خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پاکستانی معیشت کی موجودہ صورتحال پر ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر وزیر خزانہ نئے قرضے لے کر پرانے قرضے چکانے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ بات واضح کرتی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر قیصر نے آئی ایم ایف پروگرام کے بعد معیشت کی عارضی بہتری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کمی اور اسٹاک مارکیٹ کی بہتری عارضی ہیں، اور یہ مستقل معاشی استحکام کی علامت نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، اور موجودہ حکومتی اقدامات اس بحران سے نکلنے کے لیے ناکافی ہیں۔ انہوں نے حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے صرف گریڈ ایک سے پانچ کی ملازمتیں ختم کی ہیں، جبکہ اصل ضرورت اعلیٰ گریڈ کی آسامیوں میں کمی تھی۔ ڈاکٹر قیصر نے مزید کہا کہ ملک کے اقتصادی حالات بہت خراب ہیں، اور بین الاقوامی سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا، یہ کہتے ہوئے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی بھی ملک کے ادارے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کی رائے کے مطابق حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے چھوٹے ملازمین کو نشانہ بنایا ہے، جبکہ اعلیٰ افسران کو کوئی متاثر نہیں کیا جا رہا، جو کہ ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔
پاکستان تحریک انصاف میں موجود وکلاء کے درمیان اختلافات میں شدت آ گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں انتشار اور عہدوں کی جنگ 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے بعد عروج پر پہنچ چکی ہے اور سلمان اکرام راجہ نے تحریک انصاف کی لیگل ٹیم سے فیصل چوہدری کو فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے مختلف وٹس ایپ گروپوں سے بھی نکال دیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے فیصل چوہدری کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد فیصل چوہدری کو میڈیا کے سامنے غیرضروری باتیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کی طرف سے انتظار پنجوتھہ کی گمشدگی کے بعد اپنا مرکزی وٹس ایپ گروپ ڈی ایکٹو کر دیا گیا تھا۔ انتظار پنجوتھہ کی کے اغوا کے بعد فیصل چوہدری کی طرف سے تحریک انصاف کی قیادت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ مجھے بانی تحریک انصاف عمران خان سے سچ بولنے کی سزا دی گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا، ڈی چوک پر احتجاج اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوا سب بتا دیا تھا، مجھے عمران خان سے سچ بولنے کی سزا ملی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف فیصل چوہدری کو پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم سے فارغ کرنے پر صحافی عادل نظامی نے ٹوئٹر (ایکس) پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا: تحریک انصاف کی نئی قیادت کو سب سے زیادہ خوف فواد چودھری سے ہے، فواد چودھری جس طرح عمران خان کی ٹی وی پر ترجمانی کرتے ہیں نیا کوئی لیڈر نہیں کرپارہا، یہی غصہ فیصل چودھری پر نکلا ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے انہیں گروپس سے ریموو کردیا! عادل چودھری کے پیغام پر فواد چودھری نے ردعمل دیتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا: یہ کون سی قیادت ہے؟ اس سے اچھا تو سٹیبلشمنٹ آفیشلی کوئی صوبیدار لگا دے! سلمان اکرم راجہ پانامہ سے لے کر نواز شریف کا وکیل ہے اور باقی کون لوگ ہیں، سٹیبلشمنٹ نے ہمیں تشدد اور جیلوں میں ڈال کر اپنے نمائندے پارٹی پر مسلط کئے جب عمران خان جیل ہیں، ان کی سیاسی زندگی ہے، جب عمران خان سلاخوں سے باہر آئے یہ نظر بھی نہیں آنے! سلمان اکرم راجہ نے اپنے ردعمل میں کہا کل میں اپنے کسی چپڑاسی کو فارغ کر دوں تو کیا آپ مجھ سے نیشنل ٹی وی پر سوال کریں گی، میں کوئی جواب نہیں دینا چاہتا، وہ جو مرضی بولیں میرے لئے غیر اہم ہیں صحافی زبیر علی خان نے بھی فیصل چوہدری کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر مولانا کے در پر بیٹھے محسن نقوی سے منتیں کرواتے تھے کہ ہماری ملاقات کروا دو، فیصل چوہدری نے یہ کام عدالت کے ذریعے کروادیا اور جا کر ان کی حقیقت عمران خان کو بتا دی۔ سیاست میں تو یہ نکمے تھے ہی وکالت میں بھی اناڑی نکلے!!! ان سے کارپوریٹ کیسز کروالیں، بھائی یہ سیاسی کیسز میں بندہ اندر کروانے کے ماہر ہیں !!!
پاکستان کے لئے بری خبر سامنے آگئی, معاشی تحقیقاتی ادارے پرائم کے مطابق پاکستان نے اگر بروقت اصلاحات نہ کیں تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام نہیں ہو گا,معاشی تحقیقاتی ادارے نے پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے نئے قرض پروگرام پر رپورٹ جاری کر دی۔ معاشی تحقیقاتی ادارے کے مطابق آئی ایم ایف نے نئے قرض پروگرام کے لیے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی, نئے قرض پروگرام کی پہلی قسط سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے,رپورٹ میں کہا گیا نئے قرض پروگرام سے پاکستان کے قرضوں میں مزید اضافہ ہو گا,قرض پروگرام سے بیرونی ادائیگیوں کے حصول میں مدد ملے گی۔ پرائم کی رپورٹ کے مطابق نئے پروگرام کے اہداف میں پاکستان معاشی اصلاحات کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے,پاکستان کو جولائی تا اگست ٹیکس ہدف میں 98 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے, سرکاری اداروں کے نقصانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے,رپورٹ میں کہا گیا نجکاری کے پروگرام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اور سرکار کے اخراجات میں کمی کے لیے رائٹ سائزنگ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دوسری جانب اسلامک ٹریڈ فنانسنگ کارپوریشن نے پاکستان کے لئے اربوں ڈالر کے قرض کا اعلان کردیا، قرض کی رقم آئندہ3سال میں فراہم کی جائے گی, واشنگٹن میں وزیرخزانہ محمداورنگزیب اور آئی ٹی ایف سی وفد میں ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کئی ججز نے متنازعہ فیصلے کیے ہیں، جن میں سے ایک فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں۔ ان کے بعض فیصلے اور اقدامات ملک کی سیاسی اور آئینی سمت پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ذیل میں ان کے کچھ ایسے فیصلے اور اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عوامی و سیاسی حلقوں میں تنقید کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھیننا ایک اہم اور متنازعہ اقدام فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لینے کے حوالے سے کیا۔ اس فیصلے نے پی ٹی آئی کے سیاسی موقف کو متاثر کیا اور اس کی عوامی حمایت پر بھی اثر ڈالا۔ فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دینا فائز عیسیٰ نے فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دی، جو کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی نظر میں ایک متنازعہ فیصلہ تھا۔ مزید برآں، اس فیصلے پر اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، جس سے عدالتی شفافیت پر سوالات اٹھے۔ بیوروکریٹس کو ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنا پاکستان میں عام انتخابات کے دوران جوڈیشل افسران کی جگہ بیوروکریٹس کو بطور ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے انتخابات کی شفافیت اور غیرجانبداری پر خدشات پیدا کیے۔ پنجاب میں انتخابی ٹربیونلز کے فیصلے فائز عیسیٰ کے دور میں پنجاب کے انتخابی ٹربیونلز میں نیک نام اور باصول ججوں کے نوٹیفیکیشن کو سبوتاژ کیا گیا، جس سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا اور اس پر تنقید کی گئی کہ اس فیصلے نے انتخابی عمل کو متنازعہ بنایا۔ آرٹیکل 63 اے کے اثر کو کم کرنا آئین کے آرٹیکل 63 اے میں تبدیلی کر کے، فائز عیسیٰ نے ہارس ٹریڈنگ کے دوبارہ آغاز کی راہ ہموار کی۔ یہ اقدام سیاست میں غیر آئینی حرکتوں کو دوبارہ جنم دینے کا ذریعہ بنا اور اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان تعلقات پر سوالات اٹھائے۔ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں واپس لینے کی کوشش فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اس کی مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جسے سیاسی انتقامی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کے کیسز میں بینچ فکسنگ پی ٹی آئی اور عمران خان کے کیسز میں واضح بینچ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے، جس نے عدلیہ کی غیرجانبداری اور شفافیت پر سوالات اٹھائے اور عوامی اعتماد کو متاثر کیا۔ ای سی پی میں پی ٹی آئی کی نشستوں کی دوبارہ گنتی الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی نشستوں کو دوبارہ گنتی کے ذریعے چھیننے کا ڈرامہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر پی ٹی آئی نے انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام لگایا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر خاموشی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال، لاپتہ افراد کے مسائل اور پولیس کی زیادتیوں پر فائز عیسیٰ نے مبینہ طور پر آنکھیں بند کر لیں، جو کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نزدیک ایک افسوسناک رویہ تھا۔ عوامی مینڈیٹ کی چوری پر خاموشی اور مبینہ سہولت کاری 1971 کے بعد سے عوامی مینڈیٹ کی سب سے بڑی چوری پر خاموشی اختیار کرنا اور مبینہ طور پر سہولت کاری کرنا بھی فائز عیسیٰ کے اقدامات میں شامل ہیں، جس سے جمہوری عمل پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی ہراسانی پر خاموشی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کو ہراساں کیے جانے کی شکایت پر کارروائی نہ کرنا، ایک اور متنازعہ فیصلہ تھا جس نے عدالتی نظام میں احتساب کی کمی کو بے نقاب کیا۔ ساتھی ججز کے ساتھ ٹکراؤ اور وکلا کے ساتھ جارحانہ رویہ فائز عیسیٰ پر ساتھی ججز کے ساتھ ٹکراؤ اور وکلا کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ صرف عدلیہ کے اندر ہم آہنگی میں خلل ڈالتا رہا بلکہ وکلا برادری کے ساتھ تعلقات میں بھی تنازع کا باعث بنا۔ اس سے عدلیہ کی اندرونی یکجہتی متاثر ہوئی، اور بعض حلقوں نے اسے عدالتی اصولوں اور اخلاقیات کے خلاف قرار دیا۔ اس رویے نے نہ صرف ججز کے درمیان اختلافات کو جنم دیا بلکہ عدلیہ میں تعاون کی فضا بھی متاثر کی، جس کے باعث عدالتی وقار کو نقصان پہنچا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کی حمایت فائز عیسیٰ پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایسے فیصلوں کی حمایت کی جن سے مخصوص سیاسی جماعتوں کو نقصان اور دیگر کو فائدہ پہنچا۔ ان فیصلوں میں پی ٹی آئی کی نشستوں کی دوبارہ گنتی اور مخصوص حلقوں میں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس رویے کو غیر جانبداری کے اصولوں کے منافی سمجھا جاتا ہے اور اسے الیکشن کمیشن کی ساکھ اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو نقصان پہنچانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فلور کراسنگ کی راہ ہموار کرنا فائز عیسیٰ پر 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فلور کراسنگ (floor crossing) کی راہ ہموار کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایسے قانونی فیصلے کیے جس سے ارکان اسمبلی کو پارٹی لائن کے برخلاف ووٹ ڈالنے کا راستہ فراہم کیا گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کی روک تھام کو کمزور کیا گیا، جس سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات بڑھ گئے اور پارلیمنٹ میں سیاسی استحکام متاثر ہوا۔ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 63 اے کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور سیاسی حلقوں میں اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ اقدامات فائز عیسیٰ کی متنازعہ حکمت عملیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کے عدالتی نظام پر اعتماد میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید جاری ہے۔
خیبرپختونخوا کے حلقہ NA-8 باجوڑ سے منتخب رکن قومی اسمبلی مبارک زیب نے 26 ویں آئینی ترامیم کیلئے مرکزی حکومت کا ساتھ کے حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ایم این اے مبارک زیب نے کہا کہ تحریک انصاف نے میرے بھائی شہید ریحان زیب کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اسی لیے ترامیم کیلئے ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، میرے بھائی کی روح کو میرے فیصلے سے سکون مل گیا ہو گا۔ مبارک زیب نے کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے میرے حلقے کے لیے فنڈز جاری کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا جبکہ حکومت سے مشیر بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مرکزی حکومت سے اپنے بھائی شہید ریحان زیب کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے، تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں میں نے انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے تو مجھے اپنے پارلیمانی پارٹی وٹس ایپ گروپ تک میں شامل نہیں کیا، میرے ساتھ پی ٹی آئی نے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا۔ تحریک انصاف کا رویہ ایسا ہی رہتا ہے اور وفاقی حکومت بھی تعاون نہ کرتی تو میرے علاقے کا کیا بنتا؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی طرف سے آج تک اپنے علاقے کیلئے ایک پائی تک نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایکسائز پولیس کی ایک گاڑی مجھے فراہم کی تھی جو واپس لے لی گئی، میں نہ تو تحریک انصاف سے وابستہ ہوں اور نہ ہی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ واضح رہے کہ ایم این اے مبارک زیب باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے شہید کارکن ریحان زیب کے بھائی ہیں، عام انتخابات سے پہلے NA-8 باجوڑ سے آزاد امیدوار منتخب ہونے والے ریحان زیب کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
بٹگرام میں سپرٹنڈنٹ شہریار خان کے خلاف 20 سالہ قیدی لڑکی صدف بی بی کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ ایڈیشنل جج امان اللہ نے شہریار خان کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کر دی، جس نے 2 اکتوبر 2024 کو صدف بی بی کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ واقعہ ایک ایسے پس منظر میں پیش آیا جب صدف بی بی کے والد خادی خان نے خود اپنی بیٹی کے خلاف پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ خادی خان کا کہنا ہے کہ صدف گھر سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی، جبکہ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ صدف کی غیرموجودگی کے دوران گھر سے زیورات اور دیگر سامان چوری ہوا۔ خادی نے صدف کے غائب ہونے کا کوئی خدشہ ظاہر نہیں کیا اور ایف آئی آر میں صدف کو گمشدہ یا اغوا قرار نہیں دیا۔ صدف کے ساتھ زیادتی کا واقعہ اس کے جیل میں رہتے ہوئے پیش آیا۔ جیل کے عملے کو اس واقعے کا علم 24 گھنٹوں کے بعد ہوا، جب صدف نے اپنے بھائی کو اس کی اطلاع دی۔ مقامی پولیس نے میڈیکل ٹیسٹ کے نتائج کی روشنی میں شہریار خان کے خلاف کارروائی کی، لیکن ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ضروری نمونے جمع نہیں کیے گئے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ، شہریار خان کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ خادی خان نے بتایا کہ صدف شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں اور انہیں کسی رشتہ دار کے ہاں رکھا گیا ہے۔ علاقے کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شہریار خان ممکنہ طور پر سیاسی اثرورسوخ استعمال کر رہا ہے تاکہ اس معاملے میں صلح کی کوشش کر سکے۔ بٹگرام میں اس واقعے نے عوامی ردعمل کو بھی جنم دیا ہے، اور ایسے معاملات میں انصاف کی کمی کے حوالے سے تشویش بڑھ رہی ہے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد دونوں ایوانوں سے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جا چکی ہے جس پر مختلف سیاسی وسماجی رہنمائوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی وسفارتی بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ کے سربراہ انسانی حقوق واکر ٹرک نے بھی 26 ویں آئینی ترامیم پر اپنے تحفظات کا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گی، انہیں عالمی قوانین سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ عدلیہ کے حوالے سے 26 ویں آئینی ترمیم میں بہت سے تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو سلب کر لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس آف پاکستان کو نامزد کرنے کا اختیار بھی پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے آفیشل ٹویٹر اکائونٹ سے جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ: پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے وسیع تر مشاورت اور بحث ومباحثے کو نظرانداز کر کے جلدبازی سے کام لیا گیا ہے۔ واکر ٹرک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گی، آئینی ترامیم کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین سے ہم آہنگ ہونا چاہیے ۔ قبل ازیں انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس (آئی سی جے) کی طرف سے بھی ایک بیان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو عدلیہ کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیا گیا تھا۔ سیکرٹری جنرل آئی سی جے سنتیا گوکینٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ کو ریاست کے دوسرے حصوں تک رسائی اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے سے روک کر اس کی موثروآزادانہ انداز میں کام کرنے کی استعداد ختم کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد نتائج کی پرواہ کیے بغیر آئینی ترامیم کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور وکلاء کی طرف سے آئینی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ نتیجے میں عدلیہ حکومت کے تسلط میں آ جائے گی۔ یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں ہائیکورٹس کے ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم، آئینی بینچز قائم کرنے اور ہائیکورٹ ججز کی کارکردگی جانچنے کا نظام بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کو اختیار گیا ہے کہ وہ کوئی بھی کیس خود منتقل کر سکتی ہے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی تقرری کے عمل میں وفاقی وزیر اور ایک سینئر وکیل بھی شامل ہوں گے۔
ملک بھر میں سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے شہریوں میں خوف وہراس بڑھتا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی میں سائٹ سپر ہائی وے کے علاقے احسن آباد کے قریب ایک نوجوان کو ڈکیتی کی واردات کے دوران قتل کر دیا گیا، نوجوان مجبوری کی حالت میں بیوی کے زیورات بیچنے کے بعد واپس اپنے گھر جا رہا تھا کہ ڈکیتوں نے رقم چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فرحان خان نامی نوجوان مالی مشکلات کا شکار تھا جسے ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، احسن آباد کی ایک ویران سڑک پر گزشتہ شام قتل کیے جانے والے فرحان خان کے گھر پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مقتول فرحان خان ایک میڈیکل کمپنی میں ملازمت کر رہا تھا اور اس کی ایک کم عمر بیٹی بھی تھی جس کے بیمار ہونے پر علاج کیلئے بیوی کے زیور بیچنے پر مجبور ہو گیا۔ مقتول فرحان خان پچھلے کچھ عرصے سے مالی مشکلات کا سامنا کر رہا تھا، بیٹی بیمار ہوئی تو بیوی کا زیور بیچنے پر مجبور ہو گیا، ورثاء کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیمار بیٹی کا علاج کروانے کیلئے زیورات بیچ کر رقم لے کر واپس آ رہا تھا کہ ڈاکوئوں نے مزاحمت کرنے پر قتل کر دیا۔ مقتول فرحان کے ورثاء نے حکام بالا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے واقعے کے بعد نہ تو اب تک تحقیقات شروع کی ہیں نہ ہی ان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ مقتول فرحان کے اہل خانہ کے مطابق بیوی کے زیور بیچ کر اسے 70 سے ہزار ہزار روپے ملے تھے اور وقوعے کے وقت اپنی بیوی سے فون پر بات کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آکر بیٹی کیلئے دوائی لائوں گا۔ مقتول کی اہلیہ کے مطابق فرحان کو جب ڈاکوئوں نے گولی ماری تو اس وقت بھی وہ مجھ سے بات کر رہا تھا، پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے مقتول کا موبائل مل گیا ہے جبکہ مزید تفتیش کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق مقتول کی شناخت فرحان خان ولد الطاف خان کے نام سے ہوئی ہے جو کم عمر بچی کا باپ اور سرجانی ٹائون کا رہائشی تھا، پولیس ملزمان کو گرفتاری کرنے کے لیے کارروائی کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ رواں برس کے دوران اب تک شہر قائد میں ڈکیتی کے متعدد واقعات میں مزاحمت کرنے والے 104 شہریوں کو قتل کرنے کے ساتھ متعدد شہریوں کو زخمی کیا جا چکا ہے۔
پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں دو اہم مواقع پر سینئر ترین جج کی بجائے جونیئر جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ یہ واقعات 1954 اور 1994 میں پیش آئے، جب جسٹس منیر اور جسٹس سجاد علی شاہ کو بالترتیب چیف جسٹس بنایا گیا جبکہ ان سے سینئر ججوں کو نظرانداز کیا گیا۔ پہلا واقعہ (1954) اس وقت جسٹس منیر کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا، جب کہ سینئر جج ابو صالح محمد کو غیر فعال کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک متنازعہ لمحہ بن گیا۔ دوسرا واقعہ (1994) اسی طرح، جسٹس سجاد علی شاہ کو وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ایڈوائس پر چیف جسٹس مقرر کیا گیا، جب کہ اس وقت سب سے سینئر جج سعد سعود جان تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا دور بھی متنازع رہا، خاص طور پر جب انہوں نے صدر فاروق لغاری کے خلاف فیصلے دیے، جس کے نتیجے میں ان کی اور نواز شریف کی حکومت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ حالیہ صورت حال حال ہی میں، پاکستان کے آئین میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ وہ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں، جبکہ سب سے سینئر جسٹس منصور علی شاہ ہیں۔ اس سے پہلے، چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار طے تھا کہ سینیئر ترین جج ہی اس عہدے پر فائز ہوتا تھا۔ تاریخی طور پر، ایسے فیصلوں نے عدلیہ میں اختلافات کو جنم دیا اور نظام انصاف کی ساکھ پر سوالات اٹھائے۔ 1954 اور 1994 کے واقعات آج بھی یاد رکھے جاتے ہیں، اور موجودہ صورتحال اس تناظر میں اہم ہے۔ کیا یہ تبدیلیاں آئندہ بھی عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کریں گی؟ یہ سوال آج بھی بحث و مباحثے کا موضوع ہے۔
کراچی: سے گورنر ہاؤس سندھ میں نوکری کا جھانسہ دے کر خواتین کو ہراساں کرنے والے ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ملزم نے خود کو گورنر ہاؤس کا ملازم ظاہر کرکے کئی خواتین کو نوکری کا لالچ دیا اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم طاہر دستاویزات کے بہانے خواتین سے ملاقات کرتا تھا اور انہیں نوکری کا جھانسہ دے کر اپنی درندگی کا نشانہ بناتا تھا۔ تفتیش کے دوران ملزم نے کئی خواتین کو ہراساں کرنے کا اعتراف کیا۔ متاثرہ خاتون کی شکایت پر درخشاں تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ پولیس ملزم کے خلاف مزید تحقیقات کررہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 26ویں آئینی ترمیم کے لیے ووٹنگ کے دوران فلور کراسنگ کے مشکوک ارکان کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، یہ نوٹس ان ارکان کو جاری کیے گئے ہیں جو مبینہ طور پر ووٹنگ کے دوران موجود نہیں تھے۔ پارٹی نے ان ارکان کو آخری موقع فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ انکوائری کمیٹی کے سامنے اپنی صفائی پیش کر سکیں۔ معلومات کے مطابق، شوکاز نوٹس میں سینیٹر زرقہ تیمور، فیصل سلیم، زین قریشی، ریاض فتیانہ، مقداد علی اور دیگر ارکان شامل ہیں۔ اس اقدام کی اجازت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دی، جس کے بعد پارٹی کی جانب سے مزید کارروائی کی توقع کی جا رہی ہے۔
ایک طرف پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف پاک بھارت سرحد کے اطراف فصلوں کی باقیات جلانے کا سلسلہ تھما نہیں جس پر درجنوں کسان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بھارتی حکام نے کہا کہ بھارتی شمالی ریاست ہریانہ میں کھیتوں کو صاف کرنے کیلئے دھان کی فصل کی باقیات غیرقانونی طور پر جلانے والے 16 کے قریب کسان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ پاک بھارت سرحد کے اطراف موسم سرما شروع ہوتے ہی کسان یہ غیرقانونی طور پر کسانوں کی باقیات جلانا شروع کر دیتے ہیں جو فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق درجہ حرارت کم ہونے کے ساتھ پنجاب اور ہریانہ کی زرعی ریاستوں کی تعمیراتی دھول اور گاڑیاں کا دھواں ٹھنڈی ہوائیں آلودہ کرنے کا سبب ہے جس سے ہر سال نئی دہلی میں فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ سنٹرل پولوشن کنٹرول بورڈ کی رپورٹ کے مطابق دہلی کا ایئرکوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 320 درجے تھا، 0 سے 50 اے کیو آئی بہترین تصور کیا جاتا ہے جبکہ 400 سے 500 کو صحت کیلئے انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ لاہور کے بعد نئی دہلی دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر رہا جہاں کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے سموگ سے نپٹنے کیلئے بھارت کے ساتھ ماحولیاتی سفارتکاری کی تجویز دی ہے۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ اینٹوں کے ممنوعہ بھٹے جلانے، فصلوں کی باقیات جلانے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں چلانے پر 182 مقدمات درج کیے گئے جبکہ 71 شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے نپٹنے کیلئے مصنوعی بارش ودیگر اقدامات کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں، مصنوعی بارش کے ہر مرحلے پر 50 سے 70 لاکھ کے قریب لاگت آئے گی۔ ہریانیہ پولیس کے مطابق رواں برس کسانوں کی طرف سے فصلوں کی باقیات جلانے پر 22 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 16 شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا جنہیں ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 100 سے زیادہ کسانوں کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہیں جبکہ 300 سے زیادہ شہریوں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔ وزارت ماحولیات بھارت نے کہا کہ ناسازگار ماحولیاتی وموسمی عوام کے باعث دہلی کی ہوا کا معیار آئندہ دنوں 300 سے 400 کے قریب رہے گا۔ فضائی آلودگی سے نپٹنے کیلئے سڑکوں پر پانی چھڑکائو، پبلک بسز کا استعمال بڑھانے، پارکنگ فیسیں بڑھانے کے احکام جاری کیے ہیں، ماہرین ماحولیات نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہنگامی اقدامات ہیں، فضائی آلودگی ختم کرنے کیلئے پائیدار حل نکالنے چاہئیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے 14 برس قبل 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ایک انٹرویو میں ججز کے تقرر کے طریقہ کار میں پارلیمنٹ کے کردار سے متعلق گفتگو کی تھی جس کا ویڈیو کلپ سامنے آگیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر عمران خان کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے جاری کردہ اس ویڈیو کلپ کے ساتھ جاری کیے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے 14 سال قبل، 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ اگر حکومت یا سیاستدان ججز کی تعیناتی کریں تو یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ عمران خان کی بات آج درست ثابت ہوگئی ہے کیونکہ وہی کردار دوبارہ عدلیہ کو ایگزیکٹیو کے زیرِ اثر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طلعت حسین کو دیئے گئے اس انٹرویو میں عمران خان نے پارلیمنٹری کمیٹی کو ججز کی سیلیکشن کا اختیار دینے کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی اور اس اقدام کو جوڈیشٹری کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کی بنیادی اقدار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ جب ایک سیاسی رہنما، جو پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے، ججز کے فیصلے کرے گا تو اس سے نظام انصاف متاثر ہوگا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جو لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ امریکہ کی طرح ججز کی سیلیکشن میں شفافیت ہے، وہ حقیقت سے ناواقف ہیں، امریکہ میں سینٹ ایک چیک ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے یہاں وزیراعظم اور وزراء براہ راست پارلیمنٹ سے منتخب ہوتے ہیں،پاکستان میں وزیروں اور ایگزیکٹیو کے ہوتے ہوئے اس عمل میں شفافیت کا تصور ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے عوامی مفاد کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، کیونکہ جو بھی شخص اقتدار میں آتا ہے، وہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جو پاکستان کو تیسری دنیا کے زمرے میں رکھتی ہے۔ کامیاب جمہوریتوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر میں آج وزیر ہوں تو مجھے عدالت کے کٹارے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹری کمیٹی کے ہیڈ اور سیاستدانوں نے ججز کے خلاف فیصلے کرنے کا اختیار سنبھال لیا ہے، جن میں سے بعض یہ کہیں گے کہ ججز کے کرڈینشلز درست نہیں ہیں۔ ہم تو خاموشی سے اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، کبھی جمہوریت اور کبھی ڈکٹیٹر شپ کے نام پر۔
امریکہ کی طرف سے مبینہ طور پر ڈرونز اور ہتھیاروں کو تیار کرنے میں پاکستان اور ایران کی مدد کرنے والی 26 فرموں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کامرس ڈیپارمنٹ امریکہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈرونز اور ہتھیاروں کی تیار میں مدد کرنے والی جن 26 کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی میں ان میں سے زیادہ تر فرمیں چین، متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں قائم ہیں۔ امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان فرموں کو فہرست میں تجارتی سپائی ویئر کے منفی استعمال، سنسرشپ کرنے، ویب مانیٹرنگ، اختلاف رائے رکھنے والوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کی تصدیق کے بعد شامل کیا ہے۔ فرموں کی طرف سے برآمدی کنٹرول کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور انہیں ہتھیاروں کے تشویشناک پروگرامز میں ملوث پایا گیا ہے۔ ایران اور روس ان فرموں کو امریکی پابندیوں کے ساتھ ساتھ برآمدی کنٹرول سے بچنے کیلئے استعمال کرتے رہے اور پابندی کے بعد یہ فرمیں حکومتی اجازت کے بغیر امریکی ٹیکنالوجی فروخت نہیں کر سکیں گی اور درآمدی وبرآمدی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔ پابندیوں کا مقصد ان فرموں کو یہ باور کروانا ہے کہ اگر طے شدہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھارت قیمت چکانی ہو گی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 9 اداروں پر پہلے سے ہی بلیک لسٹ ایڈوانسڈ انجینئرنگ ریسرچ آرگنائزیشن کے پروکیورمنٹ ایجنٹ اور فرنٹ کمپنیاں ہونے کا الزام عائد کیا جا چکا ہے۔ 2010ء سے اس گروپ بارے کہا جاتا ہے کہ اس نے امریکی ساختہ اشیاء آخری صارفین چھپا کر خریدیں جن میں سٹریٹجک ڈرون پروگرام اور کروز میزائل پروگرام کیلئے ذمہ داری ملکی ادارہ شامل ہے۔ امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ سرگرمی امریکی خارجہ وقومی پالیسی کے مفادات کے منافی ہے، چین میں بھی مبینہ طور پر 6 اداروں کو چینی فوجی جدت میں مدد کیلئے یا ایرانی ڈرون وہتھیاروں کے پروگرامز میں مدد کرنے کیلئے امریکی اشیاء حاصل کرنے کیلئے دیگر وجوہات شامل کی گئی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مصر میں 3، یو اے ای میں 1 ادارے نے 2022ء میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پابندیوں سے بچنے کیلئے امریکی نژاد اشیاء حاصل کیں یا کرنے کی کوشش کی تھی۔
پاکستان کے معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آئینی بینچز کا نام کچھ بھی ہو، وہ دراصل ایک الگ عدالت ہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کی آزادی پہلے بھی متاثر رہی ہے اور اب سپریم کورٹ میں یہ بحث جاری ہے کہ کون سا کیس ریگولر عدالت میں جائے گا اور کون سا آئینی عدالت میں۔ منیر ملک نے وضاحت کی کہ فوجداری اور سول اپیلوں کے علاوہ، تمام کیسز آئینی عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گے، جو کہ زیر التوا کیسز کی تعداد کم کرنے کی کوششوں کے لیے موثر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بار نے کبھی بھی ججز کی تعیناتی یا اصلاحات پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ ان کا موقف یہ رہا ہے کہ فیصلہ کرنے والے افراد کا انتخاب شفاف ہونا چاہیے۔ ملک نے یہ بھی کہا کہ "کنٹرولڈ جمہوریت" کے بعد اب "کنٹرولڈ عدلیہ" کا دور آ گیا ہے، جس کے خلاف بار نے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے پرانے فیصلوں کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پرو اسٹبلشمنٹ فیصلے ہوئے، اور اب صورتحال میں زوال کا سامنا ہے۔ انہوں نے ریٹائرڈ ججز کو بھی اس جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی اور کہا کہ کراچی بار اور سندھ بار کونسل نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ منیر ملک نے عزم ظاہر کیا کہ ان کی جدوجہد عدالتوں کے اندر اور سڑکوں پر جاری رہے گی۔
برطانیہ کے معروف ارب پتی تاجر سررچرڈ برانسن جو متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں نے سابق وزیراعظم وبانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے آواز بلند کر دی۔ رچرڈ برانسن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک پرانی تصویر اور عمران خان کی صحت کے حوالے سے ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا: یہ کرکٹ نہیں ہے، پاکستانی حکام کی طرف سے عمران خان کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ رچرڈ برانسن نے اپنے پیغام میں لکھا: عمران خان کو بلاجواز گرفتار کرنے سے پاکستان میں جمہوریت کی عزت اور قانون کی حکمرانی پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں ، ان کی طرف سے شیئر کی گئی ٹائم میگزین کی رپورٹ میں اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی صحت، ان کی وہاں دی جانے والی ناقص سہولیات اور ان کی سابقہ بیوی جمائمہ گولڈ سمتھ کے خدشات پر گفتگو کی گئی ہے۔ رچرڈ برانسن کے ٹویٹر پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے پیغام بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: عمران خان کی رہائی کیلئے آواز اٹھانے کا شکریہ! وہ صرف قومی ہیرو اور عالمی شخصیت ہی نہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے لیے امید کا استعارہ ہیں۔ عمران خان اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات ختم ہونے کے باوجود انہیں غیرقانونی طور پر بدترین حالات میں قید میں رکھا گیا ہے اور 400 دن سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے عمران خان کو فوری طور پر رہا کرنے کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ عمران خان کی قید بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، دنیا بھر کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے اپنی آواز بلند کریں کیونکہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ معروف برطانوی تاجر رچرڈ برانسن کے ایکس (ٹوئٹر) اکائونٹ پر 12 ملین سے زیادہ فالوورز ہیں اور عمران خان کے حق میں کی گئی پوسٹ کو 10 لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔
حکومت کی طرف سے لائی گئی 26 ویں آئینی ترامیم سینٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دوتہائی اکثریت سے منظور ہو چکی ہے اور اب چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تقرری سنیارٹی کی بنیاد کے بجائے ایک کمیٹی کرے گی۔ دوسری طرف 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خبریں زیرگردش ہیں کہ جمعیت علماء اسلام خیبرپختونخوا میں تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے وزیراعظم شہبازشریف نے گورنر کا عہدہ جے آئی یو کو دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد زیرگردش خبروں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فیصل کریم کنڈی کو گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ پر جمعیت علماء اسلام کے مولانا اسعد محمود کو بطور گورنر کے پی کے نامزد کیا گیا ہے تاہم خیبرپختونخوا میں عدم اعتماد اور گورنر فیصل کریم کنڈی کو ہٹا کر ان کی جگہ مولانا اسعد محمود کو گورنر بنائے جانے کی جے یو آئی کی طرف سے تردید کر دی گئی ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: دھماکہ دار خبر ، کے پی میں تحریک عدم اعتماد لینے کے لیے تیاریاں شروع ، بہت جلد جس کے سلسلے میں پہلے گورنر کے پی کی تبدیلی ! وزیر اعظم نے گورنر کے فیصل کریم کنڈی کو عہدے سے ہٹا دیا اور جے یو آئی نے گورنر کے پی کے لیے مولانا اسعد محمود کو نامزد کر دیا! جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری نے سوشل میڈیا پر زیرگردش خبریں سامنے آنے کے بعد وضاحت جاری کرتے ہوئے ٹوئٹر (ایکس) پیغام میں لکھا: سابق وفاقی وزیر مولانا اسعد محمود کو گورنر خیبرپختونخوا بنانے کی خبریں 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن کی تاریخی اور کامیاب کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی بھونڈی سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اسلم غوری کا بیان میں کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہونے والے عناصر اب سربراہ جے یو آئی کی کردارکشی پر اتر آئے ہیں۔ قوم ایسے عناصر کو اچھی طرح سے جانتی ہے اور ایسی جھوٹی خبریں صحافتی اقدار کے منافی ہیں، اس خبر میں کسی قسم کی سچائی نہیں ، یہ من گھڑت اور جھوٹی پر مبنی ہے۔
پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 2 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کے لیے دوبارہ درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ ملاقات کے دوران اس درخواست کو پیش کریں گے۔ وزارت خزانہ نے کلائمیٹ فنانسنگ کے لیے تمام ضروری ورکنگ مکمل کر لی ہے اور آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس میں اس معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق، وزیر خزانہ موسمیاتی تبدیلی کے منصوبوں کی فنانسنگ کے لیے عالمی بینک کے صدر سے بھی بات چیت کریں گے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پہلی درخواست فوری طور پر منظور نہیں کی گئی تھی، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف حکام کے ساتھ قرض پروگرام کے بعد اہداف پر عملدرآمد کی ابتدائی رپورٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔ وزیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، اور اسٹیٹ بینک کے حکام 26 اکتوبر تک سالانہ اجلاسوں میں شریک رہیں گے۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے اجلاس میں شرکت کے بعد ہفتے کے اختتام تک واپس آئیں گے۔
متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی نے پاکستانیوں کو ویزا جاری نہ کرنے کے معاملے پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ 31 اکتوبر کو ایمنسٹی پروگرام کے مکمل ہونے کے بعد کچھ بہتری تو آئی ہے، لیکن یہ ناکافی ہے۔ دبئی میں منعقدہ جائیٹکس گلوبل 2024 کے دوران، جس میں 180 سے زائد ممالک کے شہری شریک ہوئے، فیصل نیاز نے ویزا مسائل کی نشاندہی کی۔ کئی پاکستانی شہری ویزا کی کمی کی وجہ سے اس بڑے ایونٹ میں شرکت نہیں کر سکے۔ عام طور پر پاکستانی شہریوں کو ویزا حاصل کرنے میں مشکلات نہیں ہوتی، لیکن حالیہ دنوں میں اسٹارٹ اپ مالکان اور آئی ٹی پروفیشنلز کی ویزا درخواستیں بار بار مسترد کی گئی ہیں۔ سفیر نے کہا کہ یو اے ای حکومت نے کچھ ریلیف فراہم کیا ہے، جیسے کہ عارضی جرمانے معاف کرنا اور بغیر پابندی کے ملک چھوڑنے کی اجازت دینا۔ تاہم، ویزا مسترد ہونے کی شرح بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کے پاسپورٹ کو عالمی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلیو کالر ورکرز نے یو اے ای کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اب حکومت ہنر مند افراد کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ فیصل نیاز نے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر بنانے اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر جب کہ پاکستان نے جی آئی ٹی ایکس جیسی عالمی ٹیک ایونٹس کی میزبانی کی ہے۔ سفیر نے یہ بھی واضح کیا کہ ویزا کے مسائل خاص طور پر ان مردوں کے لیے بڑھ گئے ہیں جو اکیلے سفر کر رہے ہیں یا 45 سال سے کم عمر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، متحدہ عرب امارات کی جاب مارکیٹ کی تبدیلیوں کے سبب پاکستانیوں کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں، جن میں ہنر مند کارکنوں کی ضرورت ہے۔ اس طرح، پاکستانیوں کو ویزا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جو کہ ان کے لیے کاروباری مواقع اور بین الاقوامی تقریبات میں شرکت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
پنجاب نے ستمبر 2024 میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہول سیل اور ریٹیل قیمتوں کے فرق کو کم کرنے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جبکہ تمام صوبے اور وفاقی حکومت پیچھے رہ گئے۔ خیبر پختونخوا کی کارکردگی دوسرے نمبر پر جبکہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سب سے خراب رہی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات کے ڈیٹا پر مبنی جائزے میں ٹماٹر، آلو، پیاز، دودھ اور دالوں سمیت متعدد اشیاء کی ہول سیل اور ریٹیل قیمتوں کا موازنہ کیا گیا۔ اس موازنے کے مطابق پنجاب میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں ہول سیل کے مقابلے میں ریٹیل میں صرف 25 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا، جو کہ ملک بھر میں سب سے کم فرق ہے۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی سب سے خراب رہی، جہاں شہریوں کو ہول سیل قیمتوں کے مقابلے میں ریٹیل میں 59 فیصد تک مہنگی اشیاء خریدنا پڑیں۔ بلوچستان میں یہ فرق 43 فیصد، سندھ میں 36 فیصد، جبکہ خیبر پختونخوا میں 27 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ ملکی سطح پر اوسطاً اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ہول سیل کے مقابلے میں ریٹیل میں 28 فیصد زیادہ رہیں۔ ذرائع کے مطابق، ملک میں مہنگائی کی شرح ستمبر 2024 میں 6.9 فیصد کی کم ترین سطح پر تھی، اس کے باوجود شہریوں کو ہول سیل کے مقابلے میں زیادہ مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ منافع خور عناصر اور کچھ صوبائی و مقامی انتظامیہ کی ناکامی کے باعث قیمتوں کے اس فرق کو مزید کم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

Back
Top