خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
شام میں جاری خانہ جنگی ایک نئے خطرناک موڑ میں داخل ہو گئی ہے جب باغی ملیشیا حیات التحریر الشام نے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ شامی فوج نے لبنان کے ساتھ اپنی تمام سرحدی چوکیوں کو خالی کر دیا ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق، شامی فوج کے انخلاء کے فوراً بعد اسرائیلی فوج کے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں جنوب مغربی شام کے قنیطرہ علاقے میں داخل ہو گئی ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد سرحدی دفاع کو مضبوط بنانا اور ممکنہ خطرات کو کم کرنا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فوج قنیطرہ کے بفر زون میں "دفاعی مقاصد" کے تحت پہنچی ہے تاکہ شام میں باغیوں کی پیش قدمی سے نمٹا جا سکے۔ دوسری جانب، لبنانی فوج نے بھی فوری طور پر اپنی ضروری یونٹس اور بٹالین شام کی سرحد پر بھیج دی ہیں تاکہ ممکنہ حملوں اور سرحدی خلاف ورزیوں سے بچا جا سکے۔ عراقی حکام کے مطابق، تقریباً 2000 شامی فوجی عراق میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں، جنہوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے ملک چھوڑ دیا ہے۔ دمشق پر قبضے سے قبل باغی ملیشیا نے شام کے اہم شہر حمص پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، حمص کی فوجی جیل سے 3500 سے زائد قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے، جن میں متعدد اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس پیش رفت سے شام میں سیاسی اور عسکری بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ اس ہنگامی صورتحال کے پیش نظر، قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، ایران، ترکیے اور روس نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اعلامیے میں شام کی موجودہ صورتحال کو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ خطے کی بڑی طاقتوں نے شام میں فوری امن اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ انسانی بحران کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ شام امریکا کا دوست نہیں ہے اور امریکا کو اس تنازع سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ ان کے اس بیان نے عالمی سفارتی حلقوں میں حیرت اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ شام کی خانہ جنگی پہلے ہی عالمی امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ صورتحال خطے میں ایک نئے تنازعے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، جہاں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ شام کی بدلتی ہوئی صورتحال دنیا کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکی ہے، اور آئندہ چند دنوں میں ہونے والی پیش رفت خطے کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
کیا وزارت داخلہ آگاہ کرے گی کہ 25 اور 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں نہتے اور پرامن مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ زرتاج گُل نے سوالات کا جواب مانگ لیا، جن پر کمیٹی نے وزیر داخلہ سے تحریری جواب طلب کر لیا ہے۔ زرتاج گل نے براہ راست پوچھا کہ 25 اور 26 نومبر کو شہریوں پر سیدھی فائرنگ کے احکامات کس نے دیے؟ انہوں نے وزیر قانون سے جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بتانے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے مطیع اللہ جان کی گرفتاری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ انہیں پمز اسپتال کے باہر اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کیوں گرفتار کیا گیا؟ اسلام آباد سے 1100 پشتونوں کی گرفتاری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت طلب کی کہ یہ گرفتاریاں کس بنیاد پر کی گئیں؟ صحافی قمر میکن کی ہراسانی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو ان کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر دھمکانا ناقابل قبول ہے۔ زرتاج گل نے کہا کہ ان کے حلقے سے شفیق لنڈ شہید ہوئے، مگر ان کی لاش بھی نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے کمیٹی سے درخواست کی کہ وزیر داخلہ کو ان تمام سوالات کا تفصیلی جواب دینے کا پابند بنایا جائے۔ کمیٹی کے چیئرمین خرم نواز نے اجلاس کے آخر میں ہدایت دی کہ آئندہ اجلاس میں وزیر داخلہ ان تمام سوالات کے تحریری جوابات پیش کریں۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وہ بھی اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں۔ خرم نواز نے "پشتونوں کی گرفتاری" کے پراپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلفیہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے مقامی لوگ بھی گرفتار ہوئے ہیں۔
پشاور: جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم کسی صورت دینی مدارس میں سرکاری مداخلت تسلیم نہیں کریں گے، مدارس آزاد ہوں گے اور آزاد حیثیت سے کام کریں گے۔ اتحاد المدارس نے 16 دسمبر کو مشاورتی اجلاس طلب کیا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کو اعتماد میں لے کر متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ہم حکومت کو سدھرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسلام آباد کی کال دیں گے تو ہم وہ لوگ نہیں کہ تم ہمارا راستہ روک سکو۔ ہمیں دھمکیاں مت بھیجو، ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم بھاگنے اور واپس آنے والے نہیں۔ تمہاری گولیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے۔ جب سینیٹ اور قومی اسمبلی نے مدارس بل کی منظوری دے دی تو صدر نے دستخط کیوں نہیں کیے؟ کیا یہ فراڈ اور دھوکہ نہیں؟ ہمیں دھمکیاں مت بھیجو، ہم ڈرنے والے نہیں۔ تم شرافت میں رہو گے تو ہم بھی شرافت میں رہیں گے، لیکن اگر بدمعاشی کرو گے تو ہم سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں۔ جب سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے مدارس بل کی منظوری دی ہے تو صدر پاکستان نے دستخط کیوں نہیں کیے؟ کیا یہ فراڈ اور دھوکہ نہیں؟ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں اسرائیل مردہ باد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ حماس کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ناجی ظہیر، جمعیت علمائے اسلام کے قائدین مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا راشد محمود سومرو، اسلم غوری، مولانا امجد خان، مولانا عطا الرحمٰن، مولانا اسعد محمود اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
لاہور میں سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی اور پولیس افسران کے درمیان جیل سے عدالت منتقل کرنے والی گاڑی کی تبدیلی پر ایک تلخ تنازع دیکھنے کو ملا۔ معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب پولیس نے انہیں واپس جیل لے جانے کے لیے سنگل کیبن گاڑی کا انتظام کیا، جبکہ وہ ڈبل کیبن گاڑی میں سفر کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ پولیس افسر انسپکٹر شیخ حماد نے وضاحت کی کہ جیل سے شاہ محمود قریشی کو عدالت لانے والی ڈبل کیبن گاڑی کو ڈاکٹر یاسمین راشد کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تاہم، سابق وفاقی وزیر اس وضاحت پر مطمئن نہیں ہوئے اور سنگل کیبن گاڑی میں سفر کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ شاہ محمود قریشی نے انسپکٹر کو حکم دیا کہ وہ اپنے افسران کو آگاہ کریں کہ انہیں وہی گاڑی واپس بھیجی جائے جس میں انہیں عدالت لایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، "میری کمر میں تکلیف ہے اور سنگل کیبن گاڑی میں سفر کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ پولیس آج کل پتہ نہیں کس کی وفادار بنی ہوئی ہے۔" کمرہ عدالت کے باہر کافی دیر تک شاہ محمود قریشی اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تکرار جاری رہی۔ سابق وفاقی وزیر نے واضح کر دیا کہ وہ ڈبل کیبن گاڑی کے بغیر سفر نہیں کریں گے اور کمرہ عدالت میں گاڑی کے منتظر رہیں گے۔ اس دوران عدالت کے احاطے میں صورتحال کشیدہ رہی، اور دیگر افراد بھی اس منظر کو دیکھتے رہے۔
شام کے معزول صدر بشار الاسد روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دے دی گئی ہے۔ روسی سرکاری خبر رساں ادارے تاس نے ایک اعلیٰ کریملن ذرائع کے حوالے سے اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بشار الاسد اپنی اہلیہ اسماء الاسد اور دو بچوں کے ساتھ اتوار کے روز ماسکو پہنچے۔ شام میں ان کی حکومت باغی افواج کی تیز رفتار فوجی کارروائی کے نتیجے میں گر گئی، جس کے بعد ان کا 24 سالہ اقتدار اختتام پذیر ہوا۔ شام کے سیاسی منظر نامے میں یہ بڑی تبدیلی باغیوں کی طرف سے ملک بھر میں برق رفتار حملوں کے بعد سامنے آئی، جنہوں نے دارالحکومت دمشق سمیت کئی اہم شہروں پر قبضہ کر لیا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد بشار الاسد کے فرار کی خبریں سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں تھیں، تاہم ان کی موجودگی کے بارے میں کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ بشار الاسد اور ان کے خاندان کی ماسکو آمد کی خبریں سامنے آنے سے پہلے، ان کے فرار کی مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ شام میں ان کے ممکنہ ٹھکانوں اور فضائی راستوں کی رپورٹس بھی گردش کر رہی تھیں، لیکن ان کی حقیقی منزل کسی کو معلوم نہ تھی۔ دوسری طرف، شام کے صدارتی محلوں اور حکومتی دفاتر پر باغی گروہوں کے قبضے کے بعد عوام کی خوشی دیدنی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور تصاویر میں لوگوں کو صدارتی محل کے شاندار کمروں میں جشن مناتے، سیلفیاں لیتے اور قیمتی اشیاء کو لوٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت دمشق کی گلیوں میں بھی ہزاروں افراد نے جشن منایا، جہاں کئی سالوں کی خانہ جنگی کے بعد پہلی بار عوام نے حکومت کی شکست کا کھل کر جشن منایا۔ بشار الاسد کا دورِ اقتدار 2000 میں شروع ہوا تھا جب وہ اپنے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد شام کے صدر بنے تھے۔ ان کے اقتدار کے دوران ملک خانہ جنگی، بین الاقوامی پابندیوں، اور لاکھوں افراد کی ہجرت جیسے بڑے بحرانوں کا شکار رہا۔ ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد شام کے سیاسی اور جغرافیائی مستقبل کے بارے میں کئی اہم سوالات کھڑے ہو گئے ہیں جن کے جوابات آئندہ آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔
شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ہفتے کے روز اہم شہر حمص کے کنٹرول کے لیے سرکاری افواج کے ساتھ شدید لڑائی کی اور دارالحکومت دمشق کی جانب پیش قدمی کی، جس سے صدر بشارالاسد کی 24 سالہ حکمرانی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ملک بھر میں محاذوں پر تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال نے اسد حکومت کے وجود کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل حلب میں باغیوں کی زبردست کامیابی کے بعد سے حکومتی دفاعی نظام تیزی سے ٹوٹتا جا رہا ہے۔ باغیوں نے کئی اہم شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور ان علاقوں میں بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جہاں بغاوت کا خاتمہ طویل عرصے سے یقینی سمجھا جا رہا تھا۔ حمص کے شمال اور مشرقی علاقوں سے باغیوں نے سرکاری افواج کی دفاعی لائن توڑ کر اندرونی علاقوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ باغیوں کے ایک کمانڈر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے شہر کے باہر ایک فوجی کیمپ اور قریبی دیہاتوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم، سرکاری ٹی وی کے مطابق فوجی افواج نے باغیوں کو حمص کے اندر داخل ہونے سے روک دیا ہے اور شہر کے مضافات میں توپ خانے اور ڈرونز کے ذریعے حملے کیے جا رہے ہیں۔ باغیوں نے شام کے جنوب مغربی علاقوں میں بھی تیزی سے پیش قدمی کی ہے اور 24 گھنٹوں کے اندر اندر تقریباً پورے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ باغیوں کے مطابق وہ دمشق سے صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، جہاں حکومتی افواج پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ دمشق کے مختلف علاقوں میں عوام نے احتجاج کرتے ہوئے بشارالاسد کے پوسٹرز اور ان کے والد حافظ الاسد کے مجسمے توڑ دیے ہیں، جبکہ کچھ فوجی بھی شہری لباس میں فرار ہو گئے ہیں۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق بشارالاسد اب بھی دمشق میں موجود ہیں اور فوج نے دارالحکومت کے اردگرد مزید کمک پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ مشرقی شام میں فوج کی ناکامیوں کے باعث تقریباً 2,000 شامی فوجیوں نے عراق کی سرحد عبور کرکے پناہ حاصل کی ہے۔ شام کی موجودہ خانہ جنگی 2011 میں اسد حکومت کے خلاف بغاوت کے طور پر شروع ہوئی تھی، جو بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت کے بعد پیچیدہ اور خونریز جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ روسی فضائی حملوں اور ایرانی ملیشیاؤں کے تعاون سے اسد حکومت نے کئی اہم علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا تھا، لیکن یوکرین جنگ اور اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی جھڑپوں نے ایران اور روس کی توجہ شام سے ہٹا دی ہے۔ روس، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے شام کے مسئلے پر مذاکرات کیے ہیں، لیکن فوری سیاسی حل پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ اس دوران، برطانیہ نے شامی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال "ریڈ لائن" ہو گا اور اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ حمص پر قبضے کی صورت میں دارالحکومت دمشق اور ساحلی علاقوں کے درمیان رابطہ منقطع ہو سکتا ہے، جو شامی حکومت کے لیے ایک مہلک دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ باغیوں کی پیش قدمی اور حکومتی افواج کی پسپائی سے شام میں مستقبل کی صورتحال مزید غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے، جس سے خطے میں نئے بحرانوں کے جنم لینے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے طیارے کے ریڈار سے غائب ہونے اور ان کے ممکنہ حادثے میں ہلاک ہونے کی افواہوں نے عالمی میڈیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب شامی دارالحکومت دمشق میں باغیوں کی پیش قدمی تیز ہو چکی تھی۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، دمشق میں باغیوں کے داخل ہونے سے پہلے بشار الاسد ایک طیارے کے ذریعے نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق، وہ 8 دسمبر کی علی الصبح ایک IL-76 (YK-ATA) طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نکلے، تاہم ان کی اصل منزل تاحال ایک راز بنی ہوئی ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق سے آج صبح روانہ ہونے والے سیرین ایئر لائن کے کارگو طیارے Ilyushin Il-76T کی 45 منٹ کی پرواز غیر معمولی طور پر ہنگامہ خیز رہی، جس کے بعد طیارہ ریڈار سے غائب ہو گیا۔ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ ممکنہ طور پر یہ طیارہ صدر بشار الاسد کو لے کر روس جا رہا تھا۔ طیارے نے صبح 4 بج کر 50 منٹ پر دمشق سے ٹیک آف کیا، لیکن پرواز سے پہلے ہی ریڈار سے غائب رہا۔ ابتدائی 15 منٹ کے دوران، طیارہ عراق کی طرف 21 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک اس کا رخ شام کے شورش زدہ شہر حمص کی طرف ہو گیا، اور رفتار بھی تیز کر دی گئی۔ صبح 5 بج کر 24 منٹ پر طیارہ حمص کے اوپر سے گزرا، اس وقت وہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ تاہم، صرف چار منٹ بعد، 5 بج کر 28 منٹ پر، طیارے نے ایک غیر متوقع موڑ لیا اور دوبارہ حمص کی طرف آنے لگا، لیکن اس بار طیارہ 16 ہزار فٹ کی بلندی تک نیچے آ گیا۔ ریڈار ڈیٹا کے مطابق، طیارہ حمص سے کچھ فاصلے پر صرف 1,625 فٹ کی بلندی پر تھا جب اچانک ریڈار سے مکمل طور پر غائب ہو گیا۔ اس کے بعد طیارے کی کوئی مزید تفصیلات یا رابطہ سامنے نہیں آیا۔ ریڈار سے حاصل کردہ آخری دو منٹ کی معلومات کے مطابق، طیارہ 8,725 فٹ کی بلندی سے تیزی سے نیچے آیا۔ اس کی رفتار 819 کلومیٹر فی گھنٹہ سے گھٹ کر 64 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی، جو ممکنہ طور پر کسی حادثے کی نشاندہی کرتی ہے۔ عالمی میڈیا میں یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ طیارے میں شام کے صدر بشار الاسد بھی موجود ہو سکتے تھے، جو ممکنہ طور پر روس کی جانب جا رہے تھے۔ کچھ غیر مصدقہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا ہے، جبکہ شامی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔ عرب میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شام کے وزیراعظم محمد غازی الجلالی نے کہا، "میرا صدر بشار الاسد سے آخری رابطہ ہفتے کی رات ہوا تھا۔ میں نے انہیں دمشق کی نازک صورتحال سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ اگلی صبح اس معاملے پر بات کریں گے۔" ان کے اس بیان نے مزید قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ عالمی میڈیا میں یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بشار الاسد کا طیارہ ممکنہ طور پر روس جا رہا تھا، لیکن تصدیق نہیں ہو سکی۔ کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، طیارہ باغیوں کے زیرِ اثر شہر حمص کے قریب گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ تاہم، سرکاری سطح پر کوئی وضاحت یا تصدیق تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے حکومت آزاد کشمیر کو پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس فوری طور پر واپس لینے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ ان کا یہ اقدام عوامی احتجاج اور حکومت مخالف مظاہروں کے بعد سامنے آیا ہے، جو آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف کئی روز سے جاری تھے۔ آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومتی وزرا کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان بات چیت ناکام ہونے کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ مظاہرین مظفر آباد سے انٹری پوائنٹ برارکوٹ کی طرف روانہ ہوئے اور برارکوٹ پہنچ کر دھرنا دے دیا۔ پونچھ ڈویژن میں بھی کوہالہ انٹری پوائنٹ اور پلندری میں ڈھلکوٹ کے انٹری پوائنٹ کو بند کر دیا گیا، جس سے علاقے میں ٹریفک معطل ہو گئی اور عوامی نقل و حمل بری طرح متاثر ہوئی۔ صدر آزاد کشمیر نے وزیراعظم چوہدری انوار الحق کو ایک باضابطہ خط لکھ کر حکومت کو آرڈیننس واپس لینے اور اس کے تحت گرفتار کیے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ حکومت آزاد کشمیر نے صدر کی ہدایت پر فوری عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت آزاد کشمیر نے تقریباً ایک ماہ قبل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے احتجاجی جلسے، جلوس اور مظاہروں پر پابندی عائد کی تھی۔ اس آرڈیننس کی خلاف ورزی کی سزا 7 سال تک قید مقرر کی گئی تھی، جس پر عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ بعد ازاں، 3 دسمبر کو آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے حکومت کے اس متنازع صدارتی آرڈیننس کو معطل کر دیا تھا، لیکن حکومت کی جانب سے مؤثر عمل درآمد جاری رہا، جس کے خلاف عوامی احتجاج نے شدت اختیار کر لی۔
خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں 14 سالہ لڑکے کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کرنے پر ایک پولیس اہلکار کو معطل اور گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق نوجوان نے پولیس کو رپورٹ کیا کہ ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) نے بونیر سے متصل باری کورٹ بازار میں اس تک پہنچا اور متاثرہ لڑکے سے فون نمبر مانگا۔ ایف آئی آر میں متاثرہ لڑکے نے الزام عائد کیا کہ ’جب میں نے فون نمبر بتایا تو اُس نے کہا کہ میں نے اس نمبر سے کسی کو دھمکی دی ہے، بعد ازاں وہ مجھے کارکر بونیر میں چیک پوسٹ پر لے گیا اور کچھ سوالات پوچھنے کے بعد میرے کپڑے اتار دیے اور جنسی حملہ کیا‘ متاثرہ نوجوان نے مزید الزام لگایا کہ میرے چیخنے چلانے پر اے ایس آئی نے مجھے جانے دیا اور دھمکی دی کہ کسی کو کچھ نہیں بتانا، مزید کہنا تھا کہ متاثرہ شخص اے ایس آئی کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ بونیر ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) شاہ حسین خان نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ ملزم کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور اس کے خلاف تھانہ جوار بونیر میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 379 (ریپ کی سزا) اور دفعہ 511 (جرم کرنے کی کوشش، جس کی عمر قید یا اس سے کم مدت کی سزا) شامل کی گئی ہیں۔ ڈی پی او کا مزید کہنا تھا کہ اے ایس آئی کو معطل کر دیا گیا اور کیس کی ایک انکوائری بھی شروع کر دی گئی ہے، جس کی ’صحیح تحقیقات‘ کی جائیں گی۔
حکومت نے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگینڈا اور شرانگیزی پھیلانے کے الزامات پر کارروائیاں مزید تیز کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے بیانیے اور شرپسند مواد پھیلانے کے الزامات پر مزید 13 افراد کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ جعلی خبریں اور نفرت انگیز مواد پھیلانے والے افراد میں سلیم اختر، سلمان ناصر، ساجد حسین، محمد خالد خورشید، عاصم ایوب اور بابر مظفر شامل ہیں۔ دیگر ملزمان میں شیر عظیم خان، مبین شاہ، علی حیدر، نادر حسین، چودھری ذوالفقار، جمیل مرزا اور محمد باسط ملک کے نام شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق مختلف شہروں سے ہے، جن میں گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، لیہ، رحیم یار خان، مظفر گڑھ، بہاولنگر، گلگت، غذر اور ژوب شامل ہیں۔ یہ کاروائیاں ملک گیر سطح پر جاری ہیں تاکہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق اس سے قبل بھی 19 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ تمام ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جا رہی ہے تاکہ معاشرے میں پھیلنے والے غلط معلومات اور شرپسندی کو روکا جا سکے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے کارروائیاں کرتے ہوئے 22 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں 6 جوان بھی شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جاری بیان میں بتایا کہ 6 اور 7 دسمبر کی درمیانی شب خیبر پختونخوا میں 3 مختلف آپریشن کیے گئے، جن کے نتیجے میں 22 خارجی دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع ٹانک کے علاقے گل امام میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا، فورسز کی مؤثر کارروائی کے نتیجے میں 9 خارجی دہشت گرد مارے گئے جبکہ 6 زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز نے ایک دوسری کارروائی میں 10 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ سیکیورٹی فورسز نے تیسرا آپریشن تھل ڈسٹرکٹ میں فورسز کی چوکی پر حملے کی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے تین خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق لیکن شدید فائرنگ کے تبادلے میں بہادری سے لڑتے ہوئے 6 جوان بھی شہید ہوئے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مزید کسی بھی خارجی دہشت گرد کو ختم کرنے کے لیے علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک بڑی عوامی سہولت کا اعلان کرتے ہوئے "سی ایم پنجاب فری سولر پینل اسکیم" کا افتتاح کر دیا۔ اس اسکیم کا مقصد عوام کو مہنگی بجلی کے بوجھ سے نجات دلانا اور توانائی کی پیداوار کے لیے پائیدار ذرائع کو فروغ دینا ہے۔ اسکیم کے تحت صوبے کے ایک لاکھ صارفین کو مفت سولر پینلز فراہم کیے جائیں گے، جن کے لیے درخواست کا عمل فوری طور پر ایس ایم ایس یا آن لائن پورٹل کے ذریعے شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے افتتاحی تقریب میں کہا کہ یہ اسکیم پنجاب کے عوام کے لیے ایک بڑا ریلیف ہے، جس سے نہ صرف بجلی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ کم ہوگا بلکہ ماحول دوست توانائی کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، "عوام کے وسائل صرف عوامی سہولت کے لیے استعمال ہوں گے، اور یہ اسکیم اسی عزم کی عکاس ہے۔" صوبائی سیکرٹری انرجی نے تقریب میں اسکیم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ سال بھر میں ایک لاکھ سولر سسٹم انسٹال کیے جائیں گے، اور یہ منصوبہ خاص طور پر ان صارفین کے لیے تیار کیا گیا ہے جو ماہانہ 200 یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ 100 یونٹ تک کے صارفین: 55,019 صارفین کو 550 واٹ کے سولر سسٹم دیے جائیں گے۔ 200 یونٹ تک کے صارفین: ان صارفین کو 1100 واٹ کے سولر سسٹم مفت فراہم کیے جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے نہ صرف توانائی کے بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ کاربن کے اخراج میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔ اندازہ ہے کہ اسکیم کے تحت پنجاب میں سالانہ 57 ہزار ٹن کاربن کا اخراج کم ہوگا۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت پر بجلی کی سبسڈی کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا، جس سے مجموعی معیشت کو استحکام ملے گا۔ مفت سولر پینل اسکیم نے عوام میں جوش و خروش پیدا کر دیا ہے، کیونکہ یہ منصوبہ نہ صرف توانائی کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے بلکہ مہنگائی کے دور میں گھریلو بجٹ پر بھی مثبت اثر ڈالے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ منصوبہ عوام کے لیے ایک طویل مدتی سرمایہ کاری ہے، جو انہیں بجلی کے بلوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ سے نجات دلائے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے معروف صحافی ارشد شریف قتل کیس کی از خود نوٹس سماعت بالآخر مقرر کر دی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ 9 دسمبر کو اس اہم کیس کی سماعت کرے گا۔ یہ پیش رفت 18 ماہ کی تاخیر کے بعد ہوئی ہے۔ یہ کیس ابتدائی طور پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے لیے اٹھایا تھا، اور 13 جون 2023 کو آخری بار باقاعدہ سماعت ہوئی تھی۔ اس وقت کیس ایک ماہ کے لیے ملتوی کیا گیا تھا، لیکن جولائی 2023 کے بعد سے یہ طویل التوا کا شکار ہو گیا۔ 29 جولائی 2024 کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس کیس پر غور کیا، لیکن سماعت آگے نہیں بڑھ سکی، اور معاملہ نئے بینچ کی تشکیل کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ ارشد شریف کی والدہ کی طرف سے کون وکیل پیش ہوگا؟ یہ سوال اہمیت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ سابق وکیل، جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی، اب این آئی آر سی کے چیئرمین بن چکے ہیں اور وہ کیس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ مزید برآں، شریف فیملی کے مطابق کئی سینئر وکلا پہلے ہی اس کیس کی پیروی سے معذرت کر چکے ہیں، جس کی وجہ سے ایک نیا وکیل مقرر کرنا چیلنج بن گیا ہے۔ ارشد شریف قتل کیس پاکستان میں ایک حساس اور اہم قانونی معاملہ بن چکا ہے، جس پر ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ ارشد شریف، جو ایک معروف اور بے باک صحافی کے طور پر جانے جاتے تھے، ان کے قتل نے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں، خاص طور پر پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے حوالے سے۔ ارشد شریف کے اہلخانہ، خصوصاً ان کی والدہ، انصاف کے لیے طویل عرصے سے منتظر ہیں۔ اس کیس میں تاخیر پر ان کی طرف سے کئی بار مایوسی کا اظہار کیا گیا، لیکن نئی سماعت کی تاریخ کا اعلان ایک امید کی کرن ہے
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے اندرونی اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کے ذریعے سماعت کرنے کی تجویز پر سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے درمیان اختلاف سامنے آیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے موقف اختیار کیا کہ اس آئینی ترمیم کے خلاف زیر التوا درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ تاہم، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جو کہ آئینی ترمیم کے ممکنہ فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں، نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی معاملات کی سماعت کے لیے درخواستوں کا تعین آئینی کمیٹی کرے گی، اور یہ جوڈیشل کمیشن کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی معاملات پر فیصلے کرنا جوڈیشل کمیشن کا دائرہ اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آئینی کمیٹی ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی مقدمات کی سماعت کا تعین کمیٹی کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس کی اس رائے کو کمیشن کے اکثریتی ارکان، جو حکومتی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں، نے حمایت فراہم کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار اور رولز بنانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اس دوران یہ فیصلہ ہوا کہ اس معاملے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، اور اس کمیٹی کے قیام کا اختیار چیف جسٹس کو سونپ دیا گیا۔ واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے قبل چیف جسٹس کو خط لکھا تھا جس میں تجویز دی گئی تھی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف زیر التوا درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کر دیا جائے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی، اور اس ترمیم کے خلاف متعدد درخواستیں عدالت میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ درخواستیں منظور ہو گئیں تو کمیشن کے فیصلوں کی قانونی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔ خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مشورہ دیا کہ چیف جسٹس رجسٹرار سپریم کورٹ کو 26ویں آئینی ترمیم کے مقدمات فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیں اور ان مقدمات کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ اس حساس مسئلے پر عدالت کا متفقہ فیصلہ سامنے آ سکے۔ اجلاس میں جسٹس شاہد بلال حسن کو آئینی بینچ میں شامل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ غور و خوض کے بعد اکثریتی اراکین کی حمایت سے انہیں آئینی بینچ کا حصہ بنا لیا گیا۔ یہ معاملہ خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ بینچ کی تشکیل آئندہ مقدمات کی سماعت پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس اجلاس کو 29 نومبر کو طلب کیا تھا تاکہ سویلینز کے ملٹری ٹرائلز سے متعلق مقدمات کے لیے آئینی بینچ تشکیل دیا جا سکے۔ آئینی بینچ کے حوالے سے جسٹس عائشہ اے ملک کی جگہ نئے جج کی شمولیت کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بینچز کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ جسٹس عائشہ ملک کو ان مقدمات کی سماعت کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ وہ پہلے ہی انٹرا کورٹ اپیلوں سے متعلق مقدمات کا حصہ رہ چکی ہیں۔ اس سے قبل 13 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ نے وضاحت کی تھی کہ جسٹس عائشہ ملک شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف فیصلہ دینے والے 7 رکنی بینچ کا حصہ تھیں، اس لیے وہ انٹرا کورٹ اپیلوں پر آئینی بینچ میں خدمات انجام نہیں دے سکتیں۔ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے رولز اور بینچز کی تشکیل جیسے اہم امور پر بھی غور کیا گیا، جن کا اثر آئندہ عدالتی کارروائیوں پر پڑے گا۔
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کا اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت سینیٹر پلوشہ خان نے کی۔ اجلاس میں انٹرنیٹ کی کارکردگی، وی پی این کی رجسٹریشن، اور قومی سلامتی کے نام پر انٹرنیٹ سروسز کی معطلی جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے۔ اجلاس میں کمیٹی اراکین نے انٹرنیٹ کی مجموعی کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سیکریٹری آئی ٹی نے اعتراف کیا کہ قومی سلامتی کے خطرات کے پیش نظر انٹرنیٹ سروس بند کی جاتی ہے، لیکن چیئرمین پی ٹی اے نے واضح کیا کہ انٹرنیٹ کو سست کرنے کی کوئی سرکاری پالیسی موجود نہیں۔ سینیٹر کامران نے سوال اٹھایا کہ کیا انٹرنیٹ معطلی کا مسئلہ صرف پاکستان کو درپیش ہے؟ بھارت جیسے ممالک بھی قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہیں، لیکن وہاں ایسی معطلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد مصطفیٰ نے وی پی این لائسنسنگ پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی اچانک معطلی سے تجارتی کام متاثر ہو رہے ہیں، اور اس صورتحال کو فوری طور پر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی چیئرپرسن پلوشہ خان نے وزارت آئی ٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہر مسئلے کا ملبہ وزارت داخلہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر وزارت آئی ٹی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکتی تو اس کا مقصد کیا ہے؟ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شیزہ فاطمہ نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی ایک وجہ تکنیکی مسائل اور بڑھتا ہوا ڈیٹا استعمال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں میں آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے مسائل مزید گمبھیر ہوگئے ہیں۔ تاہم انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اپریل 2024 میں فائیو جی اسپیکٹرم کی نیلامی سے انٹرنیٹ کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ چیئرمین پی ٹی اے نے اعلان کیا کہ یکم جنوری سے وی پی این کی لائسنسنگ شروع ہوگی، جس سے غیر قانونی وی پی این کے مسائل کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اجلاس میں چیئرمین پاشا نے وی پی این لائسنسنگ پالیسی پر تحفظات ظاہر کیے اور بتایا کہ یہ پالیسی یکم جنوری سے نافذ کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وی پی این کے استعمال سے انٹرنیٹ سست نہیں ہوتا۔ اس موقع پر سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ 2018 میں بھی وی پی این رجسٹرڈ کیے گئے تھے لیکن انٹرنیٹ کی رفتار متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اجلاس میں اسٹار لنک پروجیکٹ کے آغاز پر بھی گفتگو ہوئی۔ سینیٹر افنان اللہ نے استفسار کیا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوگا؟ وزیر مملکت شیزہ فاطمہ نے بتایا کہ اسٹار لنک جلد متعارف کرایا جائے گا، جس سے دیہی علاقوں میں بھی تیز انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے گا۔ اجلاس کے دوران اچانک انٹرنیٹ سگنلز غائب ہونے سے ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی۔ ارکان نے وزیر مملکت کو اپنے موبائل سگنلز دکھائے، جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ یہ مسئلہ چند منٹ میں حل ہو جائے گا۔ کچھ دیر بعد انٹرنیٹ بحال ہوا،
لاہور: شادی ہال میں تقریبات کے انعقاد پر اب بکنگ کرنے والوں کو 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جس کا اطلاق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔ شادی ہال ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس نے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس ٹیکس کی رقم تقریب منعقد کرنے والی پارٹی سے وصول کی جائے گی اور یہ شادی ہال کے کرائے سے الگ ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا بوجھ صرف بکنگ کرنے والوں پر پڑے گا اور اس کی وصولی میں ہال مالکان کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کے مطابق یہ اقدام ایف بی آر کے ٹیکس نظام کو مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، تاہم اس فیصلے کو شہریوں نے اسے اضافی مالی بوجھ قرار دیا
پشاور: خیبرپختونخوا اسمبلی نے ایک اہم پیشرفت میں "کے پی کے یونیورسٹیز ترمیمی بل 2024" کی منظوری دے دی ہے، جس کے نتیجے میں گورنر کے اختیارات مزید محدود ہو گئے ہیں۔ وزیر تعلیم نے اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا، جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس ترمیمی بل کے تحت تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے چانسلر کی ذمہ داری اب وزیراعلیٰ نبھائیں گے۔ اس کے علاوہ، وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعلیٰ کے پاس چلا جائے گا۔ یہ ترمیم صوبے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ جامعات کی خودمختاری پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے تعلیمی نظام مزید موثر ہوگا۔
پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے احتجاج کے دوران انٹرنیٹ کی سست روی کے معاملے پر وفاقی وزیر داخلہ اور وزارت آئی ٹی سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ درخواست پر سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکاخیل نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں احتجاج کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار دانستہ طور پر کم کر دی جاتی ہے، جس کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ وکیل نے مزید کہا کہ اس حکومتی اقدام سے نہ صرف عام عوام بلکہ کاروباری افراد کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ بند یا سست کرنے کی پالیسی بغیر کسی واضح حکم یا ضابطے کے نافذ کی جاتی ہے، جو شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس موقع پر حکومت کے مؤقف پر سوال اٹھایا۔ جسٹس وقار احمد نے استفسار کیا کہ کیا حکومت تسلیم کرتی ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار دانستہ طور پر کم کی جاتی ہے؟ جسٹس کامران حیات نے انٹرنیٹ کے مختلف ذرائع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لینڈ لائن انٹرنیٹ عموماً فعال رہتا ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ پر اس کا اثر زیادہ پڑتا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے سے متعلق مزید شواہد فراہم کریں اور آئندہ سماعت پر انٹرنیٹ سست روی کے اثرات کے حوالے سے تفصیلات پیش کریں۔ عدالت نے وفاقی وزارت داخلہ اور وزارت آئی ٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں سیکیورٹی فورسز نے ایک کامیاب آپریشن کے دوران 5 دہشت گردوں کو ہلاک اور 2 کو زخمی کردیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ کارروائی دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر کی گئی۔ خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑا آپریشن کامیابی سے مکمل کیا، جس کے دوران 5 دہشت گردوں کو ہلاک اور 2 کو زخمی کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ کارروائی خفیہ اطلاعات پر کی گئی اور دہشت گردوں کے خلاف شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن شروع کیا ہے، جس کا مقصد بچ جانے والے دہشت گردوں کو پکڑنا یا ختم کرنا ہے۔ اس آپریشن میں شامل فورسز نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی تھیں۔ یکم دسمبر کو بھی سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے دو مختلف اضلاع میں کارروائیاں کیں، جس میں 8 دہشت گرد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اس دوران پاک فوج کے جوانوں نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
گوجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وزیرآباد حملہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے چھ رہنماؤں، جن میں حماد اظہر، ڈاکٹر یاسمین راشد، اور عمر سرفراز چیمہ شامل ہیں، کے علاوہ 14 گواہان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ایکسپریس نیوز کے مطابق گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں وزیرآباد حملہ کیس کی سماعت ہوئی، جہاں مرکزی ملزم نوید مہر کو پیش کیا گیا۔ کیس کی کارروائی میں عدالت نے گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے، جبکہ متعدد گواہان کی غیرحاضری پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں حماد اظہر، ڈاکٹر یاسمین راشد، اور عمر سرفراز چیمہ سمیت 14 گواہان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ عدالت نے میڈیکل رپورٹ تیار کرنے والے ڈاکٹرز کو بھی بیان حلفی کے لیے طلب کر لیا اور پولیس کو حکم دیا کہ غیرحاضر گواہان کو 11 دسمبر تک گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

Back
Top