سیاسی

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے آج ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی حکومت نے دارالحکومت کے زیادہ تر راستوں کو بند کر دیا ہے۔ اتوار کی صبح سے کنٹینرز کے ذریعے اہم شاہراؤں کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ کچھ مقامات پر صرف ایک گاڑی کے گزرنے کے لیے جگہ چھوڑی گئی ہے، جبکہ پولیس کا اضافی نفری بھی شہر میں پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ چھبیس نمبر چُنگی کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے، جہاں رینجرز بھی تعینات ہیں۔ ساتھ ہی سری نگر ہائی وے کو زیرو پوائنٹ کے مقام پر بھی بند کر دیا گیا ہے۔ ایکسپریس وے کو کھنہ پل کے نزدیک دونوں طرف سے بند کیا گیا ہے، جہاں ایک کنٹینر میں آگ بھڑک اٹھی، تاہم آگ لگنے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی۔ ایئر پورٹ جانے والے راستے بھی کنٹینروں سے بند کر دیے گئے ہیں، جبکہ فیض آباد سے اسلام آباد جانے والا راستہ بھی مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے، وہاں تقریباً 6 ہزار پولیس اہلکار اور افسران تعینات کیے گئے ہیں۔ 2 ہزار اہلکاروں کو بیک اپ کی صورت میں تیار کیا گیا ہے۔ راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخلے کے لیے 135 بلاکنگ پوائنٹس اور چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔ اینٹی رائڈ اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کو فسادات کنٹرول کرنے کے لیے بھی مکمل آلات فراہم کیے گئے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو موبائل فون کے استعمال سے روک دیا گیا ہے اور انٹرنیٹ کی سہولیات کو انتہائی سست کر دیا گیا ہے۔ میٹرو بس سروس کو تاحکم ثانی بند کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان کی مزید سروسز بھی متاثر ہیں، جہاں CCTV کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے گی۔ پولیس حکام نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی نوعیت کے احتجاج، مظاہرے یا ریلی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اسلام آباد: رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جبکہ ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، جولائی سے اکتوبر 2024 کے دوران سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اکتوبر 2024 میں یہ کمی 69 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ ایک نمایاں تبدیلی ہے۔ دوسری طرف، ایران سے درآمدات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی تا اکتوبر 2024 میں ایران سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں اس اضافے کا مشاہدہ کیا گیا، جبکہ اکتوبر 2024 میں ایران سے درآمدات میں 10 فیصد کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ تبدیلیاں دونوں ملکوں سے درآمدات کے تبادلوں اور تجارتی تعلقات کو متاثر کر رہی ہیں، اور یہ اعداد و شمار پاکستان کی اقتصادی حکمت عملی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
میئر کراچی، مرتضیٰ وہاب نے شہر میں کچرا پھیلانے والوں کے خلاف سخت انتظامات کا عندیہ دیا ہے۔ عباسی شہید اسپتال کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچرا پھیلانے والوں کو 3 سال قید اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے تعاون سے شہر کی صفائی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ میئر مرتضیٰ وہاب نے اپنے سیاسی مخالفین پر بھی تنقید کی، خاص طور پر ایم کیو ایم کے دور حکومت کے حوالے سے، جس میں انہوں نے کے ایم سی کے زیر انتظام اسپتالوں کی حالت کو بدتر قرار دیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی جانب سے ضلع وسطی میں امراض قلب اسپتال کی تجویز کو سیاست کا شکار بنانے کی بھی مذمت کی۔ عباسی شہید اسپتال کی گولڈن جوبلی تقریب کے دوران، اسپتال کے مختلف شعبوں، بشمول آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ، لیبز، ڈینٹل او پی ڈی اور مردہ خانے کو اپ گریڈ کیا گیا۔ اس موقع پر سی ٹی اسکین اور میموگرافی کی سہولیات کی بھی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی، جہاں میئر کراچی اور ڈپٹی میئر سلمان عبداللہ مراد سمیت دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ عباسی شہید اسپتال عوام کی امانت ہے جس کی حالت گزشتہ 50 سالوں میں قابل رحم رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسپتال کے وسائل کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا، اور مردہ خانے کی سہولت کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے، جہاں 60 میتوں کو عزت کے ساتھ رکھنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عباسی شہید اسپتال میں سی ٹی اسکین کی سہولت صرف 1500 روپے میں فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ دیگر اداروں میں یہ 5 سے 6 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔ اسی طرح، میموگرافی کی سہولت بھی، جو کہ نجی اسپتالوں میں 13 ہزار روپے میں کی جاتی ہے، یہاں صرف 1500 روپے میں فراہم کی جا رہی ہے۔
کابینہ ڈویژن نے توشہ خانہ میں موصول ہونے والے مزید تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے 13 دسمبر تک نجی تخمینہ کاروں سے بولیاں طلب کی گئی ہیں، اور یہ بولیاں اسی دن کھولی جائیں گی۔ کابینہ ڈویژن کے مطابق، توشہ خانہ میں موصول مختلف کیٹیگریز کے تحائف، جن میں زیورات، گھڑیاں، الیکٹرونکس، اسلحہ، اور قالین شامل ہیں، کی قیمتوں کا تخمینہ لگایا جائے گا۔ کامیاب تخمینہ کاروں کے ساتھ ایک سال کے لیے معاہدہ کیا جائے گا، اور انہیں تحائف کی قیمتوں کے تخمینوں کے لیے چارجز ادا کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ توشہ خانہ کے تحائف بنیادی طور پر سیاسی عہدیداروں، بیوروکریسی، جس میں سویلین و ملٹری دونوں شامل ہیں، اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے فروخت کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر کسی تحفے کی خریداری نہ ہو تو وہ عوام میں نیلام کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ سرکاری پالیسی کے تحت، ہر ملنے والے تحفے کے متعلق حکومت کو مطلع کرنا اور اسے توشہ خانے میں جمع کرانا لازمی ہے۔ اس اقدام کا مقصد سرکاری تحائف کی درست قیمت کا تعین کرنا اور ان کے شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہے۔
پاکستان حالیہ دنوں میں معاشی اشاریوں میں کچھ بہتری کے باوجود فی کس سالانہ آمدن، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں علاقائی ممالک سے کہیں پیچھے ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت پاکستان میں فی کس سالانہ آمدن 1587 ڈالر ہے، جب کہ بنگلہ دیش میں یہ آمدن 2624 ڈالر، بھارت میں 2698 ڈالر، نیپال میں 4062 ڈالر اور حالیہ مالی بحران کا شکار ہونے والے سری لنکا میں 3929 ڈالر ہے۔ پاکستانیوں کی آمدن میں کمی آنے کی وجہ سے ان کی قوت خرید دیگر ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں خاصی متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ دو سے ڈھائی برسوں کے دوران عوام، خاص کر تنخواہ دار طبقے کی آمدن میں وہ اضافہ نہیں ہوا جو کہ مہنگائی کی شرح میں اضافے کے ساتھ ہونا چاہیے تھا، جس کی بنا پر ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایسے افراد کی شرح جو روزانہ 3.20 ڈالر سے کم کماتے ہیں، 2021 میں 38 فیصد تھی اور اب یہ بڑھ کر 42.8 فیصد ہو چکی ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں قریب ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ آمدن میں بہتری کے بغیر عوام کو غربت سے باہر نکالنا اور معیار زندگی کو بلند کرنا ناممکن ہے۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو عام آدمی کی آمدن میں اضافے کے منصوبوں پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ایک کثیر جہتی حکمت عملی اپنانا ضروری ہوگا، جس میں صنعتی سرگرمیوں کے علاوہ افراد کی معاشی خود کفالت کے منصوبے بھی شامل ہوں۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا مزید شدت سے کرنا پڑے گا۔
قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں متوقع احتجاج کے حوالے سے دہشت گردی کے خطرے کا الرٹ جاری کیا ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فتنہ الخوارج کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہو سکتی ہیں، اور یہ کہ کچھ حملہ آور پہلے ہی قائدین کے حلقوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ نیکٹا نے صوبائی حکومتوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر سخت حفاظتی اقدامات کریں، خاص طور پر عوامی جلسوں اور دھرنوں کے موقع پر۔ خیبرپختونخوا میں محکمہ داخلہ نے بھی ہائی الرٹ جاری کیا ہے اور عوام کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج اور دھرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے، جبکہ حکومت نے امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے، اور متعدد راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکنان بھی حکومتی مداخلت کا شکار ہو رہے ہیں، جب کہ پارٹی قیادت نے احتجاج کے دوران وفاداری اور کارکردگی کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ احتجاج وفاداری کا امتحان ہے۔ احتجاج کی تاریخ 24 نومبر ہے، جس میں پی ٹی آئی کی قیادت نے عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
راچی میں تاجروں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہونے والی ملاقات میں اپنی مشکلات اور مظالم کے بارے میں گفتگو کی، خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس ملاقات میں معروف صنعتکار حنیف گوہر نے تاجر برادری کی طرف سے مختلف مسائل پر روشنی ڈالی۔ تاجروں نے جنرل عاصم منیر کو بتایا کہ زمینوں پر آج بھی قبضے جاری ہیں، اور یہ کہ بیوروکریسی تاجروں کو شدید پریشان کر رہی ہے۔ حنیف گوہر نے واضح کیا کہ موجودہ نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ تاجروں کو ان کے حقوق مل سکیں اور وہ بلا جھجھک اپنا کاروبار کر سکیں۔ ملاقات کے دوران، تاجر رہنما نے پانی کی قلت اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ صنعتی سیکٹر میں روڈ کی حالت خراب ہے، جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پانی مافیا کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے جو تاجروں کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ تاجروں نے آرمی چیف سے درخواست کی کہ اگر وہ کراچی کے مسائل کا فوری حل نکالیں تو وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضوں کی مشکلات کا سامنا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنرل عاصم منیر کراچی کی بہتری کے لئے چھ ماہ کی مدت کے لئے اقدامات کریں تو وہ یقیناً آئی ایم ایف کا قرض ختم کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ ملاقات تاجروں کی امیدوں کا اظہار ہے کہ ممکنہ اصلاحات اور مدد سے ان کی مشکلات کا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا حکومت اور دیگر ادارے ان مسائل پر توجہ دیں گے اور تاجروں کی آواز پر عملدرآمد کریں گے۔
اچھرہ کے علاقے میں تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران پولیس اہلکاروں نے ایک تحریک انصاف کے ورکر کے گھر شادی کی تقریب کے موقع پر چھاپہ مارا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہوکر بزرگ چوہدری علیم کا گریبان پکڑ لیا۔ اہلخانہ کا ردعمل گھر والوں نے اس غیر قانونی اقدام پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور اہلکاروں کی درگت بنا ڈالی۔ اس دوران، اہلخانہ نے پولیس کے اس اقدام کو تشدد سمجھتے ہوئے اپنی حفاظت کے لئے مقابلہ کیا۔ واقعے کی شدت کے باعث معاملہ بگڑ گیا۔ پولیس کی کارروائی بعد ازاں، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور چوہدری علیم، جو کہ 70 سال سے زائد عمر کے ہیں، کے دو بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف جاری کارروائی کا حصہ تھی، جو اس وقت ملک بھر میں جاری ہے۔ صورتحال کی تشویش یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاسی دباؤ اور جاری کریک ڈاؤن کے دوران شہریوں کے حقوق اور انسانی وقار کی کتنی بری طرح خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ نکتہ چینی کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی حرکات نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے اور اس کے نتائج سیاسی اور سماجی سطح پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف اچھرہ بلکہ ملک بھر میں سیاسی ماحول اور پولیس کے طرز عمل پر سوالات اٹھاتا ہے، اور تجزیہ کاروں کی جانب سے اس پر مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کے احتجاج کے پیش نظر، جس میں اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس جزوی معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، متبادل کمیونیکیشن کے لیے دو مخصوص ایپلیکیشنز کی تجویز دی ہے۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ان ایپس کے بارے میں اپنی ٹویٹ میں کارکنان کو آگاہ کیا۔ BRIAR - یہ ایپ دسترس کے بغیر کام کرتی ہے اور آپ کو اکاؤنٹ بنانے کے لیے نہ تو اپنا فون نمبر دینا ہوتا ہے اور نہ ہی ای میل ایڈریس، بلکہ آپ فرضی نام بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ - یہ ایپ براہ راست دوستوں کے ساتھ رابطے کے لیے بہترین ہے، خاص طور پر جب انٹرنیٹ سروس معطل ہو۔ Bridgefy - یہ ایپ بلوتوتھ کے ذریعے کام کرتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رینج تقریباً 100 میٹر یا 300 فٹ ہوتی ہے۔ - جتنے زیادہ لوگ اس ایپ کو استعمال کریں گے، اتنی ہی دور تک آپ کی آواز پہنچے گی، جس سے ایک بڑی کمیونٹی کے اندر رابطہ ممکن ہوتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے، خاص طور پر ان کی آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حقوق کے حوالے سے۔ ان متبادل ایپس کا ذکر ان لوگوں کے لیے ایک اہم معلوماتی حیثیت رکھتا ہے جو احتجاج کے دوران موثر طریقے سے آپس میں رابطے میں رہنا چاہتے ہیں۔
صحافی انصار عباسی کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ابتدائی رابطے کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیںابتدائی رابطوں کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن کا مقصد باضابطہ مذاکرات کے آغاز کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ملاقاتوں میں فریقین نے اعلیٰ سطح پر نمائندگی کی، جن میں پہلے ایک ایک نمائندہ شامل تھا جبکہ دوسری ملاقات میں ہر جانب سے تین افراد شریک ہوئےے مطابق اگر مذاکرات کا عمل کامیاب رہا تو یہ پیشرفت پی ٹی آئی کی 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کی کال واپس لینے کا باعث بن سکتی ہے۔ مذاکرات کے باضابطہ آغاز سے پہلے فریقین اپنی اعلیٰ قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے حتمی منظوری لیں گے۔ عمران خان کو ان رابطوں کا علم ہے اور وہ پارٹی کے دیگر متعلقہ افراد کے بارے میں بھی آگاہ ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے کابینہ کے بیشتر ارکان ان ملاقاتوں سے بے خبر ہیں ملاقاتوں میں دونوں جانب سے مطالبات پیش کیے جائیں گے، تاہم فوری طور پر پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا امکان نہیں۔ مزید یہ کہ مذاکرات براہ راست پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہیں ہوں گے۔ یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ مذاکرات سے پہلے دونوں فریقوں کو کئی اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا دوسری جانب صحافی عامر خاکوانی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سوچنے والی بات ہے کہ عمران خان پر ایک اور پرچہ کیوں کرا دیا گیا ہے؟ کیا یہ اس لئے کہ عدالتوں سے ضمانت ہونے کے بعد خان کو چھوڑنا نہ پڑ جائے یا پھر یہ حکومت کی جانب سے ہے کہ کہیں ہم سے بالابالا مذاکرات کامیاب نہ ہوجائیں ؟ اس سے تو یوں لگ رہا ہے کہ مذاکرات کسی وزیر سے ہورہے تب بھی وہ اصلاً اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کر رہا ہے ۔
اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے 4300 بھکاریوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ وزیرداخلہ محسن نقوی کی سعودی عرب کے نائب وزیرداخلہ ڈاکٹر ناصر بن عبدالعزیز الداود سے ملاقات ہوئی، جس میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، پاک سعودیہ تعلقات، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کے باہمی تبادلوں پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ محسن نقوی نے یہ تجویز پیش کی کہ اسلام آباد اور ریاض کو جڑواں شہر قرار دیا جائے، جس پر سعودی وزیر نے اتفاق کیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ ملاقات کے دوران، بھکاریوں کو سعودی عرب بھیجنے والے مافیاؤں کی سرکوبی پر بھی بات چیت ہوئی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے اور ملک بھر میں مؤثر کریک ڈاؤن جاری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عملدرآمد کا بھی توافق ہوا، اور بتایا گیا کہ سعودی عرب میں 419 پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی کے لیے قانونی کارروائی جلد مکمل کی جائے گی۔ محسن نقوی نے کہا کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لیے ہر ممکن مدد کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سعودی شہریوں کے لیے پاکستان آنے پر کوئی ویزا نہیں ہے، اور وہ جب چاہیں پاکستان آ سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی تعریف کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ موجودہ قیادت کے تحت سعودی عرب 2030 تک معاشی، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرے گا۔ نائب وزیر داخلہ سعودی عرب نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں اور پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کے باہمی تبادلوں اور مشترکہ ٹریننگ کے لیے تیار ہیں۔ یہ تمام اقدامات سعودی عرب میں پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں کیے جا رہے ہیں، جہاں سعودی وزارت مذہبی امور نے پاکستان کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ بھکاریوں کو عمرہ ویزے کے تحت خلیجی ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
جسٹس عائشہ ملک کو ملٹری کورٹ سے متعلق اپیلوں کی سماعت کرنے والے آئینی بینچ سے الگ کردیا گیا اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچز کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں جسٹس عائشہ ملک کو ملٹری کورٹ سے متعلق اپیلوں کی سماعت کرنے والے آئینی بینچ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس عائشہ ملک سویلینز کے فوجی ٹرائل سے متعلق کیس کی اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کا حصہ نہیں رہ سکیں گی۔ اس سے قبل یہ کیس سات رکنی بنچ کی جانب سے فیصلہ کیا جا چکا ہے، جس کی بنا پر یہ اقدام اٹھایا گیا۔ اجلاس میں زیرِ التواء اپیلوں کو جلد نمٹانے کے لیے کیسز کی درجہ بندی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ، ہر رکن کے سامنے روزانہ پانچ چیمبر اپیلوں کی سماعت مقرر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ کمیٹی نے آئینی بینچ کے عدالتی امور میں معاونت کے لیے ایک سول جج فراہم کرنے کی بھی سفارش کی۔ ملٹری کورٹس کے بارے میں اپیلوں پر آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی نے آرٹیکل 191 کے تحت آئینی مقدمات کے لیے ایک وقف برانچ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کیسز کی کارروائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سپریم کورٹ پہلے سے آئینی بینچ کو منتقل کیے گئے مقدمات کو منظور شدہ روسٹر کے مطابق طے کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
لاہور: محکمہ داخلہ پنجاب نے پی ٹی آئی کے احتجاج سے پہلے پنجاب بھر کی جیلوں میں بڑے پیمانے پر افسران کے تقرر اور تبادلوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں 298 مختلف پوزیشنز پر تقرر و تبادلے کی منظوری دی گئی ہے۔ محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق، ان تبدیلیوں میں 7 سپرنٹنڈنٹ، 15 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، 2 ماہر نفسیات، 7 آفس سپرنٹنڈنٹ اور 29 اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس کو ہٹایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ 40 چیف وارڈرز، 30 ہیڈ وارڈرز اور 150 وارڈرز کا بھی تبادلہ کیا گیا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل ثاقب نذیر کو AIG انڈسٹریز انسپکٹریٹ آف پریزن تعینات کیا گیا ہے۔ تقرریوں کے مطابق، اشتیاق احمد گل کو پرنسپل پنجاب پریزن سٹاف ٹریننگ انسٹیٹیوٹ لاہور، اختر اقبال کو سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل گجرات اور محمد آصف عظیم کو سپرنٹنڈنٹ جوینائل جیل فیصل آباد تعینات کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، محمد ارشد کو کورس کمانڈنٹ پنجاب پریزن اسٹاف ٹریننگ کالج ساہیوال، رسول بخش کو سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل بہاولنگر اور نازک شہزاد کو مظفرگڑھ میں تعینات کیا گیا ہے۔ محکمے نے سہیل نبی گل کو ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل گوجرانوالہ کے عہدے پر بھی تعینات کیا ہے۔ یہ تبدیلیاں جیل ریفارمز ایجنڈے کے تحت کینگی گئی ہیں اور اس کا مقصد جیل نظام کی بہتری اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔
راولپنڈی: پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کو ایک افسوسناک واقعے کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے تایا کو غیر قانونی شکار کرنے سے روکا۔ وائلڈ لائف کے اہلکاروں کی جانب سے جب اس غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کی گئی تو پنڈی پولیس کے اہلکاروں نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں یرغمال بنا لیا اور زدوکوب کیا۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض اوقات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض اہلکار طاقتور افراد کی حمایت کرتے ہیں، جس سے وائلڈ لائف حکام کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کا بنیادی مقصد جنگلی حیات اور قدرتی ماحول کی حفاظت کرنا ہے، اور اس قسم کے واقعات ان کی کوششوں کو شدید متاثر کر سکتے ہیں۔ حکام نے اس واقعے کے خلاف فوری طور پر آواز اٹھائی ہے اور انہیں امید ہے کہ حکومت اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے گی تاکہ اسی طرح کے حالات دوبارہ پیش نہ آئیں اور جنگلی حیات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے گریڈ 15 اور اس سے کم سرکاری ملازمتوں میں خواجہ سراوں کے لئے ملازمت کے کوٹے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کیلئے گریڈ 15 سے سے کم میں ملازمت کا کوٹہ مختص کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام خواجہ سراوں کو معاشرتی اور اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے تحت، یہ یقینی بنایا جائے گا کہ خواجہ سراوں کو سرکاری ملازمتوں میں مناسب نمائندگی حاصل ہو۔ اس اقدام کی بدولت خواجہ سراوں کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے مواقع ملیں گے اور انہیں معاشرت میں بہتر مقام حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ فیصلہ حکومت کی جانب سے اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
منگل کو ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف، انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سربراہان، تمام وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزراء سمیت اہم شخصیات موجود تھیں۔اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے دوران ایک اہم رکن نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو کہا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا سے احتجاجی ریلیاں پنجاب لانے سے گریز کریں کیونکہ ایسے سیاسی اقدامات سے بین الصوبائی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انصار عباسی کے مطابق علی امین گنڈاپور کو مشورہ دیا گیا کہ پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا سے مظاہرین لانے کی بجائے پنجاب میں اپنے کارکنوں کو سیاسی طور پر متحرک کرنا چاہئے۔ مریم نواز نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پر تنقید کرتے ہوئے احتجاجی ریلیوں کو جان و مال کے نقصان کا سبب قرار دیا اور کہا کہ ایسے احتجاج سے جان و مال کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مریم نواز کی گفتگو کے دوران علی امین گنڈا پور پرسکون انداز رہے اور پرسکون انداز میں جواب دیا اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے عمران خان کی قید اور کارکنوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کو ایجنڈے میں شامل کیا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک سال سے بغیر کسی جرم کے جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ ہمارا لیڈر جیل میں ہے، ہمارے کارکنوں کو تنگ کیا جا رہا ہے اور پنجاب میں ان پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک ایک ذریعے نے بتایا کہ مریم نواز کا لب و لہجہ ذرا جارحانہ تھا لیکن علی امین گنڈا پور نے عوامی تاثر کے برعکس پرسکون انداز سے جواب دیا۔ تاہم دونوں وزرائے اعلیٰ کے درمیان مزید کوئی بحث نہیں ہوئی۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا جب سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، اور ہر فیصلہ ملکی سیاست پر دور رس اثرات ڈال سکتا ہے۔ اجلاس کے دوران جو سب سے اہم بات نوٹ کی گئی وہ یہ تھی کہ وزیر داخلہ محسن نقوی اور گنڈا پور ساتھ ساتھ بیٹھے تھے جبکہ انکے پیچھے آئی جی اسلام آباد بیٹھے تھے،انصار عباسی کے مطابق یہ تصویر کسی پس پردہ مفاہمت کا عندیہ دیتی ہے۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور یا کمیٹی کے کسی اور رکن نے پی ٹی آئی اور حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی
ایک سو 90 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان نے 16 اہم شخصیات کو بطور گواہ طلب کرلیا، تفصیلات جاری عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ عمران خان کی قانونی ٹیم نے عدالت میں 16 اہم شخصیات کو بطور گواہ پیش کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔ ان شخصیات میں مختلف شعبوں سے وابستہ بااثر اور معتبر نام شامل ہیں، جن کے بیانات کیس کے حوالے سے کلیدی اہمیت کے حامل تصور کیے جا رہے ہیں۔ طلب کیے گئے افراد میں سابق سیکرٹری کابینہ ڈویژن احمد نواز سکھیرا، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر، اور چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پنجاب شامل ہیں، جنہیں القادر یونیورسٹی سے متعلقہ تمام ریکارڈ کے ہمراہ طلب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، مناف ضیاء الدین اینڈ کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کے سی ای او کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ مالیاتی امور سے متعلق تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کی جا سکیں۔ مزید برآں، اس فہرست میں متعدد سابق وفاقی سیکرٹریز بھی شامل ہیں، جن کے بیانات حکومت کے مختلف اقدامات اور پالیسیوں کے حوالے سے کیس کو واضح کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے یہ اقدام کیس میں دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ان شخصیات کے بیانات کیس کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ عدالت میں پیش رفت کے بعد مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔
لاہور: گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے تعلقات ہائی لیول پر کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو بھی مسلم لیگ ن کی قیادت سے شدید ناراض ہیں۔ اپنے ایک بیان میں گورنر پنجاب نے واضح کیا کہ ہر بار مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد پیپلزپارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی اب اس مخمصے کا شکار ہے کہ حکومت میں رہنا ہے یا نہیں، جس کا حتمی فیصلہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی مجبوری کے تحت مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت میں شامل ہے لیکن یہ دونوں الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں اور ان کے درمیان کوئی ٹھوس مفاہمت نہیں ہے۔ گورنر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنا سیاسی نقصان برداشت کر لیا، لیکن ملک کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ بلاول بھٹو کے تحفظات اور شریف فیملی کے متنازع بیانات چند روز قبل بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیپلزپارٹی کو مشاورتی عمل سے مکمل طور پر باہر رکھا جا رہا ہے اور طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ان بیانات کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکنان میں بھی غصہ بڑھ رہا ہے۔ ادھر شریف فیملی کے ترجمان کے حالیہ بیان نے تنازع کو مزید بڑھا دیا ہے۔ حسن نواز کے برطانیہ میں مبینہ دیوالیہ ہونے پر شریف خاندان نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں قیادت نے خاموش رہنے کی ہدایت دی ہے، ورنہ مسلم لیگ ن کے حوالے سے تمام راز افشا کر دیتے۔ یہ کشیدہ صورتحال دونوں جماعتوں کے اتحاد کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور آنے والے دنوں میں سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے۔
صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت، پی ٹی آئی اعلیٰ سطح رابطہ ہوا ہے اور ممکنہ بریک تھرو کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو 24 نومبر کا احتجاج ملتوی ہوسکتا ہے انکے مطابق کسی بھی ممکنہ بریک تھروُ کیلئے حکومت کی ایک اہم شخصیت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہائی لیول رابطہ ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، دونوں فریقین کے درمیان ابتدائی بات چیت مثبت رہی ہے، اور مذاکرات کے امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے شامل افراد کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، تاکہ حساسیت کو مدنظر رکھا جا سکے اور مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔اگر بات چیت کامیاب ہوتی ہے تو پی ٹی آئی اپنے مطالبات کے بدلے یقین دہانیوں پر احتجاج ختم کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ انصار عباسی کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں براہِ راست شامل نہ ہونے کے باوجود، حکومتی ٹیم کو اہم فیصلوں پر مقتدرہ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔اگر معاملات مثبت انداز میں آگے بڑھتے ہیں تو پی ٹی آئی اپنے مطالبات پورے کرنے کی کچھ یقین دہانیوں کے عوض 24؍ نومبر کے احتجاجی مارچ کی کال واپس لے سکتی ہے۔ منگل کو ہونے والی اپیکس کمیٹی کا اجلاس انتہائی اہم ہوگا، کیونکہ اس میں وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری قیادت شریک ہوں گے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجود تنازعات پر بات کریں گے، جو مذاکرات کے عمل کے آغاز میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں، تو پی ٹی آئی اپنے اعلان کے مطابق اسلام آباد میں بڑا احتجاجی مظاہرہ کر سکتی ہے، جو سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہ صورتحال پاکستان کی سیاسی سمت کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ مذاکرات کا آغاز اگرچہ ایک مثبت قدم ہوگا، لیکن فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی اور عملی نتائج حاصل کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری سلمان منصور نے صدر بار پر دفاتر کو ناجائز طور پر سیل کرنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ سلمان منصور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر سپریم کورٹ بار نے ٹیلیفون کے ذریعے احکامات جاری کرتے ہوئے تمام انتظامی افسران کو دفاتر خالی کرنے کا حکم دیا اور دفاتر کو سیل کروا دیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ صدر نے دفاتر اور تمام ریکارڈ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے، جو کہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بار کے قوانین کے مطابق دفتر اور اس کا ریکارڈ سیکرٹری کی تحویل میں ہوتا ہے، لیکن صدر کے اس اقدام سے انتظامی امور مفلوج ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر نے ہدایت دی ہے کہ سیکرٹری کے کسی بھی حکم کو نہ مانا جائے، نہ کوئی دستاویز سائن کی جائے اور نہ ہی کوئی سرکلر جاری ہو۔ سلمان منصور نے اس صورتحال کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ساکھ اور اس کے قوانین کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے معاملے کی شفاف تحقیقات اور دفتر کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

Back
Top