سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ جنرل فیض پر سیاسی و صحافتی شخصیات کو قتل کروانےکی کوشش کرنے اور 9 مئی واقعات کی پلاننگ میں کردار ادا کرنے جیسے الزامات ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو حراست میں لیےجانے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کیےجانے کے بیان کے سامنے آنے کے بعد صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس حوالے سے اپنی آراء اور تجزیے پیش کیے ہیں۔
اسی دوران نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران اپنا تجزیہ میں ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ جنرل فیض حمید کو بظاہر سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ٹاپ سٹی کیس میں حراست میں لیا گیا ہو، مگر آئی ایس پی آر نے اشارہ دیا ہے کہ ان کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے شواہد ملے ہیں۔
حامد میر نے مزید کہا کہ فیض حمید کے خلاف تین چار دیگر کیسز بھی موجود ہیں جبکہ اس کے علاوہ کچھ دیگر معاملات میں بھی ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے، فیض حمید اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کرکے تحقیقات سے بچنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں،، انہوں نے اس دوران وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی بھی کی کوشش کی ، کچھ وفاقی وزراء نے بھی ان کی سفارش کی مگر شہباز شریف نے ان سے ملاقات سے انکار کردیا۔
سینئر صحافی نے انکشاف کیا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کافی عرصے سے تحقیقات جاری تھیں،اور ان کو مانیٹر کیا جارہا تھا ، تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ وہ 9 مئی کو ہونے والی بغاوت کی پلاننگ کا حصہ تھے، بغاوت کی کوشش میں بھی ان کے مشورے شامل تھے۔
حامد میر نے کہا کہ یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ جب جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے کچھ سیاستدانوں اور کچھ صحافیوں کو قتل کروانے کی کوشش کی اور اس حوالے سے باقاعدہ ثبوت بھی سامنے آگئے ہیں، وہ عمران خان کے ساتھ بھی ڈبل گیم کررہے تھے، انہوں نے آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر خود کو اس عہدے کیلئے پیش کیا اور وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو قائل کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔