہ، محمد اکبر، نسیم خان، خالد مطیع اللہ، شاہ نواز، انعام گنڈاپور اور فضل الہیٰ نے بھی ایک ایک گاڑی اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ محکمہ ایکسائز نے ان گاڑیوں کی واپسی کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں افسران کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گاڑیاں واپس نہ کرنے کی صورت میں ریکوری کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ محکمہ ایکسائز کے حکام نے واضح کیا ہے کہ اس عمل میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور وزیراعلیٰ کے احکامات پر ہر صورت میں سرکاری گاڑیوں کی واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ ایکسائز ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کچھ گاڑیاں چھاپے کے دوران پکڑی گئیں، تاہم اعلیٰ افسران کی مداخلت پر ان گاڑیوں کو واپس کر دیا گیا۔ اس وقت دو سرکاری گاڑیاں خصوصی اسکواڈ کی جانب سے پکڑ کر ویئر ہاؤس میں پارک کی گئی ہیں، جبکہ دیگر گاڑیوں کی ریکوری کا عمل جاری ہے۔
وفاقی حکومت کا ہائی کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ الاؤنس میں اضافہ اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ الاؤنس میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، جس کا نوٹیفکیشن وزارت قانون و انصاف نے جاری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی کے دستخط سے کیا گیا ہے، جس کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کے ہاؤس رینٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، ہائی کورٹ کے ججز کا ہاؤس رینٹ 65 ہزار روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے، جبکہ ججوں کا اعلیٰ عدالتی الاؤنس بھی 342,431 روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ 90 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ ساتھ، ہائی کورٹس سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ججز کے لیے "گاڑیوں کے حوالے سے ایک جامع پالیسی" تیار کریں جس میں ایندھن، دیکھ بھال، ڈرائیور کی خدمات اور بین بینچ سفر شامل ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ اضافے کے بعد ہائی کورٹ کے جج کی مجموعی تنخواہ 20 لاکھ روپے سے تجاوز کر جائے گی، جو کہ ایک اہم مالی اضافہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون سے درخواست کی تھی کہ ججز کے ہاؤس رینٹ میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر اسلام آباد میں مکانات کے کرایوں میں اضافے کے بعد یہ اقدام ضروری ہو گیا تھا۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے عارضی آسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں عارضی نوعیت کی تمام آسامیوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق، کابینہ ڈویژن کی جانب سے 3 ستمبر کو جاری کیے گئے سرکلر میں تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ عارضی آسامیوں کو بند کیا جائے۔ یاد رہے کہ 27 اگست 2024 کو کابینہ نے عارضی آسامیوں کو ختم کرنے سے متعلق اہم فیصلہ کیا تھا، جس پر اب عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے فنانس ڈویژن نے ایک آفیشل میمورنڈم جاری کیا ہے۔ اس میمورنڈم میں تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام اداروں میں کابینہ کے فیصلے پر مکمل عمل کریں۔ پاکستان میں مختلف سرکاری محکموں میں چوکیدار، مالی، سکیورٹی گارڈز اور نائب قاصد جیسی عارضی آسامیوں پر بھرتی کی جاتی ہے، جنہیں اب ختم کرنے کی پالیسی متعارف کرائی گئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس فیصلے کا مقصد سرکاری محکموں میں اضافی اخراجات کو کم کرنا اور وسائل کی مؤثر تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔
ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ مزید بڑھادیاہے۔ اسلام آباد: اکتوبر 2024 کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جہاں عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھنے کی واضح علامات سامنے آئی ہیں۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ میں یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اکتوبر 2024 میں ملک بھر میں مجموعی طور پر 48 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں سب سے زیادہ حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ریکارڈ کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں 35 اور بلوچستان میں 9 حملے ہوئے، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عسکریت پسند ان دونوں صوبوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ حملے جغرافیائی اور سماجی و سیاسی عوامل کی وجہ سے ان علاقوں میں آسانی سے کیے جا رہے ہیں، جہاں دہشت گردوں کو عوامی حمایت یا جنگی میدان میں سہولت مل سکتی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کے کچھ اہم لیکن محدود واقعات ہوئے، جن میں دونوں صوبوں میں 2،2 حملے شامل ہیں، جو عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنے مضبوط گڑھوں سے باہر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے کراچی میں چینی شہریوں پر کیے جانے والے خودکش حملے نے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی کو اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد بلوچستان کے پختون بیلٹ اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی اس لہر کے باوجود، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں 15 مختلف اضلاع میں 84 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات اور حکمت عملی فعال ہیں۔ اکتوبر 2024 میں مجموعی طور پر 100 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 52 سیکیورٹی اہلکار، 36 عام شہری اور 12 عسکریت پسند شامل ہیں۔ ستمبر میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 54 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے 35 حملوں میں بنوں، کرم، ڈیرہ اسمٰعیل خان، شمالی وزیرستان اور اورکزئی جیسے علاقوں میں متعدد بڑے حملے شامل ہیں، جن میں 64 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 49 سیکیورٹی اہلکار تھے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے 9 واقعات کے دوران 30 افراد کی ہلاکت ہوئی، جن میں 21 کان کن شامل تھے، جو ڈوکی میں ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور دیگر بلوچ باغی گروہ صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں تیزی کے باوجود، سیکیورٹی فورسز نے مؤثر کارروائیاں کیں اور دہشت گردوں کی زیادہ تر کارروائیوں کو ناکام بنایا۔ ان حملوں کے باوجود، سیکیورٹی ادارے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات جاری رہیں تاکہ عوام کو مزید نقصان نہ پہنچ سکے۔
سینیٹ کمیٹی کا او لیول کی اردو کتاب میں پختونوں کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے او لیول کی اردو کتاب میں پختونوں کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پر شدید تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیل سے گفتگو کی گئی، جس میں سینیٹر بلال احمد خان نے کتاب کی دستیابی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کتاب پر پابندی لگانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے، اور مصنف نے تحریری معافی بھی جمع کرا دی ہے۔ سینیٹر بلال احمد خان کے اعتراضات پر چیئرپرسن نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی حکومت کو تعلیمی مواد کی نگرانی میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس قسم کے مواد کی اشاعت روکی جا سکے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے اجلاس میں کہا کہ اس طرح کے مواد سے نفرت انگیز تقاریر کی ترویج ہوتی ہے اور بچوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے سفارش کی کہ وزارت تعلیم تمام صوبوں کو اس کتاب کو واپس لینے کی ہدایت دے تاکہ آئندہ کسی بھی مصنف یا پبلشر کو منفی اور غیر مناسب مواد کی اشاعت کا خیال نہ آئے۔ کمیٹی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مصنف کو اس معاملے کی وضاحت پیش کرنی چاہیے اور انہیں اگلے اجلاس میں جوابدہ ہونا چاہیے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے مزید کہا کہ اس اقدام سے دیگر مصنفین اور پبلشرز کے لیے ایک واضح پیغام جائے گا کہ اس طرح کے مواد کی اشاعت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ سینیٹر بلال احمد خان نے 18 اکتوبر کو سینیٹ کے اجلاس میں اٹھایا تھا، جس کے بعد کمیٹی نے اس پر غور کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسلام آباد – وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس میں اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب اور قطر کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان سے آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے لاکھوں افراد کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب میں آئی ٹی سیکٹر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سے افرادی قوت کی فراہمی پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے علاوہ، سعودی سرمایہ کاری ٹیم نے پاکستان میں سولر، معدنیات، زراعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی ایک پاکستانی وفد سعودی عرب روانہ ہوگا تاکہ مزید پیشرفت کی جا سکے۔ شہباز شریف نے اپنے دورہ قطر کے بارے میں بتایا کہ یہ بھی انتہائی کامیاب رہا۔ امیر قطر کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ قطر میں آئی ٹی پارک کے قیام کی تجویز پر بات چیت ہوئی ہے، جس سے پاکستان کے آئی ٹی ماہرین کو مزید مواقع فراہم ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ مائننگ اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے منصوبے طے کیے جا سکیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ دونوں دورے پاکستان کے لیے معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع کے دروازے کھولیں گے، خاص طور پر آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستانی ماہرین کو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا۔

Back
Top