خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے سلسلے میں مختلف شہروں سے قافلے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں، جن کی قیادت خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں۔ صوابی انٹرچینج عبور کرنے کے بعد علی امین گنڈاپور کے ساتھ بشریٰ بی بی بھی قافلے میں موجود ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ترجمان کے مطابق قافلے 26 نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔ پی ٹی آئی ترجمان نے بتایا کہ اسلام آباد کی جانب قافلوں کی پیش قدمی کا مقصد احتجاج میں بھرپور شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے ان قافلوں کو روکنے کے لیے اقدامات مکمل کر لیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عمر ایوب کی قیادت میں ایک قافلہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوچکا ہے، جو علی امین گنڈاپور کے قافلے سے جا ملے گا۔ اٹک کے مقام پر قافلے کے شرکاء نے موٹروے کے اطراف گھنے درختوں میں عارضی طور پر قیام کیا، جہاں وہ علی امین گنڈاپور کے قافلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ صوابی ریسٹ ایریا پہنچنے پر علی امین گنڈاپور نے شرکاء سے خطاب کیا اور کارکنوں کو متحرک کرتے ہوئے کہا کہ وہ متحد ہوکر اپنی طاقت سے راستے کھولیں اور آگے بڑھیں۔ آج نیوز کے ایک سوال پر علی امین گنڈاپور نے کہا کہ تمام رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی اور قافلہ اسلام آباد پہنچ کر رہے گا۔ سہ پہر کے وقت علی امین گنڈاپور پشاور سے صوابی پہنچے، جہاں انہوں نے ایک کنٹینر پر سوار ہوکر قیادت سنبھالی۔ پی ٹی آئی کے اس احتجاج کے دوران کارکنوں کا جوش و خروش نمایاں ہے، لیکن وفاقی حکومت اور انتظامیہ کے سخت اقدامات کے باعث دونوں جانب تناؤ کی کیفیت برقرار ہے۔ احتجاج کے حتمی مرحلے میں کیا صورت حال سامنے آتی ہے، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔
ملک بھر میں شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے عام بجلی صارفین پر مالی بوجھ ڈال دیا ہے، جس کے باعث مالی سال 2023-24 میں بجلی کے عام صارفین کو 200 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ شمسی توانائی کے استعمال سے گرڈ کی بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے، لیکن اس کمی کا مالی اثر عام صارفین پر منتقل کیا جا رہا ہے، جس سے بجلی کی قیمت میں دو روپے فی یونٹ اضافی بوجھ پڑا ہے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نیٹ میٹرنگ کے غیرمنظم نظام نے توانائی کے شعبے میں مسائل پیدا کیے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو گرڈ پر مالی دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر گرڈ کی بجلی کی طلب میں پانچ فیصد کمی ہوئی تو عام صارفین کو مزید 131 ارب روپے کا نقصان ہوگا، جبکہ دس فیصد کمی کی صورت میں یہ نقصان بڑھ کر 261 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ شمسی توانائی کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے نیٹ میٹرنگ کو نیٹ بلنگ یا فیڈ اِن ٹیرف نظام میں تبدیل کیا جائے، اور گرڈ کے استحکام کے لیے فکسڈ گرڈ فیس متعارف کرائی جائے۔ اس کے ساتھ ڈسٹری بیوشن کوڈ میں تبدیلی کی بھی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع اور گرڈ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ شمسی توانائی کے استعمال سے چھتوں پر لگائے گئے 10 کلوواٹ کے نیٹ میٹرنگ سسٹم کے ذریعے عام صارفین کو فی یونٹ 20 روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ تاہم، اس سے گرڈ کی بجلی کی طلب میں کمی آ رہی ہے، جس کے نتیجے میں خسارہ عام صارفین سے پورا کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ شمسی توانائی اور گرڈ کی بجلی کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر شمسی توانائی کے حصول کا رجحان بڑھتا رہا اور گرڈ کی پیداوار کی طلب میں کمی آئی تو بجلی کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھ سکتی ہیں، جو کہ توانائی کے شعبے کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہیں۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروس کی جزوی بندش کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جس کے باعث سوشل میڈیا صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ سکیورٹی خدشات والے مخصوص علاقوں میں موبائل ڈیٹا اور وائی فائی سروس معطل کی جا رہی ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معمول کے مطابق جاری رہے گی۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تاکہ ممکنہ ناخوشگوار حالات سے بچا جا سکے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، انٹرنیٹ سروس کی مکمل بندش کا آغاز رات 12 بجے سے متوقع تھا، تاہم اس سے قبل ہی مختلف شہروں میں فیس بک، واٹس ایپ، اور دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے صارفین کو مسائل کا سامنا ہونے لگا۔ ڈاؤن ڈٹیکٹر نے بھی تصدیق کی ہے کہ متعدد صارفین کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز تک رسائی میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق، وائی فائی سروس بھی بندش سے متاثر ہو سکتی ہے، لیکن موبائل سروس کھلی رکھنے یا معطل کرنے کا فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا۔ یہ صورتحال تحریک انصاف کے احتجاج اور ملک میں امن و امان کی ممکنہ خرابی کے خدشات کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سروس کی معطلی ایک عارضی اقدام ہے اور سکیورٹی حالات بہتر ہوتے ہی معمولات بحال کر دیے جائیں گے۔ عوام کی جانب سے انٹرنیٹ بندش پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے، خاص طور پر طلبہ اور کاروباری طبقہ اس سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔
فیصل واوڈا نے حالیہ بیان میں عمران خان اور ان کے حامیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی کے متنازع بیان کے بعد تحریک انصاف کے لیے سیاسی حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی پیشگوئی کے مطابق عمران خان خود اپنی سیاسی قبر کھود رہے ہیں، اور ان کی موجودہ حکمت عملی پارٹی کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود اگر 24 تاریخ کو کوئی اسلام آباد کا رخ کرتا ہے، تو نہ صرف یہ توہین عدالت ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں سخت قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنی نشستوں سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے، اور حکومت ایسے عناصر کے خلاف کڑی کارروائی کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی کارکنان کو ہاؤس اریسٹ، گرفتاری، یا مچھ جیل جیسی سختیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور حال ہی میں رہا ہونے والے افراد کی دوبارہ گرفتاری بھی خارج از امکان نہیں۔
سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے متنازع بیانات کے باعث ان کے خلاف چار مختلف شہروں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یہ مقدمات ٹیلی گراف ایکٹ 1885 کے تحت درج کیے گئے ہیں، جن میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ملکی ساکھ کے خلاف بیانات دیے۔ ڈیرہ غازی خان میں جمال خان نامی شہری کی مدعیت میں درج مقدمے کے مطابق بشریٰ بی بی کے بیان کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا گیا ہے، جس سے ملک کی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ پولیس نے تصدیق کی کہ ان کے خلاف ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ 126 سمیت دیگر دفعات کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ غلام یاسین کی مدعیت میں درج ایک اور مقدمے میں بشریٰ بی بی پر الزام عائد کیا گیا کہ ان کے بیانات سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو نقصان پہنچا اور نفرت انگیز مواد پھیلایا گیا۔ ملتان میں تھانہ قطب پور میں عمیر مقصود کی درخواست پر بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ درج ہوا، جس میں کہا گیا کہ انہوں نے سعودی عرب اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف الزامات لگا کر مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی۔ اسی طرح لیہ میں تھانہ سٹی میں اشفاق سہیل کی مدعیت میں بشریٰ بی بی پر شریعت کے خاتمے اور ملک کے خلاف سازش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ مقدمات اس وقت درج کیے گئے جب بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ بیرونی طاقتیں مدینہ منورہ میں عمران خان کے ننگے پاؤں چلنے سے ناخوش تھیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اس عمل کے بعد جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو بیرونی ممالک سے فون کالز موصول ہوئیں، جن میں ان کے اس عمل پر اعتراض کیا گیا۔ دوسری جانب، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بشریٰ بی بی کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں اور سمجھ سے باہر ہے کہ وہ ایسے بیانات کیوں دے رہی ہیں۔ یہ مقدمات سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں اور ان سے بشریٰ بی بی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ الزامات قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کے خلاف مختلف شہروں میں درج مقدمات کے سلسلے میں ایک حیرت انگیز پہلو سامنے آیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں درج ہونے والے مقدمے کے مدعی غلام یاسین کی ماضی کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ غلام یاسین، جو خود کو محبِ وطن پاکستانی کہتا ہے، ماضی میں زیادتی کے مقدمے میں سزا یافتہ اور قتل عمد سمیت دیگر جرائم میں ملوث رہا ہے۔ عمران ریاض خان نے کہا شہید ارشد شریف، صابر شاکر صاحب ، سمیع ابراہیم صاحب اور مجھ سمیت دیگر کے خلاف بھی ریاست نے جو مدعی ڈھونڈے تھے وہ بھی کرمنل ریکارڈ والے تھے۔ احمد وڑائچ نے اس پر کہا بشریٰ بی بی پر مقدمہ کرنے والا ڈیرہ غازی خان کا محبِ وطن غلام یاسین ریپ کے مقدمے (376) میں نامزد ملزم ہے، قتلِ عمد کے مقدمے (352) میں سزا یافتہ ہے۔ ملزم کو گھر میں گھسنے، مسلح ہو کر خوف ہو ہراس پھیلانے میں بھی سزا ہو چکی ہے۔یہ بلاشک و شبہ اصل والا 100٪ محبِ وطن ہے۔ محمد عمیر نے کہا ڈیرہ غازی خان میں مقدمہ درج کروانے والا محب وطن پاکستانی ریکارڈ یافتہ اور سزا یافتہ مجرم نکلا۔ غلام یاسین کو زیادتی کے مقدمہ میں سزا ہوچکی ہے۔ جنید چیمہ نے کہا سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے مختلف شہروں میں درج ہونے والی FIRs۔تینوں FIRs کے متن کو پڑھیں اور حسنِ اتفاق پر سر دھنیں کہ گوجرانوالہ، ڈیرہ غازی خان اور لیہ کے تینوں شہری جنہوں نے بغرض اندراج مقدمہ تھانوں میں درخواستیں دیں اور مقدمات درج کروائے، تینوں مدعی کھانا کھانے یا چائے پینے کیلئے اپنے اپنے اضلاع میں ہوٹلز پر بیٹھے تھے، تینوں جیو نیوز ہی دیکھ رہے تھے، تینوں شریف شہری اور محب وطن بھی ہیں، تینوں ملک پاکستان کے خلاف کوئی بات سننا گنوارا نہیں کرتے، تینوں شریف شہریوں کی یادداشت بھی کمال ہے، کہ تینوں نے بشریٰ بی بی کا جو بیان نقل کیا اس میں بھی ایک حرف تو درکنار کامے یا پیش کا بھی فرق نہیں، مطلب یہاں بھی مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور تو اور اس بیان سے سعودی عرب کے ساتھ جو خارجہ پالیسی/اعلی سطحی امور اور مفاد عامہ متاثر ہوئے ہیں وہ بیان بھی بالکل ہو بہو ہیں۔ یار کون لوگ ہو تسی۔۔۔صحیح کہتے ہیں کہ نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، جو درحقیقت نسل در نسل وفا شعار نوکروں میں بالکل نہیں پائی جاتی۔
ہائی کورٹ نے اسموگ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ مارکیٹوں کو 8 بجے بند کرنے کا حکم پورے سال کے لیے دے دینا چاہیے۔ دورانِ سماعت، جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت کے اسموگ کے خلاف اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات اگلی نسل کے لیے ایک احسان ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کے اقدامات واقعی قابلِ تعریف ہیں۔ اسموگ میں کمی کا سارا کریڈٹ موسم کی تبدیلی کو دیا جا رہا ہے، لیکن حکومت اور وہ تمام ادارے جو اسموگ کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، انہیں بھی کریڈٹ ملنا چاہیے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، خالد اسحاق نے عدالت کو بتایا کہ غیر قانونی پلانٹس کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، اور گجرانوالہ میں حالیہ دنوں میں 19 غیر قانونی پلانٹس کو مسمار کیا جا چکا ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ زبردست ہے، آپ کو ٹریبونل کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، اپنی کارروائیاں جاری رکھیں، یہ اس عدالت کی ہدایت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فصلوں کی باقیات جس ضلع میں ہوں، وہاں کے ڈپٹی کمشنر کو ان کے خلاف کارروائی کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ باقیات جلانے والوں کو فوری گرفتار کیا جا رہا ہے اور کسی کو بھی رعایت نہیں دی جا رہی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے یہ بھی بتایا کہ ماحولیات کے بارے میں اسٹڈی کرنے والے اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے اچھے آئیڈیاز دینے والے طالب علموں کے لیے حکومت ایک پیکیج لا رہی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے اس موقع پر کہا کہ ہمیں کلچرل چینج کی ضرورت ہے، اور رات 8 بجے مارکیٹیں بند کرنے کا حکم پورے سال کے لیے جاری کر دینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی احکامات نہ ماننے والے اسکولوں کو سیل کر دیا جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید کارروائی جمعہ تک ملتوی کر دی اور تمام متعلقہ محکموں سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کر لی۔
پشاور: تحریک انصاف کی قیادت نے کل ہر صورت اسلام آباد پہنچنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کا اجلاس چیئرمین بیرسٹر گوہر کی صدارت میں ہوا، جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، سابق صدر عارف علوی، شبلی فراز، سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کل کے احتجاج کے حوالے سے انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور اسلام آباد مارچ کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں موٹر وے بند ہونے کے باعث قافلوں کو جی ٹی روڈ کے ذریعے روانہ کرنے پر مشاورت کی گئی، اور رکاوٹیں ہٹا کر موٹر وے کھولنے کے لائحہ عمل پر بھی غور کیا گیا۔ ہزارہ اور مالاکنڈ کے قافلوں کے لئے مختلف روٹس کے آپشنز زیر غور آئے، جب کہ ہیوی مشینری کو اٹک اور صوابی تک پہنچانے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ دوسری جانب حکومت نے بھی اپنی پوزیشن مضبوط کر لی۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے رابطہ کرکے انہیں دھرنے یا ریلی کی اجازت نہ دینے سے آگاہ کر دیا۔ محسن نقوی نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں موجودہ صورت حال پر بات کی اور انہیں بتایا کہ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے پابند ہیں، اس لئے کسی بھی جلوس، دھرنے یا ریلی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ساہیوال کے نواحی گاؤں آر 108 سیون میں ایک المناک واقعہ پیش آیا جہاں گھریلو تنازعے کے باعث سسرالیوں نے اپنی بہو ام کلثوم کو مبینہ طور پر زندہ جلا دیا۔ ام کلثوم، جو ایک کمسن بچی کی ماں تھی، کو سسرالیوں نے اس کے بچے کے سامنے آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔ خاتون کو تشویشناک حالت میں ساہیوال کے ٹیچنگ اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں سے اسے مزید علاج کے لیے لاہور ریفر کیا گیا، لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔ اسپتال انتظامیہ نے خاتون کا پوسٹ مارٹم مکمل کرکے لاش کو ورثا کے حوالے کر دیا، جس کے بعد اسے اس کے آبائی گاؤں 145 نائن ایل میں سپرد خاک کیا گیا۔ مقتولہ کے گاؤں میں یہ سانحہ گہرے صدمے اور غم و غصے کا باعث بنا ہے۔ اہل علاقہ اس وحشیانہ قتل پر افسردہ ہیں اور مقتولہ کے اہل خانہ کے لیے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔ پولیس نے ورثا کی درخواست پر دو خواتین سمیت تین افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تاہم پولیس ترجمان کے مطابق ملزمان ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر چکے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ مقدمے کی شفاف تحقیقات جاری ہیں اور جلد حقائق منظر عام پر لائے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے واقعے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ریجنل پولیس آفیسر ساہیوال سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انہوں نے متاثرہ خاندان کو فوری انصاف فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس اندوہناک واقعے نے انسانی حقوق کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور انصاف کے حصول کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
پشاور میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا اجلاس اختتام پذیر ہو گیا، جس میں 24 نومبر کے احتجاج کا فیصلہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، اس اجلاس میں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں بشمول سابق صدر عارف علوی، بیرسٹر گوہر، اسد قیصر، اور شیخ وقاص اکرم نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر سیف سمیت پارٹی کے دیگر اہم رہنما بھی موجود تھے۔ اجلاس میں حکومت کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی، اور بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور کی بانی سے ملاقاتوں کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔ تحریک انصاف کے 24 نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ساتھ لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے ہیں۔ موٹر ویز اور تمام بس اڈے بھی بند ہیں جس کے نتیجے میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔تفصیلات کے مطابق، بڑی تعداد میں شہری راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے ہیں، جہاں مسافروں کا رش دگنا ہوگیا ہے اور متعدد افراد کو رش کے باعث ٹکٹ نہیں مل سکا۔
تحریک انصاف کے 24 نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ساتھ لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے ہیں۔ موٹر ویز اور تمام بس اڈے بھی بند ہیں جس کے نتیجے میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، بڑی تعداد میں شہری راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے ہیں، جہاں مسافروں کا رش دگنا ہوگیا ہے اور متعدد افراد کو رش کے باعث ٹکٹ نہیں مل سکا۔ شٹل ٹرین کی موجودگی کے باوجود ہزاروں مسافر اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے، جس کے باعث شہریوں نے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ تمام مسافروں کو جلدی منزل تک پہنچانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور آج شام چار بجے دوسری شٹل ٹرین بھی روانہ کی جائے گی۔
اسلام آباد: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق ایک مقدمے میں 10 ملزمان کو 6 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے، جن میں 4 افغان شہری بھی شامل ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق سزا پانے والوں میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عابد محمود، احسن ایاز، شوکت، راولپنڈی کے مطیع اللہ، جبکہ باجوڑ سے نعیم اللہ اور ذاکر اللہ شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان شہریوں میں داؤد خان، یونس خان، احسان اللہ اور لال آغا شامل ہیں، جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم تھے۔ ان تمام افراد کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے درج ایف آئی آر کے مطابق کل 17 ملزمان نامزد کیے گئے تھے، جن میں سے ایک کو تفتیش کے بعد بری کردیا گیا جبکہ 6 اب بھی مفرور ہیں۔ عدالت نے مفرور ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں اور حکم دیا ہے کہ گرفتار ہونے پر انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔ اس دوران ریاستی، فوجی، اور نجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، جن میں لاہور میں جناح ہاؤس اور راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا گیٹ شامل ہے۔ احتجاج کے دوران متعدد سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، 8 افراد جاں بحق اور 290 زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازاں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے 1900 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا، اور احتجاج میں ملوث ماسٹر مائنڈز اور سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی فرد سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
پشاور: خیبرپختونخوا پولیس کے افسران اور اہلکاروں کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کردیا گیا ہے جس میں انہیں سیاسی معاملات سے دور رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز خیبرپختونخوا کی جانب سے پولیس افسران کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ تمام پولیس اہلکاروں بشمول گنرز کو سیاسی اجتماعات میں شرکت سے منع کیا جائے اور کسی بھی اہلکار کو صوبے سے باہر کسی بھی حیثیت میں کوئی سیاسی کردار ادا کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ خط کے متن میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ پولیس کا بنیادی فرض ہے کہ وہ غیر سیاسی رہے اور قانون کی حکمرانی کو قائم رکھے۔ اس کے ساتھ ہی کہا گیا کہ پولیس افسران اور اہلکار آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کے پابند ہیں، اور انہیں زبردستی یا غیر ضروری اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے اپنے خط میں مزید کہا کہ سرکاری وسائل یا اختیارات کا استعمال سیاسی جماعتوں کی حمایت کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس طرح کے اقدامات ادارے کے اخلاقی معیار کو مجروح کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام پولیس ملازمین سے درخواست کی کہ وہ پیشہ ورانہ طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دیں اور کسی بھی غیر قانونی یا غیر اخلاقی عمل سے اجتناب کریں۔ خط میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ ان ہدایات پر عمل درآمد ضروری ہے، اور اگر کوئی افسر یا اہلکار احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے حکومت نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان مظاہروں کی وجہ سے نہ صرف سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ پڑا بلکہ املاک کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ پچھلے چھ ماہ میں پی ٹی آئی کے احتجاجوں پر حکومت نے تقریباً 1 ارب 20 کروڑ روپے خرچ کیے جبکہ 1 ارب 50 کروڑ روپے کی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں ہونے والے 120 سے زائد مظاہروں میں 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے اور 220 سے زائد زخمی ہوئے۔ احتجاجی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے 3 ہزار کنٹینرز کرائے پر حاصل کیے گئے جن پر 80 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ ان مظاہروں کا مرکز راولپنڈی، لاہور، اسلام آباد اور اٹک رہے، جہاں 30 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔ اسلام آباد، لاہور اور راولپنڈی میں موجود سیف سٹی منصوبے کے 370 کیمرے بھی مظاہروں کے دوران خراب ہوئے جن کا نقصان 28 کروڑ روپے سے زیادہ بتایا گیا۔ مزید یہ کہ پولیس کی 220 گاڑیاں ان مظاہروں کے دوران تباہ ہوئیں یا انہیں نقصان پہنچا، جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹ اور کھانے پر 90 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات آئے۔ پولیس کے مجموعی اخراجات تقریباً ڈیڑھ ارب روپے تک پہنچ گئے۔ سرکاری اعدادوشمار میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 12 ہزار اور پنجاب میں 16 ہزار پولیس اہلکار احتجاجی دھرنوں کے دوران تعینات رہے۔ ایف سی، رینجرز اور فوج کی تعیناتی پر 30 کروڑ روپے کے اضافی اخراجات آئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق 24 نومبر کے احتجاج پر مزید 30 کروڑ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے، کیونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں 34 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی طلبی اور 2 ہزار سے زائد کنٹینرز کی تنصیب کی درخواست دی گئی ہے۔
اسلام آباد: سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاڑہ چنار میں حالیہ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل میں دوران گفتگو ان واقعات کو "انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت" قرار دیتے ہوئے سیکیورٹی اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ عمران خان نے کہا، “پاڑہ چنار میں دہشتگردی / ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں قیمتی جانوں کا ضیاع انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیز جن کا کام شہریوں کو دہشتگردی سے بچانا ہے انہیں مسلسل ڈھائی سال سے سیاسی انتقام لینے پر لگایا گیا ہے۔ پولیس اور فوجی جوان روزانہ شہید ہو رہے ہیں لیکن سیکیورٹی اداروں کی توجہ تحریک انصاف کو کچلنے پر مرکوز ہے جس کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور دہشتگردی کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا چکا ہے۔” انہوں نے پولیس کے نظام پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا، “پولیس کے آئی جیز بھی میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر لگائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پولیسنگ سسٹم بھی تباہ ہو چکا ہے۔” عمران خان نے دہشتگردی کے حل کے لیے صرف عسکری کارروائیوں کو ناکافی قرار دیا اور کہا، “میرا اسٹیبلشمنٹ اور جعلی حکومت کو پیغام ہے کہ دہشتگردی کا معاملہ صرف عسکری آپریشنز سے حل ہونے والا نہیں ہے یہ ایک حساس مسئلہ ہے جس کے لیے سیاسی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے، مگر یہاں کسی کے پاس کوئی ایسی موثر حکمت عملی موجود نہیں جس سے اس مسئلے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جعلی حکومت کی نااہلی اس معاملے میں بھی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔” انہوں نے افغانستان کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “سوچنا چاہیے کہ جب افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت تھی تو اتنی دہشتگردی کیوں نہیں ہو رہی تھی جتنی پچھلے دو سال سے ہو رہی ہے؟ دہشتگردی کے خلاف اور مغربی سرحد کو کنٹرول کرنے کے لیے تحریک انصاف کے پاس پورا ایکشن پلان موجود ہے۔ اگر ہم حکومت میں دوبارہ آتے ہیں تو اس مسئلے کا حل نکالنا ممکن ہے۔” عمران خان نے ان مسائل کے حل کے لیے ایک جامع سیاسی اور عسکری حکمت عملی پر زور دیا اور موجودہ حکومت پر اس حوالے سے سخت تنقید کی۔
لاہور: الیکشن کمیشن نے بانی پاکستان تحریک انصاف کی توشہ خانہ کیس میں نااہلی اور پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے خلاف دائر درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے پر درخواستوں کی سماعت کی، جہاں الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ کیس پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لیے لاہور ہائیکورٹ کو اس معاملے میں سماعت کا اختیار نہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم کیس میں دلائل مکمل طور پر منظم اور تیار ہونے چاہییں۔ انہوں نے ہدایت دی کہ عدالتی فیصلوں کی نقول تمام ججز کو فراہم کی جانی چاہییں تاکہ کیس کی بہتر تفہیم ممکن ہو۔ جسٹس شمس محمود مرزا نے تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس درخواست کا کیا فیصلہ ہوا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ انہوں نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی تھی، لیکن وہ مسترد کر دی گئی۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنے یا لاہور ہائیکورٹ میں۔ اگر درخواست گزار خود نہیں چاہتا کہ کیس سنا جائے تو عدالت کیوں زبردستی سماعت کرے؟ عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ دائرہ اختیار کے حوالے سے مزید دلائل پیش کریں۔ سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کر دی گئی۔
کراچی: آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل پر اپنے کامل یقین کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ "مایوسی مسلمان کے لیے حرام ہے" اور ایک سال پہلے چھائے مایوسی کے بادل آج چھٹ چکے ہیں۔ آرمی چیف نے پاکستان کی معیشت کے مثبت اعشاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "آج پاکستان کی معیشت کے تمام اعشاریے مثبت ہیں، اگلے برس تک انشاء اللہ مزید بہتر ہوں گے۔" انہوں نے مایوسی پھیلانے اور ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والوں پر سوال اٹھایا کہ "مایوسی پھیلانے والے آج کدھر ہیں؟ کیا ان کو جواب دہ نہیں ٹھہرانا چاہیے؟" انہوں نے زور دیا کہ ملک کے مفاد کو ذاتی سیاست پر ترجیح دینی چاہیے اور کہا، "کوئی چیز بشمول سیاست ملک سے مقدم نہیں۔ ہم سب کو ذاتی مفاد پر پاکستان کو ترجیح دینی چاہیے۔" آرمی چیف نے ریاست کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا، "ریاست ماں کی طرح ہے اور اس کی قدر لیبیا، عراق اور فلسطین کے عوام سے پوچھنی چاہیے۔ یاد رکھیں! پاکستان کے علاوہ ہماری کوئی شناخت نہیں ہے۔" انہوں نے معاشی ترقی پر بات کرتے ہوئے بزنس کمیونٹی سے اپیل کی، "آپ اپنا پیسہ لے کر پاکستان آئیں، عوام بھی کمائے اور ملک بھی ترقی کرے۔ صرف پاکستانی ہی پاکستان کو ’بیل آؤٹ‘ کے ذریعے معاشی استحکام لا سکتے ہیں۔" دہشت گردی اور غیر قانونی کاروبار کی مذمت کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا، "دہشت گردی کی پشت پناہی غیر قانونی کاروبار والے کرتے ہیں جن کے پیچھے مخصوص عناصر ہوتے ہیں۔" انہوں نے ڈیجیٹل تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، "پاکستان کی ڈیجیٹل سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی ڈیجیٹل سیکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے۔" آخر میں جنرل سید عاصم منیر نے امید ظاہر کی کہ اگر قوم مل کر کھڑی ہو جائے تو کوئی بھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
پشاور میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک افسر نے فائرنگ کرکے ایک شہری کو ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ کسٹم ہاؤس پشاور کے سامنے پیش آیا، جس کے بعد پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کو گرفتار کر لیا اور اس کے پاس سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا۔ پولیس کے مطابق، ملزم کی شناخت عرفان اللہ کے نام سے ہوئی، جو کہ ایف بی آر ان لینڈ ریونیو میں بطور ایڈیشنل کمشنر تعینات ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، یہ واقعہ ممکنہ طور پر لین دین کے تنازع کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ مقتول کی شناخت ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور پولیس واقعے کی مزید تفصیلات معلوم کرنے کے لئے تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ واقعے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مصروف سڑک پر ایک سفید رنگ کی گاڑی کے پاس لاش پڑی ہوئی ہے۔ ویڈیو میں کچھ بچے اور ایک خاتون ہلکی آواز میں روتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی دوران ملزم، دن دیہاڑے اسلحہ تھامے، لاش کے پاس چکر لگا رہا ہے اور دوسری گاڑیوں کو نہ رکنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ اس واقعے پر عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ ملزم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ یہ واقعہ ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ وہ اپنے افسران کے طرز عمل کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں۔ پولیس رپورٹ کے مطابق، اس واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں مزید کاروائیاں کی جائیں گی اور جلد ہی مزید معلومات فراہم کی جائیں گی۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد پولیس نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پنجاب اور سندھ پولیس سے اضافی مدد طلب کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق، پنجاب پولیس کے دو ڈی آئی جیز اور دس ڈی پی اوز اسلام آباد میں ڈیوٹی انجام دیں گے، جبکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بڑی تعداد میں تعینات کیے جائیں گے: چار ہزار رینجرز اہلکار اینٹی رائٹس کٹس کے ہمراہ تعینات ہوں گے۔ پانچ ہزار ایف سی اہلکار بھی ڈیوٹی انجام دیں گے۔ پنجاب کے دس ڈی پی اوز ہر ایک کے ساتھ 500 اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ سندھ اور پنجاب کانسٹیبلری کے دو دو ہزار اہلکار بھی اسلام آباد بھیجے جائیں گے۔ ایف سی اور پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو اینٹی رائٹس کٹس سے لیس کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات احتجاج کے دوران امن و امان قائم رکھنے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے سیکیورٹی انتظامات کو دیکھتے ہوئے حکومتی سطح پر بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کا امکان ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قومی سلامتی کے حوالے سے مضبوط موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جو بھی پاکستان کی سکیورٹی میں رکاوٹ بنے گا یا فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام میں مداخلت کرے گا، اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان ہمیں ملک کی اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری دیتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی ایک سپاہی ہے، چاہے وہ یونیفارم میں ہو یا بغیر یونیفارم کے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں تک محدود نہیں بلکہ پوری قوم کو اس ناسور کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہم سب پر آئین پاکستان مقدم ہے، آئین ہم پرپاکستان کی اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری عائد کرتا ہے اور جوبھی پاکستان کی سکیورٹی میں رکاوٹ بنے گا، ہمیں کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہونگے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے گورننس میں موجود خامیوں کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے شہیدوں کی قربانی دے کر پورا کر رہے ہیں۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک کی اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریک تھے۔ اجلاس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر بھی بریفنگ دی گئی، جبکہ سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ ملک کو درپیش مسائل کا حل قومی اتحاد اور ترقیاتی کاموں کے ذریعے ممکن ہے۔
کوئٹہ: 11 سالہ طالب علم کے اغوا کے خلاف منگل کو شہر بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی، کیونکہ حکام اس کے سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں، حالانکہ اسے اغوا ہوئے 6 روز گزر چکے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ہڑتال کی کال دھرنا کمیٹی اور تاجران کی ایسوسی ایشن نے مشترکہ طور پر دی تھی تاکہ مغوی بچے کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کی۔ تاجر برادری نے ہڑتال کے سلسلے میں اپنے کاروبار بند رکھے، جس کے نتیجے میں شہر کی تمام بڑی مارکیٹیں، شاپنگ پلازے اور کاروباری مراکز بند رہے۔ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے طلبہ اور سرکاری ملازمین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر زرغون روڈ کی بندش نے لوگوں کی آمد و رفت میں مشکلات پیدا کی، جہاں مظاہرین نے یونٹی چوک پر دھرنا دیا تھا۔ احتجاجی مظاہرین کے دوران بڑی تعداد میں داخلی اور خارجی راستوں پر سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے اور گاڑیوں کی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ مغوی بچے کے والد، حاجی راز محمد، نے بلوچستان ہائی کورٹ میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کی اغوا کے پانچ دن گزرنے کے باوجود کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئیں۔ انہوں نے آرمی چیف سے اپیل کی کہ وہ ان کی مدد کریں تاکہ ان کے بیٹے کی بحفاظت واپسی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے عوام کا شکریہ ادا کیا اور اغوا کاروں سے رابطے کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ حاجی راز محمد نے کہا کہ مستقبل کے اقدامات کا فیصلہ دھرنا کمیٹی کرے گی۔ یاد رہے کہ 11 سالہ مصور کاکڑ کو 4 دن قبل، جمعے کے روز، نامعلوم افراد نے پٹیل باغ کے علاقے میں اسکول سے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے اعلان کیا ہے کہ بچے کی بازیابی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کے احتجاج کے طور پر مختلف علاقوں میں سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے کا سلسلہ بھی پچھلے چند روز سے جاری ہے۔

Back
Top