صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اسلام آباد میں ڈو آر ڈائی (Do or Die) احتجاج اور ممکنہ دھرنے کے لیے تاریخ دینا چاہتے ہیں، لیکن پارٹی کے سینئر رہنما انہیں قائل کر رہے ہیں کہ بغیر مناسب انتظامات اور فوائد و نقصانات پر غور کیے بغیر ایسے احتجاج کا اعلان نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق، پارٹی کے اکثر سینئر رہنما، جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں یا خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ ہیں، بھرپور احتجاج کے حامی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ شعلہ بیاں رہنماؤں کو بھی اندیشہ ہے کہ بھرپور احتجاج کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو سکتا ہے، جس سے پارٹی کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔
پی ٹی آئی کے تقریباً تمام سرکردہ ارکان صوبائی اسمبلی ڈو آر ڈائی احتجاج کے مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے نہ تو عمران خان کی رہائی میں مدد ملے گی اور نہ ہی پارٹی کو فائدہ ہوگا۔
ان ارکان نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے پارٹی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پارٹی کو بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور مزید رہنما اور کارکن گرفتار ہوں گے اور ان پر مقدمات درج کیے جائیں گے۔
انکے مطابق اگر حکومت احتجاج کے لیے فری ہینڈ دے بھی دے تو اس صورت میں بھی مظاہرین یا قیادت عمران خان کو جیل سے نہیں نکال سکتے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2014ء جیسے دھرنے کے لیے وسائل درکار ہیں، اور مناسب منصوبہ بندی اور وسائل کے بغیر دھرنا ممکن نہیں۔
انصار عباسی کے مطابق عمران خان کو قائل کیا جارہا ہے کہ انہیں مختلف مقدمات میں عدالتی ریلیف حاصل ہوا، اور رہائی قانونی و آئینی طریقوں سے ہی ممکن ہے۔
انکے مطابق بیرون ملک موجود کچھ پی ٹی آئی رہنما، جو روپوش ہیں یا جنہیں 8 فروری کے انتخابات میں کامیابی نہیں ملی، ڈو آر ڈائی احتجاج پر زور دے رہے ہیں اور فوری طور پر احتجاجی مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کی تاریخ کا اعلان چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے تصدیق کی کہ احتجاج کی حتمی کال پر پارٹی میں دو رائے موجود ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جب عمران خان تاریخ دیں گے، تو کارکنان تیاری کے بغیر بھی اس پر عمل کریں گے۔