خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے عمران خان پر حملے کے بعد لانگ مارچ روکنے کی وجہ کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرات ہیں جس کی وجہ سے عوامی ریلیز کو منسوخ کیا گیا ہے۔ جی این این کے پروگرام خبر ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کرپشن پر الزامات عائد کرتی ہیں، عمران خان کو رجیم چینج کےبعد نااہل کروایا گیا، فارن فنڈنگ کیس میں پھنسانے کی کوشش کی گئی، درجنوں مقدمات درج کیے گئے، عمران خان روزانہ عدالتوں کے چکر لگارہےہیں، یہاں تک کہ ان پر قاتلانہ حملہ بھی کروایا گیا۔ انہوں نےکہا کہ اس ساری صورتحال کے باوجود عوام میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، حکومت اسی پہلو کو دیکھتے ہوئے عمران خان سے سیاسی میدان میں مقابلہ کرنےکے بجائے انہیں تکنیکی طور پر شکست دینا چاہتی ہے۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ بھی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے، ریاستی اداروں نے عمران خان کو اس حوالےسے آگاہ بھی کیا ہوا ہے، عوامی ریلی بھی اسی لیے بند کی گئی کیونکہ ریلیز میں ممکن نہیں ہے سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے، اس ملک میں بینظیر بھٹو کے قاتل نہیں پکڑے گئے، لیاقت علی خان کے قاتلوں کا آج تک پتا نہیں چلا، خدانخواستہ عمران خان کے ساتھ کوئی واقعہ ہوجائے ، بہتر ہے عمران خان احتیاط کریں۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ میرا ذاتی خیال ہےکہ عمران خان اسلام آباد میں لمبا پڑاؤ نہیں ڈالیں گے، عمران خان کی لانگ مارچ میں شرکت بھی ڈاکٹروں کی رائے سے مشروط کردی گئی ہے،ہفتے کو ممکن ہے تاریخ دی جائے، میری معلومات کے مطابق عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں،عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ الیکشن کیلئے دباؤ برقرار رکھیں گے، ہمارا فیورٹ آرمی چیف کوئی نہیں ہے یہ فیصلہ میرٹ پر ہونا چاہیے۔
عمران خان کے توشہ خانہ سے گھڑی کے معاملے ملک بھر میں گونج ہے، اس حوالے سے جیونیوز کے پرو گرام رپورٹ کارڈ کی میزبان علینہ فاروق نے پوچھا کہ ہوسکتا ہے خان صاحب نے گھڑی اسلام آباد میں بیچ دی ہو، عمر فاروق غلط الزامات لگارہے ہیں، کیا مظہرعباس صاحب آپ ارشاد بھٹی صاحب کی اس دلیل سے متفق ہیں؟ سینیئر تجزیہ کار مظہرعباس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا جس دن چھڑی کا مسئلہ حل ہوا اس دن گھڑی کا مثلا حل ہو جائے گا،کہانی الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے یہ مدعہ جب کھلے گا تو پتا چلے گا، کسی کے پاس ثبوت ہے تو وہ عمران خان کے خلاف کیس کردے، شاید عمران خان بھی اس معاملے پر کیس نہ کریں یا ان پر بھی کیس نہ کیا جائے، ماضی میں بھی سیاسی محاذ آرائیاں اور الزامات دیکھتے آئے ہیں۔ مظہر عباس نے مزید کہا پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این میں بھی اس طرح کی جنگ دیکھی، سیف الرحمان صاحب کو بھی دیکھا، یہ ساری چیزیں چلتی آرہی ہیں، اگر حکومت کے پاس عمران خان کے خلاف فراڈ کے اتنے شواہد ہیں، تو عمران خان کے خلاف توشہ خانے کا مقدمہ کیا جائے، گزشتہ ایک ہفتے سے انفارمیشن کمیشن غیر فعال ہے، جہاں سے یہ ساری معلومات سامنے آئی ہیں۔ مظہر عباس نے کہا توشہ خانہ کے تحائف کے مسئلے پر جے آئی ٹی بنائی جائے، اگر حکومت کے لگائے گئے الزامات سچ ہیں اور ان کے پاس ثبوت ہے تو کیس کریں صرف پریس کانفرنس نہ کریں۔
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن پاکستان کو حکم دیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے۔ سندھ ہائیکورٹ نے حکم میں کہا ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو نفری فراہم کرے۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے 14 نومبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے بلدیاتی انتخابات جلد کرانے کی استدعا کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن سے قبل قانون سازی، حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹوں کی درستی کی استدعا کی گئی تھی۔ دوسری جانب 15 نومبر کو الیکشن کمیشن بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کر چکا ہے۔ الیکشن کمیشن محفوظ کیا گیا فیصلہ منگل 22 نومبر کو سنائے گا۔
تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی بنیاد پر نجی انگریزی اخبار کو بتایا ہے کہ آرمی چیف کے تقرر پر اب پی ٹی آئی یا صدر مملکت عارف علوی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے، کیونکہ جماعت نئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تنازع نہیں چاہتی۔ انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی انصار عباسی کا دعویٰ ہے کہ انہیں پارٹی کے اہم عہدیدار نے بتایا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی یا دیگر پارٹی قیادت نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل پُرسکون انداز میں مکمل ہونے کو یقینی بنائیں گے بلکہ آنے والے چیف کو بغیر کسی پریشانی کے خندہ پیشانی سے قبول بھی کریں گے۔ اس پارٹی رہنما نے حکومت کی جانب اس خدشے کو مسترد کر دیا کہ عمران خان حالیہ بیانات کی وجہ سے شاید صدر مملکت کے ذریعے اس عمل میں کوئی تاخیری حربہ استعمال کریں گے۔ کیونکہ تحریک انصاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی موجودہ پالیسی کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی۔ صحافی کا اپنی خبر میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس معاملے پر پی ٹی آئی میں باقاعدہ بحث ہوئی ہے جس کے بعد فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی قیادت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی روز سے عمران خان نے بھی اپنے کسی خطاب میں ایسا ذکر نہیں کیا۔ عمران خان خود کو وزیراعظم آفس سے نکال باہر کیے جانے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ اسی لیے تقریباً تمام اہم عہدوں پر بیٹھے اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑیوں کو انہوں نے نشانے پر رکھ لیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ دباؤ کے ساتھ ایسی صورت پیدا کی جائے کہ جلد انتخابات ہوں۔ یہ زورآزمائی اس وقت شدید صورت اختیار کر گئی جب ارشد شریف کی شہادت کیلئے بھی اداروں کو ذمہ ٹھہرایا گیا اس کے بعد پہلی بات ڈی جی آئی ایس آئی کو میڈیا کے سامنے آ کر پریس کانفرنس کرنا پڑی، تاہم عمران خان اس کے بعد بھی پیچھے نہیں ہٹے اور خود پر ہونے والے حملے کی بھی ذمہ داری وزیراعظم، وزیر داخلہ اور فوج کے حاضر سروس میجر جنرل پر ڈال دی۔ پہلے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ شہبازشریف کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ آرمی چیف کی تقرری کر سکیں، ان کا مؤقف تھا کہ نئی حکومت مینڈیٹ کے ساتھ آئے اور آرمی چیف لگائے، وہ موجودہ آرمی چیف کو انتخابات تک توسیع کے حامی تھے تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید توسیع لینے سے انکار کر دیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں وہ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار نظر آرہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر چودھری پرویزالٰہی نے پیغام جاری کیا جس میں کہا کہ "پتہ نہیں کتنے دن ہیں، لیکن جتنے دن بھی رہیں گے عوام کی خدمت کریں گے۔اللہ تعالیٰ نیت دیکھ کر اجر دیتا ہے"۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ "ہر روز جائزہ لیتا ہوں کہ آج میں نے عوام کیلئے کیا کیا۔ جو کام رہ جاتے ہیں وہ اگلے دن کرنے کی کوشش کرتا ہوں"۔ یاد رہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت مسلم لیگ ن کے نشانے پر ہے، بیرون ملک ہونے والے متعدد اجلاسوں کی جب اندرونی کہانی سامنے آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف پنجاب حکومت حاصل کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ نون کے مقامی رہنما بھی اس حوالے سے کئی بار عندیہ دے چکے ہیں کہ پارٹی قیادت پنجاب حکومت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔
کینیا میں ہیومن رائٹس کمیشن نے پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کو "منصوبہ بندی" کے تحت کیا گیا واقعہ قرار دے دیا۔ عالمی تنظیم کے عہدیدار مارٹن ماوین جینا نے نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کو واضح طور پر منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ کینیا ہیومن رائٹس کمیشن کے سینیئر پروگرام مشیر مارٹن ماوین جینا نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ یہ ایک جرم تھا۔ قتل سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافی پر نظر رکھی جا رہی تھی تاکہ ان پر حملے کا صحیح موقع ملے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کو کیسے معلوم ہوا کہ ارشد شریف اسی وقت ایک مخصوص علاقے میں موجود تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کینیا کی پولیس نے قتل کو "غلط شناخت" کے پیچھے چھپایا کیونکہ اس کے کوئی مصدقہ ثبوت موجود نہیں تھے۔ پولیس کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ڈاکومینٹری تیار کرنے والے مارٹن ماوین جینا نے کینیا کی پولیس کو غیر قانونی قتل اور جبری گمشدگیوں کے لیے بدنام قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کینیا کی پولیس الزام کے مطابق قصور وار ہے اور ان کے غلط شناخت کے بیانیے میں دم نہیں کیونکہ جب آپ پولیس میں شکایت درج کرواتے ہیں تو آپ گاڑی کی واضح تفصیل فراہم کرتے ہیں مگر اس کیس میں کچھ الگ ہے کیونکہ جس گاڑی میں ارشد شریف سفر کر رہا تھا وہ وی8 لینڈ کروزر تھی جو کہ خاص شخصیات، اراکین پارلیمان اور کابینہ کے اراکین استعمال کرتے ہیں۔ مارٹن ماوین جینا نے یہ بھی کہا کہ سڑکوں پر رکاوٹیں کسی مقصد کے لیے رکھی گئی تھیں کیونکہ جب کینیا میں روڈ بلاک ہوتے ہیں تو لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ان کی شناخت چیک کی جائے گی لیکن اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔
وفاقی وزارت داخلہ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کے خلاف مزید شواہد جمع کروادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی گئی ہے، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ جمعہ کے روز دن 11 بجے کیس کی سماعت کرے گا۔ وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف ایک متفرق درخواست بھی دائر کردی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس زیر التوا ہے، اس میں مختلف رہنماؤں کے بیانات، 25 مئی کے احتجاج کےد وران کی گئی تقاریر کے ویڈیو کلپس بھی جمع کروانے کی استدعا کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے عمران خان کے دستخط شدہ تفصیلی بیان طلب کیا گیا تھا اور ساتھ ہی عمران خان کے وکیل بابراعوان اور فیصل چوہدری کی جانب سے عدالت کو کروائی گئی یقین دہانی کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں، عمران خان کے وکلاء کی جانب سے اپنے اپنے جوابات عدالت میں جمع کراوادیئے گئے ہیں۔
پاکستان میں کرپشن کا احتساب کرنا آئین وقانون کی حکمرانی کے لیے لازم ہے۔نیب قانون میں خرابی نہیں اس کے استعمال میں مسئلہ ہے: چیف جسٹس تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ نیب قوانین میں کوئی خرابی نہیں، اس کے استعمال میں مسئلہ ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا احتساب کرنا آئین وقانون کی حکمرانی کے لیے لازم ہے کیونکہ اس سے ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں سماعت کے دوران اپنے دلائل میں کہا کہ نیب میں ہونے والی ترامیم پاکستانی شہریوں اور ان کے منتخب نمائندوں کے درمیان سماجی معاہدے اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ موجودہ نیب قوانین کے عوام کے منتخب نمائندے بطور ٹرسٹی احتساب سے بچ جائیں گے جس کے باعث کرپشن ناقابل احتساب ہو جائے گی جس سے پاکستانی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونگے۔اب یہ طے کرنا ہو گا کہ عدالت کی کرپشن کے خلاف کارروائی کی کیا شدت ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے، کرپشن ملک کیلئے ایک بیماری کی طرح ہے، کرپشن کا احتساب ملکی آئین وقانون کی حکمرانی کیلئے لازم وملزم ہے، ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے۔ عدالت کے سامنے سوال یہ ہے کہ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہاں بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ نیب قوانین میں خرابی نہیں ہے بلکہ اس کے غلط استعمال کا مسئلہ ہے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ کرپشن کے خلاف سختی سے نپٹنا ہے تو ہمارے پاس اس کا بینچ مارک کیا ہو؟ جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہ کہ کل اگر ملک کا ایک شہری یہ کہے کہ پاکستان میں کرپشن کیخلاف قانون ہی نہیں ہے، ہم پارلیمنٹ کو حکم دیں کہ قانون سازی کریں، پارلیمنٹ کو عدالت کا یہ کہنا کہ کرپشن کیخلاف قانون مزید سخت کریں کیا یہ ہمارا کام ہے؟ پاکستان کیلئے اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے بڑا کوئی خطرہ نہیں ہے، نیب قوانین میں ترامیم سے زیادہ اہم موسمیاتی تبدیلیوں سے نپٹنے کے لیے قانون سازی کرنے کی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس سوال کا جواب عدالتی نظائر میں مل سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں بھی اسی دن کا انتظار کر رہا ہوں، آپ کے دلائل کے آخری روز کے لیے بھی میرے پاس سوال موجود ہیں۔ کیس کی مزید سماعت عدالت نے 29 نومبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں حقیقی آزادی مارچ کےخلاف کامران مرتضی کی درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے کامران مرتضیٰ کی درخواست کو غیرموثرقرار دے دیا۔ چیف جسٹس نے نے اپنے ریمارکس میں کہا ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے مؤقف کے بعد حکم جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، درخواستگزار چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنرکا کردارادا کرے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا ریاست طاقتوراوربااختیارہے،سمجھ سکتے ہیں آپ موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں ،اگرواضح آئینی خلاف ورزی کاخطرہ ہوتوعدلیہ مداخلت کرے گی،احتجاج کا حق آئینی حدود سے مشروط ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے عمران خان کے آزادی مارچ روکنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے،سپریم کورٹ نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو انتظامیہ سے پوچھ کر بتانے کا حکم دے دیا۔ درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ 2 ہفتے سے عمران خان کا آزادی مارچ جاری ہے، فواد چوہدری کے مطابق جمعہ، ہفتے کو آزادی مارچ اسلام آباد پہنچے گا،مارچ سے معمولات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں۔ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہییں۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟ ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران پوچھا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟۔یہ ایگزیکٹو کا معاملہ ہے، ان ہی سے رجوع کریں۔ ریمارکس میں مزید کہا غیر معمولی حالات ہی میں عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے۔ جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟ کامران مرتضیٰ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بات اب بہت آگے جا چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے۔ کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟ ۔ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے۔ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے۔ اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے۔ آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ ۔ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے۔آپ کہہ رہے ہیں لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے۔ کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟۔ اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟۔ آپ ایک سینیٹر ہیں، پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔ کامران مرتضیٰ نے عدالت میں کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیسے مان لیں کہ آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے، جہاں فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟ ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن گراؤنڈ کے لیے درخواست دی گئی تھی۔ انتظامیہ نے ایچ نائن گراؤنڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ ایچ نائن کا گراؤنڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا۔ چیف جسٹس نے کامران مرتضیٰ سے سوال کیا کہ کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹو کے اختیارات تو 27 کلومیٹر تک محدود ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہو گی؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں۔ کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟۔ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ ہی میں عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟ ۔ کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ لانگ مارچ کی وجہ سے ایک پورا صوبہ مفلوج رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں۔ کیا انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے؟ ۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا۔ انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیان حلفی مانگا جو اب تک پُر نہیں ہوا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی یہ معاملہ چل رہا ہے۔ آدھا گھنٹہ دیں تو انتظامیہ سے معلومات لے لیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کا حوالہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا مؤقف ہو۔ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ عدالت حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔ وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جو جے یو آئی کے ساتھ رویہ تھا، وہی رویہ چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت احتجاج کو کسی بھی جگہ روک سکتی ہے ۔
اینکر پرسن شفا یوسفزئی نہیں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سوال اٹھایا کہ طلعت حسین کچھ کہہ رہے ہیں جبکہ شاہزیب خانزادہ کچھ اور ان دونوں میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟ تفصیلات کے مطابق شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا کہ عمران خان نے توشہ خانہ کی گھڑی عمر فاروق ظہیر کو بیچیں جو کہ دبئی میں مقیم کاروباری شخصیت ہے۔ دوسری جانب طلعت حسین کا دعویٰ ہے کہ توشہ خانہ کی گھڑی عمران خان نے اسلام آباد میں کسی شخص کو بیچی۔ شفا یوسفزئی نے کہا کہ شاہ زیب خانزادہ کا پروگرام یوٹیوب سے جیو کی جانب سے ڈلیٹ کر دیا گیا ہے، جب کہ یہ خبر جنگ کے لندن ایڈیشن میں بھی شائع نہیں کی گئی گی۔ انہوں نے کہا کہا کہ عمرفاروق ظہور کا انٹرویو لندن میں نشر بھی نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جیو اور شازیب خانزادہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر رکھا ہے۔ جیو نے خبر جہاں جہاں چلائیں جیو نے وہاں سے ڈیلیٹ کر دی یا نشر ہی نہیں کی جبکہ طلعت حسین کا ٹوئٹ آج بھی ٹویٹر پر موجود ہے۔ اپنے ٹویٹ کے آخر پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ فیصلہ کیجیے کہ کون جھوٹا ہے؟ اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ جیو گروپ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق اپنے پروگرام اور خبریں لندن میں خود ہی سنسر کر رکھی ہیں ان کا خیال ہے کہ اس طرح صرف پاکستانی عدالتوں سے ڈیل کرنا ہو گا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ چلیں شروع پاکستان سے کرتے ہیں جعلی شہادتیں بنانا اور پروگرام کرنے پر آج سے ہی کاروائی کا آغاز ہو گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے نئے آرمی چیف کے ناموں اور تاریخ کے اعلان کے حوالے سے نہ صرف آسانی پیدا کر دی ہے بلکہ آپشن بھی محدود کردیے ہیں۔ نجی چینل آج نیوز کے پروگرام "فیصلہ آپ کا" میں اینکر پرسن عاصمہ شیرازی سے گفتگو میں انہوں نے موسٹ سینئر افسر کو آرمی چیف لگانے کا عندیہ دے دیا۔ وزیر دفاع نے آئندہ ہفتے کے اختتام سے قبل ہی یہ نام منظر عام پر بھی لانے کا بھی اعلان کیا۔ اگرچہ خواجہ آصف اس سے قبل لندن ملاقاتوں کے حوالے سے بھی بتا چکے تھے کہ سینئر ترین افسر کو آرمی چیف لگا دیا جائے گا، اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خواجہ آصف کے اس فارمولے کے تحت نئے آرمی چیف کی دوڑ میں 3 نام رہ جاتے ہیں۔ تین ناموں میں لفیٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس شامل ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، لیکن اگر انہیں ریٹائرمنٹ سے ایک دو روز پہلے پروموٹ کر دیا جائے تو وہ موسٹ سینئر ہو جائیں گے اور اس دوڑ میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔ اس لحاظ سے اگر وزیرِ دفاع کی 25 اور 26 نومبر کی تاریخ کو درست مان لیا جائے تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر باآسانی اس دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔ جبکہ دوسری صورت میں موسٹ سینئر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور پھر ان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ہیں۔ ان میں سے ایک افسر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور ایک کو آرمی چیف تعینات کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ آپشن خواجہ آصف کے بتائے گئے فارمولے کے تحت درست ہیں مگر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف کا ماننا ہے کہ خواجہ آصف کی بات درست بھی ہو تو سینئر موسٹ میں پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں۔ انہوں نے کہا لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اظہر کا نام ہے مگر عاصم منیر کو 27 نومبر کو ریٹائرمنٹ کے باجود اگر ترقی دی جاتی ہے تو پھر بھی ایک تکنیکی اور قانونی رکاوٹ موجود ہے۔ بریگیڈیئر محمد یوسف نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو پروموٹ کرنے کیلئے موجودہ آرمی چیف کو 27 نومبر سے پہلے ریٹائرمنٹ لینا ہو گی، صرف اسی صورت میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر پروموٹ ہوسکتے ہیں اور ایسی روایت پہلے موجود نہیں۔
اینکر پرسن ویوٹیوبر عمران ریاض خان کا کہنا ہے کہ گھڑی کے پیچھے پاکستان کے طاقتور ترین لوگ پڑے تھے کہ انہیں پتہ چل سکے گھڑی کہاں ہے؟ اب اسٹیبلشمنٹ کو پتہ چل گیا ہے کہ گھڑی عمرفاروق کے پاس ہے اس لیے اس کے کیسز ختم کر کے اس سے بیان حلفی لیا جا رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عمران ریاض نے کہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک اسٹیبلشمنٹ کو نہیں پتہ تھا کہ گھڑی کہاں ہے مگر وہ اس تلاش میں تھے کہ پتہ چل سکے گھڑی کس کے پاس ہے گھڑی پہلے اسلام آباد میں کسی کو بیچی گئی جس سے کسی اور نے خریدی اور اس طرح یہ کرتے کراتے عمر فاروق تک پہنچ گئی۔ عمران ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ عمر فاروق جو کہ دبئی میں مقیم ایک کاروباری شخص ہے یہ ماڈل واداکارہ صوفیہ مرزا کا سابق شوہر ہے، ماضی میں اس کا اداکارہ کی بیٹیوں کے ساتھ جو معاملہ رہا وہ اس کا نجی معاملہ ہے البتہ اداکارہ نے اس پر کیسز کرائے جو کہ شہزاداکبر نے اداکارہ کے کہنے پر درج کرائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب عمر فاروق اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ لگ چکا ہے کہ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ عمر فاروق کو کیسز ختم کرنے کا لالچ دیکر اس سے ایک ایسا بیان حلفی لیا جائے جس پر اپنی مرضی کی تحریر درج ہو سکے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد کا ایک طاقتور شخص عمر فاروق کا نام انٹرپول اور ای سی ایل سے نکلوانے کے بعد اب اس سے ڈیل کی کوشش میں ہے۔
امریکا اور پاکستان میں دو طرفہ تجارت کو بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے سرمایہ کاری کے فروغ کی حکمت عملی جاری کر دی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ پانچ سالہ پروگرام کے تحت تجارات اور سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے گا اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط، کاروباری لاگت کو کم کرنے کے اقدامات سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سال کے دوران نجی شعبے کے ذریعے پاکستان میں 25 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس کی مدد سے مزید 75 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان ہے جس کے بعد پاک امریکا تجارت کے حجم میں 40 لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس موقع پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات لاحق ہیں معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے امریکا معاونت جاری رکھے گا، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ملک میں استحکام ضروری ہے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا مستقبل سے متعلق اطمینان ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا معاشی استحکام بہت ضروری ہے پاکستان کو گرین انرجی پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہتا ہے پاکستان اپنی معیشت کو بہتر کر رہا ہے پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے ماحول کو سازگار کر رہا ہے۔
حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی سازش کہاں گئی؟ دو دن پہلے تک امریکہ کا دشمن آج ناک رگڑکر اس سے دوستی کی پینگیں بڑھارہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحما ن نے سابق وز اعظم عمران خان پر اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شدید تنقید کی اور کہا کہ اس وقت ملک کے دفاعی ادارے عمران خان کے نشانے پر ہے،جلسوں میں جھوٹا کاغذ لہرانے والے آج کہہ رہے ہیں کہ وہ قصہ پارینہ ہے، اب بین الاقوامی سازش کہاں گئی؟عمران خان کے انتشار کی وجہ سے ملک کو شدید مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ سیاست کسی بھی طرح اقتدار کیلئے بے بنیاد بیانیے کی مرہون منت نہیں ہوتی، عمران خان نے جو جھوٹے بیانیے پر مقبولیت حاصل کی تھی اب وہ فارغ ہوچکی ہے، دفاعی ادارے عمران خان کی جارحیت سے محفوظ نہیں ہیں، ملکی اداروں کو کسی بھی صورت تضحیک کا نشانہ نہیں بننے دیں گے، ملک میں اضطراب کو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں چاہیے کہ ملکی سلامتی کیلئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ عمران خان کے لانگ مارچ پر ردعمل دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ پہلے کہتے تھے اسلام آباد آئیں گے، یہ لوگ اسلام آباد آ ہی نہیں سکتے کیونکہ یہاں کی زمین گرم ہے، اب انہوں نے کہہ دیا کہ ہم راولپنڈی تک آئیں گے، اگر ہم نے اپنے کارکنان کو کال دیدی تو ان کا لانگ مارچ تہس نہس ہوجائے گا اور حالات مزید خرابی کی طرف جائیں گے، اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی استحکام کی طرف جایا جائے تاکہ ملک میں معاشی استحکام آئے۔
سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ماضی میں بتا چکے ہیں کہ ان کو مارنے کی باقاعدہ پلاننگ کی جا چکی ہے اور منصوبہ یہ ہے کہ اسے مذہبی رنگ دیا جائے گا۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس میں حملہ آور نے بھی مذہبی ایشو کو بنیاد بنا کر بیانات جاری کیے۔ اب توشہ خانہ سے بیچی گئی گھڑی کو بھی مذہبی رنگ دے کر ایک بار پھر سے فتوی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیونکہ گھڑی پر خانہ کعبہ کا عکس بنا تھا اس لیے اسے بیچنا گناہ ٹھہرے گا۔ گھڑی کے بکنے اور مختلف قیمت سے متعلق کیے جانے والے پروپیگنڈے پر فواد چودھری نے ٹوئٹ کیا تو صحافی مبشرزیدی نے کہا کہ سوال صرف اتنا سا ہے کہ گھڑی کیوں بیچی؟ وہ وزیر اعظم تھے ان کے گھر میں فاقے نہیں پڑ رہے تھے جو خانہ کعبہ والی گھڑی بیچی۔ حضرت عمر کی مثالیں دینے والے یہ کریں گے تو گریبان تو پکڑا جائے گا۔ لیگی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا کہ قوم عمرانیہ کے آنے والے دنوں کی کہانی، کہا تھا نا اب یہ ساری زندگی گھڑی چور ہی کہلائے گا۔ خانہ کعبہ بنی گھڑی کو بیچنے کا حساب دنیا اور آخرت میں دینا پڑے گا، اور انکا ہینڈلر وہی ایماندار شہزاد اکبر ہے جو دوسروں کی تفتیش کرتا تھا۔ امجد ملک نے کہا ایک بادشاہ کی خانہ کعبہ کی تصویر والی تحفے میں دی گئی گھڑی نے دوسرے بادشاہ کی اوقات بتادی۔ ایسے بنے گا نیا پاکستان؟ راشد مراد نے کہا تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا کہ نیو مدینہ کا دو نمبرخلیفہ گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لئے خانہ کعبہ والی گھڑی بھی فروخت کر دیتا تھا۔ لیگی رہنما محسن رانجھا نے کہا کیسا بدبخت انسان ہے نیازی، جو خانہ کعبہ کی تصویر والی گھڑی بھی بیچ ڈالی۔ سعید چودھری نے کہا انصافیوں کا دعوٰی ہے کہ گھڑی مقررہ قیمت دے کر توشہ خانہ سے خریدی گئی، رونا تو یہی ہے کہ کم و بیش دو ارب روپے مالیت والی گھڑی کی قیمت خان صاحب کے لئے صرف 10 کروڑ روپے مقرر کی گئی، معاملہ شروع ہی ایک ارب نوے کروڑ روپے کے گھپلے سے ہوا، ریاست مدینہ کے دعویدار نے کعبہ بیچ دیا۔ عثمان غنی نے کہا کہ جس گھڑی میں خانہ کعبہ کی تصویر بنی ہوئی ہے عمران خان نے چند پیسوں کی خاطر وہ گھڑی بیچ دی اور یوتھیے کہتے ہیں کہ عمران خان ریاست مدینہ بنائے، کوئی شرم کوئی حیا؟ جبکہ مدثر نے کہا کہ عمران خان پہ مذہب کارڈ کا الزام لگانے والے ملا و خونی لبرل صحافی اچانک خانہ کعبہ کی تصویر والی گھڑی بیچ دی کارڈ کھیل رہے ہیں۔ ہر کھیل کے بیوپاری یہ خود ہیں لیکن کوئی ریاستِ مدینہ کا نام لے تو انہیں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ فیصل نامی صارف نے ان پروپیگنڈہ ٹولز کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر ججز کو رشوت دینے والے خانہ کعبہ کی تصویر والی گھڑی قانونی طور پر حلال طریقے سے بیچنے پر گلا پھاڑ چیخیں مار رہے ہیں، قیامت کیوں نہ جلدی آئے؟ تمیم عباسی نے کہا کہ گھڑی میں خانہ کعبہ کا نقش کندہ تھا، بیچنا نہیں چاہیئے تھا، پھر تو قرآن بیچنے والے، جائے نماز بیچنے والے، تسبیح بیچنے والے سب جہنمی ہو گئے۔ عادی بٹ نے کہا خانہ کعبہ کی تصویر والی گھڑی بیچنے پر اعتراض کرنے والے مسجد نبوی میں بیٹھ کر ججز خرید رہے تھے. رپورٹ ملاحظہ ہو۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفہ میں ملنے والی گھڑی سے متعلق عمر فاروق ظہور کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوگیا ہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ گھڑی عمر فاروق ظہور نے براہ راست نہیں خریدی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی بزنس مین عمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو ملنے والی گھڑی کی فروخت کیلئے عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزا اکبر نے رابطہ کیا اور اس گھڑی کی ڈیل سابق خاتون اول کی سہیلی فرح گوگی کے ساتھ طے پائی تھی۔ تاہم اے آر وائی نیوز اپنی ایک رپورٹ میں عمر فاروق ظہور کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان میں توشہ خانہ سے گھڑی خریدنے والے شخص کو سامنے لے آیا ہے۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں انکشاف ہوا کہ توشہ خانہ سے گھڑی اسلام آباد میں ایک شفیق نامی بزنس مین نے خریدی، شفیق نے گھڑی 5 کروڑ 10 لاکھ روپے میں خریدی اور متحدہ عرب امارات میں اویس مرچنٹ کو یہ گھڑی فروخت کردی، توشہ خانہ سے گھڑی خریدنے والا شفیق سرکاری ملازم بھی ہے اور توشہ خانہ میں فرائض بھی سرانجام دے چکا ہے، شفیق نے 5 کروڑ 10 لاکھ کی گھڑی خرید کر دبئی میں 6 کروڑ 10 لاکھ روپے میں فروخت کی۔ اویس مرچنٹ نے یہ گھڑی امارات کی ایک کاروباری شخصیت کو فروخت کردی، گھڑی خریدنے والا شخص عمر فاروق ظہور کا قریبی سمجھے جانے والا شخص ہے۔
اینکر پرسن وصحافی سیدطلعت حسین نے توشہ خانہ سے بیچی جانے والی گھڑی سے متعلق رواں سال 29 جون کو دعویٰ کیا اور ساتھ میں تصاویر بھی شیئر کیں تاہم اب مزید تفصیل سامنے آئی ہے تو پتہ چلا یہ تو وہ گھڑی ہی نہیں، جس سے طلعت حسین کا جھوٹ پکڑا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق طلعت حسین نے 29 جون کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جو ٹوئٹ کیا اس میں جو گھڑی کی تصاویر شیئر کی گئیں ان سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ قطری وزیرخارجہ کی جانب سے دی گئی گھڑی، کف لنک، قلم اور دیگر کچھ قیمتی چیزیں تھیں جو توشہ خانہ سے نکال کر آرٹ آف ٹائم نامی جیولری شاپ کو 5 کروڑ 10 لاکھ روپے میں فروخت کی گئیں۔ جبکہ دوسری جانب اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیو نیوز سمیت چند دیگر میڈیا ہاؤسز اب یہ خبر چلا رہے ہیں کہ توشہ خانہ کی گھڑی دبئی سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت کو 44 کروڑ روپے میں بیچی گئی تھی۔ جس پر صارفین صحافیوں کے آپسی متضاد دعووں کو دیکھتے ہوئے خود گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ جنید نامی صارف نے اس صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لفافے رے لفافے تیری کون سی کل سیدھی جبکہ اظہر خان نامی صارف نے اس پر ردعمل میں کہا کہ طلعت حسین نے یہی گھڑی کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں 5 کروڑ 70 لاکھ میں بکنے کی خبر بمعہ ثبوت دی مگر اب اسی گھڑی کے تقریباً 44 کروڑ میں دبئی میں بکنے کی خبر دے رہا ہے۔ یار کیسے کر لیتے ہو یار یادداشت بھی کسی چیز کا نام ہے۔
کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں سیکیورٹی گارڈ نے ظلم کی انتہا کردی، بھیک مانگنے پر مقامی ریسٹورنٹ کے باہر کھڑے سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے بچے کی جان لے لی،بچہ ہوٹل کے باہر گداگری کر رہا تھا کہ ریسٹورنٹ کے سیکیورٹی گارڈ نے منع کردیا۔ سیکیورٹی گارڈ کی بات نہ ماننے پر بچے پر فائرنگ کر دی گئی جس سے بچہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا،ملزم لاش جیکسن تھانے کی حدود میں پھینک کر فرار ہوگیا تھا،پولیس نے نجی سیکیورٹی کمپنی کے گارڈ کیخلاف ہلاکت کا مقدمہ درج کرلیا۔ مفرور سیکیورٹی گارڈ کی تلاش جاری ہے،بچے کی لاش تدفین کے لیے سکھر روانہ کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب والدہ کا کہنا ہے کہ عمر اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ہوٹل کے باہر چیز بیچ رہا تھا۔ بچے کا تعلق بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے بتایا جارہا ہے۔ بچے کے قتل پر سندھ حکومت نے نوٹس لے لیا ہے اور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
وفاقی حکومت نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پر اعتراض اٹھادیا ہے۔ تفصیلات کےمطابق وفاقی وزارت داخلہ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے محکمہ داخلہ پنجاب کو ایک مراسلہ لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے اعتراض اٹھایا ہے کہ جے آئی ٹی میں شامل تمام ارکان کا تعلق پنجاب پولیس سےہے، اس ٹیم میں کسی بھی دوسرے سیکیورٹی ادارے یا خفیہ ایجنسی کا نمائندہ شامل نہیں کیا گیا ۔ وفاقی وزارت داخلہ نے محکمہ داخلہ پنجاب کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں آئی ایس آئی اور آئی بی جیسے خفیہ اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی تجویز دیتےہوئے کہا کہ بہتر ہوگا پنجاب حکومت حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں وفاقی ایجنسیز کے نمائندوں کو بھی شامل کرے۔ وفاق نے پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کے سربراہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر پر بھی اعتراض اٹھایا اور کہا کہ غلام محمد ڈوگر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے معطل کردیا ہے، تاہم انہیں عارضی طور پر فیڈرل سروس ٹریبونل سےریلیف ملا ہے، ایسے میں انہیں جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کرنا شفاف تحقیقات پر سوال اٹھاتا ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی معاملے کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں 1997 کےسیکشن19 کے تحت انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اگر کسی کمیٹی میں انٹیلی جنس اداروں کے نمائندے شامل نا کیے جائیں تو وہ جے آئی ٹی کےبجائے پولیس کی ایک تحقیقاتی کمیٹی کہلائے گی، پنجاب حکومت نے بھی عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں انٹیلی جنس اداروں کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔
گیلپ پاکستان نے ایک سروے کیا جس میں 88 فیصد کاروباری اداروں نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی وتجزیہ نگار کامران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ موجودہ 13 جماعتی اتحادی حکومت نے جیسے تیسے کر کے اقتدار کے 7 ماہ پورے کر لیے، اب ان کی دلی خواہش ہے کہ اگلے 7 ماہ بھی اقتدار برقرار رہے مگر گزشتہ 7 ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ماہر معیشت پلک جھپکتے بتا تصدیق کر دیگا کہ پاکستانی معیشت ڈوب رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کی غیرمقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند دن پہلے گیلپ پاکستان نے ایک سروے کیا جس میں 88 فیصد کاروباری اداروں نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا جبکہ ماہ فروری میں عمران خان کے دور اقتدار میں یہ اعدادوشمار کم ازکم 3 گنا کم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ اتحادی حکومت کی غیرمقبولیت کی تصدیق انسٹیٹیوٹ آف پبلک ریسرچ سروے سے بھی ہوئی ہے جس میں پاکستانی شہریوں کی اکثریت نے پی ڈی ایم کی قیادت کو بڑھتی مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ ماہرین معیشت اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر کی وجہ سے پریشان ہیں جو 8 ارب ڈالر سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی ایک سال کی زرمبادلہ کی ضرورت 34 ارب ڈالر ہے۔ دوسری طرف ڈالر کی قیمت 7 ماہ میں 181 روپے سے بڑھ کر 222 روپے پر پہنچ چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں قیمت 240 کے آس پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ترسیلات زر میں بھی 10 فیصد کمی آ ئی ہے، اوورسیز پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم بھیجنے سے کترا رہے ہیں، کاروباری اداروں کیلئے ایل سیز کھولنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور صنعتی پیداوار ہو رہی ہے، آٹو انڈسٹری کی پیداوار نصف کے قریب رہ گئی ہے۔ ٹیکس آمدن میں ماہ اکتوبر میں 21 ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی اور آئی ایم ایف نے مرے کو مارنے کے مترادف 800 ارب روپے کے منی بجٹ کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ حکومت کے آئی ایم ایف سے تعلقات بھی خراب ہوتے نظر آرہے ہیں، 1.3 ارب ڈالر کی قسط ادا کرنے میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا کریڈٹ ڈیفالٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ چکا ہے، قرضوں کا حصول انتہائی مہنگا ہو چکا ہے، دوسری طرف ملک میں بدترین گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ پاکستان کی معیشت گہری خندق میں گر چکی ہے؟ جب تک تمام سیاسی قوتیں بمعہ فوج کسی قومی منصوبے پر جمع نہیں ہوتیں تو تباہی ہمارا مقدر ہو گی! خدانخواستہ!