خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت سے 26 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کیس میں ڈسچارج کیے گئے درجنوں پی ٹی آئی کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے شناخت پریڈ کے بعد ملزمان کو ڈسچارج کرنے کا حکم دیا تھا اور پولیس کو دوبارہ گرفتاری کی صورت میں ہتھکڑیاں لگانے کا انتباہ بھی دیا تھا۔ تاہم پولیس نے عدالتی حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے ملزمان کو دوبارہ حراست میں لے لیا۔ ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے دوبارہ گرفتاری کی اطلاع عدالت کو دی اور پولیس کے رویے کو عدالتی فیصلے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر بھاری پولیس نفری تعینات کی گئی اور میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ پولیس اہلکاروں نے وہاں موجود صحافیوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا کہ جو میڈیا نمائندہ حکم نہ مانے گا، اسے گرفتار کرکے احتجاجی کیس میں شامل کر دیا جائے گا۔ ایس ایچ او اشفاق وڑائچ نے صحافیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا " یہاں سے میڈیا پیچھے چلا جائے ورنہ گرفتار کروا دونگا، اہلکاروں کو ہدایت کی کہ جو میڈیا والا بات نہیں مانتا اسکو فوری گرفتار کر کے احتجاج کے کیس میں ڈال دو "۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے تھانہ کھنہ کے 54، تھانہ آئی نائن کے 16 اور تھانہ کوہسار کے 11 ملزمان کو مقدمات سے ڈسچارج کیا تھا، جبکہ تھانہ کوہسار کے 48 ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سمیت دیگر رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کے خلاف دہشت گردی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت متعدد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
حکومت پنجاب کے ’مری ڈیولپمنٹ پلان‘ کے خلاف سیاستدان، تاجر اور عوام متحد ہو گئے ہیں۔ مری لوئر ٹوپہ کے مقام پر عوام کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا، جب کہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ جھیکا گلی بازار کی ری ماڈلنگ اور مال روڈ پر سیکشن فور کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ احتجاجی مظاہرے کے دوران سابق وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مری گرینڈ جرگے میں حکومت کے سوا تمام جماعتیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مری کے لوگ اپنا حق مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، حکومت کس قانون کے تحت عوام کی بلڈنگز گرا رہی ہے؟ شاہد خاقان عباسی نے حکومت کے اقدامات کو "جنگل کا قانون" قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی عمارتیں گرانا ترقی نہیں بلکہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں مری میں کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی، لیکن اب حکومت رات کے اندھیروں میں آئینی ترامیم کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عوامی حقوق کا تحفظ نہ کیا گیا تو مری کے عوام اپنے حقوق لینا بھی جانتے ہیں۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ترقیاتی منصوبے کے نام پر عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے بجائے لوگوں کے تحفظات دور کرے اور منصوبے پر نظرثانی کے لیے عوام کو اعتماد میں لے۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے رولز تشکیل دینے والی کمیٹی کے چیئرمین جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط ارسال کردیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے خط میں 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق کسی بھی تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے، اس لیے وہ اس پر بات نہیں کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کے خط میں واضح کیا گیا کہ ’’آپ کا 12 دسمبر 2024 کا خط مجھے گزشتہ روز موصول ہوا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’آئین پاکستان جوڈیشل کمیشن کو رولز تشکیل دینے کا اختیار فراہم کرتا ہے۔‘‘ خط کے مطابق، ’’چیف جسٹس نے آپ کی مشاورت سے 6 دسمبر 2024 کو میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔‘‘ چیئرمین رولز کمیٹی نے اپنے خط میں بتایا کہ کمیٹی کو ججز کی تعیناتی کے رولز ڈرافٹ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس حوالے سے دو اجلاس پہلے ہی منعقد ہو چکے ہیں۔ خط کے مطابق، ’’آپ کی طرف سے دی گئی تجاویز کا بیشتر حصہ پہلے ہی ڈرافٹ میں شامل کیا جا چکا ہے۔ یہ ڈرافٹ آپ کے خط سے پہلے ہی ذاتی طور پر آپ کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے۔‘‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے خط میں اس بات کا انکشاف کیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹس میں ججز کی تعیناتی کے لیے امیدواروں کے نام تجویز کیے ہیں۔ اس پر چیئرمین کمیٹی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا، ’’آپ اپنے امیدواروں کے نام رولز کی منظوری کے بعد تجویز کریں۔‘‘ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں 26ویں آئینی ترمیم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ترمیم نے ججز تقرری کے اختیارات کا توازن بگاڑ دیا ہے اور جوڈیشل کمیشن میں ایگزیکٹو کو اکثریت فراہم کر دی ہے، جس سے عدلیہ میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ عدلیہ کو ہمیشہ سے ججز کی تقرری کا اختیار حاصل رہا ہے، لیکن نئی آئینی ترمیم سے یہ عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ اس خط کے جواب میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کے نظریے کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عدلیہ میں قابل اور ایماندار افراد کی تقرری انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے رولز کی تیاری پر کام جاری ہے اور اس سلسلے میں کمیٹی کے دو اجلاس پہلے ہی منعقد ہو چکے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے خط میں کہا کہ انہیں جسٹس منصور علی شاہ کی طرف سے دی گئی تجاویز کا علم ہے اور بیشتر نکات پہلے ہی رولز کے مسودے میں شامل کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی عمل کے شفاف اور آئینی دائرے میں رہنے کو یقینی بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گزشتہ پانچ روز کے دوران کیے گئے آپریشنز میں 43 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ کارروائیاں خفیہ اطلاعات پر کی گئیں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 12 اور 13 دسمبر کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے ضلع لکی مروت میں خفیہ اطلاع پر ایک بڑا آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں چھ خارجی دہشت گرد مارے گئے۔ مزید بتایا گیا کہ 9 دسمبر 2024 سے اب تک خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 18 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ بلوچستان میں بھی سیکیورٹی فورسز نے 13 دسمبر کو موسیٰ خیل اور پنجگور اضلاع میں دو مختلف آپریشنز کیے۔ ان کارروائیوں میں شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران 10 دہشت گرد مارے گئے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں 9 دسمبر سے اب تک بلوچستان میں 25 دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک علاقے میں مکمل امن بحال اور دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہیں اور ان آپریشنز سے فتنہ الخوارج سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ کارروائیاں ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب پاکستان کو دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کے تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پِپس) کے حالیہ ’ماہانہ سیکیورٹی ریویو آف پاکستان‘ کے مطابق، نومبر 2024 میں ملک میں 61 دہشت گرد حملے ہوئے، جو پچھلے مہینے کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہیں۔ ان حملوں میں اموات کی تعداد بھی 69 فیصد بڑھ کر 100 سے 169 ہو گئی، جب کہ 225 افراد زخمی ہوئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کے لیے 17 دسمبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کاز لسٹ اور نوٹسز بھی جاری کر دیے ہیں۔ اسی روز عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمشنر کا مقدمہ بھی سنا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی سابقہ سماعت 21 نومبر کو ہوئی تھی، جس میں عمران خان کو آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ کیس کی سماعت الیکشن کمیشن کے ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے کی تھی۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے خیبرپختونخوا کے ممبر نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے تو ان کی حاضری کیوں ممکن نہیں؟ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل کو کسی اور کیس میں گرفتار کیا گیا ہے، مگر قانونی تقاضوں کے تحت شواہد ریکارڈ کرنے کے لیے ملزم کی موجودگی ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کے ممبر سندھ نے بتایا کہ حکام کی جانب سے عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی ہدایت دی کہ آئندہ سماعت پر عمران خان کی حاضری ویڈیو لنک کے ذریعے یقینی بنائی جائے۔ کیس کا پس منظر اگست 2022 میں الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختلف تقاریر، پریس کانفرنسز اور انٹرویوز کے دوران الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ کے خلاف الزامات عائد کرنے پر نوٹسز جاری کیے تھے۔ کمیشن نے عمران خان کو توہین الیکشن کمیشن اور توہین چیف الیکشن کمشنر کے الزامات میں وضاحت کے لیے طلب کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے نوٹس میں عمران خان کے متعدد بیانات اور تقاریر کا حوالہ دیا گیا، جن میں انہوں نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر سنگین الزامات عائد کیے اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی۔ یہ بیانات الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں نمایاں طور پر نشر اور شائع ہوئے تھے۔ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق، عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19 جولائی، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر میں الیکشن کمیشن کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔ 12 جولائی کو بھکر کے جلسے میں بھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز بیانات دیے، جنہیں اگلے روز قومی اخبارات میں بھی شائع کیا گیا۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے جمعرات کے روز تمام چاروں صوبائی حکومتوں سے کہا کہ وہ اپنے بجلی کے بلوں کی 150 ارب روپے کی ادائیگیاں کریں تاکہ بجلی کی بندش اور قومی معیشت کو مالی نقصان سے بچایا جا سکے۔ الگ الگ خطوط میں، وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے چاروں وزرائے اعلیٰ سے اپیل کی کہ وہ اپنے محکموں کے خلاف واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے ذاتی مداخلت کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ "محدود مالی وسائل کے ساتھ، تقسیم کار کمپنیاں بلا تعطل بجلی کی فراہمی جاری رکھنا مشکل سمجھتی ہیں، جبکہ وفاقی حکومت کو مالی نقصان اور معیشت کو نقصان پہنچانے والے گردشی قرض کا سامنا ہے۔" ان خطوط کے مطابق، سندھ 59.68 ارب روپے کے واجب الادا بلوں کے ساتھ سرفہرست ہے (ستمبر تک)، اس کے بعد بلوچستان کے 39.6 ارب روپے اور پنجاب کے 38.01 ارب روپے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ذمہ سب سے کم 8.88 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ مسٹر لغاری نے وزرائے اعلیٰ کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے بجلی کی کمپنیوں کو موثر خدمات کی فراہمی کے راستے پر لانے کے لیے کئی اصلاحاتی اقدامات شروع کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "اصلاحات کے روڈ میپ کا ایک اہم حصہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی مالی صحت کو مستحکم کرنا ہے۔" یہ زیادہ مالی وسائل پیدا کرنے اور بجلی چوری کی روک تھام اور وقت گزرنے کے ساتھ جمع ہونے والے واجب الادا بلوں کی وصولی پر توجہ مرکوز کرنے پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی ڈویژن واجب الادا بلوں کی وصولی کے لیے مہم چلا رہا ہے، جس میں دیگر چیلنجز کے علاوہ ایک اہم مسئلہ صوبائی حکومت کے محکموں کے واجب الادا بل ہیں، جو اربوں روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے وزرائے اعلیٰ سے اپیل کی کہ وہ ذاتی طور پر مداخلت کریں اور صوبائی محکموں کو بجلی کے واجب الادا بلوں کی ادائیگی کی ہدایت کریں۔ وزیر نے مزید کہا کہ پاور ڈویژن اور Discos کی انتظامیہ وضاحت اور بلوں کی مفاہمت کے لیے مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ سب سے بڑا نادہندہ سندھ کے حکومتی محکموں کے کل واجب الادا بل 59.68 ارب روپے ہیں، جن میں سے 38.16 ارب روپے سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) اور 21.5 ارب روپے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) کو ادا کرنے ہیں۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (قیسکو) کو بلوچستان حکومت سے تعلق رکھنے والے سرکاری صارفین کی جانب سے سب سے زیادہ غیر ادا شدہ بلوں کا سامنا ہے۔ پنجاب میں پانچ ڈسکوز کو پنجاب حکومت کے محکموں سے 38.01 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) پنجاب میں سب سے زیادہ متاثر ہے، جس کے 17.27 ارب روپے ستمبر تک واجب الادا ہیں، اس کے بعد ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کو 9.90 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ دیگر تین ڈسکوز — فیصل آباد، اسلام آباد، اور گوجرانوالہ کی کمپنیاں — عوامی شعبے سے بالترتیب 5.05 ارب روپے، 2.93 ارب روپے، اور 2.84 ارب روپے کی واجب الادا رقم رکھتی ہیں۔ اسی طرح، خیبر پختونخوا کے سرکاری محکموں کو پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کو 6.75 ارب روپے اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو) کو 2.30 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
پشاور : خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے شہباز شریف کو ہٹانے اور بلاول کو لانے کیلئے ایوان صدرمیں خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف کیا۔ صوبائی مشیر بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا کہ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کے خفیہ مشن پر ہے، شہباز شریف کو ہٹانے اور بلاول کو لانے کے لئے ایوان صدر میں خفیہ ملاقاتیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلاول زرداری شیروانی پہننے کے لئے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔باپ بیٹے دونوں وزارت عظمیٰ کی کرسی کیلئےسرگرم ہیں۔ بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ دونوں خاندان چوری شدہ مینڈیٹ پر کرسی کے مزے لے رہے ہیں،چوری شدہ مینڈیٹ کیخلاف ہماری تحریک منطقی انجام کےقریب ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ ہفتے 18 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 11 اشیا کے دام میں کمی واقع ہوئی۔ یہ رپورٹ عوام کے روزمرہ کے اخراجات پر براہ راست اثر انداز ہونے والی ضروری اشیا کی قیمتوں میں تبدیلی کا ایک جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چکن، گھی، کوکنگ آئل، ایل پی جی اور آلو جیسی اہم اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ خاص طور پر پیاز کی قیمت میں تین اعشاریہ پانچ آٹھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ دال چنا اور لہسن جیسے بنیادی اجناس کی قیمتوں میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔ ادارے نے چاول، دال ماش، گندم کا آٹا اور جلانے کی لکڑی جیسی اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی کی نشاندہی کی۔ سالانہ بنیاد پر قیمتوں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ دال چنا ساٹھ فیصد، دال مونگ اور آلو 36 فیصد، جبکہ خشک دودھ 26 فیصد تک مہنگا ہوا ہے۔ اسی طرح بڑا گوشت 24 فیصد اور ٹماٹر 21 فیصد مہنگے ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ پیاز، چاول اور چینی کی قیمتوں میں سالانہ بنیاد پر نمایاں کمی بھی نوٹ کی گئی۔ وفاقی ادارہ شماریات نے بجلی کے ٹیرف میں غریب طبقے کے لیے سات فیصد کمی کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں تقریباً دس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ دوسری جانب لہسن کے دام سولہ فیصد، جوتوں کی قیمتیں پچھتر فیصد اور گیس چارجز میں سولہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کپڑوں کی قیمتوں میں بھی پندرہ فیصد جبکہ جلانے کی لکڑی کی قیمتوں میں بارہ فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وار شرح صفر اعشاریہ سات فیصد بڑھی ہے، جبکہ سالانہ بنیاد پر یہ شرح تین اعشاریہ سات ایک فیصد کی کم سطح پر آچکی ہے۔ یہ صورتحال ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا واضح اشارہ ہے، جس کا براہ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کی تقرری کے حوالے سے ایک اہم خط لکھا ہے جس میں انہوں نے چیئرمین رولز کمیٹی جسٹس جمال خان مندو خیل کو مخاطب کیا۔ اس خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے 26ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس میں ججز کی تقرری کے حوالے سے اختیارات کے توازن کو بگاڑ کر ایگزیکٹو کو اکثریت دے دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں عدلیہ میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا کہ آئینی عدالتوں میں ججز کی تقرری کے لیے رولز کی تشکیل نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ قانون کی حکمرانی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت جوڈیشل کمیشن کو رولز تشکیل دینے کا اختیار دیا گیا ہے، اور ججز کی تقرری کے حوالے سے اگر رولز نہ بنائے جائیں تو جوڈیشل کمیشن کے اقدامات غیر آئینی قرار پائیں گے۔ خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے واضح طور پر کہا کہ ملک میں عدلیہ کو ہمیشہ ججز کی تقرری کا اختیار حاصل رہا ہے، لیکن 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس اختیار کے توازن کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ اس ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ایگزیکٹو کو اکثریت دے دی گئی ہے جس سے عدلیہ میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے لیے شفاف رولز کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کے بغیر نہ صرف عوام کا عدلیہ پر اعتماد متاثر ہوگا بلکہ عدلیہ کی آزادی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججز کی تقرری سیاسی وجوہات کے بجائے مضبوط استدلال اور شفافیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو اور ججز کی تقرری کے لیے ایسے رولز بنائے جائیں جو عدلیہ کی آزادی اور میرٹ کو یقینی بنائیں، تاکہ صرف وہ ججز تعینات ہوں جو قانون کی پاسداری کرنے والے ہوں اور عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں۔ انہوں نے رولز تشکیل دینے والی کمیٹی سے اپیل کی کہ وہ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ججز کی تعیناتی کو ممکن بنائیں۔ واضح رہے گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے ججز کی تعیناتی کے لیے رولز ترتیب دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ 6 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے دو اجلاس ہوئے، جن میں کمیشن کے تمام اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس میں جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور سینیٹر علی ظفر نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے ججز کی تعیناتی کے لیے رولز ترتیب دینے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کی سربراہی جسٹس جمال خان مندو خیل کریں گے۔ کمیٹی میں اٹارنی جنرل، بیرسٹر علی ظفر، فاروق ایچ نائیک، اور سینئر وکیل اختر حسین شامل ہیں۔ اعلامیے کے مطابق کمیٹی کو سیکریٹری جوڈیشل کمیشن اور سپریم کورٹ کے دو ریسرچرز کی معاونت بھی حاصل ہوگی۔ کمیٹی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ججز کی تعیناتی سے متعلق رولز کا ڈرافٹ 15 دسمبر تک تیار کرلے۔ اجلاس میں جسٹس شاہد بلال حسن کی آئینی بینچ میں شمولیت کی منظوری بھی دی گئی۔ علاوہ ازیں، دوسرے اجلاس میں پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کا معاملہ موخر کر دیا گیا۔ ایڈیشنل ججز کی نامزدگی کے لیے آخری تاریخ 10 دسمبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔ اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی بھی 21 دسمبر تک موخر کر دی گئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق جسٹس عدنان الکریم میمن اور جسٹس آغا فیصل کو سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کا رکن تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ دونوں ججز کی تعیناتی کی منظوری جوڈیشل کمیشن کے ارکان نے کثرت رائے سے دی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن بل پر تفصیلی قانونی اعتراضات اٹھائے ہیں جن میں پہلے سے موجود قوانین، قانونی تضادات، اور مجوزہ بل کے ممکنہ اثرات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اعتراضات دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے انتظامی معاملات پر محیط ہیں، جنہیں بل کے ناقدین اور حامیوں کے درمیان شدید بحث کا موضوع بنایا جا رہا ہے۔ آصف زرداری نے اپنے اعتراضات میں پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان قوانین کی موجودگی میں مدارس کی رجسٹریشن کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کو بھی قابلِ عمل قرار دیا جو اسلام آباد میں نافذ ہے۔ ان کے مطابق بل میں مدارس کی رجسٹریشن کے لیے جو نئی شرائط شامل کی گئی ہیں، وہ موجودہ قوانین سے متصادم ہیں اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کریں گی۔ صدر مملکت کے مطابق بل میں مدارس کی تعریف اور رجسٹریشن کی شرائط میں تضاد موجود ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مدارس کو سوسائٹی کے طور پر رجسٹر کرنے سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں تعلیمی مقاصد کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے مفادات کا ٹکراؤ، فرقہ وارانہ کشیدگی، اور امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کے مطابق بل میں مدارس کی رجسٹریشن کے لیے مخصوص جغرافیائی دائرہ کار بھی واضح نہیں کیا گیا، جو کہ قانونی عمل کے لیے ضروری ہے۔ دوسری جانب، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بل کی منظوری میں تاخیر پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مدارس کے معاملے کو بلا وجہ الجھایا جا رہا ہے اور بل پر دستخط نہ کرنے کی کوئی واضح وجہ نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے حوالے سے بل حکومت نے خود تیار کیا تھا اور اسے دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور کرایا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس بل کے مسودے کی تیاری میں شامل تھیں، پھر بھی صدر زرداری کی جانب سے دستخط روکے جانا ناقابلِ فہم ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے بھی سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بل کی منظوری میں تاخیر پر شدید احتجاج کیا اور اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مدارس بل پر مزید تاخیر کی گئی تو وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے اور حکومت کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دیں گے۔ مدارس رجسٹریشن بل، جسے ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مقصد مدارس کی قانونی حیثیت کو منظم کرنا، مالی شفافیت کو یقینی بنانا، اور تعلیمی معیار میں بہتری لانا ہے۔ بل میں دینی مدارس کی لازمی رجسٹریشن، مالی آڈٹ، سالانہ تعلیمی رپورٹس کی جمع آوری، اور شدت پسندی یا فرقہ واریت کو فروغ دینے والے مواد پر پابندی جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ بل کی شقوں کے مطابق، مدارس کے نصاب میں عصری مضامین کی شمولیت بھی لازمی قرار دی گئی ہے تاکہ طلبہ کو جدید علوم سے آراستہ کیا جا سکے۔ مدارس بل کیا ہے؟ 20 اکتوبر 2024 کو پاکستان کے سینیٹ میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک جامع بل پیش کیا گیا، جسے "سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024" کا نام دیا گیا۔ اس بل کا مقصد مدارس کی قانونی حیثیت، انتظامی امور، اور مالی شفافیت کو بہتر بنانا ہے۔ بل میں متعدد شقیں شامل کی گئی ہیں جو مدارس کی رجسٹریشن اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو باقاعدہ بنانے کے لیے ضروری قواعد و ضوابط متعین کرتی ہیں۔ مدارس کی لازمی رجسٹریشن بل کے تحت ہر دینی مدرسے کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے، چاہے اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے۔ رجسٹریشن نہ کرنے والے مدارس کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ: شق 21: دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عنوان سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔ شق 21-اے: جو مدارس بل کے نافذ ہونے سے پہلے قائم کیے گئے ہیں، انہیں چھ ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ شق 21-بی: بل کے نافذ ہونے کے بعد قائم کیے جانے والے مدارس کو ایک سال کے اندر اپنی رجسٹریشن مکمل کرنا ہوگی۔ مدارس کی تعلیمی اور مالی شفافیت بل کی شق 2 میں مدارس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرائیں، تاکہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ مزید برآں، بل کی شق 3 کے تحت مدارس کو اپنے مالی معاملات کی جانچ پڑتال کروانے اور آڈٹ شدہ رپورٹس رجسٹرار کو جمع کرانے کی بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ نفرت انگیز مواد کی ممانعت بل کی شق 4 کے مطابق مدارس کو ایسا تعلیمی مواد پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت، یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔ تاہم، قرآنی تعلیمات، اسلامی فقہ، یا مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے کی اجازت دی گئی ہے، تاکہ مذہبی تحقیق اور مکالمے کو روکا نہ جا سکے۔ عصری نصاب کی شمولیت شق 5 کے مطابق مدارس کو اپنے تعلیمی نظام میں جدید مضامین جیسے سائنس، ریاضی، اور کمپیوٹر سائنس شامل کرنے کا پابند بنایا گیا ہے تاکہ طلبہ کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ قانونی تحفظ اور دیگر قوانین سے استثنیٰ بل کی شق 6 میں وضاحت کی گئی ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کسی دوسرے نافذالعمل قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔ شق 7 کے مطابق ایک بار مدارس اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوجائیں تو انہیں کسی اور قانون کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مدارس کی تعریف بل میں دینی مدرسے سے مراد ایسا تعلیمی ادارہ یا جامعہ دارالعلوم ہے جو مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہو اور جسے کسی بھی نام سے پکارا جاتا ہو۔ یہ شق مدارس کی قانونی حیثیت کو مزید واضح اور مستحکم کرتی ہے۔
وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں میں کروڑوں روپے مالیت کی سرکاری گاڑیوں کے غیر قانونی استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔ کابینہ ڈویژن نے اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنوں کو گاڑیاں واپس کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں میں درجنوں سرکاری گاڑیاں غیر ضروری طور پر زیر استعمال ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے ذرائع کے مطابق، یہ گاڑیاں منصوبے مکمل ہونے کے باوجود واپس نہیں کی گئیں اور مختلف وزارتوں میں ذاتی اور غیر متعلقہ امور کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ کابینہ ڈویژن نے خط میں تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مکمل ہو چکے منصوبوں کی سرکاری گاڑیاں فوری طور پر سینٹرل پول کے حوالے کریں۔ خط میں واضح کیا گیا ہے کہ اسٹاف کار رولز کے مطابق تمام سرکاری گاڑیاں منصوبے کی تکمیل کے بعد کابینہ ڈویژن کو واپس کی جانی چاہییں۔ ذرائع کے مطابق، کابینہ ڈویژن وزارتوں کو منصوبوں کی نوعیت کے مطابق گاڑیاں الاٹ کرتا ہے اور ان کی واپسی کا باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے۔ تاہم، کئی وزارتوں میں یہ گاڑیاں گریڈ 20 اور اس سے اوپر کے افسران کے ذاتی استعمال میں ہیں، جو قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
حکومت پاکستان نے بجلی پیدا کرنے والے آٹھ خودمختار اداروں (آئی پی پیز) سے نئے معاہدوں کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد بجلی کے بلوں میں کمی اور قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ تاہم، یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا ان معاہدوں سے عوام کو واقعی ریلیف ملے گا؟ آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدوں کی منظوری وفاقی کابینہ کی جانب سے دی گئی، جن میں جے ڈی ڈبلیو یونٹ ون، یونٹ رحیم یار خان ملز، چنیوٹ پاور، حمزہ شوگر، المعیز پاور پلانٹ، تھل انڈسٹریز اور چنار انرجی شامل ہیں۔ ان معاہدوں کی سفارش ٹاسک فورس برائے انرجی نے کی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس فیصلے سے قومی خزانے کو سالانہ 238 ارب روپے کی بچت ہوگی، جس سے بجلی کے بلوں میں کمی کی امید کی جا رہی ہے۔ یہ پیشرفت رواں سال اکتوبر میں شروع ہونے والے معاہدوں کی نظرثانی کے عمل کا تسلسل ہے، جب حبکو پاور کمپنی، لال پیر پاور، روش پاور، صبا پاور اور اٹلس پاور کے ساتھ معاہدے دوبارہ طے کیے گئے تھے۔ اب تک کل 13 آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کیے جا چکے ہیں۔ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ عوام اور صنعت کاروں کی جانب سے طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق، سابقہ معاہدوں کے تحت حکومت آئی پی پیز سے بجلی خریدے یا نہ خریدے، انہیں کیپیسٹی پے منٹ کے تحت ادائیگی کی پابند تھی۔ یہ نظام بجلی کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے عوام پر بھاری مالی بوجھ پڑتا رہا ہے۔ ملک میں بجلی پیدا کرنے والے 101 خودمختار ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں فرنس آئل، آر ایل این جی، پانی، کوئلہ، بیگاس، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ تاہم، نئے معاہدوں میں شامل آٹھ اداروں کی مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے، جو ملک کی مجموعی 42 ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا ایک معمولی حصہ ہے۔ توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگاس جیسے ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کی مقدار انتہائی محدود ہے، اس لیے بجلی کے بلوں میں زیادہ سے زیادہ صرف ایک روپے فی یونٹ کمی کی جا سکتی ہے۔ ماہر عافیہ ملک کے مطابق، کیپیسٹی پے منٹ کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کیے بغیر بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی ممکن نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئے معاہدوں کا مقصد حکومت کی جانب سے عوامی دباؤ کو کم کرنا اور توانائی کے شعبے میں کی جانے والی تنقید کا جواب دینا ہے۔ تاہم، معاہدوں کی اصل افادیت اور عوامی ریلیف کا انحصار آنے والے مہینوں میں سامنے آنے والے عملی اقدامات پر ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شیر افضل مروت نے ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد سید علی رضا سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کرکے ان کے خلاف قومی اسمبلی میں دیے گئے متنازع ریمارکس واپس لے لیے۔ شیر افضل مروت گزشتہ روز اسلام آباد پولیس کے دفتر پہنچے، جہاں انہوں نے ڈی آئی جی آپریشنز سید علی رضا سے ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں کے درمیان خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی، جس کے بعد پی ٹی آئی رہنما نے اپنے پچھلے بیانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں واپس لینے کا اعلان کیا۔ شیر افضل مروت نے کہا، "میں نے قومی اسمبلی کے فلور پر جو الفاظ سید علی رضا کے بارے میں کہے تھے، وہ نامناسب تھے اور میں انہیں واپس لیتا ہوں۔" انہوں نے اپنے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ سیاسی معاملات میں بعض اوقات جذباتی ردعمل سامنے آجاتا ہے، لیکن وہ ذاتی رنجش نہیں رکھتے۔ یہ تنازع اس وقت سامنے آیا تھا جب شیر افضل مروت نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ تاہم، انہوں نے موجودہ ملاقات میں غلط فہمیوں کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ قائم رکھنا ضروری ہے۔
اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے واقعات پر وزیراعظم شہباز شریف نے سخت کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ پیر کے روز امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح ہدایات جاری کیں کہ ملک میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ شہباز شریف نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس دوران یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی بے گناہ شہری کو حراست میں نہ لیا جائے۔ وزیراعظم نے انتشار پھیلانے والوں کی نشاندہی کے لیے ٹھوس ثبوت اکٹھا کرنے کا عمل بھی مزید مؤثر بنانے کی تاکید کی۔ اجلاس میں وزیراعظم نے واضح کیا کہ معیشت کی بہتری اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ بننے والی کسی بھی کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک پہلے ہی معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے، ایسے میں ہنگامہ آرائی ملک کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم نے فسادات پر قابو پانے کے لیے قائم کی گئی خصوصی ٹاسک فورس کو ہر ممکن وسائل فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور شرپسند عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام نے وزیراعظم کو ہنگامہ آرائی کے واقعات، گرفتار افراد اور اب تک کی کارروائیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اجلاس میں وفاقی وزراء، مشیران اور اعلیٰ حکام بھی شریک تھے، جنہوں نے ملک میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی اہم شخصیات پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں، لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا نام ایک طویل عرصے سے سیاسی اور عسکری حلقوں میں زیربحث رہا ہے۔ آج انہیں کورٹ مارشل کی کارروائی کیلئے باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے، جس میں ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ الزامات ان کی مبینہ سیاسی مداخلت، حکومتی معاہدوں میں کردار اور آئینی ذمہ داریوں کی خلاف ورزیوں سے متعلق ہیں۔ فیض آباد دھرنے سے متعلق کردار لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا نام پہلی بار نومبر 2017 میں اس وقت منظرعام پر آیا جب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ان کا نام "بوساطت میجر جنرل فیض حمید" تحریری طور پر شامل کیا گیا۔ معاہدے کے مندرجات کے مطابق انہوں نے دھرنا ختم کروانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کیا، جس پر شدید سیاسی اور عوامی ردعمل سامنے آیا۔ ناقدین نے اسے آئینی حدود سے تجاوز اور سیاسی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا۔ سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات ان پر سب سے سنگین الزام سیاسی معاملات میں مداخلت کا ہے۔ یہ الزامات خاص طور پر اس وقت زیادہ نمایاں ہوئے جب انہیں حساس ترین ادارے کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا۔ ان پر مبینہ طور پر سیاسی جماعتوں کے اندرونی معاملات، اہم سیاسی فیصلوں اور حکومتی معاہدوں میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ سیاسی انتقام اور گرفتاریوں کا معاملہ فیض حمید پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ ان کے دور میں سیاسی انتقام کی پالیسی اختیار کی گئی۔ مختلف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں، وفاداریوں کی تبدیلی اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے متعدد واقعات ان کے نام سے جوڑے گئے۔ یہ الزامات زیادہ تر پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران سامنے آئے جب اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے اور احتساب کے عمل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بات کی جاتی رہی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی تنقید سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی کئی تقریروں میں فیض حمید کا نام لے کر ان پر سنگین الزامات عائد کیے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں دعویٰ کیا کہ فیض حمید کی سیاسی مداخلت نے ملک کے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا اور حکومتی معاملات کو غیر آئینی انداز میں متاثر کیا۔ نواز شریف نے انہیں اپنے دور حکومت میں ہونے والی مشکلات کا اہم ذمہ دار قرار دیا۔ کابل دورہ اور عالمی تنقید طالبان کی افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے بعد ستمبر 2021 میں فیض حمید کے کابل دورے نے بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی۔ ان کی ایک تصویر، جس میں وہ ایک کافی کپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور شدید تنقید کا نشانہ بنی۔ کئی ناقدین نے اس دورے کو پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں عسکری مداخلت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ قانون سازی میں مداخلت کے الزامات ایک اور اہم الزام اسمبلی اجلاسوں اور قانون سازی کے عمل میں مداخلت سے متعلق ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ فیض حمید نے حکومتی اتحادیوں کو اہم اجلاسوں میں شرکت پر مجبور کیا اور قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کے لیے اراکین کی حاضری کو یقینی بنانے میں کردار ادا کیا۔ یہ الزامات ملک کے سیاسی ماحول میں مزید تلخی کا سبب بنے۔ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر شدید الزامات عائد کیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ فیض حمید نے عدالتی معاملات میں مداخلت کی اور بعض مقدمات میں عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ جج شوکت عزیز کے ان بیانات نے ملکی عدالتی اور سیاسی نظام میں ہلچل مچا دی اور ان کے الزامات آج بھی عوامی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث رہتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاست اور حکمت عملی پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے قوم اور سیاست میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن اب خود اسی تقسیم کا شکار ہوچکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریکِ انصاف صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کی مہم چلا رہی ہے، جو کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ عطاتارڑ نے کہا فائنل کال کا مطلب ہوتا ہے بس اب ہم سب اڑا کر رکھ دیں گے تو سوال یہ ہے ڈی چوک سے کیوں دوڑ لگائی ؟ اس کا جواب نہیں ہے کہ دوڑ کیوں لگائی۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے قوم کو سول نافرمانی کی تحریک میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن خیبرپختونخوا کی کابینہ کے اراکین نے عمران خان کے اس بیانیے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جب کسی نے سیاسی مفاد کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو مقدم رکھا۔ "یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا کی کابینہ کے ارکان نے سیاسی مفاد کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو ترجیح دی ہے۔" انہوں نے صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا، "ہم نے پالیسی فیصلہ کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ انہیں پکڑ کر عوام کے سامنے لایا جائے گا۔" ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنانا نہ صرف آزادی صحافت پر حملہ ہے بلکہ یہ ایک مجرمانہ عمل بھی ہے جس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ وفاقی وزیر نے فوج اور قومی سلامتی کے اداروں پر ہونے والی تنقید پر تحریک انصاف کو سخت تنبیہ کی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کے افسران اور جوان ملک کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور ایسے وقت میں ان پر حملے کرنا دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ "جو کوئی بھی فوج اور سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ پاکستان کے مخالف ملکوں کے پروپیگنڈے کا حصہ بنتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "پی ٹی آئی نے فوجی اداروں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے کبھی اسرائیلی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی بات نہیں کی۔ یہ لوگ فلسطین کے حق میں ہونے والی اے پی سی میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔" انہوں نے تحریک انصاف پر الزام عائد کیا کہ وہ دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے۔ "یہ سب گولڈ اسمتھ کا ایجنڈا ہے۔ 9 مئی کے واقعات اسی سلسلے کی سازش تھے تاکہ فوج کو کمزور کیا جاسکے۔ آپ میں اتنی ہمت ہے کہ آپ فوج سے ٹکر لے سکیں ؟ ایک صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم ٹکر کے لوگ ہیں، ٹکر کے لوگ تھکڑ سے لوگ بھی نہیں نکلے، انتشار پھیلانے والوں کا بندوبست کیا جائے گا۔" عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات اسی سازش کا حصہ تھے کہ فوج کو کمزور کرکے دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ عطا اللہ تارڑ نے مطیع اللہ جان کے معاملے پر صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ بحفاظت گھر واپس پہنچ چکے ہیں اور یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آزادی صحافت کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اور کسی بھی قسم کی دھمکیوں یا حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ان عناصر کی نشاندہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے جو بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ "ہم ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے ان لوگوں کو شناخت کر رہے ہیں جو ملک کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں دفاعی اداروں کی تضحیک کی اجازت دی جاتی ہے؟" مدارس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ حکومت مدارس کے طلبہ کے لیے ایک ایسا نظام لانا چاہتی ہے جس سے ان کا مستقبل محفوظ ہو۔ انہوں نے کہا، "ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ انجینئر، ڈاکٹر، یا کسی بھی شعبے کے ماہر بن سکیں۔" انہوں نے بتایا کہ علماء کرام کے ساتھ ملاقات میں مدارس کے انتظامی امور اور اصلاحات پر بات چیت ہوئی اور مولانا فضل الرحمان سمیت تمام مکاتب فکر کی تجاویز کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ "ہم حکومت ہیں اور ہمارا کام ہی سب کی بات سننا اور اس کا حل نکالنا ہے۔"
حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے اہم کاروباری یونٹ پریسجن انجینئرنگ کمپلیکس (PEC) کو پاک فضائیہ (PAF) کو فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس معاہدے کی مالیت 6.5 ارب روپے مقرر کی گئی ہے، جس میں نقد ادائیگی اور پنشن واجبات شامل ہیں۔ یہ اقدام ملکی فضائی صنعت کے مستقبل کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے، تاہم اس معاہدے کی مالیاتی تفصیلات اور اس سے جڑے معاشی مضمرات موضوع بحث بن گئے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، پاک فضائیہ نے پی آئی اے کے انجینئرنگ یونٹ پریسجن انجینئرنگ کمپلیکس (PEC) کو 6.5 ارب روپے میں خریدنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ یونٹ ہوا بازی اور دیگر صنعتوں کے لیے اعلیٰ معیار کے ہوائی جہازوں کے پرزے تیار کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ یہ اقدام پی آئی اے کے قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور نان کور اثاثوں کو منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ معاہدے کے تحت پاک فضائیہ 2.5 ارب روپے کی نقد ادائیگی آئندہ پانچ سالوں میں کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ای سی کے 259 ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور پروویڈنٹ فنڈز کے واجبات، جن کی مالیت تقریباً 3 ارب روپے ہے، پاک فضائیہ اگلے دس سالوں میں ادا کرے گی۔ ان واجبات میں موجودہ اور سابق ملازمین کی طویل مدتی مالی ذمہ داریاں شامل ہیں، جو اس معاہدے کا اہم حصہ ہیں۔ گزشتہ دسمبر تک پریسجن انجینئرنگ کمپلیکس کے کل اثاثوں کی مالیت تقریباً 1.2 ارب روپے تھی، جب کہ اس پر 2.9 ارب روپے کے واجبات تھے، جس کی وجہ سے یہ یونٹ 1.73 ارب روپے کے خسارے میں چل رہا تھا۔ ان معاشی حقائق کے باوجود، حکومت نے پی ای سی کی فروخت کا فیصلہ کیا تاکہ پی آئی اے کی مجموعی مالی حالت میں بہتری آسکے اور ادارے کو درپیش قرضوں کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ پی ای سی کو فروخت کرنے کا فیصلہ ایک حکومتی کمیٹی نے کیا، جس نے اس معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کے بعد وفاقی کابینہ کو باضابطہ منظوری کے لیے سفارشات بھیج دی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی آئی اے کے نان کور اثاثوں کا انتظام اب ایک ہولڈنگ کمپنی کے تحت ہے، جس کے ذمے قومی ایئرلائن کے 623 ارب روپے کے قرضے بھی ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی 31 اکتوبر کو کھولی گئی تھی، جس میں قومی ایئرلائن کے 60 فیصد شیئرز کے لیے حکومت نے 85 ارب روپے کی امید لگائی تھی۔ تاہم، حکومت کو رئیل اسٹیٹ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی، جو حکومت کی توقعات سے بہت کم تھی۔ اس پس منظر میں پی ای سی کی فروخت ایک متبادل اقدام کے طور پر سامنے آئی۔
لاہور میں ایک سنگین مالیاتی فراڈ کا انکشاف ہوا ہے جس میں پنجاب کی خاتون صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا نام استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے بھاری رقوم بٹوری گئیں۔ اس معاملے میں پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم برہان آصف کو گرفتار کر لیا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر اطلاعات کی جانب سے دی گئی درخواست پر تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں مختلف قانونی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ ملزم برہان آصف نے خود کو صوبائی وزیر اطلاعات کا قریبی ساتھی ظاہر کرتے ہوئے عوام کو دھوکہ دیا اور ان سے لاکھوں روپے ہتھیا لیے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ برہان آصف نے ندیم اکبر نامی شہری سے مجموعی طور پر 35 لاکھ روپے کا فراڈ کیا، جن میں سے 14 لاکھ روپے براہ راست صوبائی وزیر اطلاعات کے نام پر لیے گئے۔ ملزم نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ حکومتی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اہم سرکاری کام کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کی جعلسازی نے نہ صرف لوگوں کو مالی نقصان پہنچایا بلکہ وزارت اطلاعات کی ساکھ کو بھی شدید دھچکا دیا۔ تفتیشی حکام نے مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے تاکہ ملزم کے دیگر ممکنہ شراکت داروں اور فراڈ کے مزید واقعات کا پتہ لگایا جا سکے۔
پشاور میں تھانہ شرقی میں آئی جی اسلام آباد سمیت 600 پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ یہ درخواست خیبر پختونخوا (کےپی) کے اسٹیٹ آفیسر کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے، جس میں اسلام آباد پولیس پر کےپی ہاؤس کی املاک کو نقصان پہنچانے اور متعدد افراد کو زخمی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، خیبر پختونخوا کابینہ کے فیصلے کے تحت یہ اقدام کیا گیا، اور اس حوالے سے ایک جامع درخواست ایس ایچ او تھانہ شرقی کو پیش کی گئی۔ پولیس نے درخواست موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملہ لیگل برانچ کو قانونی رائے کے لیے بھیج دیا گیا ہے، جس کے بعد مقدمہ درج کرنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ درخواست کے متن میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ 5 اکتوبر کو آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں پولیس نے کےپی ہاؤس پر چھاپا مارا تھا۔ چھاپے کے دوران نہ صرف کےپی ہاؤس کی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔ درخواست میں کےپی ہاؤس کو خیبر پختونخوا حکومت کی ملکیت قرار دیتے ہوئے پولیس کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اگر مقدمہ درج کیا جاتا ہے تو یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوگا، کیونکہ یہ پہلی بار ہے کہ ایک صوبائی حکومت نے وفاقی پولیس کے سربراہ اور اہلکاروں کے خلاف اجتماعی طور پر قانونی کارروائی کی درخواست دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیر داخلہ محسن نقوی کے سینیٹ الیکشن 2024 کے کاغذات نامزدگی کی تفصیلات کے حصول کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ یہ درخواست ایڈووکیٹ عمیر شفیق مغل کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں محسن نقوی کے انتخابی عمل سے متعلق تمام مصدقہ دستاویزات فراہم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ محسن نقوی کے کاغذات نامزدگی کی مصدقہ کاپی اور ان کے ساتھ جمع کرائے گئے تمام متعلقہ دستاویزات فراہم کیے جائیں۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے محسن نقوی کو بلامقابلہ سینیٹر منتخب کرنے کا اعلامیہ بھی پیش کیا جائے تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت کا جائزہ لیا جا سکے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار الیکشن کمیشن سے ان دستاویزات کے حصول کے لیے رجوع کیا، مگر کمیشن کی جانب سے مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا گیا۔ درخواست میں آئین کے آرٹیکل 19 اے کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عوام کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے اور کاغذات نامزدگی کی تفصیلات لینا درخواست گزار کا قانونی حق ہے۔ درخواست میں الیکشن کمیشن کو براہ راست فریق بنایا گیا ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ کمیشن کو تمام متعلقہ ریکارڈ فراہم کرنے کا پابند بنائے۔

Back
Top