سیاسی

اسلام آباد: پنجاب پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حالیہ احتجاج کے دوران غیر حاضر رہنے والے اہلکاروں کی برطرفی کا فیصلہ کیا ہے۔ اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تمام زونز کو مراسلہ بھیج دیا گیا ہے، جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس حکم کے تحت ڈیوٹی سے غیر حاضر 128 اہلکاروں کی فہرست آج نیوز نے حاصل کی ہے۔ مراسلے کے مطابق، آئی جی اسلام آباد کی ہدایت پر حالیہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال میں غیر حاضر رہنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اس میں ایک انسپکٹر اور 127 دیگر اہلکار شامل ہیں، جنہوں نے جان بوجھ کر پی ٹی آئی کے احتجاج میں ڈیوٹی کرنے سے انکار کیا۔ اسلام آباد پولیس کی کارروائی کے تحت 24 نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج میں ڈیوٹی نہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں، آئی جی پولیس اسلام آباد کی ہدایت پر 3 دسمبر کو جاری کردہ سرکلر میں انضباطی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سرکلر کو مختلف اعلیٰ حکام جیسے ڈی آئی جی، اے آئی جی، اور دیگر متعلقہ عہدے داروں کو بھیجا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، 23 سے 26 نومبر تک غیر حاضر رہنے والے اہلکاروں کے خلاف دو روز کے اندر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جو پولیس اہلکار احتجاج کے دوران ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے کی کوشش کریں گے، ان کے لیے سخت سزائیں متوقع ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ احتجاج کے دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جس کے نتیجے میں متعدد افراد اور اہلکار زخمی ہوئے۔
وفاقی وزیرِ پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے روس سے خام تیل کی خریداری کے حوالے سے کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں کیا۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ روس کے ساتھ خام تیل کی کوئی ڈیل ہوئی ہے اور کہا کہ اس معاملے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ مصدق ملک نے مزید کہا کہ پاکستان ایل این جی کے حوالے سے بھی کسی اضافی کارگو کی خریداری نہیں کرے گا، کیونکہ انہیں ایچ این جی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ملک میں اس کی موجودگی اچھی خاصی ہے۔ انہوں نے ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے پہلے ہی 5 ایل این جی کارگوز مؤخر کر دیے ہیں اور مزید 5 کارگوز کو بھی مؤخر کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بجلی کے کارخانوں کے ایل این جی کی خریداری نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں گیس کی فراوانی کا سامنا ہے، اور مہنگی درآمدی گیس کی وجہ سے نجی شعبہ ایل این جی کی خریداری نہیں کر رہا۔ آخری طور پر، انہوں نے کہا کہ موسم سرما کے لیے گیس کے پلان پر کام جاری ہے جو چند دنوں میں مکمل ہو جائے گا، اور ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے کسی رعایت کی صورت میں فائدہ اٹھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
مریم نواز پہلے اپنی پارٹی میں کچرے کو صاف کریں سینیٹر فیصل واوڈا کا مریم نواز کو مشورہ محمد مالک کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کچرا ہے تو ہم آپکی بات مانتے ہیں، مگر آپ کیا ہیں؟آپ بھول گئے ماڈل ٹاؤن سانحہ؟ سپریم کورٹ پر حملہ آپ بھول گئے؟ نیب آفس پر پتھراؤ آپ بھول گئے؟ فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ پہلے آپ اپنے آپ سے شروع کریں، اپنے کچرے کو صاف کریں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس حکومت میں آٹا، چینی، دالوں اور دیگر چیزوں کا ریٹ کم ہوا؟ ڈالر کی قیمت نیچے آئی؟ سمگلنگ کم ہوئی؟ انویسیٹمنٹ آرہی ہے جو یہ حکومت نہیں چلارہی، ایس آئی ایف سی لارہی ہے اور ایس آئی ایف سی کو آرمی چیف لیڈ کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اور حکومت، آرمی چیف کی کامیابیوں سے پریشان ہیں، ملک میں جو کچھ اچھا ہورہا ہے اس کا کریڈٹ آرمی چیف کو جاتا ہے فیصل واوڈانے مزید کہا کہ حکومت نے ریاست اور پی ٹی آئی کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ حکومت ایسا اسلئے کررہی ہے کہ ہمارے آرمی چیف پاکستان کو پٹری پر لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر ملک آگے لانا ہے تو 2 طلاقیں دینا ہونگی، ایک طلاق ن لیگ کو اور ایک طلاق عمران خان دیں۔۔ صحافی کے سوال پر فیصل واوڈا نے وضاحت دی کہ میں سیاسی طلاق کی بات کررہا ہوں۔ فیصل واوڈا کے اس بیان پر فوادچوہدری نے ردعمل دیا کہ جب تک محسن نقوی وزیر داخلہ ہیں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا سامنا رہے گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ وزیر داخلہ وزیر اعظم کو جوابدہ نہ ہو لیکن الزام اسٹیبلشمنٹ پر نہ آئے، رانا ثنا اللہ نے کہا ہم اداروں کے ماتحت ہیں، یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ملک میں عدم استحکام ہے۔
گزشتہ روز عمران خان کے خلاف پولیس کی مدعیت میں رینجرز اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا جن کی ہلاکت ایک حادثے میں ہوئی۔۔صحافیوں کے مطابق یہ گاڑی سابق بیوروکریٹ کا پوتا چلا رہا تھا جو ذہنی طور پر نارمل نہیں تھا۔ پولیس حکام کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے کہنے پر نامعلوم ڈرائیور نےلینڈ کروزر رینجرز اہلکاروں پر چڑھا دی ، جس کے نتیجے میں تین اہلکار جاں بحق اور دو زخمی ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس کو خود نہیں معلوم کہ گاڑی کون چلا رہا تھا ۔جب پولیس کو ڈرائیور کا اتہ پتہ نہیں ، ڈرائیور کا کوئی اقبالی بیان نہیں، تو بہت سے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران سری نگر ہائی وے پر تیز رفتار گاڑی کی زد میں نیم فوجی دستے کے اہلکاروں کی ہلاکت کے سلسلے میں درج کیا گیا جبکہ اس مقدمے میں دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ یہ مقدمات رمنا پولیس اسٹیشن میں درج ہیں ، جس میں دفعہ 302 (قتل)، دفعہ 324 ( قتل کی کوشش ) اور دہشت گردی کے الزامات سمیت سیکشن 120 بی (مجرمانہ سازش کرنے) جیسی متعدد دفعات کو شامل کیا گیا ۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے سیل کردی ہے۔ سیل ایف آئی آر کا مطلب ہے کہ "حسب ضرورت" مقدمے کو دوبارہ کھولا جاسکتا ہے او رکاروائی کی جاسکتی ہے۔اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے رینجرز اہلکاروں کی شہادت کی ایف آئی آر سیل ہے، سیل ایف آئی آر کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو پر 1974 میں قتل کی ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی جسے بعد ازاں سیل کردیا گیا تھا اور پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد اس ایف آئی آر کو دوبارہ کھولاگیا اور بھٹو کو انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو پر احمد رضا قصوری کےو الد کے قتل کا الزام تھا جس پر انہیں سزائے موت ہوئی جسے آج عدالت کے ماتھے پر بدترین دھبہ قرار دیا جارہا ہے۔ تقریبا 50 سال بعد عمران خان دوسرے وزیراعظم بن گئے ہیں جن پر قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے جبکہ اس سے قبل ایک قتل کا مقدمہ بلوچستان میں بھی ایک وکیل کے قتل کا درج ہے۔ یادرہے کہ عمران خان جو پہلے ہی مختلف مقدمات کے سلسلے میں کئی ماہ سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں،ان پر دہشتگردی، کرپشن، توشہ خانہ چوری، اختیارات سے تجاوز، دفعہ 144، املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس کی وردیاں پھاڑنے، نومئی سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان پر درج مقدمات سینکڑوں میں ہیں، صرف وفاقی دارالحکومت میں عمران خان کے خلاف 62 مقدمات درج ہیں۔
سینیئر صحافی منصور علی خان نے کہا ایک کبوتر نے اُن سے رابطہ کیا جس کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، اور کہا کہ ایک عدد آڈیو ہے جس کو وہ آپ سے شیئر کرنا چاہتے ہیں، اور بتایا کہ وہ آڈیو مبینہ طور پر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ہے جس میں سینیئرصحافی عمران ریاض اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرمہرشرافت کو گالیاں دی گئیں ہیں۔ مزید تفصیلات بتاتے ہوئے منصور علی خان نے کہا کہ یہ ویڈیو اصلی ہے اور آواز علی امین گنڈاپور کی ہے جو صحافی اور وی لاگر عمران ریاض کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور مہر شرافت کو بھی گالیاں دے رہے ہیں۔ منصور علی خان نے اسکی وجہ یہ بتائی کہ جس روز بشریٰ بی بی کا قافلے احتجاج کی جگہ پہنچا تب علی امین گنڈا پور پیچھے تھے اور آگے نہیں بڑھ رہے تھے جس پر مہرشرافت کے ساتھ آئے کارکنوں کا پارہ ہائی ہورہا تھا کہ ہم آگے کیوں نہیں جارہے؟اس موقع پر کچھ کارکنوں نےعلی امین کو غدار بھی کہا، یہ ساری گفتگو آڈیو میں موجود ہے۔ جس پر علی امین گنڈا پور سیخ پا ہوگئے اور مہرشرافت کو کال کی، جس کے آغاز میں ہی وہ صحافی عمران ریاض کو گالیاں دیتے ہیں انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ منصور علی خان کے مطابق انہوں نے تصدیق کیلئے مہر شرافت سے بھی رابطہ کیا اور ان سے استفسار کیا کہ یہ ویڈیو اصل ہے؟ جس پر مہر شرافت نے تصدیق کی۔۔ منصور علی خان کے مطابق اسکے تمام ثبوت انکے پاس ہیں۔ اس لیکڈ کال کے دوران علی امین گنڈا پور مہرشرافت سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاو اس وقت ہو کہاں ؟ جواب میں مہرشرافت نے کہا وہ اپنے گھر ہیں، علی امین نے کہا سخت لہجہ اپناتے کہا تم رہو گھر میں دیکھتا ہوں۔ مہرشرافت نے بھی غصے کا اظہار کرتے کہا کیا تم مجھے گولی مار لو گے؟ 5 سو بندے کو تم نےمروا دیا ادھر کیوں نہیں چلائی گولی؟ منصور علی خان کے مطابق انہیں معلوم ہوا ہے کہ عمران ریاض خیبرپختونخوا میں شفٹ ہوچکے ہیں اور اگر اگر وہاں کا وزیراعلیٰ عمران ریاض کے بارے ایسے خیالات رکھتا ہے تو یہ ایک جھٹکا دینے والی چیز ہے۔ انہون نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحافی عمران ریاض اور مہرشرافت کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی فوڈ سکیورٹی نے پنجاب کے کسانوں کے لیے ٹریکٹر اسکیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید حسین طارق کی زیرصدارت ہوا، جہاں اراکین نے اس اسکیم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس کے دوران، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر کسانوں کو گندم کی مناسب قیمت نہیں ملی تو وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کس طرح کریں گے، اور اس صورت میں انہیں اپنے ٹریکٹر بھی بیچنے پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکیمیں دینے کے بجائے کسانوں کو فصل کی اچھی قیمت فراہم کرنی چاہیے۔ اراکین کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ اس بار گندم کی کاشت بڑھانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے، جس کے نتیجے میں کسانوں نے گندم کی کاشت کم کر دی۔ رکن کمیٹی محمد معین نے بتایا کہ اگر کسانوں نے گندم کی کاشت کو کم کیا تو ملک کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی نے کہا کہ گزشتہ سال کسانوں کو گندم سے فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے کاشت کم ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق گندم کی سپورٹ پرائس فکس نہیں کی جا سکتی، جو کہ کسانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے بتایا کہ اس بار کسانوں نے صرف اپنی ضرورت کی گندم کاشت کی ہے، اور کسان کارڈ کے ذریعے قرض لے کر گندم کی کاشت کی گئی ہے۔ اجلاس میں کپاس کے بحران کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، جہاں سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی نے اگلے سال کپاس کی کاشت بڑھانے کے لیے کوششوں کا ذکر کیا۔ پنجاب فوڈ حکام نے بتایا کہ وہ کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس وقت پنجاب میں کپاس کا اوسط پیداوار 15 من فی ایکڑ ہے۔ پنجاب میں گندم کی گزشتہ پیداوار 24 ملین ٹن سے زیادہ تھی، اور اس بار گندم کی پیداوار کا ہدف 16.5 ملین ٹن رکھا گیا ہے۔ یہ اجلاس کسانوں کی فلاح و بہبود اور ملکی خود کفالت کے لیے اہم فیصلوں کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا، جس میں کسانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جامع اقدامات کیے جائیں گے۔ اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے تعاون سے دہشت گرد گروہوں کے آن لائن اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ، نیکٹا اور صوبوں کے مابین کوآرڈینیشن کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا گیا۔ اجلاس میں فراہم کردہ بریفنگ کے مطابق، رواں برس اکتوبر تک 7,984 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران 206 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ محسن نقوی نے یہ بات بھی بنیادی اہمیت کی حامل سمجھی کہ صوبوں میں غیر قانونی سمز کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔ وزیر داخلہ نے آئندہ اجلاس میں پی ٹی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام کو موثر اقدامات پیش کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت قرار دیا اور دونوں صوبوں میں انسداد دہشت گردی فورس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ یہ اقدامات حکومت کی جانب سے سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے اور عوام کی حفاظت کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
پشاور: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنی تعلیمی مشکلات اور تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے لیے تعلیمی ڈگری حاصل کرنا آسان نہیں تھا، اور وہ اپنی ایف آئی آرز کو اپنی ڈگریوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے اپنی تعلیمی زندگی کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ پارٹی پالیٹکس میں لڑائی کی ابتدا نہیں کی۔ انہوں نے اپنی اسکول کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لمبے بال اور بڑی جسمانی ساخت کی وجہ سے انہیں اسکول سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) میں داخلہ لیا، تاہم وہاں بھی ایک سال بعد انہیں کہا گیا کہ وہ اس ماحول کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ بعد ازاں، وہ پاکستان اسکول آف فیشن ڈیزائننگ میں گئے، جہاں دو سال بعد ایک بار پھر انہیں جانے کا کہا گیا۔ علی امین گنڈاپور نے اس تجربے کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آخر کار یہ سوچا کہ تعلیم ان کے بس کی بات نہیں ہے اور اس کے بجائے انہوں نے اپنی توانائیاں دیگر میدانوں میں لگائیں۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر ایف آئی آرز کو ڈگریوں کے طور پر لیا، یہ کہتے ہوئے کہ ان پر 256 سے زیادہ ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ صوبے کی خراب صورتحال کے پیچھے غلط پالیسیوں کا ہاتھ ہے، اور عوام و فورسز نے امن کے قیام کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔ انہوں نے نوجوان نسل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ گنڈاپور نے طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ ہر جگہ اپنی کوششیں جاری رکھیں، اپنی ڈگریوں کے ساتھ دنیا میں کامیابی حاصل کریں، اور اپنے والدین و اساتذہ کی عزت کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نجی سیکٹر کے تعاون کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی، اور نوجوانوں کو زندگی میں مقابلہ کرنے کی اہمیت سکھانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض کی دوسری قسط کے حصول کے لیے 7 صفحات پر مشتمل شرائط نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔ تاہم، کئی شرائط کو تاحال پورا نہیں کیا جا سکا۔ تفصیلات کے مطابق، نئے قرض پروگرام کی دوسری قسط وصول کرنے سے قبل آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کی ہیں، جن میں سے بیشتر پر عمل درآمد جاری ہے، لیکن بعض شرطیں ابھی بھی باقی ہیں۔ ان شرائط کو فروری 2025 سے قبل یقینی بنانا ہوگا۔ دستاویز کے مطابق، نیٹ ٹیکس ریونیو، تعلیم اور صحت کے اخراجات کے لیے طے شدہ اہداف کا حصول ابھی باقی ہے۔ آئی ایم ایف نے 39 میں سے 22 اسٹرکچرل بینچ مارک پر جولائی 2025 تک عملدرآمد کی شرط رکھی ہے۔ ان میں سے 18 بینچ مارک وفاق سے متعلق جبکہ 4 مرکزی بینک سے متعلق ہیں۔ مزید برآں، وفاقی حکومت کو گورننس اور کرپشن سے متعلق رپورٹ جاری کرنے کی پابندی کی گئی ہے اور مارچ 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر کو 3 ماہ کے درآمدی بل کے برابر لانے کی شرط بھی شامل ہے۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو پبلک فنانس، رائٹ سائزنگ اور محصولات کے ہدف کے مطابق پورا کرنا ہوگا۔ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ کرنسی سوئپ کا حجم 2.75 ارب ڈالر سے زائد نہیں ہونا بھی ان شرائط میں شامل ہے۔ آخری طور پر، حکومت کو مرکزی بینک سے کوئی قرضہ نہیں لینے کی شرط کی پاسداری کرنی ہوگی اور ایف بی آر کو رواں مالی سال 12 ہزار 913 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا ہوگا۔ یہ شرائط حکومت کے لیے چلینج ہیں اور ان پر عمل درآمد میں پیش رفت کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے دوران غیر حاضر رہنے والے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مصادر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، اس کارروائی میں ایک انسپیکٹر سمیت تقریباً 50 اہلکار شامل ہیں جنہوں نے احتجاج میں ڈیوٹی کرنے سے انکار کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران ڈیوٹی دینے سے معذرت کر لی تھی، جس پر اب ان کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی سے غیر حاضری کسی صورت قابل قبول نہیں، اس وجہ سے ان اہلکاروں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت آئندہ احتجاجی سرگرمیوں کے دوران کسی بھی قسم کی غیر حاضری یا سستی برداشت نہیں کرے گی، اور پولیس کے اہلکاروں کو اپنے فرائض کی اہمیت کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔
مظفرآباد: آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے متنازعہ صدارتی آرڈیننس کو معطل کر دیا ہے۔ چیف جسٹس راجہ سعید اکرم کی سربراہی میں جسٹس خواجہ نسیم اور جسٹس رضاعلی خان پر مشتمل فل کورٹ نے بار کونسل اور سینٹرل بار کے وکلا کی جانب سے دائر کردہ اپیلوں کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل راجہ سجاد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ آرڈیننس آئین کے خلاف ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین ہر ریاستی شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے، جبکہ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے صرف سیاسی جماعتوں کو احتجاج کرنے کی اجازت دی ہے، جو کہ آئینی اصولوں کے متصادم ہے۔ فل کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد صدارتی آرڈیننس کو اپیل کے فیصلہ تک معطل کرنے کا حکم جاری کیا، اور بار کونسل اور سول سوسائٹی کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر حکومت کو اس آرڈیننس پر عملدرآمد روکنے کی ہدایت کی۔ یاد رہے کہ متنازعہ صدارتی آرڈیننس کے تحت کسی بھی احتجاج یا جلسہ جلوس کے لیے ڈسٹرکٹ کمشنر سے ایک ہفتہ قبل اجازت لینا ضروری تھا، جبکہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کو احتجاج کے لیے درخواست دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ عوامی ایکشن کمیٹی 5 دسمبر کو پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دے چکی ہے، اور آزاد کشمیر کی تمام بار ایسوسی ایشنز اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس متنازعہ آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر نئی شرط عائد کردی گئی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک نئی شرط عائد کی ہے، جس کے تحت انہیں اپنی غیر مقیم حیثیت کی تصدیق کے لیے متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو سے منظوری حاصل کرنا ہوگی۔ یہ اقدام غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر "فائلرز" کے ٹیکس ریٹس لاگو کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق، ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 236 سی اور سیکشن 236 کے تحت ودہولڈنگ ٹیکس چالان کے اجرا کے لیے قانونی وضاحت جاری کی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے ماہر محمد احسن ملک کے مطابق، یہ شق پہلے ہی ایف بی آر کے قوانین میں موجود تھی اور اب اسے مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے اچانک نان ریزیڈنٹ کیٹیگری کا خاتمہ کیا ہے اور اس کی جگہ لیٹ فائلرز کی نئی کیٹیگری متعارف کرائی ہے۔ ماہرین نے اس تبدیلی کیوجہ سے مختلف فورمز پر حکومت سے اپیل کی ہے، لیکن کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا جا سکا۔ فنانس ایکٹ 2022 کے تحت، کچھ غیر مقیم پاکستانیوں کو انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، جس کے باعث وہ ایکٹو ٹیکس پیئرز کی فہرست میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انہیں آرڈیننس کے دسویں شیڈول کے قاعدہ 1 کے تحت مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایف بی آر نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) یا نیشنل آئی ڈی کارڈ برائے اوورسیز پاکستانی (این آئی سی او پی) رکھنے والوں کے لیے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اُن پر سیکشن 100 بی اے اور دسویں شیڈول کے قاعدہ 1 کی دفعات لاگو نہیں ہوں گی۔ احسن ملک نے اس نئی شرط پر تنقید کی اور کہا کہ ایف بی آر نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے کوئی حقیقی سہولت مہیا نہیں کی بلکہ ایک اور شرط عائد کر دی ہے۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا غیر منقولہ جائیداد کی لین دین پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی ادائیگی کے وقت غیر المقیم پاکستانیوں کو نان فائلر سمجھا جائے گا؟ احسن ملک نے یہ بھی پوچھا کہ پرانے نظام میں کیا مسئلہ تھا جسے حل کرنے کے لیے اب یہ تبدیلی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری کی شرط بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پہلے سے ہی دستیاب استثنیٰ کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کسی قسم کی نئی رعایت فراہم کی گئی ہے۔ یہ صورتحال فی الحال غیر مقیم پاکستانیوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اور ان کی شکایات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سندھ کے محکمہ کالج ایجوکیشن میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ سندھ کے محکمہ کالج ایجوکیشن میں بے ضابطگیوں کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے، جس میں سیکریٹری کالج ایجوکیشن پر 2 کروڑ 25 لاکھ روپے کی تنخواہوں میں بے قاعدگی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ انکشاف آڈٹ رپورٹ کے ذریعے سامنے آیا ہے، جسے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ارسال کیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق، کراچی کے مختلف کالجز کے پرنسپلز اور سیکریٹری کالج ایجوکیشنز اس بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تین کالج کے پرنسپلز نے مجموعی طور پر 30 لاکھ روپے کی من مانی خریداری کی، جس میں انہیں بغیر کوٹیشن کے چیزیں خریدنے کی اجازت دی گئی۔ اسی رپورٹ کے مطابق، گورنمنٹ کالج فار وومن شاہراہ لیاقت نے جعلی تنخواہیں جاری کیں اور دیگر صوبوں کے شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کو 47 لاکھ روپے ادا کیے۔ آڈیوٹر جنرل کی رپورٹ میں 2020 سے 2022 کے درمیان ہونے والی بدعنوانیوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ، سیکریٹری کالج نے ایک کروڑ 10 لاکھ روپے سینکشن پوسٹوں کے علاوہ ادا کیے، اور اعزازیوں کے مد میں 72 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کیڈٹ کالج خیرپور میں تکنیکی سینٹر کی تعمیر پر ایک ارب 22 کروڑ 90 لاکھ روپے خرچ کیے گئے، جو کہ خلاف ضابطہ ہے۔ مزید برآں، سیکریٹری کالجز اور مختلف کالجوں کی جانب سے بغیر ٹینڈر کے 5 کروڑ 20 لاکھ روپے کی خریداری بھی کی گئی۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ سندھ کے محکمہ کالج ایجوکیشن میں مالی بے قاعدگیاں ایک سنگین مسئلہ ہیں، جو کہ فوری تحقیقات اور احتساب کا متقاضی ہیں۔ محکمہ کے حکام کی جانب سے اس معاملے پر مؤثر کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول ڈاکیارڈ کراچی پر حملے میں موت کی سزا پانے والے 5 نیول اہلکاروں کے وکلاء کو ریکارڈ تک رسائی فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول ڈاکیارڈ کراچی پر حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے پانچ پاک بحریہ کے اہلکاروں کی دستاویزات کے حصول کی درخواست پر ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان نیوی کو ہدایت کی ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل کو انکوائری رپورٹ کے متعلقہ ریکارڈ تک رسائی فراہم کی جائے۔ یہ رسائی 9 دسمبر کو صبح 10 بجے کے وقت دی جائے گی۔ ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی زیر صدارت ہونے والی سماعت کے دوران پاک بحریہ کے حکام نے عدالت میں موقف اپنایا کہ انہوں نے trial کے دوران تمام متعلقہ دستاویزات فراہم کر دی تھیں، تاہم مکمل "بورڈ آف انکوائری رپورٹ" قومی سلامتی کے حوالے سے انتہائی حساس اور اہم ہونے کی وجہ سے فراہم نہیں کر سکتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمان سے متعلقہ ریکارڈ کے کچھ حصے تک وکیل کو رسائی دی جا سکتی ہے، اور نیول ہیڈکوارٹرز میں وہ ریکارڈ موجود ہے جس کا وکیل نوٹس لے سکتے ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ وکیل کو دستاویزات تک رسائی دی گئی ہے اور انہیں نوٹس لینے کے لیے مناسب وقت بھی فراہم کیا جائے۔ عدالت عالیہ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ اگر نیول حکام چاہتے ہیں کہ وہ انکوائری رپورٹ دیکھیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ نیول حکام کے اس بیان پر کہ وہ قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات نہیں دکھا سکتے ہیں، عدالت نے موقف اپنایا کہ مجرموں کا متعلقہ ریکارڈ دکھایا جا سکتا ہے۔ کیس کا پس منظر: یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاک بحریہ کے پانچ سابق افسران - ارسلان نذیر ستی، محمد حماد، محمد طاہر رشید، حماد احمد خان اور عرفان اللہ - کو نیول ڈاکیارڈ کراچی پر حملے کے الزام میں کورٹ مارشل کے دوران سزائے موت سنائی گئی تھی، جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت نے سماعت کے بعد کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی، اور 9 دسمبر کی تاریخ مقرر کی تاکہ درخواست گزاروں کے وکیل کو ریلیونٹ مواد تک رسائی حاصل ہو سکے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بانی پی ٹی آئی کے وکلاء کو ملاقات کی اجازت نہ دینے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ اس دوران عدالت نے متعلقہ حکام کے خلاف ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے سی پی او، ایس ایس پی اور نیو ٹاؤن کے تفتیشی افسر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ عدالت نے تینوں افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ کل تک اپنا جواب جمع کرائیں تاکہ اس معاملے کی مزید تحقیق کی جا سکے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عدالت انتہائی سنجیدگی سے وکلاء کے حقوق اور قانونی پروسیس کا احترام کرنے کے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ عدالت کا یہ اقدام اس طرح کے معاملات میں وکلاء کی حیثیت و حقوق کی حفاظت کے لیے ایک قدم ہے، اور اس پر قانونی حلقوں میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ اس کیس کی تفصیلات کا انتظار ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ حکام عدالت کے نوٹس کا کیا جواب دیتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے ملک بھر میں 446 یوٹیلٹی اسٹورز بند کر دیے گئے ہیں، اور مزید 500 اسٹورز کو بند کرنے کا بھی منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ ملک میں بڑھتے ہوئے اخراجات میں کمی لانے کے لیے کیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، وفاقی حکومت کی جانب سے سبسڈی کے خاتمے کے بعد یہ یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے گئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر دیہی علاقوں میں واقع ہیں۔ ان اسٹورز کی بندش سے کسی بھی ملازم کو نوکری سے نکالنے کا عندیہ نہیں دیا گیا، تاہم یہ اسٹورز بند کیے گئے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کم اور نقصان زیادہ تھا۔ ملک کے دیہی علاقوں میں قائم یوٹیلیٹی اسٹورز کی بندش کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس سال اگست میں سبسڈی کے خاتمے کے بعد سے کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت اس سے قبل چینی، آٹا اور گھی سمیت 5 بنیادی اشیا پر سبسڈی فراہم کر رہی تھی۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، جو کہ 1971 میں قائم کی گئی تھی، ملک بھر میں تقریباً 4000 اسٹورز چلاتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد عوام کو رعایتی نرخوں پر بنیادی ضروریات کی اشیا فراہم کرنا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں 16 اگست کو کمیٹی کی سفارشات کے تحت 5 وزارتوں کے 28 محکموں، جن میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن بھی شامل ہے، کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ ریاستی مشینری کو موثر بنایا جا سکے اور انتظامی اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔
صدر ایکس سروس مین سوسائٹی لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کا دہشت گردی کے خلاف فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ 9 مئی واقعات میں سزا کا علم تیز ہونا چاہیے۔ راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران، صدر پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔ انہوں نے 9 مئی کے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، انہیں فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔ ایک اہم بیان میں، عبدالقیوم نے کہا کہ "آئین کی حدود و قیود کے اندر رہ کر قانون کی عملداری کو بڑھانا چاہیے۔" انہوں نے فارم 47 کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوالات اٹھائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "دہشت گردوں کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ ہم کرم میں بے گناہ لوگوں کی جانوں کے ضیاع کی مذمت کرتے ہیں، جہاں خونریزی گورننس کی ناکامی کی علامت ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کو فوری عمل کرنا ہوگا، کیونکہ دشمن صوبائیت اور لسانیت کو ہوا دے رہا ہے۔" لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ "سیاسی افراتفری کی وجہ سے کئی فوجی اور سویلین افراد جاں بحق ہوئے۔ ہم قانون کو ہاتھ میں لے کر زبردستی اپنا ایجنڈا منوانے کی حمایت نہیں کرتے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال تسلی بخش ہے، لیکن اس کے لیے امن کی ضرورت ہے۔" انہوں نے کہا کہ "ملک کے باہر بیٹھے ان ڈیجیٹل دہشت گردوں کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانا ضروری ہے تاکہ ان کے پیچھے چھپے چہروں کا پردہ فاش کیا جا سکے۔" کنٹینر والا ٹک ٹاکر تھا، مس انفارمیشن تھی، نوجوانوں کے دماغوں میں پروپیگنڈا بھرا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ پرس کانفرنس کے دوران، انہوں نے فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق کے حصول پر بھی زور دیا اور کہا کہ "بھارت کی کشمیر میں بربریت اور اسرائیل کی فلسطین اور لبنان میں مظالم کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔" صدر ایکس سروس مین سوسائٹی نے کہا کہ "ہم سیاسی جماعتوں پر پابندی نہیں لگانا چاہتے، لیکن انہیں پرامن رہنے کی ضرورت ہے۔ گورنر راج آئین کا حصہ ہے، لیکن اس کی نوبت نہ آنے دی جائے۔" آخری میں، انہوں نےکہا کہ "ہمیں آپس میں لڑ کر اپنی جانیں ضائع نہیں کرنی چاہئیں، بلکہ دہشت گردوں اور خوارج کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ ہر سیاسی جماعت اور عوام کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔" اس طرح لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے تمام متعلقہ فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے کی تلقین کی۔
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نے وضاحت کی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) کی بندش کا مقصد اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنا نہیں ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی ہدایات کی روشنی میں ایکس کو بند کیا گیا ہے، کیونکہ پاکستان میں اس پلیٹ فارم کے استعمال کی شرح صرف 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ شزا فاطمہ نے زور دے کر کہا کہ "ایکس کی بندش کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اظہار رائے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ملک میں یومیہ سائبر حملے ہوتے ہیں، جبکہ سائبر سیکیورٹی ایک اہم ضرورت ہے۔ ہم یوٹیوب، فیس بک اور دیگر تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اظہار رائے کی آزادی کے حق میں ہیں، مگر جہاں سیکیورٹی کا سوال درپیش ہو، وہاں وزارت داخلہ پی ٹی اے کو ہدایات دیتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں انڈسٹری کے لئے براڈبینڈ سروسز فعال ہیں اور حکومت نے ان کی بندش نہیں کی۔ شزا فاطمہ نے یقین دلایا کہ ملک بھر میں ڈیٹا سروسز مکمل طور پر فعال ہیں اور تمام ایپس سو فیصد درست طور پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "موبائل ٹاورز کی تعداد پاکستان میں ضرورت سے کم ہے، مگر ہم اس کی بہتری کے لئے کوشاں ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت رواں سال آئی ٹی انڈسٹری میں بے پناہ ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔" یاد رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کی سست روی نے صارفین کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی سوشل میڈیا سروسز متاثر ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے خود پر ہونے والی تنقید کے باعث دیا گیا استعفیٰ واپس لے لیا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق سلمان اکرم راجہ نے یہ استعفیٰ اس خوف کے تحت دیا تھا کہ حالیہ احتجاج میں ناکامی کی ذمہ داری ان پر نہ ڈالی جائے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے مرکزی قیادت کو احتجاج کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا، جس کے بعد سلمان اکرم راجہ نے فیصلہ کیا کہ انہیں اپنی حیثیت برقرار رکھنی چاہیے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سلمان اکرم راجہ کو حالیہ احتجاج میں سرگرم کردار ادا نہ کرنے پر سخت تنقید کا سامنا تھا۔ یاد رہے کہ عمران خان نے ستمبر میں سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا تھا، اور ان کا استعفیٰ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں ایک اہم موڑ تھا۔ اب جب انہوں نے اپنی استعفیٰ واپس لے لیا ہے تو یہ فیصلہ پارٹی میں مزید استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے اعلان کیا ہے کہ ریاست نے تشدد اور انتشار کی کسی بھی سیاست کی اجازت نہ دینے کا عزم کیا ہے۔ حالیہ پرتشدد احتجاج میں شریک شرپسندوں کا "اسپیڈی ٹرائل" کیا جائے گا اور انہیں سخت سزائیں دی جائیں گی تاکہ آئندہ کے لیے ایک مثال قائم کی جا سکے۔ راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ملک کے معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، مہنگائی کی شرح 32 فیصد سے گھٹ کر 6.6 فیصد تک آ گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا، تو شرپسند عناصر پھر سے سڑکوں پر آ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ یورپ نے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے فلائٹ آپریشنز سے پابندی اٹھالی ہے، جو پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ وزیر نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت ملک کی ترقی کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حال ہی میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے وفود نے پاکستان کا دورہ کیا، جس نے ملک کے بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کی عکاسی کی۔ عطا اللہ تارڑ نے پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے الزامات کا رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کسی بھی مظاہرین کی ہلاکت کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے پیش کردہ متضاد اعداد و شمار کو نظر انداز کرتے ہوئے پمز اور پولی کلینک ہسپتالوں کے دعوے کے مطابق کوئی لاش نہیں لائی گئی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حالیہ احتجاج کے دوران جو تشدد ہوا اُس کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے سماجی میڈیا پر گمراہ کن معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے پاس مظاہرین کی جانب سے پولیس پر کی جانے والی فائرنگ کے ثبوت موجود ہیں اور ان کا منفی پروپیگنڈا بے بنیاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے جو سوشل میڈیا پر موجود تصاویر اور ویڈیوز کی حقیقت کو جانچنے کے لیے کام کرے گا۔ اس کا مقصد جھوٹی معلومات کا پتہ لگانا اور عوامی شعور کو بڑھانا ہے۔ عطا اللہ تارڑ نے آخر میں کہا کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔ انہوں نے شرپسند عناصر کو متنبہ کیا کہ کسی بھی طرح کے تشدد کی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

Back
Top