سیاسی

مولانا فضل الرحمن کا پلڑا بھاری, ایک بار پھر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئے, اسلام آباد میں ان کی رہائشگاہ بنگلہ نمبر 7 پاکستان کی سیاست کا مرکز بن گیا,ہفتہ کے روز مولانا فضل الرحمن کی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات رات 9 بجے طے تھی۔ عدالتی اصلاحات کے لیے ممکنہ آئینی ترمیم کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومتی وفد بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا خواہش مند تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ پر مشتمل حکومتی وفد سے ملاقات شام ساڑھے 7 بجے طے ہوئی جبکہ پی ٹی آئی وفد کے ساتھ ملاقات رات 9 بجے طے تھی تاہم حکومتی وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات طویل ہوگئی اور رات کو 9 بج کر 20 منٹ پر پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچ گیا۔ عمر ایوب کی قیادت میں آنے والے پی ٹی آئی وفد کے قافلے کی پہلی گاڑی جس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خود سوار تھے، مولانا فضل الرحمان کے گھر کے اندر داخل ہوگئی جبکہ دوسری گاڑی میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کو جب موقع پر موجود صحافیوں سے پتا چلا کہ مولانا فضل الرحمان سے حکومتی وفد کی ملاقات جاری ہے تو وفد کی تمام گاڑیاں واپس مڑ گئیں اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان کے گھر کے اندر سے پیدل چلتے ہوئے فوراً باہر آگئے۔ پی ٹی آئی کے وفد میں شامل صاحبزادہ حامد رضا کا ایک پاؤں مولانا فضل الرحمان کے گھر کے اندر تھا اور دوسرا باہر تو پیچھے سے اسد قیصر کی آواز آنے پر وہ بھی مولانا کے گھر کے اندر داخل ہونے کے بجائے واپس لوٹ آئے۔اس دوران بیرسٹر گوہر اور شبلی فراز غصے میں بھی نظر آئے اور ان کا قافلہ مولانا کی رہائش گاہ سے واپس روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد حکومتی وفد مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ سے روانہ ہوا تو پی ٹی آئی کا وفد ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا,معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کے وفد کو حکومتی وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا علم تو تھا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی ملاقات کے طے شدہ وقت تک حکومتی وفد مولانا کی رہائش گاہ پر موجود رہے گا,دوسری جانب حکومت اور جے یو آئی ف کے درمیان معاملا ت طے نہ ہوسکے.
جنرل فیض کے ذریعے عمران خان کا احتساب ہوگا,پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سنبھالنے والے سینئیر سیاستدان جاوید ہاشمی نے دو ٹوک کہہ دیا طویل عرصے سے منظر عام سے غائب جاوید ہاشمی نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہامیرا عمران خان سے اختلاف یہ تھا کہ آپ جب بیساکھیوں پر اقتدار لیں گے تو ایک وقت آئے گا آپ بیساکھی ہوں گے اور وہ اقتدار رکھ لیں گے انکا کہنا تھا کہ آپ جیل میں بیٹھے ہوں گے اور آپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں، اور پھر وہی ہوا، آج عمران خان اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ میرا مؤقف صحیح تھا۔ جنرل فیض کے زریعے احتساب عمران خان کا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بالکل ہوگا، اور کسی کا ہوسکتا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2014 میں جب عمران خان نے جنرل راحیل شریف سے مذاکرات ہوگئے اور انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ چار حلقے کھولیں گے تو عمران خان واپس آئے اور ہماری میٹنگ بلائی تو میں نے کہا کہ آپ کو یقین دہانی مل گئی ہے آپ وکٹری پوائنٹ پر کھڑے ہوجائیں، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی آگے نہیں ہیں، میں نے کہا کہ کوئی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں پوری دنیا آپ کے ایک ایک لفظ کو سنے گی آپ کہیں کہ ہم نے چار حلقے کھلوا لئے ہیں، لیکن انہوں نے بات نہیں مانی اور کہا کہ آپ کو جانا ہے تو جائیں ہم پارلیمنٹ کی طرف جائیں گے، انہوں نے غلط کیا تھا اور اسی کی سزائیں وہ اس وقت تک بھگت رہے ہیں, آپ نے الیکشن کرا لئے، عوانم نے فیصلہ سنا دیا، اب تم عمران خان کو کہتے ہو کہ بیٹھ کر زردار اور نواز شریف نے مذاکرات کرو، وہ کر بھی لے گا تو نتیجہ صحیح نہیں آئے گا۔ جاوید ہاشمی نے کہا پاکستان میں 76 سال سے مارشل لاء ہے، بس شکلیں بدلتی رہی ہیں، ایک دن کیلئے بھی پاکستان سے مارشل لاء نہیں اٹھایا گیا، ہماری اسٹبلشمنٹ ہی ہمیشہ حکومت کرتی رہی ہے۔ جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ سے گرفتاریوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کچھ تو پارلیمان کا بھرم رکھا ہے، مجھے تو انہوں نے پارلیمنٹ لاجز میں میرے بیڈروم کے شیشے توڑ کر گرفتار کیا ، آٹھ دن تک آنکھوں پر پٹی باندھے رکھی اور آخر کار تئیس سال سزا دے دی,پارلیمنٹ کے اندر اس کا جب تقدس بحال نہ ہو، سپریم کورٹ اور اسپیکر کے احکامات کی بھی تعمیل نہ کی جائے تو یہ دہشتگردی کی بدترین مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ انصاف کو تاخیر کا شکار کرنے والی بات ہے، یہ اسپیکر کا ڈومین ہے، انہیں ایف آئی آر کٹوا کر انتہائی حد تک جاکر دفعات لگانی چاہئیں تھیں۔ بعد میں صحیح غلط دیکھتے رہتے۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ اسپیکر ایک کسٹوڈین ہیں اگر کسٹوڈین کے گھر کے اندر جا کر پکڑ سکتے ہیں تو بس فرق یہ رہ گیا ہے کہ اگلی مرتبہ پارلیمنٹ چلتی ہوئی ہوگی اور وہاں کے وزیراعظم کو اٹھا کر لے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپپیکر کی جو کمیٹی ہے اس میں عمران خان اور نواز شریف کو بٹھا دیں اور طے کرلیں کہ ہم آئین کے مطابق ہر قدم پر جو ہماری مخالفت میں آئے گا پارلیمنٹ کی مخالفت پر آئے گا اس کے خلاف جنگ لڑیں گے، میاں نواز شریف کبھی نہیں بیٹھیں گے کیونکہ انہیں ان کے حصے سے زیادہ ملا ہوا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی مدت ملازمت میں توسیع لیں گے یا نہیں اس حوالے سے خبریں زیر گردش ہیں, سیاسی رہنما بھی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں, عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ایک آدمی کی پینشن سے کیا ملک ڈوب جائے گا؟ آج قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان ہے، وہ اپنی عزت بچا لیں یا ایکسٹینشن لے لیں، ’یہ اپنی عزت بچا لیں یا تین سال لے لیں‘، انہیں تین سال مزید نوکری مل جاتی ہے تو پھر عزت نہیں رہے گی۔ شاہد خاقان عباسی نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کی مدت ملازت آج کیوں بڑھ رہی ہے اس پر اسمبلی میں بحث ہو نا، آئین کی ترامیم ایک دن میں ہوتی ہیں اس پر بحث نہیں ہوتی؟ اس پر تو چھ مہینے بحث ہونی چاہئیے اس کے محرکات دیکھنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا اسپیکر کو پارلیمنٹ سے گرفتاریوں کا معاملہ پریویلییجز کمیٹی کو بھیجنا چاہئیے تھا، کیونکہ پارلیمان کا استحقاق مجروح ہوا ہے, اسپیکر نے جو کمیٹی بنائی ہے وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھیجنا چاہئیے تھا اور ان کو فوری طور پر آئی جی سمیت تمام متعلقہ افراد کو طلب کرنا چاہئیے تھا، یہ اسپیشل کمیٹی کا کام نہیں ہے، قومی اسمبلی کے بڑے واضح رولز ہیں جنہیں جان بوجھ کر توڑا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب کمیٹیوں میں جائے گا، پانچ چھ مہینے وہاں چلتا رہے گا اور پھر ڈفیوز ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر گرفتار کرنا ہی تھا تو گیٹ پر کرلیتے ، 1990 کی بات ہے جب معراج خالد اسپیکر تھے، مجھے اور اعجاز الحق کو ایک ایس پی نے اسمبلی کے گیٹ پر اندر داخل ہونے سے صرف 15 منٹ روکا تھا، اِس پر اُس کا کرئیر ختم ہوگیا تھا۔ اسپیکر کے چارٹر آف پارلیمنٹ بنانے کی بات پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چارٹر آف پارلیمنٹ کیا ہوتا ہے، ہر چیز چارٹر بناتے رہتے ہیں، قانون موجود ہے آئین موجود ہے ، قوسمی اسمبلی کے رولز ہیں اس کو نافذ کریں ، اگر ٹھیک نہیں ہے تو اس میں ترمیم کرلیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ ختم کیا جائے, سابق وزیراعظم اور بانی تحریک انصاف عمران خان نے تمام پارٹی رہنماؤں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ختم کرنے کی ہدایت کردی صحافی زبیر علی خان کے ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ہی پارٹی رہنماؤں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ ختم کرنے کی ہدایت کردی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کو صرف اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ رابطے کی ہدایات دی تھیں,عمران خان نے گزشتہ ہفتے اسٹریٹیجی کمیٹی کو یہ پیغام دیا تھا کہ کسی رہنما کا بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹی یا ذاتی سطح پر رابطہ ہے تو وہ ختم کردیا جائے۔ عمران خان کے اس سخت مؤقف کی وجہ مذاکرات کی دعوت کے باوجود معاملات حل نہ ہونا اور بار بار یقین دہانیوں کے باوجود اس سے پیچھے ہٹنا بتایا جارہا ہے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے بھی پارٹی رہنماؤں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ختم کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کو دو تہائی اکثریت ملتے ہی آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جائے گا, حکومت کے پاس اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی خاطر آئین میں ترمیم کیلئے سینیٹ میں صرف تین ووٹ کم ہیں,رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا,انہوں نے تصدیق کی نہ تردید۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق اصرار کرنے پر عطا طارڑ نے کہا وہ وزیر قانون سے بات کرکے پھر رابطہ کریں گے لیکن یہ رپورٹ شائع ہونے تک انہوں نے رابطہ نہیں کیا,شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذریعے نے بتایا کہ حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہے، سینیٹ میں اکثریت کیلئے تین ووٹ کم ہیں جو کسی بھی وقت حاصل ہونے کی توقع ہے اور جیسے ہی تعداد پوری ہو جائے گی آئینی ترمیم پیش کرکے پارلیمنٹ سے منظور کرا لیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 179کے مطابق سپریم کورٹ کا جج 65؍ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، ماسوائے اس کے کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 195؍ کے مطابق، ہائی کورٹ کا جج 62؍ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، الا یہ کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ حکومت سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 68 کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہائی کورٹ کے ججز کے معاملے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65؍ سال کی جائے گی اور ایسا آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہو گا۔ چند ماہ قبل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حکومت کی جانب سے ججز سمیت ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے پر غور کیا جا رہا ہے۔ 7؍ مئی کو انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں خبر شائع ہوئی تھی کہ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اس خیال کو مسترد کیا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں مجوزہ توسیع ’’ایک خاص ادارے‘‘ کے فائدے کیلئے ہے، اور مزید کہا کہ اگر منظوری کی صورت میں اس اقدام کو تمام اداروں میں نافذ کیا جائے گا۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت سے متعلق تجاویز کو سختی سے مسترد نہیں کریں گے۔ اس کے بعد حکومت بار بار تردید کرتی رہی ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور ہے، جبکہ چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ وہ توسیع قبول نہیں کریں گے۔ موجودہ چیف جسٹس کی حالیہ آف دی ریکارڈ گفتگو سے متعلق قیاس آرائیوں کے حوالے سے صورتحال واضح کرنے کیلئے منگل کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’چیف جسٹس سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چند ماہ قبل وزیر قانون ان کے چیمبر میں ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون سے کہا کہ اگر یہ تجویز انفرادی ہے اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو وہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پونی جج اور اٹارنی جنرل موجود تھے۔
جنرل فیض حمید او پی ٹی آئی کے گٹھ جوڑ کی کہانی خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے، انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی کی سیاست میں بہت زیادہ ملوث تھے۔ انکے مطابق سابق جرنیل پی ٹی آئی قیادت کو مشورے دیتے تھے کہ پارٹی کو سیاسی طور پر کیسے فعال بنایا جائے۔ جنرل فیض اور عمران خان کے درمیان جیل کے عملے کے کچھ ارکان سمیت مختلف چینلز کے ذریعے رابطہ تھا۔ انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل کے عملے کے کچھ ارکان پہلے ہی اپنے بیانات قلمبند کرا چکے ہیں جن سے فیض عمران تعلق اور ان کے درمیان بالواسطہ بات چیت کی تصدیق ہوتی ہے,حکمران جماعت کے رہنمائوں بشمول بعض وزراء کی طرف سے متعدد مرتبہ کہے جانے کے برعکس، اس نمائندے کے ساتھ بات چیت میں تاحال کسی نے 9 مئی کے حملوں یا فوج میں بغاوت کرانے کی کسی کوشش میں جنرل فیض کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کی۔ سرکاری ذرایع کے مطابق جنرل فیض حمید گزشتہ دو برسوں کے دوران فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے والی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی رابطوں میں ملوث پائے گئے,آرمی ایکٹ کے تحت جنرل فیض کو ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی, لیکن انہوں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق فیض حمید ایسی سیاسی جماعت جسے فوج مخالف اور مئی کے حملوں میں ملوث سمجھا جاتا ہے ان کو مشورے دیے اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطوں میں بھی ملوث پائے گئے,جنرل فیض کی گرفتاری کے چند دن بعد دی نیوز نے خبر دی تھی کہ فیض حمید اور عمران خان 9مئی کے بعد اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد بھی ’’متعدد طریقوں‘‘ کے ذریعے رابطے میں تھے۔ ذرائع نے بتایا تھا کہ جنرل فیض کو فوجی حکام نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی قابل اعتراض سرگرمیوں کے حوالے سے ایک سے زیادہ مرتبہ خبردار کیا لیکن وہ باز نہ آئے۔ ایک سے زیادہ باخبر ذرائع نے اس نمائندے کو جنرل فیض کے عمران خان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے کے بارے میں بتایا۔ تاہم عمران خان نے جنرل فیض کی گرفتاری سے خود کو الگ کر لیا۔ سابق آئی ایس آئی چیف کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جب سے جنرل فیض کو آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اس وقت سے وہ اُن سے رابطے میں نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ’’زیرو‘‘ ہو جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کسی بھی آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دینے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان و عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر شاہد خاقان عباسی نے نجی خبررساں ادارے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف آئین و قانون کے تحت خود اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں لے سکتے تاہم اگر حکومت چاہے تو انہیں ایکسٹینشن دے سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ عمل ہےجو ہمیشہ ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، کسی بھی ادارے کے سربراہ کیلئےمدت ملازمت میں توسیع ہو نقصان دہ ہی ہوگی، جب قمر جاوید باوجوہ کو ایکسٹینشن ملی تو میں جیل میں تھا، عمران خان نے ایکسٹینشن دی اور فوج نے قبول کرلی، آپ فوج کو شرمندہ مت کریں اور قانون میں ترمیم بھی مت کریں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قانون میں ایسی ترمیم ہونی چاہیے کہ یہ معاملہ غیر معمولی عمل لگے، ہم نے اس کو معمول کا ہی عمل بنالیا ہے،ان معاملات میں ہمیشہ آئین بنانے والوں کی منشا کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ نواز شریف کی خاموشی سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس الیکشن کی حقیقت جانتے ہیں،دھاندلی کے حوالے سے میں کچھ نہیں کہتا تاہم نواز شریف بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں، ن لیگ کی جماعت بہت نیچے چلی گئی ہے اس تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دو کی بات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اقتدار کو عزت دیدی۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ ابھی پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ نہیں ہوا، بات چیت جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی خبررساں ادارے کے پروگرام"خبر" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی اگر دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو اداروں کو مضبوط کرے گی، کیا الیکشن کمیشن، عدلیہ اور دیگر اداروں کو مضبوط کرے گی؟ کیا پاکستان ایک نئی شروعات کرسکتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی اس لیے مشکل میں ہے کیونکہ ان کے قائد جیل میں ہیں، پی ٹی آئی پر جو غلط کیسز ہیں ان کا خاتمہ ہونا چاہیے، 9 مئی کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور ان معاملات کو سیاست کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی میں شمولیت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میراخیال ہے کہ ابھی انتظار ہی کرنا چاہیے، میں نے بھی اس حوالےسے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ن لیگ کے سابق رہنما محمد زبیر نے کہا کہ ن لیگ نہیں چاہتی کہ پی ٹی آئی کو اسپیس ملے کیونکہ ایسا ہوا تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی، پی ٹی آئی کہتی ہے کہ ن لیگ کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے تو ان سے کیسے بات کریں،سیاسی استحکام اس وقت آتا ہے جب عوام کی طاقت ساتھ ہو، مینڈیٹ کے بغیر ہی حکومت سازی ہونی ہے تو پارلیمنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ محمد زبیر نے کہا کہ ن لیگ الیکشن ریفارمز اور نئے الیکشن کی طرف جانا چاہیے، اگر ن لیگ ایسا فیصلہ کرے تو پی ٹی آئی کو بھی قبول ہوگا، عوامی مفاد کو مدنظر رکھا جائے تو ن لیگ کو یہ قربانی دینی چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ محسن نقوی بھائیوں کا بندہ ہے، مولانا سے ہونےو الی ملاقاتوں کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے تھوڑا جھجھک رہا ہوں کہ ان ملاقاتوں کے پیچھے کوئی اسٹیبلشمنٹ کا آشیرباد نا ہو۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال نے مولانا عبدالغفور حیدری سے مولانا فضل الرحمان کی صدر و وزیراعظم سے ہونےو الی ملاقاتوں میں محسن نقوی کی موجودگی سے متعلق سوال کیا تو مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ یہ بات زبان زدعام ہے کہ محسن نقوی بھائیوں کا بندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ محسن نقوی سے بہرحال مولانا فضل الرحمان اور میرے کچھ ذااتی تعلقات بھی ہیں،ہم ایک دوسرے کی شادی غم میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ملکی سیاست مولانا فضل الرحمان کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا ایک سیاسی سرچشمہ ہیں جہاں میٹھا چشمہ ہوتا ہے وہاں لوگ بھی آتے ہیں،ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ جے یو آئی ف حکومت کا حصہ بن جائے تاہم اس بات کا اظہاربراہ راست کسی حکومتی رکن کی طرف سے میرے سامنے نہیں ہوا،بس اتنی بات کہی گئی کہ موجودہ حالات میں سب کو ایک ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جیسے پوری سیاسی قیادت چل کر مولانا کے پاس آتی ہے اس سے لگتا ہے کہ ان کے پاس ملکی مسائل کا حل نہیں ہے،جہاں تک قانون سازی کی بات ہے تو ہم نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ ایسے قوانین جن پر ہمیں کوئی اختلاف یا اعتراف نہیں ہے تو ہم حکومت سے تعاون کریں گے، اگر کسی قانون پر ہمیں اختلاف ہوا تو ہم اپوزیشن کے ساتھ کھڑ ے ہوں گے۔ پروگرام میں میزبان نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے مولانا فضل الرحمان سے حالیہ رابطوں پر سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے ہمارا پرانا تعلق ہے، ملک کے موجودہ مسائل بحران کسی ایک سیاسی لیڈر ، ایک پارٹی یا ایک ادارے کے قد سے بڑے ہیں،اس بحران سے نکلنے اور ان مسائل کو دو ر کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم سب مل کر آگے بڑھیں۔ جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی کے درمیان ممکنہ اتحاد اور قانون سازی میں ایک دوسرے سے تعاون کے اعلانات سے متعلق سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت ملک کسی سیاسی کشیدگی اور خلفشار کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہم معاشی ریکوری کے فیز سے گزررہے ہیں،آج ہم نے جماعت اسلامی کے امیر سے بھی کہا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی پلان ہے تو ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو وسائل کی ضرورت ہے، ٹیکس وصولی کے معاملے پر سیاست کریں گے اور لوگوں کے جذباتوں پر تیل پھینکیں گے تو ہم کسی بھی طرح ملک کی خدمت نہیں کررہے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہماری طرف سے مولانا کیلئے حکومت میں شمولیت کی دعوت ہمیشہ سے موجود ہے،جیسے ہم نے 18 ماہ ایک ساتھ حکومت کی ہم چاہتے ہیں کہ آگے بھی ایسے ہی چلتے رہیں۔
سابق وزیراعظم وسربراہ عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی چینل اے بی این نیوز کے پروگرام بدلو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے دوراقتدار میں بہت کام کیا، ہر نظام کی کوئی ابتدا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے جولائی اور اگست 2018ء میں انکم ٹیکس ریٹ کو کم کیا۔ پاکستان میں اس وقت انکم ٹیکس ریٹ 5,10 اور 15 پر تھا اور آج 50 پرسنٹ پر ہے، پہلے قدم کے طور پر ٹیکس ریٹ گرایا تاکہ لوگ ٹیکس دینے کی طرف آئیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جس کسی شہری کے پاس شناختی کارڈ ہے وہ پوٹینشل ٹیکس پیئر ہے، وہ ذمہ داری شہری ہے، ووٹ ڈالتا ہے اس کے لیے ایک ایپ بنا دیں، ساڑھے 12 کروڑ شناختی کارڈ ہیں اور انکم ٹیکس 30 لاکھ ادا کر رہے ہیں۔ شہریوں کے لیے ایپ بنائی جائے جہاں وہ ریکارڈ میں آ جائے جس میں اگر اس کے پاس انکم نہیں ہے تو وہ کہہ دے میں کوئی انکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا جب شہری خرچہ کرے گا تو پتہ چل جائے گا کہ وہ ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہے یا نہیں، ساری دنیا میں یہی ہو رہا ہے، چین میں کرنسی بدل گئی ہے، وہاں کیش ٹرانزیکشن ختم ہو گئی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے، ٹیکس فائر وال بھی لگنی چاہیے ، فیصلے ہونے چاہئیں، ہمارا نظام تباہ ہو چکا ہے، ڈیلیور نہیں کر رہا، ملک کا ہر نظام فرسودہ، کرپٹ ہے جو ملکی مسائل حل کرنے کے بجائے عوام کیلئے تکالیف کا باعث ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا اپنی سیاسی جماعت بارے بات کرتے ہوئے کہا ہم سٹیبلش جماعتیں چھوڑ کر آئے ہیں اور پولیٹیکل پراسیس دیکھ رہے ہیں، پاکستان کی سٹیبلش جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ملک میں اس وقت سیاسی بحران ہے، موجودہ سیاسی لیڈروں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے، کچھ نہ کیا گیا تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی، عوام کسی پر بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سے بالواسطہ بات چیت کیلئے نون لیگ نے محمود خان اچکزئی سے رابطہ کرلیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ کو پارٹی قیادت نے اچکزئی سے بات کرنے کی ذمہ داری دی ہے,جبکہ نون لیگ کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ اس کے اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مذاکرات براہِ راست ہوں۔ رپورٹ کے مطابق اگر پی ٹی آئی کو لگتا ہے کہ اس کے حامی اور ووٹرز پی ٹی آئی کے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات کی حمایت نہیں کریں تو ایسی صورت میں نون لیگ نے مبینہ طور پر اچکزئی کے توسط سے پی ٹی آئی کو براہِ راست لیکن پس پردہ مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اچکزئی کو کہا گیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کریں جس کیلئے تحریک انصاف کو مذاکرات کیلئے کمیٹی نامزد کرنا چاہئے جو پس پردہ بات چیت کر سکے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور غیر فعال اپوزیشن کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان (ٹی ٹی اے پی) کے سربراہ محمود اچکزئی کو عمران خان اور پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا تاکہ ملک میں ’’سیاسی استحکام‘‘ لایا جا سکے، پارٹی کا ’’چوری شدہ‘‘ مینڈیٹ واپس لیا جا سکے اور پارٹی کے قید کارکنوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو حکومتی جماعتوں سے بات چیت کا مینڈیٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پی کے میپ کے چیئرمین کو مینڈیٹ دینے کے بعد عمران خان نے ایک سے زائد مرتبہ میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ اچکزئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے۔ تاہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان یا پی ٹی آئی سے بات کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے چند ہفتے قبل ایک پریس کانفرنس میں مذاکرات کیلئے 9 مئی کے حملوں پر عوامی معافی کی شرط رکھی تھی۔ فوجی ترجمان نے مزید کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں۔ عمران خان کے برعکس، محمود خان اچکزئی سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے حق میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاست پر بات چیت کے مخالف ہیں۔
ن لیگی ماضی میں جس ڈیلی میل پر جعلی خبروں کا الزام عائد کرتی رہی آج اسی کی خبریں شیئر کرنے لگی مسلم لیگ ن کے رہنما ماضی میں ڈیلی میل کو جعلی خبریں نشر کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہے مگر اب وہی لوگ ڈیلی میل میں شائع عمران خان سے متعلق خبر کو بڑھ چڑھ کر شیئر کررہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے ڈیلی میل نے سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے ایک خبر نشر کی جس میں عمران خان کیلئے "ڈس گریسڈ" کا لفظ استعمال کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے کئی رہنماؤں نے اس خبر کا سکرین شاٹ لے کر شیئر کیا اور بڑھ چڑھ کر اس معاملے کو اچھالنے کی کوشش کی۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ" ہمیں تو انگریزی نہیں آتی کوئی بتادے یہ کیا لکھا ہے"۔ ن لیگی رہنما حنا پرویز بٹ نے بھی اس خبرپرردعمل دیا اور کہا کہ عمران خان کو بین الاقوامی ذلت مبارک ہو۔ مسلم لیگ ن کیجانب سے اس معاملے کو اچھالے جانے پر سوشل میڈیا صارفین نے ن لیگ کو آئینہ دکھایا اور بتایا کہ وہی ڈیلی میل ہےجس نے ماضی میں نواز شریف سے متعلق خبریں شائع کیں اور ایسے ہی الفاظ نواز شریف کیلئے استعمال کیے، اس وقت ن لیگ ڈیلی میل کو جعلی خبریں شائع کرنےوالا اخبار قرار دیتی تھی۔ اینکر ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ ہمیں تو مریم اورنگزیب نے یہ بتایا تھا کہ ڈیلی میل فیک نیوز پھیلانےکی وجہ سے بدنام ہے اور بند ہونے والا ہے، آج یہی ن لیگ ڈیلی میل کو اخباروں کا ابا بنا کر پیش کررہی ہے۔ سلمان درانی نے اس معاملے پر ن لیگی رہنما بیرسٹر عقیل ملک کی پریس کانفرنس کا کلپ شیئر کیا اور کہا کہ بیرسٹر عقیل ملک موبائل سے ڈس گریسڈ کا اردو ترجمہ کرکے قوم کو بتارہے ہیں۔ ارم ضعیم نے ڈیلی میل کی نومبر 2019 میں نواز شریف سے متعلق شائع خبر کا سکرین شاٹ شیئر کیا اور مریم اورنگزیب کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس خبر کے ساتھ ڈیلی میل کے اس آرٹیکل کا بھی ترجمہ کروالینا۔ علی رضا نے مریم اورنگزیب کو جواب دیتے ہوئے نواز شریف سے متعلق ڈیلی میل کی خبریں شیئر کیں اور کہا کہ ہمیں انگریزی آتی ہے ، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ان خبروں میں کیا لکھا ہے۔ سحرش مان نے شریف خاندان سے متعلق غیر ملکی خبررساں ادارے میں شائع آرٹیکل کی نقل شیئر کرتے ہوئے کہا کہ چلیں یہ تو تسلیم کیا کہ یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور کوشش بھی نہیں کرتے، مریم اورنگزیب اپنے انگریزی ٹویٹس کے اتالیق فہد حسین سے پوچھ لیں اس خبر کا ترجمہ کیا ہے۔ صابر محمود ہاشمی نے بھی شریف خاندان سے متعلق شائع غیر ملکی خبریں شیئر کیں اور کہا کہ یہ وہی اخبار ہےجس نے شہباز شریف کے خلاف جعلی خبر شائع کی اور پھر معافی مانگی، تب عمران خان سمیت پی ٹی آئی والوں نے اس اخبارکو سب سے معتبر قرار دے کر بھنگڑے ڈالے تھے، آج اسی اخبار نے پی ٹی آئی کے مہاتما کو ڈس گرسیڈ وزیراعظم کہہ دیا ہے۔ Talal CH Source
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کی حمایت بڑھ گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق انوار الحق کاکڑ نے آج نیوز کے پروگرام"نیوز انسائٹ ود عامرضیاء" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ صوبے میں دہشتگروں کے حملے اتنے منظم کیسے تھے؟ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ حیران ہیں کہ دہشت گردوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا، اس وجہ سے صوبے کے عوام میں دہشتگردوں کی حمایت بھی بڑھ گئی ہے، یہ نکات قابل تشویش ہیں۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ 2022 کے دوران نیٹو اپنا بہت سا سامان یہاں چھوڑ کر خطے سے نکل گیا، اس سامان میں شامل چھوٹے ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ خطے میں پھیل گئی، یہ سامان پاکستان سے لر کر شرق قشط تک غیر ریاستی عناصر کے ہتھے چڑھ گیا اور آج دہشت گرد اسی سامان کی بنیاد پر مختلف ریاستوں کو چیلنج کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑی سی دھاندلی ہو تو قابل قبول ہے، لوگوں کو دھاندلی سے نہیں بلکہ دھاندلی کی شدت سے مسئلہ ہے، دھرنا سیاست یا دھرنا کلچر کا آغاز 2013 کے انتخابات کے خلاف ہوا، یہ کلچر کسی معاشی مسئلے یا دہشت گردی کے خلاف سامنے نہیں آیا۔ سابق نگراں وزیراعظم کا کہناتھا کہ عمران خان کی ٹیم سے کچھ توقعات تھیں جو پوری نہیں ہوسکیں، عمران خان نے بھی اپنے دور میں مسائل کو حل کرنے کے بجائے دکھاوے اور ذہن سازی پر زیادہ کام کیا، موجودہ حکومت کیلئے بھی کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں ہے، پیرومرشد کی حیثیت پی ٹی آئی کو نہیں دے رہا اور یہ حیثیت پی ڈی ایم کو بھی نہیں دے سکتا۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کارکنان انہیں واٹس ایپ پر دھمکی آمیز پیغامات بھیجتے ہیں نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا نے بتایا کہ مجھے واٹس ایپ پر مختلف ویڈیوز بھیج کر کہا جاتا ہے کہ آپ کا وہ حال کریں گے کہ آپ یاد رکھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کا 22 اگست کو اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ انتظامی بنیادوں پر منسوخ ہوا تھا، کسی سیاسی شخصیت نے علی امین گنڈاپور سے رابطہ نہیں کیا۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو کوئی بھی کریکٹر سرٹیفکیٹ دینے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ انہوں نے ماضی میں جو کچھ کیا ہے وہ ان کا پیچھا کررہا ہے, عدالتی نظام میں بہت سی تبدیلیاں ہونی چاہییں لیکن ہمارے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے نہیں۔ اس سے قبل رانا ثنا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کا رویہ پاکستان کی سیاست میں خلل ہے، پی ٹی آئی حقیقت تو ہے لیکن سیاسی جماعت نہیں، انہوں نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، وہ جب اقتدار میں تھے، اس وقت بھی کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے,جب وہ ہمارے خلاف مقدمات کر رہے تھے، ہم نے اس وقت بھی میثاقِ جمہوریت کی بات کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان پر اڈیالہ جیل میں سختیاں مزید بڑھا دی گئیں۔صحافی زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ جیل ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل میں تبادلوں اور حکام کی گرفتاریوں کے بعد کچھ سختیاں مزید بڑھائی گئیں,عمران خان کے سیل کے قریب جیل عملے کو جانے سے منع کردیا گیا عمران خان اب مکمل طور پر قید تنہائی میں ہیں۔ انکے مطابق اگر عمران خان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آواز لگا کر منگوا لیتے ہیں لیکن عملے کو عمران خان سے بات چیت کرنے سے سختی سے منع کردیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا عمران خان کو اب متعدد ضروریات کی چیزیں بھی مہیا نہیں کی جا رہی ہیں, مثلاً انہیں کتابیں، انگریزی اخبار ڈان وغیرہ اب پڑھنے کو نہیں دیا جارہا ہے,سابق وزیراعظم عمران خان پر پہلے بھی سختیاں تھیں,انہوں نے اس حوالے سے بات کرنے سے منع کیا ہوا تھا لیکن اب سختیاں مزید بڑھا دی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نہانے کے لیے ریت ملا پانی دیا جاتا ہے۔ بالٹی بھر کر رکھ دی جاتی ہے۔ جب ریت بیٹھ جاتی ہے تو عمران خان وہ پانی نہانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے سیل میں مین ہول کا ڈھکن بھی اب کھلا چھوڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے سیل میں بدبو پھیل جاتی ہے جبکہ کیڑے مکوڑے بھی سیل میں آتے ہیں عمران خان کی ملاقاتیوں کی تعداد بھی 6 سے کم کر کے اب 2 کردی گئی,وکلا کو بھی ملاقات سے روکا جاتا ہے۔ عدالت کے احکامات کے بعد ہی وکلا کو اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ سیاسی ملاقاتوں میں سیاست پر گفتگو کرنے سے روکا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اڈیالہ جیل میں مزید افسران کے تبادلے کر دیے گئے اور اب سختیاں بھی بڑھا دی گئیں,انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ہوں گے۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی گڈ گورننس کمیٹی کے ممبر قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر ٹارچر کیا جا رہا ہے,اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ہوئی ملاقات کے حوالے سے قاضی انور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوئی، اسلام آباد جلسے کو بانی پی ٹی آئی نے منسوخ کیا مگر ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جلسہ کسی کے کہنے پر ملتوی کیا گیا۔
اڈیالہ جیل کے افسران و دیگر عملہ کیوں تبدیل کیا گیا ؟صحافی زبیرعلی خان کے انکشافات زبیرعلی خان نے انکشاف کیا ہے کہ اس بار اڈیالہ جیل میں تبدیلی مریم نواز کے کہنے پر ہوئی ہے، لاڈلہ اعظم محسن نقوی اور میڈم مکھ منتری میں پھڈا پڑگیا ہے اور میڈم مکھ منتری نے محسن نقوی کی بھی بات نہیں سنی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعظم سواتی کی صبح سویرے مریم نواز سے ملاقات پریشانی کا باعث بنی ہے، مریم نواز نے کہا کہ اڈیالہ جیل تو ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے، محسن نقوی کون ہوتے ہیں جو ملاقاتیں کروارہے ہیں؟ہمیں آن بورڈ بھی نہیں لیا گیا، ہم سے پوچھا بھی نہیں گیا انکا کہنا تھا کہ اس وقت سے کافی بے چینی تھی، خاص طور پر لاہور میں تخت لاہور میں۔۔ ن لیگ میں بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ یہ صبح 7 بجے ملاقات وہ ملاقات تو نہیں جس کی وجہ سے ہم اقتدار میں پہنچے؟ زبیر علی خان نے کہا کہ ہوم سیکرٹری کی سرزنش کی گئی ہے کہ کیسے ہمارے علم میں لائے بغیر یہ ملاقات کروائی گئی ہے اور کہا کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں ہماری اجازت کے بغیر ملاقات کروانے والے؟ انکے مطابق اسکے بعد محسن نقوی نے مریم نواز سے بات کرنیکی کوشش کی لیکن انہوں نے انکی کوئی بات نہیں سنی۔
تجزیہ کار انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جنرل فیض حمید کے درمیان رابطے پر اہم انکشاف کردیا,اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پیر کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض سے اپنے رابطے کی تصدیق کی لیکن دوٹوک الفاظ میں کسی بھی غلط کام، 9 مئی کے واقعات یا پی ٹی آئی کی سیاست کسی تعلق ہونے کی تردید کی۔ رپورٹ کے مطابق ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا 9 مئی، پی ٹی آئی اور اس کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ بیرون ملک سے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا عموماً ان کیخلاف جو کچھ کہا جاتا ہے اور جو الزامات عائد کیے جا رہے ہیں وہ سب "مکمل طور پر بے ہودہ" باتیں ہیں۔ انہوں نے کہا میرا جنرل فیض کے کسی بھی معاملے سے کوئی تعلق نہیں, لیکن واضح کیا کہ جنرل فیض کے ساتھ ان کا سماجی رابطہ ہے انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے جنرل فیض کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شرکت کی تھی اور مختلف مواقع پر معمول کے مطابق نیک خواہشات اور خوشگوار باتوں کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے کہا ان کے اور ان کے خاندان کے شمالی علاقہ جات کے گزشتہ دورے کے موقع پر جنرل فیض نے بڑا خیال رکھا تھا, جب وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے اس وقت جنرل فیض اُن کے رجسٹرار سے ملاقات کرتے تھے اور کبھی کبھار صرف میرے لیے دیکھنے کے پیغامات ’’For Eyes Only‘‘ کے پیغامات بھیجتے تھے۔ ثاقب نثار نے واضح کیا جنرل فیض نے ان سے کبھی غیر منصفانہ یا غیر قانونی چیز طلب نہیں کی,وہ ہمیشہ میرا احترام کرتے تھے اور مجھ پر مہربانی کرتے تھے۔ تاہم ثاقب نثار نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ وہ 9 مئی, پی ٹی آئی کی سیاست یا بعض عناصر کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر لگائے جانے والے الزامات میں کسی بھی طرح سے ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں, وہ 5 ستمبر کو پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس نے یاد دلایا کہ گزشتہ سال جب زمان پارک لاہور کے ارد گرد موجود صورتحال کی وجہ سے اعتزاز احسن کو اپنے گھر پہنچنے میں مشکلات پیش آتی تھیں تو وہ میرے دفتر آتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اعتزاز کے علاوہ بعض اوقات خواجہ طارق رحیم بھی ان کے دفتر آیا کرتے تھے۔ لیکن یہ روابط خالصتاً سماجی نوعیت کے تھے, پیر کو دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے زیر حراست سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور سابق چیف جسٹس پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ حکام کی تحقیقات میں دونوں کے درمیان رابطے کی تصدیق ہوئی ہے۔ لیکن رابطوں کی نوعیت نہیں واضح ہوئی۔
معروف کاروباری شخصیت عمر فاروق کو بھی ہلال امتیاز کیلئے نامزد کردیا گیا ہے، عمر فاورق کو سماجی شعبے میں خدمات سرانجام دینے پر ہلال امتیاز دینے کی سفارش کی گئی۔ یہ وہی شخصیت ہیں جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کی توشہ خانہ میں ملنے والی گھڑی انہوں نے بیچی،انہوں نے گھڑی میڈیا کو دکھاتے ہوئےکہا تھا کہ سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کے ذریعے سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کی قریبی دوست فرحت شہزادی سے دبئی میں دو ملین ڈالر کے عوض خریدا۔ لیکن تحریک انصاف نے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ تحفے میں دی گئی گھڑی عمر فاروق نامی شخص کو نہیں بلکہ پاکستانی مارکیٹ کے ایک ڈیلر کو پانچ کروڑ ستر لاکھ روپے میں فروخت کی گئی تھی۔ عمرفاروق نے ایک اداکارہ صوفیہ مرزا سے شادی کی تھی، انکا پہلی بار نام عمران خان دور حکومت میں میں ایک ’انتہائی مطلوب‘ شخصیت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمر فاروق کے خلاف اپنی بیوی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے اور بچوں کو زبردستی چھیننے کے الزام میں اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انھیں اشتہاری بھی قرار دیا گیا تھا۔ اسی سلسلے میں ان کا نام دوبئی میں ہونے کی وجہ سے انٹرپول کی فہرست میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔ عمرفاروق چونکہ پی ڈی ایم کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے اسلئے انکا مشکل وقت ختم ہونا شروع ہوگیا۔ نئی حکومت آئی تو انٹرپول نے عمر فاروق کا نام اپنی لسٹ سے نکال دیا تھا جبکہ لاہور کی مقامی عدالت نے انھیں جعلی شناختی کارڈ بنوانے اور اپنی ہی بیٹیوں کو اغوا کے الزام سے بھی بری کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمر فاروق کا نام کس نےایوارڈ لینے والوں کو فہرست میں شامل کیا اور انہیں کن خدمات کے عوض ہلال امتیاز دیا جارہا ہے؟ عام آدمی پوچھ رہا ہے کہ انکی خدمات کیا ہیں؟ کیا انکی خدمات یہی ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ گھڑی سامنے لیکر آئے؟ سرکاری اعزازات کے حوالے سے ناموں کی منظوری کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انھیں یاد نہیں کہ انھوں نے عمر فاورق کا نام ایوارڈ لینے والوں کو فہرست میں شامل کیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت دی کہ ہر صوبے کی اس ضمن میں ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اپنی سفارشات ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی کو بھیجتی ہے اور ایوارڈ حاصل کرنے والے ناموں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی ناموں کو اپنے طور پر منتخب کر کے اس فہرست کو وزیر اعظم سیکریٹریٹ بجھوا دیتی ہے جہاں پر اسے حتمی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں بھی اس فہرست میں مختلف لوگوں کے نام شامل کیے یا نکالے جاتے ہیں۔ احسن اقبال سے جب یہ سوال گیا کہ عمر فاروق کا نام کونسی خدمات کی وجہ سے ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں ڈالا گیا تو احسن اقبال اس سوال کا جواب نہ دے پائے اور سارا ملبہ صوبائی سطح پر بنائی گئی سب کمیٹی پر ڈال دیا۔ جبکہ کمیٹی کے ایک رکن کی مختلف رائے ہے اسکا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس یا وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ہی اس فہرست میں تبدیلی نہیں کی جاتی بلکہ ایوان صدر میں بھی جب اس فہرست کو حتمی نوٹیفیکیشن کے لیے بھجوایا جاتا ہے ۔ ایوارڈ کیلئے نامزد کرنیکا طریقہ کار کیا ہے اور نامزد کرنے سے پہلے کیا کیا جاتا ہے؟اس پر کابینہ ڈویژن کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کی سماجی خدمات یا اگر وہ کوئی سرکاری ملازم ہو تو اس کا سروس ریکارڈ کو بھی چیک کیا جاتا ہے تاہم عمر فاورق کی سماجی خدمات کے بارے میں کوئی تفصیلات ابھی تک ریکارڈ پر نہیں آئیں۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے عمران خان اور جنرل فیض حمید کے درمیان رابطوں کا بڑا انکشاف کردیا, ذرائع نے دعویٰ کیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سے رابطے میں تھے, 9مئی کے بعد اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد بھی دونوں شخصیات ’’متعدد ذرائع‘‘ کے ذریعے رابطے میں تھے۔ ان ذرائع نے عمران خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان متعدد رابطوں میں سے ’’جیل نیٹ ورک‘‘، بعض سیاستدانوں اور دیگر کا حوالہ دیا۔ ذرائع سے جب پوچھا گیا کہ کیا اڈیالہ جیل کے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کی تازہ ترین گرفتاری بھی عمران خان اور جنرل فیض کے درمیان اسی طرح کے ’’متعدد ذرائع‘‘ کے سلسلے میں ہے، تو ذریعے نے ’’اثبات‘‘ میں جواب دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد اکرم کو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی جیل میں سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 20 جون کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ ان کی جگہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جوڈیشل طاہر صدیق شاہ کو پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کا سیکیورٹی سپروائزر مقرر کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق جنرل فیض کو ریٹائرمنٹ کے بعد قابل اعتراض سرگرمیوں پر فوجی حکام نے ایک سے زیادہ مرتبہ خبردار کیا تھا لیکن وہ باز نہ آئے۔ ایک سے زیادہ باخبر ذرائع نے اس نمائندے کو جنرل فیض کے عمران خان کیساتھ بلاواسطہ یا بالواسطہ روابط کے متعلق بتایا۔ فوجی حکام کی جانب سے جنرل فیض کی گرفتاری کے معاملے سے عمران خان نے فاصلہ اختیار کر لیا۔ منگل کو اڈیالہ جیل میں ان سے ملاقات کیلئے جانے والی ان کی ماہرین قانون کی ٹیم نے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل (ر) فیض کی گرفتاری فوج کا اندرونی معاملہ ہے اور ان کی جماعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاک فوج نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی، انکوائری پاک فوج نےفیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتا لگانے کیلئے کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔ فیض حمید سے پہلے بھی کئی ایسے افراد ہیں جن کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے، حال ہی میں میجر(ر) عادل راجہ، کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی، لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کا بھی کورٹ مارشل ہوچکا ہے مگر یہ کورٹ مارشل انکی غیرموجودگی میں ہوچکا ہے۔ میجر(ر) عادل راجہ، کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی، لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین ان دنوں لندن میں ہے اور ان پر فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کاالزام ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو میجر (ر) عادل فاروق راجہ کو 14 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ اسی طرح 9 اکتوبر 2023 کو کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو12 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر بھی وہی الزامات ہیں جو میجر(ر) عادل راجہ پر ہیں۔ ان کے ذاتی اثاثے ضبط کر لیے گئے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں میں بغاوت پر اکسانے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال جو کہ پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے،(2012) ان پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا لیکن انہیں ڈھائی برس بعد ہی رہا کردیا گیا۔ سال 2018 میں، نائیک محمد حسین جنجوعہ کو جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ سال 2012 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کا جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔ بریگیڈیئر علی خان کا 2012 میں حزب التحریر سے مبینہ وابستگی اور حکومت اور فوج کے خلاف سازش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا تھا، انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) شاہد بشیر کو حزب التحریر سے روابط کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا، ان پر شمسی ایئر بیس کے راز افشا کرنے سمیت جاسوسی کا بھی الزام تھا، انہیں 2011 میں مجرم قرار دیا گیا 3 سال کی سخت قید اور فوج سے نلانے جانے کی سزا سنائی گئی نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے پر میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر اللہ کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ 1995 میں، میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں سات سال قید کی سزا سنائی گئی،، انہیں اس سازش میں فوجی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنے اور اہم شخصیات کو قتل کرنے کے منصوبے شامل تھے۔ اسی سال 1995 میں بریگیڈیئر مستنصر اللہ کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ان پر بھی بے نظیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کاالزام تھا۔ انکے ساتھ ساتھ کرنل عنایت اللہ، کرنل محمد آزادسمیت 38 فوجی افسران کوسابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انکا کورٹ مارشل ہوا۔ آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی فروری 2019 میں مشکلات کا شکار ہوئے جب ان کی پنشن اور الاؤنسز واپس لے لئے گئے اور انہیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ وہ فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح کچھ فوجی افسران ایسے ہیں جن کا کورٹ مارشل تو نہیں ہوا لیکن انہیں قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا۔ ان میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر)حمید گل ، بریگیڈئیر رضوان اختر اور جنرل ضیاء الدین بٹ شامل ہیں۔ جنرل(ر)ضیاءاالدین بٹ کو 1999 کے مارشل لاء کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔۔جنرل ضیاالدین بٹ کے خلاف انکوائریاں ہوئیں مگر بعدازاں انہیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا اور اسکے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔

Back
Top