سیاسی

سینئر رہنما پاکستان مسلم لیگ ن عابد شیر علی نے نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام ندیم ملک لائیو میں پی ٹی آئی رہنما سینیٹر ولید اقبال کو مخاتب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ جنرل پاشا کو جانتے ہیں یا نہیں؟ یا مجھے یاد دلانا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کیسے بنائی گئی؟ پھر جنرل ظہیر الاسلام نے مسلم لیگ ن کے خلاف جو دھرنے کروائے یہ اس سازش کا بھی حصہ تھے؟ یا میں بتائوں کے لندن میں طاہر القادری اور ق لیگ کو کس نے اکٹھا کیا؟ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف رکنے کا نام ہی نہیں لیتی، جنرل پاشا کی گود سے نکل کر جنرل ظہیر اسلام کی گود میں آگئے پھر فیض حمید کے پاس چلے گئے! آپ تو چاہتے تو کہ وہ آرمی چیف بن جائیں اور ہماری ایس کی تیسی پھیر دیں اور ہمیں پھانسیاں لگا دیں ، کیا آپ نے اپنے لیڈر کے بیانات نہیں سنے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پر ایک بھی کیس مسلم لیگ ن کی حکومت نے نہیں بنایا، 9 مئی کا جرم کر کے یہ خود ہی بھگت رہے ہیں۔ ہمیں یہ بتائیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ یہ تو ہمارے ساتھ ذاتی دشمنی پر اترے ہوئے تھے، میں نے اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا نہیں دے سکا جس کا مجھے ساری زندگی دکھ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان لوگوں کے عزائم تھے جو ہم نے بھگتے لیکن ہم گلہ کرتے ہیں نہ شکوہ لیکن یہ جو مخصوص سیٹس کی بات ہو رہی ہے اس معاملے پر تحریک انصاف پہلے وحدت المسلمین کے ساتھ الائنس کی کوشش کی۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے مخصوص سیٹوں کے حوالے سے بیانات سامنے آ چکے ہیں، قانون جو کہتا ہے وہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے اپنے نامینیشن فارم اور ہر چیز جمع کروائی ہو اس کے مطابق اسے شیئر دیا جائے، سپریم کورٹ کے 13 ججز بیٹھیں اور اس کا فیصلہ کر دیں تو یہ و آئندہ کیلئے بھی مثال بن جائیگا۔ ہمیں مخصوص سیٹیں کیوں دی گئیں اس کا الیکشن کمیشن سے پوچھنا چاہیےکہ یہ کیسے ہوا؟پی ٹی آئی نے کو سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے کا میں نے تو نہیں کہا تھا، سب کچھ قانون وآئین کے مطابق ہونا چاہیے۔
عمران خان کیلئے ابھی راستے میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں، محمد مالک سینئر صحافی و تجزیہ کار محمد مالک نے کہا ہے سائفر کیس میں عمران خان کی بریت کے فیصلے کے بعد القادر یونیورسٹی کیس میں اہم پیش رفت ہونے والی ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی خبررساں ادارے پر اپنے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد مالک کا کہنا تھا کہ خبریں ہیں کہ عمران خان کے خلاف ایک اور اہم کیس القادر یونیورسٹی کا بھی ہے جس میں ان کی اہلیہ بھی ساتھ ہی نامزد ہیں،اس میں حکومت کو ایک بڑا بریک تھرو ملا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں آنے والے دنوں میں ایک اہم شخصیت بیان دیں گی اور یہ بیان عمران خان کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، میری اطلاعات کے مطابق یہ چیزیں آنے والے چند ماہ بعد سامنے آنے تھیں مگر آج سائفر کیس میں بریت کے فیصلے کے بعداب یہ بھی جلد ہی سامنے لائی جائیں گی۔ محمد مالک نے مزید کہا کہ آج پی ٹی آئی کیلئے بہت اچھاد ن ہے، ان کو ایک بڑی کامیابی ملی ہےآج، تاہم اگر میری خبر سہی ثابت ہوئی تو شائد شاہ محمود قریشی کی مشکلات تو کم ہوجائیں مگر عمران خان کے راستے کی رکاوٹیں شائد کم نہیں ہوں گی۔
عمران خان کے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ سے متعلق ٹویٹ پر بیرسٹر گوہرعلی خان، رؤف حسن اور علی محمد خان عمران خان کے ٹویٹ سے مختلف ٹاک شوز میں لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین کافی برہم نظر آئے اور کہا کہ یہ کیسے رہنما ہیں جو عمران خان کے ایک ٹویٹ پر ساتھ کھڑے نہ ہوپائے سوشل میڈیا صارفین نے ان رہنماؤں کو ڈرپوک اور کمپرومائزڈ قرار دیا لیکن دوسری طرف متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں نے عمران خان کے ٹویٹ کی حمایت کردی اور کہا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ پڑھنے کا کہنے میں کیا برائی ہے؟ یہ رپورٹ پبلک ہونی چاہئے سابق صدر عارف علوی نے عمران خان کے ٹوئٹ کے حمایت کردی اور کہا کہ حمودالرحمان کمیشن پڑھنے کا کہنے میں کیا غداری ہے؟ عمر ایوب خان نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کمیشن کی بات کرتے ہیں تو پھر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بھی پبلک کریں، آپ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ بھی پبلک کریں اور آپ اے پی ایس اور دیگر کمیشنز کی رپورٹس بھی پبلک کریں سینیٹر حامد خان کا عمران خان کے اکاؤنٹ سے 1971 سے متعلق کی گئی ٹویٹ کا مکمل دفاع،اکسانے اور ملک کو نقصان پہنچانے کےالزامات کو مسترد کردیا حامد خان نے کہا کہ وہ جو قوتیں عمران خان کو نشانہ بنانا چاہتی ہیں وہ عمران خان کے ہر لفظ اور ٹویٹ کو توڑ موڑ کر پیش کرتی ہیں ہم عمران خان کے اکاونٹ سے ہونے والی ٹویٹ کے ساتھ کھڑے ہیں بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہ عمران خان کا خیال ہے اگر ہمیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے تو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور 1971 میں جو کچھ ہوا وہ ہماری غلطیاں ہی تھیں، کچھ بدنیتی بھی تھی اور اس قسم کی غلطیاں ہمیں دہرانی نہیں چاہیے، جو قوم غلطیوں سے سیکھتی نہیں وہ پھر غلطیاں دہراتی ہے بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے پی ٹی آئی کو زندہ رکھا ان کی میں جتنی بھی تعریف کروں وہ کم ہے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں الیکشن میں ہم سے سمبل چھین لیا گیا تھا اس کے باوجود سوشل میڈیا ٹیم نے کامیاب الیکشن کیمپین چلائی
عمران خان پارٹی کی مرکزی قیادت سے ناخوش،،پی ٹی آئی کے معاملات خیبرپختونخوا قیادت کو دینے پر غور بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کے معاملات خیبرپختونخوا قیادت کو دینے پر غور شروع کردیا,بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں میں رہنماؤں سے مشاورت کی گئی, جس کے بعد وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کو مرکز میں بھی اہم کردار ملنے کا امکان ہے,بانی پی ٹی آئی کو مشورہ دیا گیا کہ عہدے دیے بغیر پارٹی معاملات وزیر اعلیٰ کے پی کو دیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے کے پی میڈیا ٹیم کی کارکردگی پر مطمئن جبکہ پارٹی کی مرکزی قیادت بیرسٹر گوہر ودیگر سے ناخوش ہیں, بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر گوہر سے اظہار برہمی کی خبریں زیرگردش ہیں. اس سے قبل بانی پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ سے شیخ مجیب کی پروپیگنڈا ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر ایف آئی اے سائبر ونگ نے انکوائری کا فیصلہ کیا,ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ 26 مئی کو بانی پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ سے شیخ مجیب الرحمان پر ویڈیو ٹوئٹ کی گئی، وہ جیل میں قید ہیں جبکہ اکاؤنٹ پروپیگنڈا ویڈیو کے لیے استعمال ہوا۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق سائبر ونگ پی ٹی آئی کے چار لوگوں سے معاملے پر بات چیت کرے گا۔ ایف آئی اے ٹیم بانی پی ٹی آئی، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، رؤف حسن سے بات چیت کرے گی، ٹیم تعین کرے گی ویڈیو ٹوئٹ بانی پی ٹی آئی نے خود کی یا ان کی اجازت سے یہ کیا گیا,انکوائری میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پاکستان مخالف پروپیگنڈا کس نے بنایا اور کس نے چلایا۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار سلیم صافی نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے 26 ویں یوم تکبیر کے حوالے سے تقریب میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی تقریر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مستقبل کا پروگرام دینا چاہیے تھا۔ نوازشریف آج بھی ماضی کے قصے سناتے رہے، انہیں اگر عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو ماضی سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور مریم نوازشریف عوامی انداز کے بجائے بیوروکریٹک انداز میں سیاست کرتے ہیں، وہ عوام کی پہنچ سے دور رہتے ہیں انہیں اپنا یہ انداز چھوڑنا ہو گا۔ شہباز شریف عوامی شخصیت نہیں ہیں لیکن اپنے پارٹی ورکرز کی پہنچ میں ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ سالوں سالوں غائب رہتے ہیں، انہیں یہ بیوروکریٹک سٹائل چھوڑنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کی سوچ سندھ تک ہے مسلم لیگ ن کو ویسے ہی صرف پنجاب تک محدود نہیں ہونا چاہے، ن لیگ کو پنجاب سے باہر نکل کر باقی صوبوں پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ مسلم لیگ ن قومی جماعت ہے اسے نئی زندگی دینے کے لیے سنٹرل پنجاب سے باہر نکل کر بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا پر توجہ دے کر لیڈرشپ فراہم کرنی ہو گی۔ فخر درانی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو آج بطور پارٹی صدر مستقبل کا لائحہ عمل دینا چاہیے تھا لیکن وہ آج بھی ماضی میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ان کا ٹارگٹ عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کر کے نیا بیانیہ لانا ہے، عمران خان کا بیانیہ جو معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اس کے مقابل نیا بیانیہ لانا بڑا چیلنج ہے جس کیلئے ماضی کے بجائے یوتھ کو انگیج کر کے مستقبل کیلئے پلان کرنا ہو گا۔ سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا نوازشریف کی آج کی تقریر مایوس کن تھی، سٹیٹس مین شپ اپنی زات کے گرد چیزیں گھمانے کے بجائے آگے کی بات کرتے ہیں۔ نوازشریف کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی بات کرنی چاہیے تھی، وہ 90's کی مثال دیتے ہیں لیکن یہ بھی بتائیں کہ 1990 میں وہ اقتدار میں کیسے آئے، وہ الیکشن سپریم کورٹ نے دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔ نوازشریف جب کسی دوسرے پر الزام لگائیں گے تو پھر یہ بھی بتانا پڑے گا کہ آپ خود اقتدار میں کیسے آئے، ان کی تقریر میں صرف ایک اچھی بات تھی کہ انہوں نے شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور ان لوگوں کا ذکر کیا جو ن لیگ چھوڑ گئے لیکن مشکل وقت میں ساتھ رہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ ان رہنماؤں کو پارٹی میں واپس لانے کی بات کرتے، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کو منانے کی بات کرتے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے اپنی ذات کے علاوہ کوئی گفتگو نہیں کی، وہ شہبازشریف کے 16 مہینوں کو ڈیفنڈ نہیں کر سکے، 2017ء کے بعد کا ذکر نہیں کیا۔ 1999ء اور 2013ء میں اپنی حکومت کا ذکر کرتے رہے حالانکہ آج بھی ن لیگ کی حکومت ہی، 2 سال پہلے بھی ان کی حکومت تھی، جس سیاسی حریف کا وہ سامنا کر رہے ہیں اس سے وہ بہت پیچھے نظر آئے۔
طاہر القادری کا نواز شریف کے بیان پر ردعمل آگیا, تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کا کہنا ہے کہ میری ظہیر الاسلام سمیت کسی بھی جنرل سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی, اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’خبر‘ میں طاہر القادری نے سابق وزیر اعظم کے حالیہ بیان پر واضح کیا نواز شریف نے چند دن پہلے الزام لگایا تھا جس کو واضح انداز میں مسترد کیا اور انہوں نے آج وہی بات دہرائی ہے۔ طاہر القادری نے کہا لگتا ہے نواز شریف کو وہم کا مرض ہوگیا ہے، ان کو کوئی غلط معلومات فراہم کر رہا ہے، نواز شریف کے الزامات کو دوبارہ مسترد کرتا ہوں، ظہیر الاسلام سمیت کسی بھی جنرل سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی,لندن پلان کیا ہے اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، کسی بھی جنرل سے کسی بھی ملک میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی، کوئی شخص نواز شریف کو جھوٹ بولتا ہے یا کوئی جھوٹ بلواتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے دوران سابق آرمی چیف راحیل شریف سے بانی پی ٹی آئی کے ہمراہ سب کے سامنے ملاقات ہوئی تھی، راحیل شریف کے ساتھ ملاقات کے وقت ظہیر الاسلام بھی موجود تھے۔ طاہر القادری نے کہا کہ راحیل شریف سے ملاقات ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرانے کیلیے دھرنے کے دوران ہوئی، سیاسی لیڈران ملاقات کرتے رہتے ہیں پہلے بھی ملاقات ہوئی اب بھی ہوتی ہے، چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی، بانی پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین سمیت کئی لیڈران سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کسی افسر کی کبھی مجھ سے ملاقات نہیں ہوئی، سیاسی لیڈران نے ملاقاتوں میں مجھے کوئی یقین دہانی کرائی نہ کوئی پیغام پہنچایا، سیاسی معاملات پر سیاسی لیڈران سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔
(انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی زیر قیادت جماعت پی ٹی آئی کے درمیان رابطہ کاری کا اہم ذریعہ بن سکتے ہیں,عوامی سطح پر شعلہ بیاں رہنما کے طور پر مشہور علی امین وفاقی حکومت کے ساتھ اپنی بات چیت اور ایس آئی ایف سی کے اجلاس کے دوران اچھے رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایس آئی ایف سی کے اجلاس کے دوران اور وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ اپنی باضابطہ بات چیت میں علی امین اپنے جارحانہ انداز کے بالکل برعکس رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں,پیر کے روز، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر بجلی اویس لغاری کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ان کی سیاست اور ان کی انتظامی ذمہ داری علیحدہ رہنا چاہئے اور انہیں آپس میں ملانا نہیں چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے صوبے کے مسائل کے حل کیلئے تمام ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی نے کہا ہے کہ ہمارا اداروں کے ساتھ کوئی ٹکرائو نہیں، گورنر کی پالیسی سے بھی کوئی اختلاف نہیں، صوبے کے مسائل اور حقوق پر بات چیت کرنا ہوگی۔ بند کمرے میں ہونے والی ملاقاتوں میں علی امین گنڈا پور نے وفاقی حکام کو بھی یہی بات بتائی ہے۔ چند وفاقی اجلاسوں میں شرکت کرنے والے ایک ذریعے نے وزیراعلیٰ کے پی کے طرز عمل کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’’وہ تعاون کر رہے ہیں,ان کا کہنا تھا کہ قومی مفاد کے معاملات پر بات چیت میں مثبت انداز سے حصہ لے رہے ہیں اور کسی طرح کے تنازعے کی بات کرتے ہیں اور نہ بد زبانی کر رہے ہیں۔ گنڈا پور کی آرمی چیف سے اب تک کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی لیکن وزیراعلیٰ کے پی نے حال ہی میں اپنی کابینہ کے ارکان کے ہمراہ پشاور کے کور کمانڈر سے ملاقات کی تھی۔ ان کی وزیر داخلہ اور وزیر بجلی کے ساتھ صوبے میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بحالی کے مسئلے پر بات چیت اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے اظہار کو ایک خوشگوار پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ممکن ہے یہ صورتحال پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کیلئے پریشان کن ہو اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پی کو ٹرولنگ کا نشانہ بنایا جائے لیکن پیر کے روز ہونے والی پیش رفت نے علی امین گنڈا پور کے بارے میں اچھا تاثر قائم کیا,وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اور ایس آئی ایف سی سمیت وفاقی سطح کے اجلاسوں میں شرکت کی وجہ سے علی امین گنڈا پور کو آرمی چیف کے ساتھ علیک سلیک کے علاوہ بھی بات چیت کا موقع مل سکتا ہے,صوبے کے وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے علی امین کو عمران خان نے منتخب کیا تھا لیکن پارٹی میں شامل کچھ لوگ ان پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ 8؍ فروری کے الیکشن کے وقت عمران خان نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کیلئے کھڑے ہونے والے پارٹی کے ممکنہ امیدواروں کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ د یا جائے تاکہ علی امین گنڈا پور آسانی سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بن سکیں۔ اُس موقع پر پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے اس نمائندے کو بتایا تھا کہ جو لوگ علی امین گنڈا پور کو قریب سے جانتے ہیں انہیں یقین ہے کہ سیاسی لحاظ سے وہ بہت ذہین ہیں اور جانتے ہیں کہ اپنی پارٹی کی سیاست اور اہم لوگوں کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھنا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان تحریک انصاف پر طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا ہے کہ جب یہ اقتدار میں تھے تب آرمی چیف باپ اور ڈی جی آئی ایس آئی چاچا تھا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ محمد آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیسز میں گرفتار افراد کے حوالے سے ایک ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جب چاہو سیاسی اختلافات کو وطن دشمنی میں تبدیل کرو اور وطن کی اسا س پر حملہ آور ہو جاؤ اور پھر معافی مانگ کر معصوم بن جاؤ یا پارٹی چھوڑدو۔ رہنما ن لیگ نے مزید لکھا کہ ان میں سے کوئی روپوش ہوگیا تو کوئی مفرور ہوگیا، وہ لوگ کہاں گئے جو اسمبلی میں اگلی قطاروں میں بیٹھتے تھے اور ان کے وزیر اور مشیر تھے، کہاں گئے وہ لوگ جن کی تکبر اور رعونت سے بھری تقاریر اسمبلی کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ یاد کریں یہ لوگ کہ جب یہ اقتدار میں تھے تو آرمی چیف ان کا باپ اور ڈی آئی ایس آئی چاچا تھا، پوری مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کو جیل بھیج دیا تھا یا جلاوطن کردیا تھا مگر اللہ نے ہمیں ہمت دی اور ہماری عزت رکھی اور دوبارہ اقتدار عطاء کیا۔ اپنے ایک اور ٹوئٹر پیغام میں خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل باجوہ کی اتنی تعریف شاید میراثی بھی نہ کر سکیں۔ آج بھی اس پہ دست شفقت رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ تعریفیں کرے گا۔ ایسے ڈائیلاگ بولے گا کہ میراثی اسکی دستار بندی کریں گے۔ اسکا کوئ نظریہ یا اصول نہیں۔ اقتدار صرف اقتدار کی ھوس ھے۔ ایجنڈا پاکستان نہیں اپنی ذات ھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے اقتدار کے بغیر اسکے ذہن میں پاکستان کا تصور بھی نہیں۔اپنے ان فرمودات کے مطابق آج عمران خان خود غدار ھے
سینئر صحافی وتجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ شیخ مجیب کو عمران خان یا نواز شریف واپس نہیں لائے بلکہ انہیں 18ویں ترمیم کو شیخ مجیب کے 6 نکات سے زیادہ خطرناک قرار دینے والے واپس لائے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹالک میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان اور سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ شیخ مجیب کو نواز شریف یا عمران خان واپس لائے ہیں، شیخ مجیب کو وہ لوگ واپس لائے ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ 18ویں ترمیم شیخ مجیب سے 6 نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ شیخ مجیب کو پاکستانی سیاست میں واپس لانے سے متعلق نو از شریف اور عمران خان کے بیانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ن لیگی رہنما اور وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ یہ علامتی گفتگو ہے، جب ملک اتنے مسائل میں گھرا ہوا ہو تو ناامیدی نہیں پھیلائی جانی چاہیے۔ حامد میر نے کہا کہ شائد عمران خان اور نواز شریف نے اس حوالے سے جو بیانات دیئے وہ نوجوان نسل کو تاریخی پس منظر سے آشنا کروانے کیلئے دیئے کہ جب کسی مقبول لیڈر کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیےجاتے ہیں یا اسےجیلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مکتی بانی قائم ہوتی ہے جسے انڈیا نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ اس حوالے سے پروگرام میں شریک پی ٹی آئی رہنما شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ عمران خان کا شیخ مجیب سے موازنے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں جیسے بیان کی تشریح مجھ جیسا انسان ایسے کرتا ہے کہ پاکستان کی بقا اس وقت خطرے میں ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان وہ واحد شخصیت ہیں جو ملک کو بچاسکتے ہیں، ملکی بقاء کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں علامتی گفتگو ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان ہوگا تو پاکستان کو بچانا آسان ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری فردوس شمیم نقوی نے علی زیدی کے حوالے سے اہم تبصرہ کردیا فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں اگر علی زیدی یہ ثابت کردیں کہ مشکل وقت میں انہوں نے عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور عمران خان ان کی بات مان لیں تو پھر عمران خان کو کارکنوں کو مطمئن کرنا ہے کہ ایسے لوگ جو پارٹی کے مشکل وقت میں کھڑے رہے اور جو مشکل وقت میں چھوڑ کر چلے گئے ان میں فرق کیا ہے؟ آن لائن جریدے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں فردوس شمیم نے مزید کہا ہر معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، جو ماضی میں کمیشن بنے تھے ان کی رپورٹس بھی سامنے لائی جائیں، چھپاتے کیوں ہیں، جن سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ معافی مانگیں، ہم سے غلطی ہوتی تو ہم معافی مانگتے، ہم تو مان ہی نہیں رہے کہ 9 مئی ہوا ہے۔ انہوں نے کہا لوگوں کو اتنا دبایا جارہا ہے کہ وہ بغاوت پر اتر آئے ہیں، کیا اس قوت کو احساس ہے کہ ملک کو ایک بار پھر 1971 والے خطرے میں ڈال دیا ہے،جن سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ معافی مانگیں، ہم سے غلطی ہوتی تو ہم معافی مانگ لیتے، جدید ٹیکنالوجی کے باوجود یہ ثابت نہیں کرسکے کہ یاسمین راشد نے توڑ پھوڑ کی پھر بھی وہ جیل میں ہیں، فردوس شمیم نقوی نے کہاکہ نادرا میں بھی جنرل کو اوپر بٹھا دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو کیوں نہیں ڈھونڈ پائے جو 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے۔ اگر اشتعال دیں گے تو لوگ مجبور ہوں گے، ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے کبھی ایک پتا تک نہیں توڑا جبکہ جلسے ہزاروں کیے ہیں,عمران خان کا حوصلہ آسمان کو چھو رہا ہے، ان سے ملاقات کے بعد میرے جیسا شخص بھی جوان ہوگیا ہے،
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے وزارت داخلہ کا قلمدان چھوڑنے سے متعلق ایک سینئر صحافی کی جانب سے بڑا دعویٰ سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار آصف بشیر چوہدری نے ایک یوٹیوب پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بہت جلد یہ قلمدان چھوڑ رہے ہیں، میں یہ دعویٰ اپنے ذرائع سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر کررہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے دیگر ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے اور ان کی جگہ وزارت داخلہ کا قلمدان ایک بار پھر ن لیگ کےسینئر رہنما رانا ثناء اللہ کے پاس جانے کا امکان ہے، ن لیگ کی جانب سے وزیر داخلہ کیلئے رانا ثناء اللہ کے نام پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ آصف بشیر چوہدری نے محسن نقوی کی تبدیلی کے پیچھے کے عوامل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کو اعتراض ہے کہ محسن نقوی وفاقی کابینہ کے رکن ہونے کے باوجود حکومتی پالیسیوں کا دفاع نہیں کرتے، وزیر داخلہ کا کام حکومتی پالیسیوں کا دفاع، ان پر بحث کرنا اور وضاحت دینا ہے جو محسن نقوی نہیں کررہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ محسن نقوی کے برتاؤ کے حوالے سے کچھ دوست ممالک نے بھی اعتراض اٹھایا ہے۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے نجی ٹی کو انٹرویو میں بڑا انکشاف کردیا, انہوں نے کہا گلگت بلتستان کا ایک چیف جسٹس مجھے فون اور میسج کرکے کہتا تھا کہ مجھے تین برس کی ایکسٹینشن دی جائے۔ میں نے اور فواد حسن فواد نے مل کر فیصلہ کیا کہ اسکو ایکسٹینشن نہیں دی جائیگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس جج نے میرے خلاف وارنٹ جاری کیے چودہ مرتبہ میرے گھر پولیس بھیجی لیکن فواد حسن فواد کو ہتھکڑی لگوا دی گئی، مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر بیرسٹر ظفر اللہ خان کے مطابق سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے سفارشی سابق آئی جی و سینیٹر رانا مقبول تھے۔ انہوں نے نواز شریف کو سفارش کی اور رانا شمیم وہاں چیف جج لگے۔ بعد ازاں اسی رانا شمیم نے ایکسٹینشن مانگی، نہ ملنے پر بیرسٹر ظفر کے گھر 14 مرتبہ پولیس بھجوائی اور فواد حسن فواد کو ہتھکڑی بھی لگوائی۔ انکے مطابق اس سے پہلے نواز شریف نے آصف سعید کھوسہ کو بھی مجید نظامی کی سفارش پر جج لگایا اور پھر آصف سعید کھوسہ نے پانامہ کیس میں جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یادرہے کہ نیب نے فواد حسن فواد کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کیا تھا جس میں نیب ان کے خلاف کرپشن ثابت کرنے پر بری طرح ناکام ہوا تھا اور عدالت نے انہیں نیب ریفرنسن میں بری کیا تھا۔
لیگی رہنما شیخ روحیل نے ایاز صادق کو کبھی معاف نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا,وی نیوز کو انٹرویو میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے شیخ روحیل اصغر نے کہا انہوں نے اپنے حلقے کا ٹکٹ ضد کی بنیاد پر لیا تھا لیکن ایاز صادق نے ان کے ساتھ منافقت کرتے ہوئے ان کا حلقہ چیف الیکشن کمشنر سے مل کر تڑوایا جس پر وہ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اسپیکر ایاز صادق محسن کش انسان ہیں، ان کو اس عہدے تک لانے کے لیے میں نے ان کی مدد کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سنہ 2018 کے الیکشن میں وہ خود تو ہار گئے تھے لیکن اس کے ساتھ والے حلقے سے ایاز صادق جیت گئے تھے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ فی الوقت میرا پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں,ان کا اوڑھنا بچھوڑنا سیاست نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ لوگ ان کے ملازم اور غلام ہیں اور ان کے ایک اشارے کے منتظر ہیں سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ وہ جس کو چاہیں بنا دیں جس کو چاہیں بگاڑ دیں۔ انہوں ںے کہاسیاست میں دشمنی اور نفرت نہیں ہونی چاہیے بلکہ تحمل، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، میرے حلقے سے اب وسیم قادر مسلم لیگ ن کے نمائندے ہیں، ہارے ہوئے لوگوں کو جماعتیں نہیں پوچھتیں‘۔ شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی امیر آدمی ہیں وہ ایک نئی جماعت بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر شاہد خاقان عباسی نے کھانے پر بلایا تو ضرور جاؤں گا میرا شاہد خاقان عباسی کے ساتھ نیاز مندی والا رشتہ ہے، میں نے ان کو مسلم لیگ ن چھوڑنے پر روکا تھا اور کہا تھا کہ اگر آپ کا نواز شریف کے ساتھ کوئی اختلاف ہے تو جائیں ان سے بات کریں,شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف نے وزیراعظم بنوایا تھا انہیں پارٹی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔
توہین عدالت ازخود کیس میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو سپریم کورٹ نے شوکاز نوٹس جاری کئے جس پر دونوں سیاسی رہنماؤں نے اپنی اپنی وضاحتیں جاری کردی ہیں,گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے توہین عدالت ازخود کیس میں ریمارکس دئیے تھے کہ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی۔ ایسا لگتا ہے پریس کانفرنسز کسی خاص مقصد کے تحت کی گئیں۔ چیف جسٹس کا اشارہ مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کی جسٹس بابر ستار کی دوہری شہریت کے حوالے سے کی گئی میڈیا گفتگو کی طرف تھا۔چیف جسٹس نے کہا تنقید کرنا ہے تو منہ پر آکر کریں، میں نے برا کیا ہے تو نام لے کر کہیں، چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سپریم کورٹ سے بلاوا آنے کے بعد سینیٹر فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ جسٹس بابرستار کی اہلیت پر کبھی سوال نہیں اٹھایا، دہری شہریت پر دہرا معیار نہیں ہونا چاہئے، اس پرقانون سازی ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کیوں بلایا گیا باقیوں نے بھی پریس کانفرنس کی تھی۔ توہین عدالت کا نوٹس ملنے کے بعد بھی فیصل واوڈا ٹاک شوز میں مسلسل نظرآرہے ہیں اور وضاحتیں دے رہے ہیں جبکہ پیمرا اس پر خاموش تماشائی ہے جس پر صحافی سوال کررہے ہیں کہ جن سوالوں کا جواب انہیں عدالت میں دینا چاہئے تھا وہ میڈیا پر کیوں آکر دے رہے ہیں او رپیمرا اس پر نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟ ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال نے کہا کہ انہوں نے کوئی ایسی غلط بات نہیں کی جس پر نوٹس ملنا چاہئے، کسی جج پر کوئی تنقید نہیں کی، سوشل میڈیا پر چلنے والی چیزوں پر سوال کیا تھا۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ میں نے کہا تھا جب دہری شہریت پر ایک وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں تو کیا دہری شہریت عدلیہ کیلئے درست بات ہے۔کسی کے کہنے پر بات نہیں کی، ہر کہی بات کو قبول کرتا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سےکمزور ہوتا ہےکیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں، فیصل واوڈا کے بعد مصطفیٰ کمال بھی سامنے آگئے، دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں، ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔عدالت نے کہا کہ 2 ہفتے میں وضاحت دیں کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارورائی کی جائے جب کہ عدالت نے مزید سماعت 5 جون تک ملتوی کردی۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار وسعت اللہ خان نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ساہیوال کول پاور پلانٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پلانٹ ماہانہ بنیادوں پر1320 میگاواٹ بجلی بنانے کے لیے 2 سے 3 لاکھ ٹن کوئلہ استعمال کرتا ہے ۔ نگران حکومت کے وزیر توانائی محمد علی نے اپنی سبکدوشی سے کچھ عرصہ قبل ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لیے کوئلے کی خریداری میں گھپلوں کی تحقیقات کے لیے ایک خط لکھا تھا جس کے مطابق 2 مخصوص کوئلہ سپلائرز سے دگنی قیمت پر کوئلہ خریدا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ: ان کوئلہ سپلائرز سے سال بھر کے لیے کنٹریکٹ کیا گیا جس میں کوئلہ کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے 50 فیصد زیادہ رکھی گئی تھی، دیگر سپلائرز نے شور مچایا کہ ہم اس سے سستا کوئلہ فراہم کر سکتے ہیں۔ ریگولیٹر نے دبائو بڑھنے کے بعد سپاٹ بڈنگ کی بھی اجازت دے دی جس کا مطلب ہے کہ موقع پر جو بھی سپلائر کم ریٹ دے گا اس سے کوئلہ خرید لیا جائے گا۔ سپاٹ بڈنگ کے بعد کوئلہ کی قیمت میں کمی ہو گئی جس کا فائدہ صارف کو پہنچنے لگا، یہ کوئلہ گزشتہ برس جولائی سے دسمبر تک 40 فیصد کم قیمت پر ملا جس کی وجہ سے ساہیوال کول پاور پلانٹ سے بننے والی بجلی کی قیمت 28 روپے 50 پیسے سے کم ہو کر 18 روپے 30 پیسے کی ہو گئی۔ بجلی صارفین کو اس سے 35 فیصد کے قریب ریلیف ملا جس کے بعد سپاٹ بڈنگ والے سپلائرز کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جانے لگا۔ سپلائرز کو کہا گیا کہ ابھی ضرورت نہیں ہے، آپ کی شپمنٹ لیٹ ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ بہانے کر کے ایسا ماحول بنایا گیا کہ یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں جس کے بعد پھر سے انہی فیورٹ کمپنیوں کو پھر سے سالانہ کنٹریکٹ دے دیا گیا۔ سپلائرز نے پاور پلانٹ کی چینی انتظامیہ کو شکایت کی جس نے کہا کہ پاور ڈویژن کے سیکرٹری ہمیں بتاتے ہیں کہ فلاں سے اس ریٹ پر خرید لو ہم وہاں سے خرید لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ساہیوال کول پاور پلانٹ 2 ٹن ماہانہ بھی استعمال کرتے تو جس قیمت پر فیورٹ سپلائر سے کوئلہ خریدا گیا اس سے قومی خزانے کو 4 ارب روپے ماہانہ کا ٹیکہ لگا جو سال میں 48 ارب روپے بنتے ہیں جو زائد ادا کیے گئے۔ وزیرتوانائی نے اس گھپلے کی تحقیقات کا جاتے جاتے حکم دیا تھا، 14 دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا جس کے بعد وہ نکل گئے، وزیر گیا، بات گئی!
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے دائر اپیل پر سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس پر مسکرا دیے۔ دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں 2022 کی ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان بولے یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے زیرلب مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سے جواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کرلیں۔ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس کو زیرلب مسکراتے دیکھا تو وہ بھی نہ رہ سکے اور منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے۔ دوران سماعت بانی تحریک انصاف عمران خان نے ورزش کے انداز میں سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر سٹریچنگ کی،بازوؤں کو ورزش کے انداز میں ہلایا اور گردن کو دائیں بائیں حرکت دیتے رہے ایک موقع پر عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلایا اور اپنے چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے عدالتی کارروائی لائیو نہ ہونے کا نکتہ اٹھا یااور کہا کہ عدالتی کاروائی براہ راست نشر نہیں ہو رہی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایڈوکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پر بیٹھنے کی ہدایت کی عمران خان کی تصویر لیک ہونے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سپریم کورٹ اہلکاروں کی دوڑیں لگ گئیں، کمرہ عدالت میں پہلے عمران خان کی تصویر کو چھوٹا کیا گیا،اسکے بعد منیمائز کردیا گیا
سینئر صحافی وتجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا ہے کہ 9 مئی پر میاں نواز شریف کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار و صحافی شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ اس وقت ریاست کی سوچ یہ ہے کہ عمران خان جیل میں ہوں، پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہو تو ملک کو استحکام کی طرف لے جایا جاسکتا ہے ، جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی تب تک کوئی ڈائیلاگ یا بات چیت نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں تو آج تک اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا ہوں کہ 9 مئی کے حوالے سے ملک کے ہر حکومتی شخصیت نے بیان دیا بلکہ بڑھ چڑھ کر بیا ن دی مگر میاں صاحب اس معاملے پر خاموش رہے، یہ حیرانگی کی بات ہے، جنہوں نے بیانات دیئے ان کے سیاسی یا ذاتی مقاصد ہوں گے مگر میاں صاحب خاموش رہے۔ اس بات پر پروگرام کے میزبان کاشف عباسی نے سوال کیا کہ کیا میاں صاحب بولیں گے؟ پروگرام میں شریک تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ میاں صاحب سوچ رہے ہیں کہ یہ کس طریقے سے بیانیہ اپنے ہاتھ میں لیا جائے،تاہم اس سارے معاملے میں جس کو کاؤنٹ نہیں کیا جارہا وہ پاکستان کے عوام ہیں،کیونکہ اب لاؤڈ اسپیکر یا پلیٹ فارم میٹر نہیں کرتا بلکہ یہ میٹر کرتا ہے کہ کہا کیا جارہا ہے۔
سینئر تجزیہ کار فہد حسین نے کہا ہے کہ کل ججز کا ایک ٹیسٹ ہوگا کہ وہ اس عمران خان کو کیسے ہینڈل کریں گے جس کو کوئی ٹی وی اینکر کبھی ہینڈل نہیں کرپایا۔ تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں عمران خان کی عدالت پیشی کے حوالے سے گفتگوہوئی، اس موقع پر سینئر تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ کل ججز کا ایک ٹیسٹ ہوگا کہ وہ عمران خان کو ہینڈل کرسکتے ہیں جنہیں کبھی کوئی ٹی وی اینکر ہینڈل نہیں کرپایا، کیونکہ عمران خان کسی بھی اینکر کو اپنی گفتگو کے دوران مداخلت کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب دیکھا ہوگا کہ سماعت کے دوران کیا ججز عمران خان کی گفتگو کے دوران انہیں انٹرپٹ کرسکیں گے ،اب ہم دیکھیں گے کہ کوئی بہتر اینکر ہے، ججز یا صحافی۔ اس موقع پر پروگرام کے میزبان کاشف عباسی نے کہا کہ میں اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرسکتا ہوں کہ میں نے عمران خان کے انٹرویو کیے ہیں، میں نے عمران خان کو جب بھی انٹرویو کیا تو مجھے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ عمران خان نے مجھ پر کسی بات کو بلڈوز کرنے کی کوشش کی، عمران خان وہ شخصیت ہیں جن کے انٹرویوز کے دوران یہ ہدایات نہیں ہوتیں کہ آپ نے یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا۔ اس موقع پر پینل میں شامل تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم جتنے انٹرویوز دیئے ہیں اتنے کسی سابقہ حکمران نے نہیں دیئے ہوں گے، میاں صاحب چار سال لندن بیٹھےرہے، بی بی سی سے لے کر تقریبا ہر ادارے نے انہیں انٹرویو کیلئے اپروچ کیا مگر انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ "انٹرویو نہیں دوں گا، نہیں دوں گا، عمران خان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں نے اس کو انٹرویو نہیں دینا یا اس کو دینا ہے۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے حملوں سے متعلق نگراں حکومت کی رپورٹ میں عمران خان اور دیگر کیخلاف عائد کردہ اپنے الزامات کے حوالے سے شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ رپورٹ میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے کئی دیگر رہنماؤں پر 9مئی کے حملوں کی بھرپور پلاننگ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں نہ تفصیلات بتائی گئی ہیں کہ عمران خان اور دیگر نے 9 مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی کیسے، کب اور کہاں کی۔ 9 مئی کی رپورٹ تیار کرنے والی کابینہ کمیٹی میں شامل ایک ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ تمام مطلوبہ شواہد متعلقہ حکام بشمول وزارت داخلہ، دفاع اور قانون کے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چاہے تو شواہد منظر عام پر لا سکتی ہے۔ رپورٹ کے نتائج اور اس کا نتیجہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کی جانب سے کمیٹی کو دکھائے گئے شواہد کی بنیاد پر اخذ کیا گیا۔ کابینہ کمیٹی نے 9 مئی کے تشدد میں مبینہ کردار کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنماؤں یا رپورٹ میں آنے والے افراد کا انٹرویو نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق کابینہ ڈویژن کے مشورے پر کابینہ یا اس کی کمیٹیوں کے پاس رولز آف بزنس 1973ء کے تحت انکوائری یا تحقیقات کے کوئی باضابطہ اختیارات نہیں۔ کابینہ اور اس کی کمیٹیوں کے غور و خوض کا انحصار مکمل طور پر متعلقہ ڈویژنوں اور محکموں کی جانب سے انہیں فراہم کردہ معلومات پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کمیٹی نے متعلقہ ڈویژنوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر غور کیا۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ اور دفاع سے تفصیلی بریفنگ اور رائے بھی طلب کی۔ وزارت داخلہ نے صوبائی پولیس محکموں اور انٹیلی جنس بیورو سے بھی معلومات حاصل کیں، جمع کیں اور پیش کیں۔ اسی طرح، وزارت دفاع نے اپنے دائرہ کار میں ایجنسیوں کے ذریعے اسے دستیاب معلومات فراہم کیں۔ کمیٹی کو فراہم کردہ ڈیٹا کا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ متعلقہ ڈویژنوں کے نمائندوں سے سوالات کیے گئے تاکہ کمیٹی کو حقائق اور حالات کا بہتر اندازہ ہو سکے۔ یہ رپورٹ داخلہ اور دفاع کی وزارتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات، دستاویزات اور مواد پر مبنی ہے۔ اگرچہ کمیٹی نے 9؍ مئی سے حکام جو الزامات عمران خان اور دیگر کیخلاف عائد کر رہے ہیں؛ کمیٹی نے ان تمام الزامات کو باضابطہ طور پر اپنی رپورٹ میں شامل کیا ہے۔ لیکن اس کی رپورٹ نے ملزمان کیخلاف شواہد کی نوعیت کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’کمیٹی کو دکھائے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی کے کئی رہنما اس منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ اس سے مزید پتہ چلتا ہے کہ عمران خان نے منصوبہ بندی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‘‘ رپورٹ میں ان الزامات کی تصدیق کیلئے کوئی تفصیلات موجود نہیں۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد سے، سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور عمران خان کے فوجی تنصیبات پر حملوں کے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ اور ’’منصوبہ ساز‘‘ ہونے کے ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ تاہم ایسا کوئی ثبوت تاحال میڈیا کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے نہ اسے عام کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں حکام کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’’34؍ افراد ایسے تھے جنہوں نے پرتشدد اسٹریٹ پاور کی حکمت عملی مرتب کی، تشدد اور تباہی کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔ 52 افراد نے مفصل منصوبہ بندی کی 185 افراد نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔‘‘ رپورٹ میں ان افراد کے نام اور تفصیلات بتائی گئی ہیں کہ انہوں نے 9؍ مئی کی منصوبہ بندی کیسے اور کہاں کی تھی اور نہ ان کیخلاف شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ان افراد کیخلاف متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور ان کیخلاف الزامات کے مجاز دائرہ اختیار کی مختلف عدالتوں میں کارروائی کی جا رہی ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار نصرت جاوید نے نجی ٹی وی چینل پبلک ٹی وی کے پروگرام خبر نشر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس والے دن ہمیں بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن لگ رہا تھا کہ ایسا کچھ ہے جس نے ایک دم سے اشتعال دلایا ہے۔ نصرت جاوید نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میں ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے شبہ ہے 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے جڑے ہوئے کچھ تازہ شواہد سامنے آئے ہیں۔ نصرت جاوید نے کہا کہ جو لوگ تاریخ کے طالب علم ہیں میں انہیں کہوں گا کہ شاید کوئی پنڈی کانسپیریسی کیس جس میں فیض احمد فیض بھی گرفتار ہوئے تھے شاید اس طرح کا کیس بھی بن سکتا ہے اور میں اپنی بات یہیں ختم کروں گا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ قومی اسمبلی کا ماحول بھی دیکھا اور وہاں سے کسی سے ملاقات میں ایسی خبریں ملی ہیں جس سے مجھے خدشہ ہے کہ ایسا کوئی کیس ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے حکمرانوں سے ایک شکوہ کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لیے ہم جیسے لوگوں کو جو ریگولر میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں انہیں جب واقعات ہو رہے ہوں تو ان کے بارے میں ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا حق عطا فرمایا جائے۔ ہمارے دلوں میں اگر یہ خوف ڈال دیا جائے کہ کہیں ہنگامے ہو رہے ہیں اور ہم تجزیہ کاری کر رہے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ہم آپ کو بھڑکا رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آزادکشمیر کی صورتحال بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوریج کی اجازت ہونی چاہیے، یقین مانیں ہم واقعات کو پیشہ ورانہ انداز میں رپورٹ کریں گے اور ہم آپ کو نہیں بھڑکائیں گے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میرے جیسے لوگ جنہوں نے اس کام میں اپنے بال سفید کر لیے انہیں عام آدمی کہتا ہے کہ یہ بکائو مال ہے، آزاد کشمیر وچ اے کج ہو ریا اے تے ایک لفظ تک نہیں بولیا، میں اینہوں کیوں سناں! نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ ایسے میں عام آدمی موبائل فون اٹھاتا ہے اور سوشل میڈیا پر ڈھونڈتا ہے ، آپ نے صرف ٹوئٹر بند کر رکھا ہے لیکن فیس بک، انسٹاگرام ودیگر پلیٹ فارمز کھلے ہیں! اب کچھ چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے 8 مہینے سے یہ معاملہ چل رہا ہے، پھر ایک دم سے لاوا پھٹ گیا ، مین سٹریم میڈیا میں کتنی دفعہ اس پر بات ہوئی؟ اس عرصے میں جو کچھ میڈیا پر چلتا رہا وہ دیکھ لیں!

Back
Top