شہید صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات سے والدہ کا لاعلمی کااظہار

11arshadsharofmotherlailm.jpg

ہماری ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے اور گواہان پیش کرے۔

تفصیلات کے مطابق شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے سپریم کورٹ کے ہیومن ریسورسز سیل کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں ایک گھریلو خاتون ہوں، میرے بیٹے کے قتل کے حوالے سے کی جانے والی کسی قسم کی تحقیقات کا علم نہیں ہے، ہماری ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے اور گواہان پیش کرے۔


چیف جسٹس آف سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے توہین عدالت کیس کی سماعت میں شہید صحافی ارشد شریف کے حوالے سے ان کی والدہ کے خط پر کارروائی شروع کر دی ہے اور جو کمیشن کینیا گیا اس سے رپورٹ طلب کی ہے، عدالت تفتیش نہیں کرسکتی، ضابطے کے مطابق کام کریں گے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے خط لکھ کر ہائی پاورجوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا، جس میں کہا تھا کہ میرے بیٹے کی شہادت کے خلاف حکومتی ظالمانہ اقدامات کا نوٹس لیا جائے، مجھے اور میرے بیٹے کے یتیم بچوں کو انصاف دیا جائے۔

خط کے متن کے مطابق ارشدشریف نے بھی آپ کو خط لکھا تھا اور بتایا تھا کہ میری زندگی خطرے میں ہے، بغاوت کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں جبکہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ارشد شریف کو دبئی میں منتقل ہونا پڑا جہاں وہ محفوظ ہوگیا لیکن موجودہ اتحادی حکومت نے دبئی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر ارشد شریف کو وہاں سے کینیا جانے پر مجبور کر دیا۔

ارشد شریف کی والدہ نے خط میں لکھا کہ اسے کہا گیا تھا کہ فوری دبئی چھوڑ دو ورنہ حکومت پاکستان کے حوالے کر دیں گے، جس کے بعد وہ کینیا چلا گیا جہاں 2 ماہ بعد قتل ہوگیا۔

ان کے قتل کی حقیقی وجوہات چھپائی گئیں جن کو منظرعام پر لانا ضروری ہے، کینیائی پولیس بھی 3 سے 4 مرتبہ بیان تبدیل کر چکی ہے جبکہ تحقیقاتی کمیٹی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وفاقی وزراء نے جھوٹے اور من گھڑت بیانات دینے شروع کر دیئے جو میڈیا ریکارڈ پر موجودہیں۔ وزیراعظم نے تحقیقات کیلئے ہائی پاور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا کہا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھیں گے لیکن ان کے اعلان کے برعکس ریٹائرڈ جج شکور پراچہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔