ججز ریٹائرمنٹ کی آئینی ترمیم، قومی اسمبلی میں 2 تہائی اکثریت حاصل

ansari1h1h133.jpg


انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کو دو تہائی اکثریت ملتے ہی آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جائے گا, حکومت کے پاس اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی خاطر آئین میں ترمیم کیلئے سینیٹ میں صرف تین ووٹ کم ہیں,رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا,انہوں نے تصدیق کی نہ تردید۔

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق اصرار کرنے پر عطا طارڑ نے کہا وہ وزیر قانون سے بات کرکے پھر رابطہ کریں گے لیکن یہ رپورٹ شائع ہونے تک انہوں نے رابطہ نہیں کیا,شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذریعے نے بتایا کہ حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہے، سینیٹ میں اکثریت کیلئے تین ووٹ کم ہیں جو کسی بھی وقت حاصل ہونے کی توقع ہے اور جیسے ہی تعداد پوری ہو جائے گی آئینی ترمیم پیش کرکے پارلیمنٹ سے منظور کرا لیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 179کے مطابق سپریم کورٹ کا جج 65؍ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، ماسوائے اس کے کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 195؍ کے مطابق، ہائی کورٹ کا جج 62؍ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، الا یہ کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

حکومت سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 68 کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہائی کورٹ کے ججز کے معاملے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65؍ سال کی جائے گی اور ایسا آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہو گا۔ چند ماہ قبل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حکومت کی جانب سے ججز سمیت ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے پر غور کیا جا رہا ہے۔

7؍ مئی کو انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں خبر شائع ہوئی تھی کہ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اس خیال کو مسترد کیا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں مجوزہ توسیع ’’ایک خاص ادارے‘‘ کے فائدے کیلئے ہے، اور مزید کہا کہ اگر منظوری کی صورت میں اس اقدام کو تمام اداروں میں نافذ کیا جائے گا۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت سے متعلق تجاویز کو سختی سے مسترد نہیں کریں گے۔ اس کے بعد حکومت بار بار تردید کرتی رہی ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور ہے، جبکہ چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ وہ توسیع قبول نہیں کریں گے۔

موجودہ چیف جسٹس کی حالیہ آف دی ریکارڈ گفتگو سے متعلق قیاس آرائیوں کے حوالے سے صورتحال واضح کرنے کیلئے منگل کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’چیف جسٹس سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چند ماہ قبل وزیر قانون ان کے چیمبر میں ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون سے کہا کہ اگر یہ تجویز انفرادی ہے اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو وہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پونی جج اور اٹارنی جنرل موجود تھے۔
 

farrukh77

Politcal Worker (100+ posts)
ansari1h1h133.jpg


انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کو دو تہائی اکثریت ملتے ہی آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جائے گا, حکومت کے پاس اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی خاطر آئین میں ترمیم کیلئے سینیٹ میں صرف تین ووٹ کم ہیں,رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا,انہوں نے تصدیق کی نہ تردید۔

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق اصرار کرنے پر عطا طارڑ نے کہا وہ وزیر قانون سے بات کرکے پھر رابطہ کریں گے لیکن یہ رپورٹ شائع ہونے تک انہوں نے رابطہ نہیں کیا,شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذریعے نے بتایا کہ حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہے، سینیٹ میں اکثریت کیلئے تین ووٹ کم ہیں جو کسی بھی وقت حاصل ہونے کی توقع ہے اور جیسے ہی تعداد پوری ہو جائے گی آئینی ترمیم پیش کرکے پارلیمنٹ سے منظور کرا لیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 179کے مطابق سپریم کورٹ کا جج 65؍ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، ماسوائے اس کے کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 195؍ کے مطابق، ہائی کورٹ کا جج 62؍ سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، الا یہ کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

حکومت سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 68 کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہائی کورٹ کے ججز کے معاملے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65؍ سال کی جائے گی اور ایسا آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہو گا۔ چند ماہ قبل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حکومت کی جانب سے ججز سمیت ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے پر غور کیا جا رہا ہے۔

7؍ مئی کو انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں خبر شائع ہوئی تھی کہ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اس خیال کو مسترد کیا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں مجوزہ توسیع ’’ایک خاص ادارے‘‘ کے فائدے کیلئے ہے، اور مزید کہا کہ اگر منظوری کی صورت میں اس اقدام کو تمام اداروں میں نافذ کیا جائے گا۔


وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت سے متعلق تجاویز کو سختی سے مسترد نہیں کریں گے۔ اس کے بعد حکومت بار بار تردید کرتی رہی ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور ہے، جبکہ چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ وہ توسیع قبول نہیں کریں گے۔

موجودہ چیف جسٹس کی حالیہ آف دی ریکارڈ گفتگو سے متعلق قیاس آرائیوں کے حوالے سے صورتحال واضح کرنے کیلئے منگل کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’چیف جسٹس سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چند ماہ قبل وزیر قانون ان کے چیمبر میں ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون سے کہا کہ اگر یہ تجویز انفرادی ہے اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو وہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پونی جج اور اٹارنی جنرل موجود تھے۔
ye wahi baba hai ju kehty thy ek seat nahi jeet saky gi pti in ko ju bola jata hai bolne ye bo, dayte hai in ki batoo ko na koi ab sunta hai na serious layta hai tout hai bus app sisat pk se bhi guzarish hai k in k articale post na post kia kare ab in ki koi rating nahi ab
 

Rizwan2009

Chief Minister (5k+ posts)
ضیاء الحق کی چھوڑی ہوئی غلاظتوں میں سے ایک غلاظت انصار عباسی بھی ہے جسے شریفوں کی غلیظ ترین نجاستیں بھی پاکیزگی نظر آتی ہیں۔