سیاسی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے احتجاج کے دوران وفاقی دارالحکومت سے گرفتار ہونے والے 158 ملزمان کا مزید چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے سنایا۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ جسمانی ریمانڈ کی مدت مکمل ہونے پر ملزمان کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس سے قبل، 28 نومبر کو اسلام آباد میں اسی احتجاج کے دوران پنجاب کے شہر راولپنڈی سے 156 مزید ملزمان کا جسمانی ریمانڈ بھی منظور کیا گیا تھا۔ راولپنڈی کے مختلف علاقوں جیسے صادق آباد، نیوٹاؤن اور دھمیال سے گرفتار کیے گئے 191 ملزمان کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی نے مقدمے کی سماعت کے دوران 10 ملزمان کو تھانہ نیوٹاؤن میں درج مقدمے سے ڈسچارج کرتے ہوئے 156 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ بھی منظور کیا۔ اس کے علاوہ، واضح رہے کہ 24 نومبر کے احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی سمیت متعدد دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس احتجاج اور اس کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں مختلف تھانوں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے، جن میں مظاہرین پر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور غیر قانونی طور پر مجمع جمع کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو اہم خط لکھا ہے جس میں احتجاجی تحریک معطل کرنے کی درخواست کی گئی ہے قید پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینیٹر اعجاز احمد چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید نے اپنی قیادت کے نام ایک اہم خط ارسال کیا ہے جس میں ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر چند اہم سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ خط میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ موجودہ احتجاجی تحریک کو فی الفور معطل کیا جائے۔ رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ 27 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے افسوسناک واقعے کے سبب ملک بھر میں سوگ کا اعلان کیا جائے۔ مزید براں، انہوں نے گلی محلے، وارڈز، اور یونین کونسل کی سطح پر تعزیتی اجلاس منعقد کرنے اور قرآن خوانی کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ شہداء کے گھروں اور قبروں پر جا کر حاضری دیتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا جائے۔ اس کے علاوہ، صادر کردہ خط میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تفصیلات، ثبوتوں کے ساتھ، عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ آخر میں، بانی چیئرمین عمران خان کی اجازت سے شہداء فنڈ کے قیام کی تجویز دی گئی تاکہ متاثرہ خاندانوں کی مالی مدد کی جا سکے۔ خط میں ان اقدامات کی ضرورت اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ پارٹی کے اندر اتحاد اور یکجہتی برقرار رکھی جائے۔
وفاقی کابینہ کی اکثریت نے خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کی حمایت کر دی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، گورنر راج کی نافذگی سے پہلے پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے مشاورت کی جائے گی۔ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے بھی کابینہ کو اپنی رائے فراہم کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا نے دو بار وفاق پر چڑھائی کرکے گورنر راج کا جواز فراہم کیا ہے۔ اس چڑھائی میں سرکاری ملازمین اور سرکاری مشینری کا استعمال کیا گیا، جس کا وزن وفاقی حکومت کے فیصلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اس ایک نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا، اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ سیاسی اتحادیوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر گورنر راج کے نفاذ سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومت کی یہ اقدام سیاسی منظر نامے میں اہم تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے، خصوصاً خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا ہے کہ وہ چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے لیے ہائبرڈ ہوسٹنگ ماڈل کو مسترد کرتا ہے۔ یہ اعلان آئی سی سی کے جمعہ کے اجلاس سے قبل کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، پی سی بی نے اجلاس سے پہلے اپنا مؤقف دوٹوک انداز میں پیش کیا ہے اور کرکٹ کی عالمی باڈی کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے حقوق کسی دوسرے ملک کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ پی سی بی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی سی سی کو اس اہم مسئلے کا قابل عمل حل فراہم کرنے کا کہا گیا ہے، تاکہ تیاری کے لیے مزید وقت مل سکے اور حتمی فیصلے تک پہنچنا آسان ہو جائے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ ایسا کیسا ممکن ہے کہ پاکستانی ٹیم بھارت کا دورہ کرے جبکہ بھارتی ٹیم پاکستان آنے سے انکار کرے۔ چیمپیئنز ٹرافی فروری و مارچ 2025 میں پاکستان میں ہونے کا پروگرام ہے، لیکن بھارت کی جانب سے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کے باعث ٹورنامنٹ کے انعقاد میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پی سی بی نے ہائبرڈ ماڈل کی بار بار مخالف کرتے ہوئے اپنے مؤقف پر قائم رہنے کا عہد کیا ہے کہ ایونٹ کی میزبانی صرف پاکستان میں کی جائے گی۔ آئی سی سی کی جانب سے جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں اس مسئلے کے بارے میں خدشات دور کرنے کی امید ہے، جبکہ پی سی بی نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی بھی فیصلے میں شفافیت اور مساوات کو برقرار رکھنا آئی سی سی کی ذمہ داری ہوگی۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کوئٹہ میں اغوا ہونے والے بچے سے متعلق ازخود نوٹس لینے کی تردید کی ہے۔ پانچ رکنی آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بچے کے اغوا سے متعلق خفیہ پیشرفت کی ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے اور درخواست کی کہ بنچ چیمبر میں اس کا جائزہ لے۔ انہوں نے کہا کہ بچے کی بازیابی کے لیے مشترکہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے قیام پر بھی پیش رفت ہو رہی ہے। جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ پہلے سے زیر التوا ہے، اس لیے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ آئینی بنچ نے ازخود نوٹس لیا ہے۔ بعد ازاں، جب آئینی بنچ نے چیمبر میں رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کی، تو بلوچستان حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ کوئٹہ میں جاری دھرنا ختم کروایا جائے۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے واضح کیا کہ یہ لوکل انتظامیہ کا کام ہے اور وفاقی حکومت اگر مدد فراہم کرنا چاہے تو وہ کر سکتی ہے۔ مقدمے کے والد نے عدالت میں آ کر کہا کہ "مجھے میرا بچہ چاہیے۔" جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے والد کو یقین دہانی کرائی کہ عدالت اور دیگر ادارے ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم سب آپ کیلئے پریشان ہیں، اور آئی جی صاحب نے چیمبر میں ہمیں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔" عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ میڈیا کو اس کیس کی زیادہ تشہیر سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ "ہم نے سپریم کورٹ میں بچے کا معاملہ حل نہیں کیا ہے، جتنا دباؤ ہوگا، بچے کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔"
تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے ایک بار پھر پارٹی کی مرکزی قیادت پر سخت تنقید کی ہے، جس میں انہوں نے عمران خان کی موجودہ مشکلات کو بنیادی طور پر مرکزی قیادت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مشاورت کے ذریعے فیصلے کئے جاتے تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔ سابق وزیر اطلاعات خیبرپختونخوا شوکت یوسفزئی نے اپنے بیان میں کہا کہ بشریٰ بی بی نے اپنے بے گناہ شوہر کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نکلنے کی جرات کی، لیکن سوال یہ ہے کہ دیگر پارٹی رہنما کہاں تھے اور انہوں نے کیا کردار ادا کیا؟ شوکت یوسفزئی نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے سنگجانی کے مقام پر جلسے یا دھرنے کا فیصلہ کیا تھا، تو پھر اس کی مخالفت کیوں کی گئی؟ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ حالات کے مطابق حکمت عملی مرتب کی جانی چاہیے تھی۔ انہوں نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان پر عائد سختیوں کا ذمہ دار پارٹی قیادت کو ٹھہراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہماری غلطیوں کے باعث بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ شوکت یوسفزئی نے 24 نومبر کو ملنے والے ایک بڑے مواقع کے ضیاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مشاورت کے ساتھ فیصلے کئے جاتے تو آج ہم ایک مختلف منظرنامے میں ہوتے۔ یہ تمام بیانات پارٹی کے اندر جاری تقسیم اور قیادت کے خلاف بڑھتی ہوئی ناگواری کی عکاسی کرتے ہیں، جس نے تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھٹو ریفرنس پر ایک اہم اضافی نوٹ جاری کیا ہے۔ اس نوٹ میں انہوں نے جسٹس دراب پٹیل کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھٹو کیس میں جرأت مندی کے ساتھ اختلاف کیا اور ضیاء الحق کے عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی وضاحت کی کہ جج کی بہادری کو بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے ذریعے پرکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ آمرانہ دور میں، ججوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت عہدے پر ہونے میں نہیں بلکہ ان کی آزادی کی حفاظت میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آمرانہ مداخلتوں کا بروقت مقابلہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس میں تاخیر قانونی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے،سیاسی ٹرائلز میں قانونی نکات کے بجائےسابق حلیفوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے جنہیں بیان کیلئے دوران تفتیش مجبور کیا جاتا ہے. سیاسی ٹرائل میں عدلیہ برسراقتدار رجیم کو آلہ کار بنتی ہے۔ اس اضافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے اور اس ضمن میں دراندازیوں کی فوری مزاحمت اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ نوٹ عہدے داروں اور دیگر اداروں کے سامنے عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، خاص کر ان وقتوں میں جب سیاسی اثر و رسوخ عدلیہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا یہ بیان عدالتی آزادی، انصاف اور قانون کی بالادستی پر ایک مثبت عزم کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی خود مختاری کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب بھٹو ریفرنس پر جسٹس حسن اظہر رضوی کا 30 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے بھٹو کے مقدمے کو ناانصافی کی ایک تلخ مثال قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مارشل لاء حکام کی خوشنودی کے لیے عدالتی فیصلے میں آئین اور قانون دونوں کا غلط استعمال کیا گیا۔ اس اضافی نوٹ میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید کہا کہ سیاسی ٹرائلز میں قانونی نکات کی بجائے سابق حلیفوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے، اور یہ بیانات اکثر اوقات دباؤ یا مجبور کیے جانے کے نتیجے میں دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی ٹرائلز میں عدلیہ اکثر برسراقتدار حکومت کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور اس کے فیصلے ان کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی جی نادرا ریجنل ہیڈ سرگودھا کی مساوی ڈگری کی منسوخی کے بارے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دے دیا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے اس معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈی جی نادرا، ذوالفقار احمد کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ذوالفقار احمد کی درخواست میرٹ پر مبنی نہیں ہے، لہذا HEC کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں اور فیصلے قانون کے مطابق تھے، اور متعلقہ عہدوں پر فائز افراد کے تعلیمی معیار کی جانچ پر زور دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ اداروں کی خودمختاری اور تعلیمی معیار کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگنے والی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق، انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کی جانب سے مظاہرہ کرنا ایک "گدھ کا کام" تھا اور اگر سنگجانی میں جلسے کا انعقاد ہوتا تو پارٹی کی عزت بچائی جا سکتی تھی۔ فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے بانی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ایک خاتون کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس نے ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں وہاں سے فرار ہوگئی۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ پارٹی کی لیڈرشپ نے معلومات فراہم کی ہیں کہ یہ خاتون ان کے لیے مصیبت بن گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ علی امین گنڈا پور کی گرفتاری کا امکان نہیں، جبکہ بشری بی بی کی گرفتاری متوقع ہے۔ دوسری جانب، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس بات کا ذکر کیا کہ اگر پارٹی پر پابندی لگانے کا ارادہ ہے تو وہ اپنے ارادے پورا کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ ڈی چوک پہنچیں، جہاں وہ اپنی حکمت عملی پر مطمئن ہیں۔ گنڈا پور نے یہ بھی بتایا کہ اگر سیدھی فائرنگ کی گئی تو بشریٰ بی بی کی حفاظت ان کی ذمہ داری تھی، کیونکہ وہ ایک ماں کے درجے کی شخصیت ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ احتجاج کال آف کرنے کا مقصد مزید جانوں کو بچانا تھا اور بشریٰ بی بی پر احتجاج خراب کرنے کا الزام مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کی گرفتاری کے بعد بشریٰ بی بی کو نقصان پہنچتا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی؟ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی کال پر لاکھوں لوگ باہر نکلے اور دھرنا ایک سوچ اور فکر ہے، جس کا خاتمہ صرف پی ٹی آئی کے بانی ہی کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد: وزیر داخلہ محسن نقوی نے انہوں نے واضح کیا کہ 31 دسمبر کے بعد کسی بھی افغان شہری کو اسلام آباد میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور انہیں رہائش کے لیے این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) حاصل کرنا پڑے گا۔ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد اسلام آباد کو مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی کہ شہر میں اب کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 31 دسمبر کے بعد کسی بھی افغان شہری کو اسلام آباد میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور انہیں رہائش کے لیے این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) حاصل کرنا پڑے گا۔ ایک سوال کے جواب میں محسن نقوی نے کہا کہ کچھ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسپتالوں میں لاشیں موجود ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کرنے والے کسی ایک شخص کا نام بتائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرین کے پاس کیمرے تھے، اور انہیں یہ ثابت کرنے کے لیے ایک ویڈیو دکھا کر بتا دینا چاہیے کہ آیا مظاہرین نے کیا کچھ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ مظاہرین عزت سے واپس چلے گئے۔ محسن نقوی نے کہا کہ اگر مظاہرین کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کی کوئی فوٹیج ہے تو وہ بھی سامنے لائی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ وفاقی کابینہ کو گزشتہ 4 دن کی صورتحال پر بریف کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے اسلام آباد میں امن و امان کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ سچائی کا ساتھ دیں۔
جڑواں شہروں میں تعلیمی اداروں کی بندش کا سلسلہ جاری، بدھ کو بھی سکولز بند رہیں گے۔ اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے جاری احتجاج کے باعث جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں تیسرے روز بھی تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے طلبہ کی حفاظت کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا۔ بدھ کے روز شہر بھر میں تمام نجی و سرکاری اسکول اور کالج بند رہیں گے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن میں اس فیصلے کی توسیع کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ترجمان ضلعی انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے والدین سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجیں۔ یاد رہے کہ پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن نے بھی اتوار کو سکیورٹی کے خدشات کے باعث تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے مزید احکامات کی توقع کے ساتھ طلبہ اور والدین کو صورتحال کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پر ایک خوارج گروہ کی ملک میں دراندازی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق، ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کا گروہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کی موثر کارروائی میں مذکورہ خوارج کو ہلاک کیا گیا۔ مزید یہ کہ پاکستان نے بار بار موثر بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت پر زور دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین کو خوارج کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔ صدر مملکت آصف زرداری نے سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی پر ان کی تعریف کی اور تین خوارج کو ہلاک کرنے پر ان کی بہادری کو سراہا۔ آصف زرداری نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز ہمیشہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی سیکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے ملک سے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھی جائے گی۔ وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے افسران اور اہلکاروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تعریف کی اور انہیں سراہا کہ وہ ہمیشہ اپنے پیاروں سے دور رہ کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران، دہشت گردی کے حملوں میں فوج اور پولیس کے تقریباً 60 جوان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ کئی دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی یہ کوششیں ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے اہم ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مارکیٹس بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ مختلف سیکٹرز میں احکامات جاری کیے گئے ہیں جن میں سیکٹر ایف 10 اور ایف 11 بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق، جی 6، جی 7، جی 8 کی مارکیٹس بند کرنے کے احکامات بھی صادر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایف 6 اور ایف 7 کی مارکیٹس کو بھی بند کرنے کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یہ اقدامات امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے ڈی چوک پہنچنے پر ڈی چوک سے ملحقہ عمارتوں بشمول خبررساں اداروں کی عمارتوں کا خالی کروالیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا احتجاجی قافلہ، بشریٰ بی بی کی قیادت میں، خیبرپختونخوا سے سفر کرنے کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ گیا ہے، جہاں انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، مظاہرین نے اپنی جگہ پر قائم رہنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔ صورتحال کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی، پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغنے شروع کر دیے ہیں۔ یہ جھڑپیں جاری ہیں، اور صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے امن و امان کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب فیصلہ کرنے کا وقت آ چکا ہے، چاہے وہ آج ہو یا کل۔ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی سیاسی جماعت رہنے کے قابل نہیں رہی، مگر اسے فرصت فراہم کی گئی۔ اس کے نتیجے میں ایک خونخوار گروپ، جو سیاسی جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے، لاشیں گرا رہا ہے اور خون بہا رہا ہے، اور اب یہ گروپ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے بارے میں واضح اور دوٹوک فیصلے کی ضرورت ہے، کیونکہ مزید تاخیر مہنگی پڑ سکتی ہے۔ کیا ایسے گروہ جو بد امنی، لاقانونیت اور پاکستان مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، سیاسی جماعت کہلانے کے حق دار ہیں؟ عرفان صدیقی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ملکی تاریخ میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں رہی جو صوبائی طاقت کے ذریعے وفاق پر لشکر کشی کرے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کی گئی تھی، جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، اس کے بعد نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیردفاع خواجہ آصف اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کوئی بھی فیصلہ اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے کرے گی۔ اس کے علاوہ، سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے پشاور سے پی ٹی آئی کا قافلہ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں ڈی چوک پہنچ گیا ہے۔
لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے باعث لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں کو دوبارہ بند کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، رنگ روڈ کو آمدورفت کے لیے تاحکم ثانی بند کر دیا گیا ہے، جبکہ داتا دربار، شالامار اور راوی روڈ پر کنٹینرز رکھے گئے ہیں۔ موٹروے بھی گزشتہ تین روز سے ٹریفک کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر طویل قطاریں دیکھی جا رہی ہیں۔ رنگ روڈ کی بندش کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے اور شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہر کے مختلف حصوں جیسے کینال نہر، فیصل ٹاؤن روڈ، گارڈن ٹاؤن، فیروزپور روڈ، گلبرگ اور مزنگ روڈ پر بھی ٹریفک کی لمبی لائنیں لگ گئی ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی اور خارجی راستے بھی بند ہیں، جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ حکومت نے کشیدہ حالات پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد میں فوج طلب کر لی ہے تاکہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھی جا سکے۔
راولپندی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان سمیت 120 ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا عمل ایک بار پھر مؤخر کردیا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے سانحہ 9 مئی کے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل محمد فیصل ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل نے عدالت کو مطلع کیا کہ راستوں کی بندش کی وجہ سے ملزمان کا عدالت میں پیش ہونا ممکن نہیں ہے۔ نتیجتاً، عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں فرد جرم کی کارروائی کو 28 نومبر تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کارروائی ملزمان کی عدم حاضری کے باعث ملتوی کی گئی۔ راستوں کی بندش کی صورتحال کی وجہ سے آج لاہور سے راولپنڈی عدالت میں پیشی کے لیے شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر رہنما بھی پیش نہیں ہو سکے۔ 9 مئی کو عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا، جس کے نتیجے میں فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا۔ اس احتجاج کے دوران 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے، جبکہ لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر دھاوا بھی بولا گیا اور جی ایچ کیو کے ایک گیٹ کو بھی توڑا گیا۔ احتجاج کے بعد، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک بھر میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کیا تھا، جبکہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف متعدد مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔ عدالت میں مزید کارروائیاں آئندہ تاریخ پر متوقع ہیں، جس کا انحصار ملزمان کی پیشگی حاضری پر ہوگا۔
حامد خان کا وکلاء تحریک کے اعلان کا عزم، 30 نومبر کو پنجاب بھر سے وکلا کے اجتماع کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر حامد خان نے اعلان کیا ہے کہ 30 نومبر کو پنجاب بھر سے وکلا 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف تحریک کے لیے جمع ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ تحریک کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نہیں بلکہ وکلا کی تحریک ہوگی۔ حامد خان نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو وکلا کی جانب سے مکمل طور پر مسترد کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے نتیجے میں عدالتی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے، حالانکہ "ججز آتے جاتے ہیں، لیکن وکلا ہمیشہ لڑتے رہتے ہیں۔" پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرے، مگر موجودہ حکومت نے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ حکومت کی یہ خوفزدگی ایک بڑی کامیابی ہے، اور اس طرح سے جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جا سکتا۔ حامد خان نے سپریم کورٹ بار کے انتخابات پر "وائٹ پیپر" جاری کرنے کا اعلان بھی کیا، جس میں انہوں نے ایجنسیوں کی مداخلت اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔ انہوں نے خاص طور پر سندھ کے خوشحال خان اور خیبرپختونخوا کے حبیب قریشی کی فتح اور پھر دوبارہ گنتی کے دوران انہیں ہارنے کی بات کو اٹھایا، اور اس حوالے سے ان کے پاس تمام ثبوت موجود ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ تمام بیانات وکلا کی تحریک کی تیاریوں کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا مقصد آئینی ترمیم کے اثرات کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔
محب وطن پاکستانیوں کی جانب سے بشریٰ بی بی کے خلاف درج کروائے گئے مقدمات کی تعداد 7 ہوگئی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر قوانین کے تحت مزید مقدمات درج کیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمات کی تعداد 7 ہوگئی ہے۔ بشریٰ بی بی کے خلاف ڈیرہ غازی خان، راجن پور، ملتان، لیہ، گوجرانوالہ اور اوکاڑہ کے بعد اب تھانہ گکھڑ منڈی میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ وزیرآباد کے شہری سعید بٹ کی درخواست پر دائر کیا گیا ہے۔ متنازعہ بیان دینے پر بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمات کی تعداد اب 7 ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ بشریٰ بی بی نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ جب عمران خان مدینہ ننگے پاؤں گئے تو سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو کالز موصول ہونے لگیں، اور انہیں کہا گیا کہ ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں جو ملک میں شریعت ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بشریٰ بی بی نے یہ بھی کہا کہ ان کے خلاف زہر اُگلا گیا، اور بانی پی ٹی آئی کو یہودی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے لوگوں کو ورغلانے کے لیے نفرت انگیز بیان دیا۔ ڈی جی خان میں ایک مقدمہ غلام یاسین کی درخواست پر درج کیا گیا، جس میں بشریٰ بی بی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کیا۔ ملتان کے تھانہ قطب پور میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس میں بشریٰ بی بی پر مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کا الزام لگایا گیا ہے۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ ایک اور مقدمہ گوجرانوالہ میں بشریٰ بی بی کے خلاف دائر ہوا ہے، جس میں شکایت کی گئی کہ ان کا بیان پاک سعودی خارجہ پالیسی کے خلاف ہے، اور اسے سوچی سمجھی سازش قرار دیا گیا ہے، جس نے عوام کے جذبات مجروح کیے ہیں۔ اوکاڑہ میں بھی بشریٰ بی بی پر مقدمہ درج کرنے کی کارروائی جاری ہے، جس میں شہری مقصود احمد کی درخواست کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے بشریٰ بی بی کے بیان سے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور بشریٰ کو مختلف معاملات میں پارٹی کی مشاورت لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
راولپنڈی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کے احتجاج کی تیاری کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے سڑکیں بند کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک افسوسناک واقعے میں، ایک بزرگ شہری کو دوران سفر دل کا دورہ پڑا، لیکن شہر میں سڑکوں کی بندش کے باعث ایمبولینسیں بروقت پہنچ نہیں سکیں۔ بزرگ شہری کے بیٹے نے مجبوری کے عالم میں اپنے والد کو اپنی موٹر سائیکل پر اسپتال پہنچایا، جس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں شہریوں کی صحت اور زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، اور یہ ایک بڑی تشویش کا باعث ہے کہ ہنگامی صورتوں میں فوری طبی امداد مہیا نہیں ہو پا رہی۔ اس واقعے نے سڑکوں کی بندش کی مہم کے منفی اثرات کو اجاگر کیا ہے، جس پر شہریوں میں اضطراب اور بے چینی پائی جا رہی ہے۔
پشاور: سابق صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ حکومت کو عمران خان کو رہاکرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے تحریک انصاف کے پشاور سے نکلنے والے قافلے میں شرکت کے دوران بیان کی۔ عارف علوی نے کہا کہ "آج تک بانی پی ٹی آئی کی کوئی کال ناکام نہیں ہوئی۔ مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا ہے، اور اب حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لیے قدم اٹھانا پڑے گا۔" انہوں نے واضح کیا کہ ملک اور عدلیہ کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے اور بانی پی ٹی آئی نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ لوگوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ سابق صدر نے دعویٰ کیا کہ اگر الیکشن کے دن 70 فیصد لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ تھے تو آج 90 فیصد لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، "دنیا یہ سوال کر رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، اور میں بانی پی ٹی آئی کے لیے جان دینے کو تیار ہوں۔" دوسری جانب وفاقی وزیر احسن اقبال نے واضح کیا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا واحد راستہ عدالتی کارروائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ بےگناہ ہیں تو عدالت کے سامنے ثبوت دیں۔ اس موقع پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ تحریک انصاف نے آج اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا ہے، جس کے پیش نظر انتظامیہ نے دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف راستوں کو بند کر دیا ہے۔ تمام اہم راستوں پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ احتجاج کو کنٹرول کیا جا سکے۔

Back
Top