خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
اسلام آباد: انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 میں مجوزہ ترامیم کے بل 2024 کی منظوری روکنے کی اپیل کی ہے۔ ادارے نے اس بل کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کے ممکنہ اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ماہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کا بل پیش کیا تھا، جس کے تحت فوج اور سول آرمڈ فورسز کو دہشت گردی کے شبے میں کسی بھی شخص کو 3 ماہ تک احتیاطی حراست میں رکھنے کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی۔ بل میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (جے آئی ٹی) کے قیام کی شق بھی شامل کی گئی ہے، جو مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اراکین پر مشتمل ہوگی۔ یہ ترامیم انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں فوجی اور سول اداروں کے کردار کو مزید وسیع کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا، بابو رام پنٹ نے وفاقی وزیر کو ایک خط میں خبردار کیا ہے کہ یہ ترامیم پاکستانی مسلح افواج کو وسیع اور صوابدیدی اختیارات فراہم کریں گی، جس سے کسی بھی شخص کو 3 ماہ تک بغیر ثبوت کے حراست میں رکھا جا سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ترامیم نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ کو کمزور کریں گی بلکہ سول اور ملٹری اداروں کو کسی بھی شخص کے خلاف حراستی احکامات جاری کرنے کا موقع دیں گی، جس پر پاکستان کی سلامتی یا امن عامہ کو خطرہ لاحق ہونے کا شبہ ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قانون نافذ کرنے والے آپریشنز میں فوج کی شمولیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ادارے نے زور دیا کہ فوج کی شمولیت صرف غیر معمولی حالات میں ہونی چاہیے اور اس کے لیے سول حکام کی نگرانی اور انسانی حقوق کے مطابق تربیت کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ خط میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے حالیہ جائزے میں بھی تنقید کا سامنا رہا۔ اس قانون کے غیر متناسب اطلاق سے انسانی حقوق کے محافظوں، نسلی اور مذہبی گروہوں، صحافیوں، اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نشاندہی کی کہ اے ٹی اے کو پہلے ہی پرامن عوامی تحریکوں کو دبانے، سیاسی مخالفین بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین اور حامیوں کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ نئی ترامیم کے ذریعے ان اقدامات کو قانونی تحفظ مل جائے گا، جو انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مجوزہ ترامیم کی منظوری روک کر ان قوانین کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ڈھالے۔ تنظیم نے کہا کہ ایسے قوانین نہ صرف پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کریں گے بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔
ڈیرہ بگٹی کے علاقے اُچ شریف میں او جی ڈی سی ایل نے ایس آئی ایف سی کے تعاون سے گیس کے ذخائر دریافت کر کے پیداوار شروع کر دی۔ اس منصوبے کے تحت 1,345 میٹر گہرائی سے کھدائی کے ذریعے یومیہ 5 ملین اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ گیس نکالی جا رہی ہے۔ او جی ڈی سی ایل کا اُچ گیس پروسیسنگ پلانٹ اس گیس کو اُچ پاور لمیٹڈ کو فراہم کر رہا ہے، جس سے کمپنی کو 41.02 ارب روپے کا متوقع منافع ہوگا۔ اعلامیے کے مطابق، او جی ڈی سی ایل قومی توانائی کے تحفظ اور پائیدار ترقی کے لیے اپنے اہداف پر عمل پیرا ہے۔ اس پیش رفت کو توانائی کے شعبے میں اہم کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جو ایس آئی ایف سی کی سہولت کاری کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ اس سے قبل او جی ڈی سی ایل نے سندھ کے خیرپور ضلع میں بھی گیس کے ذخائر دریافت کیے تھے، جو کمپنی کی مجموعی کارکردگی کو مزید بہتر کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کی موجودہ صورتحال پر گہرے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ملک میں جاری سیاسی بحران، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عدلیہ کی آزادی پر تنقید کرتے ہوئے حکومت کو سخت پیغام دیا۔ فواد چوہدری نے اپنی گفتگو کا آغاز چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز کی حالت زار پر تبصرے سے کیا۔ ان کا کہنا تھا، "اس وقت سب سے مظلوم آدمی چیف جسٹس آف پاکستان ہیں، جبکہ سب سے مظلوم طبقہ سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ ہم سب کو ان کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ وہ اپنے حقوق پہلے ہی کھو چکے ہیں، ہم تو کوشش کریں گے ان بیچاروں کو بھی کوئی ریلیف ملے۔" انہوں نے ملک میں جاری مقدمات اور گرفتار افراد کی حالت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سینکڑوں افراد پر مقدمات درج ہیں، جیلیں قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں، اور انسانی حقوق کی پامالی عام ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا، "جیلوں میں قیدیوں کو دو دن تک کھانا نہیں دیا جا رہا، پولیس کے پاس بھی وسائل نہیں ہیں۔ بچے، بوڑھے، سب کو گاڑیوں میں ٹھونسا جا رہا ہے، اور لوگوں کو پنجروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ یہ سب انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔" فواد چوہدری نے ملک میں بڑھتی ہوئی تلخیوں اور تقسیم پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات پاکستان کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "طاقت کسی کی میراث نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص فرعون بنا ہوا ہے، تلخیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ جب تک تلخیوں میں کمی نہیں لائیں گے، آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ابھی لوگ صدمے میں ہیں، لیکن ایک یا دو ہفتے کے بعد وہ غصے میں آئیں گے۔" انہوں نے حکومت کے رویے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ سیاسی استحکام کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، "آج بھی وقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں۔ ان کے ساتھ 70 فیصد پاکستان کھڑا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ان کے بغیر سیاست کریں گے، یہ ممکن نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کو تسلیم کریں اور تلخیاں کم کرنے کے لیے کوئی فارمولا بنائیں۔" فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا، "اگر انہوں نے کچھ ہوش کیا اور بانی پی ٹی آئی سے بات کی، تو چیزیں بہتر ہوں گی۔ براہ راست بات چیت کے بغیر پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔" فواد چوہدری کی یہ گفتگو حکومت پر سخت تنقید اور سیاسی تقسیم کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زور دینے کی عکاس ہے۔ ان کا موقف تھا کہ صرف بات چیت اور باہمی تعاون ہی ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔
اڈیالہ جیل، راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے جیل میں ملاقات کے دوران کارکنوں پر ہونے والے مبینہ ریاستی تشدد اور فائرنگ کے واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ عمران خان نے اس واقعے کو جمہوری اقدار کے منافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ عمران خان نے جیل میں اپنی فیملی اور وکلا سے ملاقات کے بعد کہا، "کل جو لوگ مجھ سے ملے ہیں جیل میں انہوں نے جو مجھے تفصیلات فراہم کی تھیں وہ پوری نہیں تھیں، آج مجھے ساری تفصیلات ملی ہیں۔ آج جو میرے فیملی کے لوگ آئے ہیں اور میرے دیگر وکلا آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں اور کس طرح سے گولیاں چلائی گئی ہیں۔" انہوں نے انکشاف کیا کہ، "مجھے انہوں نے بتایا ہے کہ 12 لوگوں کی شہادت کی تفصیلات آگئی ہیں اور مزید بھی شہادتوں کا بتایا جا رہا ہے کہ اور بھی لوگ ہو سکتے ہیں۔" عمران خان نے سیاسی احتجاج کو جمہوری حق قرار دیتے ہوئے کہا، "سیاسی ورکروں کا احتجاج ایک جمہوری عمل ہے۔ ریاست کی طرف سے نہتے لوگوں پر سیدھی گولیاں چلانا دنیا کی کس جمہوریت میں ہوتا ہے؟" انہوں نے پارٹی کے اندر موجود کنفیوژن پر بات کرتے ہوئے کہا، "شہادتوں اور احتجاج کے حوالے سے پارٹی میں جو کنفیوژن ہے اس پر میں یہی کہوں گا کہ بیرسٹر گوہر خان کو یا تو چیزوں کی سمجھ نہیں یا اندازہ نہیں ہے کہ اصل ہمارے ساتھ اور ورکروں کے ساتھ ہوا کیا ہے۔" عمران خان نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کی حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے کہا، "بشریٰ بی بی کو میں نے ہدایت دی تھی کہ احتجاج کو کس طرح اسلام آباد لے کر جانا ہے۔ اس نے جو کیا میری ہدایات کے مطابق کیا اور یہ سیاست نہیں، جہاد ہے۔" انہوں نے عالمی فورمز پر آواز اٹھانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا، "ہم اس پر پورے زور سے آواز اٹھائیں گے۔ ہم ہر انٹرنیشنل فورم پر جائیں گے اور ہر سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ جو انہوں نے کیا ہم اس پر خاموش رہیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔" عمران خان نے اس واقعے کو جنرل یحییٰ خان کے دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا، "کیونکہ یہ جو بربریت ہوئی ہے دنیا میں کسی جگہ نہیں ہوا اور یہ یحییٰ خان پارٹ ٹو اوپر آ کے بیٹھ گیا ہے۔" پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا، "میری اس معاملے پر مزید مشاورت جاری ہے اور میں تفصیلات اکٹھی کر رہا ہوں۔ ہم اس کو ایسے نہیں چھوڑیں گے۔" انہوں نے مزید کہا تحریک انصاف کی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ ذمہ داران بشمول شہباز شریف اور محسن نقوی پر FIR کٹوائیں- دنیا کے کس ملک میں جمہوری احتجاج پر یوں سیدھے فائر کھولے جاتے ہیں؟ شہدا اور زخمیوں کے حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں کا ڈیٹا جلد از جلد پبلک کیا جائے اور تمام ہسپتالوں اور سیف سٹی کی CCTV فوٹیج محفوظ کی جائے تاکہ 9 مئی کی طرح شواہد غائب نہ کیے جا سکیں- میں نے اپنی پارٹی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو ہدایات دی ہیں کہ شہدأ کے لواحقین اور زخمیوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری لیں- جو لوگ لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کے لیے تمام توانائی خرچ کریں اور جو لوگ گرفتار ہیں ان کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکلا کی ٹیمز کی حوصلہ افزائی کریں- جہاں تک آپریشن کی کامیابی اور ناکامی کا سوال ہے تو آپریشنز تو بندوق کے زور پر کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ لال مسجد آپریشن بھی کامیاب ہی تھا ، یحیی خان نے بھی آپریشن کامیاب کیا تھا مگر اس کے ایک ماہ بعد ملک دو ٹکڑے ہو گیا تھا ۔ اسلام آباد میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی اسکا اثر بہت دیر پا ہو گا
اسلام آباد: وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مراد سعید پر شدید الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں روپوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اچھا نہیں سمجھتی کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں چھاپہ مارا جائے، لیکن مراد سعید اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمیاں انتہائی تشویشناک ہیں۔ وزیر اطلاعات نے الزام لگایا کہ مراد سعید حالیہ احتجاج میں موجود تھے اور ان کے ساتھ تربیت یافتہ جتھے شامل تھے۔ ان جتھوں کو واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ احتجاج کے دوران لاشیں گرانی ہیں، فائرنگ کرنی ہے، اور انتشار پھیلانا ہے۔ عطا تارڑ کے مطابق مراد سعید کے ساتھ اسلحے سے لیس دہشت گرد بھی موجود تھے، جو پرتشدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے اس قسم کے منصوبے تیار کیے ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج نہ کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن پی ٹی آئی نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک پر اصرار کیا اور احتجاج کے لیے متبادل جگہ کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔ عطا تارڑ نے پی ٹی آئی پر مزید الزام لگایا کہ اس کے کارکن تشدد کے آلات ساتھ لائے تھے اور قتل و غارت کے منصوبے کا حصہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لائیو ایمونیشن استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن پی ٹی آئی کے انتشاریوں کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود موجود تھا۔ انہوں نے پی ٹی آئی پر غیر ملکی میڈیا کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈا کا الزام بھی لگایا۔ عطا تارڑ نے کہا کہ احتجاج کے دوران غزہ اور فلسطین کی تصاویر کو غلط طور پر ڈی چوک کے واقعات سے جوڑا گیا، اور کرم واقعے میں شہید ہونے والوں کو بھی اس احتجاج کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی ہسپتال سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ احتجاج کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں کوئی ہلاکت ہوئی ہو۔ کوئی ایک تصویر یہ بتا دیں کہ فائرنگ ہوئی ہے، پمز اور پولی کلینک ہسپتال کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی کہ کسی شخص کی موت گولی لگنے سے نہیں ہوئی۔ عطا تارڑ نے خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور ایسے وقت میں پی ٹی آئی کی قیادت کی توجہ انتشار پھیلانے پر ہے، جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاست کے بجائے قومی مسائل پر توجہ دینے کا ہے، لیکن پی ٹی آئی قیادت اپنے ایجنڈے سے باز نہیں آ رہی۔
اسلام آباد: ڈی چوک میں احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات کے کیس میں پولیس نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت 96 افراد کے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے یہ وارنٹ مقدمہ نمبر 1032 کے تحت جاری کیے۔ پولیس کی درخواست پر جاری کیے گئے وارنٹس میں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنان شامل ہیں، جن میں بشریٰ بی بی، بیرسٹر گوہر، شعیب شاہین، علی بخاری، اور عامر مغل کے نام نمایاں ہیں۔ ان افراد پر الزام ہے کہ وہ احتجاج کے دوران تشدد، انتشار، اور امن و امان کی خرابی میں ملوث تھے۔ کوہسار پولیس نے اپنی تحقیقات کے دوران مزید اہم شخصیات کے وارنٹس بھی حاصل کیے، جن میں عمر ایوب، شیر افضل مروت، خالد خورشید، اور فیصل جاوید شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، ایم این اے عبدالطیف، فاتح الملک، علی ناصر، اور صوبائی وزیر ریاض خان کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔ دیگر افراد میں علی زمان، پیر مصور، میاں خلیق الرحمان، سہیل آفریدی، اور شہرام خان ترکئی شامل ہیں۔ مزید برآں، سابق بریگیڈیئر مشتاق اللہ، میجر ریٹائرڈ راشد ٹیپو، زلفی بخاری، سلمان اکرم راجہ، مراد سعید، اور رؤف حسن کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق، یہ وارنٹس ڈی چوک احتجاج کے دوران تشدد اور قانون شکنی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف جاری کیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان افراد کو جلد از جلد گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ قانونی کارروائی مکمل کی جا سکے۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے اس اقدام کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں پر قانونی دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہیں۔ ۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے اعلان کیا ہے کہ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) کی رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں توسیع کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب مختلف اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر آئی ٹی انڈسٹری اور فری لانسرز کی جانب سے تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔ چیئرمین پی ٹی اے نے تصدیق کی کہ 30 نومبر کی مقررہ ڈیڈ لائن کے بعد آج وی پی اینز کو بلاک نہیں کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے نئی تاریخ کے تعین کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، یہ معاملہ وزارت داخلہ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن کا عمل سائبر سیکیورٹی، قومی سلامتی اور ڈیٹا پروٹیکشن کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ پی ٹی اے کے ذرائع کے مطابق، اب تک 27 ہزار سے زائد وی پی اینز رجسٹر کیے جاچکے ہیں۔ تاہم، ملک میں فری لانسرز اور بزنس کمیونٹی سمیت مختلف شعبوں کی جانب سے رجسٹریشن کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی جا رہی تھی۔ ان درخواستوں کی روشنی میں، وائرلیس اور انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ایسوسی ایشن نے بھی اس توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین شہزاد ارشد نے سیکریٹری داخلہ کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ رجسٹریشن کے عمل کو آگے بڑھانے اور عوامی آگاہی فراہم کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ شہزاد ارشد نے اپنے خط میں حکومتی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وی پی اینز کو ریگولیٹ کرنے کا اقدام قومی سلامتی کے لیے اہم ہے، لیکن رجسٹریشن کا عمل آسان بنانے سے عوام، فری لانسرز اور کاروباری طبقے کو سہولت حاصل ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ رجسٹریشن کے عمل سے حساس معلومات کے تحفظ کے خدشات کم ہو گئے ہیں، اور اب شہریوں نے رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا ہے۔ پی ٹی اے حکام کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن کے عمل سے غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کے ذریعے سائبر حملوں کے خطرات کو کم کیا جا سکے گا اور ڈیجیٹل نظام کو محفوظ بنایا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں، وزارت داخلہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جلد ایک نئی ڈیڈ لائن کا اعلان کرے گی تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مطلوبہ سہولت فراہم کی جا سکے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں ڈیجیٹل معیشت کی ترقی اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے نہ صرف قومی سلامتی کو فروغ ملے گا بلکہ آئی ٹی انڈسٹری اور فری لانسرز کے لیے ایک محفوظ اور منظم ماحول بھی فراہم ہوگا۔
حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے، جس کا اطلاق گزشتہ رات 12 بجے سے ہو چکا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، پیٹرول کی قیمت میں 3 روپے 72 پیسے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 29 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 252 روپے 10 پیسے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 258 روپے 43 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ دوسری جانب، وزارت خزانہ نے لائٹ ڈیزل آئل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں معمولی کمی کا اعلان بھی کیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 48 پیسے فی لیٹر کم کی گئی ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 151 روپے 73 پیسے فی لیٹر ہوگی۔ اسی طرح مٹی کا تیل 62 پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا ہے اور اب یہ 164 روپے 98 پیسے فی لیٹر دستیاب ہوگا۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عوام پہلے ہی مہنگائی کی بلند ترین سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 15 نومبر کو حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا، اور اس وقت پیٹرول کی قیمت 248 روپے 38 پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 255 روپے 14 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی تھی۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی یورپی ممالک کے لیے پروازوں پر عائد پابندی کو یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے ختم کر دیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، ایاسا نے وزارت ہوا بازی اور پی آئی اے انتظامیہ کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ پی آئی اے پر عائد یورپین پروازوں کی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ ایاسا کے اس فیصلے کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ اپنے طیاروں کی حفاظتی معیاروں پر مکمل طور پر عمل پیرا رہے گی۔ پی آئی اے انتظامیہ نے 4 سال کی مسلسل محنت کے بعد یہ کامیابی حاصل کی ہے، جو کہ اس ادارے کی بہتری اور ساکھ کے لیے اہم ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی دن ہے، کیونکہ پی آئی اے پر عائد پابندی کا خاتمہ اس کی نجکاری کے عمل میں آسانی پیدا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ نجی ایئرلائن ایئر بلیو کو بھی ٹی سی او (ٹیکنیکل پرمٹ) جاری کر دیا گیا ہے، جس سے نجی ایئرلائنز کی پروازوں کے لیے یورپی ممالک میں آپریشنز کی راہ ہموار ہو گی۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پی آئی اے پر عائد پابندی کے خاتمے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی پی آئی اے کی پروازوں پر عائد پابندیاں ہٹ جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی شہری ہوا بازی تنظیم کے معیار کے مطابق اقدامات اٹھا کر یہ کامیابی ممکن ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی یورپی یونین کی جانب سے پی آئی اے پر عائد پروازوں کی پابندی کے خاتمے کا خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر خواجہ آصف، وزارت ہوا بازی اور دیگر متعلقہ حکام کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ فیصلہ پی آئی اے کی ساکھ کو مستحکم کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پابندی کے خاتمے سے پی آئی اے کو مالی طور پر فائدہ ہو گا اور یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے ہوائی سفر میں آسانی پیدا ہو گی۔ یہ پابندی جون 2020 میں اس وقت عائد کی گئی تھی جب وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے کئی کمرشل پائلٹس نے مشکوک لائسنس حاصل کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد یکم جولائی 2020 کو یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپی ممالک میں آپریشنز کی اجازت 6 ماہ کے لیے معطل کر دی تھی، اور بعد ازاں 8 اپریل 2021 کو اس پابندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی گئی تھی۔ تاہم، پی آئی اے اور وزارت ہوا بازی نے اس پابندی کو ختم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ 15 ستمبر 2024 کو کراچی میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس امتحانات کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے فلائٹ سیفٹی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔ نومبر 2024 میں یورپی ایئر سیفٹی ایجنسی نے اس معاملے پر دوبارہ جائزہ لیا، اور موجودہ اقدامات کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ میں پروازیں بحال کی جائیں۔ یورپین یونین کے قوانین کے مطابق، یورپی ممالک کے اوپر سے پرواز کرنے والی تمام کمرشل اور چارٹرڈ پروازوں کو ٹی سی او (ٹیکنیکل پرمٹ) کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ اجازت 2016 میں نافذ کی گئی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یورپ میں چلنے والے تمام طیارے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے حفاظتی معیاروں پر پورا اتریں۔ تمام کمرشل پروازیں اپنے طیاروں اور سیفٹی پروگرامز کے متعلق معلومات یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کو جائزے کے لیے فراہم کرتی ہیں۔ یہ پیش رفت پی آئی اے کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، جو نہ صرف اس کی ساکھ کو مستحکم کرے گی بلکہ اسے یورپ اور برطانیہ میں اپنے آپریشنز کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے گی۔ اس فیصلے کا پاکستانی ہوا بازی کے شعبے اور عوام پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔
راولپنڈی: انسداد دہشتگردی عدالت کے واضح احکامات کے باوجود اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان سے ان کے وکلا کو مسلسل دوسرے روز بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ عمران خان 28 ستمبر کے احتجاج سے متعلق ایک مقدمے میں چھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں راولپنڈی کے تھانہ نیوٹاون پولیس کی تحویل میں ہیں۔ جیل میں ان کے سیل کو باقاعدہ طور پر تھانہ نیوٹاون کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے تھانہ نیوٹاون کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کو عمران خان کی وکلا سے ملاقات کے انتظامات کرنے کی ہدایت دی تھی، لیکن وکلا کو عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کو عدلیہ کی توہین قرار دیا اور کہا کہ اس رویے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔ گزشتہ روز بھی اڈیالہ جیل کے حکام نے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔ فیصل چوہدری نے عدالتی احکامات تھانہ نیوٹاون کے پولیس حکام کو پہنچائے، لیکن تفتیشی افسر راشد کیانی نے وکلا کو انتظار کرنے کا کہہ کر مزید ہدایات کا بہانہ بنایا۔ جب ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو وکلا نے عدالت سے رجوع کیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے سماعت کے دوران تفتیشی افسر کو طلب کیا، لیکن وہ عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ اس پر عدالت نے تھانہ نیوٹاون کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کے خلاف سمن جاری کرتے ہوئے احکامات دیے کہ عمران خان سے وکلا کی ملاقات کو یقینی بنایا جائے۔ فیصل چوہدری نے عدالتی حکم نامے کی تصدیق شدہ کاپی اڈیالہ جیل پہنچائی، لیکن جیل حکام نے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ وکلا کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس اور جیل حکام عدالتی احکامات کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ فیصل چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیل انتظامیہ اور پولیس ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عمران خان کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات قابو سے باہر ہیں۔ فیصل چوہدری نے کہا کہ وہ اس معاملے کو ہائی کورٹ میں لے کر جائیں گے اور امید ظاہر کی کہ اعلیٰ عدالت انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گی۔ عمران خان کے وکلا اور خاندان مسلسل ان کی صحت اور حالات سے متعلق تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات کی اجازت نہ دینا قانونی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی شدید تنقید اور بحث کا باعث بن رہا ہے، جہاں عمران خان کے حامی اسے عدلیہ کے نظام کی کمزوری اور ریاستی اداروں کی طرف سے اختیار کے ناجائز استعمال کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست پر سماعت کے دوران حکومت کو ہدایات دیتے ہوئے کئی دلچسپ ریمارکس دیے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی سربراہی میں سماعت ہوئی، جس میں وزارت خارجہ کو ہدایت کی گئی کہ امریکا جانے والے وفد کے اخراجات سے متعلق سمری وزیراعظم کو بھیجی جائے۔ عدالت نے کہا کہ وزیراعظم اس بات کا جائزہ لیں کہ وفد کے اخراجات کون ادا کرے گا، اور اگر سمری وزیراعظم تک پہنچنے میں تاخیر ہو تو اس پر "پی ٹی آئی" لکھ دیں تاکہ فوری توجہ حاصل ہو۔ سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وفد کے اراکین کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ پہلے انوشہ رحمٰن کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن اب وہ شامل نہیں ہیں۔ بعد میں عرفان صدیقی کا ذکر آیا، مگر وہ بھی وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔ مزید برآں، وفد کے لیے ضروری آفیشل ویزا بھی ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ سے استفسار کیا کہ موجودہ صورتحال میں کیس کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ وکیل نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں پیش رفت کے امکانات زیادہ ہیں۔ دوران سماعت اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب کلائیو اسمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوئے، مگر ان کی آواز واضح نہ تھی۔ جسٹس سردار اعجاز نے مزاحیہ انداز میں پی ٹی اے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کیا عدالت کو بھی انٹرنیٹ کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اور اگر ضروری ہوا تو کیا انٹرنیٹ مسائل پر پی ٹی اے کے خلاف نوٹس جاری کیا جائے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ موبائل انٹرنیٹ میں مسئلہ ہے، تاہم دیگر نیٹ ورکس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ عافیہ صدیقی کیس میں اس سے قبل بھی کئی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ 30 اگست کو عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور سیکریٹری خارجہ کو طلب کرلیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس معاملے پر امریکا کے صدر جو بائیڈن کو خط لکھا، جس میں انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے انسانی بنیادوں پر رحم کی اپیل کی۔ خط میں وزیراعظم نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر عافیہ گزشتہ 16 سال سے امریکی جیل میں قید ہیں، اور ان کے علاج و معالجے کے حوالے سے سنگین تحفظات پائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی سزا معاف کی جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت میں مکمل تیاری کے ساتھ پیش ہوں۔ امریکی عدالت کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ کی قانونی ٹیم کو نئے شواہد تک رسائی کی اجازت دی جاچکی ہے، جو ان کی رہائی کے امکانات کو مزید روشن کرتی ہے۔ یہ کیس نہ صرف قانونی بلکہ انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کے حوالے سے بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، اور آئندہ سماعت میں اہم پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے خبردار کیا ہے کہ وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے دوران افغان شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ تمام غیر ملکی شہریوں کو پاکستان کے سیاسی معاملات سے دور رہنے کی ہدایت کی جائے گی۔ ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ممتاز زہرا بلوچ نے واضح کیا کہ محکمہ داخلہ نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں افغان شہریوں کو حراست میں لیا ہے، اور ان گرفتار افغان شہریوں کی تفصیلات وزارت داخلہ کے ذریعے جاری کی جائیں گی۔ ترجمان نے مزید کہا کہ غیر ملکی شہریوں کی پاکستانی سیاسی احتجاج میں شرکت مکمل طور پر غیر قانونی ہے اور حکومت ان سے درخواست کرے گی کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات سے خود کو الگ رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی ترجمان نے بیلاروس کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کی بھی تفصیلات فراہم کیں۔ انہوں نے کہا کہ بیلاروسی صدر نے وزیر اعظم کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا، جس دوران دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کی گئی اور متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2025 تک کے لیے جامع تعاون کے روڈ میپ پر دستخط کیے گئے ہیں۔ ممتاز زہرا بلوچ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اس وقت روس کے سرکاری دورے پر ہیں، جہاں وہ دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور پارلیمانی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایم او یو پر دستخط کریں گے۔ پاکستان نے لبنان میں جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور لبنان کی خود مختاری کی حمایت کی ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار 2 سے 3 دسمبر تک ایران کا دورہ کریں گے، جہاں وہ سی سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ انہوں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پچھلے ہفتے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں بھارتی فوج کے کیمپ میں 4 شہریوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے باعث کشمیریوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان نے واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان نے صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری پر برطانیہ کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ مطیع اللہ جان کی گرفتاری کے حالات پر وزارت اطلاعات تبصرہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان کسی بھی نوعیت کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔ آخر میں، ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستانی شہریوں پر متحدہ عرب امارات کے سفر کی کوئی پابندی نہیں ہے، اور اس حوالے سے کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد کو احتجاجی مظاہرین سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھاتے ہوئے "ردالفساد فورس" کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فورس کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا اور گزشتہ دنوں میں اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے امن و امان سے متعلق اجلاس میں ایک خصوصی ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیرِ داخلہ محسن نقوی کو اس فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس فورس کی تشکیل کا مقصد اسلام آباد میں انتشار پھیلانے والے عناصر کی نشاندہی کرنا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دلوانا ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ اس ٹاسک فورس میں وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ اور سیکیورٹی فورسز کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ یہ فورس 24 نومبر کو اسلام آباد میں فساد پھیلانے والے مسلح افراد اور پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے گی تاکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں آئندہ کسی بھی قسم کے انتشار یا فساد کی کوشش کو روکنے کے لیے وفاقی انسداد فسادات فورس (رائٹس کنٹرول فورس) بنائی جائے گی، جسے بین الاقوامی معیار کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جدید سازو سامان سے لیس کیا جائے گا۔ یہ فورس نہ صرف فسادات کے دوران مؤثر کارروائی کرے گی بلکہ امن قائم رکھنے کے لیے بھی اپنی خدمات فراہم کرے گی۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں وفاقی فورینزک لیب کے قیام کی بھی منظوری دی گئی۔ اس لیب میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مختلف واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور شواہد اکٹھا کیے جائیں گے تاکہ مجرمانہ سرگرمیوں کا سدباب کیا جا سکے۔ اجلاس میں اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تاکہ شہر میں سیکیورٹی کی نگرانی میں مزید بہتری لائی جا سکے۔ اس کے علاوہ، اجلاس میں وفاقی پراسیکیوشن سروس کو مزید مستحکم کرنے اور اس کی افرادی قوت میں اضافہ کرنے کے حوالے سے بھی فیصلے کیے گئے تاکہ مقدمات کی پیروی مؤثر طریقے سے کی جا سکے اور مجرمانہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات اسلام آباد کی حفاظت کو یقینی بنانے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں، تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی اور انتشار کو روکا جا سکے۔
کراچی: ایف آئی اے نے چینی تاجر کو معدنیات کے نام پر بجری ایکسپورٹ کرنے کے اسکینڈل میں کسٹمز ایکسپورٹ حکام کو بھی شامل تفتیش کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایف آئی اے کی کارپوریٹ کرائم سرکل نے آئی آئی چندریگر روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے نجی بینک کے ریجنل ہیڈ ساؤتھ، خالد بکالی کو گرفتار کیا ہے۔ زرائع کے مطابق، چینی تاجر کی معدنیات کی ایکسپورٹ کی کلیئرنس ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل سے کی گئی تھی، جس پر کسٹمز ہاؤس کراچی کے کلکٹریٹ کسٹمز ایکسپورٹ کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں، 100 کنٹینرز پر مشتمل 4 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی ایک اور کنسائمنٹ کی ایل سی بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق، خالد بکالی چینی کمپنی سے دھوکہ دہی کے معاملے میں تیسرے ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ پہلے سے گرفتار ملزمان ذیشان افضال بلگرامی اور جاوید محمود شامل ہیں۔ ذیشان بلگرامی ڈینزو ٹریڈر کا مالک ہے، جس نے چینی امپورٹ کمپنی سے 11 کروڑ 39 لاکھ کا فراڈ کیا۔ ایف آئی اے نے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ خالد بکالی نے بینک سے ایکسپورٹ کنسائنمنٹ کی سہولت فراہم کی، جس کے بدلے میں اس کو 1 کروڑ 26 لاکھ روپے ملے۔ جاوید محمود جعلی ایس جی ایس انسپکشن سرٹیفکیٹ تیار کرنے میں مددگار رہا، جس پر اس کو 60 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق، پاکستانی ایکسپورٹر اور چینی امپورٹر کے درمیان 17 جنوری کو 1500 میٹرک ٹن کرومیم اورے کی ایکسپورٹ کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ 11 فروری کو کراچی بندرگاہ سے کنٹینر چین بھیجا گیا، لیکن وہاں کرومیم کی بجائے بجری بھری گئی۔ چینی کمپنی کی امپورٹر مس کورائن چن کی شکایت کی بنیاد پر پاکستانی ایکسپورٹر کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ذیشان بلگرامی نے بینک میں جعلی انسپکشن سرٹیفکیٹ جمع کروایا اور چینی کمپنی کی بھیجی گئی رقم اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کر لی۔ ملزمان کے خلاف تحقیقات کا عمل جاری ہے اور مزید گرفتاریوں کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کی قرارداد بلوچستان اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ قرارداد ایجنڈے کا حصہ بن چکی ہے اور کل ہونے والے اسمبلی اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سلیم کھوسہ قرارداد پیش کریں گے۔ اس قرارداد میں پی ٹی آئی کو 9 مئی کے پرتشدد واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں پرتشدد سرگرمیاں جاری ہیں۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک میں سیاسی انتشار کو فروغ دیا ہے اور اب یہ ایک انتشاری گروہ کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کا اثر ہر شعبے پر پڑ رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ ملک میں امن و سکون کی صورتحال بہتر ہو سکے۔ اس قرارداد کی پیش کش سے بلوچستان اسمبلی میں سیاسی بحث مزید شدت اختیار کر سکتی ہے، اور پی ٹی آئی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔
کراچی: شہر کی تاجر برادری نے ایک نئی ایئر لائن کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کا نام "ایئر کراچی" رکھا گیا ہے۔ یہ جدید ایئر لائن جلد ہی اپنی خدمات متعارف کروانے کے لیے تیار ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، معروف کاروباری شخصیت حنیف گوہر نے بتایا کہ ایئر کراچی کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ کر دیا گیا ہے اور ایئر لائن کے لائسنس کے حصول کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست بھی پیش کر دی گئی ہے۔ حنیف گوہر نے مزید کہا کہ ایئر کراچی کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) کے طور پر سدرن کمانڈر ایئر وائس مارشل عمران کا تقرر کیا گیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں ایئر لائن کے لیے 3 طیارے لیز پر حاصل کیے جائیں گے۔ ایئر کراچی میں کئی معروف کاروباری شخصیات شراکت دار ہیں، جن میں عقیل کریم ڈھیڈی، عارف حبیب، ایس ایم تنویر، بشیر جان محمد، خالد تواب، زبیر طفیل اور حمزہ تابانی شامل ہیں۔ ہر شیئر ہولڈر کا سرمایہ 5 کروڑ روپے ہے۔ ایئر لائن کا لائسنس جلد ہی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل سیالکوٹ کی تجارتی برادری نے "ایئر سیال" کے نام سے ایک ایئر لائن کا آغاز کیا تھا، جو کہ قومی اور بین الاقوامی پروازوں میں کامیابی سے چل رہی ہے۔ ایئر سیال نے پہلے اپنے فضائی آپریشنز کو صرف پاکستان تک محدود رکھا، لیکن 29 مارچ 2023 سے دبئی اور مسقط کے لیے پروازوں کی شروعات کر دی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے دسمبر 2020 میں سیالکوٹ میں ایئر سیال کا افتتاح کیا تھا۔ اس موقع پر ایئر سیال کے وائس چیئرمین فضل جیلانی نے بتایا کہ اگرچہ ان کے پاس 180 مسافروں کی گنجائش والے ایئربس اے 320-200 ہیں جو کہ 16 سال پرانے ہیں، مگر یہ اچھی حالت میں ہیں اور ان میں نئی نشستیں instalada کی گئی ہیں۔ نجی ملکیت میں چلنے والی ایئر لائن کو 2017 میں ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے اپنے آپریشنز چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب "ایئر کراچی" کے آغاز کے ساتھ، یہ امید کی جا رہی ہے کہ فضائی سفر کے شعبے میں مزید ترقی اور بہتری آئے گی۔
راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل وفد نے اچانک اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ ذرائع کے مطابق وفد میں بیرسٹر گوہر، شبلی فراز، اور اسد قیصر شامل تھے، جو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے جیل پہنچے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کا مقصد بانی پی ٹی آئی سے احتجاج کے آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کرنا ہے۔ وفد احتجاج کے جاری رکھنے یا اسے ختم کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے کے لیے مشورہ کرے گا۔ مزید یہ کہ پی ٹی آئی وفد نے حکومتی کمیٹی سے حالیہ مذاکرات کے بعد یہ ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق، اس ملاقات میں احتجاج کے حوالے سے حتمی حکمت عملی پر غور کیا جائے گا اور بانی پی ٹی آئی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ احتجاج جاری رکھا جائے یا اسے ختم کرنے کی کال دی جائے۔ ذرائع کے مطابق، وفد بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے اہم نکات پر تبادلہ خیال کرے گا اور احتجاج کے آئندہ مراحل کے بارے میں مشاورت کرے گا۔ احتجاج کی حالیہ صورتحال اور حکومتی رویے کے تناظر میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپوزیشن کے احتجاج کو ملکی معیشت کے لیے مہلک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ احتجاج اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ صرف ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوتی ہے بلکہ کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ سے برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ احتجاج کے نتیجے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اضافی سیکیورٹی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں، جب کہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں ہونے والے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کی بندش سے نہ صرف معیشت بلکہ سماجی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ نے اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے، جس میں محتاط اندازے کے مطابق روزانہ جی ڈی پی کو 144 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہڑتال اور احتجاج کے سبب برآمدات میں کمی سے روزانہ 26 ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے، جب کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے کی وجہ سے روزانہ 3 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں کو بھی اس احتجاج کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ زرعی شعبے میں روزانہ 26 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جب کہ صنعتی شعبے کو 20 ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے زور دیا کہ سیاسی جماعتوں کو احتجاج کے بجائے مکالمے کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا چاہیے تاکہ معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے سلسلے میں مختلف شہروں سے قافلے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں، جن کی قیادت خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں۔ صوابی انٹرچینج عبور کرنے کے بعد علی امین گنڈاپور کے ساتھ بشریٰ بی بی بھی قافلے میں موجود ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ترجمان کے مطابق قافلے 26 نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔ پی ٹی آئی ترجمان نے بتایا کہ اسلام آباد کی جانب قافلوں کی پیش قدمی کا مقصد احتجاج میں بھرپور شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے ان قافلوں کو روکنے کے لیے اقدامات مکمل کر لیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عمر ایوب کی قیادت میں ایک قافلہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوچکا ہے، جو علی امین گنڈاپور کے قافلے سے جا ملے گا۔ اٹک کے مقام پر قافلے کے شرکاء نے موٹروے کے اطراف گھنے درختوں میں عارضی طور پر قیام کیا، جہاں وہ علی امین گنڈاپور کے قافلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ صوابی ریسٹ ایریا پہنچنے پر علی امین گنڈاپور نے شرکاء سے خطاب کیا اور کارکنوں کو متحرک کرتے ہوئے کہا کہ وہ متحد ہوکر اپنی طاقت سے راستے کھولیں اور آگے بڑھیں۔ آج نیوز کے ایک سوال پر علی امین گنڈاپور نے کہا کہ تمام رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی اور قافلہ اسلام آباد پہنچ کر رہے گا۔ سہ پہر کے وقت علی امین گنڈاپور پشاور سے صوابی پہنچے، جہاں انہوں نے ایک کنٹینر پر سوار ہوکر قیادت سنبھالی۔ پی ٹی آئی کے اس احتجاج کے دوران کارکنوں کا جوش و خروش نمایاں ہے، لیکن وفاقی حکومت اور انتظامیہ کے سخت اقدامات کے باعث دونوں جانب تناؤ کی کیفیت برقرار ہے۔ احتجاج کے حتمی مرحلے میں کیا صورت حال سامنے آتی ہے، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔
ملک بھر میں شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے عام بجلی صارفین پر مالی بوجھ ڈال دیا ہے، جس کے باعث مالی سال 2023-24 میں بجلی کے عام صارفین کو 200 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ شمسی توانائی کے استعمال سے گرڈ کی بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے، لیکن اس کمی کا مالی اثر عام صارفین پر منتقل کیا جا رہا ہے، جس سے بجلی کی قیمت میں دو روپے فی یونٹ اضافی بوجھ پڑا ہے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نیٹ میٹرنگ کے غیرمنظم نظام نے توانائی کے شعبے میں مسائل پیدا کیے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو گرڈ پر مالی دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر گرڈ کی بجلی کی طلب میں پانچ فیصد کمی ہوئی تو عام صارفین کو مزید 131 ارب روپے کا نقصان ہوگا، جبکہ دس فیصد کمی کی صورت میں یہ نقصان بڑھ کر 261 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ شمسی توانائی کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے نیٹ میٹرنگ کو نیٹ بلنگ یا فیڈ اِن ٹیرف نظام میں تبدیل کیا جائے، اور گرڈ کے استحکام کے لیے فکسڈ گرڈ فیس متعارف کرائی جائے۔ اس کے ساتھ ڈسٹری بیوشن کوڈ میں تبدیلی کی بھی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع اور گرڈ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ شمسی توانائی کے استعمال سے چھتوں پر لگائے گئے 10 کلوواٹ کے نیٹ میٹرنگ سسٹم کے ذریعے عام صارفین کو فی یونٹ 20 روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ تاہم، اس سے گرڈ کی بجلی کی طلب میں کمی آ رہی ہے، جس کے نتیجے میں خسارہ عام صارفین سے پورا کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ شمسی توانائی اور گرڈ کی بجلی کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر شمسی توانائی کے حصول کا رجحان بڑھتا رہا اور گرڈ کی پیداوار کی طلب میں کمی آئی تو بجلی کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھ سکتی ہیں، جو کہ توانائی کے شعبے کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہیں۔

Back
Top