سیاسی

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قانونی دستاویزات کے حامل غیر ملکیوں کو اسلام آباد سے نہیں نکالا جائے گا، البتہ غیر قانونی طور پر وفاقی دارالحکومت میں مقیم غیر ملکیوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب امریکی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر نے ان سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے ملاقات میں پاک-امریکا تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور دو طرفہ تعاون بڑھانے پر تفصیلی گفتگو کی۔ بیکر نے اسلام آباد میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا۔ ملاقات کے دوران آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے کامیاب انعقاد کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی، جس پر نیٹلی بیکر نے پاکستان میں ہونے والے ایونٹ کی کامیابی کے لیے نیک کا اظہار کیا۔ محسن نقوی نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی طرز پر جدید خطوط پر استوار کیا جائے، جس کے لیے امریکا کے تعاون کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ انہوں نے امریکی نیشنل فرانزک ایجنسی کے تعاون پر زور دیا، تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادکار میں اضافہ ہو سکے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے سول آرمڈ فورسز کو جدید سامان کی فراہمی اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسری جانب، امریکی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر نے اس بات پر زور دیا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بیگج اسکیم کے تحت بیرون ممالک سے پاکستان آنے والے مسافروں پر کمرشل مقدار میں اشیا لانے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجوزہ قواعد کے تحت، 1200 ڈالر سے زائد مالیت کی اشیا کو کمرشل ٹریڈنگ تصور کیا جائے گا۔ ایف بی آر نے بیگج رولز 2006 میں ترامیم کا مسودہ تیار کر کے اسٹیک ہولڈرز سے آراء کے لیے جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ مجوزہ رولز پر آراء و تجاویز سات دن کے اندر دی جا سکتی ہیں، اور اس کے بعد موصول ہونے والی تجاویز قبول نہیں کی جائیں گی۔ اگر مقررہ معیانتک کوئی آراء یا تجاویز موصول نہ ہوں تو مجوزہ قواعد کو گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کر دیا جائے گا۔ نوآبادیاتی اسکیم کے تحت بیرون ممالک سے آنے والے افراد کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے صرف ایک موبائل فون ساتھ لانے کی اجازت ہوگی۔ مزید یہ کہ، ایک فون کے علاوہ جو بھی موبائل فون ساتھ لایا جائے گا، وہ ضبط کر لیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، اگر کوئی مسافر 1200 ڈالر سے زائد مالیت کی اشیا ساتھ لاتا ہے، تو ان کی اشیا ڈیوٹی، ٹیکس، اور جرمانوں کی ادائیگی کے بغیر کلیئر نہیں کی جائیں گی۔ ایف بی آر کی اس نئی پابندی کا مقصد کمرشل ٹریڈنگ کو کنٹرول کرنا اور ریونیو کے بہتر حصول کو یقینی بنانا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مسافروں کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ وہ صرف اپنے ذاتی استعمال کی حد تک اشیا لائیں، بصورت دیگر ان کی چیزیں ضبط کی جا سکتی ہیں۔
کراچی میں ایف آئی اے نے ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے شہری کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت پہلا مقدمہ درج کر لیا۔ کراچی کے دارالحکومت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانے کے الزام میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت پہلا مقدمہ درج کیا ہے۔ ڈرڈ خبریں کے مطابق، یہ مقدمہ گلشن اقبال، بلاک ون میٹروول کے رہائشی سیف الرحمن کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے مقدمے کے متن میں کہا ہے کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ سیف الرحمن کے نام سے ایک فیس بک اکاؤنٹ ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلا رہا ہے اور ریاست کے خلاف نازیبا زبان استعمال کر رہا ہے۔ مشتبہ فیس بک اکاؤنٹ کی تکنیکی بنیادوں پر انکوائری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ اکاؤنٹ فعال ہے اور ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم مانیٹرنگ سیل کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ مانیٹرنگ سیل نے گزشتہ ایک مہینے میں ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹس کی فہرست تیار کی، جس میں 39 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان میں سے ایک صارف کو واچ لسٹ میں شامل کر کے اس کے اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کی گئیں، جو کہ کراچی سے آپریٹ ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ، یکم دسمبر کو وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی روک تھام کے لیے پیکا قانون میں مزید ترمیم کا فیصلہ کیا تھا، جس کا ابتدائی ڈرافٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر، اس قانون کی ترامیم کے تحت، ملکی اداروں اور کسی بھی فرد کے خلاف غلط خبر پھیلانے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ حکومتی مسودے کے مطابق فیک نیوز کی سزا کا تعین ایک ٹربیونل کرے گا، اور حکومت کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک اور ختم کرنے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔ حکومت نے 6 دسمبر کو ملک دشمن پروپیگنڈے میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت اس طرح کے معاملات پر سخت اقدامات متوقع ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے انصاف کی جلد فراہمی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے دور دراز اضلاع کا دورہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے انصاف کی جلد فراہمی اور عدلیہ کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں دور دراز اضلاع کے ذاتی دورے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ضلعی عدلیہ میں بہتری لانا اور موجودہ مسائل کا فوری حل نکالنا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیہ کے مطابق، چیف جسٹس نے گوادر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے تربت، پنجگور، اور چاغی سمیت دیگر اضلاع کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں چیف جسٹس نے ان مسائل کا حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جو ضلعی عدلیہ کو درپیش ہیں۔ اعلامیہ میں یہ بھی شامل ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالتی افسران کے وقار کو مقدم رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک بھر کی عدلیہ کا وقار مجروح نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے دور دراز کی عدلیہ کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ متعلقہ ہائی کورٹس اس جانب خصوصی توجہ دیں۔ چیف جسٹس نے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے عدالتی افسران کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی محنت کو تسلیم کیا۔ اجلاس میں، جو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت گوادر میں منعقد ہوا، عدالتی اصلاحات پر بھی غور کیا گیا، جس میں بلوچستان کے لیے ایک ذیلی کمیٹی کے قیام کی منظوری دی گئی۔ یہ کمیٹی مختلف جیلوں کا دورہ کرکے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کا ایک جامع پیکیج پیش کرے گی۔ اجلاس میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس ہاشم خان کاکڑ اور مانیٹرنگ جج برائے جیل خانہ جات جسٹس عبداللہ بلوچ بھی شریک ہوئے۔ یہ اقدامات انصاف کی فراہمی کے عمل میں بہتری کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بیرون ملک فرار ملزمان کی عدم گرفتاری پر وزارت داخلہ کی نااہلی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے بیرون ملک فرار ہونے والے ملزموں کی عدم گرفتاری کو وزارت داخلہ کی نااہلی قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ سنگین مقدمات میں ملوث ملزمین کی عدم گرفتاری سوالات اٹھاتی ہے۔ عدالت کی سماعت کے دوران جبران ناصر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت نے جون 2023 میں مفرور ملزم تقی حیدر شاہ کو دبئی سے وطن واپس لانے کا حکم دیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مفرور ملزم حماد صدیقی کو بھی واپس لانے کا حکم دیا گیا تھا، اور سوال اٹھایا کہ اتنے سنگین مقدمات میں ملوث شخص کو گرفتار کرنے میں تاخیر کیوں کی گئی ہے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سانحہ بلدیہ میں 266 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس واقعہ میں ملوث ملزم کا نام حماد صدیقی ہے۔ عدالت نے ملزم کے کیس کے بارے میں لاعلمی پر ڈپٹی پروٹوکول افسر سعدیہ گوہر کی سرزنش کی اور استفسار کیا کہ ملزم کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کے احکامات پر کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ وزارت داخلہ کی نااہلی ہے کہ ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جا رہا اور اتنی سنگین صورتحال میں ان کے واپس لانے میں عدم دلچسپی دکھائی جا رہی ہے۔ آئینی بینچ نے اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے افسر امجد شاہ کے قتل میں ملوث ملزم تقی شاہ اور پولیس اہلکار قتل کے ملزم خرم نثار کی عدم گرفتاری پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے مفرور ملزمان حماد صدیقی، تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کی عدم گرفتاری پر رپورٹ طلب کی ہے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو 17 دسمبر کو عدالت پیش ہونے کا بھی کہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسان ہوں یا فرشتے، سب سے مذاکرات کریں گے تاہم مطالبات نا مانے گئے تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں گے۔ پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ اگر انسانی یا فرشتہ مذاکرات کا دروازہ نہیں کھولتا تو ہم سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں گے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی حکومت مسائل کا حل نہیں ہے اور ملک تب ہی ترقی کر سکتا ہے جب عدل اور انصاف قائم ہو۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا وقت قانون سازی کے لیے استعمال ہونا چاہیے، لیکن ہمیں بے بنیاد کیسز میں عدالتوں میں وقت گزارنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب، شاندانہ گلزار، ارباب شیر علی، ارباب عامر ایوب اور آصف خان کی راہداری ضمانت درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے عمر ایوب کو فیصل آباد کے مقدمے میں 9 جنوری تک راہدرای ضمانت فراہم کی، جب کہ دیگر درخواست گزاروں کو 3 ہفتے کی راہدرای ضمانت دی گئی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کی۔ وکیل درخواست گزار، معظم بٹ ایڈوکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف 3 مقدمات اسلام آباد اور ایک مقدمہ فیصل آباد میں درج ہیں۔ عمر ایوب نے عدالت کو بتایا کہ فیصل آباد کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود، حفاظتی ضمانت کے باوجود انہیں راولپنڈی میں پیشی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ فیصل آباد کے مقدمے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ عدالت نے ان کی استدعا پر فیصل آباد مقدمے میں 9 جنوری تک راہدرای ضمانت دے دی۔
راولپنڈی: توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی پر آج فرد جرم عائد نہ کی جا سکی۔ عدالت نے بشری بی بی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے ہیں جبکہ کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت کے دوران بشری بی بی نے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ کوئی گواہ پیش نہیں کرنا چاہتیں۔ دوسری جانب عمران خان نے اپنی طرف سے گواہ پیش کرنے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے سلسلے میں آج سیکشن 342 کے تحت سوالات کے جوابات جمع کروائے گئے، تاہم سماعت کی مزید تفصیلات کے لئے انتظار کرنا ہوگا۔ عدالت کی طرف سے جاری کردہ فیصلہ اور آئندہ کی کارروائی کے بارے میں مزید معلومات جلد فراہم کی جائیں گی۔
عالمی آبادی کے جائزے کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان انٹرنیٹ کی رفتار میں دنیا کے 198 ممالک میں سے 198ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی انٹرنیٹ رفتار فلسطین، بھوٹان، گھانا، عراق، ایران، لبنان، اور لیبیا سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں اوسط موبائل انٹرنیٹ ڈاؤن لوڈ کی رفتار 19.59 ایم بی پی ایس ہے، جبکہ براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی اوسط رفتار 15.52 ایم بی پی ایس ہے۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) موبائل اور براڈ بینڈ دونوں انٹرنیٹ کی رفتار میں عالمی سطح پر پیش پیش ہے، جب کہ موبائل انٹرنیٹ کی رفتار میں سنگاپور اور براڈ بینڈ میں قطر دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ہانگ کانگ اور چلی بالترتیب موبائل انٹرنیٹ کی رفتار میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ تکنالوجی میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی رفتار میں بہتری آئے گی۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد مصطفی سید نے کہا ہے کہ موجودہ انٹرنیٹ کی رفتار کے مسائل کی توقع ہے کہ تین ماہ کی مدت کے اندر حل کر دیے جائیں گے، جبکہ ان خدشات کا سامنا ہے کہ فائروال کے نفاذ سے کنیکٹیوٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "اگر واٹس ایپ کے ذریعے پیغام بھیجا جا رہا ہے لیکن تصاویر منتقل نہیں ہو رہی، تو یہ اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ نگرانی کی جا رہی ہے۔" پاکستان کے مختلف علاقوں میں صارفین انٹرنیٹ کی بار بار بندشوں اور سست رفتار کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے ان کی براؤزنگ، ڈاؤن لوڈنگ، اور میڈیا شیئرنگ کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، Wi-Fi اور موبائل ڈیٹا خدمات میں نمایاں سست روی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے صارفین کے لیے واٹس ایپ جیسے مقبول پلیٹ فارم پر میڈیا فائلز، بشمول تصاویر، ویڈیوز اور آواز کے نوٹس بھیجنا یا وصول کرنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔
راجن پور کے علاقے کچہ بنگلہ اچھا میں ڈاکوؤں نے 12 ایکڑ رقبے پر پھیلی گنے کی فصل کو آگ لگا کر مقامی کسانوں کو بھاری مالی نقصان پہنچایا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ ان کسانوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جنہیں بھتہ نہ دینے کی وجہ سے اس ظالمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی کسانوں نے بتایا کہ فصل کو آگ لگانے کے بعد وہ اور دیگر مقامی لوگ مل کر آگ بجھانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے، لیکن افسوسناک طور پر کچھ ایکڑ گنا پھر بھی جل گیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کے اس عمل نے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا کو مزید پھیلا دیا ہے۔ پولیس نے مزید بتایا کہ چند روز قبل ڈاکوؤں نے بھتہ نہ دینے پر کسانوں کو دھمکی دینے کی ایک ویڈیو وائرل کی تھی، جس کے باعث کسانوں میں شدید خوف و تشویش پائی جاتی ہے۔ متعلقہ حکام کو اس واقعے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے فوری کارروائی کرنی چاہیے تاکہ مقامی لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور ایسے جرائم کے سلسلے کو روکا جا سکے۔
پاکستان علما کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مدارس کی تعلیم سے جڑے ہونے کے سبب ان کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے 2019 میں ایک متفقہ معاہدہ طے پایا تھا، جس میں کئی اہم میٹنگز کی گئیں اور مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ علامہ اشرفی نے بتایا کہ یہ حیران کن ہے کہ بعض لوگ مدارس کا الحاق وزارت صنعت کے ساتھ کرنے کی تجویز دے رہے ہیں، جبکہ وزارت تعلیم کے ساتھ الحاق پر اصرار کرتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ کرنے میں کافی وقت صرف ہوا تھا، اور اس میں شفقت محمود اور دیگر اہم شخصیات کا بڑا کردار تھا۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ مدارس کے 15 بورڈز میں سے 10 ایک طرف کھڑے ہیں، اور اس وقت تک 18 ہزار مدارس کی رجسٹریشن ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ کہا جائے کہ نظام کو بار بار تبدیل کیا جائے تو یہ ایک غیر سنجیدہ عمل ہو گا۔ علامہ طاہر اشرفی نے واضح کیا کہ مدارس کا تعلق تعلیم سے ہے، اور انہیں وزارت تعلیم سے ہی منسلک ہونا چاہئے۔ اگر کسی مدرسے کو وزارت صنعت کے ساتھ جانے کی ضرورت ہے تو وہ اپنی مرضی سے ایسا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے معاملات کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہئے، اور ہم کسی بھی حال میں مدارس کے مستقبل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ ان کے مطابق، لاکھوں طلبا مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس لئے ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں عالیہ حمزہ و طیبہ راجا سمیت 11 ملزمان کے وارنٹ جاری کرنے کا بڑا فیصلہ دیدیا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنماؤں عالیہ حمزہ ملک اور طیبہ راجا سمیت 11 ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں عدالت کے جج منظر علی گل نے کہا کہ مذکورہ ملزمان کو گرفتار کرکے 19 دسمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ جن ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں ان میں عطا الرحمٰن، عبد الرزاق، ہاشم مقصود، فرحان بخاری، صغیر کمال، عباس علی، ارباز خان و دیگر شامل ہیں: علاوہ ازیں، انسداد دہشت گردی عدالت نے تھانہ شادمان کے جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں پی ٹی آئی کی رہنما عالیہ حمزہ کے ضامن کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ جج منظر علی گل نے عالیہ حمزہ کے ضامن کو 20 دسمبر کے لیے طلبی کے نوٹس جاری کیے ہیں۔ نوٹس کے متن میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر پیش نہ ہونے کی صورت میں عدالت ضامن کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ عالیہ حمزہ نے ضمانت کے بعد عدالت میں پیش نہیں ہو رہیں، اور تھانہ شادمان کے ایس ایچ او کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ضامن کو 20 دسمبر کو عدالت میں پیش کرے۔ یاد رہے کہ 30 نومبر کو انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جناح ہاؤس حملہ کیس میں قصوروار قرار دیا تھا۔ عدالت نے عمران خان کی ہنگامہ آرائی کے وقت زیر حراست ہونے کی دلیل کو بے وزن قرار دیا۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے شروع کی جانے والی سول نافرمانی کی تحریک مکمل ناکام ہو جائے گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سول نافرمانی صرف اُس وقت کامیاب ہوتی ہے جب عوام کا انحصار ریاست سے کم ہو چکا ہو۔ سیالکوٹ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ریاست عوام کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کر رہی ہے اور سول نافرمانی کی تحریک انگریز دور میں ہی کامیاب رہی، اس لیے جو بھی اس تجویز کو پیش کر رہا ہے، وہ تاریخ سے ناواقف ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی لیڈر شپ یا تو ان پڑھ ہے یا پھر پڑھے لکھے افراد ہیں جو تاریخ سے ناواقف ہیں۔ خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا کہ "سول نافرمانی کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دے گی" اور اس سے قبل بھی ایسی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے بلوں کی ادائیگی سے انکار نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا انہیں بنیادی سہولیات سے محروم کر سکتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کوئی اپنی فیملی کو سہولیات سے محروم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ انہوں نے بشری بی بی کے بارے میں بھی گفتگو کی اور کہا کہ انہیں سیاسی معاملات کی صحیح سمجھ نہیں لیکن مالی معاملات میں وہ مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بشری بی بی کا یہ کہنا کہ انہیں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ انہیں لائے تھے، جیسے گنڈا پور اور عمر ایوب، وہ انہیں ترکیبی طور پر چھوڑ گئے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جن لوگوں نے جھوٹ کی بنیاد پر ایک عمارت تعمیر کی تھی، وہ اب گر چکی ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی کی کہ آج لاشوں کی تعداد بڑھ کر 12 ہوگئی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی شناخت کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کر رہا۔ مسلم لیگ کے رہنما نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو اسلام آباد پر ہونے والے حملوں کی ناکامی اور پنجاب سے لیڈرشپ کی غیر موجودگی کا سامنا ہے۔ وفاقی وزیر نے یہ بھی تجویز دی کہ مذاکرات کی شروعات اسمبلی سے ہونی چاہئیں، اور یہ کہ اگر پی ٹی آئی واقعی اسمبلی کے افعال میں شامل ہونا چاہتی ہے تو انہیں اپوزیشن کا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ آخر میں، خواجہ آصف نے زور دیا کہ پی ٹی آئی اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے اور انہیں ان کی ناکامیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔
آزاد کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے معاملے میں مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں جس کے بعد مظاہرین نے اسلام آباد مارچ کی دھمکی دیدی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر: شہری تنظیموں کا اتحاد، جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی)، نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہفتہ کے روز علاقے کے داخلی راستوں کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، متنازعہ صدارتی آرڈیننس کی منسوخی کے لیے شہری تنظیموں کی جانب سے کیے گئے دعوا پر جمعہ کو مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نے آزاد کشمیر کو مفلوج کر دیا۔ مظفر آباد میں جے کے جے اے اے سی کی کور کمیٹی کے ساتھ رات گئے ابتدائی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہونے پر مظاہرین نے ہڑتال جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جمعہ کو پورے خطے میں جزوی اور پرامن ہڑتال کی گئی، جس کے دوران سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بند رہیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد، جے کے جے اے اے سی کے رہنما شوکت نواز میر نے مظفر آباد کے اپر اڈہ کے لال چوک پر سینکڑوں افراد سے خطاب کے دوران کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو وہ خطے کے داخلی راستوں کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مظفر آباد ڈویژن سے مارچ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی سرحد سے متصل برار کوٹ تک جائے گا، جب کہ پونچھ ڈویژن میں ٹین ڈھل کوٹ اور آزاد پتن کی طرف بھی مارچ کیا جائے گا۔ شوکت میر نے تاجروں کو ہفتہ کی صبح 11 بجے تک اپنی دکانیں کھولنے کی اجازت دی، تاکہ رہائشی ضروری خریداری کر سکیں۔ انہوں نے حکومت پر حراست میں لیے گئے کارکنوں کو رہا نہ کرنے اور 'کالا قانون' کی منسوخی کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید نے جے کے جے اے اے سی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ان کے مطالبات کو غیر لچکدار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے زیر حراست افراد کی رہائی کے لیے طریقہ کار کی تجویز پیش کی ہے اور ایک وسیع مشاورتی کمیٹی کے ذریعے متنازعہ صدارتی آرڈیننس پر خدشات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات پر رضامندی ایک بات ہے، لیکن اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کرنا دوسری بات ہے۔ بعد ازاں، وزیر اطلاعات نے کابینہ کے دو ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات کے پہلے سیشن کی ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ بات چیت بند ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ صدارتی آرڈیننس کے تحت احتجاج یا جلسے کے لیے ایک ہفتہ پہلے ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا اور غیر رجسٹرڈ جماعتوں کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس آرڈیننس کے خلاف عدالتی کارروائیاں بھی جاری ہیں، جس کے نتیجے میں عوامی ایکشن کمیٹی نے آرڈیننس کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد: نائب وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے حالیہ ملاقات کی اندرونی تفصیلات منظر عام پر آ گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ملاقات کے دوران اسحاق ڈار کا رویہ معذرت خواہانہ رہا۔ ملاقات کے پس منظر میں معلوم ہوا ہے کہ اسحاق ڈار نے بلاول بھٹو سے براہ راست رابطہ کرکے انہیں تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ ذرائع کے مطابق، انہوں نے کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی جلد ملاقات کا بھی عندیہ دیا، جس پر بلاول بھٹو نے حکومت کو ایک اور موقع دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ بلاول بھٹو نے اسحاق ڈار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پیپلز پارٹی کے صبر کا مزید امتحان نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ "حکومت کو فوری طور پر ہماری شکایات اور تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے"، انہوں نے مزید کہا کہ ان پر اپنی جماعت کی جانب سے شدید دباؤ ہے۔ بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ اگر حکومت کوآرڈینیشن کمیٹیوں کے اجلاسوں میں ناکام رہی تو وہ اس معاملے پر وزیر اعظم سے بات کریں گے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت اور پیپلز پارٹی کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی ملاقات ابھی تک طے نہیں ہوئی ہے۔
پشاور: آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا، جس میں سیاسی قیادت نے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا رواں سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ خونریزی کا شکار رہا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق، گزشتہ ماہ 70 سے زیادہ سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت ہوئی اور کرم میں فسادات کے نتیجے میں 200 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ کانفرنس میں مرکزی اور صوبائی حکومت کی جانب سے امن کے قیام میں ناکامی پر بھی تنقید کی گئی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا کے مالی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک سیاسی اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، یہ بات بھی سامنے آئی کہ این ایف سی ایوارڈ تقریباً دو ڈھائی سال سے غیر مؤثر ہے اور فوری طور پر گیارہواں این ایف سی ایوارڈ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلامیہ میں سابق فاٹا کے لیے مختص 3 فیصد رقم کی عدم ریلیز کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے واجب الادا تین فیصد رقم جاری کی جائے۔ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ نئے این ایف سی ایوارڈ کو مردم شماری کے مطابق کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ فارمولا میں جنگلات اور ماحولیات کو شامل کیا جائے۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ مائنز اینڈ منرلز صوبوں کے عوام کی ملکیت ہیں اور ان کی لیز کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں۔ کانفرنس نے پاک افغان بارڈر کے سارے تاریخی تجارتی راستوں کو کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔ مزید برآں، وفاق سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت صوبے کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کی جائے۔ آرٹیکل 161 کے تحت صوبے کو این ایچ پی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی برائے تیل (آئل) کی ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیہ نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کو باقاعدگی سے بلانے اور صوبائی حکومت سے پی ایف سی تشکیل دے کر باقاعدہ ایوارڈ کرنے کی بھی درخواست کی۔ موثر بلدیاتی نظام کے قیام اور نمائندوں کو بلا تفریق فنڈ کی فراہمی پر بھی زور دیا گیا۔ کانفرنس میں آئی ڈی سی کی 2 فیصد لاگو کیے جانے کے معاملے کو بھی زیر بحث لایا گیا، جو تجارت کو متاثر کر رہا ہے، اس لیے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ آبی وسائل میں صوبے کا حصہ 1991 ڈبلیو اے اے کے مطابق دینے اور بے گھر افراد کی واپسی کے وعدوں پر عمل درآمد کا بھی کہا گیا۔ آخر میں، خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کا آڈٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اڈیالہ جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور عمران خان کی بہن علیمہ خان کے درمیان احتجاج کے دوران جاں بحق پی ٹی آئی کارکنان کی تعداد کے حوالے سے ایک تکرار دیکھنے میں آئی۔ یہ واقعہ اڈیالہ جیل میں ایک سماعت کے دوران پیش آیا، جہاں بیرسٹر گوہر، بیرسٹر سلمان اکرم راجا اور علیمہ خان کے درمیان بحث ہوئی۔ علیمہ خان نے بیرسٹر گوہر سے سوال کیا کہ آپ نے جاں بحق افراد کی تعداد 12 کیوں بتائی، جس پر بیرسٹر گوہر نے اس تعداد پر اصرار کیا اور کہا کہ ان کے پاس صرف یہی مصدقہ معلومات ہیں، اور بغیر تصدیق کے مزید اعداد و شمار پیش نہیں کیے جا سکتے۔ علیمہ خان نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کتنے لوگ لاپتا ہیں۔ اس پر بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ ان کی پارٹی نے اس معاملے پر تحقیق کے لیے ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ اس دوران، بیرسٹر سلمان اکرم راجا بیرسٹر گوہر کی حمایت کرتے رہے۔ بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پارٹی اس معاملے کی تمام تفصیلات اکٹھی کرنے کے لیے کوشاں ہے اور یقین دلاتے ہیں کہ یہ معاملہ ایسے نہیں جانے دیا جائے گا۔ بیرسٹر گوہر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جاں بحق افراد کی غیر مصدقہ تعداد نشر کی جا رہی ہے۔ جب علیمہ خان نے سوال کیا کہ بیرسٹر گوہر نے جاں بحق ہونے والے کارکنوں کے گھر کب جا کر ان کے حالات معلوم کیے، تو بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ انہوں نے سلمان اکرم راجا سے پوچھا کہ وہ کنٹینر سے گرنے والے کارکن کے گھر گئے۔ بیرسٹر سلمان اکرم نے علیمہ خان سے کہا کہ جو کارکنان عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں، ان کو لاپتا نہ سمجھیں۔ بعد ازاں اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں علیمہ خان نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے ساتھ جو بات چیت ہوئی، وہ اس بات کی وضاحت تھی کہ 12 لوگوں کی شہادتوں کی تعداد صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک باقی ریکارڈ دستیاب نہیں ہوتا، اس تعداد کی کوئی اہمیت نہیں، اور پہلے جیلوں اور تھانوں میں موجود افراد کی نشاندہی کرنا ضروری ہے تاکہ اصل شہادتوں کی تعداد معلوم ہو سکے۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حالیہ اجلاس میں چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اعلان کیا ہے کہ اب تک 30 ہزار وی پی این (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوری 2025 سے وی پی این کے لائسنس جاری کرنا شروع کر دیے جائیں گے، جو کہ انٹرنیٹ کی سہولیات کو منظم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نے آگاہ کیا کہ حکومت ایلون مسک کی اسٹار لنک کمپنی کو پاکستان لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ایسے علاقوں میں انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی ممکن ہو جہاں پیشہ ورانہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ وی پی این کی رجسٹریشن کا سلسلہ دسمبر 2010 سے شروع ہوا تھا اور اس وقت ملک کی آئی ٹی انڈسٹری میں 30 فیصد کی شرح ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 99 فیصد آئی ٹی کمپنیوں کو انٹرنیٹ میں خلل کی شکایات ہیں، جس کے سبب نیشنل سیکیورٹی کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ چیئرمین پاشا نے مزید کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں وی پی اینز کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہوں نے وزارت آئی ٹی سے انٹرنیٹ میں موجود خلل کے مسائل پر توجہ دینے کی درخواست کی۔ انہوں نے فری وی پی اینز کے استعمال سے متعلق ڈیٹا سیکیورٹی کے خدشات بھی پیش کیے۔ سینیٹروں کامران مرتضیٰ اور انوشہ رحمان نے اس معاملے پر سوالات کیے، جہاں انوشہ رحمان نے 2013 سے 2018 کے درمیان انٹرنیٹ کے مسائل کی عدم موجودگی کو اجاگر کیا۔ وزیر مملکت شزا فاطمہ نے مزید کہا کہ پیکا قوانین میں ترامیم پر غور جاری ہے اور فیک نیوز کو مؤثر طور پر ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کے پیچھے چند تکنیکی وجوہات ہیں اور حکومت آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ رکھنے کے حوالے سے متحرک ہے، جبکہ اپریل میں فائیو جی اسپیکٹرم کی نیلامی کے امکانات پر بھی بات چیت جاری ہے۔ انٹرنیٹ بندش کے حوالے سے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ وہ کسی سیکیورٹی مسئلے کے بارے میں نہیں بتا سکتی ہیں، مگر اگر انٹرنیٹ بند کرنا پڑا تو یہ انتہائی ناپسندیدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسٹار لنک سے منسلک ہونے کی کوششیں کر رہی ہیں تاکہ انٹرنیٹ کی سہولیات کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔
حکومت پاکستان نے قطر سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے 5 اضافی کارگوز کی خریداری ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک کے مطابق، یہ کارگوز اب 2025 کے بجائے 2026 میں منگوائے جائیں گے۔ اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر پیٹرولیم نے وضاحت کی کہ ملک میں مذکورہ گیس کی کسی کمی کا سامنا نہیں ہے، بلکہ ایل این جی کی دستیابی سرپلس ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ حالات میں بجلی کے کارخانوں کی طرف سے ایل این جی کی خریداری نہیں ہو رہی، جس کی وجہ سے گیس کی اضافی مقدار موجود ہے۔ مصدق ملک نے یہ بھی کہا کہ 5 مزید کارگوز کو بھی ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کے امکانات ہیں اور اس بارے میں بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ معاہدوں کو منسوخ کرنے کے بجائے انہیں مؤخر کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ 34 ایم او یوز طے پا چکے ہیں، جن میں سے 7 کو باقاعدہ معاہدوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ معاہدے بجلی، آئی ٹی، اور خوراک کے شعبوں میں بھی شامل ہیں۔ روسی خام تیل کی درآمدات کے حوالے سے مصدق ملک نے وضاحت کی کہ ان کے پاس روس کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل نہیں ہوئی، اور میڈیا میں آنے والی خبریں بالکل غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی اچھی ڈیل ملی، تو اس پر غور کیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قطر عالمی سطح پر ایل این جی کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے اور حالیہ مہینوں میں اپنی پیداوار میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں میں مزید رسائی حاصل کر رہا ہے۔
لیاری گینگ وار کے مرکزی سرغنہ عزیر بلوچ نے عدالت میں درخواست دائر کرکے فرمائش کی ہے کہ جیل میں ٹی وی کی سہولت موجود ہے تاہم وہاں کیبل نہیں ہے، لہذا کیبل کا کنکشن فراہم کیا جائے۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں لیاری آپریشن کے دوران پولیس پر حملے کے مقدمے کی سماعت کے دوران لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے ایک منفرد درخواست کی۔ انہوں نے عدالت میں کہا کہ انہیں سب جیل میں موجود ٹیلی ویژن کے لیے کیبل فراہم نہیں کی جا رہی، جس کے باعث وہ نہ تو نیوز چینلز دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا انٹرٹینمنٹ دیکھنے کی سہولت حاصل ہے۔ عزیر بلوچ نے اپنے وکیل، فاروق حیدر جتوئی ایڈووکیٹ، کے ذریعے تحریری درخواست جمع کرائی، جس میں انہوں نے جیل میں فراہم کردہ سہولیات کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "آپ جیل میں خود آکر دیکھ لیں، میرے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے"۔ عدالت نے عزیر بلوچ سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس سب جیل میں ٹیلی ویژن موجود ہے؟ عزیر بلوچ نے جواب دیا کہ انہیں ٹیلی ویژن تو دیا گیا ہے لیکن اس کی کیبل نہیں فراہم کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں جمعہ کی نماز بھی مسجد میں ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور ان کی اہل خانہ سے ملاقات بھی ہفتے میں ایک دن تک محدود کر دی گئی ہے۔ وکیل فاروق حیدر جتوئی نے عدالت میں کہا کہ عزیر بلوچ کو جیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کی اہل خانہ سے ملاقات کا بھی اہتمام کیا جائے۔ عدالت نے عزیر بلوچ کی درخواست پر سب جیل انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا ہے اور 24 دسمبر کو اس پر جواب طلب کیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف عزیر بلوچ کی جیل کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ریاست کی جانب سے قیدیوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے معاملے میں بھی ایک اہم سوال اٹھاتا ہے۔
اسلام آباد: عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین تقریباً 29 ارب ڈالر کے قرضوں کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا قرض دہندہ بن چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان اس سال عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض لینے والے تین سرفہرست ممالک میں شامل ہے، جہاں 24 کروڑ آبادی کا یہ ملک چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قرضوں کا تجزیہ کرنے والی عالمی بینک کی رپورٹ نے اشارہ دیا ہے کہ پاکستان کا قرضوں سے برآمد اور آمدنی کا تناسب اس کی کمزور مالی حالت کا اظہار کرتا ہے۔ 2023 کے دوران، پاکستان کا مجموعی بیرونی قرض (بشمول آئی ایم ایف) 130.85 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو کہ اس کی کل برآمدات کا 352 فیصد اور مجموعی قومی آمدنی (جی این آئی) کا 39 فیصد ہے۔ چین کی جانب سے جاری کردہ قرضوں کا حجم اس وقت سب سے زیادہ ہے، جس نے خاص طور پر روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے لیے 1000 ارب ڈالر کا قرض فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹس کے مطابق، چین نے ترقی پذیر ممالک کے لیے سالانہ 80 ارب ڈالر کی امداد اور قرض کی فراہمی کا عہد کیا ہے، جبکہ امریکا نے صرف 60 ارب ڈالر فراہم کیے ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے قرضوں میں چین کا حصہ 22 فیصد یعنی تقریباً 28.7 ارب ڈالر ہے۔ اس کے بعد عالمی بینک کا حصہ 18 فیصد یعنی 23.55 ارب ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا 15 فیصد یعنی 19.63 ارب ڈالر ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا دوطرفہ قرض دہندہ ہے، جس کا کل قرضہ تقریباً 9.16 ارب ڈالر ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ذرائع کے اعتبار سے 45 فیصد قرض دوطرفہ قرض دہندگان سے ہے، جبکہ 46 فیصد کثیرالجہتی قرض دہندگان سے ہیں۔ باقی 9 فیصد نجی قرض دہندگان کا ہے، جن میں 8 فیصد کا تعلق بانڈ ہولڈرز سے ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 130.85 ارب ڈالر میں سے طویل المدتی بیرونی قرضوں میں 110.44 ارب ڈالر شامل ہیں، جن میں آئی ایم ایف سے 11.53 ارب ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔ جبکہ قلیل المدتی قرضوں کی رقم 8.70 ارب ڈالر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کو 2023 میں تقریباً 12.90 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی تھیں، جبکہ مجموعی طور پر کی جانے والی ادائیگیوں کی مقدار 14 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جس میں سے 4.33 ارب ڈالر سود کی ادائیگی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی معاشی چیلنجز کی شدت کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی منظرنامے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

Back
Top