
سینئر صحافی وتجزیہ کار سلیم صافی نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے 26 ویں یوم تکبیر کے حوالے سے تقریب میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی تقریر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مستقبل کا پروگرام دینا چاہیے تھا۔ نوازشریف آج بھی ماضی کے قصے سناتے رہے، انہیں اگر عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو ماضی سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور مریم نوازشریف عوامی انداز کے بجائے بیوروکریٹک انداز میں سیاست کرتے ہیں، وہ عوام کی پہنچ سے دور رہتے ہیں انہیں اپنا یہ انداز چھوڑنا ہو گا۔ شہباز شریف عوامی شخصیت نہیں ہیں لیکن اپنے پارٹی ورکرز کی پہنچ میں ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ سالوں سالوں غائب رہتے ہیں، انہیں یہ بیوروکریٹک سٹائل چھوڑنا ہو گا۔
https://twitter.com/x/status/1795481033862688771
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کی سوچ سندھ تک ہے مسلم لیگ ن کو ویسے ہی صرف پنجاب تک محدود نہیں ہونا چاہے، ن لیگ کو پنجاب سے باہر نکل کر باقی صوبوں پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ مسلم لیگ ن قومی جماعت ہے اسے نئی زندگی دینے کے لیے سنٹرل پنجاب سے باہر نکل کر بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا پر توجہ دے کر لیڈرشپ فراہم کرنی ہو گی۔
فخر درانی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو آج بطور پارٹی صدر مستقبل کا لائحہ عمل دینا چاہیے تھا لیکن وہ آج بھی ماضی میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ان کا ٹارگٹ عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کر کے نیا بیانیہ لانا ہے، عمران خان کا بیانیہ جو معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اس کے مقابل نیا بیانیہ لانا بڑا چیلنج ہے جس کیلئے ماضی کے بجائے یوتھ کو انگیج کر کے مستقبل کیلئے پلان کرنا ہو گا۔
https://twitter.com/x/status/1795480979470979198
سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا نوازشریف کی آج کی تقریر مایوس کن تھی، سٹیٹس مین شپ اپنی زات کے گرد چیزیں گھمانے کے بجائے آگے کی بات کرتے ہیں۔ نوازشریف کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی بات کرنی چاہیے تھی، وہ 90's کی مثال دیتے ہیں لیکن یہ بھی بتائیں کہ 1990 میں وہ اقتدار میں کیسے آئے، وہ الیکشن سپریم کورٹ نے دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔
نوازشریف جب کسی دوسرے پر الزام لگائیں گے تو پھر یہ بھی بتانا پڑے گا کہ آپ خود اقتدار میں کیسے آئے، ان کی تقریر میں صرف ایک اچھی بات تھی کہ انہوں نے شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور ان لوگوں کا ذکر کیا جو ن لیگ چھوڑ گئے لیکن مشکل وقت میں ساتھ رہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ ان رہنماؤں کو پارٹی میں واپس لانے کی بات کرتے، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کو منانے کی بات کرتے۔
https://twitter.com/x/status/1795480881768861712
انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے اپنی ذات کے علاوہ کوئی گفتگو نہیں کی، وہ شہبازشریف کے 16 مہینوں کو ڈیفنڈ نہیں کر سکے، 2017ء کے بعد کا ذکر نہیں کیا۔ 1999ء اور 2013ء میں اپنی حکومت کا ذکر کرتے رہے حالانکہ آج بھی ن لیگ کی حکومت ہی، 2 سال پہلے بھی ان کی حکومت تھی، جس سیاسی حریف کا وہ سامنا کر رہے ہیں اس سے وہ بہت پیچھے نظر آئے۔
https://twitter.com/x/status/1795787977311830230 https://twitter.com/x/status/1795499958285550034
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/ik-nsah1i12.jpg
Last edited by a moderator: