مولانا فضل الرحمن کا پلڑا بھاری, ایک بار پھر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئے, اسلام آباد میں ان کی رہائشگاہ بنگلہ نمبر 7 پاکستان کی سیاست کا مرکز بن گیا,ہفتہ کے روز مولانا فضل الرحمن کی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات رات 9 بجے طے تھی۔ عدالتی اصلاحات کے لیے ممکنہ آئینی ترمیم کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومتی وفد بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا خواہش مند تھا۔
مولانا فضل الرحمن کی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ پر مشتمل حکومتی وفد سے ملاقات شام ساڑھے 7 بجے طے ہوئی جبکہ پی ٹی آئی وفد کے ساتھ ملاقات رات 9 بجے طے تھی تاہم حکومتی وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات طویل ہوگئی اور رات کو 9 بج کر 20 منٹ پر پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچ گیا۔
عمر ایوب کی قیادت میں آنے والے پی ٹی آئی وفد کے قافلے کی پہلی گاڑی جس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خود سوار تھے، مولانا فضل الرحمان کے گھر کے اندر داخل ہوگئی جبکہ دوسری گاڑی میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کو جب موقع پر موجود صحافیوں سے پتا چلا کہ مولانا فضل الرحمان سے حکومتی وفد کی ملاقات جاری ہے تو وفد کی تمام گاڑیاں واپس مڑ گئیں اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان کے گھر کے اندر سے پیدل چلتے ہوئے فوراً باہر آگئے۔
پی ٹی آئی کے وفد میں شامل صاحبزادہ حامد رضا کا ایک پاؤں مولانا فضل الرحمان کے گھر کے اندر تھا اور دوسرا باہر تو پیچھے سے اسد قیصر کی آواز آنے پر وہ بھی مولانا کے گھر کے اندر داخل ہونے کے بجائے واپس لوٹ آئے۔اس دوران بیرسٹر گوہر اور شبلی فراز غصے میں بھی نظر آئے اور ان کا قافلہ مولانا کی رہائش گاہ سے واپس روانہ ہوگیا۔
کچھ دیر بعد حکومتی وفد مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ سے روانہ ہوا تو پی ٹی آئی کا وفد ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا,معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کے وفد کو حکومتی وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا علم تو تھا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی ملاقات کے طے شدہ وقت تک حکومتی وفد مولانا کی رہائش گاہ پر موجود رہے گا,دوسری جانب حکومت اور جے یو آئی ف کے درمیان معاملا ت طے نہ ہوسکے.