خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفہ میں ملنے والی گھڑی سے متعلق عمر فاروق ظہور کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوگیا ہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ گھڑی عمر فاروق ظہور نے براہ راست نہیں خریدی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی بزنس مین عمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو ملنے والی گھڑی کی فروخت کیلئے عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزا اکبر نے رابطہ کیا اور اس گھڑی کی ڈیل سابق خاتون اول کی سہیلی فرح گوگی کے ساتھ طے پائی تھی۔ تاہم اے آر وائی نیوز اپنی ایک رپورٹ میں عمر فاروق ظہور کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان میں توشہ خانہ سے گھڑی خریدنے والے شخص کو سامنے لے آیا ہے۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں انکشاف ہوا کہ توشہ خانہ سے گھڑی اسلام آباد میں ایک شفیق نامی بزنس مین نے خریدی، شفیق نے گھڑی 5 کروڑ 10 لاکھ روپے میں خریدی اور متحدہ عرب امارات میں اویس مرچنٹ کو یہ گھڑی فروخت کردی، توشہ خانہ سے گھڑی خریدنے والا شفیق سرکاری ملازم بھی ہے اور توشہ خانہ میں فرائض بھی سرانجام دے چکا ہے، شفیق نے 5 کروڑ 10 لاکھ کی گھڑی خرید کر دبئی میں 6 کروڑ 10 لاکھ روپے میں فروخت کی۔ اویس مرچنٹ نے یہ گھڑی امارات کی ایک کاروباری شخصیت کو فروخت کردی، گھڑی خریدنے والا شخص عمر فاروق ظہور کا قریبی سمجھے جانے والا شخص ہے۔
اینکر پرسن وصحافی سیدطلعت حسین نے توشہ خانہ سے بیچی جانے والی گھڑی سے متعلق رواں سال 29 جون کو دعویٰ کیا اور ساتھ میں تصاویر بھی شیئر کیں تاہم اب مزید تفصیل سامنے آئی ہے تو پتہ چلا یہ تو وہ گھڑی ہی نہیں، جس سے طلعت حسین کا جھوٹ پکڑا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق طلعت حسین نے 29 جون کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جو ٹوئٹ کیا اس میں جو گھڑی کی تصاویر شیئر کی گئیں ان سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ قطری وزیرخارجہ کی جانب سے دی گئی گھڑی، کف لنک، قلم اور دیگر کچھ قیمتی چیزیں تھیں جو توشہ خانہ سے نکال کر آرٹ آف ٹائم نامی جیولری شاپ کو 5 کروڑ 10 لاکھ روپے میں فروخت کی گئیں۔ جبکہ دوسری جانب اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیو نیوز سمیت چند دیگر میڈیا ہاؤسز اب یہ خبر چلا رہے ہیں کہ توشہ خانہ کی گھڑی دبئی سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت کو 44 کروڑ روپے میں بیچی گئی تھی۔ جس پر صارفین صحافیوں کے آپسی متضاد دعووں کو دیکھتے ہوئے خود گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ جنید نامی صارف نے اس صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لفافے رے لفافے تیری کون سی کل سیدھی جبکہ اظہر خان نامی صارف نے اس پر ردعمل میں کہا کہ طلعت حسین نے یہی گھڑی کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں 5 کروڑ 70 لاکھ میں بکنے کی خبر بمعہ ثبوت دی مگر اب اسی گھڑی کے تقریباً 44 کروڑ میں دبئی میں بکنے کی خبر دے رہا ہے۔ یار کیسے کر لیتے ہو یار یادداشت بھی کسی چیز کا نام ہے۔
کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں سیکیورٹی گارڈ نے ظلم کی انتہا کردی، بھیک مانگنے پر مقامی ریسٹورنٹ کے باہر کھڑے سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے بچے کی جان لے لی،بچہ ہوٹل کے باہر گداگری کر رہا تھا کہ ریسٹورنٹ کے سیکیورٹی گارڈ نے منع کردیا۔ سیکیورٹی گارڈ کی بات نہ ماننے پر بچے پر فائرنگ کر دی گئی جس سے بچہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا،ملزم لاش جیکسن تھانے کی حدود میں پھینک کر فرار ہوگیا تھا،پولیس نے نجی سیکیورٹی کمپنی کے گارڈ کیخلاف ہلاکت کا مقدمہ درج کرلیا۔ مفرور سیکیورٹی گارڈ کی تلاش جاری ہے،بچے کی لاش تدفین کے لیے سکھر روانہ کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب والدہ کا کہنا ہے کہ عمر اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ہوٹل کے باہر چیز بیچ رہا تھا۔ بچے کا تعلق بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے بتایا جارہا ہے۔ بچے کے قتل پر سندھ حکومت نے نوٹس لے لیا ہے اور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
وفاقی حکومت نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پر اعتراض اٹھادیا ہے۔ تفصیلات کےمطابق وفاقی وزارت داخلہ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے محکمہ داخلہ پنجاب کو ایک مراسلہ لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے اعتراض اٹھایا ہے کہ جے آئی ٹی میں شامل تمام ارکان کا تعلق پنجاب پولیس سےہے، اس ٹیم میں کسی بھی دوسرے سیکیورٹی ادارے یا خفیہ ایجنسی کا نمائندہ شامل نہیں کیا گیا ۔ وفاقی وزارت داخلہ نے محکمہ داخلہ پنجاب کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں آئی ایس آئی اور آئی بی جیسے خفیہ اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی تجویز دیتےہوئے کہا کہ بہتر ہوگا پنجاب حکومت حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں وفاقی ایجنسیز کے نمائندوں کو بھی شامل کرے۔ وفاق نے پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کے سربراہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر پر بھی اعتراض اٹھایا اور کہا کہ غلام محمد ڈوگر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے معطل کردیا ہے، تاہم انہیں عارضی طور پر فیڈرل سروس ٹریبونل سےریلیف ملا ہے، ایسے میں انہیں جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کرنا شفاف تحقیقات پر سوال اٹھاتا ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی معاملے کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں 1997 کےسیکشن19 کے تحت انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اگر کسی کمیٹی میں انٹیلی جنس اداروں کے نمائندے شامل نا کیے جائیں تو وہ جے آئی ٹی کےبجائے پولیس کی ایک تحقیقاتی کمیٹی کہلائے گی، پنجاب حکومت نے بھی عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں انٹیلی جنس اداروں کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔
گیلپ پاکستان نے ایک سروے کیا جس میں 88 فیصد کاروباری اداروں نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی وتجزیہ نگار کامران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ موجودہ 13 جماعتی اتحادی حکومت نے جیسے تیسے کر کے اقتدار کے 7 ماہ پورے کر لیے، اب ان کی دلی خواہش ہے کہ اگلے 7 ماہ بھی اقتدار برقرار رہے مگر گزشتہ 7 ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ماہر معیشت پلک جھپکتے بتا تصدیق کر دیگا کہ پاکستانی معیشت ڈوب رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کی غیرمقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند دن پہلے گیلپ پاکستان نے ایک سروے کیا جس میں 88 فیصد کاروباری اداروں نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا جبکہ ماہ فروری میں عمران خان کے دور اقتدار میں یہ اعدادوشمار کم ازکم 3 گنا کم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ اتحادی حکومت کی غیرمقبولیت کی تصدیق انسٹیٹیوٹ آف پبلک ریسرچ سروے سے بھی ہوئی ہے جس میں پاکستانی شہریوں کی اکثریت نے پی ڈی ایم کی قیادت کو بڑھتی مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ ماہرین معیشت اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر کی وجہ سے پریشان ہیں جو 8 ارب ڈالر سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی ایک سال کی زرمبادلہ کی ضرورت 34 ارب ڈالر ہے۔ دوسری طرف ڈالر کی قیمت 7 ماہ میں 181 روپے سے بڑھ کر 222 روپے پر پہنچ چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں قیمت 240 کے آس پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ترسیلات زر میں بھی 10 فیصد کمی آ ئی ہے، اوورسیز پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم بھیجنے سے کترا رہے ہیں، کاروباری اداروں کیلئے ایل سیز کھولنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور صنعتی پیداوار ہو رہی ہے، آٹو انڈسٹری کی پیداوار نصف کے قریب رہ گئی ہے۔ ٹیکس آمدن میں ماہ اکتوبر میں 21 ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی اور آئی ایم ایف نے مرے کو مارنے کے مترادف 800 ارب روپے کے منی بجٹ کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ حکومت کے آئی ایم ایف سے تعلقات بھی خراب ہوتے نظر آرہے ہیں، 1.3 ارب ڈالر کی قسط ادا کرنے میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا کریڈٹ ڈیفالٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ چکا ہے، قرضوں کا حصول انتہائی مہنگا ہو چکا ہے، دوسری طرف ملک میں بدترین گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ پاکستان کی معیشت گہری خندق میں گر چکی ہے؟ جب تک تمام سیاسی قوتیں بمعہ فوج کسی قومی منصوبے پر جمع نہیں ہوتیں تو تباہی ہمارا مقدر ہو گی! خدانخواستہ!
شہید صحافی ارشد شریف کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون کس کے پاس اور کہاں ہے ابھی معلوم نہیں۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی واینکر اقرار الحسن کو ایمانوئل لے گاٹ ڈائریکٹر انویسٹی گیشن انڈی پنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی (آئی پوا) نے انٹرویو دیا ہے۔ اقرار الحسن کے سوال پر کہ " ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی؟ کیا پولیس نے کسی سے پوچھ گچھ کی؟ یا کسی پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا یا کسی کو معطل کیا گیا، اب تک کیا سامنے آیا ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے ایمانوئل لے گاٹ نے کہا میں تصدیق کرتا ہوں کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، کچھ ملزمان سے تحقیقات کی جا رہی ہیں جنہیں تحقیقات مکمل ہونے پر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اقرار الحسن نے سوال کیا کہ "تحقیقات مکمل ہونے میں کتنا وقت درکار ہو گا؟"جس کا جواب دیتے ہوئے ایمانوئل لوگاٹ کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، میرے خیال میں 3 ہفتے میں تحقیقات مکمل کر لی جائیں گی۔ ایمانوئل لوگاٹ نے شہید صحافی کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں! اقرار الحسن نے سوال کیا کہ نیروبی میں آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں جی ایس یو کے زخمی اہلکار تک رسائی نہیں دی گئی جبکہ وہ اس کیس سے جڑے چوتھے شخص سے بھی بات کرنا چاہ رہے تھے، کیا آپ اس بات کی تصدیق کرینگے؟ جس کے جواب میں ڈائریکٹر انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ میں اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ اس پولیس افسر کا تعلق نیشنل پولیس سروس سے ہے، ان تک رسائی انسپکٹر جنرل کی منظوری سے ہی ہو سکتی ہے جبکہ پولیس افسران کی تعداد کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ پر 4پولیس اہلکاروں کی موجودگی آپ کو پتہ ہے اس کے علاوہ بھی کچھ ملزمان کا پتا چلا ہے۔ اس سے پہلے سینئر صحافی اقرار الحسن کو انٹرویو میں سابق سیکورٹی ایکسپرٹ اور جی ایس یو ٹرینر جورج موسیٰ مالی نے بتایا تھا کہ وہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں جس میں جنرل سروس یونٹ کے ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے کیونکہ اس کیس کے حوالے سے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو ) کو طلب کرنا غیرمعمولی تھا کیونکہ اس کیلئے پہلے صدر اور پھر کمانڈر کے آرڈرز درکار ہوتے ہیں جبکہ جائے وقوعہ پر گولیوں کے خول ایسے ہی چھوڑ دینے کی وجہ لاپروائی نظر آتی ہے، ایسے لگتا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی منصوبہ بندی کہیں اور کی گئی جبکہ انہیں قتل کینیا میں کیا گیا۔
کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)نے غیر قانونی تعمیرات کے الزام پر سینیٹر اعظم سواتی کی اہلیہ کو حتمی نوٹس جاری کردیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کو سی ڈی اے کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آرچرڈ اسکیم کے پلاٹ نمبر 71 میں غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں،ان غیر قانونی تعمیرات کو 7 دن کے اندر اندر مسمار کردیا جائے گا۔ غیرقانونی تعمیرات میں بیسمنٹ کی دائیں جانب، گراؤنڈ فلور کی بیک سائیڈ اور گارڈ روم شامل ہے جسے مسمار کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ چند روز قبل سینیٹر اعظم سواتی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی ایک ویڈیو کا ذکر کیا تھا اوربتایا تھا کہ اس ویڈیو کو ان کی اہلیہ کو واٹس ایپ کیا گیا جس کے بعد ان کی اہلیہ اور بچے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
لاہور میں اورنج لائن ٹرین کے اسٹیشن سے پُراسرار ڈرون طیارہ ٹکرا گیا۔ پولیس کے مطابق اورنج لائن ٹرین کے علی ٹاؤن اسٹیشن سے ڈرون طیارہ ٹکرایا جس میں کسی قسم کا کوئی بارودی یا دھماکاخیز مواد نہیں ملا۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ایک پراسرار ریموٹ کنٹرول ہلکا ڈرون اورنج لائن ٹرین کے پل سے ٹکرایا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق یہ واقعہ بدھ کو اورنج لائن ٹرین کے علی ٹاؤن اسٹیشن ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب پیش آیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تعین کیا جا رہا ہے کہ ریموٹ کنٹرول ڈرون طیارہ کس طرف سے آیا ہے، بم ڈسپوزل اور متعلقہ حکام نے موقع پر پہنچ کر واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ڈرون طیارے کے پروں کی لمبائی 13 فٹ ہے، جبکہ ڈرون کی لمبائی 6 فٹ 4 انچ ہے۔ لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ بم ڈسپوزل اور دیگر متعلقہ حکام موقع پر پہنچ گئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اورنج ٹرین ٹرمینل میں ڈرون طیارہ گرنے کے واقعے کی تخریب کاری سمیت تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ حساس اداروں نے ڈرون اپنی تحویل میں لے لیا ہے، سی ٹی ڈی فرانزک ٹیم نے ڈرون کے پرزوں کا معائنہ شروع کر دیا ہے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈرون کے تمام پرزے الگ کر کے اس کی ساخت کا تعین بھی کیا جا رہا ہے۔
اوکاڑہ میں ن لیگی رہنما کو دیکھ کر عوام نے "چور چور" کے نعرے لگانا شروع کردیے ہیں،واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اوکاڑہ میں ایک تقریب کے دوران صورتحال اس وقت خفت آمیز ہوگئی جب ن لیگی رہنما راؤ محمد اجمل خان بطور مہمان تقریب میں پہنچے مگر اردگرد موجود لوگوں نے شدید نعرے بازی شروع کردی۔ ن لیگی رہنما کو دیکھ کر تقریب میں موجود افراد نے "چور چور"کے نعرے لگانا شروع کردیئےجس سے راؤ اجمل اور ان کے ساتھیوں کو شدید خفت اٹھانا پڑی۔ تقریب کے منتظمین نے مہمان کے مخالف نعروں کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر کارروائی کی اور نعرےلگاکر تقریب میں بدنظمی پھیلانے کی کوشش کرنے والے افراد کو پنڈال سے باہر نکال دیا ہے۔ خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ن لیگ کے خلاف کرپشن اور مالی بدعنوانی کا بیانیہ عوام میں اتنا مقبول ہوچکا ہے کہ عوام نے ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دیکھ کر چور چور کے نعرے لگانا شروع کردیئے ہیں۔
ہماری ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے اور گواہان پیش کرے۔ تفصیلات کے مطابق شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے سپریم کورٹ کے ہیومن ریسورسز سیل کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں ایک گھریلو خاتون ہوں، میرے بیٹے کے قتل کے حوالے سے کی جانے والی کسی قسم کی تحقیقات کا علم نہیں ہے، ہماری ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے اور گواہان پیش کرے۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے توہین عدالت کیس کی سماعت میں شہید صحافی ارشد شریف کے حوالے سے ان کی والدہ کے خط پر کارروائی شروع کر دی ہے اور جو کمیشن کینیا گیا اس سے رپورٹ طلب کی ہے، عدالت تفتیش نہیں کرسکتی، ضابطے کے مطابق کام کریں گے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے خط لکھ کر ہائی پاورجوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا، جس میں کہا تھا کہ میرے بیٹے کی شہادت کے خلاف حکومتی ظالمانہ اقدامات کا نوٹس لیا جائے، مجھے اور میرے بیٹے کے یتیم بچوں کو انصاف دیا جائے۔ خط کے متن کے مطابق ارشدشریف نے بھی آپ کو خط لکھا تھا اور بتایا تھا کہ میری زندگی خطرے میں ہے، بغاوت کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں جبکہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ارشد شریف کو دبئی میں منتقل ہونا پڑا جہاں وہ محفوظ ہوگیا لیکن موجودہ اتحادی حکومت نے دبئی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر ارشد شریف کو وہاں سے کینیا جانے پر مجبور کر دیا۔ ارشد شریف کی والدہ نے خط میں لکھا کہ اسے کہا گیا تھا کہ فوری دبئی چھوڑ دو ورنہ حکومت پاکستان کے حوالے کر دیں گے، جس کے بعد وہ کینیا چلا گیا جہاں 2 ماہ بعد قتل ہوگیا۔ ان کے قتل کی حقیقی وجوہات چھپائی گئیں جن کو منظرعام پر لانا ضروری ہے، کینیائی پولیس بھی 3 سے 4 مرتبہ بیان تبدیل کر چکی ہے جبکہ تحقیقاتی کمیٹی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وفاقی وزراء نے جھوٹے اور من گھڑت بیانات دینے شروع کر دیئے جو میڈیا ریکارڈ پر موجودہیں۔ وزیراعظم نے تحقیقات کیلئے ہائی پاور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا کہا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھیں گے لیکن ان کے اعلان کے برعکس ریٹائرڈ جج شکور پراچہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر پیچھے ہٹنے کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں سینئر صحافیوں اورٹی وی اینکرز سے ملاقات کی، اس موقع پر عمران خان نےآرمی چیف کی تعیناتی، مبینہ امریکی سازش، توشہ خانہ اسکینڈل اور دیگر اہم معاملات پر کھل کر بات کی۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق گفتگو کرتےہوئےچیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم آرمی چیف کی تعیناتی کےمعاملے پر اب پیچھے ہٹ گئے ہیں، ہم پیچھے بیٹھ کر سب کچھ دیکھ رہےہیں، اصل میں نواز شریف ایک ایسا آرمی چیف چاہتے ہیں جو ان کے کیسز اور دیگر معاملات کا خیال رکھے،اب کوئی آرمی چیف ایسا نہیں آئے گا جو ریاست، عوام اور اداروں کے خلاف جائے۔ عمران خان نے کہا کہ امریکہ کے معاملے پر میرے بیان کو غلط طریقےسے پیش کیا گیا، میری حکومت امریکہ نے ہی گرائی تھی مگر میں ملکی مفاد کیلئے امریکہ سے اچھے تعلقات کا خواہشمند ہوں، امریکہ کے معاملے پر میں ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دوں گا، اسی لیے میں امریکہ سے لڑائی کے بجائے مثبت اور بہتر تعلقات چاہتا ہوں۔ توشہ خانہ اسکینڈل کے حوالے سے سوال کےجواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں فروخت کی گئی چیزیں اسلام آباد میں ہی بیچی گئیں، ان کی رسیدیں ، تاریخ اور تمام ریکارڈ توشہ خانہ میں موجود ہے، اس معاملے پر دبئی، لندن اور پاکستان میں متعلقہ افراد کےخلاف کیس دائر کریں گے، اس کیس میں جب گواہی پر آئیں گے تو سارا کیس ہی ختم ہوجائے گا۔ حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں مذکرات کا پیغام بھیجا گیا تھا مگر ہم نےشرط رکھی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اس وقت ملکی صورتحال میں صاف و شفاف انتخابات ہی تمام بحرانوں کا واحد حل ہے۔
اتحادی جماعتوں کی حکومت نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کےاستعفوں کے معاملے پر یوٹرن لیتے ہوئےمزید استعفے منظور نا کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کےمستعفیٰ ارکان کےاستعفے منظور نہیں کیے جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق حکومتی اتحادیوں نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو یہ تجویز دی ہے کہ پی ٹی آئی کے کسی بھی رکن کا استعفیٰ منظور نا کیا جائے، اگر استعفیٰ منظور کیے گئے تو ان پر ضمنی انتخابات میں اتحادی جماعتوں کو پی ٹی آئی سے شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو اتحادی جماعتوں کیلئے سبکی کا باعث بن سکتا ہے، لہذا بہتر یہی ہوگا کہ پی ٹی آئی ارکان کے مزید استعفیٰ منظور نا کیے جائیں۔ یادرہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اب تک پی ٹی آئی کے 11 ارکان کے استعفیٰ منظور کرچکے ہیں ، خالی ہونے والی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے اتحادی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے معاہدے پر عمل نہ کیے جانے پر حکومت سے علیحدگی کا اشارہ دے دیا۔ نجی چینل اے آر وائی کے پروگرام "الیونتھ آور" میں گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی معاہدے پر چلے لیکن عمل نہیں ہوا تو ہم الگ ہوگئے اگر موجودہ حکومت نے بھی معاہدے پر عمل نہیں کیا تو ہم الگ ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مخالفین اس وقت ہمارے خلاف بدترین الزامات لگا رہے ہیں، حالانکہ ہم جو بلدیاتی نظام کراچی کے لیے مانگ رہے ہیں وہی پورے ملک کے لیے مانگتے ہیں۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ سب کو کراچی کے معاملے میں پیٹ میں درد کیوں ہوجاتا ہے۔ خواجہ اظہار نے مزید کہا ڈی لمیٹیشن اور 140 اے ہمارا آئینی مطالبہ ہے، ہم کہتے ہیں کہ پہلے ڈی لمیٹیشن اور 140 اے پر عمل کروائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک 31 ہزار ووٹر والے حلقے اور 80 ہزار والے کو برابر فنڈز قرض دیے جائیں گے۔ جب سپریم کورٹ کا 140 اے پر فیصلہ موجود ہے تو پھر یہ تو سیدھا سیدھا توہین عدالت کا کیس بنتا ہے۔ ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ ہمارے یہ دونوں مطالبات پر عمل کراکر بے شک بلدیاتی انتخابات کروالیں، یہ مطالبات ایک ہفتے میں پورے ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانونی و آئینی تقاضوں کے لیے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں درخواست دی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی سراج الحق اورجماعت اسلامی نعیم الرحمان میں فرق ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر کہا ہے کہ بس اب بہت ہو گیا۔ انہوں نے اینکر اور چینل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی چینل کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں اینکر نے راناابرار کو بطور صحافی مہمان متعارف کرایا اور کہا کہ انہیں توشہ خانہ سے متعلق خبر بریک کرنے پر نوکری سے نکلوایا گیا اور کہا گیا کہ یہ تحائف دبئی کے کاروباری شخص نے خریدے تھے۔ تاہم ان الزامات پر مبنی پروگرام پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ بس اب بہت ہو گیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ جیو اور شاہزیب خانزادہ نے اپنے ہینڈلرز کے ساتھ ملکر یہ پروگرام کیا، انہوں نے کہا کہ ان سب لوگوں نے اپنے غیر ملکی ہیڈلرز اور مطلوب ملزم کی مدد سے میرے متعلق جھوٹا اور لغو پروپیگنڈہ کیا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے اپنے وکلا کے ساتھ بات کر لی ہے وہ پاکستانی اور غیر ملکی عدالتوں میں بھی انہیں سو کرنے جا رہے ہیں۔ وہ اس کے کیلئے متحدہ عرب امارات اور برطانوی عدالتوں سے بھی رجوع کریں گے۔
با اثر وڈیروں نے بزرگ شہری کی چار بیٹیوں کو اغوا کر لیا، باپ انصاف کیلئے عدالت پہنچ گیا۔ تفصیلات کے مطابق بزرگ شہری نے سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں انکشاف کیا کہ اس کی چار بیٹیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے، با اثر وڈیرے میری چاروں بیٹیوں کو اغواء کر کے گجرات اور رحیم یار خان لے گئے ہیں۔ بزرگ شہری نے عدالت میں شکایت کی کہ بیٹیوں کے اغواء کے مقدمات بھی درج کرائے لیکن پولیس ان کے وڈیروں کے خلاف کارروائی نہیں کررہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے شادی کرلی ہے جس پر والد کا کہنا تھا کہ اگر شادی کر لی تو انکے نکاح نامے عدالت میں پیش کیے جائیں۔ درخواست میں سندھ اور پنجاب کے پولیس حکام کو فریق بنایا گیا ہے، عدالت نے درخواست کی سماعت کیلئے 26 نومبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس موبائل پر دہشت گردوں کے حملے میں اے ایس آئی سمیت 6 اہلکار شہید ہو گئے۔ ڈی پی او لکی مروت کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے علاقے میں آپریشن جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق پولیس چوکی عباسہ خٹک کی موبائل پر حملے کا افسوس ناک واقعہ آج صبح پیش آیا۔ پولیس موبائل کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ہفتہ وار میلے کی سیکیورٹی کے لیے جا رہی تھی کہ ڈاڈیوالہ کے مقام پر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے موبائل پر فائرنگ کر دی۔ پولیس کے مطابق حملہ اس قدر اچانک کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور اے ایس آئی، موبائل ڈرائیور سمیت 6 اہلکار شہید ہو گئے۔ شہید ہونے والوں میں اے ایس آئی علم دین، کانسٹیبل پرویز، احمد، دل جان، عبداللّٰہ اور محمود شامل ہیں۔ ڈی پی او لکی مروت کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے اور پولیس کی مزید نفری علاقے میں پہنچا دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے فائرنگ کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلی۔ وزیر اعلیٰ نے شہید ہونے والوں کی درجات بلندی اور غمزدہ لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ واقعہ انتہائی افسوناک ہے، شہداء کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے لکی مروت میں پولیس وین پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے اور شہید ہونے والے چھ پولیس اہلکار کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت شہدا کو اعزازات اور شہدا پیکج دے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے بھی لکی مروت میں پولیس وین پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت اور واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی خیبر پختونخوا سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔
ماہ نومبر سے جون 2023ء تک 5321 ارب روپے ٹیکس وصولیوں کی مد میں اکٹھا کرنا ہے جو مشکل نظر آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس قیصر احمد شیخ کی سربراہی میں ہوا جس میں چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے بتایا کہ رواں سال جولائی سے اکتوبر تک 2149 ارب روپے کا ٹیکس جمع کر لیا گیا ہے جبکہ ہدف 2144 روپے مقرر کیا گیا تھا لیکن سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی کا ہدف پورا نہیں کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال ٹیکس محصولات کی مد میں 16.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں رواں سال 17 فیصد کمی کا امکان ہے اور ماہ نومبر میں بھی درآمدات میں 20 فیصد کمی ہو گی۔ ماہ نومبر میں 537 ارب روپےکا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ، نومبر سے جون 2023ء تک 5321 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنا ہو گا۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ درآمدات میں کمی ہونے سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہو گی۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف کو حاصل کرنا پالیسیوں میں تبدیلیاں ہونے کے باعث انتہائی مشکل نظر آرہا ہے، بڑھتی شرح سود اور مہنگائی کے باعث اس میں کمی ہو گی جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے بھی ٹیکس محاصل میں کمی کا امکان ہے۔ موجودہ معاشی وسیاسی صورتحال اور جی ڈی پی کی شرح میں کمی بھی ٹیکس وصولیوں کے اہداف میں رکاوٹ ہے۔ چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے مزید بتایا کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی اور پاکستان میں سیلاب بھی ٹیکس وصولیوں میں کمی کی وجہ بنے گا جبکہ 25 لاکھ افراد نے اب تک ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں جس سے آئندہ مہینوں میں مزید مشکلات پیدا ہوںگی۔ ہماری کوشش ہے کہ انتظامی طریقے سے ٹیکس وصولیوں کو بڑھایا جائے، فی الحال نئے ٹیکس کی کوئی تجویز زیرغور نہیں، آئی ایم ایف کارکردگی سے مطمئن ہے، مذاکرات جاری ہیں۔ دریں اثنا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں رہنما ن لیگ برجیس طاہر نے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ نے ڈالر کو 200 روپے تک لانے کا اعلان کیا تھا لیکن پٹرول، بجلی اور گیس مہنگے ہو رہے ہیں، 7ماہ سے اقتدار میں ہیں حکومت مہنگائی پر کب قابو پائے گی، عوام کو ریلیف کب ملے گا؟ کیا اصلاحات کی گئیں، مزید قرضے مسائل کا حل نہیں، وزیر خزانہ کو خزانہ کمیٹی میں پیش ہونا چاہیے جس پر قائمہ کمیٹی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آج طلب کرلیا گیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح گوگی کے شوہر نے توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت کے حوالے سے عمر فاروق نامی بزنس مین کےالزامات مسترد کردیےہیں۔ تفصیلات کے مطابق فرح گوگی کے شوہر احسن جمیل گجر نے نجی ٹی وی سےگفتگو کرتے ہوئے عمر فاروق کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کے جواب میں کہا کہ میری بیوی نا تو عمر فاروق کوجانتی ہیں اور وہ نا ہی ان سے کبھی ملی ہیں۔ احسن جمیل گجر نے کہا کہ فرح گجر کا توشہ خانہ کے تحائف کی خرید وفروخت کے کسی معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جو سنار مہنگی گھڑیاں خریدتا ہے کیا وہ اس کی ویڈیو نہیں بناتا ہوگا؟ اگر عمر فاروق سچ بول رہے ہیں تو وہ 2 ملین ڈالر کی رسید ہی دکھادیں، اس معاملےکی سپریم کورٹ جیسے غیر جانبدار ادارے سے تحقیقات کرئی جانی چاہیے۔ واضح رہے کہ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی بزنس مین عمر فاروق نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کیلئے بنائی گئی دنیا کی واحد گھڑی میں نے خریدی ہے، اس کیلئے مجھ سے شہزاد اکبر صاحب نے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے پاس آپ کیلئے ایک گھڑی کا بہت اچھا سیٹ ہے اگر آپ خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو عمران خان کی اہلیہ کی سہیلی فرح گوگی آپ سے رابطہ کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ جب ہم اس گھڑی کو خریدنے پہنچے تو وہ چار پانچ ملین ڈالر میں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تاہم ہم نے بھاؤ تاؤ کے بعد یہ گھڑی 2 ملین ڈالر میں خرید لی، انہوں نے اس وقت یہ شرط رکھی تھی کہ ہمیں گھڑی کی قیمت کیش میں چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ایک بات تو بالکل واضح ہے ملک نہیں چل رہا کیا جمہوریت ایسے چلتی ہے؟ پی پی رہنما لطیف کھوسہ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک بات تو بالکل واضح ہے ملک نہیں چل رہا پارلیمنٹ میں اس وقت بیٹھی جماعتوں سے نظام نہیں چلایا جا رہا۔ وہاں تو کورم ہی پورا نہیں ہوتا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ دونوں جانب ایک ہی جماعت کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے مسائل پر اعتراض ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر خود تو استعفیٰ دے کر جانے والے نہیں، نکالا نہیں جا سکتا۔ سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ آئین کے آرٹیکل 5 میں واضح ہے کہ وفاداری صرف ریاست سے ہونی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اعظم سواتی کے ساتھ کھڑا ہوں جو ان کے ساتھ ہوا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ تو سینیٹر ہیں ایسا معاملہ تو کسی عام شہری کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
ارشد تو دل کا بادشاہ تھا روپے پیسے سے اس کا لینا دینا نہیں تھا! براہ مہربانی غلط خبریں مت پھیلائیں! تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل سما نیوز پر شہید صحافی ارشد شریف کے حوالے سے خبر چلائی گئی جس کے مطابق وہ اپنے خاندان کو نیروبی منتقل کرنا چاہتے تھے! جس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سمانیوز پر چلنے والی خبر کی تردید کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا کہ: ارشد ایک خالص صحافی تھا! وہ کبھی کاروبار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا! جو جو ارشد کو جانتا تھا اسے پتہ ہے کہ یہ غلط انفارمیشن ہے! ارشد تو دل کا بادشاہ تھا روپے پیسے سے اس کا لینا دینا نہیں تھا۔ براہ مہربانی غلط خبریں مت پھیلائیں! دریں اثنا سینئر صحافی وتجزیہ نگار عدیل راجہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: جعلی خبر! بہت ہی بڑی جعلی خبر! سما نیوز کی رپورٹ کے مطابق شہید صحافی ارشد شریف اپنے خاندان کو کینیا کی دارالحکومت نیروبی میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہاں کاروبار کرنے کا بھی سوچ رہے تھے اور کینیا کی شریعہ ہائوس سے مطلوبہ اجازت نامہ اور پن کوڈ حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے اور وقار احمد کے چھوٹے بھائی خرم احمد ان کی مدد کر رہے تھے۔ سما نیوز کے کینیا میں موجود صحافی کی رپورٹ کے مطابق کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں 2 ماہ قیام کے دوران ان کے جن لوگوں سے روابط رہے ان لوگوں سے رابطہ کیا گیا تو بہت سے انکشافات سامنے آئے، وہ یہاں کاروبار کرنے کے علاوہ اپنے خاندان کو یہاں منتقل کرنا چاہتے تھے اور یہاں موجود شریعہ ہائوس جہاں مختلف کمپنیز رجسٹریشن کے حوالے سے سرکاری دفاتر موجود ہیں وہاں متعدد بارچکر لگائےوہاں سے ہمارے ذرائع کے مطابق کمپنی رجسٹریشن کے لیے یہاں 12 ملین کینین کرنسی، بینک اکائونٹس اور کینیا کا ایڈریس آپ کے پاس موجود ہونا چاہیے! ان شرائط کو وہ پورا کر رہے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وقار احمد کے چھوٹے بھائی خرم کنسٹرکشن کا بزنس کرتے تھے اور ارشد شریف بھی اسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے، اس حوالے سے بہت سے انکشافات ہوئے ہیں، یہاں 5ہزار کے قریب پاکستان رہائش پذیر ہیں جن میں سے متعدد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف سے ملاقات کر چکے ہیں، وہ نیروبی میں کاروبار اور اپنے خاندان کو یہاں منتقل کرنے کے حوالے سے بھی گاہے بگاہے بات چیت کرتے رہتے تھے۔