سیاسی

جنرل فیض حمید کی فوجی تحویل کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سابق وزیر زلفی بخاری نے بڑا دعوی کردیا,انہوں نے کہا شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے جنرل فیض حمید کا نام آرمی چیف کے لیے تجویز کیا تھا، جنرل فیض حمید کی گرفتاری فوج کا اندرونی معاملہ ہے، اسٹیبلشمنٹ کو ایسی حرکتیں نہیں کرنے چاہئیں جن سے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ زلفی بخاری نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں بتایا جنرل فیض حمید کا نام پی ٹی آئی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلمان شہباز نے وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل فیض حمید کا نام آرمی چیف کے لیے تجویز کیا تھا اور انہوں نے اپنی ترقی کے لیے لابنگ کی۔ زلفی بخاری نے کہا وزیراعظم شہباز شریف سے پوچھیں کہ جنرل فیض کا نام آرمی چیف کے لیے کس نے تجویز کیا تھا؟ میں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ ان کے بیٹے سلمان شہباز نے جنرل فیض حمید کے نام سفارش کی، ہر بندہ اپنی ترقی کے لیے لابنگ کرتا ہے، جنرل فیض کو پی ٹی آئی کے ساتھ جوڑنا غلط ہے۔ زلفی بخاری نے بتایا کہ میں کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کا بھی رکن ہوں۔ ہم انفرادی طور پر بھی ایک دوسرے سے رابطے کرتے ہیں۔ کبھی کسی رہنما نے ایسی بات نہیں کی کہ جنرل فیض حمید نے کوئی ہدایات دی ہوں۔ کور کمیٹی یا کسی بھی کمیٹی کو جنرل فیض حمید یا کسی اور جرنیل نے کوئی ہدایات نہیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل فیض کی گرفتاری اگر کرپشن کی وجہ سے ہے تو یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے لیکن کیا صرف جرنیل فیض حمید پر ہی الزام تھے، آرمی چیف کے اوپر الزامات نہیں تھے؟ یہ خوش آئندہ بات ہے کہ آرمی آفیسرز کا بھی احتساب ہو رہا ہے، جنرل فیض کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر فیض حمید کو اس لیے گرفتار کیا گیا جس طرح تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان کو ہدف بنانا ہے تو اس میں سے بھی کچھ نہیں نکلے گا۔ فیض حمید کی گرفتاری سے عمران خان کے ساتھ کوئی نئی چیز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تو اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو دیگر کیسز کا ہوا۔
سابق وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر(ر) حارث نواز نے کہا ہے کہ صرف فیض حمید ہی نہیں بلکہ ان کے غیر قانونی احکامات ماننےوالے افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض کے غیر قانونی احکامات ماننے والے افسران کے بھی کورٹ مارشل ہوں گے، اگر ان افسران پر عائد الزامات کی سنگینی کی نوعیت کم ہوگی تو انکوائری کے دوران ہی انہیں سزائی دی جاچکی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ جنرل فیض ایک سینئر آفیسر تھے اس لیے ان کا علیحدہ کورٹ مارشل ہورہا ہے،آرمی ایکٹ کے تحت سروس کے دوران آرمی کے کسی بھی اافسر کا اہلکاروں کو لوٹنا، ان کو مالی نقصان پہنچانا یا ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ناقابل معافی جرم ہے، ایسے جرم کیلئے وقت کی کوئی حد نہیں ہے، جب بھی شکایات آئے تو اس کا کورٹ مارشل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق دیا جاتا ہے، جی ایچ کیو میں ایک جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ موجود ہے، جہاں پر فوج کے لیگل برانچ کے کوالیفائیڈ لوگ بیٹھتے ہیں، وہ پوری چارج شیٹ کو دیکھ کر اس کو آرمی چیف سے منظوری کیلئے ارسال کرتے ہیں،دو الگ چارج شیٹ ہوں گی تو دو کورٹ مارشل ہوں گے، بہتر ہے کہ ایک ہی چارج شیٹ ہو۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے فیض حمید کے حوالے سے بڑا انکشاف کردیا, انہوں نے کہا پاکستان میں ہونے والے واقعات میں جنرل ر فیض حمید کا ضرور ہاتھ ہوگا، 9 مئی کے حالات و واقعات کی انگلی فیض حمید کی طرف اشارہ کررہی ہے,انہوں نے آرمی چیف بننے کے لیے لیگی قیادت کو پیغامات بھجوائے اور قسمیں بھی کھائیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا جنرل فیض حمید کا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی واقعات میں ہاتھ رہا، وہ باز آنے والے نہیں تھے۔ خواجہ آصف نے مزید کہا اگر 9 مئی کے واقعات میں مداخلت کی بات درست ہے تو یہ اکیلے جنرل فیض حمید کا کام نہیں ہوگا,فوج کا اندرونی احتساب کا نظام بہت موثر ہے، اور میرٹ پر انتہائی سخت فیصلے کیے جاتے ہیں,جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا تعلق بہت قریبی ہے، دونوں کے سسر قریبی ساتھی ہیں. خواجہ آصف نے کہا عمران خان کے دور میں جنرل فیض نے مجھے کہا تھا کہ ہم پہلے آپ کو پنجاب حکومت اور پھر مرکز بھی دے دیں گے۔انہوں نے کہاکہ آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت فیض حمید نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے رابطہ کیا تھا اور قسمیں کھا کر سر پر ہاتھ رکھنے کی اپیل کی تھی۔خواجہ آصف نے کہاکہ جنرل باجوہ نے اس وقت کہاکہ آرمی چیف کے لیے عاصم منیر اور فیض حمید کے علاوہ تیسرے نام پر اتفاق کرلیتے ہیں۔ فیض حمید 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ اس وقت عالمی منظرنامے پر نمایاں ہوئے جب 2021 میں افغانستان سے امریکی اور مغربی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے زمام اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد وہ کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے ہوئے فلمائے گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی آئی ایس پی آر کا بتانا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے، ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری، پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف کیے گئے ٹاپ سٹی کے کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے کی تھی۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ جنرل فیض پر سیاسی و صحافتی شخصیات کو قتل کروانےکی کوشش کرنے اور 9 مئی واقعات کی پلاننگ میں کردار ادا کرنے جیسے الزامات ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو حراست میں لیےجانے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کیےجانے کے بیان کے سامنے آنے کے بعد صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس حوالے سے اپنی آراء اور تجزیے پیش کیے ہیں۔ اسی دوران نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران اپنا تجزیہ میں ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ جنرل فیض حمید کو بظاہر سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ٹاپ سٹی کیس میں حراست میں لیا گیا ہو، مگر آئی ایس پی آر نے اشارہ دیا ہے کہ ان کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے شواہد ملے ہیں۔ حامد میر نے مزید کہا کہ فیض حمید کے خلاف تین چار دیگر کیسز بھی موجود ہیں جبکہ اس کے علاوہ کچھ دیگر معاملات میں بھی ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے، فیض حمید اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کرکے تحقیقات سے بچنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں،، انہوں نے اس دوران وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی بھی کی کوشش کی ، کچھ وفاقی وزراء نے بھی ان کی سفارش کی مگر شہباز شریف نے ان سے ملاقات سے انکار کردیا۔ سینئر صحافی نے انکشاف کیا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کافی عرصے سے تحقیقات جاری تھیں،اور ان کو مانیٹر کیا جارہا تھا ، تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ وہ 9 مئی کو ہونے والی بغاوت کی پلاننگ کا حصہ تھے، بغاوت کی کوشش میں بھی ان کے مشورے شامل تھے۔ حامد میر نے کہا کہ یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ جب جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے کچھ سیاستدانوں اور کچھ صحافیوں کو قتل کروانے کی کوشش کی اور اس حوالے سے باقاعدہ ثبوت بھی سامنے آگئے ہیں، وہ عمران خان کے ساتھ بھی ڈبل گیم کررہے تھے، انہوں نے آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر خود کو اس عہدے کیلئے پیش کیا اور وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو قائل کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔
آئین تو مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی غیرموثر ہو چکا تھا: حامد میر سینئر صحافی وتجزیہ کار حامد میر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں 12 جولائی 2024ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے کے بعد حکومتی جماعتوں کی طرف سے کی جانے والی تنقید اور اقدامات پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں پاک چائنہ سنٹر میں علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف کی تعریفوں کے ساتھ بہت اہم باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے علماء کنونشن میں سب سے اہم بات کی کہ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتا ہم اسے پاکستانی تسلیم نہیں کرتے، آئین کے حوالے سے یہ ان کی انتہائی اہم سٹیٹمنٹ ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آئین کو کون نہیں مانتا؟ پاکستان کا آئین پچھلے ڈیڑھ سے تقریباً 2 سال سے غیرموثر ہے۔ جب پنجاب و خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آ ئین کے مطابق 90 دنوں کے اندر انتخابات کروائے جائیں اور انتخابات نہیں ہوئے، اس وقت بھی کسی کو خیال کرنا چاہیے تھا کہ آئین پر عملدرآمد بہت ضروری ہے اور جو آئین کو نہیں مانتا وہ پاکستان کو نہیں مانتا۔ آئین کی خلاف ورزی کا سلسلہ تو 12 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے سے ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب موجودہ حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتی تو یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے بھی پی ڈی ایم کی حکومت میں بہت دفعہ ایسے ہو چکا ہے۔ آئین پر عملدرآمد نہ ہونے کے نتیجے میں ملک کا نوجوان انتخابی سیاست اور ریاست سے ان کا اعتماد واعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتی اور پارلیمنٹ کے ذریعے متبادل قانون سازی کر دی ہے تو صاف سی بات ہے یہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے، دونوں ادارے لڑ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے سیاسی مفاد پر زد پڑ رہی ہے تو یہ لڑیں آپس میں لیکن اس سے پاکستان مضبوط ہو گا نہ ہی عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ منصور علی شاہ صاحب جانیں یا وزیراعظم شہبازشریف جانیں، اگر آپس میں لڑیں گے تو ہو سکتا ہے شہباز شریف کا اقتدار کچھ دن کیلئے بڑھ جائے لیکن گراؤنڈ پر جو صورتحال نظر آرہی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی اگر عملدرآمد نہیں ہو گا تو پھر وہ تمام ادارے جو اپنے آپ کو طاقتور سمجھتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی بھی اس ملک میں کوئی عزت نہیں کرے گا۔
جاوید چوہدری نے انکشاف کیا کہ نوازشریف آج کل ڈپریشن کا شکار ہیں، انکا کوئی دوست ہے ہی نہیں، وہ بہت لمیٹیڈ اور اکیلے آدمی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے پاس دور دور تک کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو انکی دلجوئی کرسکے، انکے ایشوز کو سمجھ سکے،جو انکو مشورہ دے سکے۔ جاوید چوہدری نے کہا کہ میاں نوازشریف ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں، وہ ڈپریس ہوچکے ہیں،انکی بار بار حکومت ختم کی گئی، انکو اقتدار سے نکالا گیا، انکے خاندان کو جیلوں میں دھکے دئیے گئے، پورے خاندان کو ملک سے باہر دھکیلا گیا۔ جاوید چوہدری نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو بیانیہ 4 سال سے پلا ہے کہ نوازشریف چور، نوازشریف چور اور انکے گھر کے باہرجو گالی گلوچ کی گئی ہے، جو مظاہرے کئے گئے ہیں، اس نے نوازشریف کو اندر سے توڑ دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ بڑا عجیب محسوس کرتے ہیں جب وہ باہر جاتے ہیں، انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی آدمی آکر انکے ساتھ بدتمیزی کرجائے۔
اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جلد رہا نہ کیا گیا تو اڈیالہ جیل کی جانب مارچ کریں گے ایسا کہنا ہے کہ رہنما پی ٹی آئی حماد اظہر, انہوں نے صوابی میں جلسے سے خطاب میں کہاستمبر تک اگر انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو رہا نہیں کیا تو اڈیالہ جیل تک لانگ مارچ ہوگا۔ حماد اظہر کی اس وارننگ کو شہریار آفریدی نے زبان کا پھسل جانا قرار دے کر دفاع کی کوشش کی, انہوں نے کہا حماد اظہر اسلام آباد تو آئیں گے اڈیالہ جیل مارچ سلپ آف ٹنگ ہوسکتا ہے, حماد اظہر اپنے جارحانہ بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں,پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر اپنے بیان کو پارٹی رہنماوں کی جانب سے اڈیالہ جیل کی جانب مارچ کے بیان کو زبان پھسل جانا قرار دینے کو مسترد کر دیا کہا اگر عمران خان کو جلد رہا نہ کیا گیا تو خلق خدا کو اڈیالہ جیل کی جانب مارچ سے کوئی نہیں روک سکے گا, کوئی زبان کی لغزش نہیں تھی ہم عمران خان کی رہائی کے لیے پُرامن لانگ مارچ کریں گے ۔۔ پی ٹی آئی پنجاب کے قائمقام صدر حماد اظہر نے کہا اڈیالہ جیل کی طرف لانگ مارچ اور دھرنا بھی ناگزیر ہے اور پنجاب کی تمام قیادت، اراکین اسمبلی ، ٹکٹ ہولڈر ، تنظیم اس امر کیلئے تیار ہے۔ حماد اظہر نے ”ایکس“ پر اپنے ٹوئٹ میں لکھا بانی چئیرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر باہر نکل رہے ہیں، چئیرمین کی ہدیات پر 13 اگست کی رات پورا پنجاب باہر نکلے گا، پنجاب پاکستان کی آزادی کی خاطر ہر جگہ باہر نکلے گا۔ سردار لطیف کھوسہ نے حماد اظہر کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا میں بھی اس موقف سے پوری طرح متفق ہوں بلکہ اب یہ پورے پنجاب کی آواز ہے جس کی نمائندگی حماد اظہر کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ماضی کے بیانات سامنے آگئے جس میں انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب غدار تھا نہیں اسے غدار بنایا گیا۔ نو جنوری 2018 کو نواز شریف نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کا حامی تھا لیکن اسے باغی بنایا گیا، پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ جدوجہد بنگالیوں نے کی لیکن ہم نے انہیں دھتکار دیا اور اپنے سے علیحدہ کردیا، جس کا نتیجہ ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان تمام معاملا ت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ 1971 میں ہم نے ایسا کیا کیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور یہ وہی لوگ تھے، جنہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکا پر جسٹس حمود الرحمٰن نے جو کمیشن بنایا اس میں ہر چیز کا تفصیلی جائزہ لیا اور سچی رپورٹ شائع کی لیکن ہم میں سے کسی نے اس رپورٹ پر عمل نہیں کیا، اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج کا پاکستان مختلف ہوتا۔ نوازشریف نے اس بات کو بار بار دہرایا اور 5 جون 2018 کو نوازشریف نے کہا کہ شیخ مجیب کیساتھ آپ نے کیا سلوک تھا، اکثریت کو آپ نے رد کیا اور مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے پر مجبور کیا اور بنگلہ دیش بنادیا۔ نوازشریف نے 2020 میں گوجرانوالہ میں بھی تقریر کرتے ہوئے اپنے اسی موقف کو دہرایا اور کہا کہ شیخ مجیب کو غدار قرار دینے کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا۔
انصار عباس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا خیال ہے سنی اتحاد کونسل کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کیخلاف کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے نہ صرف کمیشن کے آئینی کردار کو بری طرح متاثر کیا بلکہ آئین کے متعلقہ آرٹیکلز اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی شقوں کو بھی بے معنی کر دیا۔ انصار عباسی نے رپورٹ میں بتایا کہ باخبر ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے اندرونی بحث و مباحثے میں یہ بات کہی ہے کہ فیصلے سے کمیشن کے فرائض اور کام براہ راست اور منفی طور پر متاثر ہوئے, سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے اب کسی پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 کے تحت ضروری تصدیق کے بغیر ہی کامیاب قرار دینا ہوگا۔ سیکشن 66 میں لکھا کہ پارٹی وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے کیلئے الیکشن لڑنے والا امیدوار انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے قبل، ریٹرننگ آفیسر کے سامنے کسی مخصوص سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی کے بارے میں سیاسی جماعت کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ یہ ثابت کرے گا کہ وہ اِس حلقے سے اُس پارٹی کا امیدوار ہے, پارٹی کے امیدواروں کی فہرست، جو آئین کے آرٹیکل 51(6) اور آرٹیکل 106 اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت کوئی پارٹی عہدہ نہ رکھنے والے شخص کی طرف سے جمع کرائی گئی ہے، کو بھی اب تسلیم کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کےمطابق کمیشن کے کام کاج، فرائض اور اختیارات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات سمجھنے کیلئے آئین اور قانون کے تحت کمیشن کے کاموں، فرائض اور اختیارات کو جاننا بہتر ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ قانون اور آئین کے مطابق الیکشن کمیشن صرف ان سیاسی جماعتوں کو فہرست میں شامل کرتا ہے جو سیکشن 201، 206، 208 اور 210 کی شرائط کو پورا کرتی ہیں اور اپنے اندرونی معاملات کو منظم رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو فعال رہنے کیلئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ضرورت ہے۔ یہ تنظیمی ڈھانچہ ہے جس میں سیاسی جماعت کے سربراہ اور دیگر عہدیدار شامل ہوتے ہیں۔
بانی تحریک انصاف عمران اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بداعتمادی، کشیدگی کے خاتمے کے خواہاں ہیں, انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کردیا۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم اعتماد اور کشیدگی ختم ہو۔ انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کچھ رہنمائوں کو اس معاملے پر کام کی اجازت دی,چیئرمین پی ٹی آئی بیریسٹر گوہر علی خان نے رابطہ کرنے پر اس بات کی تردید نہیں کی,ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان، پی ٹی آئی اور فوج کے بہترین مفاد میں ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غلط فہمی، بداعتمادی اور کشیدگی کا ماحول ختم ہو۔ انہوں نے کہا عمران خان کی ملک کیلئے پاک فوج کی اہمیت کے حوالے سے رائے سبھی جانتے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی یا فوج کے۔ جتنا جلد یہ کشیدگی ختم ہوگی اُتنا ہی سب کیلئے اچھا ہوگا۔ اسی دوران پارٹی ذرائع نے کہا کہ کچھ پارٹی رہنمائوں بشمول بیریسٹر گوہر پارٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے ہر ممکن امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں,پارٹی کے دانشمند حلقے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے پریشان ہیں، اور اپنی پس منظر کی بات چیت میں وہ اتفاق کرتے ہیں کہ پارٹی سوشل میڈیا نے پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غلط فہمیاں اور کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کی اس خواہش میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پارٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات شروع کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اپنی موجودہ پوزیشن سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیریسٹر گوہر اور کچھ دوسرے رہنما اس صورتحال کو ہنگامی بنیادوں پر تبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہیں جس کا سامنا گزشتہ دو سال کے دوران پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے۔ ایک ذریعے نے کہا، ’’ہم دونوں کے درمیان بداعتمادی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کو عمران خان کے ’’نیوٹرل‘‘ رہنے کے حالیہ پیغام کے حوالے سے ذرائع نے واضح کیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نہیں چاہتے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ دے۔ ذرائع کے مطابق.ہم چاہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دور رہے۔ پی ٹی آئی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے خواہشمند پارٹی رہنمائوں کیلئے یہ ایک چیلنج ہے کہ پارٹی کے جلتی پر تیل ڈالنے والے سوشل میڈیا کو کیسے روکا جائے۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ پاکستان سے باہر بیٹھے کچھ لوگ اپنی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس سے پی ٹی آئی اور عمران خان دونوں کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں,گزشتہ دو برسوں میں پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیر معمولی محاذ آرائی دیکھنے میں آئی ہے۔ دونوں کے درمیان چند سال پہلے تک کے بہترین تعلقات کے مقابلے میں آج دونوں ایک دشمن کی طرح آمنے سامنے کھڑے ہیں۔
سلیمان شہباز کے آئی پی پی کو 3 ماہ میں 63 کروڑ سے زائد کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگیاں کرنے کی خبریں تھیں, وزیراعظم کے بیٹے کے"چنیوٹ پاور لمیٹڈ" نامی آئی پی پی کو جنوری2024 میں63فیصد کپیسٹی پر 30.8کروڑ، فروری میں 65فیصد کپیسٹی پر 23.1کروڑ جبکہ مارچ میں 27فیصد کپیسٹی پر 9.99 کروڑ "کپیسٹی پیمنٹس" کی مد میں ادا کئے گئے. سلیمان شہباز نے وضاحت کے لئے ٹوئٹ میں لکھا بگاس ٹیرف میں کوئی کیپیسٹی پیمنٹ نہیں ہے,ادائیگی گرڈ کو فراہم کیے گئے یونٹس کی بنیاد پر کی جاتی ہے, اگر پلانٹ کام نہیں کر رہا ہو تو کسی قسم کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ لہذا، یہ سراسر بے بنیاد ہے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ بگاس پلانٹس کو کبھی کوئی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بَگاس ایک مقامی ایندھن ہے، یہ گنے کے فضلے سے چلتا ہے جو کہ خالص پاکستانی مقامی ایندھن ہے، ان پلانٹس میں کوئی درآمد شدہ ایندھن جیسے کہ فرنس آئل، کوئلہ یا گیس استعمال نہیں ہوتی، پی ٹی آئی کے غنڈوں کی یہ باتیں سراسر بے بنیاد ہیں۔ خواجہ آصف نے لکھا اس پلانٹ کی کپیسٹی 62 میگاواٹ ہے جو ہماری ٹوٹل بجلی پیدا کرنے کی استطاعت کا 1فیصد سے بھی کم ھے اور کوئ کیپیسٹی پیمنٹ نہیں, اسکے علاوہ شہباز شریف کی فیملی کا کوئی پاور پلانٹ نہیں۔ اسطرح کے اور پلانٹ پاکستان میں لگنے چاہئیں جسکا فیول لوکل ھو اور کو ئی کیپیسٹی پے منٹ نہ ھو۔
سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے اسلام آباد سیکرٹریٹ سے اٹھائے گئے کمپیوٹر سے کرسٹینا لیمب کے وہ سوالات برآمد ہوئے ہیں جو زلفی بخاری نے احمد جنجوعہ کو بھیجے تھے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار نصرت جاوید نے پبلک نیوز پر اپنے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں انتہائی ذمہ داری سے یہ بتارہا ہوں کہ پی ٹی آئی اسلام آباد سیکرٹریٹ سے جو کمپیوٹر اٹھایا گیا ہےاس کے ریکارڈ میں زلفی بخاری کیجانب سے احمد وقاص جنجوعہ صاحب کو بھیجے گئے سوالات برآمد ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ سوالات سنڈے ٹائمز کی کرسٹینا لیمب کے اس انٹرویو میں پوچھے گئے تھے جس کا بہت چرچا ہوتا رہا ہے، زلفی بخاری کو ایک وسیلہ چاہیے تھا جس کے ذریعے وہ عمران خان کو یہ بتاسکتا کہ کرسٹینا لیمب نے یہ سوالات پوچھنے ہیں۔ عمران خان کے اس سے پہلے بھی گئی دوسرے بین الاقوامی خبررساں اداروں میں انٹرویوز چل چکے ہیں مگر کرسٹینا لیمب کو دیئے گئے انٹرویو کے اثرات بہت زیادہ ہیں کیونکہ کرسٹینا لیمب کو پاکستان کا ایک بڑا ایکسپرٹ مانا جاتا ہے۔ نصرت جاوید کے اس تجزے پر سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا کسی صحافی کا سوالات بھیجنا فوجداری جرم ہے؟ اور جس کو سوالات بھیجے گئے اس کو اس بات پر جیل بھیج دیا جائے؟ کمال کا جرم ہے ویسے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بنوں میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ بنوں میں جو کچھ ہوا عمران کی سرپرستی میں ہوا ہے، یہ اب اسپیس لینے کی کوشش کررہے ہیں مگر کوئی اب ان پر اعتبار نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اقتدار کے بغیر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں، آپ ان سے کسی بھی بات کی توقع کرسکتے ہیں، اعتراف ان کا سیاسی بیانیہ ہے، یہ معافی تلافی چاہتے ہیں ، ابھی تو انہوں نے اعتراف کیا ہے یہ پیروں میں بھی پڑجائیں گے کیونکہ یہ اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بنوں میں حملے کی ہدایات دینے والے کیسے کوئی پاکستانی ہوسکتا ہے؟ یہ سب عمران خان کی سرپرستی میں ہوا ہے، انہوں نے ہر جگہ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے، یہ تلملائے ہوئے لوگ ہیں ، ملک بیچنے سے بھی نہیں کترائیں گے، اگر عمران خان معافی مانگ لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا، انہوں نے اوورسیز ایکٹیوسٹس کی پوری فوج بھرتی کررکھی ہے، ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ پاکستانی پاسپورٹس رکھنے والوں کے حقوق سلب کیے جائیں، ابھی تو ترلوں کی ابتداء کی ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن نے اہم انکشاف کردیا,انہوں نے بتایا کہ اٹک جیل میں زمین پر کیڑے چھوڑے گئے، بانی پی ٹی آئی بالوں سے کیڑے نکالتے تھے نجی چینل کے پروگرام پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن نے کہا اٹک جیل میں بانی پی ٹی آئی کو سونے کے لیے چٹائی بھی نہیں دی گئی تھی اور زمین پر کیڑے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ہر ہفتے ان سے ملتا ہوں وہ اپنی ذات کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ رؤف حسن کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی نے یہ باتیں بتائی ہیں تو بہت اچھا کیا، دیکھیں گے ہماری لیگل ٹیم اس سلسلے میں کیا کرسکتی ہے۔ ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن پر ہمیں 23 جولائی کو طلب کیا ہے، چیف الیکشن کمشنر کیخلاف ریفرنس ہمیں پہلے دائر کرنا چاہیے تھا تاخیر ہوئی۔ رؤف حسن نے بتایا کہ قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ ابھی ریفرنس نہ دیں کیسز چل رہے ہیں۔ایڈہاک جج سے متعلق انہوں نے کہا کہ دو ججز نے آج حلف اٹھایا ان میں سے ایک جج نے معذرت کرلی تھی، 8-5 کے فیصلے کی تفریق کو واپس کرنے کے لیے ایڈہاک ججز لائے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے جس بینچ نے فیصلہ دیا وہی نظرثانی سن سکتی ہے، اس عدالت میں بہت کچھ ہوتا رہا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ تبدیلی کی کوشش کریں۔رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ 13 ججز کی بجائے 17 ججز بٹھائیں ان میں سے 4 ایڈہاک ججز ہوں۔
حکومت اور پی ٹی آئی نے آئینی بحران کے حوالے سے خبردار کردیا,وزیردفاع خواجہ آصف کہتے ہیں جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی آئینی میلٹ ڈاؤن ہونے والا ہے‘مارشل لاء کی بات نہیں کررہا مگر آئینی بریک ڈاؤن نظر آرہا ہے.آئینی اور عدلیہ کے فیصلوں کے بجائے سیاسی فیصلے شروع ہوجائیں تو کہاں تک یہ سلسلہ چلے گا۔ جیونیوزکے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں خواجہ آصف نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کی امریکا کے خلاف باتیں فکسڈ میچ تھا‘ ان کے اس وقت بھی رابطے تھے‘پی ٹی آئی نے امریکا کے خلاف اتنی زیادہ ہائپ پیدا کی پھر بھی پورا امریکی نظام ان کے حق میں بول رہا ہے‘ موجودہ صورتحال پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ گمبھیر ہے، اٹھارہ مہینے بڑی مدت ہوتی ہے بہت کچھ ہوسکتا ہے، ہماری سیاست میں بھی بارہویں کھلاڑی بہت ہیں . خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا‘اس معاملہ پر اتحادیوں کی مشاورت ضروری ہے، اتفاق رائے پیدا کر کے ایکشن لیا جائے گا، اقتدار چھن جانے کے بعد سے پی ٹی آئی پاکستان کے لئے خطرہ بن گئی ہے‘یہ نہ دہشتگردوں کی مذمت کرتے ہیں نہ شہداء کے وارثوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو امریکا سے امداد مل رہی ہے‘انہوں نے اپنی حمایت کے لیے امریکا میں لابسٹ ہائر کیے ہوئے ہیں‘ پاکستان کووینٹی لیٹر یا لائف سپورٹ سسٹم پر رکھنے کا سلسلہ چل رہا ہے‘ امریکا کو اپ سیٹ کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔دہشتگردی کے خلاف اتفاق رائے کی ہماری پیشکش آج بھی موجود ہے‘ دہشتگردی کیخلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ توہین عدالت کا مذاق اب بند ہوجاناچاہئے، آرٹیکل 209کو آئین سے نکل جانا چاہئے، ہماری عدلیہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے دائیں جانب کھڑی رہی ہے، تمام اداروں میں سیاست سرائیت کرگئی ہے جس میں عدلیہ سرفہرست ہے۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف بالکل بھی غیرمتحرک نہیں ہیں، میڈیا کے سامنے نواز شریف کی سرگرمیاں نہیں آرہیں، موجودہ صورتحال پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ گمبھیر ہے، اٹھارہ مہینے بڑی مدت ہوتی ہے بہت کچھ ہوسکتا ہے، ہماری سیاست میں بھی بارہویں کھلاڑی بہت ہیں، فچ کی رپورٹ دیکھ کر انہیں اپنا مستقبل تابناک نظر آرہا ہوگا، ہماری حکومت خطرے میں نہیں ہے، پی ٹی آئی پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ بن گئی ہے۔ دوسری جانب پروگرام میں شریک تحریک انصاف کے رہنماحامد خان نے کہاہے کہ حکومت کی حرکتوں کی وجہ سے ملک آئینی بریک ڈاؤن کی طرف جاسکتا ہے، حکومت ہر غیرآئینی حرکت کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کررہی، حکومت خود ملک کو آئینی بریک ڈاؤن کی طرف لے کر جارہی ہے‘یہ قوم کو مزید آئینی الجھاؤ میں ڈال رہے ہیں جس سے آئینی بریک ڈاؤن کا پورا پورا خطرہ ہے‘سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں آئینی نظام گرجائے گا۔ حامد خان نے کہا کہ ایڈہاک ججوں کی تعیناتی بالکل غلط فیصلہ ہے‘پاکستان بار کونسل میں مخصوص لوگ ہر قسم کی اسٹیبلشمنٹ کی لائن لے کر چل رہے ہیں، ایسے لوگ وکیلوں کی نمائندگی نہیں کررہے ‘ لاہور ہائیکورٹ بار نے پریس کانفرنس میں ایڈہاک تقرریوں کی سخت مخالفت کی ہے‘جب سپریم کورٹ میں تمام ججز موجود ہیں تو ایڈہاک جج کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایڈہاک ججوں کی تعیناتی غلط اور بدنیتی پر مبنی اقدام ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئینی معاملات کیلئے الگ عدالت بنانے کی ضرورت نہیں‘ تاریخ میں ایڈہاک ججوں کو استعمال کر کے غلط فیصلے کرائے گئے‘ سپریم کورٹ مکمل نہ ہو تو ایک دوکیسوں میں ایڈہاک جج ہوسکتے ہیں۔
تمام تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ، عالمی، علاقائی صورتحال پاکستان کیلئے سازگار نہیں اسکی وجہ تحریک انصاف کی مقبولیت، مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد حکومت کا اعلان، کانگریس میں تحریک انصاف کے حق میں قرارداد اور برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں متوقع قرارداد ہیں جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت جن گراؤنڈز پر تحریک انصاف پر پابندی لگوانا چاہتی ہے وہ انتہائی کمزور ہیں ۔ تجزیہ کار یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ حکومت کو تحریک انصاف پر پابندی کا خیال اچانک کیوں آیا اور وہ بھی اس وقت جب مخصوص نشستوں کا فیصلہ انکے خلاف آیا۔تجزیہ کاروں نے اسے حکومت کی فرسٹریشن، بوکھلاہٹ سے تعبیر کیا۔ امریکہ میں مقیم صحافی عطیم احمد میاں کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان سے اورسیز پاکستانیوں , انسانی حقوق کے لئے سرگرم حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، پی ٹی آئی پر پابندی کے اثرات عالمی ، علاقائی اور داخلی سیکورٹی کی سطح پر پاکستان کیلئے منفی اثرات کے حامل ہوں گے ۔ جنوبی ایشیامیں پاکستان کی علاقائی صورتحال فی الوقت پاکستان کے حق میں نہیں ایک طرف پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت پاک بھارت تنازعات کی الجھنوں اور پیچیدگیوں کے حصار سے نکل کر اب عالمی سطح پر اپنا اثر ورسوخ پھیلانے میں مصروف ہے اور پاکستان کی مخالفت کا کوئی موقع نظر انداز نہیں کرتا۔ عالمی سطح پر پہلے ہی امریکی ایوان نمائندگان کے 368 اراکین نے قرارد اد منظور کرکے پہلے ہی پاکستان کیلئے عالمی سطح پر غیر دوستانہ ماحول پیدا کررکھا ہے اورغیرممالک میں پی ٹی آئی کے حامی بھی شہباز حکومت کو مزید ’’سرپرائز‘‘ دینے کی کوشش کررہےہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بیان کی سمت بھی پاک ۔ امریکہ تعلّقات کیلئے مفید نظر نہیں آتی۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں بھی 8 فروری الیکشن کی دھاندلی اور عمران خان کے خلاف سیاسی انتقام پر قرارداد لانے کی تیاری ہورہی ہے۔ پاکستان میں بھی تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت شدت سے کی جارہی ہے نہ صرف عمران خان کے حامی بلکہ مخالفین بھی کھل کر پابندی کی مخالفت کررہے ہیں اور حکومت پر شدید تنقید کے نشتر برسارہے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں بھی تحریک انصاف پر پابندی کے حق میں نہیں ۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں حکومت مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد بوکھلاہٹ اورفرسٹریشن کا شکار ہے اور ایسا کرنے سے یہ تاثر زور پکڑے گا کہ ن لیگ تحریک انصاف کا سیاسی طور پر مقابلہ نہیں کرسکتی اسلئے پابندی لگوانا چاہتی ہے محمد مالک کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں کیوں حکومت غیر مقبولیت کی انتہا پر ہوتے ہوۓ حکومت اپنا کیپیٹل داؤ پر لگارہی ہے۔ اس طرح کے فیصلے حکومت کی کمزوری اور فرسٹریشن شو کر رہے ہیں، ریزرو سیٹس والے عدالتی فیصلے کے بعد لوگ کہہ رہے ہیں کہ انکے ہاتھ سے سیٹیں نکل گئی ہیں،اسلئے ایسا کررہے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے اسے سیاسی خودکشی سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس سے قیدی نمبر 804 کی ہمدردیاں بڑھیں گی جبکہ مجیب الرحمان شامی، ارشاد بھٹی، منصور علی خان، مطیع اللہ جان اور دیگر بھی کھل کر مخالفت کررہے ہیں حبیب اکرم کے خیال میں ن لیگ کے ترکش میں آخری تیر تھا جس کا رخ انہوں نے اپنی گردن کی طرف موڑ دیا ہے، جب حکومت اس لیول پر چلی جاتی ہے تواسکا مطلب ہے کہ اسکے آخری دن شروع ہوگئے ہیں۔
حکومت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی تیاریوں میں ہے,جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“میں میزبان علینہ فاروق کے سوال پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق حکومت کے متضاد بیانات کی وجہ کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ پی ٹی آئی پابندی سے مضبوط ہوگی جبکہ حکومت کو نقصان ہوگا انکا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف پر پابندی کیلئے حکومت کا کیس بہت کمزور ہے، کوئی بھی اپنے منہ پر اس کالک کو ملنا نہیں چاہتا ہے،اس وقت لڑائی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر آن بورڈ نہیں ہوں، سہیل وڑائچ نے کہا پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ بہت مشکل ہے، جمہوری ذہنوں کیلئے یہ فیصلہ قبول کرنا بہت مشکل ہوگا، ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کا کوئی اثر نہیں ہوا، پی ٹی آئی پابندی سے مضبوط ہوگی جبکہ حکومت کو نقصان ہوگا، یہ پابندی بھاری نوالہ ہوگا جسے نگلنا ن لیگ اور اتحادیوں کیلئے مشکل ہوگا، سپریم کورٹ کے نو ججوں نے تحریک انصاف کو پارٹی تسلیم کیا جس پر حکومت پابندی لگارہی ہے۔ ارشاد بھٹی بولے تحریک انصاف پر پابندی کیلئے حکومت کا کیس بہت کمزور ہے، کوئی بھی اپنے منہ پر اس کالک کو ملنا نہیں چاہتا ہے، اگلے الیکشن میں کوئی بھی اس بدنامی اور رسوائی کا بوجھ اکیلا نہیں اٹھانا چاہتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چار پانچ ججز ایڈہاک لے آتے ہیں اس کے باوجود گنتی پوری نہیں ہوپارہی، سب کو ڈر ہے اگر پابندی کا فیصلہ عدالت گیا تو عدالت اسے اڑا نہ دے۔ فخر درانی نے کہا اس وقت لڑائی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر آن بورڈ نہیں ہوں، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے مگر ان کی سنوائی نہیں ہورہی، پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان بھی مایوسی کے عالم میں کیا گیا ہے۔ سلیم صافی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان کا مقصد اسے دباؤ میں لانا ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، حکمران اپنی کارکردگی اور سیاست کے ذریعہ ہی عمران خان کو کارنر کرسکتے ہیں، نواز شریف بہتر سیاست اور شہباز شریف، مریم نواز بہتر حکمرانی کریں، عمران خان کو مظلوم بنانے سے زیادہ بڑا احسان ان پر کوئی اور نہیں ہوگا,پاکستانی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ایک ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حسن رؤف پارٹی رہنماؤں و کارکنان پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حسن رؤف نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کی، دوران گفتگو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت، پارٹی رہنماؤں اور کارکنان پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا اور ان مظالم کا ذکرکرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ حسن رؤف نے کہا کہ 17 سا ل کے بچے کو اغوا کرکے اس کے والد کو حلف نامہ جمع نا کروانے کیلئے دباؤ میں لیا گیا، یہ پی ٹی آئی کی ہی کہانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے مینڈیٹ واپسی کا مطالبہ کرتے تھے تاہم اب ہم نے پالیسی تبدیل کرلی ہے اور اب ہم کہتے ہیں یا مینڈیٹ واپس دیا جائے یا پھر الیکشن کروائے جائیں، اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی پالیسی پارٹی کی ہے، عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تاحال کوئی موومنٹ نظر نہیں آئی۔ رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم ن لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، بس ہم مینڈیٹ چوروں سے رابطہ نہیں کرسکتے۔
اڈیالہ جیل میں گزشتہ روز دلچسپ صورتحال نیب ٹیم کی دوڑیں لگ گئیں،صحافی زبیرعلی خان کاانکشاف نجی چینل کے صحافی زبیر علی خان نے کہا کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد خیال آیا کہ اہم ترین گواہی تو کمزوری بن سکتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق بدھ کو اڈیالہ جیل میں پرویز خٹک کی گواہی مکمل ہونے کے بعد سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کردی گئی تو تو کمرہ عدالت میں عمران خان اور ان کی لیگل ٹیم مشاورت کررہی تھی،۔ زبیر علی خان نے انکشاف کیا کہ نیب کی ٹیم کیس کی اگلی تاریخ لے کر عدالت سے روانہ ہوگئی تھی لیکن اچانک ہی نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر پریشانی کے عالم میں آئے اور ہانپتے کانپتے جج صاحب کو کہا کہ پرویز خٹک کو ہوسٹائیل وٹنس (منحرف گواہ) قرار دیدیں۔ انکا کہنا تھا کہ جج صاحب نے بوجہ ان کی استدعا منظور نہیں کی تو اتنی دیر میں نیب کی لیگل ٹیم کے ایک اور رکن بھاگتے ہوئے عدالت پہنچے اور انہوں نے بھی عدالت سے پرویز خٹک کو منحرف گواہ قرار دینے کی درخواست کی۔ زبیر علی خان نے کہا کہ پرویز خٹک کا بیان نیب کو دیے گئے بیان سے مختلف ہے اور نیب کی ٹیم کو یہ خیال سماعت ختم ہونے کے بعد جب پوری ٹیم عدالت چھوڑ گئی اور پھر اچانک خیال آیا کہ یہ تو گیم ہوگئی ہے زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ مختصر یہ ہے کہ نیب پرویز خٹک سے مطلوبہ گواہی حاصل کرنے میں ناکام رہا زبیر علی خان نے ایک ڈاکومنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پرویز خٹک کی عمران خان کے خلاف گواہی کا وہ حصہ جو عمران خان کے خلاف جانا تھا وہ تفتیشی افسر سے منسوب کردیا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ نیب پرویز خٹک کو منحرف گواہ قرار دینے کی استدعا کرتا رہا یادرہے کہ گزشتہ روز پرویز خٹک نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا کہ نیب نے مئی 2023ء میں مجھ سے 190 ملین پاؤنڈ کے حوالے سے بیان لیا تھا۔ بیان میں پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر نے کابینہ کو بتایا تھا کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر باہر بھجوائی گئی بڑی رقم برطانیہ میں پکڑی گئی، شہزاد اکبر نے بتایا کہ پکڑی گئی رقم پاکستان کو واپس کی جائے گی۔یہ معاملہ کابینہ کے ایجنڈے پر نہیں تھا، میٹنگ میں اضافی ایجنڈے کے طور پر سامنے لایا گیا۔ پرویز خٹک نے بیان میں کہا ہے کہ اضافی ایجنڈے پر مجھ سمیت دیگر کابینہ اراکین نے اعتراض کیا تھا، کابینہ میں رقم کے حوالے سے کاغذات بند لفافے میں پیش کیے گئے۔اضافی ایجنڈے کی منظوری کابینہ سے لی گئی، ریفرنس کے تفتیشی افسرنے بتایا کہ ایجنڈے کے ساتھ ایک تحریر بھی تھی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میں خود میدان میں آگیا ہوں، ن لیگ کی حکومت گرا کر اپنی حکومت بنانا جانتے ہیں۔ تفصٰلات کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس لاہور میں پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے ملاقات کی، اس موقع پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہوسکتی، میں خود میدان میں آگیا ہوں عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ سے حکومت نہیں چل رہے، پنجاب کی قیادت ایک دوسرے کو نکالنے میں لگی ہوئی ہے، پنجاب کی قیادت نوجوانوں کو موقع کیوں نہیں دے رہی، آئی ایم سے قرضے لے کر عوام سے امتحان لیا جارہاہے، انہیں آئی ایم ایف سے بات اور ٹیبل ٹاک کرنی چاہیے۔ صدر مملکت نے کہا کہ میں اپنی جماعت پر تنقید کو ثواب سمجھتا ہوں، سب تیار ہوجائیں کیونکہ ہم نے بہت کام کرنا ہے، ملک مشکل میں ہے اور ہم سب نے اس کو مل کر بچانا ہے،ہمیں ڈرائنگ روم کی سیاست کےبجائے باہر نکلنا ہے، میں نے پاکستان کی خاطر کھپے کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہی وہ جماعت ہےجو غریب عوام کو روزگار دیتی ہے، اور ہمیشہ پیپلزپارٹی نے ہی بہترین سیاسی جماعتوں کو جنم دیا ہے، پنجاب میں تنظیم سازی کی رپورٹ مکمل کرکے دی جائے۔

Back
Top