پاک فوج نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی، انکوائری پاک فوج نےفیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتا لگانے کیلئے کی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔
فیض حمید سے پہلے بھی کئی ایسے افراد ہیں جن کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے، حال ہی میں میجر(ر) عادل راجہ، کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی، لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کا بھی کورٹ مارشل ہوچکا ہے مگر یہ کورٹ مارشل انکی غیرموجودگی میں ہوچکا ہے۔
میجر(ر) عادل راجہ، کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی، لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین ان دنوں لندن میں ہے اور ان پر فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کاالزام ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو میجر (ر) عادل فاروق راجہ کو 14 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔
اسی طرح 9 اکتوبر 2023 کو کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو12 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر بھی وہی الزامات ہیں جو میجر(ر) عادل راجہ پر ہیں۔ ان کے ذاتی اثاثے ضبط کر لیے گئے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔
لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں میں بغاوت پر اکسانے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال جو کہ پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے،(2012) ان پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا لیکن انہیں ڈھائی برس بعد ہی رہا کردیا گیا۔
سال 2018 میں، نائیک محمد حسین جنجوعہ کو جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔
سال 2012 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کا جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔
بریگیڈیئر علی خان کا 2012 میں حزب التحریر سے مبینہ وابستگی اور حکومت اور فوج کے خلاف سازش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا تھا، انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) شاہد بشیر کو حزب التحریر سے روابط کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا، ان پر شمسی ایئر بیس کے راز افشا کرنے سمیت جاسوسی کا بھی الزام تھا، انہیں 2011 میں مجرم قرار دیا گیا 3 سال کی سخت قید اور فوج سے نلانے جانے کی سزا سنائی گئی
نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے پر میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر اللہ کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ 1995 میں، میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں سات سال قید کی سزا سنائی گئی،، انہیں اس سازش میں فوجی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنے اور اہم شخصیات کو قتل کرنے کے منصوبے شامل تھے۔
اسی سال 1995 میں بریگیڈیئر مستنصر اللہ کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ان پر بھی بے نظیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کاالزام تھا۔
انکے ساتھ ساتھ کرنل عنایت اللہ، کرنل محمد آزادسمیت 38 فوجی افسران کوسابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انکا کورٹ مارشل ہوا۔
آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی فروری 2019 میں مشکلات کا شکار ہوئے جب ان کی پنشن اور الاؤنسز واپس لے لئے گئے اور انہیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ وہ فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔
اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح کچھ فوجی افسران ایسے ہیں جن کا کورٹ مارشل تو نہیں ہوا لیکن انہیں قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا۔ ان میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر)حمید گل ، بریگیڈئیر رضوان اختر اور جنرل ضیاء الدین بٹ شامل ہیں۔
جنرل(ر)ضیاءاالدین بٹ کو 1999 کے مارشل لاء کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔۔جنرل ضیاالدین بٹ کے خلاف انکوائریاں ہوئیں مگر بعدازاں انہیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا اور اسکے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔