پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اظہر مشہوانی نے بدنیتی پر مبنی سوشل میڈیا مہم چلانے کے الزام میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے نوٹس پرردعمل دیدیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے سربراہ آئی جی علی ناصر رضوی کی قیادت میں بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی مہم چلانے کے الزام میں کئی افراد کو طلب کیا ہے، جن میں اظہر مشہوانی کا نام بھی شامل ہے۔
اظہر مشہوانی نے اس طلبی پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا, "آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی وہی شخص ہے جس کی زیرنگرانی 9 مئی کا لاہور واقعہ پیش آیا تھا، اور محسن نقوی نے اسے اسلام آباد میں لا کر یہاں 26 نومبر کے واقعے کی نگرانی بھی سونپی"۔
انہوں نے مزید کہا, "میں اس غیر قانونی جے آئی ٹی کا جواب پہلے ہی دے چکا ہوں۔ یہ وہی شخص ہے جو پنجاب حکومت سے اپنی آنکھ کے آپریشن کے لیے پانچ کروڑ روپے وصول کر چکا ہے۔ ایسے کرپٹ اور مشکوک افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے"۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اظہر مشہوانی، صبغت اللہ ورک، محمد ارشد، عطاالرحمن، کومل آفریدی، عروسہ ندیم شاہ اور ایم علی ملک سمیت دیگر ملزمان کو بھی 13 دسمبر کو طلب کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی مہم کے ذریعے پاکستان میں افراتفری اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔
وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 کے تحت اس جے آئی ٹی کی تشکیل کی ہے، جس کا مقصد سوشل میڈیا پر جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے۔
جے آئی ٹی کے پاس شواہد موجود ہیں کہ ملزمان نے سوشل میڈیا کو پروپیگنڈا کے لیے استعمال کیا اور ملک میں بدامنی کو ہوا دی۔ ٹیم اس معاملے کے پیچھے کارفرما عزائم کی تحقیقات کر رہی ہے اور مزید ملزمان کی شناخت کے لیے کام کر رہی ہے۔ جے آئی ٹی نے قانونی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔