اسلام آباد: اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں موجود پرانی سرکاری رہائش گاہوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے، جس سے قومی خزانے میں اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹرز F-6، G-6 اور G-7 میں ایک منزلہ سرکاری رہائش گاہیں واقع ہیں۔ ان میں سے F-6 میں اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے کشادہ مکانات موجود ہیں جن میں خدام کے کوارٹرز بھی شامل ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق اگر ان ایک منزلہ رہائش گاہوں کو مسمار کر کے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں تو زمین کا وسیع حصہ بچایا جا سکتا ہے، جس سے اسلام آباد کی زمینوں کا موثر استعمال ممکن ہوگا۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صرف G-6/1 کے ایک ذیلی سیکٹر میں 86 ایکڑ زمین پر سرکاری رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ ان عمارتوں کو عمودی تعمیرات کے ذریعے نو ایکڑ میں سمیٹا جا سکتا ہے، جس سے 77 ایکڑ قیمتی زمین آزاد ہو گی جس کی مالیت 52 ارب روپے سے زائد ہے۔
یہ معاملہ پچھلے دو دہائیوں سے زیر بحث رہا، تاہم اس پر ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ گزشتہ ہفتے SIFC نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) سے اس معاملے پر رائے طلب کی، خصوصاً G-6/1 کے حوالے سے۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے ایک تحقیقی مضمون "ڈیڈ کیپیٹل" نے SIFC کی توجہ حاصل کی۔ لہذا، CDA سے اس معاملے پر تفصیلی رائے مانگی گئی ہے۔ PIDE کی تحقیق کے مطابق اسلام آباد میں 86 ایکڑ زمین پر واقع سرکاری رہائش گاہوں کو چھ بلند و بالا عمارتوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے 77 ایکڑ زمین آزاد ہوگی، اور 55.2 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں 0.09 فیصد اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
SIFC کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ "ریاستی زمین کا موثر انتظام شہری ضروریات کو پورا کرنے اور شہر کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ غیر استعمال شدہ زمین مالی بوجھ بن جاتی ہے اور معاشی امکانات کو محدود کرتی ہے۔ پاکستان میں شہری مراکز کے قریب بڑی مقدار میں زمین ہے جو غیر موثر طور پر استعمال ہو رہی ہے۔"
ذرائع کے مطابق، SIFC کا منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور CDA کی جانب سے رائے موصول ہونے کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔