سیاسی

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آج مختلف مقدمات کی سماعت کی، جن میں بحریہ ٹاؤن کو بلیک لسٹ کرنے کی درخواست بھی شامل تھی۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کو بلیک لسٹ کرنے کی درخواست پر سماعت کی، لیکن درخواست گزار محمود اختر نقوی مقدمے کی سماعت میں پیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے درخواست گزار کی عدم پیشی اور مقدمے کی عدم پیروی پر درخواست خارج کردی۔ یہ فیصلہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے کے بعد آیا ہے جب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل سمیت 2 ہزار سے زائد مقدمات کی سماعت کے لیے مقرر کیے تھے۔ اس سے قبل آئینی بینچ نے اپنی پہلی عدالتی کارروائی کے دوران سابق چیف جسٹس، انتخابات 2024 اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) دور کی قانون سازی سے متعلق درخواستیں مسترد کردی تھیں اور کئی درخواست گزاروں پر جرمانے بھی عائد کیے تھے۔ نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔ 26ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔ جسٹس امین الدین کے تقرر کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی کابینہ میں 18 ارکان شامل ہیں، جن میں سے 12 نئے چہرے ہیں، جب کہ 6 وزرا ایسے ہیں جو سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق، اس وقت صوبائی اسمبلی کے 7 سے 8 سینیئر ارکان نے ایک علیحدہ گروپ تشکیل دیا ہے، جن میں وہ تمام ایم پی ایز شامل ہیں جو شہباز شریف کی کابینہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس گروپ میں سابق اسپیکر رانا اقبال، یاور زمان، شیر علی خان، ایوب گادھی، منشا اللہ بٹ، سعید اکبر نوانی اور دیگر نمایاں اراکین شامل ہیں۔ دوسری جانب، ن لیگ کے اس الگ گروپ کی قیادت سابق اسپیکر رانا اقبال کر رہے ہیں۔ ان اراکین کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی جانب سے وزرات نہ دیے جانے اور اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے وہ شدید مایوس ہیں۔ ذرائع کے مطابق، یہ گروپ پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں حکومتی اراکین سے الگ بیٹھتا ہے اور ان کی ناراضی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروپ میں کوئی نوجوان ایم پی اے شامل نہیں ہے، جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت کی جانب سے ان اراکین کی شکایات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس گروپ نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ مریم نواز کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے اور کہا ہے کہ صوبائی حکومت کو قائم ہوئے 9 ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے، مگر ان کے مسائل حل نہیں کیے گئے۔ حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے سبب یہ سینیئر اراکین گہرے اضطراب کا شکار ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ اگر ان کے تحفظات پر توجہ نہ دی گئی تو پارٹی میں مزید ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت کے لیے کسی بھی طرح چیلنج نہیں ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے بغیر کسی تیاری اور ہوم ورک کے احتجاج کی کال دی ہے، جو بالآخر خود ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ رانا ثناء اللہ نے پی ٹی آئی کے احتجاجی منصوبے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا ہر ایم این اے دس ہزار افراد جیب میں ڈال کر لائے گا؟ ان کے مطابق دس ہزار افراد کو احتجاج میں لانے کے لیے دو سو سے ڈھائی سو بسوں کی ضرورت ہوگی، جو ایک بڑا انتظامی چیلنج ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج کو ناکام قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ایک "فلاپ شو" ہوگا۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے عمران خان کو سیاسی ڈائیلاگ کی پیشکش کی تھی، لیکن عمران خان کی سیاست میں مذاکرات کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ ان کے مطابق، عمران خان کا رویہ سیاسی استحکام کے بجائے محاذ آرائی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے پشاور سے اپنی پروازوں کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پشاور سے لاہور یا ملک کے دیگر حصوں کے لیے کوئی فلائٹ دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے صوبے کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مزمل اسلم نے پی آئی اے کی انتظامی غفلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو فلائٹ حاصل کرنے کے لیے کوئٹہ، سکھر، ملتان، اور سیالکوٹ جیسے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، اور اس میں کئی دن کا انتظار شامل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہی صورتحال کراچی، لاہور، اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں پر بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مزید برآں، مشیر خزانہ نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی مسافروں کے لیے سعودی، خلیجی، ترک، اور تھائی ایئر لائنز نے پاکستانی منڈی پر قبضہ کر لیا ہے، جو کہ پی آئی اے کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد، میاں محمد نواز شریف نے واضح کیا ہے کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کے لیے کسی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لندن میں ایک غیر رسمی ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ پہلے ہی فیصلہ کر رکھا تھا کہ اکثریت نہ ملی تو وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں بنیں گے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد، میاں محمد نواز شریف نے لندن میں ایک غیر رسمی ملاقات کے دوران کہا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کے لیے کسی دباؤ یا روک کا سامنا نہیں تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ اگر اکثریت نہیں ملتی تو وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں بنیں گے۔ انہوں نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ انہیں کسی نے عہدہ نہ لینے کا کہا تھا، اور کہا کہ انتخابی نتائج ان کی توقعات سے کم تر تھے۔ نواز شریف نے پاک-بھارت تعلقات کی بہتری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کھیلوں کے ذریعے تعلقات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ "اگر پاکستان کو بھارت میں کھیلنے کا موقع ملتا تو میں چاہتا کہ ہماری ٹیم وہاں جانے والی پہلی ٹیم ہو۔ اسی طرح بھارتی ٹیم کو بھی پاکستان آنا چاہیے، اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔" جب ان سے بھارت کے پاکستان پر دہشت گردی سے متعلق الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا، تو نواز شریف نے کہا، "ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں، اور ہمیں اس مسئلے کا حل باہمی تعاون اور مکالمے کے ذریعے تلاش کرنا چاہیے۔" نواز شریف نے سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے زوال کا الزام عمران خان پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جمہوریت کو سمجھنے اور اس کے استحکام کے لیے کام کرنے کا موقع ملا تھا، مگر انہوں نے اسمبلی میں وقت گزارنے کے بجائے دھرنوں اور احتجاجی سیاست کو ترجیح دی۔ "جب میں وزیراعظم تھا اور وہ اپوزیشن میں تھے، تب میں نے انہیں جمہوریت کے فروغ کے لیے دعوت دی تھی، مگر انہوں نے اس موقع کو ضائع کیا۔ اگر وہ میری بات مان لیتے تو آج ہم سب ایک ساتھ کام کر رہے ہوتے۔" نواز شریف نے کہا کہ انہیں اب اپنی پارٹی کو منظم کرنے اور ملک میں بہتری لانے پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔ "اب میری توجہ پارٹی کو مضبوط بنانے اور ملک کی خدمت پر مرکوز ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ لوگ دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا دیا ہے۔"
واشنگٹن: امریکی کانگریس کے 46 ارکان نے صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس خط میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان کو مسلسل نظربند رکھا جا رہا ہے، اور تحریک انصاف کو آئندہ عام انتخابات سے دور رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ارکان کانگریس نے امریکی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ خط میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہری آزادیوں کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ارکان نے زور دیا کہ امریکی ایوان کی قرارداد نمبر 901 کے مطابق امریکا کو پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ مزید برآں، خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں اور حکومت نے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو شکست سے دوچار کیا۔ خط کے مطابق حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا کر تحریک انصاف کی مہم کو محدود کیا اور عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے لیے سرکاری وسائل استعمال کیے۔ یاد رہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف نے امریکی سفارت خانے کی سرگرمیوں کے خلاف شدید موقف اپنایا تھا، جس کے باوجود ارکان کانگریس نے ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی ہے۔ گزشتہ ماہ بھی 60 سے زائد امریکی ارکان کانگریس نے صدر بائیڈن کو خط لکھ کر عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس گروپ کی قیادت کانگریس کے رکن گریگ کیسر نے کی، جنہوں نے امریکی پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت دینے پر زور دیا تھا۔ اس خط پر کئی اہم ڈیموکریٹک ارکان بشمول راشدہ طلیب، الہان عمر، الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، اور بریڈ شرمین نے دستخط کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی عوام اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ایک حقیقی جمہوریت کے لیے کوششوں میں شریک ہیں۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار نجم سیٹھی نے سابق وزیراعظم عمران خان کو زبردستی سعودی عرب بھیجنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ اپنے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہ موجودہ صورتحال میں یہ حل پیش کیا گیا کہ ہوسکتا ہے عمران خان کو کسی دوسرے ملک منتقل کردیا جائے، مگر ہم سمجھتے تھے کہ عمران خان کسی دوسرے ملک نہیں جائیں گے بلکہ وہ ڈٹے رہیں گے اور نواز شریف والا فارمولا یہاں نہیں چلے گا۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ آگے سے جواب یہ ملا کہ عمران خان کو پوچھے گا کون انہیں جہاز میں بٹھا کربھیج دیا جائے گا اور انہیں پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ نجم سیٹھی نے بتایا کہ اس پرسوال یہ پوچھا گیا کہ عمران خان کو باہر کہاں بھیجا جائے گا؟ کیا انہیں لندن بھیجا جائے گا یا کسی اور ملک بھیجا جائے گا؟جواب ملا کہ انہیں سعودی عرب بھیجا جائے گا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اب سعودی عرب بھیجا جائے گا تو عمران خان کے محمد بن سلمان کے ساتھ تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں، سب کو معلوم ہے تو سعودی عرب انہیں کیسے لے گا؟ ریاست کے درمیان کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں، اس میں ایک صورت ہوسکتی ہے کیونکہ امریکہ کی نئی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے محمد بن سلمان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تو یہ سمجھوتہ ہوسکتا ہے کہ امریکہ کہہ دے عمران خان کو سعودی عرب بھیج دیا جائے اوریہ بھی کہہ دیں کہ سعودی عرب پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں عمران خان کو نواز شریف کی طرح خاموش کرکے بٹھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کی عزت رہ جائے گی کہ ان کے کہنے پر عمران خان کو نکال دیا گیا اور تینوں ممالک یہ فیصلہ کرلیں کہ عمران خان کو سعودی عرب منتقل کردیا جائے۔
پنجاب میں یکم جنوری سے کسانوں پر زرعی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس نئے ٹیکس قانون کے تحت مال مویشی کی خرید و فروخت پر بھی ٹیکس نافذ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں یہ بل منظور کرلیا، جبکہ تحریک انصاف نے اس بل کی شدید مخالفت کی۔ پنجاب حکومت نے کسانوں پر زرعی ٹیکس کی شرح کا بھی اعلان کیا ہے۔ احمر بھٹی نے ایوان میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 15 فیصد ٹیکس ہوگا۔ 12 سے 16 لاکھ روپے آمدن والوں پر 90 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس کے ساتھ 20 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح 32 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ساڑھے چھ لاکھ روپے ٹیکس ہوگا۔ 32 سے 56 لاکھ روپے کی آمدن پر 16 لاکھ روپے اور 56 لاکھ سے زائد آمدن والوں پر 16 لاکھ روپے کے ساتھ 45 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ کسانوں پر یہ نیا ٹیکس قانون کسانوں کے لیے ایک بڑا بوجھ ثابت ہوسکتا ہے، جس پر زرعی حلقے اور کسان تنظیمیں بھی احتجاج کر رہی ہیں۔
بی بی سی نے مریم نواز کے دعوے کی تردید کردی: پیراتھائرائیڈ کا علاج پاکستان میں بھی ممکن ہے۔ لاہور: مسلم لیگ (ن) کی سینئر رہنما مریم نواز کے اس دعوے کی بی بی سی نے تردید کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں پیراتھائرائیڈ کی بیماری ہے اور اس کا علاج دنیا میں صرف دو ممالک، امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے۔ مریم نواز کے مطابق ان کی بیماری کا علاج پاکستان میں دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے انہیں بیرون ملک جانا ضروری ہے۔ تاہم، بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طبی ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پیراتھائرائیڈ کی تشخیص، علاج، ادویات اور سرجری پاکستان کے ہر بڑے شہر میں باآسانی دستیاب ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کے علاج کے لیے تمام تر سہولیات میسر ہیں اور مریضوں کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، مریم نواز کا یہ دعویٰ کہ پیراتھائرائیڈ کا علاج صرف امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ممکن ہے، حقیقت کے برعکس ہے۔ پاکستان میں موجود میڈیکل سہولیات پیراتھائرائیڈ سمیت دیگر پیچیدہ بیماریوں کا علاج فراہم کرتی ہیں، اور اس مقصد کے لیے جدید سرجری اور ادویات بھی موجود ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق، پیراتھائرائیڈ کی بیماری کی تشخیص اور علاج کی سہولت پاکستان کے کئی اسپتالوں میں دستیاب ہے، اور پاکستانی ڈاکٹروں کے پاس اس بیماری کے علاج کا وسیع تجربہ ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے خواجہ آصف کےخلاف نازیبا زبان اور دھمکیوں کی مذمت کی گئی ہے جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے خواجہ آصف کے معاملے پرردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں اپنے معزز اور سینئر کابینہ کے رکن، خواجہ آصف کو دھمکیاں دینے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ ایسی وحشیانہ حرکت کسی بھی مہذب معاشرے کے شایان شان نہیں ہے۔ سیاست کی بنیاد پر چھری سے حملے کی کھلی دھمکی مجرمانہ ارادے کی عکاسی کرتی ہے اور اسے ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔ اس واقعے میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کرکے مقامی حکام کے ذریعے سزا دی جانی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور موقف اپنایا کہ جب یہ سب کچھ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ہورہا تھا تب وزیراعظم کو مذمتی بیان جاری کرنا کیوں یاد نہیں رہا؟؟ پی ٹی آئی رہنما قاسم سوری نے کہا کہ آپ اور آپ کی حکومت، جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے گزشتہ 30 ماہ سے بے گناہ پاکستانی عوام پر یہ ظلم کر رہے ہیں، ان تمام مظالم کی کب مذمت کریں گے؟ یہ اقدامات، جن میں قتل، جبری گمشدگیاں، اغواء، سیاسی انتقامی کارروائیاں، ذاتی جائیداد کی تباہی اور جسمانی تشدد شامل ہیں، انسانیت کے خلاف ہیں اور ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت کی خاموشی اور ان ظالمانہ کارروائیوں کو نظرانداز کرنا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ خود ان کارروائیوں میں ملوث ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ان جرائم کی مکمل تحقیقات اور انصاف کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ صحافی عبید بھٹی نے کہا کہ آپکی یہ لغو اور واہیات بات بلکل ایسے ہی ہے کہ نیتن یاہو واویلا کرے کہ فلسطینی اسکو، اسکے ساتھیوں یا لشکر کو مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں گالیاں دیتے ہیں۔ ہٹلر کے نقش قدم پر عملی نمونہ بن کر چلنے والے کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ سائرہ بانو نے کہا کہ قوم کا بیٹا،ہمارا بہادر صحافی ،ارشد شریف کے ساتھ جو ہوا اس پر تو روح نہ کانپی آپ کی، کیا ایسا پیغام دیا گیا۔ یا ان کی جان سستی تھی۔ ایک صارف نے پی ٹی آئی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تصاویر شیئر کیں اور کہا کہ آپ اس کی مذمت کرتے ہیں؟ ایک صارف نے رؤف حسن کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ تب آپ کیوں نہیں بولے؟؟
صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام آباد میں "ڈو اور ڈائی" احتجاج کا اعلان پارٹی کے اندر اختلافات کا باعث بن رہا ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان اور ان کے وکیل فیصل چوہدری کی اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد اس اعلان کے ساتھ ہی پارٹی کے کچھ سینئر رہنما آپس میں رابطے میں ہیں اور اس فیصلے سے عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق کچھ سرکردہ رہنماؤں نے اس احتجاج کی حکمت عملی پر نظرثانی اور عمران خان کو احتجاج کی کال واپس لینے کا مشورہ دینے پر غور کیا ہے۔ ان رہنماؤں کا ماننا ہے کہ 24 نومبر کی تاریخ جلد بازی میں طے کی گئی ہے اور اس میں سیکیورٹی اور لاجسٹکس کے مسائل بھی موجود ہیں، جیسے کہ مظاہرین کو کھانا اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرنا۔ ذرائع نے یہ بھی اشارہ دیا کہ عمران خان کو بہتر مشوروں کی ضرورت ہے اور ان کا فوری احتجاج بشریٰ بی بی کی دوبارہ گرفتاری کا باعث بن سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر عمران خان کے قانونی معاملات کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ انکے مطابق عمران خان کے حامی رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ اس احتجاج سے ان کے کیس میں پیشرفت متاثر ہوسکتی ہے، جبکہ عدالتوں سے انہیں پہلے ہی کچھ ریلیف مل چکا ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے اس احتجاج کو آخری حکومت مخالف کال قرار دیا ہے، لیکن پارٹی کے کچھ سینئر رہنما اس کا فائدہ نقصان کے جائزے کے بغیر اس طرح کی کال دینے کو غیر مناسب سمجھتے ہیں۔
ایک حالیہ آڈیو لیک نے فتنتہ الخوارج کے سرغنہ نور ولی محسود اور غٹ حاجی کے درمیان خفیہ رابطوں کو بے نقاب کر دیا ہے، جس میں نور ولی محسود پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کو واپسی سے روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، آڈیو میں نور ولی کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو ہدایت دے رہا ہے کہ واپسی کی کوئی اجازت نہیں اور سب قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ آڈیو لیک اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ فتنتہ الخوارج کے سرغنہ افغانستان میں موجود اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں افغان طالبان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ کہ افغان سرزمین سے ان دہشت گرد حملوں کے پیچھے طالبان کی مکمل مدد شامل ہے۔ مزید یہ کہ ماہرین کے مطابق یہ آڈیو مستقبل میں افغانستان سے مزید دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے خدشے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ نور ولی محسود اپنے پیروکاروں کو جہاد کے نام پر ورغلا کر نام نہاد قربانی دینے پر مجبور کر رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اب افغانستان میں بیٹھے اپنے سرغنوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں نے یہ بھی واضح کیا کہ نور ولی جیسے سرغنہ اپنے پیروکاروں کو دہشت گرد حملوں میں جھونک کر خود محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے ہیں اور محض پیسے کمانے کے چکر میں نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ واقعی جہاد میں مخلص ہوتے تو خود میدان میں آکر سیکیورٹی فورسز کا سامنا کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیک ہونے والی یہ آڈیو، پاکستان کی کامیاب دفاعی پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کی نشاندہی کرتی ہے۔ افغان سرزمین سے دہشت گردوں کی پاکستان آمد پر بھی پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اب ان خارجی سرغنوں کے لیے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ ماہرین نے مزید کہا کہ نور ولی اور اس جیسے دیگر سرغنہ اپنے مقاصد کے لیے نوجوانوں کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں اور یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ ان کا اصل مقصد جہاد نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور مالی فائدہ ہے۔ اس آڈیو لیک نے دہشت گردوں کے اصلی چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ عناصر نہ تو اپنے نظریات میں مخلص ہیں اور نہ ہی اپنے پیروکاروں کے ساتھ وفادار۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی ہے، اور واضح کیا ہے کہ اس مرتبہ مطالبات تسلیم ہونے تک وہ احتجاجی کیمپ سے واپس نہیں جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے اس احتجاج کے اعلان کے بعد، مسلم لیگ ن نے بھی خاموشی توڑتے ہوئے پی ٹی آئی کو سخت پیغامات دینے شروع کر دیے ہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاسی پیدائش ہمیشہ احتجاج، دھرنوں اور جلسوں کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانیوں کی سیاست امپائر کی انگلی، سازشوں اور سہولتکاری کے گرد گھومتی رہی ہے۔ عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ "کسی کو بھی پنجاب کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔" انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "چور چور کی گردان کرنے والے خود رنگے ہاتھوں چوری کرتے پکڑے گئے ہیں، اور اقتدار کی ہوس میں قوم کے بچوں کو سڑکوں پر جھونکنے والے کے اپنے بچے لندن میں لگژری لائف انجوائے کر رہے ہیں۔" صوبائی وزیر نے یہ بھی کہا کہ "پنجاب کی ترقی فتنہ پارٹی کو ہضم نہیں ہو رہی، اور بانی پی ٹی آئی کی سیاسی زندگی ہمیشہ ڈھیل اور ڈیل کے گرد گھومتی رہی ہے۔" یہ بیان پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھاتا ہے، اور دونوں جماعتوں کے درمیان لفظی جنگ میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر کسی قسم کی سمجھوتہ نہیں کرے گی، اور احتجاج کے ذریعے اپنی آواز بلند کرے گی، جب کہ ن لیگ نے ان کے عزائم کو عوامی مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔
پنجاب پولیس کے ایک اور مالی اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے، جس میں سرکاری فنڈز کو پرائیویٹ اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشافات کیے گئے ہیں کہ پنجاب پولیس نے اربوں روپے کے سرکاری فنڈز کو نجی اکاؤنٹس میں رکھا، جو مالی بے ضابطگی اور بدعنوانی کا واضح ثبوت ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پنجاب سیف سٹی اتھارٹی نے سب سے زیادہ فنڈز پرائیویٹ اکاؤنٹس میں منتقل کیے، جس میں ایک ارب 9 کروڑ روپے سے زائد رقم شامل ہے۔ یہ رقم 2022 سے 2023 کے درمیان منتقل کی گئی۔ اس کے علاوہ لاہور پولیس کے فنڈز بھی چار سال تک پرائیویٹ اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جس میں 16 کروڑ روپے سے زائد کی رقم شامل ہے۔ یہ رقم 2019 سے 2023 کے دوران منتقل اور نکالی گئی۔ اسی طرح، سی پی او فیصل آباد کی 11 کروڑ روپے سے زائد رقم بھی نجی اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی، جبکہ سیف سٹی اتھارٹی نے آلات کے خراب ہونے کے چارجز بھی پرائیویٹ اکاؤنٹس میں رکھے۔ 2022-2023 میں سیف سٹی اتھارٹی نے 10 کروڑ روپے سے زائد رقم نجی اکاؤنٹس میں منتقل کی۔ اس کے علاوہ، ڈی پی او گجرات کے 6 کروڑ اور ڈی پی او شیخوپورہ کے 2 کروڑ روپے بھی پرائیویٹ اکاؤنٹس میں رکھے گئے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، یہ مالی بے ضابطگیاں اس سے قبل بھی سامنے آ چکی ہیں، اور اعلیٰ افسران کو آگاہ کرنے کے باوجود ان بے ضابطگیوں کو دوبارہ دہرایا گیا۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگرچہ حکام کو ان مالی بے ضابطگیوں کا علم تھا، لیکن اس کے باوجود کوئی سخت اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہ اسکینڈل پولیس کے نظام میں گہری بدعنوانی اور مالی بدانتظامی کی عکاسی کرتا ہے، جس پر عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اعلیٰ حکام ان بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کریں گے، اور کیا اس معاملے میں کسی کو سزا ملے گی یا یہ معاملہ مزید دبا دیا جائے گا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں وزیر اعلیٰ کے بھائی عمر امین گنڈاپور کی مدعیت میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنماؤں کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ 9 ماہ بعد، 10 نومبر کو اس الزام کے تحت درج کیا گیا کہ جمعیت کے رہنماؤں نے علی امین گنڈاپور کے غلط انتخابی نشان والے بینرز اور پوسٹرز شہر میں لگائے تھے۔ مقامی پولیس کے مطابق، 7 فروری کو یہ بینرز اور پوسٹرز اس وقت لگائے گئے تھے جب علی امین گنڈاپور کے انتخابی نشان کی تصویر غلط طور پر چھاپی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ کے بھائی عمر امین گنڈاپور نے اس واقعے کے خلاف شکایت درج کرائی تھی، اور اب اس معاملے میں کارروائی شروع کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے اور جمعیت کے رہنماؤں کو جلد طلب کیے جانے کا امکان ہے۔
صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اسلام آباد میں ڈو آر ڈائی (Do or Die) احتجاج اور ممکنہ دھرنے کے لیے تاریخ دینا چاہتے ہیں، لیکن پارٹی کے سینئر رہنما انہیں قائل کر رہے ہیں کہ بغیر مناسب انتظامات اور فوائد و نقصانات پر غور کیے بغیر ایسے احتجاج کا اعلان نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق، پارٹی کے اکثر سینئر رہنما، جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں یا خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ ہیں، بھرپور احتجاج کے حامی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ شعلہ بیاں رہنماؤں کو بھی اندیشہ ہے کہ بھرپور احتجاج کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو سکتا ہے، جس سے پارٹی کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔ پی ٹی آئی کے تقریباً تمام سرکردہ ارکان صوبائی اسمبلی ڈو آر ڈائی احتجاج کے مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے نہ تو عمران خان کی رہائی میں مدد ملے گی اور نہ ہی پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ ان ارکان نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے پارٹی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پارٹی کو بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور مزید رہنما اور کارکن گرفتار ہوں گے اور ان پر مقدمات درج کیے جائیں گے۔ انکے مطابق اگر حکومت احتجاج کے لیے فری ہینڈ دے بھی دے تو اس صورت میں بھی مظاہرین یا قیادت عمران خان کو جیل سے نہیں نکال سکتے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2014ء جیسے دھرنے کے لیے وسائل درکار ہیں، اور مناسب منصوبہ بندی اور وسائل کے بغیر دھرنا ممکن نہیں۔ انصار عباسی کے مطابق عمران خان کو قائل کیا جارہا ہے کہ انہیں مختلف مقدمات میں عدالتی ریلیف حاصل ہوا، اور رہائی قانونی و آئینی طریقوں سے ہی ممکن ہے۔ انکے مطابق بیرون ملک موجود کچھ پی ٹی آئی رہنما، جو روپوش ہیں یا جنہیں 8 فروری کے انتخابات میں کامیابی نہیں ملی، ڈو آر ڈائی احتجاج پر زور دے رہے ہیں اور فوری طور پر احتجاجی مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کی تاریخ کا اعلان چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے تصدیق کی کہ احتجاج کی حتمی کال پر پارٹی میں دو رائے موجود ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جب عمران خان تاریخ دیں گے، تو کارکنان تیاری کے بغیر بھی اس پر عمل کریں گے۔
کراچی: لیاقت آباد ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او تسنیم اقبال پر مبینہ طور پر ایک خاتون اور اس کی جواں سال بیٹی کو لاک اپ میں کئی گھنٹے تک برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا ہے. متاثرہ خاتون کرن ناز نے بتایا کہ اوباش نوجوان گھر میں داخل ہوئے اور ہمیں یرغمال بنا کر تشدد کرتے رہے. ان کا کہنا ہے کہ لیاقت آباد ویمن پولیس کی مدد سے اوباش نوجوان نے ہمیں تھانے بلوایا جہاں ہمیں لاک اپ کردیا گیا اور کئی گھنٹے حبس بے جا میں رکھا گیا. کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے. یہ معاملہ ایس ایچ او تسنیم اقبال کے خلاف پاور کے استحصال کا ایک اور الزام ہے، جو پہلے بھی معطل کیا جاچکا ہے. پولیس چیف کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی شہریوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی. معاملے کی تحقیقات جاری ہے.
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسموگ کی بڑھتی ہوئی شدت کو دیکھتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ نوکری شاہی، انتظامیہ نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ اسموگ فصلیں جلانے کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ صرف شور ہے کہ چاول کی فصل کی باقیات جلانے سے سموگ ہوتی ہے۔ اس چارٹ کا ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کو اصلی ملزم نظر آئیں گے جن کے نام اس میں شامل نہیں ہیں۔ فصلوں کی باقیات تو موہنجو داڑو کے وقت سے جلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سدا کے اصل حکمران یعنی انتظامیہ، نوکر شاہی، اور ایگزیکٹو نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ بڑی وجہ فصلوں کا جلانا ہے اور سموگ بھارت سے امپورٹ ہو رہی ہے کیونکہ ہوا مشرق سے مغرب کی طرف چل رہی ہے۔ جب مغرب سے مشرق کی طرف چلے گی تو پھر کیا ہو گا؟ آپ اس چارٹ میں دیکھیں گے کہ سب بڑے ملزم انتظامیہ کی سرپرستی میں رشوت کے زور پر سموگ پھیلا رہے ہیں اور ملبہ فصلوں کی باقیات پر ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی دوسری ٹویٹ میں تاجر برادری اور سیاستدانوں کو بھی کھری کھری سنائیں اور کہا کہ چند روز پہلے لاہور کے جج شاہد کریم صاحب نے مارکیٹیں 8 بجے شام بند کرنے کا فیصلہ سنایا، جس پر عملدرآمد ابھی باقی ہے۔ پاکستان اور خصوصاً پنجاب کا یہ منفرد اعزاز ہے کہ یہاں مارکیٹیں دوپہر کے بعد، یعنی تقریباً 2 بجے کے قریب کھلتی ہیں اور آدھی رات کے بعد 2 بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ محترم تاجر حضرات جب رات کو گھر واپس آتے ہیں تو بچے سوئے ہوتے ہیں، اور جب بچے صبح سکول جاتے ہیں تو ابو حضور سوئے ہوتے ہیں۔ مارکیٹوں کے اوقات کا یہ منفرد اعزاز دنیا میں صرف ہمارے وطن عزیز کو حاصل ہے۔تاجر تنظیمیں ایک بڑی قوت ہیں اور وہ ان منفرد اوقات کو تبدیل کرنے کے حامی نہیں۔ ہم سیاستدانوں کی بھی سیاسی دوکانداری ہے، ہم مصلحتوں کا شکار ہیں کہ ہمارے کاروبار سیاست کو کوئی زک نہ پہنچے۔ پاکستان زندہ باد۔
اسلام آباد: وزارت داخلہ کی تھری اور 16 ایم پی او قوانین سے متعلق ترمیمی بل کی مخالفت، قومی اسمبلی کمیٹی میں گرما گرم بحث اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں وزارت داخلہ نے تھری اور 16 ایم پی او (مائیینٹیننس آف پبلک آرڈر) قوانین میں ترمیمی بل کی مخالفت کر دی۔ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے اس بل کے اثرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اس حوالے سے متضاد موقف اختیار کیا۔ اجلاس کے دوران صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا کہ یہ وہ بل ہے جس پر قائداعظم محمد علی جناح نے بھی انگریزوں کے دور میں شدید مخالفت کی تھی، اور آج بھی اس بل کی نوعیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ اس نوعیت کے ظالمانہ قوانین کو فوراً چاروں صوبوں سے ختم کر دینا چاہیے، کیونکہ یہ قوانین عوامی آزادیوں کے خلاف ہیں اور ان کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پی ٹی آئی کی رہنما زرتاج گل نے کمیٹی میں جذباتی انداز میں کہا کہ انہیں 16 ایم پی او کے تحت بغیر دوپٹے کے اپنے گھر سے گھسیٹ کر گرفتار کیا گیا تھا، اور اس طرح کے غیر قانونی اقدامات کی بھرپور مذمت کی۔ آغا رفیع اللہ نے اس ترمیمی بل کو کمیٹی میں تفصیل سے بحث کے لیے پیش کرنے کی تجویز دی، تاکہ اس پر تمام ارکان اپنے موقف کا اظہار کر سکیں اور اس کی قانونی حیثیت پر غور کیا جا سکے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نے کہا کہ ان کے ساتھ بھی غیر قانونی طور پر گرفتاری کی گئی، اور ان کی بیٹی کو میڈیکل کالج سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ خواتین اور اہل خانہ کو اس طرح کے معاملات میں ملوث کرنا انتہائی غلط ہے اور وہ ایسی حرکتوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے رہنما صاحبزادہ حامد رضا نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور کہا کہ ان کی بہن کو، جو ملک سے باہر تھی، نو مئی کے واقعات میں ملوث کر لیا گیا، جو کہ سراسر غیر منصفانہ ہے۔
اسلام آباد: حکومت کا 18 آئی پی پیز سے ٹیک اینڈ پے موڈ پر معاہدے کا امکان ہے،جس سے سالانہ 70 سے 100 ارب روپے کی بچت کی توقع ہے۔ اسلام آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے 18 آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ دو ہفتوں کے اندر ٹیک اینڈ پے موڈ پر معاہدے کرنے کا امکان ہے، جس کے نتیجے میں سالانہ 70 سے 100 ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ یہ معاہدے 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں کے تحت بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 4,267 میگاواٹ رکھنے والے 18 آئی پی پیز کے ساتھ کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت موجودہ ٹیک اور پے موڈ کے بجائے بجلی خریداری کے عمل کو ٹیک اینڈ پے موڈ میں تبدیل کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ اس نئے موڈ کے تحت حکومت آئی پی پیز کو بجلی کی اصل ترسیل کے مطابق ادائیگی کرے گی، نہ کہ ان کی صلاحیت کے مطابق، جو کہ موجودہ نظام میں رائج ہے۔ یہ فیصلہ پاور سیکٹر کے حکام اور حکومت کے درمیان ہونے والی کامیاب بات چیت کے بعد کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف بجلی کی خریداری میں شفافیت آئے گی بلکہ عوامی خزانے کی بچت بھی ممکن ہو سکے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں پر دستخط کرنے میں تقریباً دو ہفتے لگ سکتے ہیں، جس کے بعد اس نئے موڈ پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ اس تبدیلی سے سالانہ 70 سے 100 ارب روپے کی بچت کی توقع ہے، جو کہ حکومت کے لیے ایک بڑی مالی سہولت ثابت ہو گی۔ پاور سیکٹر انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے نہ صرف بجلی کی خریداری کے نظام میں بہتری لائیں گے، بلکہ آئی پی پیز کو ادائیگی کے موجودہ طریقہ کار کو بھی بہتر بنائیں گے، جس سے بجلی کی قیمتوں میں استحکام آ سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس اقدام کو ایک بڑا معاشی فائدہ سمجھا جا رہا ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سے ملک میں توانائی کے شعبے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔

Back
Top